مزکورہ مسئلہ کی عبارت اس طرح ہے
(384)
وان سبقہ الحدث بعد التشھد توضا وسلم
(385)
وان تعمد الحدث فی ھٰذہ الحالۃ، او تکلم ، او عمل عملا ینافی الصلاۃ، تمت صلاتۃ
386
فان رائی المتیمم الماء فی صلاتہ بطلت وقد مر من قبل
لانہ تعذر البناء لوجود القاطع لکن لا اعادۃ علیہ لانہ لم یبق علیہ شئی من الارکان
(اثمٰا الھدایۃ علٰی الھدایۃ صفحہ 575تا 576تا577)
(384)
وان سبقہ الحدث بعد التشھد توضا وسلم
ترجمہ
اور اگر حدث لاحق (بے وضو) ہوگیا تشھد کی مقدار بیٹھنے کے بعد تو “وضو "کرے گا اور سلام کرے گا۔
(فائدہ)
تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد
خود بخود حدث (بے وضو) ہوگیا تو تشہد کی مقدار بیٹھنا آخری فرض تھا جو پورا ہوگیا ،لیکن ابھی سلام کرنا جو کہ
“واجب“ ہے وہ باقی ہے۔
اسلئے اس کو دوبارہ وضو کرکے نماز پر “بناء“ کرنا چاھئیے اور سلام کرنا چاھئیے۔
لان التسلیم واجب فلا بد من التوضی لیاتی بہ
ترجمہ
اسلئے کہ سلام واجب ہے ،اسلئے وضو کرنا ضروری ہے تاکہ سلام پھیر سکے۔
(تشریح)
تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد
خود بخود حدث یعنی بے وضو ہوگیا تو نماز ابھی منقطع نہیں ہوئی اسلئے “ بناء“ کر سکتا ہے، اور
سلام جو کہ “ واجب“ ہے وہ ابھی باقی ہے ا
سلئے وضوء کر کے بناء کرے اور سلام پھیرے۔
اب وہ عبارت دیکھیں جس کو
لولی ساراوقت صاحب نے درمیان سے اچک کر اور
زور سے پاد مارنے کا عنوان دے کر پیش کیا
(385)
وان تعمد الحدث فی ھٰذہ الحالۃ، او تکلم ، او عمل عملا ینافی الصلاۃ، تمت صلاتۃ
ترجمہ
اور اگر جان بوجھ کر حدث (بے وضو) کیا اس حالت میں یا بات کی یا ایسا عمل کیا جو نماز کے منافی ہے تو اس کی نماز پوری ہوگئی۔
اوپر اور اس مسئلے میں فرق یہ ہے کہ کہ
اوپر خود بخود حدث یعنی بے وضو ہوا تھا ،اسلئے پہلی حالت کی نماز پر
“ بناء “ کرسکتا تھا اسلئے وضو کرے گا اور سلام پھیرے گا۔
اور اس مسئلے میں یہ ہے کہ جان کر حدث (بے وضو ) کیا ہے ا
س لئے نماز ٹوٹ گئی اسلئے اب بناء نہیں کرسکتا اور سلام نہیں پھیر سکتا،
اور چونکہ صرف سلام واجب باقی ہے اسلئے یوں کہا جائے گا کہ نقص کے ساتھ نماز پوری ہوگئی۔
اصول
یہ مسئلہ اس اصول پر ہے کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالٰی علیہ کے نزدیک سلام تو فرض نہیں ہے لیکن “خروج بصنعہ“ فرض ہے خروج بصنعہ کا مطلب یہ ہے کہ اپنے ارادہ سے کوئی ایسی حرکت کرے جس کی وجہ سے نماز سے نکل جائے۔چونکہ (دوسرے مسئلہ میں) جان بوجھ کر حدث لاحق کیا یعنی بے وضو ہوا، یا بات کرلی ہے یا نماز کے منافی کوئی بھی عمل کیا ، اسلئے “خروج بصنعہ “ پایا گیا جوکہ فرض ہے تو گویا کہ آخری فرض بھی پورا کردیا اسلئے نقص کے ساتھ نماز پوری ہوجائے گی۔
(اول)
اور اوپر والے مسئلہ نمبر 384 میں حدث جان بوجھ کر نہیں کیا بلکہ خود بخود ہوگیا اسلئے
خروج بصنعہ نہیں پایا گیا یعنی ایک فرض رہ گیا اسلئے اوپر کی صورت میں نماز پوری نہیں ہوئی وضو کر کے سلام کرے اور گویا کہ خروج بصنعہ “فرض“ کو بجالائے۔
(دوم)
تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد جان بوجھ کر حدث کرنے سے اس کے ذمہ کوئی فرض باقی نہیں رہا تھا صرف سلام کرنا جوکہ واجب ہے،باقی رہ گیا تھا۔ اس لئے نماز ایک حیثیت سے پوری ہوگئی تھی لیکن سلام(واجب) چھوڑا اسلئے اچھا نہیں کیا اور بناء اسلئے نہیں کرسکتا کہ جان بوجھ کر “قاطع اور مانع “ لے آیا ۔ اسلئے نماز پر بناء بھی نہیں کرسکتا،اسلئے یہی کہا جائے گا کہ نماز پوری تو ھوگئی مگر واجب کی کمی کے ساتھ۔
نماز پوری ہونے کی دلیل (اہل سنت والجماعت احناف کے ہاں )صحاح ستہ میں شامل کتاب ابوداؤد شریف کی اس حدیث میں ہے۔
حدثنا احمد بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا عبد الرحمن بن زياد بن انعم، عن عبد الرحمن بن رافع، وبكر بن سوادة، عن عبد الله بن عمرو، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال "إذا قضى الإمام الصلاة وقعد فاحدث قبل ان يتكلم فقد تمت صلاته ومن كان خلفه ممن اتم الصلاة ".
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”امام نے جب نماز پوری کر لی ہو اور (آخری) قعدہ میں بیٹھ گیا ہو اور کلام کرنے (یعنی سلام پھیرنے)سے پہلے ہی بے وضو ہو جائے تو اس کی نماز ہو گئی اور اس کے مقتدیوں کی بھی جنہوں نے نماز پوری پڑھی ہو، نماز کامل ہو گی۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد حدث کردیا تو نماز پوری ہوگئی۔ بلکہ کوئی آدمی امام کے پیچھے ہو اور امام کے سلام کرنے سے پہلے اس نے جان بوجھ کر بھی حدث کردیا تو اس آدمی کی نماز پوری ہوجائے گی اور اگرچہ اس پر سلام کا واجب باقی رہا ۔حدیث میں ہے
عن عبداللہ بن عمر ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال اذا جلس الامام فی آخر رکعۃ ثم احدث رجل من خلفہ قبل ان یسلم الامام فقد تمت صلوتہ۔(دارقطنی،باب من احدث قبل التسلیم،جلد اول) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مقتدی بھی مقدارا تشہد بیٹھنے کے بعد حدث کردے تو اس کی نماز پوری ہوجائے گی۔
فائدہ
امام شافعی رحمہ اللہ علیہ کے نزدیک سلام فرض ہے اس لئے تشہد کی مقدار بیٹھنے کے بعد حدث کردیا تو
چونکہ فرض باقی رہ گیا اسلئے نماز فاسد ہو جائے گی۔ ان کی دلیل یہ حدیث ہے
عن علی عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال مفتاح الصلوٰۃ الطھور و تحریمھا التکبیر و تحلیلھا التسلیم۔(ترمذی شریف،باب ماجاء مفتاح الصلوۃ الطھور اور ابوداؤد شریف میں باب الامام یحدث بعد مایرفع راسہ من آخر رکعتہ )اس حدیث کی وجہ سے جس طرح طھارت اور تکبیر تحریمہ فرض ہیں تو اسی طرح ان (شافعیوں) کے یہاں سلام بھی فرض ہے۔
لانہ تعذر البناء لوجود القاطع لکن لا اعادۃ علیہ لانہ لم یبق علیہ شئی من الارکان
ترجمہ
اسلئے نماز کو قطع کرنے والی چیز کے پائے جانے کی وجہ سے بناء کرنا متعزر ہوگیا ۔لیکن نماز کو دوبارہ پڑھنا بھی ضروری نہیں ہے اسلئے کہ فرض میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی۔
جان بوجھ کر حدث (وضو ختم ) کیا تو نماز فاسد ہوگئی اسلئے بناء نہیں کرسکتا ، اور فرائض میں سے کوئی چیز باقی نہیں رہی اسلئے دوبارہ پڑھنے کے لئے بھی نہیں کہا جائے گا ،پس یہی کہا جائے گا کہ نقص کے ساتھ نماز پوری ہوگئی۔
386
فان رائی المتیمم الماء فی صلاتہ بطلت وقد مر من قبل
ترجمہ
اگر تیمم کرنے والے نے نماز کے درمیان پانی دیکھا تو اس کی نماز باطل ہوجائے گی۔
وجہ:
تیمم کرنے سے پہلے اس نے جان بوجھ کر حدث کیا ،پھر تیمم کرنا حدث (بے وضو پن) کو چھپانے کی چیز بن گئی لیکن اب تشہد سے پہلے پانی پر قدرت ہوئی تو جان بوجھ کر حدث کیا ہوا واپس آگیا۔ کیونکہ خلیفہ کی بجائے اصل پر قدرت ہوگئی اور ابھی فرض(تشہد) باقی ہے اسلئے نماز فاسد ہوجائے گی شروع سے نماز پڑھے۔
وضاحت
مسٹر
لولی ساراوقت اس مکمل عبارت کو یقینا جانتے ہی نہیں تھے اسلئے انہوں نے غالب گمان کے مطابق کسی بڑے غیر مقلد کی اندھی تقلید کی ہوگی اس تھریڈ کو بنانے میں اور اگر جانتے تھے تو
مسٹر لولی ساراوقت نے جھوٹ کا سہارہ لے کر ایک تھریڈ بنایا اور اچھل کود مچائی اس جھوٹ یا اندھی تقلید کا گناہ مسٹر لولی کے ہی سر جائے گا ان شاء اللہ۔
مسئلہ کے بارے میں وضاحت میں صرف یہی کہنا کافی ہوگا کہ ہم اہل سنت والجماعت احناف کے ہاں فرض واجب سنت وغیرہ کی اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں اور نماز ختم کرنے والا سلام ہمارے ہاں واجب کا درجہ رکھتا ہے ، اور واجب کی کمی بیشی کے ساتھ ادا کی جانے والی نماز نقص کے ساتھ پوری ہوجاتی ہے جبکہ فرض کی کمی کے ساتھ ادا کی جانے والی نماز دھرانی پڑتی ہے تو مزکورہ مسئلہ میں ایک واجب کو پورا کئے بغیر وضو توڑدینے کا زکر ہے اور تفصیل اوپر بیان کردی گئی ہے اور وضاحت مختصر یہی ہے کہ اگر جان بوجھ کر وضو کو ختم کردیا جائے تشھد کے بعد یعنی درود اور دعا و سلام سے پہلے تو پھر چونکہ جان بوجھ کر وضو فاسد کیا گیا تو نماز مکمل ہوگئی کیونکہ نماز کو اپنے ارادے سے ختم کرنا فرض ہے جیسے سلام نمازی اپنے اسی ارادے سے کہتا کے دائیں بائیں دیکھ کر کہ اب نماز ختم کرنا ہے۔یا بات کرکے ،وضو ختم کرکے یا کوئی بھی خلاف نماز کام کرکےجیسے اٹھ کر چل پڑے ، تو پھر یہ کام بھی اس نے اپنے ارادے سے ہی نماز ختم کرنے کے لئے کردئیے۔ اس صورت میں صرف سلام جوکہ واجب تھا اس کا تارک ہوا جو کہ اچھا عمل تو نہیں مگر نماز کو مکمل کرگیا "نقص کے ساتھ" ۔
رہی بات زور سے پاد مارنے کی تو مسٹر
لولی ساراوقت اپنے کئے گئے اس ترجمہ کو ثابت کرنے میں ناکام و نامراد رہے ہیں ۔
الحمد للہ
کیا ہی اچھی بات تھی کہ یہ کسی صاحب علم سے اس بارے میں مسئلہ پہلے سمجھ لیتے ؟ کیونکہ اللہ تعالٰی کا فرمان مبارک ہے کہ ""
اگر تم نہیں جانتے تو علم والوں سے پوچھ لو ""
اگر کسی سے سمجھ حاصل کی ہوتی تو یقینا ایسا تھریڈ نہیں بناتے۔اور جب ایسا ڈھکوسلہ باز تھریڈ بنا ہی لیا تھا تو پھر جو آئنہ میں نے مسٹر
لولی کو دکھایا تھا ان کے نام نہاد اکابرین کی عبارات کا کم از کم ان کو تو شرم ناک کہہ دیتے اور ان عبارات کو لکھنے والوں کو کوئی تو لقب دیتے ،لیکن قربان جاؤں مسٹر لولی کی چالاکی پر کہ انہوں نے جھوٹے منہ بھی علماء اہلحدیث کی عبارات کا ناہی رد کیا ہے اب تک اور ناہی انہیں شرم ناک کہا ہے ۔اور یقینا ایسا کرنے کی ہمت کبھی بھی نہیں کرسکتے اور اسی کو منافقت کہتے ہیں کہ اکابرین اہل حدیث کی شرمناک عبارات کو ماننے سے انکار بھی کرتے ہیں اور ان ہی اکابرین کے ناموں کو اپنی کتابوں اور ویب سائٹس پر خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ اسے کہتے ہیں منافقت ۔
شکریہ