• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

يا محمداه ! پکارنا ، ابن کثیر کی روایت کی تحقیق

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
صحابہ کرام کا بیان ہے، کہ آپ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم نعرہ لگائیں ۔الله مولانا ولا مولى لكم»"
غزوہ احد میں توحید کا عملی اظہار
لما كان يوم أحدٍ أشرف أبو سفيان على المسلمين فقال: "أفي القوم محمدٌ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تجيبوه» ثم قال: أفي القوم ابن أبي قحافة ـثلاثًاـ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تجيبوه» ثم قال: أفي القوم عمر بن الخطاب[ ] ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تجيبوه » فالتفت إلى أصحابه فقال: أما هؤلاء فقد قتلوا، لو كانوا أحياءً لأجابوا، فلم يملك عمر نفسه أن قال: كذبت يا عدو الله، قد أبقى الله لك ما يخزيك، فقال: اعل هبلٌ! اعل هبلٌ! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أجيبوه» فقالوا: ما نقول؟ قال: «قولوا: الله أعلى وأجل» فقال أبو سفيان: ألا لنا العزى ولا عزى لكم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أجيبوه» قالوا: ما نقول؟ قال: «قولوا: الله مولانا ولا مولى لكم»" (رواه ابن حبان وصححه الألباني[ ] ). وفي روايةٍ لابن إسحاق وصححها الألباني أن عمر رضي الله عنه قال لأبي سفيان: "لا سواءٌ، قتلانا في الجنة[ ] وقتلاكم في النار[ ] "
ترجمہ :
’’ غزوہ احد کےدن (لڑائی کے دوران جب ایک مرحلہ پر اہل ایمان کچھ مشکلات میں گھر گئے تو ) ابو سفیان (جو اس وقت تک مسلمان نہیں تھے ) ایک اونچے مقام پر چڑھے پکار کر کہنے لگے کیا مسلمانوں میں محمدﷺ زندہ ہیں آپؐ نے فرمایا خاموش رہو کچھ جواب نہ دو پھر کہنے لگا اچھا ابو قحافہ کے بیٹے(ابوبکرؓ)زندہ ہیں ،یہ سوال اس نے تین مرتبہ پوچھا ، آپ ﷺ نے فرمایا چپ رہو کچھ جواب نہ دو پھر کہنے لگا اچھا خطاب کے بیٹے(عمرؓ) زندہ ہیں ،
تب ابوسفیان کہنے لگے :(اس خاموشی سے ہمیں ) معلوم ہوگیا یہ سب مارے گئے اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے یہ سن کر حضرت عمرؓ سے رہا نہیں گیا بے اختیار کہہ اٹھے ارے خدا کے دشمن تو جھوٹا ہے۔ اس کے جواب میں ابو سفیان نےکہا ، ہبل (ایک بت) بلند رہے۔حضور ﷺ نےفرمایا کہ اس کاجواب دو۔صحابہ نے عرض کیا کہ ہم کیا جواب دیں؟ آپ نے فرمایا کہ کہو، اللہ سب سےبلند اوربزرگ وبرتر ہے۔
ابوسفیان نےکہا ، ہمارے پاس عزی(بت) ہےاورتمہارے پاس عزیٰ نہیں ۔ آپ نےفرمایا، اس کا جواب دو۔ صحابہ نےعرض کیا، کیا جواب دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہو ، اللہ ہمارا حامی اورمدگار ہےاورتمہارا کوئی حامی نہیں ۔‘‘
یہ الفاظ صحیح ابن حبان کے ہیں ،اس روایت کو علامہ البانیؒ نے صحیح کہا ہے ،
اور مشہور سیرت نگار ابن اسحاقؒ کی روایت میں ہے کہ سیدنا عمر فاروق ؓ نے ابوسفیان کے جواب میں یہ بھی کہا تھا کہ :
ہمارے شہداتو جنت میں ہیں ،اور تمہارے مقتول جہنم رسید ہوئے ‘‘
-------------------------------
ٍصحیح بخاری (کتاب المغازی ،باب غزوہ احد ) میں غزوہ احد کا یہ واقعہ حسب ذیل تفصیل سے مروی ہے :


عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ لَقِينَا الْمُشْرِكِينَ يَوْمَئِذٍ وَأَجْلَسَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَيْشًا مِنْ الرُّمَاةِ وَأَمَّرَ عَلَيْهِمْ عَبْدَ اللَّهِ وَقَالَ لَا تَبْرَحُوا إِنْ رَأَيْتُمُونَا ظَهَرْنَا عَلَيْهِمْ فَلَا تَبْرَحُوا وَإِنْ رَأَيْتُمُوهُمْ ظَهَرُوا عَلَيْنَا فَلَا تُعِينُونَا فَلَمَّا لَقِينَا هَرَبُوا حَتَّى رَأَيْتُ النِّسَاءَ يَشْتَدِدْنَ فِي الْجَبَلِ رَفَعْنَ عَنْ سُوقِهِنَّ قَدْ بَدَتْ خَلَاخِلُهُنَّ فَأَخَذُوا يَقُولُونَ الْغَنِيمَةَ الْغَنِيمَةَ فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ عَهِدَ إِلَيَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا تَبْرَحُوا فَأَبَوْا فَلَمَّا أَبَوْا صُرِفَ وُجُوهُهُمْ فَأُصِيبَ سَبْعُونَ قَتِيلًا وَأَشْرَفَ أَبُو سُفْيَانَ فَقَالَ أَفِي الْقَوْمِ مُحَمَّدٌ فَقَالَ لَا تُجِيبُوهُ فَقَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ أَبِي قُحَافَةَ قَالَ لَا تُجِيبُوهُ فَقَالَ أَفِي الْقَوْمِ ابْنُ الْخَطَّابِ فَقَالَ إِنَّ هَؤُلَاءِ قُتِلُوا فَلَوْ كَانُوا أَحْيَاءً لَأَجَابُوا فَلَمْ يَمْلِكْ عُمَرُ نَفْسَهُ فَقَالَ كَذَبْتَ يَا عَدُوَّ اللَّهِ أَبْقَى اللَّهُ عَلَيْكَ مَا يُخْزِيكَ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ اعْلُ هُبَلُ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجِيبُوهُ قَالُوا مَا نَقُولُ قَالَ قُولُوا اللَّهُ أَعْلَى وَأَجَلُّ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ لَنَا الْعُزَّى وَلَا عُزَّى لَكُمْ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجِيبُوهُ قَالُوا مَا نَقُولُ قَالَ قُولُوا اللَّهُ مَوْلَانَا وَلَا مَوْلَى لَكُمْ قَالَ أَبُو سُفْيَانَ يَوْمٌ بِيَوْمِ بَدْرٍ وَالْحَرْبُ سِجَالٌ وَتَجِدُونَ مُثْلَةً لَمْ آمُرْ بِهَا وَلَمْ تَسُؤْنِي
سیدنا براء بن عازبؓ فرماتے ہیں کہ :احد کےدن مشرکوں سے ہمارا مقابلہ ہوا نبی مکرم ﷺ نے تیر اندازوں کی ایک ٹکڑی بٹھا دی ان کاافسر عبداللہ بن جبیر کو کیا ان سے فرمایا تم اس جگہ سے نہ سرکنا خواہ تم دیکھو ہم ان کافروں پر غالب ہوئے جب بھی نہ سرکنا خواہ تم دیکھو ہم مغلوب ہوئے(تب بھی تم اپنی پوزیشن سے نہ ہٹنا) ہماری مدد بھی نہ کرنا خیر جب ہماری اور کافروں کی مڈبھیڑ ہوئی تو وہ بھاگ نکلے میں نے انکی عورتوں کو دیکھا پنڈلیوں پر سے کپڑا اٹھائے پہاڑ پربھاگی جارہی تھیں ان کی پازیبیں دکھلائی دے رہی تھیں مسلمانوں نے یہ کہنا شروع کیا ارے لوٹ کا مال لو لوٹ کا مال لو عبداللہ بن جبیر نے ان کو سمجھایا دیکھو نبیﷺ تاکید کر گئے ہیں کہ اس جگہ سے نہ سرکنا اس جگہ سے مت ہلو انہوں نے نہ مانا اب مسلمانوں کے منہ پھرگئے(بھاگ نکلے)اور ستر مسلمان شہید ہوئے ،
اور ابو سفیان (جو اس وقت تک مسلمان نہیں تھے ) ایک اونچے مقام پر چڑھے پکار کر کہنے لگے کیا مسلمانوں میں محمدﷺ زندہ ہیں آپؐ نے فرمایا خاموش رہو کچھ جواب نہ دو پھر کہنے لگا اچھا ابو قحافہ کے بیٹے(ابوبکرؓ)زندہ ہیں آپ ﷺ نے فرمایا چپ رہو کچھ جواب نہ دو پھر کہنے لگا اچھا خطاب کے بیٹے(عمرؓ) زندہ ہیں ،
تب ابوسفیان کہنے لگے :(اس خاموشی سے ہمیں ) معلوم ہوگیا یہ سب مارے گئے اگر زندہ ہوتے تو جواب دیتے یہ سن کر حضرت عمرؓ سے رہا نہیں گیا بے اختیار کہہ اٹھے ارے خدا کے دشمن تو جھوٹا ہے۔ اس کے جواب میں ابو سفیاننےکہا ، ہبل (ایک بت) بلند رہے۔حضور ﷺ نےفرمایا کہ اس کاجواب دو۔صحابہ نے عرض کیا کہ ہم کیا جواب دیں؟ آپ نے فرمایا کہ کہو، اللہ سب سےبلند او ربزرگ وبرتر ہے۔ابوسفیان نےکہا ، ہمارے پاس عزی(بت) ہےاورتمہارے پاس عزیٰ نہیں ۔ آپ نےفرمایا، اس کا جواب دو۔ صحابہ نےعرض کیا، کیا جواب دیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہو ، اللہ ہمارا حامی اورمدگار ہےاورتمہارا کوئی حامی نہیں ۔ابوسفیان نےکہا ، آج کادن بدر کےدن کا بدلہ ہےاور لڑائی تو کنویں سے پانی نکالنے والے ڈول کے مانندہوتی ہے۔ (کبھی ہمارے ہاتھ میں اور کبھی تمہارے ہاتھ میں) تم اپنے مقتولین میں کچھ لاشوں کامثلہ کیاہوا پاؤگے،میں نے اس کا حکم نہیں دیا تھا لیکن مجھے برانہیں معلوم ہوا۔
ـــــــــــــــــــــــ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
سیدناعیسیٰ علیہ السلام ہمارے نبی علیہ السلام کی قبر پر آکر یا محمد کہیں گے تو انہیں جواب دیا جائے گا۔۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
سیدنا عیسی علیہ السلام کا دوبارہ دنیا میں واپس آنا صحیح احادیث سے ثابت ہے ؛

صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث :
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن عطاء بن ميناء، عن أبي هريرة، أنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «والله، لينزلن ابن مريم حكما عادلا، فليكسرن الصليب، وليقتلن الخنزير، وليضعن الجزية، ولتتركن القلاص فلا يسعى عليها، ولتذهبن الشحناء والتباغض والتحاسد، وليدعون إلى المال فلا يقبله أحد»
(صحیح مسلم ،کتاب الایمان )
سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ کی قسم ! یقیناً عیسیٰ بن مریم علیہ الصلاۃ والسلام عادل حاکم (فیصلہ کرنےوالے) بن کر اتریں گے ، ہر صورت میں صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے اورجزیہ موقوف کر دیں گے ، جو ان اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان سے محنت و مشقت نہیں لی جائے گی ( دوسرے وسائل میسر آنے کی وجہ سے ان کی محنت کی ضرورت نہ ہو گی) لوگوں کے دلوں سے عداوت ، باہمی بغض و حسد ختم ہو جائے گا، لوگ مال ( لے جانے) کے لیے بلائے جائیں گے لیکن کوئی اسے قبول نہ کرے گا ۔‘‘
اور دوسری روایت اس طرح ہے :
عن أبي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قال : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : ( وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَيُوشِكَنَّ أَنْ يَنْزِلَ فِيكُمْ ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا مُقْسِطًا ، فَيَكْسِرَ الصَّلِيبَ ، وَيَقْتُلَ الْخِنْزِيرَ ، وَيَضَعَ الْجِزْيَةَ ، وَيَفِيضَ الْمَالُ حَتَّى لَا يَقْبَلَهُ أَحَدٌ ) .
رواہ البخاري (2222) (صحیح مسلم ،کتاب الایمان ) (155)
سیدناابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، عنقریب تم میں ابن مریم عدل و انصاف کرنے والے حاکم بن کر نازل ہونگے، وہ صلیب توڑ دینگے، خنزیر قتل کردینگے، اور جزیے کا خاتمہ کر دینگے، اور مالی فراوانی اتنی ہوگی کہ کوئی مال قبول نہیں کریگا)
صحیح بخاری: (2222) اور صحیح مسلم: (155)
یہ احادیث تو صحیحین کی ہیں ،جو متن کے لحاظ سے انتہائی واضح اور اسناد کے لحاظ سے اعلیٰ درجہ کی صحیح ہیں ،
صحیحین کی ان روایات میں حضرت عیسیٰ کا ہمارے نبی اکرم ﷺ کی قبر پر آنے کا ذکر نہیں ۔

لیکن اسی حدیث کوامام ابویعلی الموصلی (المتوفى: 307ھ ) نے اپنی مسند میں دوسری سند سے درج ذیل الفاظ کے ساتھ روایت کی ہے :
" والذي نفس أبي القاسم بيده لينزلن عيسى ابن مريم إماما مقسطا وحكما عدلا، فليكسرن الصليب، وليقتلن الخنزير، وليصلحن ذات البين، وليذهبن الشحناء، وليعرضن عليه المال فلا يقبله، ثم لئن قام على قبري فقال: يا محمد لأجيبنه "
(مسند ابی یعلیٰ ۶۵۸۴ )
لیکن یہ روایت محفوظ اور ثابت نہیں ،
حال ہی مصر ،قاہرہ سے مسند ابی یعلیٰ مفصل تخریج کے ساتھ دس جلدوں میں شائع ہوئی ہے ،
اس کے مولف و مصنف الشيخ أبو المظفر سعيد بن محمد السناري القاهري
(رحمات الملأ الأعلى) طبع ’’ دار الحديث ‘‘
اس میں اس حدیث کو ’’ منکر ‘‘ یعنی ثقہ راویوں کی روایت کے خلاف ثابت کیا گیا ہے
،تین صفحات پر مشتمل اس حدیث کی مفصل تخریج کا خلاصہ یہ ہے :
قلت : والصواب أن الحديث منكر بهذا التمام ،
 
Last edited:

afrozsaddam350

مبتدی
شمولیت
اگست 31، 2019
پیغامات
25
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
17
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ حضرت عیسی علیہ السلام کاقبرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر سلام کہنا اور قبر سے جواب دیا جائے گا؟


Sent from my JSN-L22 using Tapatalk
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
حضرت عیسی علیہ السلام کاقبرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر آکر سلام کہنا اور قبر سے جواب دیا جائے گا؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا حضرت عیسی ہمارے نبی ﷺ کی قبر پر تشریف لائیں گے ؟


قال الامام الحاكم
أخبرني أبو الطيب محمد بن أحمد الحيري ثنا محمد بن عبد الوهاب ثنا يعلى بن عبيد ثنا محمد بن إسحاق عن سعيد بن أبي سعيد المقبري عن عطاء مولى أم صبية قال: «سمعت أبا هريرة يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ليهبطن عيسى ابن مريم حكما عدلا وإماما مقسطا وليسلكن فجا حاجا أو معتمرا أو بنيتهما، وليأتين قبري حتى يسلم ولأردن عليه. يقول أبو هريرة: أي بني أخي إن رأيتموه فقولوا أبو هريرة يقرئك السلام».

(مستدرک حاکم 4162 )
قال الحاكم « هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه بهذه السياقة ».
وهو عند مسلم (1/136) ولكن الجزء الأخير منه (وليأتينّ قبري) عند الحاكم (المستدرك2/595)


امام حاکم رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحیح کہا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کی سند ضعیف ہے ۔کیونکہ محمد بن اسحاق مدلس ہیں۔اور مدلس کی منعن روایت ضعیف ہوتی ہے۔
حدیث کے مشہور محقق علامہ ناصرالدین البانیؒ فرماتے ہیں کہ :

قال الألباني في " السلسلة الضعيفة و الموضوعة (2/647) « منكر بهذا التمام». صححه الحاكم ووافقه الذهبي. قال الشيخ الألباني: « كلا، بل هو ضعيف». فيه عدة علل:
الأولى: جهالة عطاء قال عنه الذهبي (لا يُعرَف تفرّد عنه المقبري) .
الثانية: عنعنة محمد بن إسحاق، فإنه مدلس مشهور بذلك.
الثالثة: رواية ابن إسحاق عن سعيد بن أبي سعيد المقبري ولا ندري هل كانت قبل اختلاط سعيد أم بعده.
الرابعة: الاختلاف عليه في إسناده كما بين ابن أبي حاتم في العلل (2/ 413) حين سأل أبا زرعة عن سند الحديث فأشار عليه بالرواية الصحيحة التي ليس فيها الزيادة التي عند الحاكم « وليأتينّ قبري» (راجع السلسلة الضعيفة3/647) وصدق ابن تيمية حين ضعّف رواية الحاكم.

مستدرک حاکم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی یہ متن ضعیف ہے ،اس میں ضعف کی کئی علتیں ہیں ،
پہلی علت یہ کہ : عطاء مجہول ہے ،سوائے سعید بن ابی سعید کے عطاء کی کوئی روایت نہیں ملتی ،
دوسری علت یہ کہ :اس اسناد میں محمد بن اسحاق نے (عَن ) کےساتھ نقل کیا ہے ،اور محمد بن اسحاق مشہور مدلس ہیں اور مدلس کی ’’ عنعنہ والی روایت ضعیف ہوتی ہے ،
تیسری علت :سعيد بن أبي سعيد المقبري اختلاط کا شکار راوی ہے ،اور یہاں واضح نہیں کہ محمد بن اسحاق نے اس سے اختلاط سے قبل روایت سنی ۔یا اختلاط کا شکار ہونے کے بعد ۔۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور
سیدنا عیسی علیہ السلام کا دوبارہ دنیا میں واپس آنا صحیح احادیث سے ثابت ہے ؛


صحیح مسلم میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث :
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا ليث، عن سعيد بن أبي سعيد، عن عطاء بن ميناء، عن أبي هريرة، أنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «والله، لينزلن ابن مريم حكما عادلا، فليكسرن الصليب، وليقتلن الخنزير، وليضعن الجزية، ولتتركن القلاص فلا يسعى عليها، ولتذهبن الشحناء والتباغض والتحاسد، وليدعون إلى المال فلا يقبله أحد»
(صحیح مسلم ،کتاب الایمان )
سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ’’ اللہ کی قسم ! یقیناً عیسیٰ بن مریم علیہ الصلاۃ والسلام عادل حاکم (فیصلہ کرنےوالے) بن کر اتریں گے ، ہر صورت میں صلیب کو توڑیں گے ، خنزیر کو قتل کریں گے اورجزیہ موقوف کر دیں گے ، جو ان اونٹنیوں کو چھوڑ دیا جائے گا اور ان سے محنت و مشقت نہیں لی جائے گی ( دوسرے وسائل میسر آنے کی وجہ سے ان کی محنت کی ضرورت نہ ہو گی) لوگوں کے دلوں سے عداوت ، باہمی بغض و حسد ختم ہو جائے گا، لوگ مال ( لے جانے) کے لیے بلائے جائیں گے لیکن کوئی اسے قبول نہ کرے گا ۔‘‘
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,416
ری ایکشن اسکور
2,733
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
@afrozsaddam350 بھائی! میرا یہ مراسلہ آپ کے لئے نہیں ہے!

أَخْبَرَنِي أَبُو الطَّيِّبِ مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ الْحِيرِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْوَهَّابِ، ثنا يَعْلَى بْنُ عُبَيْدٍ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ، عَنْ عَطَاءٍ، مَوْلَى أُمِّ حَبِيبَةَ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَيَهْبِطَنَّ عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ حَكَمًا عَدْلًا، وَإِمَامًا مُقْسِطًا وَلَيَسْلُكَنَّ فَجًّا حَاجًّا، أَوْ مُعْتَمِرًا أَوْ بِنِيِّتِهِمَا وَلَيَأْتِيَنَّ قَبْرِي حَتَّى يُسَلِّمَ وَلَأَرُدَّنَ عَلَيْهِ» يَقُولُ أَبُو هُرَيْرَةَ: " أَيْ بَنِي أَخِي إِنْ رَأَيْتُمُوهُ فَقُولُوا: أَبُو هُرَيْرَةَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ «هَذَا حَدِيثٌ صَحِيحُ الْإِسْنَادِ وَلَمْ يُخَرِّجَاهُ بِهَذِهِ السِّيَاقَةِ»
[التعليق - من تلخيص الذهبي] صحيح


ملاحظہ فرمائیں: صفحه 651 جلد 02 المستدرك على الصحيحين مع تعليق من تلخيص الذهبي ۔ تحقيق مصطفى عبد القادر عطا – دار الكتب العلمية – بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 699 - 700 جلد 02 المستدرك على الصحيحين ۔ تحقيق مقبل بن هادي الوادعي – دار الحرمين، القاهرة
حضرت أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام ضرور عادل فیصلہ کرنے والے اور منصف حکمران بن کر اتریں گے اور وہ اس گلی میں حج کرتے یا عمرہ کرتے یا ان دونوں کی نیت سے گزریں گے اور وہ میری قبر أنور پر آئیں گے اور مجھے سلام کریں گے۔ میں ان کے سلام کا جواب دوں گا۔ حضرت أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اے میرے بھائی کے بیٹو! اگر تمہاری ان سے ملاقات ہو تو ان سے کہیے گا: أبو ہریرہ رضی اللہ عنہ آپ کو سلام کہہ رہے تھے۔
یہ حدیث صحیح الاسناد ہے، لیکن امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اسے اس اسناد کے ہمراہ نقل نہیں کیا۔

ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 748 – 749 جلد 03 المستدرك على الصحيحين مترجم اردو – أبو عبد الله الحاكم محمد بن عبد الله بن محمد بن حمدويه بن نُعيم بن الحكم الضبي الطهماني النيسابوري المعروف بابن البيع (المتوفى: 405هـ) – مترجم: ابی الفضل محمد شفیق الرحمن قادری رضوی – شبیر برادرز، لاہور

ہمارے ان قبوری حضرات کا اس روایت کو اپنے قبوری عقیدہ کی دلیل میں پیش کرنا چنداں مفید نہیں! بلکہ اس روایت سے استدلال کرنے پر ان کی نمازیں باطل قرار پاتی ہیں!
اس روایت میں محمد بن إسحاق راوی ہیں، اور عن سے روایت کر رہے ہیں!
یہ وہی ہیں جن سے فجر کی نماز کے بعد میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان روایت ہے، امام کے بیچھے قراءت نہ کیا کروں، سوائے سورہ فاتحہ کے، کیوںکہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی۔
لہٰذا ان دیوبندی بریلوی قبوریوں کو چاہیئے، کہ وہ توبہ تائب ہو کر امام کے پیچھے سورہ فاتحہ پڑھنا شروع کر دیں!
باقی اس روایت کو صحیح تسلیم بھی کیا جائے، تو اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک معجزہ کی پیشن گوئی ثابت ہوتی ہے، کیونکہ سلام کرنے والا ایک نبی، اور جواب دینے والا ایک نبی!
یہ تو سلام کا جواب ہے، جبکہ موسی علیہ السلام کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی قبر میں دیکھا ہے!
لہٰذا اس روایت کے صحیح ہونے سے بھی انبیاء علیہ السلام کا معجزہ ہی ثابت ہو گا!

المستدرك على الصحيحين شیخ مقبل بن ھادي الوادعي رحمہ اللہ کی تحقیق سے مطبوع ہے، شیخ مقبل بن ھادي الوادعی رحمہ اس روایت کے حاشیہ میں فرماتے ہیں:

صوابه: ﴿أم حبيبة﴾؛ وعطاء مجهول، ما ذكر في ﴿تهذيب التهذيب﴾ راويّا عنه سوی سعيد المقبري، وقال الحافظ الذهبي: لا يعرف
 
Last edited:
Top