اصل بات یہ ہے کہ شریعت میں حکم ظاہر پر لگتا ہے؛نحن نحکم بالظواھر واللہ یتولی السرائر
اربابِ سیاست کے عزائم تو پوشیدہ نہیں،لیکن ظاہری اقرار بہ ہرحال موجود ہے؛بنابریں اس نظام پر حکم لگانے کے لیے بھی ظاہری دلائل درکار ہیں۔
جی استادِ محترم یہاں تھوڑی سے ظاہر کی وضاحت کرنی ہے کہ جس کے لئے عام طور پر اسامہ رضی اللہ عنہ والی حدیث پیش کی جاتی ہے
اور پھر اس حدیث کے مقتول کے اقرارِ اسلام کے قول پر آج کے حکمرانوں کے اقرار ِ اسلام کے قول کو قیاس کیا جاتا ہے تو میرے خیال میں یہ قیاس مع الفارق ہے کیونکہ خالی اقرار کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ اقرار کے ساتھ اعمال کو بھی دیکھا جاتا ہے
میں اسامہ رضی اللہ عنہ والی حدیث کو فرضی طور پر تھوڑا سا تبدیل کرتا ہوں تاکہ آج کے حکمرانوں پر قیاس درست ہو جائے
فرض کریں اسامہ رضی اللہ عنہ سے قتل ہونے والا منہ سے کہ رہا ہوتا کہ میں مسلمان ہوں اور ساتھ ہی ساتھ اسکی تلوار بھی نہ رک رہی ہوتی بلکہ وہ صحابہ کو قتل بھی کرتا جا رہا ہوتا اور ساتھ ہی یہ قول بھی دہراتا جاتا اس صورت میں اس مقتول کے اقرار کو آج کے آئین میں شریعت کے اقرار پر قیاس کیا جا سکتا ہے مگر کیا ایسی صورت میں اسامہ رضی اللہ عنہ کے اس قتل پر تنقید ہوتی
میرے خیال میں آئین میں بھی خالی اقرار ہی ہے عمل کے قرآن و حدیث کے خلاف ہونے پر کسی صحیح سلفی عالم کا بیان میں نے آج تک نہیں پڑھا بلکہ تمام اسکو غیر شرعی کہتے ہیں اور شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کرتے یا اسکے لئے کوششیں کرتے نظر آتے ہیں پھر بھی کچھ سلفی علماء یہ بھی کہ جاتے ہیں کہ یہ آئین اسلامی ہے
جیسے سارے سلفی علماء بریلوی کے پیچھے نماز پڑھنا ناجائز کہتے ہیں مگر کچھ اسکو مشرک نہیں کہتے (یہ خیال رہے کہ میری مراد عام بریلوی نہیں جو موحد بھی ہو سکتے ہیں بلکہ مسجدوں کے امام اور علماء ہیں)
البتہ ان ظاہری اعمال پر جو دلائل درکار ہیں وہ اوپر والی کتاب ڈھونڈ کر تفصیلا دیے جا سکتے ہیں
یہاں میں ایک وضاحت بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ اس سے افراد یا گروہوں کی معین تکفیر ہر گز مقصود نہیں؛اس نکتے کو خاص طور سے ملحوظ رکھا جائے؛شکریہ
محترم بھائی یہاں کچھ مختلف باتوں کو علیحدہ کر وضاحت کر دوں
1-کسی گروہ یا افراد کی معین تکفیر بالکل کی ہی نہیں جا سکتی
2-تکفیر معین دلائل ہونے پر کی جا سکتی ہے البتہ جس کو دلائل سمجھ نہیں آتے اسکو غلط بھی نہیں کہ سکتے
3-اس جگہ آئین پر اس طریقے سے بحث سے استادِ محترم کا مقصد کسی کی تکفیر معین کرنا نہیں بلکہ حقیقت کا پتا لگانا اور لوگوں کے دلائل جاننا ہے
تو میرے خیال میں استادِ محترم بھی پہلی بات کو غلط کہیں گے کیونکہ واضح دلائل ہونے پر ہمارے شیخ امین اللہ پشاوری کے فتاوی میں ایسا کیا گیا ہے
البتہ دوسری اور تیسری بات پر ہم سب کا اتفاق ہے
اللہ آپ کو جزا دے امین