• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پانی پر دم کرنے کا حکم

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
پانی کی اصل پینا ہی ہے ، کسی پانی کو نہ پینے والا قرار دینے کے لئے قرینہ صارفہ چاہئے ۔ کسی پانی میں نمک گھول دیا جائے تو اسے نہ پینے والا قرار دینا صحیح نہیں ہے ۔

جہاں تک آپ کا کہنا کہ نبی ﷺ نے پانی پر دم نہیں کیا ، پانی انڈیل کر دم کیا اس کا جواب یہ ہے کہ جو جگہ متاثر تھی وہاں پانی انڈیل کر اسی پانی کی جگہ آپ ﷺ دم کر رہے تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پانی پر دم کرنا جائز ہے ۔


جن لوگوں کو شبہ ہوتا ہے اس حدیث سے جس میں پھونکنا منع کیا گیا ہے ۔


اس شبہ کا رد یہ ہے کہ پانی پینے وقت پھونکنا منع ہے کیونکہ آج سائنسی علوم سے پتہ چلتا ہے کہ پھونک سے جراثیم خارج ہوتے ہیں جو انسان کے لئے نقصان دہ ہیں۔

مگر قرآن کریم یا مسنون اذکار پڑھنے سے ایک قسم کی تاثیر پیدا ہوتی ہے اسی لیے پھونک مریض کے لئے نفع بخش ہے ، اگر پڑھ کر پھونکنے سے بھی نقصان کا پہلو نکلتا تو مریض کو شفا نہ ملتی جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے ۔ مریض کے جسم پر یا پانی پر دم کرکے مریض کو پلایا جائے فائدہ مند ہے ۔ یہ اللہ کی طرف سے بندوں پربہت بڑا احسان ہے ۔

اس لئے بغیر پڑھے پھونکنا اور وہ کتاب پڑھ کے پھونکنا جسے شفا قرار دیا گیا ہے دونوں میں بڑا واضح فرق ہے ۔

بنابریں یہ کہا جائے گا کہ پانی پر پڑھ کر دم کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ پانی پیتے وقت بغیر پڑھے پھونکنا منع ہے ۔

اور سلف نے دم والی احادیث سے یہی مفہوم سمجھا ہے ، اس پر ان کا عمل بھی رہا ہے ، اور نصوص کو سمجھنے کے لئے سلف کی فہم مقدم ہے ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
پیارے بھائیوں کے ملاحظہ کیلئے ایک فتوی پیش ہے ؛

السؤال :
ما حكم القراءة على الماء والزيت ، وقد سمعنا من يجوزها ولم يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم ولا عن أصحابه أنهم قاموا بذلك ؟
الجواب :
الحمد لله وحده ، والصلاة والسلام على خاتم النبيين ، وآله وصحبه أجمعين،،،
وبعد :
فالقراءة على الماء ونحوه مشروعة وجائزة عند كثير من أهل العلم ، قديماوحديثا.
وأما قولك : إنه لم يصح عن النبي صلى الله عليه وسلم ولا عن أصحابه أنهم قاموا برقية في ماء أو زيت أو عسل أو غيره!! غير صحيح .
ولو قيدته بقولك: "فيما أعلم" ، لكان أصوب وأسلم .
فقد روى الطبراني في المعجم الصغير (ص 117) وأبو نعيم في أخبار أصبهان (2/ 223) وغيرهما : عن علي رضي الله عنه قال: لدغت النبي صلى الله عليه وسلم عقرب وهو يصلي ، فلما فرغ قال : " لعن الله العقرب ، لا تدع مصلياً ولا غيره ، ثم دعا بماءٍ وملحٍ ، وجعل يمسح عليها ويقرأ بـ (قل يا أيها الكافرون) و(قل أعوذ برب الفلق) و (قل أعوذ برب الناس).
وله شواهد ، فقد أخرجة الترمذي ( 2905 ) عن ابن مسعود رضي الله عنه وفيه : فجعل يضع موضع اللدغة في الماء والملح ، ويقرأ ( قل هوالله أحد ) والمعوذتين حتى سكنت .
وقد صححه العلامة الألباني رحمه الله في الصحيحة (548).
أفليس هذا من الرقية والقراءة على الماء ؟!
وقد ذكر الحديث الإمام ابن القيم رحمه الله في الطب النبوي من زاد المعاد (4/180) ثم قال : ففي هذا الحديث : العلاج بالدواء المركب من الأمرين : الطبيعي ، والإلهي ، فإن في سورة الإخلاص من كمال التوحيد العلمي الاعتقادي ،وإثبات الأحدية لله ، المستلزمة نفي كل شركة عنه ...
قال : وفي المعوذتين الاستعاذة من كل مكروه جملة وتفصيلا ، فإن الاستعاذة من شر ما خلق تعم كل شر يستعاذ منه ، سواء كان في الأجسام أو الأرواح ...
والسورة الثانية : تتضمن الاستعاذة منشر شياطين الإنس والجن .
فقد جمعت السورتان الاستعاذة من كل شر ، ولهما شأن عظيم في الاحتراس من الشرور قبل وقوعها ، ولهذا أوصى النبي صلى الله عليه وسلم عقبة بن عامر بقراءتهما عقب كل صلاة ... إلخ كلامه رحمه الله .
ثم قال:
وأما العلاج الطبيعي فيه ، فإن في الملح نفعاً لكثير من السُّموم ، ولا سيما لدغة العقرب ، كما ذكر الأطباء ، فقد قال صاحب "القانون" :
يُضمد به مع بزر الكتان للسع العقرب ،وذكره غيرهُ أيضاً.
وفي الملح من القوة الجاذبة المحلِّلة ما يَجذبُ السموم ويُحللها ، ولما كان في لسعها قوةٌ نارية تحتاج إلى تبريد وجذب وإخراج جمع بين الماء المبرد لنار اللسعة، والملح الذي فيه جذب وإخراج ، وهذا أتم ما يكون من العلاج وأيسره وأسهله، وفيه تنبيه على أن علاج هذا الداء بالتبريد والجذب والإخراج والله أعلم. انتهى.
ونقله الإمام ابن مفلح في الآداب الشرعية (3/ 98).
وأخرج البخاري ومسلم وأحمد : عن عائشة قالت : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا اشتكى الإنسان الشيء منه ، أو كانت به قرحة أو وجع ، قال بأصبعه هكذا، ووضع سفيان سبابته بالأرض ثم رفعها ، وقال : " بسم الله ، تربة أرضنا ، بريقة بعضنا ، يشفى سقيمنا ، بإذن ربنا".
قال ابن مفلح : وهذا علاج مركب سهل ، فإن القروح والجراح يتبعها غالباً سوء مزاج ورطوبة رديئة وسيلان ، والتراب الخالص طبيعته باردة يابسة فوق برد كل دواء مفرد ، فتقابل برودته تلك الحرارة ، ويبسه تلك الرطوبة ، ويعدل مزاج العضو العليل فتقوى قوته المدبرة ، فتدفع ألمه بإذن الله تعالى ، وينضم مع ذلك ، هذا الكلام المتضمن لبركة اسم الله والتوكل عليه ، وتفويض الأمر إليه . انتهى (3/ 94).
وروى ابن ماجه (3548) : عن عثمان بن أبي العاص قال : لما استعملني رسول الله صلى الله عليه وسلم على الطائف ، جعل يعرض لي شيء في صلاتي ، حتى ما أدري ما أصلي ، فلما رأيت ذلك ، رحلت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم . قال : " ابنُ أبي العاص ؟ " قلت : نعم يا رسول الله ، قال : " ما جاء بك ؟ " قلت : يا رسول الله عرض لي شيء في صلواتي ، حتى ما أدري ما أُصلي . قال: " ذاك الشيطانُ ، ادنه " فدنوت منه ،فجلست على صدور قدمي .
قال : فضرب صدري بيده ، وتفل في فمي ، وقال : " اخرُجْ عدُوَّ الله " ففعل ذلك ثلاث مرات .
ثم قال: " الْحَقْ بعَمَلِكَ ". وصححه العلامة الألباني في السنن .
وفي الصحيحين : أنه صلى الله عليه وسلم كان يعوذ بعض أهله فيمسح بيده اليمنى .
وكان إذا أوى إلى فراشه نفث بكفه بـ (قل هو الله أحد) وبالمعوذتين جميعاً ، ثم يمسح بهما وجهه وما بلغت يده من جسده .
فلا حرج من القراءة والنفث في الماء وعلى البدن وعلى المعيون ، كما روى مالك في الموطأ (2/938) حادثة سهل بن حنيف ، وأمر النبي صلى الله عليه وسلم عامر بن ربيعة أن يتوضأ له .
وغيرها كثير مما تبعه يطول ، لكن وجود بعض الناس الذين يجعلون ذلك تجارة ، هو خلاف هدي السلف ، ومما يذهب البركة من الرقية .
والله أعلم ،،،
وصلى الله على محمد وآله وصحبه وسلم.
الشيخ محمد الحمود النجدي.
http://www.ahlalhdeeth.com/vb/showthread.php?t=159941
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
اصل میں ہم بعض اہل حدیث کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ یہ دیوبندیوں اور بریلویوں کا خاص عمل ہے۔ اور یہ بھی صحیح ہے کہ مقلدوں نے دم کرنے اور تعویذ لکھنے کو ایک پیشہ بنا رکھا ہے ، جبکہ اہل حدیث علماء کو اللہ تعالی نے اس سے محفوظ رکھا ہے۔
اگر مقلدوں نے اسے پیشہ بنالیا ہے تو ہم پیشہ کا انکار کریں گے نہ کہ اس کی اصل جواز کا ۔
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
حكم القراءة على الماء والزيت من أجل الرقية

هل يجوز في الرقية أن يقرأ المسلم القرآن الكريم وبعض الأدعية النبوية على الماء أو الزيت, ويقوم المريض بشرب ذلك الماء والاغتسال به؟ وإذا كان لا يجوز فما الرقية الشرعية والشروط التي يجب أن تتوفر في الرقية ويجوز أن يستعملها المسلم بعد ذلك؟



لا حرج في الرقية بالماء ثم يشرب منه المريض أو يغتسل به، كل هذا لا بأس به، الرقى تكون على المريض بالنفث عليه، وتكون في ماء يشربه المريض أو يتروَّش به، كل هذا لا بأس به، فقد ثبت عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه رقى ثابت بن قيس بن شماس في ماء ثم صبه عليه، فإذا رقى الإنسان أخاه في ماء ثم شرب منه أو صبه عليه يرجى فيه العافية والشفاء، وإذا قرأ على نفسه على العضو المريض في يده أو رجله أو صدره ونفث عليه ودعا له بالشفاء هذا كله حسن.

مو قع : عبدالعزيز بن عبدالله بن باز رحمه الله
http://www.binbaz.org.sa/mat/17721


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
کاغذوں کو پانی میں ڈبو کر پانی پینا :
سوال:

زعفران والے پانی پر دم کرنا، پھر اس میں کاغذوں کو ڈبو کر خشک کر کے محفوظ کرلینا، اور پھر ضرورت پڑنے پر ان کاغذوں کو پانی میں ڈال کر پانی نوش کرنے کا کیا حکم ہے؟


الحمد للہ:



الحمد للہ: زعفران والے پانی پر دم کرنا، اور پھر اس میں کاغذوں کو ڈبو کر لوگوں کے سامنے فروخت کیلئے پیش کرنا ، تاکہ لوگ ان کے ذریعے شفا یابی پائیں، یہ عمل جائز نہیں ہے، ایسے عمل سے روکنا ضروری ہے؛ کیونکہ اس میں حیلہ سے لوگوں کے مال کو باطل طریقے سے کھایا جاتا ہے، اور نہ ہی اس شرعی دم میں اسکا شمار ہو سکتا ہے جسے اہل علم نے شرعی طور پر جائز کہا ہے؛ یعنی: ایک کاغذ یا کسی بھی پاک چیز پر صاف انداز سے آیت لکھی جائے، اور پھر اسے پانی میں گھول کر پی لیا جائے"

واللہ اعلم.

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

http://islamqa.info/ur/11055
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
کاغذوں کو پانی میں ڈبو کر پانی پینا :

سوال:

زعفران والے پانی پر دم کرنا، پھر اس میں کاغذوں کو ڈبو کر خشک کر کے محفوظ کرلینا، اور پھر ضرورت پڑنے پر ان کاغذوں کو پانی میں ڈال کر پانی نوش کرنے کا کیا حکم ہے؟


الحمد للہ:



الحمد للہ: زعفران والے پانی پر دم کرنا، اور پھر اس میں کاغذوں کو ڈبو کر لوگوں کے سامنے فروخت کیلئے پیش کرنا ، تاکہ لوگ ان کے ذریعے شفا یابی پائیں، یہ عمل جائز نہیں ہے، ایسے عمل سے روکنا ضروری ہے؛ کیونکہ اس میں حیلہ سے لوگوں کے مال کو باطل طریقے سے کھایا جاتا ہے، اور نہ ہی اس شرعی دم میں اسکا شمار ہو سکتا ہے جسے اہل علم نے شرعی طور پر جائز کہا ہے؛ یعنی: ایک کاغذ یا کسی بھی پاک چیز پر صاف انداز سے آیت لکھی جائے، اور پھر اسے پانی میں گھول کر پی لیا جائے"

واللہ اعلم.

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء

http://islamqa.info/ur/11055
کیا ابن تیمیہ رحمہ اللہ پانی میں تعویز گھولنے کے بھی قائل ھیں یا نہیں ایک بھائی اسی تھریڈ میں حوالہ دیا ہے - کیا یہ حوالہ صحیح ہے یا نہیں - اس فتویٰ کی روشنی میں کیسا ہے
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
پانی کی اصل پینا ہی ہے ، کسی پانی کو نہ پینے والا قرار دینے کے لئے قرینہ صارفہ چاہئے ۔ کسی پانی میں نمک گھول دیا جائے تو اسے نہ پینے والا قرار دینا صحیح نہیں ہے ۔

جہاں تک آپ کا کہنا کہ نبی ﷺ نے پانی پر دم نہیں کیا ، پانی انڈیل کر دم کیا اس کا جواب یہ ہے کہ جو جگہ متاثر تھی وہاں پانی انڈیل کر اسی پانی کی جگہ آپ ﷺ دم کر رہے تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پانی پر دم کرنا جائز ہے ۔


جن لوگوں کو شبہ ہوتا ہے اس حدیث سے جس میں پھونکنا منع کیا گیا ہے ۔


اس شبہ کا رد یہ ہے کہ پانی پینے وقت پھونکنا منع ہے کیونکہ آج سائنسی علوم سے پتہ چلتا ہے کہ پھونک سے جراثیم خارج ہوتے ہیں جو انسان کے لئے نقصان دہ ہیں۔

مگر قرآن کریم یا مسنون اذکار پڑھنے سے ایک قسم کی تاثیر پیدا ہوتی ہے اسی لیے پھونک مریض کے لئے نفع بخش ہے ، اگر پڑھ کر پھونکنے سے بھی نقصان کا پہلو نکلتا تو مریض کو شفا نہ ملتی جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے ۔ مریض کے جسم پر یا پانی پر دم کرکے مریض کو پلایا جائے فائدہ مند ہے ۔ یہ اللہ کی طرف سے بندوں پربہت بڑا احسان ہے ۔

اس لئے بغیر پڑھے پھونکنا اور وہ کتاب پڑھ کے پھونکنا جسے شفا قرار دیا گیا ہے دونوں میں بڑا واضح فرق ہے ۔

بنابریں یہ کہا جائے گا کہ پانی پر پڑھ کر دم کرنے میں کوئی حرج نہیں جبکہ پانی پیتے وقت بغیر پڑھے پھونکنا منع ہے ۔

اور سلف نے دم والی احادیث سے یہی مفہوم سمجھا ہے ، اس پر ان کا عمل بھی رہا ہے ، اور نصوص کو سمجھنے کے لئے سلف کی فہم مقدم ہے ۔

پانی میں نمک ملا کر اس کو دوا کے طور پر استمعال کیا گیا ہے نہ کہ اس کو دم کیا گیا ہے دم تو زخم کی جگہ کو ہی کیا گیا تھا

پانی کا اصل پینا دھونا سب ہے یہی اس کا مقصد ہے اس کا دم سے کیا تعلق ہے ؟

الله سے دعا کرنا ہی اصل مقصد ہے دم میں بھی یہی کیا جاتا ہے بات ہو رہی ہے کہ یہ بدعت ہے یا نہیں کیونکہ اس کی کوئی مظبوط صحیح السند روایت نہیں ہے

قرآن اگر شفا ہے تو گلے میں لٹکانا صحیح ہے یا نہیں ان میں سے بعض اس کو شرک کہتے ہیں بعض بدعت اور بعض نیکی اسی نوعیت کا یہ دم کا مسئلہ ہے کہ قرآن یا دعا پانی پر پھونک سکتے ہیں یا نہیں

ہماری رہنمائی حدیث کرتی ہے کہ پانی پر پھونک نہ مارو

سلف کا فہم صحیح نہیں اگر وہ صحیح ہوتا تو نبی صلی الله علیہ وسلم کو عرش پر بٹھائے جانے والا عقیدہ بھی صحیح ہوتا
 
شمولیت
ستمبر 13، 2014
پیغامات
393
ری ایکشن اسکور
276
پوائنٹ
71
اصل بات یہ ہے کہ علاج عبادت نہیں ہے کہ جس کے ہر مسئلے میئں شرعی نص کی ضرورت ہو
بس حکم شرعی کے خلاف نہ ہو
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,898
پوائنٹ
436
اصل بات یہ ہے کہ علاج عبادت نہیں ہے کہ جس کے ہر مسئلے میئں شرعی نص کی ضرورت ہو
بس حکم شرعی کے خلاف نہ ہو
کیا حرام چیز سے علاج جو سکتا ھے ؟ اگر نہیں تو ہر عمل عبادت ھے یہاں تک کہ بیوی سے جماع بھی
کیا نص شرعی کی ضرورت صرف عبادات کے لیے ھوتی ھے؟
 
Top