• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پانی اور اس کا استعمال

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پانی کے استعمال سے متعلق ایک مقالہ
تمہید
اللہ تعالی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک پاکیزہ مثالی معاشرہ قایم کرنے کے لیے اس کے جملہ خدو خال بیان کیے اور اس ضمن میں ان تمام خوبیوں کو بھی بیان کیا جو کسی کامیاب معاشرے کا حسن ہوتی ہیں اور ساتھ ہی ممکنہ مفاسد کو بھی واضح کر دیا تاکہ ان سے بچا جا سکے لہذاحسن معاشرہ کے لیے سب سے اہم وہ اقدار عالیہ اور اوصاف حمیدہ جنہیں اپنا کر تاقیامت کسی بھی وقت مثالی معاشرہ کی بنیاد رکھی جا سکتی ہے ۔
اس اعتبار سے خدمت خلق کا ایک پہلو ہمارے مدنظر ہے جس کی بنیاد عقاید و نظریات پر ہواور اس کے مظاہر عمل و کردار کی حیثیت سے ہوں ان بے مثالی تعلیمات سے مزین وجود ہی کسی معاشرہ کو کامیاب کرتے ہیں۔ خدمت خلق کے لیے اسلام کی رفاہی تعلیمات بہت اہم ہیں جن کو چند سطور میں اس طرح بیان کیا جا سکتا ہے : دنیاوی سازو متاع کو ترجیحات میں نہ رکھنا، رضایے الہی کا حصول، حقوق العباد کا خیال رکھنا، خدمت خلق میں باہمی مسابقت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ کا پایا جانا، عقیدہ آخرت کا عملی طور پر وجود۔
ان چند امور کی بنیاد پر ہم بآسانی کہہ سکتے ہیں اسلام نے قدرتی وسائل میں سے سب سے اہم وسیلہ یعنی پانی کی بقا اور تحفظ کی خاطر مختلف تعلیمات دی ہیں،جن کا ذکر بعد میں کیا جایے گالیکن ان تعلیمات میں پانی کی بقا اور تحفظ کے علاوہ سب سے اہم عنصر اس کا مناسب اور مثبت استعمال ہے نہ صرف خود اپنے لیے بلکہ بلا تفریق و تخصیص معاشرہ میں موجود دیگر لوگوں کے لیے بھی اور اس ضمن میں کتب احادیث میں ایسے ابواب اور احادیث قابل ذکر ہیں جن میں زراعت اور عمومی اعتبار سے پانی کی تقسیم اور اس کا روز مرہ استعمال تفصیل سے واضح کیا گیا ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
حیات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور حیات خلفایے راشدین سے ایسی بے شمار مثالیں دی جا سکتی ہیں جن کی رو سے پانی کا استعمال میں سخاوت اور لوگوں کی خدمت کرنا ہے جس کی ایک روشن مثال مدینہ ھجرت کے بعد مسلمانوں کے لیے پانی کی شدید قلت کے بعد عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ترغیب پر ایک یہودی کا کنواں خرید کر مسلمانوں کے عام استعمال کے لیے وقف کر دیا تھا (نیل الاوطار ۵/۱۴۶ ) اس کا ذکر آیندہ سطور میں کیا جایے گا۔ کیونکہ پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہےبلکہ تمام جانور، پیڑ پودے اور وہ تمام چیزیں جن میں حیات کا عنصر پایا جاتا ہے ان کی بقا اور افزائش کا انحصار پانی پر ہے۔ پانی کے بغیر ان کی زندگی اوربقا کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ گویا تمام جاندار اشیاء میں جان اور روح کو باقی رکھنے کے لیے پانی اکسیر کی حیثیت رکھتا ہے۔ ارشاد باری ہے :وَہُوَالَّذِیْ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَأَخْرَجْنَا بِہٰ نَبَاتَ کُلِّ شَیْْئٍ
’’ اور وہی ہے جس نے آسمان سے پانی برسایا، پھر اس کے ذریعہ سے ہر قسم کی نباتات اُگائی ‘‘ ﴿الأنعام : ۱۰۰﴾
دوسری جگہ ارشاد ہے :وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَائِ کُلَّ شَیْْئٍ حَیٍّ ﴿الأنبیاء : ۳۰﴾ ’’ اور پانی سے ہر زندہ چیز پیدا کی ‘‘
انسان کے روز مرہ استعمال میں بھی پانی کی کثرت سے ضرورت پیش آتی ہے۔ کھانے، پینے، نہانے دھونے، بجلی کی توانائی پیدا کرنے اور صنعتوں کو متحرک رکھنے کے لیے پانی کی اہمیت مسلم ہے۔ اگر پانی نہ رہے تو بڑی بڑی فیکٹریاں اور کارخانے بھی ٹھپ ہوجائیں گے اورانسانی نظام حیات معطل ہوجائے گا، اسی پانی کی کرم فرمائی ہے کہ خشک اور بنجر زمین تھوڑی محنت سے سبزہ زار ہوجاتی ہے اور سبزیوں، غلوں، بیجوں او رپھلوں وغیرہ سے انسان کی ضرورت پوری ہوتی ہے:وَمَآ أَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَأَحْیَا بِہٰ الأرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا ﴿البقرہ : ۱۶۴﴾
’’ اور نشانی ہے قدرت کی اس پانی میں جسے اللہ اوپر سے برساتا ہے پھر اس کے ذریعے سے مردہ زمین کو زندگی بخشتا ہے ‘‘
غرض انسان اور جانور کے رزق اور زندگی کا انتظام اسی پانی کے ذریعے ہوتا ہے۔ پانی میں کمی آئے گی تو اسباب حیات بھی متأ ثر ہوں گے اور دنیا اپنی تمام تر وسعتوں کے باوجود لوگوں پر تنگ ہوجائے گی۔اس مقالہ میں درج ذیل موضوعات پر بات کی گیی ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
تمہید
پانی کی بقا اور استعمال میں بنیادی قاعدہ
پانی اور اس کی اہمیت اور حاصل کرنے کے ذرایع
اسوہ حسنہ کی رو سے پانی کا تحفظ، استعمال اور سخاوت
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پانی کی بقا اور استعمال میں بنیادی قاعدہ
زندگی کے تمام جملہ معاملات میں اعتدال پرستی کو اختیار کیا جایے چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:وکُلُواْ وَاشْرَبُواْ وَلاَ تُسْرِفُواْ (الاعراف:۳۱)
’’اور کھاؤپیو، البتہ حد سے تجاوز نہ کرو‘‘
اور ایک دوسری جگہ فرمان الٰہی ہے:وَلاَ تُسْرِفُواْ إِنَّہُ لاَ یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ (الانعام:َ ۱۴۱)
’’اور حد سے تجاوز نہ کرو، اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
اسلام کی نظر میں ہر وہ چیز جو صلاح و درستگی سے دور ہوجائے اور نفع کی صلاحیت کو کھودے وہ فساد ہے، اگرچہ اس کا غالب استعمال عقیدہ اور عمل کی خرابی کے لئے ہوتا ہے، لیکن کسی چیز کے نظام توازن اور اعتدال کو بگاڑنے پر بھی اس کا اطلاق ہوتاہے، جس سے اس کی حقیقی افادیت آہستہ آہستہ ختم ہوجائے۔ فرمان الٰہی:وَإِذَا تَوَلَّی سَعَی فِیْ الأَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیِہَا وَیُہْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ وَاللّہُ لاَ یُحِبُّ الفَسَادَ (البقرۃ:۲۰۵)
’’اور جب وہ تمہارے پاس سے دور ہوتے ہیں تو ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لئے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچائیں اور کھیتی اور نسل کو تباہ کریں اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
پانی کے ذریعے جن ضروریات کی تکمیل ہوتی ہے، ان میں سے ایک اہم کام ناپاک چیزوں کا پاک کرنا ہے۔ حدث اکبر ہو یا اصغر، اس کو دور کرنے کے لیے پانی کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ کپڑا یا کوئی جگہ یاکوئی برتن ناپاک ہوجائے تو اسے بھی پانی کے ذریعے پاک کیا جاتا ہے اور پاک صاف ہوکر قرب خدا وندی کے حصول کی سعی کرتا ہے۔ اسلام کی تقریبا تمام عبادات کا مدار طہارت پر ہے، جس کے لیے پانی بنیادی جز ہے، ارشاد خداوندی ہے:وَیُنَزِّلُ عَلَیْْکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ مَائً لِّیُطَہِّرَکُمْ بِہٰ وَیُذْہِبَ عَنْکُمْ رِجْزَ الشَّیْْطَانِِ﴿الأنفال : ۱۱﴾
’’ اور وہ آسمان سے تمھارے اوپر پانی برسارہا تھا تاکہ تمھیں پاک کرے اور تم سے شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست دور کرے ‘‘
پانی کے استعمال میں بھی اسراف سے سختی سے منع کیا گیا ہے اسراف ضرورت سے زیادہ استعمال کو کہا جاتا ہے، خواہ یہ ضرورت شرعی ہو یا ضرورت طبعی، ضرورت شرعی سے مراد یہ ہے کہ شریعت نے کسی فعل کے لیے جتنی مقدار متعین کی ہے، بلا کسی وجہ اس سے زیادہ استعمال کرنا، جیسے وضوء میں ہر عضو کو تین بار دھونا سنت کامل ہے، پوری حیات رسول کا اس پر عمل رہا ہے، اس عدد پر اعضاء کے غسل کی حاجت شرعیہ پوری ہوگئی ؛ لہٰذا اس عدد سے زیادہ بار اعضاء کا دھونا مکروہ تحریمی ہوگا۔ تالاب، نہر، سمندر یا کسی بڑے حوض پر وضوء کر رہا ہو اس کا یہی حکم ہے: عبد اللہ بن عمرو بن العاص ص کا بیان ہے کہ رسول اکرم ا حضرت سعدص کے پاس سے گزرے اور وہ وضوئ کر رہے تھے آپ ا نے فرمایا، یہ کیا فضول خرچی ہے عرض کیا، کیا وضوءمیں بھی اسراف ہے؟ آپ ا نے ارشاد فرمایا ہاں خواہ جاری نہر پر ہی تم کیوں نہ رہو‘‘﴿ابن ماجہ﴾ ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی میں فضول خرچی کرنے والے کو امت کا بدترشخص قرار دیا: شرار أمتي الذین یسرفون فی صب الماء‘‘( حاشیہ الطحاوی :ص 80)
موجود ہ دور میں جن چیزوں میں بھی قحط اور قلت کا اندیشہ ہے، ان میں اعتدال تدارک کا بڑا اور اہم ذریعہ ہے اگر احتیاط اور اعتدال کا سہارا لیا جائے تو بڑی حد تک پانی کی کمی کے اندیشے دور ہوسکتے ہیں۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
پانی اور اس کی اہمیت
اللہ نے جتنی بھی چیزیں پیدا کی ہیں ان سب کے کچھ نہ کچھ فوائد انسان ضرور حاصل کرتا ہے وہ حیوان و نباتات ہی کیوں نہ ہوں مگر ایک ایسی چیز بھی ہے جو انسان کی زندگی کے لیئے انتہائی اہم و لازم ہے اور ہم انسان اُسی نعمت کا اسراف بہت زیادہ کرتے ہیں اور وہ نعمت ہے پانی کی کہ جس سے انسان کی ابتداء کی گئی تھی: وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ مِنَ الْمَاءِ بَشَرًا فَجَعَلَهُ نَسَبًا وَصِهْرًا ۗ وَكَانَ رَبُّكَ قَدِيرًا (الفرقان:آیت:۵۴)
وہ جس نے پانی سے انسان کو پیدا کیا، پھر اسے نسب والا اور سسرالی رشتوں والا کر دیا بلاشبہ آپ کا پروردگار (ہر چیز پر) قادر ہے۔
پانی کے فوائد بیان کرتے ہوئے ایک جگہ قرآن کہتا ہے :ہُوَ الَّذِیٓ أَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَائً لَّکُمْ مِّنْہُ شَرَابٌ وَمِنْہُ شَجَرٌ فِیْہِ تُسِیْمُوْن۔ ﴿النحل : ۱۰﴾
’’ وہی ہے جس نے آسمان سے تمھارے لیے پانی برسایا، جس سے تم خود بھی سیراب ہوتے ہو اور تمھارے جانوروں کے لیے بھی چارہ پیدا ہوتا ہے ‘‘
اورپانی انسانی زندگی کا نہایت اہم غذائی جزو ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ پانی ہی زندگی ہے تو غلط نہ ہوگا کیونکہ اب تک دریافت شدہ کروڑوں سیاروں اور ستاروں میں سے ہماری زمین ہی وہ واحد سیارہ ہے جہاں زندگی پوری آب تاب کے ساتھ رواں دواں ہے اور اس کی واحد وجہ یہاں پانی کا ہونا ہے ۔ہماری زمین کا 70 فیصد حصہ پانی اور صرف 30 فیصد خشکی پر مشتمل ہے تقریباً یہی حال ہمارے جسم کا بھی ہے ہمارا دو تہائی جسم پانی ہی پر مشتمل ہے۔ اگر انسانی اعضا میں سے صرف دماغ کو ہی لیں تو اس کا85 فیصد حصہ پانی ہے۔ امراض سے لڑنے والے ہمارے خلیے خون میں سفر کرتے ہیں۔ خون بذاتِ خود 83 فیصد پانی ہی ہے۔ ہمارے ہر جسمانی خلیے میں موجود پانی ہی سے بدن کے تمام نظام چلتے ہیں۔ ان میں نظام ہضم کے علاوہ دوران خون اور فضلات کے اخراج کا نظام بھی شامل ہے۔
پانی جسم انسانی کی بناوٹ اور اس کی مشینری کے اندر افعال انجام دینے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس کی غیرموجودگی یاکمی کی صورت میں انسانی جسم مختلف خرابیوں سے دوچار ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پانی کے چند فوائد درج ذیل ہیں:
1)
اس کی تاثیر سردتر ہے۔ یہ پیاس بجھاتا اور بے ہوشی‘ تھکاوٹ‘ ہچکی‘ قے اور قبض دور کرتا ہے۔
2)
پیشاب کی جلن اور یرقان کے عارضے میں مفید ہے۔
3)
جسم کے زہریلے مادے پیشاب اور پسینے کے راستے خارج کرتا ہے۔
4)
خوراک کے ہضم ہونے میں مددگار ہے۔ ہاضمے کے کئی مسائل سے بچاتا ہے۔
5)
خون گاڑھا یا خراب ہونے سے روکتا ہے۔
6)
بخار کی حالت میں پانی پلانے سے حدت دور ہوتی ہے۔
7)
جسم کی عمومی صحت کے لیے پانی کی مناسب مقدار ضروری ہے۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
حاصل کرنے کے ذرایع
1) بارش کا پانی: خالص پانی یہی ہے۔قدرتی حالت میں بارش کا پانی (اگر گرد و غبار سے پاک ہو) بھی خالص ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ گلیشیئر پر جمی برف بھی خالص پانی ہی پر مشتمل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کرہ ارض پر پایا جانے والا کوئی پانی خالص نہیں ہوتا۔
2)
دریا کا پانی: دریاؤں میں پانی بارش اور پہاڑوں پر جمی برف کے پگھلنے سے آتا ہے۔ بارش کاپانی جونہی زمین کی سطح سے ٹکراتا ہے تو مٹی میں موجود معدنیات (منرل) اس میں جذب ہونے لگتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پہاڑی علاقوں سے گذرنے والے دریا میں معدنیات نسبتاً کم اور میدانی علاقوں سے گزرنے والے حصے کے دریائی پانی میں معدنیات نسبتاً زیادہ ہوتے ہیں۔
3)
بورنگ کا پانی: بورنگ واٹریعنی ہینڈ پمپ یا کنویں کا پانی دریائی پانی سے زیادہ ”کھارا“ ہوتا ہے۔ عام گاؤں دیہات کے لوگ تو ہلکا ہلکا کھارا پانی بھی پینے پر مجبور ہوتے ہیں جو صحت کے لیے مضر ہوتا ہے
4)
سمندرکا پانی: سمندر کا پانی نہایت کھارا ہوتا ہے۔ سمندر کے مختلف علاقوں میں نمکیات کا تناسب مختلف ہوتا ہے
5)
پیٹرولیم واٹر: خام پیٹرول زمین میں بہت زیادہ گہری کھدائی کے ذریعہ حاصل کیا جاتا ہے۔ پیٹرول کے ساتھ قدرتی گیس اور پانی بھی نکلتا ہے۔ یہ انسانی جسم پرتیزاب کی طرح لگتاہے۔ اس میں خالص چمڑے کے بنے جوتے بھی جلد ہی گل سڑ جاتے ہیں ۔
6)
نلکے کا پانی: سمندر کے پانی کو فلٹریشن کے بعد جب پائپ لائنوں سے ہوتا ہوا گھروں میں سپلائی کیا جاتا ہے تو راستے میں کئی مقامات پر اس میں مختلف قسم کی آلودگی شامل ہوجاتی ہے ۔
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
اسوہ حسنہ کی رو سے پانی کا تحفظ ، استعمال اور سخاوت

بنیادی پس منظر:
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اس کو اپنا نائب اور خلیفہ مقرر کیااور اس کے لیے تمام مخلوق کو اس کے تابع کیا اور کائنات کی ہر شئی سے منفعت حاصل کرنے کا اس کو حق دیاچنا نچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اَللہُ الَّذِيْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ وَاَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقًا لَّكُمْ۰ وَسَخّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِاَمْرِہٖ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْاَنْہٰرَوَسَخّرَ لَكُمُ الشَّمْسَ وَالْقَمَرَ دَاىِٕبَيْنِ وَسَخَّرَ لَكُمُ الَّيْلَ وَالنَّہَارَ
ترجمہ: اللہ ہی تو ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور آسمان سے مینہ برسایا پھر اس سے تمہارے کھانے کے لیے پھل پیدا کئے۔ اور کشتیوں (اور جہازوں) کو تمہارے زیر فرمان کیا تاکہ دریا (اور سمندر) میں اس کے حکم سے چلیں۔ اور نہروں کو بھی تمہارے زیر فرمان کیا ،اور سورج اور چاند کو تمہارے لیے کام میں لگا دیا کہ دونوں (دن رات) ایک دستور پر چل رہے ہیں۔ اور رات اور دن کو بھی تمہاری خاطر کام میں لگا دیا ۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ نعمتوں کا غلط استعمال کرے ،ان کو برباد کرے،اور وہ باکل آزاد ہے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ اس کو پابند کیا ہے کہ میری عطا کردہ چیزوں میں اسراف نہ کرو اگر ایسا کروگے تو یا اللہ سخت پکڑ والا اور حساب لینے والا۔
اللہ تعالیٰ نے انسان کو پابند بنایا ہےکہ اگر انسان اس میزان اور توازن میں خلل ڈالے، اور ان قدرتی وسائل کا استحصال کرے، یا ان کا غلط استعمال کرے، یا انھیں برباد کرے، انھیں آلودہ کرے ، تو یہ انسان نے اللہ تعالیٰ کی حکمت مصلحت و ارادے کے خلاف کام کیا، گویا بغاوت کا مرتکب ہوا۔
اللہ تعالیٰ نے انسا ن سے زمین کی آبادی کا ری اور اس کے تمام پوشیدہ اور ظاہر ذخائر کی حفاظت کا مطالبہ کیا اور اس کے بعد ہی ان کے استعمال کرنے کی اجازت عنایت فرمائی ۔ان ذخائر میں نباتات ،حیوانات ، معدنیات ظاہرہ ہوں یا پوشیدہ غرض کہ وہ تمام اشیاء جن پر اس کائنات کے تحفظ و بقا کا دارو مدار ہے ، ان میں سب سے اہم شئی ’’پانی‘‘ ہے جس کی بقاء میں کائنات تمام مخلوق کی بقاء وحفاظت مضمر ہے ،اور اسی کا سب سے زیادہ غلط استعمال ہورہا ہے ، اللہ تعالیٰ نے اس کے اندر حیات رکھی ہے ،جو تمام جانداروں کے لیے نہایت ضروری ہے۔ان میں سب سے اہم پانی جیسی نعمت ہے جس پر انسانی حیات کی بقا بلکہ حیوانات اور نباتات کی بقا بھی پانی کے ہونے پر ہی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ اَفَلَا يُؤْمِنُوْنَ(الانبیاء)
اور تمام جاندار چیزیں ہم نے پانی سے بنائیں۔ پھر یہ لوگ ایمان کیوں نہیں لاتے؟
اَفَرَءَيْتُمُ الْمَاءَ الَّذِيْ تَشْرَبُوْنَءَ اَنْتُمْ اَنْزَلْتُمُوْہُ مِنَ الْمُزْنِ اَمْ نَحْنُ الْمُنْزِلُوْنَ لَوْ نَشَاءُ جَعَلْنٰہُ اُجَاجًا فَلَوْلَا تَشْكُرُوْنَ(الواقعہ)
بھلا دیکھو تو کہ جو پانی تم پیتے ہو ،کیا تم نے اس کو بادل سے نازل کیا ہے یا ہم نازل کرتے ہیں؟ ،اگر ہم چاہیں تو ہم اسے کھاری کردیں پھر تم شکر کیوں نہیں کرتے؟ ۔
وَّيُنَزِّلُ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَيُحْيٖ بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِہَا اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّقَوْمٍ يَّعْقِلُوْنَ ( الروم)
اور آسمان سے مینہ برساتا ہے۔ پھر زمین کو اس کے مر جانے کے بعد زندہ (و شاداب) کر دیتا ہے۔ عقل والوں کے لئے ان (باتوں) میں (بہت سی) نشانیاں ہیں
الغرض قرآن میں اس کے علاوہ اور بھی کئی جگہ اللہ تعالیٰ نے پانی کی اہمیت اور افادیت کے بارے ارشاد فرمایا ہے۔ جس سے واضح ہوجاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے پانی میں حیات کی تاثیر رکھی ہے ،اس لیے پانی پر صرف انسان کا ہی حق نہیں بلکہ جتنا انسان کو حق اتنا ہی دوسری مخلوق کاحق ہے ۔ اگر یہ انسان اپنی ضرورت سے زیادہ پانی خرچ کرے گا اس کو ’’ اسرف‘‘ کہا جائے گا اور اسراف اسلام میں جائز نہیں ہے جیسا کہ مذکورہ آیت شریفہ میں اللہ تعالیٰ نے صاف طور پر ارشاد فرما دیا ہے :وَلَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِيْنَ
بےجا نہ اڑاؤ کہ خدا بیجا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا
اسراف سے کیوں کہ دوسروں کے حقوق بھی سلب ہوتے ہیں ، اور نظام تکوینی میں بھی خلل واقع ہوتا ہے،جس سے زمینی نظام میں فساد کا باعث ہوگا اس طرح کا فساد کی اسلام کوئی گنجائش نہیں ہے اسی کے بارے قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مخصوص انداز میں انسان کو آگاہ کیا ہے کہ وہ زمین کو برباد کرکے خود بھی اور دوسروں کو بھی اس کے فائدہ سے محروم نہ کرے اس تباہی کو فساد فی الارض کی ایک مخصوص سے تعبیر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:وَلَا تُفْسِدُوْا فِي الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِہَا ذٰلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِيْنَ
اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرو۔ اگر تم صاحب ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات تمہارے حق میں بہتر ہے
’’زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت پھیلاؤ ‘‘فساد ایک وسیع مفہوم کا حامل لفظ ہے
اسی لئے اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد مرمایا:وعن أنس رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله ليرضى عن العبد أن يأكل الأكلة فيحمده عليها، أو يشرب الشربة فيحمده عليها.(روہ مسلم)
’اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے کہ بندہ کھانے کا لقمہ کھائے یا مشروب کا کوئی گھونٹ بھرے تو اس پر اللہ کی تعریف کرے۔‘‘کیونکہ پانی اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے۔ایک جگہ آپ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا:اللهم إني أعوذُ بك من زوال نعمَتك، وتحوُّل عافيتك، وفُجاءة نقمتِك، وجميع سخَطك ( رواه مسلم)
’’اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں، نعمت کے زائل ہو جانے سے عافیت کے پھر جانے سے، اچانک پکڑاور تیری ہر طرح کی ناراضی سے۔‘‘
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402

1) آداب استعمال
پانی میں اللہ تعالیٰ نے صحت اور بقائے حیات کی صفت رکھی ہے ،اگر انسان صحت مند ہے تو وہ دین اور دنیا کے تمام امور کو بحسن و خوبی انجام دے سکتا ہے ، اللہ کے رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:نعمتان غبونٌ فيهما كثيرٌ من الناسِ: الصحةُ والفراغُ ( رواه البخاري)
’’دو نعمتیں ایسی ہی جن کے بار میں بہت سے لوگ لا پروائی برتتے ہیں۔ صحت اور فراغت۔ ‘‘
اسلام کی نظر میں پانی کی کس قدر اہمیت ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پنچ وقتہ نمازوں کے لیے جو وضو کی جاتی ہے اور اس میں جو پانی استعمال کیا جاتاہے اسلام نے اس پر بھی نظر رکھی ہے، او رنماز پڑھنے والے اللہ کے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وضوتو کریں مگر اسراف نہ کریں ،
روایات میں ہے کہ ایک مرتبہ صحابی سعد بن أبی وقاص رضی اللہ عنہ وضو کر رہے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ادھر سے گزرے، سعد رضی اللہ عنہ! کو وضو کرتے ہوئے دیکھا کہ وہ اپنے اعضاء وضو پرکچھ زیادہ ہی پانی ڈال رہے ہیں ، یہ دیکھ کر فرمایا ! لا تسرف اے سعد اسراف نہ کرو، سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا ، یا ر سول اللہ ! کیا پانی میں بھی اسراف ہوتا ہے ، فرمایا ہاں، اگر چہ تم بہتی ہوئی نہر پر ہو ، (سنن ابن ماجہ :1/147، رقم الحدیث )
اسلام نے میں صحت انسانی کو مد نظر رکھتے ہوئے پانی کی اہمیت کو کس کس طرح لوگوں کے ذہنوں میں اجاگر کیا اس کا اندازہ اس طرح کیجئے کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھہر ے ہوئے پانی او ربہتے ہوئے پانی دونوں میں پیشاب وغیرہ کرنے سے منع فرمایا ، حالانکہ بہتے ہوئے پانی میں تھوڑی بہت نجاست سے اس کی طہارت متأثر نہیں ہوتی لیکن وہ آلودہ ہوجاتا ہے ، اور یہ آلودگی اس وقت اور بڑھ سکتی ہے جب لوگ بہتے ہوئے پانی میں پیشاب وغیرہ کرنے کو اپنی عادت میں شامل کرلیں ، ’’پیشاب پر دوسری نجاستوں اور فضلا ت کو بھی قیاس کیا جاسکتا ہے ‘ ‘ جس سے اندازہ لگا جا تا ہے کہ اسلام نے کتنے وقت پہلے پانی صفائی کی تعلیم دی اور ہدایت فرمادی تھی چنانچہ ایک حدیث میں ارشاد نبویﷺ ہے:جابرابن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت فرماتے ہیں کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے بہتے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا ہے، ( المعجم الا وسط للطبرانی: 2/208، رقم الحدیث :1749)
اسلام نے پانی کے تحفظ کو بڑی اہمیت دی ہے، سو کر اٹھنے کے بعد دھوئے بغیر برتن میں ہاتھ ڈالنے کی ممانعت وار د ہے، (صحیح مسلم :1
؍ 160، رقم الحدیث :445)
یہاں تک کہ برتن میں سانس لے کر پانی پینا بھی ممنوع ہے، (صحیح البخاری :1
؍159، رقم الحدیث :153)
کیوں کہ سانس کے ذریعے جراثیم پانی کے برتن میں داخل ہوسکتے ہیں، جس سے بچا ہوا پانی بھی گندا ہوسکتا ہے، اور اگر کوئی اسے استعمال کرے تو پیٹ کی بیماریاں بھی پیدا ہوسکتی ہیں۔
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک نقل کرتے ہیں کہ ‘‘پانی کا برتن ڈھانپ دیا کرو اور مشکیز ے کا منہ باندھ دیا کرو۔’’( صحیح مسلم :6
؍ 105، رقم الحدیث : (5364
رسول اکرم ﷺنے پانی کی حفاظت میںہمارےلئے ایک اعلی نمونہ پیش فرمایا ہے۔ چنانچہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبیﷺ ایک ’’مد‘‘کی مقدار پانی سے وضوء فرمالیا کرتے تھے اور ایک’’صاع ‘‘کی مقدار پانی سے غسل فرمالیا کر تے تھے
’’ مد ‘‘یعنی دو ہاتھ بھر کر پانی کی مقدار کو کہتے ہیں اور صاع چار ’’ مد ‘‘ کی مقدار کو کہتے ہیں
پانی کا خدمت خلق کے حوالے سے استعمال میں حیات مبارکہ سے ایک اہم واقعہ جو کہ سید نا عثمان رضی اللہ عنہ کی سخاوت کا مظہر ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402

1) سخاوت وخدمت خلق
اسلام نے اپنے پیرو کاروں کو ہمدردی، وسعت ظرفی اور سخاوت کا مزاج پیدا کرنے کی تعلیم دی ہے۔ بالخصوص ایسی چیز جو بآسانی حاصل ہوجاتی ہے اور اس میں قیمت زیادہ نہ لگتی ہو، اس میں دوسروں کو شریک کرنا اور طلب پر دے دینا نہایت اجر وثواب کا باعث ہے اور نہ دینے کی صورت میں وعید آئی ہے: وَ یَمْنَعُوْنَ الْمَاعُوْنَ ﴿الماعون : ۷﴾
’’ تباہی ہے ایسے لوگوں کے لیے جو معمولی ضرورت کی چیزیں لوگوں کو دینے سے گریز کرتے ہیں ‘‘۔
لہذاپانی آسانی سے حاصل ہونے والی ایسی چیز ہے جس میں زیادہ محنت یا زیادہ قیمت نہیں لگتی، اس لیے اس میں بخل کے بجائے سخاوت اور وسعت ظرفی سے کام لینا چاہیے۔ خاص طور پر جب کہ پانی کی دوسروں کو ضرورت ہو اور پانی کی ملکیت رکھنے والے کو فی الوقت اس کی شدید ضرورت نہ ہو۔ اللہ تعالیٰ نے پانی کو عام رکھا ہے۔ ہر ایک کو اس سے استفادے کا حق دیا ہے۔
رسول اکرم ا کا ارشاد ہے: الناس شرکاء فی ثلٰث المائ، و الکلأ والنار ‘‘ ﴿ابودؤد﴾
’’ لوگ تین چیزوں میں شریک ہیں پانی، خودرو گھاس، آگ ‘‘
ایک حدیث میں ہے: ’’لایمنع فضل الماء ‘‘ ضرورت سے زیادہ پانی دوسروں کو لینے سے نہیں روکا جائے گا‘‘
ان احادیث کی بنیاد پرکہا جا سکتا ہے کہ اگر کسی کی خاص ملکیت میں پانی ہو تو بھی ضرورت مندوں کو اس سے منع نہیں کیا جاسکتا ہے۔ پانی اپنی ذات سے مباح ہے، البتہ اس میں اس کے مالک کا خاص حق ہوگا خواہ یہ پانی ارض مباح یا مملوک میں ہو، اس لیے کہ پانی درحقیقت سارے لوگوں کے لیے مباح ہے ‘‘﴿الفقہ الاسلامی وادلتہ: جلد ۵/۵۹۴﴾
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی کو وضو کرنے، نہانے دھونے، اپنے یا چوپائے کی پیاس بجھانے یا کھیت اور باغات سیراب کرنے کے لیے پانی طلب کیا جائے تو اس میں فیاضی اورہمدردی کا ثبوت دینا چاہئے، پانی پر قبضہ جما کر بیٹھ جانا اور ضرورت مندوں کو پانی نہ دینا اخلاق و انسانیت کے خلاف ہے: اتفق العلماء علی انہ یستحب بذل المائ بغیر ثمن ‘‘﴿الفقہ الاسلامی وادلتہ:۴/۴۵۱﴾
اور اس میں سب سے اہم ترین پہلو جس کی طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے توجہ دلایی اس کی رو سے پانی کی حفاظت و فراہمی کے زیادہ سے زیادہ اسباب و ذرائع اختیار کرنے کی ترغیب دلائی۔’’اونہرااجراہ‘‘ کہہ کر یہ بتلادیا کہ کسی نہر کو جاری کر دینا ایسا صدقہ ہے جس کا ثواب مرنے کے بعد بھی انسان کو ملتا رہتا ہے ۔ (ابن ماجہ:۲۴۲ )
اس طرح کنویں کھودنے اور بنوانے کی ترغیب دلائی ایک شخص نے آپ اسے یہ پوچھا کہ میری ماں کا انتقال ہو گیا ہے میں اس کی طرف سے صدقہ کرنا چاہتا ہوں توکیا کروں؟ آ پ انے فرمایا کنواں بنوادو ، صحابی نے کنواں بنوادیا۔ ( ابو داؤد : حدیث نمبر:۱۶۸۱)
جیسا کہ اس مشہور واقعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ بئر رومہ کا کنواں جسے بئر عثمان بھی کہا جاتا ہے۔یہ مدینہ کے اس بڑے کنویں کا نام ہے جو وادئ عقیق ازہری محلہ میں مسجد قبلتین سے ایک کلو میٹر جبکہ مسجد نبوی سے ساڑھے تین کلو میٹرشمال کی جانب واقع ہے۔ اس کنویں کا پانی نہایت شیریں، لطیف اور پاکیزہ ہے۔ اس مناسبت سے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بشارت کے مطابق اس کنویں کو خریدنے اور وقف کرنے کے سبب حضرت عثمان کا جنتی ہونا ثابت ہوا، اس کنویں کا ایک نام " بئر جنت یعنی جنتی کنواں " بھی مشہور ہے، اس زمانہ میں حضرت عثمان نے اس کنویں کو ایک لاکھ درہم کے عوض خریدا تھا۔ " اور اپنے ڈول کو مسلمانوں کا ڈول بنا دیا "
یہ " وقف کرنے " سے کنایہ ہے یعنی جو شخص اس کنویں کو خریدے اور اس کو اپنی ذاتی ملک قرار نہ دے بلکہ رفاہ عامہ کے لئے وقف کردے تاکہ جس طرح خود وہ شخص اس کنویں سے فائدہ اٹھائے اسی طرح دوسرے لوگ بھی اس سے فائدہ اٹھا سکیں۔
مہاجرین مکہ معظمہ سے ہجرت کر کے مدینہ طیبہ میں آئے یہاں کا پانی پسند نہ آیا شور تھا، بنی غفار سے ایک شخص کی مِلک میں ایک شیریں چشمہ جس کا نام رومہ تھا وہ اس کی ایک مشک نیم صاع کو بیچتا ، سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا :یہ چشمہ میرے ہاتھ ایک چشمہ بہشت کے عوض بیچ ڈال ۔ عرض کی : یارسول اللہ !میری اورمیرے بچوں کی معاش اسی میں ہے مجھ میں طاقت نہیں ۔ یہ خبر عثمان غنی کو پہنچی وہ چشمہ مالک سےخریدلیا ، پھر خدمت اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں حاضر ہوکر عرض کی : یارسول اللہ!کیا جس طرح حضور اس شخص کو چشمہ بہشتی عطافرماتے تھے اگر میں یہ چشمہ اس سے خرید لوں تو حضو رمجھے عطافرمائیں گے ؟ فرمایا:ہاں ۔عرض کی : میں نے بِئر رومہ خرید لیا اورمسلمانوں پر وقف کردیا۔
اس تفصیل سے پانی کا مسئلہ بھی خود بخود واضح ہوجاتا ہے۔پانی چوں کہ انسان اور تمام جاندار کے لیے بنیادی ضرورت ہے اور مختلف النوع استعمال سے اس کی قلت کا اندیشہ ہے ؛بلکہ بعد میں پانی کے بارے میں تنگی اور مشکلات کا اندیشہ ہو تو بعد میں پیش آنے والے ضرر عام سے بچنے کے لیے پانی کے بعض غیر ضروری استعمال پر پابندی لگائی جا سکتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ پانی کی قلت کے اندیشے کو دور کرنے کے لیے کوئی بیچ کا راستہ نکالے۔ نہ تو ایسی پابندی لگائے جس سے لوگ اپنی روز مرہ کی زندگی گذارنے میں تنگی میں پڑجائیں مثلاً کھانے پینے، نہانے دھونے، کھیت و باغات کی سیرابی اور دیگر ضروریات زندگی میں ان پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی ہے۔ ورنہ مستقبل میں ضرر کے اندیشے سے فی الحال ضرر لاحق ہوگا۔ اورضرر کے ذریعے ضرر دور نہیں کیا جاسکتا۔

کنوایں کھدوانا یا نہر جاری کروانا
لوگوں تک پانی جیسی نعمت پہنچانے پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص اجر کی بشارت سنایی
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کے لئے اس کی موت کے بعد بھی سات اعمال کا اجر جاری رہتا ہے :کسی کو علم سکھایا، نہر کھدوا کر جاری کروائی، پانی کا) کنواں بنوایا (لوگوں کے لئے) (جیسا کہ سڑکوں گلیوں میں گرمیوں میں لوگوں ، مسافروں کے لئے ٹھنڈے پانی کا کولر لگوانا بھی اسی عمل میں آئے گا - ، درخت لگوایا (یعنی لوگ اس کے سائے یا پھل وغیرہ سے فائدہ اٹھائیں، مسجد بنوائی، قرآن مجید کو میراث بنایا (یعنی کسی کو قرآن پڑھایا ، یا ، لے کر دیا ، اپنے پیچھے نیک اولاد چھوڑی جو اس کی وفات کے بعد اس کے لئے دعائے مغفرت کرتی ہے ( (الترغيب والترهيب : 1/76 ، ،2/98 ، شعب الايمان للبيهقي : 3/1276)
 
Top