جی جناب میں معذرت چاہوں گا اگر میری وجہ سے کسی کی دل عذاری ہوی ہو تو.اگین سورییہ صرف معلوماتی گفتگو ہے۔
جی جناب میں معذرت چاہوں گا اگر میری وجہ سے کسی کی دل عذاری ہوی ہو تو.اگین سورییہ صرف معلوماتی گفتگو ہے۔
کانٹے کی طرح کھٹکنا بہ ذات خود مقصود نہیں ،بل کہ یہ ایک علامت ہے کسی دعوت کے حق ہونے کی؛نبی اکرم ﷺ کی دعوتی حکمت عملی کس قدر حکیمانہ اور خوب صورت تھا لیکن آپ کو تکالیف کیوں برداشت کرنا پڑیں؛اوئے کافر کہنا ہر گز میرا مقصود نہیں لیکن عمل اور فعل کی اصل حیثیت کو متعین کرنا از حد ضروری ہے؛ جس طرح کسی مکروہ چیز کو حرام کہنا غلو ہے اسی طرح حرام کو مکروہ کے درجے پر لانا تقصیر اور مداہنت ہے؛ افراد پر حکم لگانا قطعی میرا مطمح نظرنہیں لیکن اعمال کی شناعت کو اجاگر کیے بغیر اصلاح ممکن نہیں اور نہ ہی یہ دین کا طریقہ ہے۔جزاک اللہ خیرا۔ حق وصداقت سے چشم پوشی اور سکوت واقعی گناہ عظیم ہیں۔بات درحقیقت یہ ہے کہ انسانی کوششیں مختلف ہیں ((ان سعیکم لشتی)) اگر حق وصداقت کے علمبرداروں کا مطمح نظر دل یزداں میں کھٹکنا ہو تو کوششوں کا رنگ کچھ اور ہوگا، اور اگر حق وصداقت کے داعیوں کا مقصود دلِ یزداں جیتنا، انہیں حق وصداقت کا امین بنانا اور خدا کے عذاب سے بچانا ہو تو ان کی کوششیں کسی اور طرز کی ہونگی۔ چونکہ موخر الذکر میں نسبتا محنت زیادہ اور پراسس لمبا ہوتا ہے نیز اس میں خواہشاتِ نفس اور ذاتی تعصبات ورجحانات کی قربانی دینا پڑتی ہے، اس لیے ہماری جذباتی قوم، نفسیاتی مسسائل میں گھرے ہوئے اور ردعمل کے شکار افراد کے لیے بوجھ بن جاتی ہے۔ درحقیقت یہ اختلاف مقصد اور سوچ کے زاویے مختلف ہونے کی وجہ سے ہے پیدا ہوتا ہے۔
جہاں تک بات ہے مخاطب کو دعوت دینے کی، تو اس میں تو آپ بھی متفق ہیں۔ جیسا کہ آپ نے فرمایا:
اب ذرا ہم غور کریں کہ جب مدعو کو "اوئے کافر" کہہ کر دعوت دیں گے تو اس کے کان تک تو بات پہنچ جائے گی، دل تک پہنچنا محال ہے۔ کان تک تو شاید ریکارڈر زیادہ اچھے طریقے سے بات پہنچا دیتا ہے۔دل تک بات پہنچانے کے لیے اسلوب بدلنا پڑے گا، گفتگو میں نرمی لانی پڑے گی، مخاطب کی نفسیات کو سمجھنا پڑے گا، اس کی الجھنوں کا جواب تلاش کرنا پڑے گا، اس کی طرف سے دی جانے والی اذیتیں برداشت کرنا پڑیں گی۔ پوری قوت سے صدائے انتباہ بلند کر نے کے لیے کی جانے والی تقریریں، شاعروں کے شعر، مجذوبوں کے نعرے اور عوام کے غل غپاڑے جذبات تو رکھتے ہیں، تاثیر نہیں رکھتے۔انتہائی محترم بھائی جان! لوگ تب بدلتے ہیں جب ان کے دل بدلیں۔ اور جب لوگ بدلنے لگیں تو نظام خود بخود بدل جاتے ہیں۔نظاموں کو بدلنے کے لیے درست حکمت عملی اپنانا ہوگی۔کمی بیشیوں سے پاک علمِ صحیح اور جذباتیت سے پاک راست فکری وقت کی ضرورت ہیں۔ کسی ایک میں بھی جھول خرابی کے کنارے تک پہنچا سکتا ہے۔ صریح کفر ہوں یا ملمع کاریوں کے کفر ہر دو کا مقابلہ بھرپور تیاری کے بعد ہونا چاہیے۔ایک دفعہ صوفی عیش صاحب کو فرماتے ہوئے سنا کہ پہلا قدم آودے نفس تے، تے دوجا قدم امریکہ تے۔ اگر ہم خود کو تو بدل نہ سکیں، نظاموں کو کیسے بدلیں گے۔تیاری اور تربیت کے بغیر میدانِ عمل میں کودنا شاید درست حکمت عملی نہیں۔ واللہ اعلم
قانون کی زبان میں فرد (پرسن) سے مراد صرف انسان ہی نہیں ہوتا، بلکہ فرد سے مراد متعین انسان کے ساتھ ساتھ ہر وہ چیز ہے جو کسی جگہ بھی پارٹی بن سکے۔ (تفصیل اور طے شدہ درست تعریف کے لیے قانون کی کتب دیکھی جاسکتی ہیں) اس اعتبار سے کوئی کمپنی، جماعت، تنظیم، شہر اور ملک وغیرہ بھی فرد یعنی پرسن کہلا سکتے ہیں۔یوں پاکستان بھی ایک فرد ہے، جب پاکستان کے لیے کوئی حکم لگایا جائے گا تو ایک متعین فرد کے لیے ہی حکم لگایا جارہا ہے۔ فلہٰذا یہ کہنا نادرست ہے کہ پاکستان دارالاسلام ہے یا نہیں؟ کی بحث سے مقصود فرد پر حکم لگانا نہیں ہے۔پاکستان دارالاسلام؟ کی بحث متعین پر ہی فتویٰ بازی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اہل علم نے متعین اور عمومی تکفیر کے سلسلے میں بہت خوب مباحث رقم فرما دی ہیں۔ ان سے رہنمائی لی جاسکتی ہے۔افراد پر حکم لگانا قطعی میرا مطمح نظرنہیں لیکن اعمال کی شناعت کو اجاگر کیے بغیر اصلاح ممکن نہیں اور نہ ہی یہ دین کا طریقہ ہے۔
ایک تو یہ سوال زیر بحث دھاگے سے غیر متعلق ہے اور دوسرے آپ نے’’ اہل علم‘‘ بہ ظاہر طنزیہ انداز میں لکھا ہے، پھر میں مفتی بھی نہیں کہ’ فتویٰ‘ دے سکوں ،لیکن یہ سوال چوں کہ بہت دہرایا جاتا ہے اور بہت سے لوگ اسے ایک مسکت جواب بھی سمجھتے ہیں ، اس لیے اپنی طالب علمانہ راے دینا چاہوں گا کہ اگر ملازمت کفریہ یا حرام نوعیت کی نہیں ہے،تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے،خاص طور سے ان حالات میں جب کہ نہ تو کوئی معیاری اسلامی حکومت موجود ہو اور نہ ہی وہاں سے کسی بہتر مقا م کی جانب نقل مکانی ممکن ہو یا بہت ہی مشکل ہو، بہ فحواے فرمانِ الہٰی . فَاتَّقُوا اللَّـهَ مَا اسْتَطَعْتُمْ۔واللہ اعلمکسی کو خاص کیے بغیر میرا ایک سوال ہے کہ اس شخص کے لیے ’’اہل علم‘‘ کا کیا فتویٰ ہے جو کسی ریاست کو دار الکفر یا دارالحرب سمجھتا ہو اور پھر اس کی حکومت کی ملازمت بھی کرے؟
تو پاکستانی ریاست کو کفریہ ریاست قرار دینے کے لیے کیوں اس قدر پر تولے جارہے ہیں؟ کیا یہاں پر حکم لگانے کے لیے موانع اور حکمتوں سے آنکھیں بن کر لینی چاہییں؟کفر کے ارتکاب کے باوجود بعض اوقات موانع کی بنا پر افراد پر کفر کا حکم نہیں لگتا
اس سے تو پاکستان کے بھی اسلامی ریاست ہونے کی نفی ہوتی ہے، اب باقی کی بحث محض حکمت عملی ہی کی رہ جاتی ہے،جس میں ہر صاحب علم اپنے فہم کے مطابق راے رکھنے کا مجاز ہے؛میرا مقصد صرف اور صرف علمی تنقیح ہے،تاکہ ابہام کو ممکن حد تک ختم کیا جا سکے؛ ارباب علم و نظر سے استدعا ہے کہ اس پر دلائل و براہین سے روشنی ڈالیں۔خالص اسلامی بنیادوں پر دیکھا جائے تو اس وقت کوئی ریاست "اسلامی ریاست" نہیں ہے۔
اگر آپ ان ’’اہل علم ‘‘کے اسماے گرامی اور ان کی تحریروں کی نشان دہی فرما دیں ،تو خلق خدا کو استفادے کا موقع مل جائے گا۔شکریہویسے بھی ''اہل علم'' نے ان پر خوب لکھ چھوڑا ہے۔
یہ عام بات کی گئی ہے، متعین طور پر کسی جگہ کو دار الاسلام اور دار الکفر نہیں کہا گیا۔ باقی رہا اس عبارت سے آپ کا نتیجہ تو وہ بدیہی ہے۔خالص اسلامی بنیادوں پر دیکھا جائے تو اس وقت کوئی ریاست "اسلامی ریاست" نہیں ہے۔ جزوی طور پر کہیں کہیں خیر دکھائی دیتی ہے۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ جہاں جزوی اسلام موجود ہے اسے دعوت اور دیگر حکمت عملی سے غالب کیا جائے۔ اس پر فتوے بازی کی زبان استعمال کر کے خیر کی کچھ نہ کچھ رمق کو بھی دبا دینا مناسب حکمت عملی نہیں ہے۔ واللہ اعلم
یہاں یہ بات قابل توجہ ہے کہ علامہ ابوالبرکاتؒ نے اس سرزمین کو دارالاسلام قرار دیا ہے ،جہاں قرآن وحدیث کے قوانین نافذ ہوں ؛سوال یہ ہے کہ کیا پاکستا ن میں قرآن وحدیث کے قوانین نافذ ہیں؟ اگر نہیں، تو اسے دارالاسلام کیوں کر کہا جاسکتا ہے ؟جہاں تک مسجد کی مثال کا تعلق ہے تو اس باب میں یہ نکتہ بھی لائق غور ہے کہ اگر کوئی شخص مسجد کےلیے وقف شدہ جگہ پر قبضہ کرکے بجاےمسجد کے کوئی اور عمارت قائم کردے ،تو کیا پھربھی یہی کہا جائے گا کہ اس میں مسجد کی بنیاد کا کیا قصور ؟یہ بات انتہائی عجیب ہے جو باوجود انتہائی کوشش کے فہم وفکر کی گرفت میں نہیں آسکی ۔اصل مسئلہ سرزمین کا نہیں اس پر نافذ شدہ قوانین کا ہے ؛حقیقت کے اعتبارسے اس وقت پوری دنیا میں کوئی خطہ بھی صحیح معنوں میں دارالاسلام نہیں ہے ،البتہ پاکستا ن کو دارالکفر کہنے کے بجاے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی اصطلاح میں دارالمرکبہ کہنا چاہیے ۔واللہ اعلم۔سوال : دارالاسلام کی کیا تعریف ہے ؟ کیا اس وقت پاکستان دارالاسلام ہے ؟
جواب: دارالاسلام اس سر زمین کو کہتے ہیں جہاں قرآن وحدیث کے قوانین نافذ ہوں اور چونکہ پاکستان اس لیے قائم کیا گیا تھا کہ یہاں اسلامی قوانین نافذ ہوں ، اور پاکستان بننے کے بعد قرار دادِ مقاصد منظور کر کے اسے بنیادی طور پر دارالاسلام بنا دیا گیا تھا ، جس طرح ایک زمین کو خرید کر برائے مسجد وقف کر دیا جاتا ہے ۔ اگر بعد میں آنے والے اس کو سجدہ وعبادت کے لائق نہیں بناتے تو اس میں مسجد کی بنیاد کا کوئی قصور نہیں ۔جیسا کہ اہل مکہ نے بیت اللہ پر تین سو سے زائد بت نصب کر دیئے تھے ۔
بہر حال پاکستان بنیادی طور پر دارالاسلام بھی ہے اور دارالمسلمین بھی ہے کیوں کہ اس کے باشندے مسلمان ہیں ۔ عملی طور پر دارالاسلام اس وقت بنے گا جب اس میں قرار دادِ مقاصد کے مطابق خالص اسلامی قوانین نافذ کیے جائیں گے ۔
فتوی از علامہ ابوالبرکات احمد ، تصدیق : حافظ محمد گوندلوی رحمہم اللہ ، اقتباس از : فتاوی برکاتیہ ، تالیف ونشر : محمد یحیی طاھر ،جامعہ اسلامیہ گلشن آباد گوجرانوالہ، جنوری 1989 ء ۔(ماخذ)