نماز میں کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والے کیلئے حکم
سنن ابو داود میں ( کتاب الصلاۃ ،باب الإسبال في الصلاة ) میں ہے :
عن أبي هريرة، قال: بينما رجل يصلي مسبلا إزاره إذ قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اذهب فتوضأ»، فذهب فتوضأ، ثم جاء، ثم قال: «اذهب فتوضأ»، فذهب فتوضأ، ثم جاء، فقال له رجل: يا رسول الله ما لك أمرته أن يتوضأ، ثم سكت عنه، فقال: «إنه كان يصلي وهو مسبل إزاره وإن الله تعالى لا يقبل صلاة رجل مسبل إزاره»
ترجمہ :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”جا کر دوبارہ وضو کرو“، چنانچہ وہ گیا اور اس نے (دوبارہ) وضو کیا، پھر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: ”جا کر پھر سے وضو کرو“، چنانچہ وہ پھر گیا اور تیسری بار وضو کیا، پھر آیا تو ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا بات ہے! آپ نے اسے وضو کرنے کا حکم دیا پھر آپ خاموش رہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنا تہہ بند ٹخنے سے نیچے لٹکا کر نماز پڑھ رہا تھا، اور اللہ تعالیٰ ٹخنے سے نیچے تہبند لٹکا کر نماز پڑھنے والے کی نماز قبول نہیں فرماتا“
یہ حدیث اسناد کے لحاظ سے حسن درجہ کی ہے ،
علامہ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سنن ابی داود کی تخریج میں ( جو انگلش ترجمہ کے ساتھ ) دار السلام سے شائع ہے
فرماتے ہیں :
(اسناده حسن ) اخرجه احمد 4- 67 ) من حديث ابن العطار به "ابو جعفر المدني حسن له الترمذي حديث 3448 - وصحح له ابن حبان حديث 2406-
وقواه ابن حجر في نتائج الافكار و النووي فى رياض الصالحين بتصحيح حديثه " وروى عنه يحي ابن ابي كثير وهو لا يحدث الا عن ثقة
(سنن ابی داود جلد اول صفحہ ۳۸۵ )
https://archive.org/details/SunanAbuDawudVol.111160EnglishArabic/page/n383
اس حدیث کی نفیس شرح
ہندوستان کے مشہور محدث علامہ عبیدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ اپنی معروف کتاب (مرعاة المفاتيح ) میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
(إذهب فتوضأ) قيل: نما أمره بالوضوء ليعلم أنه مرتكب معصية لما أسبقه في نفوسهم أن الوضوء يكفر الخطايا ويزيل أسبابها كالغضب ونحوه، وقال الطيبي: لعل السر في أمره بالتوضي وهو ظاهر أن يتفكر الرجل في سبب ذلك الأمر فيقف على ما ارتكبه من المكروه (أى ينظر إلى إسباله المخل في إسباغ الوضوء المسبب لعدم قبول الصلاة) وأن الله ببركة أمر رسوله عليه الصلاة والسلام إياه بطهارة الظاهر يطهر باطنه من دنس الكبر، لأن طهارة الظاهر مؤثرة في طهارة الباطن، فعلى هذا ينبغي أن يعبر كلام رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن أن الله تعالى لا يقبل صلاة المتكبر المختال، فتأمل في طريق التنبيه، ولطف هذا الإرشاد ))
(مرعاة المفاتيح جلد دوم باب الستر )
ترجمہ : یعنی نبی مکرم ﷺ نے اس شخص کو وضوء کا حکم اسلئے دیا تاکہ وہ جان لے کہ وہ معصیت کا مرتکب ہے، آپ ﷺ نے پہلے سے یہ تعلیم دے رکھی تھی ،کہ وضوء گناہوں کا کفارہ ہے
اور گناہوں کے اسباب ( جیسے غصہ ، غضب تکبر ) کو مٹاتا ہے ، ( اور کپڑا لٹکانا تکبر کی علامت ہے ، اسلئے مقاصد وضوء کے خلاف ہے )
علامہ الطیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کہ شاید اس وضوء کے حکم میں یہ راز ہو کہ اس شخص کی سوچ میں اس امر کا سبب موجود ہو ، اور آپ ﷺ ( کسی علامت کی بنا پر ) اس کی اس سوچ کو جان لیا ہو ، تو گویا آپ ﷺ نے اسباغ وضوء میں مخل کو دیکھ لیا جو قبولیت نماز میں رکاوٹ تھا )
اور اللہ عزوجل ، نبی کریم ﷺ کے حکم کی برکت سے طہارت ظاہری (وضوء ) سے اس کے باطن کی آلائش تکبر سے پاک کردے
کیونکہ ظاہری طہارت ،باطنی طہارت کیلئے بھی مؤثر ہے ، تو اس نہج سے یہاں کلامِ پیغمبر ﷺ کی تعبیر اس حقیقت سے کی جائے کہ چونکہ اللہ تعالے متکبر ، خود پسند و خود نمائی کرنے والے کی نماز قبول نہیں کرتا ،
سو اے قاری اس طرز تنبیہ اور لطف ارشاد پر نظر توجہ مبذول کر( کہ کس طرح عبادت کے مقاصد اور اصلاح باطن کی اہمیت کی تعلیم دی گئی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حافظ ابن القیم رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
ووجہ ھذا الحدیث ـ واللّٰہ أعلم ـ أنّ إسبال الإزار معصیۃ ، وکلّ من واقع معصیۃ ، فإنّہ یؤمر بالوضوء والصّلاۃ ، فإنّ الوضوء یطفیء حریق المعصیۃ ۔ ”
اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا معصیت ہے ، جو بھی کسی معصیت میں مبتلا ہوگا ، اسے وضو اور نماز کا حکم دیا جائے گا ، کیونکہ وضو معصیت (نافرمانی) کی آگ کو بجھاتا ہے ۔”(التھذیب علی سنن ابی داو،د : ٦/٥٠)
اور ساتویں صدی کے جید محدث علامہ طیبی(شرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي (743ھ)
رحمہ اللہ لکھتے ہیں : (
لعلّ السّرّ فی أمرہ بالتّوضّیء ، وھو طاھر ، أن یتفکّر الرّجل فی سبب ذلک الأمر ، فیقف علی ما ارتکبہ من شنعاء ، وأنّ اللّٰہ تعالیٰ ببرکۃ أمر رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم طھارۃ الظّاھر ، یطھّر باطنہ من التّکبّر والخیلاء ، لأنّ طھارۃ الظّاھر مؤثّرۃ فی طھارۃ الباطن ۔
”باوضو انسان کو وضو کا حکم دینے میں شاید یہ حکمت پنہاں ہو کہ (دوبارہ وضو کرنے کے بارے میں)حکم میں وہ غوروفکر کرے ، جس بُری حرکت کا وہ مرتکب ہورہا ہے ، اس پر خبردار ہوجائے ۔ یقینا اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری طہارت کے حکم (کی تعمیل) کی برکت سے اس کے باطن کو تکبر اور افتخار وعُجب سے پاک کر دے گا ، کیونکہ ظاہری طہارت باطنی طہارت پراثر انداز ہوتی ہے ۔”
(شرح الطیبی : ٢/٢٦٨)
علامہ ابوبکر ابن العربی المالکی (المتوفی 543 ھ) رحمہ اللہ لکھتے ہیں : (
إنّ الصّلاۃ حال تواضع وإسبال الإزار فعل متکبّر ، فتعارضا ، وأمرہ لہ بإعادۃ الوضوء أدب لہ وتأکید علیہ ، ولأنّ المصلّی یناجی ربّہ ، واللّٰہ لا ینظر إلی من جرّ إزارہ ، ولا یکلّمہ ، فکذلک لم یقبل صلاتہ ۔
”نماز تواضع کی حالت ہوتی ہے ، جبکہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا متکبر آدمی کا کام ہے ، یہ دونوں کام باہم متعارض ہیں ۔اس شخص کو وضو لوٹانے کا حکم اسے ادب سکھانے اور تاکید کرنے کا سبب ہے ، کیونکہ نمازی اپنے رب سے مناجات (سرگوشیاں) کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کپڑا گھسیٹنے والے شخص کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے اورنہ ہی اس سے کلام کریں گے ، اسی لیے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔”(عارضۃ الاحوذی : ٧/٢٣٨)
اس بات کی تاکید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے :
٭سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنّ اللّٰہ عزّ وجلّ لا ینظر إلی مسبل الإزار
”یقینا اللہ تعالیٰ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے والے کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھتے ۔”(مسند الامام احمد : ١/٣٢٢، سنن النسائی : ٥٣٣٥، مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٣٨٨، وسندہ، صحیحٌ)
حدیث ِ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا :
من أسبل إزارہ فی صلاتہ خیلاء ، فلیس من اللّٰہ فی حلّ ولا حرام ۔
”جس نے تکبر کی وجہ سے نماز میں کپڑا لٹکایا ، اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی سروکار نہیں(یا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کو حلال کریں گے نہ دوزخ کو حرام) ۔”(سنن ابی داو،د : ٦٣٧، السنن الکبرٰی للنسائی : ٩٦٨٠، وسندہ، حسنٌ)
اگر کوئی کہے کہ ا س کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر تکبر کا ارادہ نہ ہوتو نماز پڑھ سکتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مفہوم ِ مخالف تب ہوگا ، جب کوئی قرینہ موجود نہ ہو ۔ یہاں تو نص موجود ہے کہ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا ہی تکبر ہے ،لہٰذا جو بھی جان بوجھ کر کپڑا لٹکائے گا ، وہ اس زمرہ میں آئے گا ، خواہ تکبر کا ارادہ نہ بھی ہو ۔
الحاصل : وہ احادیث جن میں خیلاء (تکبر کی وجہ سے) کپڑا لٹکانے کا ذکر ہے ، ان کا مطلب یہ ہے کہ جان بوجھ کر جو بھی کپڑا لٹکائے گا ، کیونکہ بھول کر لٹک جانے سے تکبر ہوتا ہی نہیں ۔ اور جان بوجھ کر کپڑا لٹکانا خود تکبر ہے ، جیسا کہ حدیث سے واضح کیا جا چکا ہے ۔
مرد کے لیے ٹخنوں سے نیچے شلوار وغیرہ لٹکانا ممنوع وحرام اور گناہ ِ کبیرہ ہے ۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ وَكُلُّ نَبِيٍّ كَانَ: الزَّائِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَالمُكَذِّبُ بِقَدَرِ اللَّهِ، وَالمُتَسَلِّطُ بِالجَبَرُوتِ لِيُعِزَّ بِذَلِكَ مَنْ أَذَلَّ اللَّهُ، وَيُذِلَّ مَنْ أَعَزَّ اللَّهُ، وَالمُسْتَحِلُّ لِحُرُمِ اللَّهِ، وَالمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ اللَّهُ، وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِي "
”چھ شخص ایسے ہیں ، جن پر میں نے لعنت کی ہے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی بھی لعنت ہے ۔۔۔ (ان میں سے ایک) وہ شخص ہے ، جو میری سنت کو چھوڑتا ہے ۔”(سنن الترمذی : ٢١٥٤، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان رحمہ اللہ (٥٧٤٩) اور امام حاکم رحمہ اللہ (٢/٥٢٥) نے ”صحیح” کہا ہے ۔
اس حدیث کے راوی عبدالرحمن بن ابی الموال کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ثقۃ مشہور ۔ ”یہ مشہور ثقہ راوی ہے ۔”(المغنی للذھبی : ٢/٦١٤)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :(
من ثقات المدنیّین ) ”یہ ثقہ مدنی راویوں میں سے ہے ۔”(فتح الباری لابن حجر : ١١/١٨٣)
اس کا دوسرا راوی عبیداللہ بن عبدالرحمن بن موہب ”مختلف فیہ” ہے ۔ راجح یہی ہے کہ وہ جمہور کے نزدیک ”حسن الحدیث” ہے ۔
یاد رہے کہ اس حدیث میں سنت سے مراد واجبی اور فرضی سنتیں ، مثلاً نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ ، ڈاڑھی رکھنا ، شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنا وغیرہ مراد ہیں ۔اب جو بھی شخص جان بوجھ کر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکائے گا ، اس فرمانِ نبوی کے مطابق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پر لعنت ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی لعنت سے دُور رکھے اور اپنی رحمت کا مستحق بنائے ! آمین