Aamir
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 16، 2011
- پیغامات
- 13,382
- ری ایکشن اسکور
- 17,097
- پوائنٹ
- 1,033
﷽
٭٭ خواتین کی نماز اور چند مسائل ٭٭
عورت کا نماز کے لئے مسجد میں جانا
عورت کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے
سوال: کیا عورت کے لئے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے یا مسجد حرام میں نماز پڑھنا افضل ہے؟
جواب: مرد اورعورت دونوں کے لئے گھر میں نفل نماز پڑھنا افضل ہے ۔ چنانچہ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ :
’’آدمی کے لئے نما زفرض کے علاوہ باقی تمام نمازیں گھر میںپڑھناافضل ہے‘‘۔ صحیح البخاری ، کتاب الأذان ، باب صلاۃ اللیل ، حدیث : (731) جزء من الحدیث ۔ صحیح المسلم ، کتاب الصلاۃ ، باب استحاضۃ صلاۃ النافلۃ فی بیتہ وجواز ہا فی المسجد ، حدیث : (781)۔ خودنبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نوافل گھر میں پڑھاکرتے تھے حالانکہ آپ ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے فرمایا ہے کہ : ’’صلاۃ فی مسجدی ہذا خیر من ألف صلاۃ فیم عداہ إلاالمسجدالحرام‘‘۔
’’میری اس مسجد کی نماز مسجدحرام کے علاوہ باقی تمام جگہوں سے ایک ہزاردرجہ افضل ہے‘‘۔ صحیح البخاری ، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ ، باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ ، حدیث: (1190) صحیح المسلم ، کتاب الحج ، باب فضل الصلاۃ بمسجد ی مکۃ والمدینۃ ، حدیث : (1394) ۔
لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ظہرکی اذان ہوجائے اور آپ مکہ مکرمہ میں اپنے گھر میں موجود ہو ںا ور مسجد حرام میں نماز ظہر ادا کرنا چاہیں تو افضل یہ ہے کہ آپ ظہر کی سنت اپنے گھر میںپڑھیں پھر مسجد حرام میں آئیں اور وہاں ’’تحیۃ المسجد‘‘ پڑھ لیں اسی بناپر کچھ علماء کانظریہ یہ ہے کہ مساجدثلاثہ (مسجد حرام، مسجدنبوی اور مسجد اقصیٰ) میں ثواب کااضافہ فرائض کے ساتھ مخصوص نوافل میں یہ اضافہ نہیں ہوتاجب کہ صحیح رائے یہ ہے کہ یہ اضافہ فرائض اور نوافل دونوں کے لئے ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان تین مساجد میں ادا کئیے گئیے نوافل سے افضل ہیں۔ بلکہ نفل نمازگھرہی میں افضل ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص مسجد حرام میں داخل ہوکر ’’تحیۃ المسجد ‘‘ پڑھے تو اس کا ثواب دیگر مساجد میں پڑھی جانے والی ’’ـتحیۃ المسجد ‘‘ سے ایک لاکھ درجہ زیاد ہ ہے اور مسجد نبوی کی تحیۃ المسجد مسجد حرام کے علاوہ تمام مساجد کی تحیۃ المسجد سے ایک ہزار درجہ بہتر ہے ۔ اسی طرح اگر آپ مسجد حرام میں پہنچ کر تحیۃ المسجد پڑھیں ۔فرض نماز کا وقت نہ ہوا ہو اور آپ نفل پڑھنے لگ جائیں تو یہ نماز باقی مساجد سے ایک لاکھ درجہ بہتر ہے۔
رہا یہ سوال کہ عورت کے لئے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے یا مسجد حرام میں افضل ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے ساتھ دیگر مساجد میں نماز فرض کے لئے گھر میں پڑھنا افضل ہے ۔ البتہ قیام رمضان کے بارے میںکچھ ارباب علم یہ کہتے ہیں کہ عورتوں کے لئے قیام رمضان کے لئے مساجد میں آناافضل ہیاس کی دلیل میں وہ یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھروالوں کو اکٹھا کرکے انہیں قیام رمضان کرایا تھا اسی طرح حضرات عمر اور علی رضی اللہ عنہما دونوں اپنے دور خلافت میں ایک آدمی کو مسجد میں امامت کے لئے کہا کرتے تھے۔
میرے خیال میں یہ رائے محل نظر ہے کیونکہ حضرات عمر وعلی رضی اللہ عنہما سے بیان کردہ دونوںروایات ضعیف ہیں ان سے دلیل نہیں لی جاسکتی ۔ رہا نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر والوں کو جمع کرکے نماز پڑھانا تو اس میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ آپ ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسجد میں قیام کرایا کرتے تھے لہٰذا میرے نزدیک یہ مسئلہ قابل غور ہے کہ آیا عورت کا قیام رمضان میں مسجد حرام میں افضل ہے یا گھر میں؟ بنیادی بات یہ ہے کہ عورت کے لئے اس کا گھر ہی افضل ہے البتہ اگر کس واضح دلیل سے یہ بات ثابت ہوجائے کہ اس کے (قیام رمضان ) کے لئے مسجد حرام افضل ہے تو یہ الگ بات ہے۔
تاہم اگر کوئی عورت مسجد حرام میں آجائے اورقیام میں شامل ہوجائے تو امید ہے کہ اسے اس فرمودہ رسول ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان کردہ ثواب حاصل ہوجائے گا :’’صلاۃ فی المسجد الحرام بمأۃ الف صلاۃ‘‘۔ ’’مسجد حرام کی ایک نماز ایک لاکھ نماز کے برابر ہے ‘‘۔ صحیح البخاری ، حدیث: (1190) صحیح المسلم ، حدیث : (1394) سنن ابن ماجہ ، حدیث : (1406) ۔
یہ بات ذہن نشین رہے کہ اگر مسجد حرام اس کی آمد باعث خرابی ہوتو اس کا گھر میں رہنا بہتر ہے ۔ --- شیخ ابن عثیمین---
نماز تراویح کے لئے عورت کا مساجد میں گھومنا
سوال: کیا عورت یا کسی بھی شخص کے لئے یہ بات باعث حرج تو نہیں کہ وہ خوب صورت آواز والے امام کی تلاش اور سنت تراویح کی بہتر ادائیگی کے لئے نماز تراویح کچھ دن ایک مسجد میں ادا کرے اور کچھ دن دوسری مسجد میں ؟
جواب: اگر عورت رخصت پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھر سے باہر نکل کرمسجد میں جاتی ہے تو اسے نماز تراویح اپنے گھر سے قریب ترین مسجد میں پڑھنی چاہیئے ۔ اس کا مساجد میں گھومنا پھر ناباعث خرابی بھی ہے اور طویل مسافت کرنے کی مشقت کاباعث بھی جس میں اسے کار،ڈرائیور ،غیر محرم سے تنہائی کی بھی ضرورت لاحق ہوسکتی ہے حالاں کہ یہاں کوئی ایسا صحیح مقصد پیش نظر نہیں ہے جس کی خاطر وہ ان تمام ممنوعات کی مرتکب ہو۔ اس کی یہ تگ ودو نماز کی خاطر نہیں بلکہ آوازوں سے محظوظ ہونے کے لئے ہے۔ اس طرح تو وہ مقصد ہی فوت ہوجاتاہے جس کے لئے نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسجد جانے کی اجازت دی تھی۔
اس ناپسندیدہ روش کے چل نکلنے میں کچھ قراء کا بھی کردارہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے ۔ ان میں کچھ قراء تلاوت میں تکلف کرتے ہیں اور میناروں کی بلندی سے باہر آواز پہنچانے کا اہتمام کرتے ہیں حالانکہ اس سے قریب کی مساجد میں نمازیوں کوپریشانی ہوتی ہے۔ میری رائے تو یہ ہے کہ لوگ اپنی اپنی مساجد میں نماز پڑھیں، اطاعت وعبادت کے ذریعے اسے آباد کریں اور تکلف چھوڑدیں ۔
میں عورتوں کو بالخصوص یہ نصیحت کروں گا کہ ہر عورت اپنے گھر سے قریب ترین مسجد میں نماز پڑھے اس میں اس کے لئے تحفظ بھی زیادہ ہے اور خرابی سے بچائو بھی۔ میں ائمہ مساجد کو بھی پرزور نصیحت کروں گا کہ وہ اعتدال کی راہ اختیار کریں اور تکلف وتصنع سے بچیں ۔ ان کا مطمع نظر لوگوں کو اپنی مساجد میں کھینچ کرلانا نہیں ہونا چاہیئے اس چیز میں اخلاص بھی ہے اور ریاکاری اور شنوائی سے احتراز بھی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق معلوم کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین ۔ --- شیخ صالح بن فوزان---
عورت کاگھر میں نما ز پڑھنا مسجد نبوی اور مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے افضل ہے
سوال: یہ بات تو طے شدہ ہے کہ عورت کے لئے گھر میں نمازپڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے لیکن اگر ایک عورت مسجد حرام اور مسجد نبوی کو چھوڑ کر گھر میں نماز پڑھے تو کیا اسے حرمین میں ملنے والا اضافی ثواب بھی ملے گا؟
جواب: جہاں تک مکہ مکرمہ کا تعلق ہے تو یہاں پور ے حرم میں اضافی ثواب ملتاہے اگر ایک عورت مکہ مکرمہ میں اپنے گھر میں نماز پڑھتی ہے تو اسے ان شاء اللہ اضافی ثواب ملے گا۔ البتہ مدینہ منورہ میں اضافی ثواب مسجد نبوی کے ساتھ مخصوص ہے تاہم اگر کوئی عورت نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مدینہ منورہ میں اپنے گھر میں نماز پڑھتی ہے تو اس کے لئے بہت زیادہ ثواب کی امید ہے۔ اسے نیت صالح اور مسجد رسول ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز کی محبت دونوں کاثواب ملے گا۔ واللہ اعلم ۔ --- شیخ صالح فوزان---
عورت کے لئے نمازتراویح گھر میں پڑھنا افضل ہے
سوال: کیا عورت کے لئے نماز تراویح گھرمیں پڑھنا افضل ہے یا جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے ؟
جواب: عورت کے لئے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز فرض، نماز تراویح، نماز کسوف (سورج گرہن کی نماز) اور نماز جنازہ پڑھنا بھی اس کے لئے جائز ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ مکمل طور پرباپردہ ہو اس نے جسم اور کپڑوں کو زینت اور خوشبو سے بچا رکھا ہو۔
نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ :
’’لاتمنعوا اماء اللّٰہ مساجد اللّٰہ ، وبیوتہن خیرلہن، ولیخرجن تفلات‘‘۔
’’اللہ کی باندیوں کو اس کی مسجدوں سے نہ روکو اور ان کے گھر ان کے لئے بہتر ہیں ، انہیں زینت اور خوشبو کے بغیر باہر جاناہوگا‘‘۔ مسند احمد (2/438) حدیث : (9645) قال شعیب صحیح وہذا اسنادہ حسن، صححہ ابن خزیمۃ حدیث : (1679) وابن حبان حدیث : (2214) قال الالبانی صحیح ابوداود حدیث : (565) ۔
حدیث میں عورت کے لئے مشروط طورپر مسجد میں جانے کا جواز بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ وہ حیا ء وحجاب کی پتلی ہو، زیب وزینت اور خوشبو نہ لگائے ہوئے ہو، اور مردوں کے پیچھے صف بنائے۔ مذکورہ بالا شرط کو بجالاتے ہوئے بھی اس کے لئے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے کیونکہ اس میں اس کا تحفظ بھی ہے اور خود پریشان ہونے اور لوگوں کو پریشان کرنے سے بچائو بھی ۔
اگر وہ ان شرائط کی پابندی نہیںکرتی تو اس کے لئے باہر جانا حرام اور باعث گناہ ہے خواہ وہ نماز ہی کے ارادے سے جائے ۔ --- شیخ صالح بن فوزان---
اگر نماز تراویح کے لئے جانے سے گھریلو ذمہ داریاں متأثر ہوں
سوال: اگر نماز تراویح کے لئے جانے سے عورت کی گھریلو ذمہ داریاں یا کوئی معمولی ذمہ داری متأثر ہوتو اس کے لئے جانے کا کیاحکم ہے؟
جواب: اگر نماز تراویح کے لئے جانے سے عورت کی کوئی گھریلو ذمہ داری متأثر ہوتو اسے گھر سے باہر نہیں جانا چاہیئے بلکہ وہ گھر میں رہ کر اپنے فرائض منصبی سر انجام دے۔ کیونکہ اس کے لئے گھر میں نماز پڑھنا ممکن اور زیادہ آسان ہے نیز اس لئے بھی کہ گھر یلو ذمہ داری کو سر انجام دینا صحیح نظریہ کے مطابق فرض ہے جب کہ مسجد میں جانا صرف جائز ہے اور وہ بھی اس وقت جب اس سے کوئی نقصان نہ ہو رہا ہو ۔ --- شیخ صالح بن فوزان---
عورت کانماز عید کے لئے جانا
سوال: کیا نماز عید کے لئے عورت کاگھرسے باہر جانا جائز ہے؟
جواب: عیدین کی نماز کے لئے عورتوں کاگھر سے باہر جانا شریعت کی طرف سے طے کردہ ہے انہیں اس کی خاص طورسے تاکید کی جائے۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
’’ہمیں نمازعید کے لئے جانے کو حکماً کہاجاتاتھایہاں تک کہ کنواری بچی اورحائضہ عورت کو بھی ساتھ لے جانے کا حکم تھا‘‘۔ --- صحیح البخاری ، کتاب العیدین ، باب التکبیر ایام منی واذا غدا إلی عرفۃ ، حدیث : (971) ---
وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر تکبیرات پڑھیں اور ان کے ساتھ دعا میں شامل ہوں اور اس دن کے فیوض وبرکات کی امید رکھیں۔ ایک روایت میں اس طر ح ہے کہ: ’’رسول اکرم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کنواری دوشیزائوں،باپردہ اور حائضہ عورتوں کو نماز عید ین کے مواقع پر گھروں سے باہر لے جاتے۔ حائضہ عورتیں نماز عید کی جگہ سے الگ بیٹھ جاتیں اورنیکی اور دعائوں مسلمانوں کے ساتھ شرکت کرتیں ‘‘۔
(ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے ) ﷴ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس اوڑھنے کے لئے چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے؟آپ ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نلبسہاأختہامن جلبابہا‘‘۔ ’’اس کی بہن اسے اپنی چادر پہنادے‘‘۔--- صحیح البخاری ، کتاب الحیض ، باب شہود الحائض العیدین ودعوۃ المسلمین ویعتزمن المصلی ، حدیث : (324) ، صحیح المسلم ، کتاب صلاۃ العیدین ، باب ذکر اباحۃ خروج النساء فی العیدین الی المصلی وشہود الخطبۃ مفارقات للرجال ، حدیث : (890) واللفظ للمسلم ۔ --- البتہ یہ امر ذہن نشین رہے کہ نماز عید کے لئے جاتے وقت عورتوں کو خوشبو اور فتنہ انگیز زیب وزینت سے اجتناب کرتے ہوئے انتہائی سادگی کے ساتھ مردوں سے الگ رہنا چاہیئے ۔--- شیخ ابن جبرین---
دوران نماز عورت کالباس
سوال: اگر دوران نماز عورت کے ہاتھ پائوں برہنہ ہوں تو اس کاکیا حکم ہے؟
جواب: نماز کے دوران عورت کے لئے پورے بدن کو ڈھکنا ضروری ہے۔ چہرے کے علاوہ اس کا پورا جسم واجب الستر ہے۔ اگر اس کے پاس محرم موجود ہوں یا وہ تنہا نماز پڑھ رہی ہو تو وہ نماز کے دورا ن چہرے پر پردہ نہیں کرے گی۔
اگر وہ غیر محرم مردوں کی موجودگی میں نماز پڑھ رہی ہوتو وہ نماز کے دوران اور نماز علاوہ بھی چہرے کا پردہ کرے گی۔ کیونکہ چہر ہ واجب الستر ہے۔
ہاتھوں اور پائوں کو نماز کے دوران ہرصورت میں ڈھکنا ضروری ہے خواہ غیر محرم مرد موجود ہوں یا نہ ہوں۔ کیونکہ نماز کے دوران چہرے کے علاوہ عورت کاپورا جسم واجب الستر ہے۔ --- شیخ صالح بن فوزان---
دستانہ پہن کرنماز پڑھنا
سوال: اگر اجنبی (نا محرم)مرد موجود نہ ہو تو کیا عورت کے لئے دستانہ پہن کر نماز پڑھنا درست ہے؟
جواب: دستانہ ہاتھ کی جراب ہے لہٰذا اگر عورت احرام کی حالت میں ہوتو اس کے لئے اسے پہننا ناجائز ہے ۔چنانچہ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :
’’لاتنتقب المرأۃ ولا تلبس القفازین‘‘۔
’’عورت نقاب بھی نہ لے اوردستانے بھی نہ پہنے ‘‘۔ المعجم الأوسط لطبرانی (5/10) حدیث : (6420) اسنادہ ضعیف ، فیہ عمر بن صہبان ، ضعیف ، (التقریب ) وانظر مجمع الزوائد (3/222) قلت فی الصحیح بعضہ ، ابو داود (1825) (صحیح ) صحیح البخاری ، حدیث : (1838) جزء من الحدیث۔
لہٰذا احرام کے دوران عورت کے لئے دستانے پہنناحرام ہے۔
البتہ اگر عورت احرام کی حالت میں نہ ہو اورنمازپڑھ رہی ہو اور اس کے نزدیک غیر محرم مرد بھی نہ ہوں تو اس کے لئے بہتر اورافضل یہ ہے کہ وہ دستانے کو ہاتھ سے اتارکر نمازپڑھے تاکہ اس کے ہاتھ جائے نماز کوبراہ راست لگیں۔ اسی طرح اگر اس کے آس پاس غیر محرم مردموجود ہوں اور اس نے اپنا چہرہ ڈھکا ہوتو اسے سجدہ کرتے وقت اپنے چہرے سے کپڑا ہٹالینا چاہیئے کیونکہ جسم پر پہنے ہوئے کسی کپڑے مثلاً :رومال ، دوپٹہ ، لباس وغیرہ پرسجدہ مجبوری کے بغیر کرنا مکروہ ہے۔ اس کی دلیل حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ :
’’ہم نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گرمی کے موسم میں نماز پڑھاکرتے تھے۔ اگر کسی شخص کے لئے زمین پرپیشانی کولگانا ممکن نہ ہوتا تو وہ کپڑا بچھا کر اس کے اوپرسجدہ کرلیتا‘‘۔ --- سنن ابوداود، کتاب الصلاۃ ، باب الرجل یسجد علی ثوبہ ، حدیث : (660) (صحیح ) ---
اس میں پیشانی پر کپڑا لگنے کوعدم استطاعت کے ساتھ مشروط قراردیاگیاہے۔
پینٹ ور باریک لباس میں نماز پڑھنا
سوال: کیا پینٹ پہن کر نمازپڑھنا جائز ہے اس سلسلے میں عورت اور مرد دونوںکے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے ؟ نیز اگر عور ت نے ہلکا پھلکا لباس پہن رکھا ہو جس سے اس کا واجب الستر حصہ نظر نہ آتا ہو اس میں اس کا نماز پڑھنا کیسا ہے؟
جواب: ایسا تنگ لباس جو جسم کے اعضاء کی عکاسی کررہا ہو اس سے عورت کا جسم اور اس کے اعضاء کی وضع وقطع واضح طورسے معلوم ہورہی ہو اسے پہننا مراد اور عورت دونوں کے لئے ناجائز ہے۔ عورت کے لئے یہ ممانعت اور بھی سخت ہے کیونکہ اس میں فتنہ انگیزی کاعنصر زیاد ہ ہے۔
جہاں تک نماز کا تعلق ہے تو اگر آدمی ایسے لباس میں واجب الستر حصہ ڈھانپ کر نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے البتہ وہ اس تنگ لباس کی بناپر گناہ گار ہوگا کیونکہ اس کی تنگی کی بناپر نماز کے بعض ارکان متأثر بھی ہوسکتے ہیں۔ ایک توتھا یہ پہلو دوسری بات یہ ہے کہ ایسا لباس لوگوں میںفتنہ پیدا کرنے اور ان کی توجہ کو اس طرف مبذول کرانے کاباعث بھی بن ہوسکتا ہے بالخصوص جب اسے عورت پہنے ہوئے ہو۔
لہٰذا عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسا لباس پہنے جو کھلاہو اور اس کے جسم کو چھپارہا ہو اس کے جسم کے کسی حصے کی عکاسی نہ کررہا ہو اور نہ ہی لوگوں کی نظروں اپنی طرف کھینچ رہا ہو۔ باریک اور دبیز بھی نہ ہو بلکہ وہ لباس عورت کے جسم کو مکمل طور سے اس طرح ڈھانپ رہا ہو کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ دکھا ئی نہ دے۔چھوٹا بھی نہ ہوکہ اس کی پنڈلیوں ،بازوں اور ہتھیلیوں سے کم پڑرہاہو۔ عورت غیرمحرم مردوں کے سامنے چہرہ بھی ننگا نہ کررہی ہو۔ اپنے تمام بدن کوڈھانپے ہوئے ہو۔ اس طرح باریک اوردبیز بھی نہ ہو کہ اس کا جسم اور اس کا رنگ اس کے اندر سے دکھائی دے رہا ہوکیونکہ ایسا لباس تو سرے سے ستر پوش ہی نہیں ہے۔
حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
’’صنفان من أہل النار لم أرہما، رجال معہم سیاط کأذباب البقر یضربون بہا الناس،ونساء کاسیات عاریات مائلات ممیلات رؤوسہن کأسنمۃ البخت لایجدن رائحۃ الجنۃ‘‘۔
’’میری امت میں سے دوقسم کے لوگ دوزخی ہیں میں نے انہیں دیکھانہیں ہے۔ ایک تو ایسے مرد جن کے پاس گائے کی دموں کی مانند لاٹھیا ں ہوں گی اور وہ ان کے ساتھ لوگوں کو ماریں گے۔ دوسرے وہ عورتیں جوملبوس کے ہونے کے باوجود برہنہ ہوں گی مردوں کی طرف مائل خود بھی ہوں گی اور انہیں بھی اپنی طرف مائل کردیں گی ۔ ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح ہوں گے وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکیں گی‘‘۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ صحیح المسلم ، کتاب اللباس ، باب النساء الکاسیات العاریات المائلات المیملات ، حدیث : (2128) ، مسند احمد (2/356) ، حدیث : (8665) ۔
’’برہنہ ‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بظاہر لباس پہن رکھا ہوگا حقیقت میں برہنہ ہوں گی کیونکہ یہ لباس ساتر نہیں ہوگا شکل وصورت میں صرف لباس ہوگا ۔باریک اور دبیز ہونے کے باعث ،تنگ اور پورا نہ ہونے کی وجہ سے جسم کو نہیں چھپائے گا ۔مسلمان عورتوں کو اس بات سے اچھی طرح آگا ہ رہنا چاہیئے ۔ --- شیخ صالح فوزان---
چھوٹے لباس میں عورت کی نماز
سوال: کیا ایک عورت باقی عورتوں کے ساتھ مل کر ایسے لباس میں نماز تراویح اداکرسکتی ہے جو سائز میں چھوٹا ہو۔ پنڈلیوں کے کچھ حصے یا بازئوں کو مکمل طور سے ڈھانپ نہ رہا ہو؟
جواب: عورت نمازتراویح اداکررہی ہو یا کوئی اور نماز ، اکیلی ہو یا دیگرعورتوں اور محرم مردوں کے ساتھ ، اس کی نماز ایسے لباس کے بغیر صحیح نہیں ہوگی جوچہرے کے علاوہ اس کے پورے جسم کو ڈھانپ رہا ہو اور اگر وہ غیر محرم مردوں کی موجودگی میں نماز اداکررہی ہوتو اسے اپنے چہرے کو بھی ڈھکنا چاہیئے ۔ یہ بہن جو ایسے کپڑے میں نماز اداکررہی ہے جس سے اس کی پنڈلیوں کا کچھ حصہ ظاہر ہوتاہے اس کی نماز صحیح نہیں ہے۔ بلکہ لباس اس قدر کھلا ہونا چاہئیے کہ وہ پائوں کو بھی ڈھانپ رہا ہو۔ --- شیخ صالح فوزان---
عورت کی امامت ، صفوں کی درستگی اور طریقہ نماز
عورت کی امامت
سوال: کیا اسلام میں عورت کا امام مسجد بننا جائز ہے۔ کسی عورت کے امام بننے کے لئے کیا شرائط ہیں واضح فرماکر مشکور ہوں؟
جواب: نہیں،عورت کا مردوں کو امامت کرانا جائز نہیں ہے۔ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :
’’أخّروہنّ من حیث أخرہن اللّٰہ‘‘۔ ’’جہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں پیچھے رکھا وہاں تم بھی انہیں پیچھے رکھو‘‘۔ المصنف عبد الرزاق (3/58) حدیث : (5129) باب شہود النساء الجماعۃ ۔ نصب الرایۃ (2/29) حدیث (69) کتاب الصلاۃ ، باب الامۃ ، قلت حدیث غریب مرفوعاً وہو فی مصنف عبد الرزاق موقوف علی ابن مسعود ۔
علاوہ ازیں مسجد کی امامت ایک سرپرستی ہے اور سرپرستی صرف مردوں ہی کے لئے جائز ہے ۔ فرمان نبوی ہے کہ: ’’ماأفلح قوم ولّو أمرہم امرأۃ‘‘۔
’’جس قوم نے اپنا سرپرست عورت کوبنالیا وہ کسی صورت کامیاب نہیں ہوگی‘‘۔
صحیح البخاری ، کتاب المغازی ، باب البنی صلی اﷲ علیہ وسلم الی کسری ٰوقیصر حدیث : (4425) سنن الترمذی حدیث: (2262) مسند احمد (5/43) حدیث : (20438) حالکم (3/118)
حنبلیوں کے ہاں ایک صورت اس سے مستثنیٰ ہے جب کہ یہ ان کے ہاں کمزور نظریہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر عورت قرآن مجید کو بہتر طورسے پڑھ سکتی ہو اور مرد سب کے سب ان پڑھ ہوں تو وہ آگے کھڑے ہوجائیں اور عورت کے پیچھے کھڑی ہوکر ان کی امامت کرے۔ اس بات کی ان کے ہاں کوئی دلیل نہیں ہے۔
مختصر یہ ہے کہ عورت کے لئے مردوں کا امام بننا جائز نہیں ہے۔ ہاں وہ اپنے ہی جیسی عورتوں کی امام بن سکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے جب کہ أم ورقہ کی روایت میں بیان ہوا ہے ۔ یاپھر وہ اپنے محرم مردوں کی امامت کرسکتی ہے۔ جہاں تک اجنبی یاعام سرپرستی کا تعلق ہے ۔ جیساکہ مسجد کی امامت ہے، تو یہ کسی صورت بھی جائز نہیں ہے۔ --- شیخ عبد اللہ بن حمید---
عورتوں کی امامت کی شرائط
سوال: اگر عورت، عورتوں ہی کی امامت کرنا چاہے تو کیا اس کی کوئی شرائط بھی ہیں؟
جواب: اگر عورت قرآن مجید کوبہتر طریقے سے اور کثرت سے پڑھ سکتی ہو تو اس کی امامت میں کوئی مانع نہیں ہے۔ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت أم ورقہ رضی اللہ عنہا سے کہاتھا کہ وہ اپنے اہل خانہ کی امام بنے ۔ مسند احمد (6/405) حدیث : (27284) ابو داود حدیث : (592) (حسن ) قال الالبانی حسن ۔--- شیخ عبد اللہ بن حمید---
نماز تراویح میں عورتوں کی امامت
سوال: کیا عورتیں اپنے میں سے کسی عورت کو نماز تراویح اوردیگر نمازوں کے لئے امام بناسکتی ہیں؟
جواب: عورتوں کے لئے نماز تراویح اور دیگر فرائض باجماعت اداکرنا جائزہے۔ ان میں سے ایک عورت ان کی امام بن جائے اور کسی ایک کے گھر یہ انتظام ہو جومردوں کی نظروں سے اوجھل ہو ۔ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو رخصت دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں اپنے اہل خانہ کی امام بنے۔
مسند احمد (6/405) حدیث : (27284) ابو داود حدیث : (592) (حسن ) --- شیخ صالح فوزان---
سوال:کیا عورتوں کے لئے اپنے میں سے کسی عورت کو تراویح اور دیگر نمازوں میں امام بنانا جائز ہے؟
جواب: ہاں یہ جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حضرات عائشہ ، ام سلمہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے ایسی روایات منقول ہیں۔ امام بننے والی عورت کے درمیان کھڑی ہو اور جہری نمازوں کے لئے جہری قراء ت کرے۔ واللہ ولی التوفیق ۔ --- شیخ ابن باز---
نماز تراویح میں امام کے پیچھے قرآن مجید کی تلاوت سننا
سوال: کیا عورت یا مرد کے لئے نماز تراویح میں امام کے پیچھے قرآن مجید لے کر اس کی تلاوت کی پیروی جائزہے؟ پیروی کرنے والے کی آواز بلند ہونے یا بلند نہ ہونے میں کوئی فرق ہے؟
جواب: مقتدی مرد ہویا عورت اس کے لئے امام کی تلاوت قرآن مجید دیکھ کر سننا جائز نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اس کی توجہ نماز سے ہٹ جائے گی۔ دورحاضرمیں کچھ نوجوان اس غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے اسلاف میں یہ چیز نہیں پائی جاتی تھی۔ لہٰذا اسے چھوڑنا اور اس سے منع کرنا ضروری ہے۔ علماء نے تو ضرور ت کے پیش نظر امام کے لئے بھی قرآن مجید کو دیکھ کر تلاوت کرنے میں اختلاف رائے کیا ہے چہ جائیکہ مقتدی ایسے شروع کردے۔ --- شیخ صالح بن فوزان---
رکوع میں امام سے مختلف ہونا
سوال: کیا عورت یا کوئی بھی شخص امام سے پہلے رکوع، سجدہ یا سلام پھیر سکتاہے؟
جواب: مقتدی مر د ہو یا عورت اس کے لئے امام سے پہلے رکوع یا سجدہ کرنا یاسلام پھیرنا جائز نہیں ہے بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ امام کے بعد ان تمام کاموں کو بجالائے آپ ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ :
’’إنما جعل الإمام لیؤتم بہ ، فإذا کبر فکبروا ولا تکبروا حتی یکبر، وإذا رکع فارکعوا و ولاترکعوا حتی یرکع‘‘۔
’’امام کو اقتدا کے لئے مقررکیا جاتاہے ۔ جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اس کے تکبیر کہنے سے پہلے تم تکبیر نہ کہو ۔ اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو ۔ جب تک وہ رکوع نہ کرے تم بھی رکوع نہ کرو‘‘۔ المعجم الأ وسط الطبرانی (4/274) حدیث : (5971) ۔ سنن ابو داود کتاب الصلاۃ ، باب الامام یصلی من قعود حدیث : (603) (صحیح )
جوشخص امام سے آگے بڑھتا ہے اس کے متعلق یہ وعید بیان ہے کہ اندیشہ ہے کہ کہیں اس کا سر گدھے کی طرح نہ ہوجائے ۔
لہٰذا مقتدی پرفرض ہے کہ جب تک امام سلام نہ پھیرلے وہ بھی سلام نہ پھیرے ۔ اگر وہ کسی شرعی عذ کے بغیر ایسے کرتا ہے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ واللہ اعلم۔ --- الشیخ ابن فوزان---
عورت کا آواز کے ساتھ نماز پڑھنا
سوال:اگرعورت کے ارد گرد اور عورتیں نہ ہوں اور وہ جہری نماز کے علاوہ سنن یا نوافل اداکررہی ہو تو کیا وہ خشوع پیدا کرنے یا نسیان سے بچنے کے لئے بلند آواز سے تلاوت کرسکتی ہے یانہیں؟
جواب: عورت کے لئے رات کی نمازیں بآواز پڑھنا مستحب ہے بشرطیکہ کسی اجنبی مرد کو اس کی آواز سنائی نہ دے رہی ہوکہ اس کی آواز اس کے لئے فتنہ انگیز بن جائے اور نہ ہی کسی کے لئے باعث تشویش ہو وگرنہ وہ خاموشی پڑھے ۔
دن کی نمازوں کو خاموشی سے پڑھے کیونکہ یہ سرّی نمازیں ہیں ان میں آواز کو کسی دوسرے شخص تک پہنچنے نہ دیا جائے۔ --- شیخ صالح بن فوزان---
نماز میں عورتوں کی صفیں
سوال: رمضان المبارک میں عورتیں مسجد کی آخری صفوںکو ترجیح دیتی ہیں جب کہ پہلی صفیں ان سے دور ہوتی ہیں اس سے ایک تو درمیان بہت سی جگہ خالی رہ جاتی ہے دوسرے یہ ہے کہ آخری صفوں میں بھیڑ بہت زیادہ ہوجاتی ہے تیسری بات یہ ہے کہ اگلی صفوں کی طرف جانے والی عورتوں کاراستہ بند ہوجاتاہے حالاںکہ وہ آپ ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر عمل پیرا ہونے کے لئے کرتی ہیں :
’’أفضل صفوف النساء آخرہا‘‘۔ ’’عورتوں کی بہترین صف آخری ہے ‘‘۔ --- صحیح المسلم ، کتاب الصلاۃ ، باب تسویۃ الصفوف واقامتہاوفصل الأول منہا والازدحام علی الصف الاوّل والمسابقۃ إیہا وتقدیم أولی الفضل وتقریبہم من الإمام حدیث: (440)جزء من الحدیث ۔ --- برائے مہربانی آگاہ فرمائیے ؟
جواب: اس مسئلہ میں قدر تفصیل ہے اور وہ اس طرح کہ اگر عورتوں اور مردوں کے درمیان پردہ حائل نہ ہوتو ان کی صفوں کی حیثیت وہی ہے جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے ’’خیر صفوف النساء آخرہا‘‘۔ (عورتوں کی بہترین صف آخری ہے) /صـ (117) صحیح المسلم ، حدیث : (440)۔
کیونکہ وہ مردوں سے دورہوتی جب کہ پہلی صف مردوں کے نزدیک ہوتی ہے ۔
اگر مردوں اور عورتوں کے درمیان پردہ حائل ہوتو مردوں کی طرح ان کی بھی پہلی صف بہتر ہے کیونکہ مذکورہ بالا قباحت موجود نہیں ہے۔عورتوں کو بھی مردوں کی طرف صف بندی کرنی چاہیئے پہلے صف اول مکمل کریں پھر دوسری شروع کی جائے اور یہ مردوں کی طرح پورے نظم ونسق کے ساتھ ہو ۔ --- شیخ صالح بن فوزان---
کیا نماز میں عورتوں کی صف بندی ضروری ہے ؟
سوال: کیاعورتوں کی صف بندی ضروری ہے ؟ نیز اگر عورتیں مردوں سے بالکل الگ تھلگ ہوکر جماعت میں شامل ہوں تو کیا ان کی پہلی اور باقی صفوں کا ثواب برابر ہے ؟
جواب: عورتوں کی صف بندی کاوہی طریقہ ہے جو مردوں کے لئے ہے ۔ یعنی صفیں بالکل سیدھی ہوں، پہلے پہلی صف مکمل بنائی جائے اس کے بعد دوسری اور تیسری ،نمازیوں کے درمیان جگہ خالی نہ ہو، اگر عورتوں اور مردوں کے درمیان کوئی رکاوٹ اور پردہ نہ ہو تو ان کی آخری صف افضل ہے کیونکہ وہ مردوں سے دور ہے۔ اگر مردوں اور عورتوں کی صفوں کے درمیان پردہ موجود ہو تو بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ ان کی پہلی صف افضل ہے کیونکہ مذکورہ بالا قباحت بھی نہیں ہے اور امام کے بھی زیادہ نزدیک ہے ۔ واللہ اعلم۔ --- شیخ صالح بن فوزان---
عورتوں کی کون سی صف کا ثواب زیادہے ؟
سوال: اگر مسجد میں عورتوں اور مردوں کی صفوں کے درمیان کوئی رکاوٹ موجود ہوتو کیا ﷴ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس پر منطبق ہوگا کہ ’’مردوں کی پہلی صف بہتر ہے اور آخری صف بری ہے اور عورتوں کی آخری صف بہتر ہے اور پہلی صف بری ہے‘‘۔ /صـ (117)صحیح المسلم (440) ۔ یاایسی صورتوں میں یہ حکم نہیں ہوگا بلکہ عورتوں کی بھی پہلی صف بہتر ہوگی؟ ہمیں مستفید فرمایاجائے اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔
جواب: بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ عورتوں کی آخری صف بہتر ہونے کی وجہ اس کا مردوں سے دورہونا ہے کیونکہ جس قدر مردوں سے دورہوگی اسی قدر یہ چیز اس کے لئے باعث تحفظ ہوگی اور وہ برائی کی رغبت سے دورہوگی لیکن اگر عورتوں کی جائے نما ز مردوں سے دور ہو اور کسی دیوار یا پردے کی اوٹ میں ہو اور وہ محض اسپیکر کے ذریعے امام کی اقتدا کررہی ہوں تو ان کی پہلی صف افضل ہوگی۔ کیونکہ وہ مقدم بھی اور قبلہ کے زیادہ نزدیک بھی ۔ --- شیخ ابن جبرین---
چھوڑی گئی نمازوں کی قضا
سوال: پہلے میں نماز نہیں پڑھا کرتاتھا،اب اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دے دی ہے اور میں اس کی ا دائیگی بڑے اہتمام سے کرتاہوں ۔دریافت طلب بات یہ ہے کہ کیا مجھے گزشتہ سالوں کی نمازوں کی قضا دینا ہوگی یانہیں؟
جواب: اگر کوئی شخص سالہا سال نماز چھوڑے رکھے ۔ اس کے بعد توبہ کرکے اس کی پابندی شروع کردے اس پر چھوڑی گئی نمازوں کی قضا فرض نہیں ہے۔ اگر یہ پابندی عائدکردی جائے تو یہ شرط توبہ کرنے والے بہت سے لوگوں کے لئے باعث نفرت ہوگی ۔
توبہ کرنے والے کو یہی کہاجائے کہ وہ مستقبل میں اسی کی پابندی کرے اور زیادہ سے زیادہ نفل پڑھے ، فرماں برداری اللہ تعالیٰ کی قربت اور خشیت کے کام کثرت کے ساتھ سر انجام دے۔ ----- شیخ ابن جبرین -----
نماز کودیر سے اداکرنا
سوال: اگر کوئی شخص دیر سے نمازپڑھے مثلاً ظہر سے دوگھنٹے پہلے بیدارہوکرصبح کی نماز اداکرے تو اس کا کیا حکم ہے؟
جواب: کسی شرعی عذر اور نیند کے بغیر نماز کو دیر سے اداکرنا جائز نہیں ہے ۔ نیند بھی ہرشخص کاشرعیعذر نہیں ہے کیونکہ آدمی نماز کے وقت پر بے دار ہونے کے لئے جلدی بھی سوسکتاہے یابیدارہونے کے لئے اپنے والدین ،کسی بھائی یا ہمسائے کو بھی کہہ سکتاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ نماز کو اہمیت دے اور اس پر اس قدر توجہ دے کہ جب نماز کاوقت نزدیک ہوتو خواہ وہ سویا ہوا ہی کیوں نہ ہو اسے اس کا ازخود پتہ چل جائے۔
جوشخص ہمیشہ ہی صبح کی نماز چاشت کے وقت اداکرتاہو اس کے دل میں نماز کی ذرا بھی اہمیت نہیں ہے۔ بہر کیف انسان کو اولین ممکنہ فرصت میں ادارکرنے کاپابند ہے۔ اگر وہ سویا ہوا ہویا بھولا ہوا ہو تو اسے اٹھتے ہی یا یاد آتے ہی نماز پڑھ لینی چاہیئے ۔ ----- شیخ ابن جبرین-----
نماز سے سونے والا
سوال: اگر نیند کی وجہ سے عشاء کی نماز فوت ہوجائے اور صبح کی نما ز کے بعد یاد آئے تو کیا اسے عشاء کی نماز کے ساتھ پڑھا جائے یا یاد آنے کے فوراً بعد ؟
جواب: ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان ہے :’’من نام عن صلاۃ أو نسیہا فلیصلہا اذا ذکرہا،ولاکفارۃ لہا إلاذالک‘‘۔
’’جوشخص نماز سے سوجائے یا اسے نماز بھول جائے تو اسے یاد آنے پر پڑھ لے ،بس اس کا یہی کفارہ ہے‘‘۔ صحیح البخاری ، کتاب موقیت الصلاۃ، باب من نسی صلاۃ فلیصل اذا ذکر ولایعید الاتلک الصلاۃ ، حدیث : (597) ، صحیح المسلم ۔ کتاب المساجد ، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ والمستحباب تعجیل قضائہا ۔ حدیث: (684)،
بطور استشہاد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :{وَأَقِمِ الصَّلاَۃَ لِذِکْرِیْ} ----- طہ:41----- ’’میری یاد کے لئے نماز قائم کرو‘‘۔
اس بناپر عشاء کی نماز اور دیگر نمازوں میں کوئی فرق نہیں ہے انسان جب بھی نیند سے بیدا ر ہو اور اسے نماز یاد آجائے تو اسے فوراً نماز اداکرنی چاہیئے ۔ اسے اس چیز دوسری نماز تک مؤخر نہیں کرنا چاہیئے ،خواہ وہ کراہیت یا کسی اور نماز کا وقت ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں اگر اسے موجودہ نماز کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہوتو پہلے اسے اداکرے۔ اس کے بعد فوت شدہ نمازپڑھے۔ واللہ اعلم۔----- شیخ ابن جبرین-----
نما ز میں شک کرنا
سوال: میں کبھی کبھی نماز میں بھول جاتی ہوں کہ میں نے سورہ فاتحہ پڑھی ہے یانہیں ۔ اس لئے میں اسے دوبارہ پڑھتی ہو۔کیا میرا یہ طریق کار درست ہے یاسجدہ سہو کرناچاہئے ؟
جواب: بعض لوگوں کودوران نماز کثرت سے وسوسے لاحق ہوتے رہتے ہیں اور انہیں تلاوت یا تشہد میں شک پیدا ہوجاتاہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ انسان کامل یک سوئی اور حضورقلب سے نماز اداکرے تاکہ اسے وسوسے اور اوہام کم سے کم ہوں۔ پھر بھی اگر شک غالب رہے اور اس کی عام عادت یہ ہوکہ وہ تلاوت کرلیتاہو۔ توایسی صورت میں تلاوت کا اعادہ اور تکرارمکروہ ہے اور اگر احتیاطا اعادہ ہوجائے تو سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا۔ ----- شیخ ابن جبرین-----
کم وقت گزرا ہوتو نسیان زدہ حصہ نماز مکمل کرلیں
سوال: ظہر کی نمازاداکرنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ میں آیاکہ میں نے حرف تین رکعتیں پڑھی ہیں، کیا میں چوتھی رکعت پڑ ھ کر سجدہ سہو کروں یا دوبارہ پوری نماز پڑھوں؟
جواب: اگر نماز پڑھنے والا شخص ایک رکعت یا اس سے زیادہ ترک کردے پھر اسے یاد آئے کہ اس سے نماز چھوٹ گئی ہے تو اگر وہ نماز کی جگہ پر ہی موجود ہویا مسجدمیں ہی ہو اور وقت بھی چار پانچ منٹ سے زیادہ نہ گزرا ہو تو اس صورت میں وہ نماز کا متروکہ حصہ مکمل کرکے سجدہ سہو کرے اور اگر اسے زیادہ کے بعد یاد آئے مثلاً نصف گھنٹہ بعد یا مسجد سے نکل جانے کے بعد یاد آئے تو اس صورت میں نماز دوبارہ پڑھ کررکعات کے درمیان عدم تسلسل کی وجہ سے پہلی نما ز کالعدم ہوگی۔----- شیخ ابن جبرین -----
نماز توڑنا
سوال: مجھے دوران نماز یاد آیاکہ میں ناپاک کپڑے میں نمازپڑھ رہی ہوں کیا اس حالت میں مجھے نماز توڑکر دوبارہ پڑھنا ہوگی ،نیز وہ کون سے حالات ہیں جن میں نماز توڑنا جائز ہے؟
جواب: جس شخص کودوران نماز معلوم ہو جائے کہ اسے پلیدی لگی ہوئی ہے اس کی نماز باطل ہوجائے گی اور اگر اسے نماز مکمل ہونے پر اس کا علم ہو تو اس کی نما ز درست ہوگی اس کے لئے اعادہ ضروری نہیں ہے۔
اگر نمازی کو دوران نماز پلیدی کا علم ہوجائے اور اس کا ازالہ فوری طور پر ممکن بھی ہوتو وہ اس کا ازالہ کرے اور نماز مکمل کرے۔ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دوران نماز آگاہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ اتاردئیے سبق تخریجہ صـ 56۔ اور اپنی پہلی (اداشدہ ) نماز کو باطل نہیں کیا۔
اسی طرح اگر اسے اپنی پگڑی میں نجاست کا علم ہو اور فوراً اسے اتاردے تو وہ گزشتہ نماز پر ہی بنیاد رکھے گا۔ البتہ اگر اسے ازالہ نجاست کے لئے زیادہ عمل کرنا پڑے مثلاً قمیص یاشلوار وغیرہ اتارنے کی ضرورت ہو تو وہ اسے اتارنے کے بعد نئے سرے سے نماز پڑھے گا۔
اسی طرح اگر اسے یاد آئے کہ وہ بے وضو نماز پڑھ رہاہے یا دوران نماز بے وضو ہوگیا یا کسی اور وجہ مثلاً ہنسنے وغیرہ سے اس کی نماز ٹوٹ گئی ہے تو وہ دوبارہ نماز پڑھے گا ۔ ----- شیخ ابن جبرین-----
دعاء استخارہ ، دعا ء حاجت اور دعاء استسقاء کا موقعہ محل
سوال: دعاء استخارہ، دعاء حاجت اور دعاء استسقاء سلام پھیرنے کے بعد کرنی چاہیئے یاتشہد کے بعد یا آخری سجدوں کے درمیان یا یہ تمام صورتیں ہی جائز ہیں۔
جواب: دعاء استخارہ تودورکعت پڑھ کر سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر کرنی چاہئیے کہ حدیث سے ثابت ہے۔
دعاء حاجت کی حدیث مشہور نہیں ہے۔ لیکن اگر اسے پڑھنے میں کوئی حر ج نہیں ہے ۔ اس میں بھی دعا سلام کے بعد کرنی چاہیئے جیساکہ ابوموسیٰ کے واقعہ میں بیان ہواہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بھائی کے لئے دورکعت نماز کے بعد دعا کی تھی۔
استسقاء (بارش کی دعا) کاطریقہ یہ ہے کہ پہلے دورکعت نماز پڑھی جائے اس کے بعد کھڑا ہوکر ایک خطبہ دیا جائے اور اس کے آخر میں دعا کی جائے ۔ ----- شیخ ابن جبرین-----
عورتوں کو گھر میں اذان کے بعد نماز پڑھ لینی چاہئیے
سوال: گھر کے اندر عورتیں اذان کے بعد نماز پڑھیں یا تکبیر کے بعد؟
جواب: نماز کا وقت ہوجانے کے بعد جو عورتیں گھر میں ہوں وہ نمازپڑھ لیں اور تکبیر کا انتظارنہ کریں۔ اگر موذن وقت کے ہوتے ہی اذان کہہ دے تو وہ اذان سننے کے بعد نماز پڑھ لیں۔ اول وقت سے تاخیر بھی ان کے لئے جائز ہے۔ واللہ اعلم۔
معمر عورت نماز کے لئے وضو کرنے سے قاصر ہے
سوال: ہماری والدہ کی عمر نوے سال ہوچکی ہے اور وہ کسی دوسر ے کی مدد کے بغیر از خود اٹھ کر وضو نہیں کرسکتیں۔ ان کے نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے؟ کیا ان کے لئے کوئی رخصت ہے؟ ہماری راہنمائی فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ کو جزاعطاکرے ؟
جواب: اگر آپ کی والدہ کاشعور ختم ہوگیاہے اور عقل جواب دے چکی ہے تو اس حالت میں نہ روزہ رکھنا فرض ہے اور نہ نماز پڑھنا کیونکہ وہ شریعت کی پابند نہیں رہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان ہے : ’’رفع القلم عن ثلاثۃ‘‘۔
تین قسم کے لوگوں کے عمل لکھے نہیں جاتے ۔ ان میں سے ایک مجنون آدمی ہے جب تک وہ باشعور نہ ہوجائے سنن الترمذی ، کتاب الحدود ، باب ماجاء فیمن لایجب علیہ الحد ، حدیث : (1423) (صحیح ) سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق ، با ب طلاق المعتوہ والعغر والنائم ، حدیث: (2041) (صحیح ) واللفظ لابن ماجہ ۔اس کے اعمال لکھے نہیں جاتے ۔ ان میں سے ایک مجنون آدمی ہے جب تک وہ باشعور نہ ہوجائے اس کے اعمال لکھے نہیں جاتے۔ یہ عورت اگر چہ مجنون تو نہیں ہے بلکہ یہ الحمد للہ اس سے محفوظ ہے لیکن کبرسنی کے باعث وہ شعور سے محروم ہوچکی ہے تو ایسے میں اس پر نہ روزہ رکھنا فرض ہے اور نہ پڑھنا اس وقت وہ بچے کی مانند ہے نہ اسے گناہ ہے اور اور نہ تمہیں بلکہ ہ شریعت کی پابند نہیں رہی اس کا نامہ اعمال بند ہو چکاہے۔
اگر اس کی فہم ودانست بالکل صحیح ہے تو اس پر نماز بھی فرض ہے اور روزہ بھی ۔البتہ اگر وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہوتو اس کی طرف سے ایک مسکین کو روزانہ کھانا کھلا دیا جائے۔ اس کی مقدار گندم یا چاول وغیرہ ہے۔ یہ جب ہے جب وہ بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتی ہو اور اس میں شعور موجود ہو اسے میں اس پر نماز پڑھنا فرض ہے وضو کرنے کے لئے اس کی بیٹی یا ہو بہو کو اس کی مدد کرنی چاہیئے اوراسے ہر حال میں میں نماز پڑھنی چاہیئے ۔ واللہ اعلم۔ ----- شیخ صالح بن فوزان-----
آپریشن ہونے کی صورت میں نمازپڑھنے کا طریقہ
سوال: ایک شخص کوہسپتال میں داخل کرایاگیا اور اس کا آپریشن ہوگیا۔ وہ تین دن تک نماز نہیں پڑھ سکا ۔کیا اسے صحت مند ہونے کے بعد تین دنوں کی شدہ نماز یں پڑھنا ہوں گی یانہیں؟
جواب: ایسے شخص کو نماز وقت سے موخر نہیں کرنی چاہیئے تھی وہ جس حالت میں بھی تھا اسی میں نماز پڑھ لیتا۔ کھڑاہوسکتا تو کھڑا ہوکر پڑھ لیتا وگرنہ بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکتا تو لیٹ کر اشار ے سے نماز اداکرلیتا۔ اس طرح اگر وہ کسی تکلیف کے بغیر وضو ء کرسکتاہے تو بہتر وگر نہ تیمم کرلینا اور اسے اعادہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس کیلئے نماز کو وقت سے موخر کرنا جائز نہیں تھا۔اب اس کی تین دن کی نمازیں رہ گئی ہیں تو اسے فوراً باترتیب قضا دینی چاہیئے ۔ واللہ المستعان۔----- شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ-----
عورتوں کو مسجد میں بیٹھ کر دنیوی باتیں نہیں کرنی چاہیئے
سوال: کچھ عورتیں مسجد میں مسجد نماز کے وقت ایک دوسرے سے باتیں کرتی رہتی ہیں ۔ کبھی کبھی امام کے رکوع کرنے تک ان کی باتیں ختم نہیں ہوتیں۔ ان کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟
جواب: مسجد میں آنے والے شخص کو مسجد اورعبادت کے قندس کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے ۔ اسے دنیا کی باتوں میں مشغول نہیں ہونا چاہیئے ۔ایسے میں وہ اس کے تقدس کو مجروح کرتاہے، عبادت سے ہٹ جاتاہے اور اس پاکیزہ جگہ کی فرصت اس سے چھن جاتی ہے۔
امام کے ساتھ شروع سے نماز میں شامل نہ ہوکر باتیں کرتے رہنا تو اس سے بدرجہ اولیٰ ممنوع ہے ۔ اس سے ایک تو تکبیر تحریمہ کا ثواب ضائع ہوجاتاہے۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ ایسا شخص رکعت ضیاع کے دھانے پر لے جاتاہے ۔ تیسرا یہ ہے کہ وہ امام اور باقی نمازیوں کو پریشان کرتاہے۔ ----- شیخ صالح بن فوزان-----
عورت کابازار میں نمازپڑھنا
سوال: کیاعورت بازار میں نمازپڑھ سکتی ہے؟
جواب: مردوں کے لئے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فرض ہے۔ عورت کے لئے اس کا گھر افضل ہے۔ لیکن اگر اسے کسی مجبوری کے باعث بازار میں نمازپڑھنی پڑے اوروہاں پردہ بھی موجود ہوتو یہ اس کے لئے ممنوع نہیں ہے۔ ----- شیخ ابن جبرین-----
سجدہ تلاوت ہرحالت میں میں جائز ہے
سوال: کیا یہ بات صحیح ہے کہ مسلمان پر کافر کی نظربد نہیں کرتی۔ اگر ایسے ہی تھے تو اس کی دلیل کیا ہے۔ نیز اگر تلاوت کے دوران سجدہ کرنا ہو تو کیا سراسر جسم ڈھانپے بغیر جس حالت میں بھی ہوں سجدہ کروں؟
جواب: یہ بات صحیح نہیں ہے کافر کی بھی نظر بدہوسکتی ہے کیونکہ نظرلگنا برحق ہے۔
سجدہ تلاوت برہنہ سر وغیرہ کسی بھی حالت میں کیا جاسکتاہے کیونکہ راجح نظریہ یہ ہے کہ سجدہ تلاوت کی حیثیت نماز کی سی ہے۔ ----- شیخ ابن جبرین -----