• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

٭٭ خواتین کی نماز اور چند مسائل اورعورت کا نماز کے لئے مسجد میں جانا ٭٭

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
٭٭ خواتین کی نماز اور چند مسائل ٭٭


عورت کا نماز کے لئے مسجد میں جانا

عورت کا گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے


سوال: کیا عورت کے لئے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے یا مسجد حرام میں نماز پڑھنا افضل ہے؟

جواب: مرد اورعورت دونوں کے لئے گھر میں نفل نماز پڑھنا افضل ہے ۔ چنانچہ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ :

’’آدمی کے لئے نما زفرض کے علاوہ باقی تمام نمازیں گھر میںپڑھناافضل ہے‘‘۔ صحیح البخاری ، کتاب الأذان ، باب صلاۃ اللیل ، حدیث : (731) جزء من الحدیث ۔ صحیح المسلم ، کتاب الصلاۃ ، باب استحاضۃ صلاۃ النافلۃ فی بیتہ وجواز ہا فی المسجد ، حدیث : (781)۔ خودنبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم بھی نوافل گھر میں پڑھاکرتے تھے حالانکہ آپ ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے فرمایا ہے کہ : ’’صلاۃ فی مسجدی ہذا خیر من ألف صلاۃ فیم عداہ إلاالمسجدالحرام‘‘۔

’’میری اس مسجد کی نماز مسجدحرام کے علاوہ باقی تمام جگہوں سے ایک ہزاردرجہ افضل ہے‘‘۔ صحیح البخاری ، کتاب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ ، باب فضل الصلاۃ فی مسجد مکۃ والمدینۃ ، حدیث: (1190) صحیح المسلم ، کتاب الحج ، باب فضل الصلاۃ بمسجد ی مکۃ والمدینۃ ، حدیث : (1394) ۔

لہٰذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر ظہرکی اذان ہوجائے اور آپ مکہ مکرمہ میں اپنے گھر میں موجود ہو ںا ور مسجد حرام میں نماز ظہر ادا کرنا چاہیں تو افضل یہ ہے کہ آپ ظہر کی سنت اپنے گھر میںپڑھیں پھر مسجد حرام میں آئیں اور وہاں ’’تحیۃ المسجد‘‘ پڑھ لیں اسی بناپر کچھ علماء کانظریہ یہ ہے کہ مساجدثلاثہ (مسجد حرام، مسجدنبوی اور مسجد اقصیٰ) میں ثواب کااضافہ فرائض کے ساتھ مخصوص نوافل میں یہ اضافہ نہیں ہوتاجب کہ صحیح رائے یہ ہے کہ یہ اضافہ فرائض اور نوافل دونوں کے لئے ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ ان تین مساجد میں ادا کئیے گئیے نوافل سے افضل ہیں۔ بلکہ نفل نمازگھرہی میں افضل ہے۔ البتہ اگر کوئی شخص مسجد حرام میں داخل ہوکر ’’تحیۃ المسجد ‘‘ پڑھے تو اس کا ثواب دیگر مساجد میں پڑھی جانے والی ’’ـتحیۃ المسجد ‘‘ سے ایک لاکھ درجہ زیاد ہ ہے اور مسجد نبوی کی تحیۃ المسجد مسجد حرام کے علاوہ تمام مساجد کی تحیۃ المسجد سے ایک ہزار درجہ بہتر ہے ۔ اسی طرح اگر آپ مسجد حرام میں پہنچ کر تحیۃ المسجد پڑھیں ۔فرض نماز کا وقت نہ ہوا ہو اور آپ نفل پڑھنے لگ جائیں تو یہ نماز باقی مساجد سے ایک لاکھ درجہ بہتر ہے۔

رہا یہ سوال کہ عورت کے لئے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے یا مسجد حرام میں افضل ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس کے ساتھ دیگر مساجد میں نماز فرض کے لئے گھر میں پڑھنا افضل ہے ۔ البتہ قیام رمضان کے بارے میںکچھ ارباب علم یہ کہتے ہیں کہ عورتوں کے لئے قیام رمضان کے لئے مساجد میں آناافضل ہیاس کی دلیل میں وہ یہ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے گھروالوں کو اکٹھا کرکے انہیں قیام رمضان کرایا تھا اسی طرح حضرات عمر اور علی رضی اللہ عنہما دونوں اپنے دور خلافت میں ایک آدمی کو مسجد میں امامت کے لئے کہا کرتے تھے۔

میرے خیال میں یہ رائے محل نظر ہے کیونکہ حضرات عمر وعلی رضی اللہ عنہما سے بیان کردہ دونوںروایات ضعیف ہیں ان سے دلیل نہیں لی جاسکتی ۔ رہا نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے گھر والوں کو جمع کرکے نماز پڑھانا تو اس میں یہ وضاحت نہیں ہے کہ آپ ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں مسجد میں قیام کرایا کرتے تھے لہٰذا میرے نزدیک یہ مسئلہ قابل غور ہے کہ آیا عورت کا قیام رمضان میں مسجد حرام میں افضل ہے یا گھر میں؟ بنیادی بات یہ ہے کہ عورت کے لئے اس کا گھر ہی افضل ہے البتہ اگر کس واضح دلیل سے یہ بات ثابت ہوجائے کہ اس کے (قیام رمضان ) کے لئے مسجد حرام افضل ہے تو یہ الگ بات ہے۔

تاہم اگر کوئی عورت مسجد حرام میں آجائے اورقیام میں شامل ہوجائے تو امید ہے کہ اسے اس فرمودہ رسول ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم میں بیان کردہ ثواب حاصل ہوجائے گا :’’صلاۃ فی المسجد الحرام بمأۃ الف صلاۃ‘‘۔ ’’مسجد حرام کی ایک نماز ایک لاکھ نماز کے برابر ہے ‘‘۔ صحیح البخاری ، حدیث: (1190) صحیح المسلم ، حدیث : (1394) سنن ابن ماجہ ، حدیث : (1406) ۔

یہ بات ذہن نشین رہے کہ اگر مسجد حرام اس کی آمد باعث خرابی ہوتو اس کا گھر میں رہنا بہتر ہے ۔ --- شیخ ابن عثیمین---

نماز تراویح کے لئے عورت کا مساجد میں گھومنا

سوال: کیا عورت یا کسی بھی شخص کے لئے یہ بات باعث حرج تو نہیں کہ وہ خوب صورت آواز والے امام کی تلاش اور سنت تراویح کی بہتر ادائیگی کے لئے نماز تراویح کچھ دن ایک مسجد میں ادا کرے اور کچھ دن دوسری مسجد میں ؟

جواب: اگر عورت رخصت پر عمل کرتے ہوئے اپنے گھر سے باہر نکل کرمسجد میں جاتی ہے تو اسے نماز تراویح اپنے گھر سے قریب ترین مسجد میں پڑھنی چاہیئے ۔ اس کا مساجد میں گھومنا پھر ناباعث خرابی بھی ہے اور طویل مسافت کرنے کی مشقت کاباعث بھی جس میں اسے کار،ڈرائیور ،غیر محرم سے تنہائی کی بھی ضرورت لاحق ہوسکتی ہے حالاں کہ یہاں کوئی ایسا صحیح مقصد پیش نظر نہیں ہے جس کی خاطر وہ ان تمام ممنوعات کی مرتکب ہو۔ اس کی یہ تگ ودو نماز کی خاطر نہیں بلکہ آوازوں سے محظوظ ہونے کے لئے ہے۔ اس طرح تو وہ مقصد ہی فوت ہوجاتاہے جس کے لئے نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مسجد جانے کی اجازت دی تھی۔

اس ناپسندیدہ روش کے چل نکلنے میں کچھ قراء کا بھی کردارہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں ہدایت دے ۔ ان میں کچھ قراء تلاوت میں تکلف کرتے ہیں اور میناروں کی بلندی سے باہر آواز پہنچانے کا اہتمام کرتے ہیں حالانکہ اس سے قریب کی مساجد میں نمازیوں کوپریشانی ہوتی ہے۔ میری رائے تو یہ ہے کہ لوگ اپنی اپنی مساجد میں نماز پڑھیں، اطاعت وعبادت کے ذریعے اسے آباد کریں اور تکلف چھوڑدیں ۔

میں عورتوں کو بالخصوص یہ نصیحت کروں گا کہ ہر عورت اپنے گھر سے قریب ترین مسجد میں نماز پڑھے اس میں اس کے لئے تحفظ بھی زیادہ ہے اور خرابی سے بچائو بھی۔ میں ائمہ مساجد کو بھی پرزور نصیحت کروں گا کہ وہ اعتدال کی راہ اختیار کریں اور تکلف وتصنع سے بچیں ۔ ان کا مطمع نظر لوگوں کو اپنی مساجد میں کھینچ کرلانا نہیں ہونا چاہیئے اس چیز میں اخلاص بھی ہے اور ریاکاری اور شنوائی سے احتراز بھی۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق معلوم کرنے اور اس پر عمل پیرا ہونے کی توفیق نصیب فرمائے ۔ آمین ۔ --- شیخ صالح بن فوزان---

عورت کاگھر میں نما ز پڑھنا مسجد نبوی اور مسجد حرام میں نماز پڑھنے سے افضل ہے

سوال: یہ بات تو طے شدہ ہے کہ عورت کے لئے گھر میں نمازپڑھنا مسجد میں نماز پڑھنے سے افضل ہے لیکن اگر ایک عورت مسجد حرام اور مسجد نبوی کو چھوڑ کر گھر میں نماز پڑھے تو کیا اسے حرمین میں ملنے والا اضافی ثواب بھی ملے گا؟

جواب: جہاں تک مکہ مکرمہ کا تعلق ہے تو یہاں پور ے حرم میں اضافی ثواب ملتاہے اگر ایک عورت مکہ مکرمہ میں اپنے گھر میں نماز پڑھتی ہے تو اسے ان شاء اللہ اضافی ثواب ملے گا۔ البتہ مدینہ منورہ میں اضافی ثواب مسجد نبوی کے ساتھ مخصوص ہے تاہم اگر کوئی عورت نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان پر عمل پیرا ہوتے ہوئے مدینہ منورہ میں اپنے گھر میں نماز پڑھتی ہے تو اس کے لئے بہت زیادہ ثواب کی امید ہے۔ اسے نیت صالح اور مسجد رسول ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم میں نماز کی محبت دونوں کاثواب ملے گا۔ واللہ اعلم ۔ --- شیخ صالح فوزان---

عورت کے لئے نمازتراویح گھر میں پڑھنا افضل ہے

سوال: کیا عورت کے لئے نماز تراویح گھرمیں پڑھنا افضل ہے یا جماعت کے ساتھ پڑھنا افضل ہے ؟

جواب: عورت کے لئے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔ مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز فرض، نماز تراویح، نماز کسوف (سورج گرہن کی نماز) اور نماز جنازہ پڑھنا بھی اس کے لئے جائز ہے لیکن اس کی شرط یہ ہے کہ وہ مکمل طور پرباپردہ ہو اس نے جسم اور کپڑوں کو زینت اور خوشبو سے بچا رکھا ہو۔

نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ :

’’لاتمنعوا اماء اللّٰہ مساجد اللّٰہ ، وبیوتہن خیرلہن، ولیخرجن تفلات‘‘۔

’’اللہ کی باندیوں کو اس کی مسجدوں سے نہ روکو اور ان کے گھر ان کے لئے بہتر ہیں ، انہیں زینت اور خوشبو کے بغیر باہر جاناہوگا‘‘۔ مسند احمد (2/438) حدیث : (9645) قال شعیب صحیح وہذا اسنادہ حسن، صححہ ابن خزیمۃ حدیث : (1679) وابن حبان حدیث : (2214) قال الالبانی صحیح ابوداود حدیث : (565) ۔

حدیث میں عورت کے لئے مشروط طورپر مسجد میں جانے کا جواز بیان ہوا ہے اور وہ یہ کہ وہ حیا ء وحجاب کی پتلی ہو، زیب وزینت اور خوشبو نہ لگائے ہوئے ہو، اور مردوں کے پیچھے صف بنائے۔ مذکورہ بالا شرط کو بجالاتے ہوئے بھی اس کے لئے گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے کیونکہ اس میں اس کا تحفظ بھی ہے اور خود پریشان ہونے اور لوگوں کو پریشان کرنے سے بچائو بھی ۔

اگر وہ ان شرائط کی پابندی نہیںکرتی تو اس کے لئے باہر جانا حرام اور باعث گناہ ہے خواہ وہ نماز ہی کے ارادے سے جائے ۔ --- شیخ صالح بن فوزان---

اگر نماز تراویح کے لئے جانے سے گھریلو ذمہ داریاں متأثر ہوں

سوال: اگر نماز تراویح کے لئے جانے سے عورت کی گھریلو ذمہ داریاں یا کوئی معمولی ذمہ داری متأثر ہوتو اس کے لئے جانے کا کیاحکم ہے؟

جواب: اگر نماز تراویح کے لئے جانے سے عورت کی کوئی گھریلو ذمہ داری متأثر ہوتو اسے گھر سے باہر نہیں جانا چاہیئے بلکہ وہ گھر میں رہ کر اپنے فرائض منصبی سر انجام دے۔ کیونکہ اس کے لئے گھر میں نماز پڑھنا ممکن اور زیادہ آسان ہے نیز اس لئے بھی کہ گھر یلو ذمہ داری کو سر انجام دینا صحیح نظریہ کے مطابق فرض ہے جب کہ مسجد میں جانا صرف جائز ہے اور وہ بھی اس وقت جب اس سے کوئی نقصان نہ ہو رہا ہو ۔ --- شیخ صالح بن فوزان---

عورت کانماز عید کے لئے جانا

سوال: کیا نماز عید کے لئے عورت کاگھرسے باہر جانا جائز ہے؟

جواب: عیدین کی نماز کے لئے عورتوں کاگھر سے باہر جانا شریعت کی طرف سے طے کردہ ہے انہیں اس کی خاص طورسے تاکید کی جائے۔ حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :

’’ہمیں نمازعید کے لئے جانے کو حکماً کہاجاتاتھایہاں تک کہ کنواری بچی اورحائضہ عورت کو بھی ساتھ لے جانے کا حکم تھا‘‘۔ --- صحیح البخاری ، کتاب العیدین ، باب التکبیر ایام منی واذا غدا إلی عرفۃ ، حدیث : (971) ---

وہ مسلمانوں کے ساتھ مل کر تکبیرات پڑھیں اور ان کے ساتھ دعا میں شامل ہوں اور اس دن کے فیوض وبرکات کی امید رکھیں۔ ایک روایت میں اس طر ح ہے کہ: ’’رسول اکرم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کنواری دوشیزائوں،باپردہ اور حائضہ عورتوں کو نماز عید ین کے مواقع پر گھروں سے باہر لے جاتے۔ حائضہ عورتیں نماز عید کی جگہ سے الگ بیٹھ جاتیں اورنیکی اور دعائوں مسلمانوں کے ساتھ شرکت کرتیں ‘‘۔

(ام عطیہ رضی اللہ عنہا نے ) ﷴ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر ہم میں سے کسی کے پاس اوڑھنے کے لئے چادر نہ ہو تو وہ کیا کرے؟آپ ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’نلبسہاأختہامن جلبابہا‘‘۔ ’’اس کی بہن اسے اپنی چادر پہنادے‘‘۔--- صحیح البخاری ، کتاب الحیض ، باب شہود الحائض العیدین ودعوۃ المسلمین ویعتزمن المصلی ، حدیث : (324) ، صحیح المسلم ، کتاب صلاۃ العیدین ، باب ذکر اباحۃ خروج النساء فی العیدین الی المصلی وشہود الخطبۃ مفارقات للرجال ، حدیث : (890) واللفظ للمسلم ۔ --- البتہ یہ امر ذہن نشین رہے کہ نماز عید کے لئے جاتے وقت عورتوں کو خوشبو اور فتنہ انگیز زیب وزینت سے اجتناب کرتے ہوئے انتہائی سادگی کے ساتھ مردوں سے الگ رہنا چاہیئے ۔--- شیخ ابن جبرین---

دوران نماز عورت کالباس

سوال: اگر دوران نماز عورت کے ہاتھ پائوں برہنہ ہوں تو اس کاکیا حکم ہے؟

جواب: نماز کے دوران عورت کے لئے پورے بدن کو ڈھکنا ضروری ہے۔ چہرے کے علاوہ اس کا پورا جسم واجب الستر ہے۔ اگر اس کے پاس محرم موجود ہوں یا وہ تنہا نماز پڑھ رہی ہو تو وہ نماز کے دورا ن چہرے پر پردہ نہیں کرے گی۔

اگر وہ غیر محرم مردوں کی موجودگی میں نماز پڑھ رہی ہوتو وہ نماز کے دوران اور نماز علاوہ بھی چہرے کا پردہ کرے گی۔ کیونکہ چہر ہ واجب الستر ہے۔

ہاتھوں اور پائوں کو نماز کے دوران ہرصورت میں ڈھکنا ضروری ہے خواہ غیر محرم مرد موجود ہوں یا نہ ہوں۔ کیونکہ نماز کے دوران چہرے کے علاوہ عورت کاپورا جسم واجب الستر ہے۔ --- شیخ صالح بن فوزان---

دستانہ پہن کرنماز پڑھنا

سوال: اگر اجنبی (نا محرم)مرد موجود نہ ہو تو کیا عورت کے لئے دستانہ پہن کر نماز پڑھنا درست ہے؟

جواب: دستانہ ہاتھ کی جراب ہے لہٰذا اگر عورت احرام کی حالت میں ہوتو اس کے لئے اسے پہننا ناجائز ہے ۔چنانچہ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے :

’’لاتنتقب المرأۃ ولا تلبس القفازین‘‘۔

’’عورت نقاب بھی نہ لے اوردستانے بھی نہ پہنے ‘‘۔ المعجم الأوسط لطبرانی (5/10) حدیث : (6420) اسنادہ ضعیف ، فیہ عمر بن صہبان ، ضعیف ، (التقریب ) وانظر مجمع الزوائد (3/222) قلت فی الصحیح بعضہ ، ابو داود (1825) (صحیح ) صحیح البخاری ، حدیث : (1838) جزء من الحدیث۔

لہٰذا احرام کے دوران عورت کے لئے دستانے پہنناحرام ہے۔

البتہ اگر عورت احرام کی حالت میں نہ ہو اورنمازپڑھ رہی ہو اور اس کے نزدیک غیر محرم مرد بھی نہ ہوں تو اس کے لئے بہتر اورافضل یہ ہے کہ وہ دستانے کو ہاتھ سے اتارکر نمازپڑھے تاکہ اس کے ہاتھ جائے نماز کوبراہ راست لگیں۔ اسی طرح اگر اس کے آس پاس غیر محرم مردموجود ہوں اور اس نے اپنا چہرہ ڈھکا ہوتو اسے سجدہ کرتے وقت اپنے چہرے سے کپڑا ہٹالینا چاہیئے کیونکہ جسم پر پہنے ہوئے کسی کپڑے مثلاً :رومال ، دوپٹہ ، لباس وغیرہ پرسجدہ مجبوری کے بغیر کرنا مکروہ ہے۔ اس کی دلیل حضرت انس رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ :

’’ہم نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ گرمی کے موسم میں نماز پڑھاکرتے تھے۔ اگر کسی شخص کے لئے زمین پرپیشانی کولگانا ممکن نہ ہوتا تو وہ کپڑا بچھا کر اس کے اوپرسجدہ کرلیتا‘‘۔ --- سنن ابوداود، کتاب الصلاۃ ، باب الرجل یسجد علی ثوبہ ، حدیث : (660) (صحیح ) ---

اس میں پیشانی پر کپڑا لگنے کوعدم استطاعت کے ساتھ مشروط قراردیاگیاہے۔

پینٹ ور باریک لباس میں نماز پڑھنا

سوال: کیا پینٹ پہن کر نمازپڑھنا جائز ہے اس سلسلے میں عورت اور مرد دونوںکے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے ؟ نیز اگر عور ت نے ہلکا پھلکا لباس پہن رکھا ہو جس سے اس کا واجب الستر حصہ نظر نہ آتا ہو اس میں اس کا نماز پڑھنا کیسا ہے؟

جواب: ایسا تنگ لباس جو جسم کے اعضاء کی عکاسی کررہا ہو اس سے عورت کا جسم اور اس کے اعضاء کی وضع وقطع واضح طورسے معلوم ہورہی ہو اسے پہننا مراد اور عورت دونوں کے لئے ناجائز ہے۔ عورت کے لئے یہ ممانعت اور بھی سخت ہے کیونکہ اس میں فتنہ انگیزی کاعنصر زیاد ہ ہے۔

جہاں تک نماز کا تعلق ہے تو اگر آدمی ایسے لباس میں واجب الستر حصہ ڈھانپ کر نماز پڑھے تو اس کی نماز صحیح ہے البتہ وہ اس تنگ لباس کی بناپر گناہ گار ہوگا کیونکہ اس کی تنگی کی بناپر نماز کے بعض ارکان متأثر بھی ہوسکتے ہیں۔ ایک توتھا یہ پہلو دوسری بات یہ ہے کہ ایسا لباس لوگوں میںفتنہ پیدا کرنے اور ان کی توجہ کو اس طرف مبذول کرانے کاباعث بھی بن ہوسکتا ہے بالخصوص جب اسے عورت پہنے ہوئے ہو۔

لہٰذا عورت کے لئے ضروری ہے کہ وہ ایسا لباس پہنے جو کھلاہو اور اس کے جسم کو چھپارہا ہو اس کے جسم کے کسی حصے کی عکاسی نہ کررہا ہو اور نہ ہی لوگوں کی نظروں اپنی طرف کھینچ رہا ہو۔ باریک اور دبیز بھی نہ ہو بلکہ وہ لباس عورت کے جسم کو مکمل طور سے اس طرح ڈھانپ رہا ہو کہ اس کے جسم کا کوئی حصہ دکھا ئی نہ دے۔چھوٹا بھی نہ ہوکہ اس کی پنڈلیوں ،بازوں اور ہتھیلیوں سے کم پڑرہاہو۔ عورت غیرمحرم مردوں کے سامنے چہرہ بھی ننگا نہ کررہی ہو۔ اپنے تمام بدن کوڈھانپے ہوئے ہو۔ اس طرح باریک اوردبیز بھی نہ ہو کہ اس کا جسم اور اس کا رنگ اس کے اندر سے دکھائی دے رہا ہوکیونکہ ایسا لباس تو سرے سے ستر پوش ہی نہیں ہے۔

حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

’’صنفان من أہل النار لم أرہما، رجال معہم سیاط کأذباب البقر یضربون بہا الناس،ونساء کاسیات عاریات مائلات ممیلات رؤوسہن کأسنمۃ البخت لایجدن رائحۃ الجنۃ‘‘۔

’’میری امت میں سے دوقسم کے لوگ دوزخی ہیں میں نے انہیں دیکھانہیں ہے۔ ایک تو ایسے مرد جن کے پاس گائے کی دموں کی مانند لاٹھیا ں ہوں گی اور وہ ان کے ساتھ لوگوں کو ماریں گے۔ دوسرے وہ عورتیں جوملبوس کے ہونے کے باوجود برہنہ ہوں گی مردوں کی طرف مائل خود بھی ہوں گی اور انہیں بھی اپنی طرف مائل کردیں گی ۔ ان کے سر بختی اونٹوں کی کوہانوں کی طرح ہوں گے وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکیں گی‘‘۔ یہ حدیث صحیح ہے۔ صحیح المسلم ، کتاب اللباس ، باب النساء الکاسیات العاریات المائلات المیملات ، حدیث : (2128) ، مسند احمد (2/356) ، حدیث : (8665) ۔

’’برہنہ ‘‘ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ انہوں نے بظاہر لباس پہن رکھا ہوگا حقیقت میں برہنہ ہوں گی کیونکہ یہ لباس ساتر نہیں ہوگا شکل وصورت میں صرف لباس ہوگا ۔باریک اور دبیز ہونے کے باعث ،تنگ اور پورا نہ ہونے کی وجہ سے جسم کو نہیں چھپائے گا ۔مسلمان عورتوں کو اس بات سے اچھی طرح آگا ہ رہنا چاہیئے ۔ --- شیخ صالح فوزان---

چھوٹے لباس میں عورت کی نماز

سوال: کیا ایک عورت باقی عورتوں کے ساتھ مل کر ایسے لباس میں نماز تراویح اداکرسکتی ہے جو سائز میں چھوٹا ہو۔ پنڈلیوں کے کچھ حصے یا بازئوں کو مکمل طور سے ڈھانپ نہ رہا ہو؟

جواب: عورت نمازتراویح اداکررہی ہو یا کوئی اور نماز ، اکیلی ہو یا دیگرعورتوں اور محرم مردوں کے ساتھ ، اس کی نماز ایسے لباس کے بغیر صحیح نہیں ہوگی جوچہرے کے علاوہ اس کے پورے جسم کو ڈھانپ رہا ہو اور اگر وہ غیر محرم مردوں کی موجودگی میں نماز اداکررہی ہوتو اسے اپنے چہرے کو بھی ڈھکنا چاہیئے ۔ یہ بہن جو ایسے کپڑے میں نماز اداکررہی ہے جس سے اس کی پنڈلیوں کا کچھ حصہ ظاہر ہوتاہے اس کی نماز صحیح نہیں ہے۔ بلکہ لباس اس قدر کھلا ہونا چاہئیے کہ وہ پائوں کو بھی ڈھانپ رہا ہو۔ --- شیخ صالح فوزان---

عورت کی امامت ، صفوں کی درستگی اور طریقہ نماز
عورت کی امامت


سوال: کیا اسلام میں عورت کا امام مسجد بننا جائز ہے۔ کسی عورت کے امام بننے کے لئے کیا شرائط ہیں واضح فرماکر مشکور ہوں؟

جواب: نہیں،عورت کا مردوں کو امامت کرانا جائز نہیں ہے۔ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ :

’’أخّروہنّ من حیث أخرہن اللّٰہ‘‘۔ ’’جہاں اللہ تعالیٰ نے انہیں پیچھے رکھا وہاں تم بھی انہیں پیچھے رکھو‘‘۔ المصنف عبد الرزاق (3/58) حدیث : (5129) باب شہود النساء الجماعۃ ۔ نصب الرایۃ (2/29) حدیث (69) کتاب الصلاۃ ، باب الامۃ ، قلت حدیث غریب مرفوعاً وہو فی مصنف عبد الرزاق موقوف علی ابن مسعود ۔

علاوہ ازیں مسجد کی امامت ایک سرپرستی ہے اور سرپرستی صرف مردوں ہی کے لئے جائز ہے ۔ فرمان نبوی ہے کہ: ’’ماأفلح قوم ولّو أمرہم امرأۃ‘‘۔

’’جس قوم نے اپنا سرپرست عورت کوبنالیا وہ کسی صورت کامیاب نہیں ہوگی‘‘۔
صحیح البخاری ، کتاب المغازی ، باب البنی صلی اﷲ علیہ وسلم الی کسری ٰوقیصر حدیث : (4425) سنن الترمذی حدیث: (2262) مسند احمد (5/43) حدیث : (20438) حالکم (3/118)

حنبلیوں کے ہاں ایک صورت اس سے مستثنیٰ ہے جب کہ یہ ان کے ہاں کمزور نظریہ ہے اور وہ یہ ہے کہ اگر عورت قرآن مجید کو بہتر طورسے پڑھ سکتی ہو اور مرد سب کے سب ان پڑھ ہوں تو وہ آگے کھڑے ہوجائیں اور عورت کے پیچھے کھڑی ہوکر ان کی امامت کرے۔ اس بات کی ان کے ہاں کوئی دلیل نہیں ہے۔

مختصر یہ ہے کہ عورت کے لئے مردوں کا امام بننا جائز نہیں ہے۔ ہاں وہ اپنے ہی جیسی عورتوں کی امام بن سکتی ہے۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے جب کہ أم ورقہ کی روایت میں بیان ہوا ہے ۔ یاپھر وہ اپنے محرم مردوں کی امامت کرسکتی ہے۔ جہاں تک اجنبی یاعام سرپرستی کا تعلق ہے ۔ جیساکہ مسجد کی امامت ہے، تو یہ کسی صورت بھی جائز نہیں ہے۔ --- شیخ عبد اللہ بن حمید---

عورتوں کی امامت کی شرائط

سوال: اگر عورت، عورتوں ہی کی امامت کرنا چاہے تو کیا اس کی کوئی شرائط بھی ہیں؟

جواب: اگر عورت قرآن مجید کوبہتر طریقے سے اور کثرت سے پڑھ سکتی ہو تو اس کی امامت میں کوئی مانع نہیں ہے۔ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت أم ورقہ رضی اللہ عنہا سے کہاتھا کہ وہ اپنے اہل خانہ کی امام بنے ۔ مسند احمد (6/405) حدیث : (27284) ابو داود حدیث : (592) (حسن ) قال الالبانی حسن ۔--- شیخ عبد اللہ بن حمید---

نماز تراویح میں عورتوں کی امامت

سوال: کیا عورتیں اپنے میں سے کسی عورت کو نماز تراویح اوردیگر نمازوں کے لئے امام بناسکتی ہیں؟

جواب: عورتوں کے لئے نماز تراویح اور دیگر فرائض باجماعت اداکرنا جائزہے۔ ان میں سے ایک عورت ان کی امام بن جائے اور کسی ایک کے گھر یہ انتظام ہو جومردوں کی نظروں سے اوجھل ہو ۔ نبی کریم ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا کو رخصت دی تھی کہ وہ اپنے گھر میں اپنے اہل خانہ کی امام بنے۔

مسند احمد (6/405) حدیث : (27284) ابو داود حدیث : (592) (حسن ) --- شیخ صالح فوزان---

سوال:کیا عورتوں کے لئے اپنے میں سے کسی عورت کو تراویح اور دیگر نمازوں میں امام بنانا جائز ہے؟

جواب: ہاں یہ جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ حضرات عائشہ ، ام سلمہ اور ابن عباس رضی اللہ عنہم سے ایسی روایات منقول ہیں۔ امام بننے والی عورت کے درمیان کھڑی ہو اور جہری نمازوں کے لئے جہری قراء ت کرے۔ واللہ ولی التوفیق ۔ --- شیخ ابن باز---

نماز تراویح میں امام کے پیچھے قرآن مجید کی تلاوت سننا

سوال: کیا عورت یا مرد کے لئے نماز تراویح میں امام کے پیچھے قرآن مجید لے کر اس کی تلاوت کی پیروی جائزہے؟ پیروی کرنے والے کی آواز بلند ہونے یا بلند نہ ہونے میں کوئی فرق ہے؟

جواب: مقتدی مرد ہویا عورت اس کے لئے امام کی تلاوت قرآن مجید دیکھ کر سننا جائز نہیں ہے کیونکہ ایسا کرنے سے اس کی توجہ نماز سے ہٹ جائے گی۔ دورحاضرمیں کچھ نوجوان اس غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ حالانکہ ہمارے اسلاف میں یہ چیز نہیں پائی جاتی تھی۔ لہٰذا اسے چھوڑنا اور اس سے منع کرنا ضروری ہے۔ علماء نے تو ضرور ت کے پیش نظر امام کے لئے بھی قرآن مجید کو دیکھ کر تلاوت کرنے میں اختلاف رائے کیا ہے چہ جائیکہ مقتدی ایسے شروع کردے۔ --- شیخ صالح بن فوزان---

رکوع میں امام سے مختلف ہونا

سوال: کیا عورت یا کوئی بھی شخص امام سے پہلے رکوع، سجدہ یا سلام پھیر سکتاہے؟

جواب: مقتدی مر د ہو یا عورت اس کے لئے امام سے پہلے رکوع یا سجدہ کرنا یاسلام پھیرنا جائز نہیں ہے بلکہ اس پر فرض ہے کہ وہ امام کے بعد ان تمام کاموں کو بجالائے آپ ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ :

’’إنما جعل الإمام لیؤتم بہ ، فإذا کبر فکبروا ولا تکبروا حتی یکبر، وإذا رکع فارکعوا و ولاترکعوا حتی یرکع‘‘۔

’’امام کو اقتدا کے لئے مقررکیا جاتاہے ۔ جب وہ تکبیر کہے تو تم تکبیر کہو اس کے تکبیر کہنے سے پہلے تم تکبیر نہ کہو ۔ اور جب وہ رکوع کرے تو تم رکوع کرو ۔ جب تک وہ رکوع نہ کرے تم بھی رکوع نہ کرو‘‘۔ المعجم الأ وسط الطبرانی (4/274) حدیث : (5971) ۔ سنن ابو داود کتاب الصلاۃ ، باب الامام یصلی من قعود حدیث : (603) (صحیح )

جوشخص امام سے آگے بڑھتا ہے اس کے متعلق یہ وعید بیان ہے کہ اندیشہ ہے کہ کہیں اس کا سر گدھے کی طرح نہ ہوجائے ۔

لہٰذا مقتدی پرفرض ہے کہ جب تک امام سلام نہ پھیرلے وہ بھی سلام نہ پھیرے ۔ اگر وہ کسی شرعی عذ کے بغیر ایسے کرتا ہے تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔ واللہ اعلم۔ --- الشیخ ابن فوزان---

عورت کا آواز کے ساتھ نماز پڑھنا

سوال:اگرعورت کے ارد گرد اور عورتیں نہ ہوں اور وہ جہری نماز کے علاوہ سنن یا نوافل اداکررہی ہو تو کیا وہ خشوع پیدا کرنے یا نسیان سے بچنے کے لئے بلند آواز سے تلاوت کرسکتی ہے یانہیں؟

جواب: عورت کے لئے رات کی نمازیں بآواز پڑھنا مستحب ہے بشرطیکہ کسی اجنبی مرد کو اس کی آواز سنائی نہ دے رہی ہوکہ اس کی آواز اس کے لئے فتنہ انگیز بن جائے اور نہ ہی کسی کے لئے باعث تشویش ہو وگرنہ وہ خاموشی پڑھے ۔

دن کی نمازوں کو خاموشی سے پڑھے کیونکہ یہ سرّی نمازیں ہیں ان میں آواز کو کسی دوسرے شخص تک پہنچنے نہ دیا جائے۔ --- شیخ صالح بن فوزان---

نماز میں عورتوں کی صفیں

سوال: رمضان المبارک میں عورتیں مسجد کی آخری صفوںکو ترجیح دیتی ہیں جب کہ پہلی صفیں ان سے دور ہوتی ہیں اس سے ایک تو درمیان بہت سی جگہ خالی رہ جاتی ہے دوسرے یہ ہے کہ آخری صفوں میں بھیڑ بہت زیادہ ہوجاتی ہے تیسری بات یہ ہے کہ اگلی صفوں کی طرف جانے والی عورتوں کاراستہ بند ہوجاتاہے حالاںکہ وہ آپ ﷴ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان پر عمل پیرا ہونے کے لئے کرتی ہیں :

’’أفضل صفوف النساء آخرہا‘‘۔ ’’عورتوں کی بہترین صف آخری ہے ‘‘۔ --- صحیح المسلم ، کتاب الصلاۃ ، باب تسویۃ الصفوف واقامتہاوفصل الأول منہا والازدحام علی الصف الاوّل والمسابقۃ إیہا وتقدیم أولی الفضل وتقریبہم من الإمام حدیث: (440)جزء من الحدیث ۔ --- برائے مہربانی آگاہ فرمائیے ؟

جواب: اس مسئلہ میں قدر تفصیل ہے اور وہ اس طرح کہ اگر عورتوں اور مردوں کے درمیان پردہ حائل نہ ہوتو ان کی صفوں کی حیثیت وہی ہے جو اس حدیث میں بیان ہوئی ہے ’’خیر صفوف النساء آخرہا‘‘۔ (عورتوں کی بہترین صف آخری ہے) /صـ (117) صحیح المسلم ، حدیث : (440)۔

کیونکہ وہ مردوں سے دورہوتی جب کہ پہلی صف مردوں کے نزدیک ہوتی ہے ۔

اگر مردوں اور عورتوں کے درمیان پردہ حائل ہوتو مردوں کی طرح ان کی بھی پہلی صف بہتر ہے کیونکہ مذکورہ بالا قباحت موجود نہیں ہے۔عورتوں کو بھی مردوں کی طرف صف بندی کرنی چاہیئے پہلے صف اول مکمل کریں پھر دوسری شروع کی جائے اور یہ مردوں کی طرح پورے نظم ونسق کے ساتھ ہو ۔ --- شیخ صالح بن فوزان---

کیا نماز میں عورتوں کی صف بندی ضروری ہے ؟

سوال: کیاعورتوں کی صف بندی ضروری ہے ؟ نیز اگر عورتیں مردوں سے بالکل الگ تھلگ ہوکر جماعت میں شامل ہوں تو کیا ان کی پہلی اور باقی صفوں کا ثواب برابر ہے ؟

جواب: عورتوں کی صف بندی کاوہی طریقہ ہے جو مردوں کے لئے ہے ۔ یعنی صفیں بالکل سیدھی ہوں، پہلے پہلی صف مکمل بنائی جائے اس کے بعد دوسری اور تیسری ،نمازیوں کے درمیان جگہ خالی نہ ہو، اگر عورتوں اور مردوں کے درمیان کوئی رکاوٹ اور پردہ نہ ہو تو ان کی آخری صف افضل ہے کیونکہ وہ مردوں سے دور ہے۔ اگر مردوں اور عورتوں کی صفوں کے درمیان پردہ موجود ہو تو بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ ان کی پہلی صف افضل ہے کیونکہ مذکورہ بالا قباحت بھی نہیں ہے اور امام کے بھی زیادہ نزدیک ہے ۔ واللہ اعلم۔ --- شیخ صالح بن فوزان---

عورتوں کی کون سی صف کا ثواب زیادہے ؟

سوال: اگر مسجد میں عورتوں اور مردوں کی صفوں کے درمیان کوئی رکاوٹ موجود ہوتو کیا ﷴ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان اس پر منطبق ہوگا کہ ’’مردوں کی پہلی صف بہتر ہے اور آخری صف بری ہے اور عورتوں کی آخری صف بہتر ہے اور پہلی صف بری ہے‘‘۔ /صـ (117)صحیح المسلم (440) ۔ یاایسی صورتوں میں یہ حکم نہیں ہوگا بلکہ عورتوں کی بھی پہلی صف بہتر ہوگی؟ ہمیں مستفید فرمایاجائے اللہ تعالیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے ۔

جواب: بظاہر یہ معلوم ہوتاہے کہ عورتوں کی آخری صف بہتر ہونے کی وجہ اس کا مردوں سے دورہونا ہے کیونکہ جس قدر مردوں سے دورہوگی اسی قدر یہ چیز اس کے لئے باعث تحفظ ہوگی اور وہ برائی کی رغبت سے دورہوگی لیکن اگر عورتوں کی جائے نما ز مردوں سے دور ہو اور کسی دیوار یا پردے کی اوٹ میں ہو اور وہ محض اسپیکر کے ذریعے امام کی اقتدا کررہی ہوں تو ان کی پہلی صف افضل ہوگی۔ کیونکہ وہ مقدم بھی اور قبلہ کے زیادہ نزدیک بھی ۔ --- شیخ ابن جبرین---

چھوڑی گئی نمازوں کی قضا

سوال: پہلے میں نماز نہیں پڑھا کرتاتھا،اب اللہ تعالیٰ نے مجھے ہدایت دے دی ہے اور میں اس کی ا دائیگی بڑے اہتمام سے کرتاہوں ۔دریافت طلب بات یہ ہے کہ کیا مجھے گزشتہ سالوں کی نمازوں کی قضا دینا ہوگی یانہیں؟

جواب: اگر کوئی شخص سالہا سال نماز چھوڑے رکھے ۔ اس کے بعد توبہ کرکے اس کی پابندی شروع کردے اس پر چھوڑی گئی نمازوں کی قضا فرض نہیں ہے۔ اگر یہ پابندی عائدکردی جائے تو یہ شرط توبہ کرنے والے بہت سے لوگوں کے لئے باعث نفرت ہوگی ۔

توبہ کرنے والے کو یہی کہاجائے کہ وہ مستقبل میں اسی کی پابندی کرے اور زیادہ سے زیادہ نفل پڑھے ، فرماں برداری اللہ تعالیٰ کی قربت اور خشیت کے کام کثرت کے ساتھ سر انجام دے۔ ----- شیخ ابن جبرین -----

نماز کودیر سے اداکرنا

سوال: اگر کوئی شخص دیر سے نمازپڑھے مثلاً ظہر سے دوگھنٹے پہلے بیدارہوکرصبح کی نماز اداکرے تو اس کا کیا حکم ہے؟

جواب: کسی شرعی عذر اور نیند کے بغیر نماز کو دیر سے اداکرنا جائز نہیں ہے ۔ نیند بھی ہرشخص کاشرعیعذر نہیں ہے کیونکہ آدمی نماز کے وقت پر بے دار ہونے کے لئے جلدی بھی سوسکتاہے یابیدارہونے کے لئے اپنے والدین ،کسی بھائی یا ہمسائے کو بھی کہہ سکتاہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ نماز کو اہمیت دے اور اس پر اس قدر توجہ دے کہ جب نماز کاوقت نزدیک ہوتو خواہ وہ سویا ہوا ہی کیوں نہ ہو اسے اس کا ازخود پتہ چل جائے۔

جوشخص ہمیشہ ہی صبح کی نماز چاشت کے وقت اداکرتاہو اس کے دل میں نماز کی ذرا بھی اہمیت نہیں ہے۔ بہر کیف انسان کو اولین ممکنہ فرصت میں ادارکرنے کاپابند ہے۔ اگر وہ سویا ہوا ہویا بھولا ہوا ہو تو اسے اٹھتے ہی یا یاد آتے ہی نماز پڑھ لینی چاہیئے ۔ ----- شیخ ابن جبرین-----

نماز سے سونے والا

سوال: اگر نیند کی وجہ سے عشاء کی نماز فوت ہوجائے اور صبح کی نما ز کے بعد یاد آئے تو کیا اسے عشاء کی نماز کے ساتھ پڑھا جائے یا یاد آنے کے فوراً بعد ؟

جواب: ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان ہے :’’من نام عن صلاۃ أو نسیہا فلیصلہا اذا ذکرہا،ولاکفارۃ لہا إلاذالک‘‘۔

’’جوشخص نماز سے سوجائے یا اسے نماز بھول جائے تو اسے یاد آنے پر پڑھ لے ،بس اس کا یہی کفارہ ہے‘‘۔ صحیح البخاری ، کتاب موقیت الصلاۃ، باب من نسی صلاۃ فلیصل اذا ذکر ولایعید الاتلک الصلاۃ ، حدیث : (597) ، صحیح المسلم ۔ کتاب المساجد ، باب قضاء الصلاۃ الفائتۃ والمستحباب تعجیل قضائہا ۔ حدیث: (684)،

بطور استشہاد آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی :{وَأَقِمِ الصَّلاَۃَ لِذِکْرِیْ} ----- طہ:41----- ’’میری یاد کے لئے نماز قائم کرو‘‘۔

اس بناپر عشاء کی نماز اور دیگر نمازوں میں کوئی فرق نہیں ہے انسان جب بھی نیند سے بیدا ر ہو اور اسے نماز یاد آجائے تو اسے فوراً نماز اداکرنی چاہیئے ۔ اسے اس چیز دوسری نماز تک مؤخر نہیں کرنا چاہیئے ،خواہ وہ کراہیت یا کسی اور نماز کا وقت ہی کیوں نہ ہو۔ ہاں اگر اسے موجودہ نماز کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہوتو پہلے اسے اداکرے۔ اس کے بعد فوت شدہ نمازپڑھے۔ واللہ اعلم۔----- شیخ ابن جبرین-----

نما ز میں شک کرنا

سوال: میں کبھی کبھی نماز میں بھول جاتی ہوں کہ میں نے سورہ فاتحہ پڑھی ہے یانہیں ۔ اس لئے میں اسے دوبارہ پڑھتی ہو۔کیا میرا یہ طریق کار درست ہے یاسجدہ سہو کرناچاہئے ؟

جواب: بعض لوگوں کودوران نماز کثرت سے وسوسے لاحق ہوتے رہتے ہیں اور انہیں تلاوت یا تشہد میں شک پیدا ہوجاتاہے۔ اس کا علاج یہ ہے کہ انسان کامل یک سوئی اور حضورقلب سے نماز اداکرے تاکہ اسے وسوسے اور اوہام کم سے کم ہوں۔ پھر بھی اگر شک غالب رہے اور اس کی عام عادت یہ ہوکہ وہ تلاوت کرلیتاہو۔ توایسی صورت میں تلاوت کا اعادہ اور تکرارمکروہ ہے اور اگر احتیاطا اعادہ ہوجائے تو سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا۔ ----- شیخ ابن جبرین-----

کم وقت گزرا ہوتو نسیان زدہ حصہ نماز مکمل کرلیں

سوال: ظہر کی نمازاداکرنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ میں آیاکہ میں نے حرف تین رکعتیں پڑھی ہیں، کیا میں چوتھی رکعت پڑ ھ کر سجدہ سہو کروں یا دوبارہ پوری نماز پڑھوں؟

جواب: اگر نماز پڑھنے والا شخص ایک رکعت یا اس سے زیادہ ترک کردے پھر اسے یاد آئے کہ اس سے نماز چھوٹ گئی ہے تو اگر وہ نماز کی جگہ پر ہی موجود ہویا مسجدمیں ہی ہو اور وقت بھی چار پانچ منٹ سے زیادہ نہ گزرا ہو تو اس صورت میں وہ نماز کا متروکہ حصہ مکمل کرکے سجدہ سہو کرے اور اگر اسے زیادہ کے بعد یاد آئے مثلاً نصف گھنٹہ بعد یا مسجد سے نکل جانے کے بعد یاد آئے تو اس صورت میں نماز دوبارہ پڑھ کررکعات کے درمیان عدم تسلسل کی وجہ سے پہلی نما ز کالعدم ہوگی۔----- شیخ ابن جبرین -----

نماز توڑنا

سوال: مجھے دوران نماز یاد آیاکہ میں ناپاک کپڑے میں نمازپڑھ رہی ہوں کیا اس حالت میں مجھے نماز توڑکر دوبارہ پڑھنا ہوگی ،نیز وہ کون سے حالات ہیں جن میں نماز توڑنا جائز ہے؟

جواب: جس شخص کودوران نماز معلوم ہو جائے کہ اسے پلیدی لگی ہوئی ہے اس کی نماز باطل ہوجائے گی اور اگر اسے نماز مکمل ہونے پر اس کا علم ہو تو اس کی نما ز درست ہوگی اس کے لئے اعادہ ضروری نہیں ہے۔

اگر نمازی کو دوران نماز پلیدی کا علم ہوجائے اور اس کا ازالہ فوری طور پر ممکن بھی ہوتو وہ اس کا ازالہ کرے اور نماز مکمل کرے۔ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو دوران نماز آگاہ کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے جوتوں میں نجاست لگی ہوئی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے وہ اتاردئیے سبق تخریجہ صـ 56۔ اور اپنی پہلی (اداشدہ ) نماز کو باطل نہیں کیا۔

اسی طرح اگر اسے اپنی پگڑی میں نجاست کا علم ہو اور فوراً اسے اتاردے تو وہ گزشتہ نماز پر ہی بنیاد رکھے گا۔ البتہ اگر اسے ازالہ نجاست کے لئے زیادہ عمل کرنا پڑے مثلاً قمیص یاشلوار وغیرہ اتارنے کی ضرورت ہو تو وہ اسے اتارنے کے بعد نئے سرے سے نماز پڑھے گا۔

اسی طرح اگر اسے یاد آئے کہ وہ بے وضو نماز پڑھ رہاہے یا دوران نماز بے وضو ہوگیا یا کسی اور وجہ مثلاً ہنسنے وغیرہ سے اس کی نماز ٹوٹ گئی ہے تو وہ دوبارہ نماز پڑھے گا ۔ ----- شیخ ابن جبرین-----

دعاء استخارہ ، دعا ء حاجت اور دعاء استسقاء کا موقعہ محل

سوال: دعاء استخارہ، دعاء حاجت اور دعاء استسقاء سلام پھیرنے کے بعد کرنی چاہیئے یاتشہد کے بعد یا آخری سجدوں کے درمیان یا یہ تمام صورتیں ہی جائز ہیں۔

جواب: دعاء استخارہ تودورکعت پڑھ کر سلام پھیرنے کے بعد ہاتھ اٹھا کر کرنی چاہئیے کہ حدیث سے ثابت ہے۔

دعاء حاجت کی حدیث مشہور نہیں ہے۔ لیکن اگر اسے پڑھنے میں کوئی حر ج نہیں ہے ۔ اس میں بھی دعا سلام کے بعد کرنی چاہیئے جیساکہ ابوموسیٰ کے واقعہ میں بیان ہواہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم اس کے بھائی کے لئے دورکعت نماز کے بعد دعا کی تھی۔

استسقاء (بارش کی دعا) کاطریقہ یہ ہے کہ پہلے دورکعت نماز پڑھی جائے اس کے بعد کھڑا ہوکر ایک خطبہ دیا جائے اور اس کے آخر میں دعا کی جائے ۔ ----- شیخ ابن جبرین-----

عورتوں کو گھر میں اذان کے بعد نماز پڑھ لینی چاہئیے

سوال: گھر کے اندر عورتیں اذان کے بعد نماز پڑھیں یا تکبیر کے بعد؟

جواب: نماز کا وقت ہوجانے کے بعد جو عورتیں گھر میں ہوں وہ نمازپڑھ لیں اور تکبیر کا انتظارنہ کریں۔ اگر موذن وقت کے ہوتے ہی اذان کہہ دے تو وہ اذان سننے کے بعد نماز پڑھ لیں۔ اول وقت سے تاخیر بھی ان کے لئے جائز ہے۔ واللہ اعلم۔

معمر عورت نماز کے لئے وضو کرنے سے قاصر ہے

سوال: ہماری والدہ کی عمر نوے سال ہوچکی ہے اور وہ کسی دوسر ے کی مدد کے بغیر از خود اٹھ کر وضو نہیں کرسکتیں۔ ان کے نماز اور روزہ کا کیا حکم ہے؟ کیا ان کے لئے کوئی رخصت ہے؟ ہماری راہنمائی فرمائیں اللہ تعالیٰ آپ کو جزاعطاکرے ؟

جواب: اگر آپ کی والدہ کاشعور ختم ہوگیاہے اور عقل جواب دے چکی ہے تو اس حالت میں نہ روزہ رکھنا فرض ہے اور نہ نماز پڑھنا کیونکہ وہ شریعت کی پابند نہیں رہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کافرمان ہے : ’’رفع القلم عن ثلاثۃ‘‘۔

تین قسم کے لوگوں کے عمل لکھے نہیں جاتے ۔ ان میں سے ایک مجنون آدمی ہے جب تک وہ باشعور نہ ہوجائے سنن الترمذی ، کتاب الحدود ، باب ماجاء فیمن لایجب علیہ الحد ، حدیث : (1423) (صحیح ) سنن ابن ماجہ کتاب الطلاق ، با ب طلاق المعتوہ والعغر والنائم ، حدیث: (2041) (صحیح ) واللفظ لابن ماجہ ۔اس کے اعمال لکھے نہیں جاتے ۔ ان میں سے ایک مجنون آدمی ہے جب تک وہ باشعور نہ ہوجائے اس کے اعمال لکھے نہیں جاتے۔ یہ عورت اگر چہ مجنون تو نہیں ہے بلکہ یہ الحمد للہ اس سے محفوظ ہے لیکن کبرسنی کے باعث وہ شعور سے محروم ہوچکی ہے تو ایسے میں اس پر نہ روزہ رکھنا فرض ہے اور نہ پڑھنا اس وقت وہ بچے کی مانند ہے نہ اسے گناہ ہے اور اور نہ تمہیں بلکہ ہ شریعت کی پابند نہیں رہی اس کا نامہ اعمال بند ہو چکاہے۔

اگر اس کی فہم ودانست بالکل صحیح ہے تو اس پر نماز بھی فرض ہے اور روزہ بھی ۔البتہ اگر وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہوتو اس کی طرف سے ایک مسکین کو روزانہ کھانا کھلا دیا جائے۔ اس کی مقدار گندم یا چاول وغیرہ ہے۔ یہ جب ہے جب وہ بڑھاپے کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکتی ہو اور اس میں شعور موجود ہو اسے میں اس پر نماز پڑھنا فرض ہے وضو کرنے کے لئے اس کی بیٹی یا ہو بہو کو اس کی مدد کرنی چاہیئے اوراسے ہر حال میں میں نماز پڑھنی چاہیئے ۔ واللہ اعلم۔ ----- شیخ صالح بن فوزان-----

آپریشن ہونے کی صورت میں نمازپڑھنے کا طریقہ

سوال: ایک شخص کوہسپتال میں داخل کرایاگیا اور اس کا آپریشن ہوگیا۔ وہ تین دن تک نماز نہیں پڑھ سکا ۔کیا اسے صحت مند ہونے کے بعد تین دنوں کی شدہ نماز یں پڑھنا ہوں گی یانہیں؟

جواب: ایسے شخص کو نماز وقت سے موخر نہیں کرنی چاہیئے تھی وہ جس حالت میں بھی تھا اسی میں نماز پڑھ لیتا۔ کھڑاہوسکتا تو کھڑا ہوکر پڑھ لیتا وگرنہ بیٹھ کر بھی نہ پڑھ سکتا تو لیٹ کر اشار ے سے نماز اداکرلیتا۔ اس طرح اگر وہ کسی تکلیف کے بغیر وضو ء کرسکتاہے تو بہتر وگر نہ تیمم کرلینا اور اسے اعادہ کی کوئی ضرورت نہیں تھی۔ اس کیلئے نماز کو وقت سے موخر کرنا جائز نہیں تھا۔اب اس کی تین دن کی نمازیں رہ گئی ہیں تو اسے فوراً باترتیب قضا دینی چاہیئے ۔ واللہ المستعان۔----- شیخ محمد بن ابراہیم آل شیخ-----

عورتوں کو مسجد میں بیٹھ کر دنیوی باتیں نہیں کرنی چاہیئے

سوال: کچھ عورتیں مسجد میں مسجد نماز کے وقت ایک دوسرے سے باتیں کرتی رہتی ہیں ۔ کبھی کبھی امام کے رکوع کرنے تک ان کی باتیں ختم نہیں ہوتیں۔ ان کے متعلق شریعت کا کیا حکم ہے؟

جواب: مسجد میں آنے والے شخص کو مسجد اورعبادت کے قندس کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے ۔ اسے دنیا کی باتوں میں مشغول نہیں ہونا چاہیئے ۔ایسے میں وہ اس کے تقدس کو مجروح کرتاہے، عبادت سے ہٹ جاتاہے اور اس پاکیزہ جگہ کی فرصت اس سے چھن جاتی ہے۔

امام کے ساتھ شروع سے نماز میں شامل نہ ہوکر باتیں کرتے رہنا تو اس سے بدرجہ اولیٰ ممنوع ہے ۔ اس سے ایک تو تکبیر تحریمہ کا ثواب ضائع ہوجاتاہے۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ ایسا شخص رکعت ضیاع کے دھانے پر لے جاتاہے ۔ تیسرا یہ ہے کہ وہ امام اور باقی نمازیوں کو پریشان کرتاہے۔ ----- شیخ صالح بن فوزان-----

عورت کابازار میں نمازپڑھنا

سوال: کیاعورت بازار میں نمازپڑھ سکتی ہے؟

جواب: مردوں کے لئے مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فرض ہے۔ عورت کے لئے اس کا گھر افضل ہے۔ لیکن اگر اسے کسی مجبوری کے باعث بازار میں نمازپڑھنی پڑے اوروہاں پردہ بھی موجود ہوتو یہ اس کے لئے ممنوع نہیں ہے۔ ----- شیخ ابن جبرین-----

سجدہ تلاوت ہرحالت میں میں جائز ہے

سوال: کیا یہ بات صحیح ہے کہ مسلمان پر کافر کی نظربد نہیں کرتی۔ اگر ایسے ہی تھے تو اس کی دلیل کیا ہے۔ نیز اگر تلاوت کے دوران سجدہ کرنا ہو تو کیا سراسر جسم ڈھانپے بغیر جس حالت میں بھی ہوں سجدہ کروں؟

جواب: یہ بات صحیح نہیں ہے کافر کی بھی نظر بدہوسکتی ہے کیونکہ نظرلگنا برحق ہے۔

سجدہ تلاوت برہنہ سر وغیرہ کسی بھی حالت میں کیا جاسکتاہے کیونکہ راجح نظریہ یہ ہے کہ سجدہ تلاوت کی حیثیت نماز کی سی ہے۔ ----- شیخ ابن جبرین -----

 
شمولیت
مارچ 19، 2012
پیغامات
165
ری ایکشن اسکور
207
پوائنٹ
82
عورتیں گھر میں جماعت سے نماز تراویح پڑھتی ہیں تراویح سے پہلے جب وہ عشاء کے چار فرض پڑھیں گی تو کیا اقامت کہہ کر شروع کریں گی یا بغیر اقامت کے ہی؟
@شیخ اسحاق سلفی صاحب
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,400
ری ایکشن اسکور
463
پوائنٹ
209
عورتیں گھر میں جماعت سے نماز تراویح پڑھتی ہیں تراویح سے پہلے جب وہ عشاء کے چار فرض پڑھیں گی تو کیا اقامت کہہ کر شروع کریں گی یا بغیر اقامت کے ہی؟
@شیخ اسحاق سلفی صاحب
لنک پہ کلک کریں اور اپنے سوال کا جواب معلوم کریں ۔
 

Hina Rafique

رکن
شمولیت
اکتوبر 21، 2017
پیغامات
282
ری ایکشن اسکور
18
پوائنٹ
75
*اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎*
مسجد شریف میں عورتوں کی جمعہ نماز پڑھنے کے بارے میں وضاحت چاہیے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
عورتوں کا مسجد میں جانا جائز ہے ؛

(توحید ڈاٹ کام )
تحریر: جناب حافظ ابویحیٰی نورپوری حفظہ اللہ تعالیٰ

عورت اسلامی معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتی ہے، مسلمان عورت ماں، بہن، اور بیٹی ہر روپ میں گھرانے کا جزولانیفک ہے، یہی وجہ ہے کہ ہر دور میں اس کی تعلیم و تربیت پر خصوصی توجہ دی جاتی رہی ہے، کیونکہ اس کی تعلیم و تربیت گویا آنے والی نسلوں کی اصلاح کا پیش خیمہ ہے اور اس کی جہالت آنے والی کئی پشتوں کا خانہ خراب کرنے کے مترادف ہے۔ اسی لیے ایک مصری شاعر حافظ ابراہیم نے کیا خوب کہا تھا:

الأمّ مدرستہ ان أعددتّھا أعددتّ شعبا طیّب الأعراق۔
‘‘ ماں ایک درسگاہ ہے اور اس درسگاہ کو اگر آپ نے سنواردیا تو گویا ایک بااصول اور پاکیزہ نسب والی قوم کی تشکیل کردی۔’’

اسلامی معاشرے میں سب سے بڑا تعلیمی مرکز مسجد ہے، لیکن افسوس کہ بعض لوگ علم دین سے دور کر دینے والی شیطانی پالیسی کو بھانپنے کے بجائے اس کے آلہ کار بن کر عورتوں کو مسجدوں سے روک رہے ہیں، حالانکہ انہی لوگوں کی عورتیں اگر دنیاوی علم حاصل کرنے لیے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں جائیں تو ان کا جذبہ غیرت جوش نہیں مارتا، نیز بازاروں اور مارکیٹوں میں غیر محرم دوکانداروں سے شاپنگ کرتی پھریں تو غیرت کا جنازہ نہیں نکلتا، لیکن اگر وہ مسجد میں آئیں تو ان کو فتنے کا خدشہ ہوجاتاہے۔

آئیے عہد نبوی میں مسلمانوں کو عورتوں یعنی بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحابیات کے عمل اور وحی الہی بولنے والی زبان سے فیصلہ کرواتے ہیں:

دلیل نمبر۱:

عن أمّ سلمۃ رضی اللہ عنھا قالت: کان یسلّم فینصرف النّسا؍، فیدخلن بیوتھن من قبل أن ینصرف رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم۔

‘‘ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نماز سے سلام پھیرتے تو عورتیں فوراً واپس جا کر (مقتدیوں کی طرف) آپ کے چہرہ مبارک پھیرنے سے پہلے اپنے گھروں میں داخل ہو جاتیں۔’’
(صحیح بخاری: ۸۵۰)

اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے عہد مبارک میں عورتیں مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جایا کرتی تھیں، ان کے لیے کوئی ممانعت نہ تھی، اب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی زبانی اس کی وضاحت ملاحظہ فرمائیں:

دلیل نمبر ۲:

عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت: ان کان رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم لیصلّی الصّبح، فینصرف النّساء متلفّعات بمروطھن، ما یعرفن من الغلس۔
ترجمہ :
‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، بیان کرتی ہیں کہ اس بات میں کچھ شبہ نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم صبح کی نماز ادا فرماتے تو عورتیں فوراًچادروں میں لپٹی ہوئی واپس چلی جاتیں، وہ اندھیرے کی وجہ سے پہچانی نہ جاتی تھیں۔
(صحیح بخاری: ۸۶۷، صحیح مسلم: ۶۴۵)

دلیل نمبر ۳:

عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال: قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم: خیر صفوف الرّجال أوّلھا و شرّھا آخرھا، و خیر صفوف النّساء آخرھا و شرّھا أوّلھا۔
ترجمہ :
‘‘ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، مردوں کی صفوں میں سے بہترین صف سب سے پہلی اور سب سے بری( ثواب میں کم) آخری صف ہے، جبکہ عورتوں کی صفوں میں سب سے بہترین صف آخری اور بری صف (ثواب میں کم) پہلی صف ہے۔’’
(صحیح مسلم: ۴۴۰)

ان احادیث کے بعد تو کوئی شک نہیں رہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں عورتیں نماز کےلیے مسجد میں آتی تھیں۔

پھر اس بارے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت بھی موجود ہے:

دلیل نمبر۴:

عن أبی ھریرۃ رضی اللہ عنہ أنّ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم قال: لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ، ولکن لیخرجن و ھنّ تفلات۔
ترجمہ :
‘‘ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، تم اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو، ان کو بھی چاہیے کہ وہ خوشبو لگائے بغیر نکلیں۔’’
(مسند الامام احمد: ۵۲۸/۲، سنن ابی داؤد: ۵۶۵، وسندہٗ حسن)
اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (۱۶۷۹)، امام ابن حبان (۲۲۱۴)، امام ابن الجارود (۳۳۲) اور حافظ نووی (المجموع: ۱۹۹/۴) رحمہم اللہ نے ‘‘ صحیح’’ کہاہے۔

نیز حافظ نووی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: (رواہ أبو داوٗد باسناد الصّحیحن)
‘‘ اس حدیث کو امام ابو داوٗد رحمہ اللہ نے بخاری و مسلم کی سند کے ساتھ بیان کیاہے۔’’
(خلاصۃ الاحکام: ۹۷۹/۲، ح: ۲۳۵۳)

اب سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا ایمان افروز واقعہ بھی پڑھتے جائیے:

دلیل نمبر۵:

عن ابن عمر رضی اللہ عنھما قال: قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم: ائذنواللنّساء باللّیل الی المساجد، فقال لہ ابن لہ، یقال لہ واقد: اذن یتخدن لہ دغلا، قال: فضرب فی صدرہ وقال: أحدّثک عن رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم وتقول: لا۔


‘‘ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتےہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، (اگر عورتیں اجازت مانگیں تو) اپنی عورتوں کو رات کے وقت مسجدوں میں جانے کی اجازت دو، ابن عمر رضی اللہ عنہما کے واقد نامی بیٹے نے کہا، (میں تو اجازت نہیں دوں گا) وہ تو اس کام کو خرابی (کاحیلہ) بنا لیں گی، آپ نے اس کے سینے میں (زوردار تھپیڑا ) مارا اور فرمایا، میں تجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سنا رہا ہوں اور تو کہتا ہے کہ (میں ان کو اجازت) نہیں (دوں گا)۔’’
(صحیح مسلم: ۴۴۲)

اس حدیث سےجہاں عورتوں کے مسجد میں جانے کا جواز ثابت ہوتا ہے، وہاں عورتوں کو مسجدوں سے منع کرنے والوں کے لیے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا اتباع سنت، عبرت بھی ہے۔

صحیح مسلم کی ایک روایت(۴۴۳/۱۳۵) میں توابن عمر رضی اللہ عنہما کے دوسرے بیٹے سالم رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ جب آپ کے بیٹے نے حدیث سن کر بھی عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ہم ان کو ضرور روکیں گے تو:

قأقبل علیہ عبداللہ، فسبّہ سبّا سیّئا، ما سمعتہ سبّہ مثلہ۔
ترجمہ :
‘‘ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اتنا سخت برابھلا کہاکہ میں نے اس جیسی سختی آپ میں کبھی نہ سنی تھی۔’’

یہ تھا صحابہ کرام کا جذبہ اتباع، اب بھی اگر کوئی بہانہ کر کے عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکے تو خود ہی سوچے کہ کیا روز محشر اس سنت کی مخالفت کرکے وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے جان نثار صحابہ کو کیا منہ دکھائے گا؟

دلیل نمبر ۶:
عن أبی قتادہ رضی اللہ عنہ عن النّبی صلّی اللہ علیہ وسلم قال: انّی الأقوم فی الصّلاۃ، أرید أن أطوّل فیھا، فأسمع بکاء الصّبی، فأتجوّز فی صلاتی، کراھیۃ أن أشقّ علی أمّہ۔

‘‘ سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا، میں نماز میں کھڑا ہوتا ہوں تو اسے لمبا کرنے کا ارادہ ہوتا ہے، پھر بچے کے رونے کی آواز سن کر اپنی نماز مختصر کر دیتاہوں کہیں میں اس کی ماں کو مشقت میں نہ ڈال دوں۔’’ (صحیح بخاری: ۸۶۸)

عورتوں کومسجدوں سے روکنے والے بتائیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک میں تو عورتیں اپنے اہتمام سے مسجد میں آئیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بچوں کے رونے کے باوجود، جو کہ ایک قسم کا خلل بھی تھا، مسجد میں آنے سے نہ روکیں تو بعد میں یہ اختیار کس کو حاصل ہو گیا ہے؟

نیز اس حدیث سے معلوم ہوتا ہےکہ عورتوں کے مسجد جانے میں تفصیل کرنا، یعنی جو ان عورتوں کو مطلق طور پر اور بوڑھی عورتوں کو دن میں مسجد جانے سے منع کرنا بالکل بے بنیاد ہے، کیونکہ چھوٹے چھوٹے بچوں والی عورتیں جوان ہی ہوتی ہیں، نہ کہ ‘‘ عجور’’ یعنی بوڑھی، اسی طرح اس حدیث میں کسی نماز کی تخصیص بھی نہیں ہے، بلکہ اس حدیث میں عموم ہے، ثابت ہوا کہ اس طرح باتیں بنانا قرآن و سنت سے خیر خواہی نہیں۔

دلیل نمبر ۷:
عن زینب امرأۃ عبداللہ قالت: قال لنا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم: اذا شھدت احداکنّ المسجد فلاتمسّ طیبا۔


‘‘ سیدہ زینت رضی اللہ عنہا جو کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی زوجہ ہیں، بیان کرتی ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں فرمایا، جب تم( عورتوں) میں سے کوئی مسجد میں آئے توخوشبو نہ لگائے۔’’

(صحیح مسلم: ۴۴۳)

ثابت ہوا کہ اگر عورت نے خوشبو نہ لگائی ہو تو اسے مسجد میں داخل ہونے سے کوئی چیز مانع نہیں۔

دلیل نمبر۸:

عن اُمّ ھشام بنت حارثۃ رضی اللہ عنھا قالت: ما أخذت (قۗ ڗوَالْقُرْاٰنِ الْمَجِيْدِ) الّا عن لّسان رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم، یقرأھا کلّ جمعۃ علی المنبر اذا خطب النّاس۔

‘‘ سیدہ اُم ہشام بنت حارثہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے سورۂ ق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے (سن کر) ہی تو یاد کی تھی، آپ اسے ہر جمعہ کے دن منبر پر لوگوں کو خطبہ دیتے ہوئے تلاوت فرمایا کرتے تھے۔’’

(صحیح مسلم: ۸۷۳/۵۲)

اب ذرا غور فرمائیں تو معلوم ہوا کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں دنیا کی سب سے پاکباز عورتیں اور سب سے پاکباز خاوندوں کی بیویاں کتنی پابندی سے نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد میں حاضر ہوا کرتی تھیں، کائنات کے سب سے باغیرت اور عصمتوں کےمحافظ تواپنی بیویوں کو اجازت دیتے رہے، لیکن آج کےنام نہاد و دین پرست رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت آجانے کے بعد بھی عورتوں کو مسجدوں سے روکنے پر کیوں ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔

دلیل نمبر۹:

عن ابن عمر رضی اللہ عنھما قال: کانت امرأۃ لعمر تشھد صلاۃ الصّبح والعشاء فی الجماعۃ فی المسجد، فقیل لھا: لم تخرجین و قد تعلمین أنّ عمر یکرہ ذلک ویغار؟ قالت: و ما یمنعنہ أن ینھانی؟ قال: یمنعہ قول رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم: لا تمنعوا اماء اللہ مساجد اللہ۔

‘‘ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی ایک زوجہ صبح اور عشاء کی نماز مسجد میں جا کر جماعت کے ساتھ ادا کرتی تھیں، ان سے پوچھا گیا، آپ کیوں (مسجد کی طرف) نکلتیں ہیں، حالانکہ آپ جانتی بھی ہیں کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اس کام کو پسند نہیں کرتے اور غیرت کھاتے ہیں؟ وہ کہنے لگیں، ان کوکون سی چیز مانع ہے کہ وہ مجھے منع نہیں کرتے؟ کہا، رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان کہ تم اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں سے نہ روکو۔’’

(صحیح بخاری: ۸۵۸، صحیح مسلم: ۴۴۳ مختصراً)

قارئین کرام! جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی بھی ناپسند کرنے کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی بیوی کو مسجد جانے سے نہیں روکتے تھے تو بعد کے مفتیان یہ جرأت کیونکر کرسکتے ہیں؟

دلیل نمبر ۱۰:

عن أسماء بنت أبی بکر رضی اللہ عنھا قالت: سمت رسول اللہ صلّی علیہ وسلم یقول: من کان منکنّ تؤمن باللہ والیوم الآخر فلا ترفع رأسھا حتی یرفع الرّجال رؤوسھم، کراھیۃ أن یرین من عورات الرّجال۔

‘‘ سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ (اے عورتو!) تم میں سے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتی ہے، وہ مردوں کے( سجدے سے) سر اٹھانے سے پہلے سر نہ اٹھائے، (ان دونوں صحابہ کرام کے پاس کپڑے بہت تھوڑے تھے اوران کے ازار چھوٹے ہوتے تھے)، آپ نے یہ بات اس لیے فرمائی کہ کہیں( عورتوں کے پہلے سر اٹھانے کی وجہ سے) مردوں کے ستر پر ان کی نظر نہ پڑ جائے۔’’

(صحیح بخاری: ۸۱۴، صحیح مسلم: ۴۴۱)

تِلکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ

یہ پوری دس صحیح احادیث کا مجموعہ ہماری دلیل ہے، ان سب کا تعلق صحیحین سے ہے، جن کی صحت پر امت کا اجماع ہے۔


اس بارے میں چند محدثین کی آراء

۱۔ امیر المومنین فی الحدیث، فقیہ امت، امام محمد بن اسماعیل البخاری رحمہ اللہ (۲۵۶-۱۹۴ھ) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مذکورہ حدیث پر یوں تبویب فرماتے ہیں:

باب خروج النّساء الی المساجد باللّیل والغلس:
‘‘ عورتوں کے رات اور اندھیرے میں مسجدوں کی طرف نکلنے کا بیان۔’’

اس سے ثابت ہوتا ہےکہ امام بخاری رحمہ اللہ کے نزدیک عورت خواہ جوان ہو یا بوڑھی اور خواہ دن ہو یا رات مطلق طور پر مسجد میں جاسکتی ہے، کیونکہ جب اندھیرے میں جاسکتی ہے تو دن کی روشنی میں جب کہ اندھیرے کی نسبت کہیں زیادہ امن ہوتاہے، کیوں نہیں جاسکتی؟

۲۔ امام الائمہ امام ابن خزیمہ رحمہ اللہ (۳۱۱-۲۲۳ھ) ان احادیث پر یوں باب قائم کرتے ہیں:

باب الاذن اللنّساء فی اتیان المساجد۔
‘‘ عورتوں کو مسجدوں میں آنے کی اجازت کا بیان۔’’
(صحیح ابن خزیمہ، کتاب الصلوۃ، باب ۱۶۹)

اور

باب النّھی عن منع النّساء عن الخروج الی المساجد باللّیل
‘‘ رات کے وقت عورتوں کو مسجد جانے سے روکنے کی ممانعت کا بیان۔’’ (باب ۱۷۱)

۳۔ امام ابو محمد عبداللہ بن عبدالرحمن الدارمی رحمہ اللہ (۲۵۵-۱۸۱ھ) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی حدیث پریوں باب قائم فرماتے ہیں:

باب النّھی عن منع النّساء عن المساجد، وکیف یخرجن اذا خرجن۔

‘‘ عورتوں کو مسجدوں سے روکنے کی ممانعت کا بیان، نیز (اس بات کی وضاحت کہ) وہ جب نکلیں تو کیسے نکلیں۔’’

ایک مقام پر تو امام موصوف کی تبویب نہایت قابل توجہ ہے:

باب تعجیل العقوبۃ من بالغہ عن النّبی صلی اللہ علیہ وسلّم حدیث فلم یعظمہ ولم یوقّرہ۔

‘‘ جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پہنچنے کے بعد اس کو تسلیم نہیں کرتا، اسے جلد از جلد سزا دینی چاہیے۔’’

(مسند الدارمی: ۴۵۶)

اس باب میں انہوں نے صحابہ کرام کے واقعات سے ثابت کیا ہے کہ جب ان کی حدیث بیان کر دینے کے بعد کسی نے ان کے سامنے اس کی مخالفت کی تو انہوں نے اس سے ترک تعلق کر لیا تھا، سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما والی حدیث بھی اسی باب میں ذکر کرتے ہوئے انہوں نے یہ بتایا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بعد عورتوں کو مسجدوں سے روکنے والا دین کا خیر خواہ نہیں بلکہ الٹا سنت نبوی کا مخالف ہے۔

۴۔ امام ابن حبان رحمہ اللہ (م ۳۵۴ھ) کی تبویب ملاحظہ ہو:

ذکر الزّجر عن منع النّساء عن اتیان المساجد للصّلاۃ۔

‘‘ نماز کے لیے مسجد میں آنے والی عورتوں سے منع کرنے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈانٹ کا بیان۔’’

(صحیح ابن حبان: ۵۷۸/۵، ح:۲۲۰۹)

۵۔ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ (م ۴۵۶ھ) رقمطراز ہیں:

وقد اتّفق أھل الأرض أنّ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم لم یمنع النّساء قطّ الصّلاۃ معہ فی مسجدہ الی أن مات علیہ السّلام ولا الخلفاء الرّاشدون بعدہ، فصحّ أنّہ عمل غیر منسوخ، فاذ لا شکّ فی ھذا، فھو عمل برّ، ولو لا ذالک ما أقرّہ علیہ السّلام، ولا ترکھنّ یتکلّفنہ بلا منفعۃ بل بمضرّۃ، وھذا العسر والأذی، لا النّصیحۃ۔

‘‘ اس بات پر تمام لوگوں کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات تک عورتوں کو مسجد میں آنے سے کبھی نہیں روکا، نہ ہی خلفائے راشدین نے آپ کے بعد یہ کام کیا، اس سے ثابت ہوگیا کہ یہ عمل منسوخ نہیں ہوا، جب اس کا غیر منسوخ ہونا یقینی ہے تو یہ نیکی کا کام ہوا، اگر ایسا نہ ہوتا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے برقرار نہ رکھتے اور ان عورتوں کو بے فائدہ بلکہ نقصان دہ تکلیف میں مبتلا نہ چھوڑتے، ایسا کرنا تنگی و تکلیف تو ہوسکتا ہے، خیر خواہی نہیں (حالانکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو سب سے بڑے خیر خواہ تھے)۔’’

(المحلی لابن حزم: ۸۳۱/۳، مسئلہ: ۳۲۱)

مانعین کے دلائل کا جائزہ

جیسا کہ آپ حافظ ابن حزم رحمہ اللہ کی زبانی فیصلہ کن بات سن چکے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین نے عورتوں کو کبھی بھی مسجدوں میں آنے سے روکا نہیں، بات واضح ہے کہ یہ عمل منسوخ نہیں ہوا اور جب ایسا ہے تو روکنا جائز کیسے ہوا؟ آپ خود اندازہ فرمائیں کہ ایک عمل رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین کے بعد میں ہوتا رہا تو اب اس کی منسوخیت یا منع کے دلائل کتنی قوت کے حامل ہوں گے۔

آئیے ان دلائل کا جائزہ لیں:

دلیل نمبر ۱:

عن عائشۃ رضی اللہ عنھا قالت: لو أدرلک النّبی صلّی اللہ علیہ وسلم ما أحدث النّساء لمنعھنّ المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل۔

‘‘ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا، اگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (عورتوں کی اس خرابی کو دیکھ لیتے) جو انہوں نے اب پیدا کر دی ہے تو آپ ان کو مسجد میں آنے سے روک دیتے، جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو روکا گیا تھا۔’’

(صحیح بخاری: ۸۳۱، صحیح مسلم: ۴۴۵)

تبصرہ:

۱۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا مقصود عورتوں کو تنبیہ کرنا تھا، ان کو روکنا مقصود نہ تھا، کیونکہ اگر سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالی عورتوں کا مسجد میں جانا جائز نہ سمجھتیں تو ضرور ان کو روکتیں، حالانکہ ان سے ایک مرتبہ بھی ایساکرنا ثابت نہیں، اس کے برعکس آپ خود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد بھی مسجد میں جاتی رہیں، بلکہ مسجد میں اعتکاف بھی بیٹھتی رہیں۔

لہذا آج عورتوں کو اس حدیث کو دلیل بنا کر مسجدوں سے روکنے والے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی مخالفت کر رہے ہیں اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بھی۔

۲۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بقول اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایسی خرابیاں دیکھ لیتے تو عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے روک دیتے، اگر آپ منع فرما دیتے تو ہم عورتوں کو مسجد سے روکتے، جب آپ نے نہیں روکا، حالانکہ حکیم و خبیر اللہ جو آپ کی زبان نبوت سے دین نکلوا رہا تھا، وہ تو جانتا تھا کہ بعد میں کیا کیا خرابیاں پیدا ہوں گی، اب ہم روکنے والے کون ہوتے ہیں، پھر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم کا اس بارے میں موقف آپ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے مذکورہ واقعہ سے جان چکے ہیں۔

۳۔ زنا سے بڑی خرابی (عورت کے حوالے سے) اور کیا ہو سکتی ہے؟ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں زنا کی وجہ سے رجم کی حد بھی قائم کی گئی، لیکن عورتوں کو مسجد میں آنے سے نہ روکا گیا تو آج کس ‘‘ بڑی خرابی’’ کو مدنظر رکھ کر عورتوں کو روکا جاتاہے؟

۴۔ اس قسم کی خرابی تمام عورتوں میں نہیں پائی جاتی، بلکہ کچھ عورتوں میں ہوتی ہے، لہذا ان قلیل عورتوں کی وجہ سے دوسرے تمام نیک عورتوں کو نیکی سے کیونکر روکا جائے؟

۵۔ اگر ان خرابیوں کی وجہ سے عورت کا مسجد میں جانا منع ہو سکتاہے تو بازار میں جانا بالاولٰی حرام ہونا چاہیے، اسی طرح کسی بھی غرض کے لیے گھر سے باہر نکلنا ممنوع ہونا چاہیے، لیکن اس کا کوئی بھی قائل نہیں، آج عورتوں کو بازاروں سے تو منع نہیں کیا جاتا، جبکہ مسجد میں جانے پر پابندی ہے، حالانکہ مسجدیں امن کا مرکز ہوتی ہیں، نیز نمازی لوگ اکثر نیک ہوتے ہیں، اب بتائیں کہ بازاری لوگ خطرے کا باعث ہیں یا وہ نمازی لوگ جن سے اکثر بازاری عورتیں بھی شرما کر پردہ کر لیتی ہیں۔

۶۔ بوڑھی اور جوان عورتوں کی تفریق، نیز دن اور رات کی تخصیص اس روایت سے قطعاً ثابت نہیں ہوتی۔

جو لوگ کہتے ہیں:

و یکرہ لھنّ حضور الجماعت یعنی الشّوابّ منھنّ لما فیہ من خوف الفتنۃ ولا بأس للعجوز أن تخرج فی الفجر والمغرب والعشاء۔

‘‘ جوان عورتوں کے لیے جماعت میں شامل ہونا مکروہ ہے، کیونکہ فتنہ کا ڈر ہے، البتہ بوڑھی عورتوں کے فجر، مغرب اور عشاء میں شامل ہونے میں کوئی حرج نہیں۔’’

(الھدایۃ مع الدرایۃ: ۱۲۸/۱)

وہ اس روایت کو کس منہ سے پیش کرتے ہیں؟

دلیل نمبر۲:

عن أمّ امرأۃ أبی حمید السّادی رضی اللہ عنھا انّھا جاءت الی النّبی صلّی اللہ علیہ وسلّم، فقالت: یارسول اللہ! انّی أحب الصّلاۃ معک، فقال: قد علمت أنّک تحبّین الصّلاۃ معی، وصلاتک فی بیتک خیر من صلاتک فی حجرتک و صلاتک فی حجرتک خیر من صلاتک دارتک دارک وصلاتک خیر من صلاتک فی مسجد قومک و صلاتک فی مسجد قومک خیر من صلاتک فی مسجد قومک خیر من صلاتک فی مسجدی، قال: فأمرت، فبنی لھا مسجد فی أقصی شیء من بیتھا وأظلمہ و کانت تصلّی فیہ حتی لقیت اللہ عزّوجلّ۔

‘‘ سیدنا ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ کی زوجہ محترمہ سیدہ ام حمید بیان کرتی ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کی، اے اللہ کے رسول! میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، آپ نے فرمایا، میں جانتا ہوں کہ آپ میرے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہیں، لیکن آپ کی کوٹھڑی میں پڑھی جانے والی نماز صحن میں نماز سے بہتر ہے اور صحن کے احاطہ میں نماز، قوم کی مسجد میں نماز سے بہتر ہے اور آپکی اپنی قوم کی مسجد میں نماز میری مسجد میں نماز سے بہتر ہے، راوی کہتے ہیں کہ ام حمید رضی اللہ عنہا نے حکم دیا تو ان کے گھر کے اندرونی اور تاریک حصہ میں (ایک جگہ مختص کر کے) مسجد بنا دی گئی، پھر وہ تادم وفات اسی جگہ میں نماز پڑھتی رہیں۔’’

(مسند الامام احمد: ۳۷۱/۶، وسندہٗ صحیح)

اس حدیث کو امام ابن خزیمہ (۱۶۸۹) اور امام ابن حبان (۲۲۱۷) رحمہما اللہ نے ‘‘ صحیح’’ کہاہے۔

تبصرہ:

اس حدیث پر امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ کی تبویب ملاحظہ ہو:

باب اختیار صلاۃ المرأۃ فی حجرتھا علی صلاتھا فی دارھا وصلاتھا فی مسجد قومھا علی صلاتھا فی مسجد النّبی صلّی اللہ علیہ وسلم و ان کانت صلاۃ فی مسجد النّبی صلّی اللہ علیہ وسلم تعدل ألف صلاۃ فی غیرھا من المساجد، والدّلیل علی أنّ قول النّبی صلّی اللہ علیہ وسلم صلاۃ فی مسجدی ھذا أفصل من ألف صلاۃ فیما سواہ من المساجد، أراد بہ صلاۃ الرّجال دون صلاۃ النّساء۔

‘‘ عورت کی گھر میں نماز صحن میں نماز سے بہتر ہے اور اس کی اپنی قوم کی مسجد میں نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں نماز سے افضل ہے، اگرچہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں ایک نماز دوسری مساجد کی ہزار نمازوں سے افضل ہے، اس سے مراد مرد ہیں، عورتیں نہیں۔’’

(صحیح ابن خزیمۃ: ۱۷۷)

یہی بات تو ہم کہتے ہیں کہ عورت کی نماز گھر میں افضل ہے، لیکن اگر وہ مسجد میں جا کر ادا کرے تو جائز ہے، اس کو مسجد سے روکنا حرام ہے، ہم نے کب اس کا مسجد میں جانا افضل یا ضروری قرار دیا ہے؟

عورت کے مسجد جانے کی ممانعت اور اس ضمن میں بوڑھی اور جوان عورت کے فرق پر ایک صحیح و صریح دلیل مطلوب ہے۔

دلیل نمبر ۳:

عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال: ما صلّت المرأۃ فی مکان خیر لھا من بیتھا الّا أن تکون المسجد الحرام أو مسجد النّبی صلّی اللہ علیہ وسلم الّا امرأۃ تخرج فی منقلیھا یعنی خفّیھا۔

‘‘ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا، عورت کےلیے نماز کی کوئی بھی جگہ اپنے گھرسے بہتر نہیں، ہاں! اگر مسجد حرام یا مسجد بنوی ہو اور عورت موزے پہن کر نکلے( تو بہترہے)۔’’

(المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۹۳/۹)

علامہ ہیثمی (مجمع الزوائد: ۳۴/۲) نے اس کے راویوں کے بارے میں رجالہ رجال الصّحیح۔

(اس کے راوی صحیح بخاری کے راوی ہیں) کہا ہے۔

تبصرہ:

۱۔ حماد بن سلمہ آخری عمر میں ‘‘ اختلاط’’ کا شکار ہو گئے تھے، ان کے شاگرد حجاج بن منہال کا ان سے اختلاط سے پہلے سماع ہمیں نہیں مل سکا۔

۲۔ اس راویت میں سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے عورت کی گھر میں نماز کو بہتر و افضل قرار دیا ہے، جس کے ہم بھی قائل ہیں، مسجد میں عورتوں کے جانے کی ممانعت پر دلیل مطلوب ہے، مزید وضاحت اگلی روایت کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔

دلیل نمبر۴:

عن أبی عمرو الشیبانی قال: رأیت ابن مسعود یطرد النّساء من المسجد یوم الجمعۃ۔

‘‘ ابو عمرو شیبانی رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو دیکھا، آپ جمعہ کے دن عورتوں کو مسجد سے بھگا رہے تھے۔’’

(المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۹۴/۹، وسندہٗ صحیح)

تبصرہ:

۱۔ یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت ابن مسعود رضی اللہ عنہ تک نہیں پہنچی، ورنہ یہ کیسے ممکن ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں کو مسجد سے روکنے سے منع بھی فرمایا ہو، لیکن اس کے باوجود سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ عورتوں کو بھگاتے ہوں؟ کسی مسلمان کا ایمان ایسا سوچنے کی اجازت نہیں دیتا۔

۲۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما جنہوں نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عورتوں کو مسجدوں سے روکنے کی ممانعت نقل کی ہے، ان کا فتویٰ یہی ہے کہ عورتوں کو مسجد سے روکنا خلاف سنت ہے، جیسا کہ ہم اپنے دلائل میں ثابت کر چکے ہیں، نیز محدثین و ائمہ احناف کے نزدیک مسلمہ اصول

راوی الحدیث أدری بما فیہ (راویٔ حدیث اپنی روایت کے مفہوم کو دوسروں سے بہتر جانتاہے) کے تحت انہی کی بات راجح ہوگی۔

۳۔ کئی مسائل ایسے ہیں جن کی خبر سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تک نہ پہنچی اور وہ جمہور صحابہ کے خلاف عمل کرتے رہے، کیا ان مسائل میں بھی آپ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول و فعل کو حجت مانتے ہیں، صرف ایک مثال پیش خدمت ہے کہ صحیح مسلم (۵۳۴) میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا رکوع میں تطیق کی (دونوں ہاتھوں کو جوڑ کر رکھا)، بلکہ ساتھ نماز پڑھنے والے دونوں تابعین کے ہاتھوں پر بھی مارا کہ وہ تطبیق کیوں نہیں کر رہے، نیز انہوں نے دو مقتدی پیچھے کھڑے کرنے کی بجائے اپنی دونوں جانب کھڑا کیا۔

اب ان دونوں مسئلوں میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مبارک ہم تک پہنچ چکا ہے کہ رکوع میں ہاتھ گھٹنوں پر رکھنے ہیں اور تین نمازی ہونے کی صورت میں امام آگے اور دونوں مقتدی پچھلی صف میں کھڑے ہوں گے۔ کیا سیدنا مسعود رضی اللہ عنہ کے یہ دونوں تفردات بھی قابل عمل ہیں؟ اگر جواب نفی میں ہے تو عورتوں کو مسجدوں سے روکنے کے معاملے میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم، خلفائے راشدین اور دیگر جمہور صحابہ کرام کے خلاف سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے عمل کو حجت بنانا انصاف کیسے ہے؟

۳۔ اس روایت میں بوڑھی اور جوان عورت، نیز دن اور رات کا خود ساختہ فرق موجود نہیں ہے۔

دلیل نمبر۵:

عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال: کان الرّجال و النّساء فی بنی اسرائیل یصلّون جمیعا، فکانت المرأۃ اذا کان لھا الخلیل تلبس القالبین، تطول بھما لخلیلھا، فألقی اللہ علیھنّ الحیض، فکان ابن مسعود یقول: أخروھنّ حیث أخرھنٔ اللہ۔

‘‘ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ بنی اسرائیل کے مرد و عورت اکٹھے نماز پڑھتے تھے، عورت کا جب دوست ہوتا تو وہ لکڑی کا جوتا پہنتی تاکہ لمبی ہو کر اپنے آشنا کو نظر آجائے، اس پر اللہ تعالی نے عورتوں پر حیض ڈال دیا، پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا، ان کو وہاں سے ہٹادو جہاں سے اللہ ان کو ہٹادیا۔’’

( العمھم الکبیر للطبرانی: ۲۹۵/۹)

تبصرہ:

۱۔ اس روایت کی سند امام عبدالرزاق، امام سفیان ثوری، امام اعمش اور امام ابراہیم نخعی رحمہم اللہ کی ‘‘ تدلیس’’ کی وجہ سے ‘‘ ضعیف’’ ہے۔

صحیح ابن خزیمہ (۱۷۰۰) والی سند بھی امام اعمش کی ‘‘ تدلیس’’ کی وجہ سے ‘‘ ضعیف’’ ہے۔

۲۔ اگر بنی اسرائیل کی عورتوں کو مسجد سے روک دیا گیا تھا تو ہماری شریعت میں عورتوں کو مسجد میں جانے کی اجازت دی گئی ہے، جیسا کہ ہم دلائل صحیحہ و صریحہ سے ثابت کر آئے ہیں۔

۳۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تو اس روایت میں عورتوں کو مطلق طور پر مسجد آنے سے روک رہے ہیں، پھر بوڑھی عورتوں کی تخصیص اور دن رات کا فرق کہا سے آگیا۔

دلیل نمبر ۶:

عن أمّ سلمۃ رضی اللہ عنھا قالت: قال رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم: صلاۃ المرأۃ فی بیتھا خیر من صلاتھا فی حجرتھا و صلاتھا فی حجرتھا فی دارھا و صلاتھا فی دارھا خیر من صلاتھا خارج۔

‘‘ سیدہ اُم سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عورت کی اپنے گھر میں نماز صحن میں نماز سے بہتر ہے، اس کی اپنے صحن میں نماز اپنےاحاطہ میں نماز سے بہتر ہے، اس کی اپنے احاطہ میں نماز باہر نماز سے بہتر ہے۔’’

(المعجم الاوسط للطبرانی: ۴۸/۹)

تبصرہ:

۱۔ اس کی سند ‘‘ ضعیف’’ ہے، زیدبن المہاجرراوی کے حالات نہیں مل سکے، اس کی صحت کے مدعی پر دلیل توثیق لازم ہے۔

۲۔ اس روایت میں عورتوں کو مسجدوں سے روکنا قطعاً ثابت نہیں ہوتا۔

۳۔ بوڑھی اور جوان عورت کا فرق، نیز دن اور رات کی تفریق کہاں ہے؟

دلیل نمبر ۷:

عن ابن مسعود رضی اللہ عنہ قال: انّ المرأۃ عورۃ و انّھا اذا خرجت من بیتھا استشرفھا الشّیطان، فتقول: ما رآنی أحد الا أعجبتہ، و أقرب ما تکون الی اللہ اذا کانت فی قعر بیتھا۔

‘‘ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عورت پردے کا نام ہے، جب یہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے غور سے دیکھتا ہے، وہ کہتی ہے کہ مجھے جو بھی دیکھے گا، اسے پسند آؤں گی، عورت اللہ تعالی کے زیادہ قریب ہوتی ہے جب وہ اپنے گھر کے اندرونی کمرے میں ہو۔’’

(المعجم الکبیر للطبرانی: ۲۹۵/۹، وسندہٗ صحیح)

تبصرہ:

۱۔ اس روایت میں عورت کو مسجد سے روکنے کا کوئی ثبوت نہیں، بلکہ نماز تک کا ذکر نہیں ہے۔

۲۔ پہلے بھی بتایا جا چکا ہے کہ عورت کو مسجد سے روکنے سے ممانعت والی حدیث سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ تک نہیں پہنیچی، پھر ان کی یہ بات دلیل کسیے بن سکتی ہے۔

۳۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں بھی تو عورتیں مسجد میں آتی تھیں، اس روایت کے مطابق ان پر کیا حکم لگائیں گے؟

دلیل نمبر ۸:

عن سلیمان بن أبی حثمۃ عن أمّۃ قالت: رأیت النّساء القواعد یصلّین مع رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم۔

‘‘ سلیمان بن ابی حثمہ اپنی والدہ سے بیان کرتے ہیں، وہ کہتی ہیں کہ میں نے بوڑھی عورتوں کو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے دیکھا۔’’

(المعجم الکبیر للطبرانی: (۳۱۷/۲۴)

تبصرہ:

۱۔ اس کی سند سخت ‘‘ ضعیف’’ ہے، ابن ابی لیلیٰ اور عبدالکریم بن ابی المخارق دونوں ‘‘ ضعیف’’ ہیں۔

۲۔ اس روایت میں عورتوں کو مسجد سے روکنے کا اشارہ تک نہیں، نیز رات کی تخصیص کہاں ہے؟ ظاہر ہے کہ دن کے اجالے میں ہی دیکھا جا سکتاتھا۔

دلیل نمبر ۹:

عن أبی عمرو الشّیبانی قال: حلف عبد اللہ، فبالغ فی الیمین: مامن مصلّی لا مرأۃ خیر من بیتھا الّا فی حجّ أو عمرۃ، الّا امرأۃ قد ینست من البعولۃ ، فھی فی منقلیھا۔

‘‘ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بہت مبالغہ سے قسم اٹھا کر فرمایا، عورت کے لیے گھر سے بہتر کوئی جائے نماز نہیں، ہاں! اگر عورت حج یا عمرہ میں ہو یا عورت بوڑھی ہو کر نکاح سے مایوس ہو چکی ہو اور اس نے موزے پہن رکھے ہوں’’۔

(العمجم الکبیر للطبرانی:۲۹۴/۹)

تبصرہ:

۱۔ اس روایت سے بھی عورتوں کو مسجد سے روکنے کا جواز ثابت نہیں ہوتا۔

۲۔ اس کی سند میں محمد بن النضر کے حالات نہیں مل سکے، مسند علی بن الجعد (۲۲۹۰) میں اس کی متابعت شریک بن عبداللہ القاضی نے کی ہے، لیکن یہ روایت شریک کی ‘‘ تدلیس’’ کی وجہ سے ‘‘ ضعیف’’ ہے۔ نیز اس کی صحت کا دعویٰ اس وقت تک قابل التفات نہیں ہو سکتا جب تک سعید بن مسروق کا ابوعمرو الشیبانی سے سماع ثابت نہ ہو جائے۔

دلیل نمبر ۱۰:

عن أمّ حکیم أبی حکیم انّھا قالت: أدرکت القواعد و ھنّ یصلّین مع رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلم۔

‘‘ سیدہ ام حکیم بنت ابی حکیم رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے بوڑھی عورتوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز ادا کرتے دیکھا۔’’

(المعجم الکبیرللطبرانی: ۱۳۰/۲۵)

تبصرہ:

۱۔ اس روایت کی سند بھی ابن ابی لیلیٰ اور عبدالکریم بن ابی المخارق کی وجہ سے ‘‘ ضعیف’’ ہے۔

۲۔ ان ‘‘ ضعیف’’ روایات سے بھی رات کی تخصیص نہیں ہو سکی۔

دلیل نمبر ۱۱:

عن أمّ سلیم رضی اللہ عنھا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وسلّم أنّہ قال: خیر مساجد النّساء قعربیوتھنّ۔

‘‘ سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، عورتوں کے لیے نماز کی بہترین جگہ ان کے گھروں کے اندرونی کمرے ہیں۔’’

(مسند الامام احمد:۲۹۷/۶)

تبصرہ:

۱۔ اس کی سند سخت ‘‘ ضعیف’’ ہے، کیونکہ رشدین بن سعد جمہور کے نزدیک سخت ‘‘ ضعیف’’ اور سائب مولیٰ ام سلمہ مجہول الحال ہے۔

دوسری سند اس سے بھی بدتر ہے کیونکہ:

ا۔ اس میں ابن لہیعہ ‘‘ ضعیف ومختلط’’ ہے۔

۲۔ حسن کا ان سے اختلاط سے پہلے سننا ثابت نہیں۔

۳۔ سائب مذکوہ ‘‘ مجہول الحال’’ ہے۔

الحاصل:

ثابت ہوا کہ عورتوں کو مسجد جانے سے روکنا درست نہیں اور اس پر کوئی شرعی دلیل دلالت نہیں کرتی۔ اب عورتوں کو مسجدوں سے روکنے والے ہی بتائیں کہ ان کا عمل حدیث کی موافقت ہے یا مخالفت؟؟؟

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
 
Top