• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
إِزرةُ المسلمِ إلى نصفِ السَّاقِ ولا حرَجَ ولا جُناحَ فيما بينَهُ وبينَ الكَعبينِ ، ما كانَ أسفلَ من الكعبينِ فَهوَ في النَّارِ، مَن جرَّ إزارَهُ بطرًا لم ينظرِ اللَّهُ إليهِ
الراوي: أبو سعيد الخدري المحدث: ابن مفلح - المصدر: الآداب الشرعية - الصفحة أو الرقم: 3/521
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
محترم شیخ @اسحاق سلفی صاحب حفظہ اللہ.
براہ کرم اس حدیث کا ترجمہ لکھ دیں.
جزاکم اللہ خیرا
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
براہ کرم اس حدیث کا ترجمہ لکھ دیں.
جزاکم اللہ خیرا
محترم بھائی ۔۔۔آپ نے محترمہ بہن ماریہ انعام صاحبہ کی پوسٹ میں جس حدیث کا ترجمہ کہا ہے ،
وہاں تو یہ حدیث امام أبو عبد الله محمد بن مفلح المقدسي الصالحي الحنبلي (708 - 763 ھ) کی کتاب ’’ الآداب الشرعیہ ‘‘ کا حوالہ ہے
الآداب الشرعية بتخريج الشيخ شعيب الارناؤط- جلد 3 ص521
خلاصة حكم المحدث: إسناده صحيح
https://archive.org/stream/FP47297/adabsh3#page/n520/mode/2up
۔جبکہ یہ حدیث بڑے جلیل القدر ائمہ نے اپنی کتب میں بیان کی ہوئی ہے
مثلاً امام بخاریؒ کے شیخ امام الحمیدیؒ ،اور امام ابو داودؒ نے جیسا کہ ذیل میں پیش خدمت ہے ؛
مسند حمیدی میں ہے :
حدثنا الحميدي قال: ثنا سفيان، قال: ثني العلاء بن عبد الرحمن بن يعقوب، مولى الحرقة، قال: سمعت أبي، يقول: أتيت أبا سعيد الخدري، فسألته هل سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم في الإزار شيئا؟ فقال: نعم، تعلم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: «إزرة المؤمن إلى أنصاف ساقيه، لا جناح عليه فيما بينه وبين الكعبين، ما أسفل من الكعبين في النار، لا ينظر الله عز وجل إلى من جر إزاره بطرا» مسند حمیدی حدیث نمبر : 754 )
اور سنن ابو داود میں
حدثنا حفص بن عمر حدثنا شعبة عن العلاء بن عبد الرحمن عن ابيه قال:‏‏‏‏ سالت ابا سعيد الخدري عن الإزار فقال:‏‏‏‏ على الخبير سقطت قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " إزرة المسلم إلى نصف الساق ولا حرج او لا جناح فيما بينه وبين الكعبين ما كان اسفل من الكعبين فهو في النار من جر إزاره بطرا لم ينظر الله إليه ".(سنن ابی داود ، حدیث نمبر: 4093 )
ترجمہ :
عبدالرحمٰن کہتے ہیں میں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے تہ بند کے متعلق پوچھا تو وہ کہنے لگے: بہت خوب جاننے والےسے تم نے پوچھا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمان کا تہ بند آدھی پنڈلی تک رہتا ہے، تہ بند پنڈلی اور ٹخنوں کے درمیان میں ہو تو بھی کوئی حرج یا کوئی مضائقہ نہیں، اور جو حصہ ٹخنے سے نیچے ہو گا وہ جہنم میں رہے گا اور جو اپنا تہ بند غرور و تکبر سے گھسیٹے گا تو اللہ اسے رحمت کی نظر سے نہیں دیکھے گا“۔

نیز دیکھئے : سنن ابن ماجہ/اللباس ۶ (۳۵۷۳)، (تحفةالأشراف: ۴۱۳۶)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/اللباس ۵ (۱۲)، مسند احمد (۳/۵،۳۱، ۴۴، ۵۲، ۹۷) (صحیح)
Narrated Abdur Rahman: I asked Abu Saeed al-Khudri about wearing lower garment. He said: You have come to the man who knows it very well. The Messenger of Allah ﷺ said: The way for a believer to wear a lower garment is to have it halfway down his legs and he is guilty of no sin if it comes halfway between that and the ankles, but what comes lower than the ankles is in Hell. On the day of Resurrection. Allah will not look at him who trails his lower garment conceitedly.
English Translation Reference:, Book 33, Number 4082
 
Last edited:

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
جزاکم اللہ خیرا.
اللہ آپکے علم میں اضافہ عطا فرماۓ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
نماز میں کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے والے کیلئے حکم


سنن ابو داود میں ( کتاب الصلاۃ ،باب الإسبال في الصلاة ) میں ہے :
عن أبي هريرة، قال: بينما رجل يصلي مسبلا إزاره إذ قال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: «اذهب فتوضأ»، فذهب فتوضأ، ثم جاء، ثم قال: «اذهب فتوضأ»، فذهب فتوضأ، ثم جاء، فقال له رجل: يا رسول الله ما لك أمرته أن يتوضأ، ثم سكت عنه، فقال: «إنه كان يصلي وهو مسبل إزاره وإن الله تعالى لا يقبل صلاة رجل مسبل إزاره»
ترجمہ :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک آدمی اپنا تہبند ٹخنوں سے نیچے لٹکائے ہوئے نماز پڑھ رہا تھا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: ”جا کر دوبارہ وضو کرو“، چنانچہ وہ گیا اور اس نے (دوبارہ) وضو کیا، پھر آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ فرمایا: ”جا کر پھر سے وضو کرو“، چنانچہ وہ پھر گیا اور تیسری بار وضو کیا، پھر آیا تو ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا بات ہے! آپ نے اسے وضو کرنے کا حکم دیا پھر آپ خاموش رہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ اپنا تہہ بند ٹخنے سے نیچے لٹکا کر نماز پڑھ رہا تھا، اور اللہ تعالیٰ ٹخنے سے نیچے تہبند لٹکا کر نماز پڑھنے والے کی نماز قبول نہیں فرماتا“

یہ حدیث اسناد کے لحاظ سے حسن درجہ کی ہے ،
علامہ زبیر علی زئی رحمہ اللہ سنن ابی داود کی تخریج میں ( جو انگلش ترجمہ کے ساتھ ) دار السلام سے شائع ہے
فرماتے ہیں :
(اسناده حسن ) اخرجه احمد 4- 67 ) من حديث ابن العطار به "ابو جعفر المدني حسن له الترمذي حديث 3448 - وصحح له ابن حبان حديث 2406-
وقواه ابن حجر في نتائج الافكار و النووي فى رياض الصالحين بتصحيح حديثه " وروى عنه يحي ابن ابي كثير وهو لا يحدث الا عن ثقة

(سنن ابی داود جلد اول صفحہ ۳۸۵ )
https://archive.org/details/SunanAbuDawudVol.111160EnglishArabic/page/n383

اس حدیث کی نفیس شرح
ہندوستان کے مشہور محدث علامہ عبیدالرحمن مبارکپوری رحمۃ اللہ علیہ اپنی معروف کتاب (مرعاة المفاتيح ) میں اس حدیث کے تحت لکھتے ہیں :
(إذهب فتوضأ) قيل: نما أمره بالوضوء ليعلم أنه مرتكب معصية لما أسبقه في نفوسهم أن الوضوء يكفر الخطايا ويزيل أسبابها كالغضب ونحوه، وقال الطيبي: لعل السر في أمره بالتوضي وهو ظاهر أن يتفكر الرجل في سبب ذلك الأمر فيقف على ما ارتكبه من المكروه (أى ينظر إلى إسباله المخل في إسباغ الوضوء المسبب لعدم قبول الصلاة) وأن الله ببركة أمر رسوله عليه الصلاة والسلام إياه بطهارة الظاهر يطهر باطنه من دنس الكبر، لأن طهارة الظاهر مؤثرة في طهارة الباطن، فعلى هذا ينبغي أن يعبر كلام رسول الله - صلى الله عليه وسلم - عن أن الله تعالى لا يقبل صلاة المتكبر المختال، فتأمل في طريق التنبيه، ولطف هذا الإرشاد ))
(مرعاة المفاتيح جلد دوم باب الستر )
ترجمہ : یعنی نبی مکرم ﷺ نے اس شخص کو وضوء کا حکم اسلئے دیا تاکہ وہ جان لے کہ وہ معصیت کا مرتکب ہے، آپ ﷺ نے پہلے سے یہ تعلیم دے رکھی تھی ،کہ وضوء گناہوں کا کفارہ ہے
اور گناہوں کے اسباب ( جیسے غصہ ، غضب تکبر ) کو مٹاتا ہے ، ( اور کپڑا لٹکانا تکبر کی علامت ہے ، اسلئے مقاصد وضوء کے خلاف ہے )
علامہ الطیبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : کہ شاید اس وضوء کے حکم میں یہ راز ہو کہ اس شخص کی سوچ میں اس امر کا سبب موجود ہو ، اور آپ ﷺ ( کسی علامت کی بنا پر ) اس کی اس سوچ کو جان لیا ہو ، تو گویا آپ ﷺ نے اسباغ وضوء میں مخل کو دیکھ لیا جو قبولیت نماز میں رکاوٹ تھا )
اور اللہ عزوجل ، نبی کریم ﷺ کے حکم کی برکت سے طہارت ظاہری (وضوء ) سے اس کے باطن کی آلائش تکبر سے پاک کردے
کیونکہ ظاہری طہارت ،باطنی طہارت کیلئے بھی مؤثر ہے ، تو اس نہج سے یہاں کلامِ پیغمبر ﷺ کی تعبیر اس حقیقت سے کی جائے کہ چونکہ اللہ تعالے متکبر ، خود پسند و خود نمائی کرنے والے کی نماز قبول نہیں کرتا ،
سو اے قاری اس طرز تنبیہ اور لطف ارشاد پر نظر توجہ مبذول کر( کہ کس طرح عبادت کے مقاصد اور اصلاح باطن کی اہمیت کی تعلیم دی گئی )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حافظ ابن القیم رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
ووجہ ھذا الحدیث ـ واللّٰہ أعلم ـ أنّ إسبال الإزار معصیۃ ، وکلّ من واقع معصیۃ ، فإنّہ یؤمر بالوضوء والصّلاۃ ، فإنّ الوضوء یطفیء حریق المعصیۃ ۔
اس حدیث کی توجیہ یہ ہے کہ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا معصیت ہے ، جو بھی کسی معصیت میں مبتلا ہوگا ، اسے وضو اور نماز کا حکم دیا جائے گا ، کیونکہ وضو معصیت (نافرمانی) کی آگ کو بجھاتا ہے ۔”(التھذیب علی سنن ابی داو،د : ٦/٥٠)

اور ساتویں صدی کے جید محدث علامہ طیبی(شرف الدين الحسين بن عبد الله الطيبي (743ھ)
رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ( لعلّ السّرّ فی أمرہ بالتّوضّیء ، وھو طاھر ، أن یتفکّر الرّجل فی سبب ذلک الأمر ، فیقف علی ما ارتکبہ من شنعاء ، وأنّ اللّٰہ تعالیٰ ببرکۃ أمر رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم طھارۃ الظّاھر ، یطھّر باطنہ من التّکبّر والخیلاء ، لأنّ طھارۃ الظّاھر مؤثّرۃ فی طھارۃ الباطن ۔
”باوضو انسان کو وضو کا حکم دینے میں شاید یہ حکمت پنہاں ہو کہ (دوبارہ وضو کرنے کے بارے میں)حکم میں وہ غوروفکر کرے ، جس بُری حرکت کا وہ مرتکب ہورہا ہے ، اس پر خبردار ہوجائے ۔ یقینا اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری طہارت کے حکم (کی تعمیل) کی برکت سے اس کے باطن کو تکبر اور افتخار وعُجب سے پاک کر دے گا ، کیونکہ ظاہری طہارت باطنی طہارت پراثر انداز ہوتی ہے ۔”
(شرح الطیبی : ٢/٢٦٨)

علامہ ابوبکر ابن العربی المالکی (المتوفی 543 ھ) رحمہ اللہ لکھتے ہیں : ( إنّ الصّلاۃ حال تواضع وإسبال الإزار فعل متکبّر ، فتعارضا ، وأمرہ لہ بإعادۃ الوضوء أدب لہ وتأکید علیہ ، ولأنّ المصلّی یناجی ربّہ ، واللّٰہ لا ینظر إلی من جرّ إزارہ ، ولا یکلّمہ ، فکذلک لم یقبل صلاتہ ۔
”نماز تواضع کی حالت ہوتی ہے ، جبکہ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانا متکبر آدمی کا کام ہے ، یہ دونوں کام باہم متعارض ہیں ۔اس شخص کو وضو لوٹانے کا حکم اسے ادب سکھانے اور تاکید کرنے کا سبب ہے ، کیونکہ نمازی اپنے رب سے مناجات (سرگوشیاں) کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کپڑا گھسیٹنے والے شخص کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھیں گے اورنہ ہی اس سے کلام کریں گے ، اسی لیے اس کی نماز قبول نہیں ہوتی۔”(عارضۃ الاحوذی : ٧/٢٣٨)
اس بات کی تاکید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے :
٭سیدنا ابنِ عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
إنّ اللّٰہ عزّ وجلّ لا ینظر إلی مسبل الإزار
”یقینا اللہ تعالیٰ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانے والے کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھتے ۔”(مسند الامام احمد : ١/٣٢٢، سنن النسائی : ٥٣٣٥، مصنف ابن ابی شیبۃ : ٨/٣٨٨، وسندہ، صحیحٌ)

حدیث ِ ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے :
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا : من أسبل إزارہ فی صلاتہ خیلاء ، فلیس من اللّٰہ فی حلّ ولا حرام ۔
”جس نے تکبر کی وجہ سے نماز میں کپڑا لٹکایا ، اللہ تعالیٰ کو اس سے کوئی سروکار نہیں(یا اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت کو حلال کریں گے نہ دوزخ کو حرام) ۔”(سنن ابی داو،د : ٦٣٧، السنن الکبرٰی للنسائی : ٩٦٨٠، وسندہ، حسنٌ)

اگر کوئی کہے کہ ا س کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر تکبر کا ارادہ نہ ہوتو نماز پڑھ سکتا ہے ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ مفہوم ِ مخالف تب ہوگا ، جب کوئی قرینہ موجود نہ ہو ۔ یہاں تو نص موجود ہے کہ ٹخنے سے نیچے کپڑا لٹکانا ہی تکبر ہے ،لہٰذا جو بھی جان بوجھ کر کپڑا لٹکائے گا ، وہ اس زمرہ میں آئے گا ، خواہ تکبر کا ارادہ نہ بھی ہو ۔

الحاصل : وہ احادیث جن میں خیلاء (تکبر کی وجہ سے) کپڑا لٹکانے کا ذکر ہے ، ان کا مطلب یہ ہے کہ جان بوجھ کر جو بھی کپڑا لٹکائے گا ، کیونکہ بھول کر لٹک جانے سے تکبر ہوتا ہی نہیں ۔ اور جان بوجھ کر کپڑا لٹکانا خود تکبر ہے ، جیسا کہ حدیث سے واضح کیا جا چکا ہے ۔
مرد کے لیے ٹخنوں سے نیچے شلوار وغیرہ لٹکانا ممنوع وحرام اور گناہ ِ کبیرہ ہے ۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سِتَّةٌ لَعَنْتُهُمْ وَلَعَنَهُمُ اللَّهُ وَكُلُّ نَبِيٍّ كَانَ: الزَّائِدُ فِي كِتَابِ اللَّهِ، وَالمُكَذِّبُ بِقَدَرِ اللَّهِ، وَالمُتَسَلِّطُ بِالجَبَرُوتِ لِيُعِزَّ بِذَلِكَ مَنْ أَذَلَّ اللَّهُ، وَيُذِلَّ مَنْ أَعَزَّ اللَّهُ، وَالمُسْتَحِلُّ لِحُرُمِ اللَّهِ، وَالمُسْتَحِلُّ مِنْ عِتْرَتِي مَا حَرَّمَ اللَّهُ، وَالتَّارِكُ لِسُنَّتِي "
”چھ شخص ایسے ہیں ، جن پر میں نے لعنت کی ہے اور ان پر اللہ تعالیٰ کی بھی لعنت ہے ۔۔۔ (ان میں سے ایک) وہ شخص ہے ، جو میری سنت کو چھوڑتا ہے ۔”(سنن الترمذی : ٢١٥٤، وسندہ، حسنٌ)
اس حدیث کو امام ابنِ حبان رحمہ اللہ (٥٧٤٩) اور امام حاکم رحمہ اللہ (٢/٥٢٥) نے ”صحیح” کہا ہے ۔
اس حدیث کے راوی عبدالرحمن بن ابی الموال کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :
ثقۃ مشہور ۔ ”یہ مشہور ثقہ راوی ہے ۔”(المغنی للذھبی : ٢/٦١٤)
حافظ ابنِ حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں :( من ثقات المدنیّین ) ”یہ ثقہ مدنی راویوں میں سے ہے ۔”(فتح الباری لابن حجر : ١١/١٨٣)
اس کا دوسرا راوی عبیداللہ بن عبدالرحمن بن موہب ”مختلف فیہ” ہے ۔ راجح یہی ہے کہ وہ جمہور کے نزدیک ”حسن الحدیث” ہے ۔
یاد رہے کہ اس حدیث میں سنت سے مراد واجبی اور فرضی سنتیں ، مثلاً نماز ، روزہ ، حج ، زکوٰۃ ، ڈاڑھی رکھنا ، شلوار ٹخنوں سے اوپر رکھنا وغیرہ مراد ہیں ۔اب جو بھی شخص جان بوجھ کر کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکائے گا ، اس فرمانِ نبوی کے مطابق اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پر لعنت ہے ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی لعنت سے دُور رکھے اور اپنی رحمت کا مستحق بنائے ! آمین
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
اسبالِ ازار کے حوالے سے دو اھم مسئلے

1. اسبالِ ازار بغیر تکبر کیا حکم رکھتا ہے؟
2. اسبالِ ازار ناقض وضو بھی ہے یا نہیں؟
(ڈاکٹر حمزہ مدنی صاحب)
1. اسبال ازار بطور تکبر ھو یا بغیر تکبر دونوں صورتوں میں حرام ہے۔ شرعی احکام کو علتوں کے پیش نظر باطل کرنے کا نظریہ معتزلہ اور غامدیہ کا ہے۔ چنانچہ شرعی حکم وہ ہوتا ہے جو شریعت پیش کرتی ہے، نہ کہ حکم کی علت، علت صرف حکم کی توجیہ کا کام دیتی ہے، حکم شرعی وہی ہوتا ھے جس میں علت پائی جائے ۔۔۔ ورنہ کوئی کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ شراب تبھی حرام ہے جب نشہ دے۔ جسے نشہ نہ دے اس کے لیے حرام نہیں۔
2. میرے بھائی تکبر تو خود حرام ہے، اس کیلیے اسبال ازار کے الحاق کی کیا حاجت ہے؟! فتفکر
3. مسبل ازار کا ارادہ تکبر کا ہے یا نہیں، مسئلہ یہ ہے اسبالِ ازار کا عمل خود تکبر کا ہے۔ یہی بات بعض آئمہ نے بالصراحت بھی بیان کی ہے، ورنہ اسبال ازار پر مصر شخص متکبر نہیں تو اس غلط عمل پر اصرار کیوں؟
4. بعض اھل علم نے کہا ہے کہ حدیث: ما اسفل من الکعبین ففی النار کا تعلق مطلقا اسبال ازار سے ھے، چاہے دل میں تکبر نہ بھی ہو اور ثلاثۃ لایکلمہم اللہ ولاینظر الیہم یوم القیامۃ ۔۔۔۔ والی روایت کا تعلق تکبر کے ساتھ اسبال ازار والی صورت سے ھے۔ وجہ استدلال یہ ہے کہ دونوں روایات میں الگ الگ وعیدیں جو مذکور ہوئی ہیں، معلوم ہوتا ھے کہ یہ دو الگ الگ صورتوں وشکلوں کی دو الگ الگ شرعی وعیدیں ہیں۔ ورنہ شرع شریف میں اس انداز میں کسی جگہ بھی ایک ھی حرام کام پر دو الگ الگ مختلف وعیدیں یوں مذکور نہیں۔ تفصیل الشیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کے ارشادات میں واضح طور پر دیکھی جاسکتی ہے۔
5. جن حضرات کے ہاں یہ اسبال ازار ناقض وضو والی روایت حسن کا درجہ رکھتی ہے، انہیں اصولا اسبال ازار کو ناقض وضو ماننے میں پھر کیا مانع ہے؟
6. اگر حدیث کی صحت کا جزم ہے تو پھر اعمال سلف صالحین کی روشنی میں حدیث کے واضح حکم کی تاویل کیونکر ممکن ہوسکتی ہے؟!
7. عمل سلف اگر روایت کے قبیل سے ھو تب ہی حجت ہے، ورنہ صرف قابل احترام ہے، قابل احتجاج نہیں۔ مزید برآں یہ معاملہ الگ سوال طلب ہے کہ موافقت کی کوشش کرتے ہوئے اسبال ازار ناقض وضو والی بات محکم درجہ کی ہے جسے مؤول بنانے کیلیے الفاظ حدیث میں تاویل کی گنجائش ہونی چاہیے جو کہ حدیث زیر بحث میں بہرحال نظر نہیں آتی۔
8. گناہ کبیرہ کے ارتکاب پر تقوی کا یہ تقاضہ سمجھ نہیں آیا کہ وضو دھرایا جائے؟! تقوی کا تقاضہ تو ایسے مواقع پر یہ ہوتا ہے کہ توبہ واستغفار کی جائے، صدقہ وخیرات کی جائے، رجوع الی اللہ کیا جائے، لیکن وضو کرنے چل پڑے؟ کچھ سمجھ نہیں آیا۔ درست بات یہی ہے کہ یا تو اسبال ازار کو ناقض وضو کہیے یا اس روایت کی کوئی مناسب تشریح کریں۔
9. اسبالِ ازار بالاتفاق ناقض وضو نہیں، البتہ حدیث زیر بحث چونکہ اپنے صحت وضعف میں مختلف فیہ درجہ کی ہے، چنانچہ ایسی روایت کو کبار اھل حدیث اور جمہور اھل فن کے ہاں محل امکان میں چونکہ صحت کا درجہ حاصل ہوتا ہے چنانچہ وہ اپنے معروف اصول کہ ایسی ضعیف روایت جس کا ضعف شدید نہ ہو تو وہ اس میں "امکانِ صحت" کے پیش نظر اسے درجہ احتیاط میں مد نظر رکھنے کا فتویٰ دیتے ہیں۔
10. الغرض اسبال ازار کے ناقض وضو ہونے کا تو سلف میں کوئی بھی قائل نہیں، لیکن اسبالِ ازار کے دیگر شدید نقصانات کے ضمن میں وہ اس مسئلہ کو بھی تہدیدا ذکر کرتے چلے آرھے ہیں۔ یہی فتویٰ محدث روپڑی رح نے فتاوی اھل حدیث میں اختیار کیا ہے کیونکہ وہ بھی جمہور علمائے اھل حدیث کی اقتداء میں غیر شدید ضعیف حدیث پر استحبابِ عمل کے موقف کے پر زور حامی ہیں، جیساکہ فتاوی میں ھی اس مسئلہ کی بابت انہوں نے تفصیلی بحث بھی فرمائی ہے۔ مختلف فاضل بھائیوں کی تمام بحث میں خلاصہ یہی سامنے آتا ھے کہ اسبالِ ازار کی بابت آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تشدید وتہدید کے ذیل میں یہ حدیث بھی مندرج ہے، البتہ چونکہ اس کی صحت مختلف فیہ ومشکل ہے، چنانچہ بالجزم نقض وضو کا فتویٰ دینے کے بجائے احتیاطا وضو کروانے کا موقف راجح ہے۔
11. اس موقف کی اصل بنیاد وھی مسئلہ ہے کہ غیر شدید ضعیف روایت پر علی الجزم والاعتقاد کے بجائے علی الاحتیاط ضرور عمل کرنا چاھیے۔
جن حضرات کے ہاں یہ روایت حسن کا درجہ رکھتی ہے، انہیں اصولا اسبال ازار کو ناقض وضو ماننے میں پھر کیا مانع ہے؟
12. اگر حدیث کی صحت کا جزم ہے تو پھر اعمال سلف صالحین کی روشنی میں حدیث کے واضح حکم کی تاویل کیونکر ممکن ہوسکتی ہے؟!
13. عمل سلف اگر روایت کے قبیل سے ھو تب ہی حجت ہے، ورنہ صرف قابل احترام ہے، قابل احتجاج نہیں۔ مزید برآں یہ معاملہ الگ سوال طلب ہے کہ موافقت کی کوشش کرتے ہوئے اسبال ازار ناقض وضو والی بات محکم درجہ کی ہے جسے مؤول بنانے کیلیے الفاظ حدیث میں تاویل کی گنجائش ہونی چاہیے جو کہ حدیث زیر بحث میں بہرحال نظر نہیں آتی۔
14. یہ دلیل اس میں اس لیے مفید نہیں کیونکہ اول تو ثابت کرنا پڑے گا کہ عمل سلف مبنی روایت تھا، نہ اجتہاد پر مبنی! اور پھر اگر بالفرض روایت پر بھی مبنی ہو تو بھی ایسے مقامات پر دو متعارض نصوص "مشکل" شمار ہوتی ہیں۔ تطبیق بغیر تعسیر وتکلف ممکن ہو تو فبہا ورنہ کسی ایک روایت کو مرجوح یا دونوں روایات میں کوئی وجہ ترجیح نہ ہو تو توقف کی طرف آنا چاھیے۔ لیکن یہاں تو صریح روایت کا مدلول ہی نظر انداز ہو رہا ہے اور ایک "صحیح" روایت کو مؤول قرار دیا جا رہا ہے؟!
 

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
جس دور میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا جہالت تصور کیا جائے وہاں اس کی کیا تشریح ہوگی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کیوں استثنا حاصل تھا۔؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
جس دور میں ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانا جہالت تصور کیا جائے وہاں اس کی کیا تشریح ہوگی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کو کیوں استثنا حاصل تھا۔؟
کہاں استثناء حاصل تھا؟؟؟ کوئی دلیل؟؟؟
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,128
پوائنٹ
412
اولا: اس سے آپ کا استدلال سمجھ سے باہر ہے. ذرا حدیث کے الفاظ پر غور فرمائیں. ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کیا کہا تھا؟
يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّ أَحَدَ شِقَّيْ إِزَارِي يَسْتَرْخِي (صحیح بخاری: 5784)
ترجمہ: یا رسول اللہ! میرے تہمد کا ایک حصہ کبھی لٹک جاتا ہے
آپ دیکھیں کہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ میرا ازار لٹک جاتا ہے. یہ نہیں کہا کہ میں لٹکا لیتا ہوں. اس حدیث میں الفاظ ہیں استرخی نا کہ ارخی.
اور اگر آپ حدیث کے ٹکڑے لَسْتَ مِمَّنْ يَصْنَعُهُ خُيَلَاءَ سے یہ کہنا چاہیں کہ یہ تکبر نہیں تو یہ بھی غلط ہے کیونکہ ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا تھا کہ میرا ازار لٹک جاتا ہے. لہذا اگر کوئی ازار لٹکاتا ہے تو وہ تکبر ہی ٹھہرا.
ثانیا: یہ حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فضائل میں ذکر کی ہے. اور اسمیں ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا تزکیہ ہے.
 
Top