- شمولیت
- اپریل 14، 2011
- پیغامات
- 8,771
- ری ایکشن اسکور
- 8,496
- پوائنٹ
- 964
حضرت عبداللہ امجدچھتوی صاحب۔۔ دو واقعات
سرخیل علماء،آگاہ حدیث خیر الانام ، شناور بحر سر قرآن ، واقف تفسیر و فقہ ، بے مثل مناظر و مجتہد، صاحب افتاء و ابلاغ، اہل الحدیث و اہل التحقیق، حامل لسان صدق و علم سیدی حضرت عبداللہ امجد چھتوی صاحب ایک زمانے کو، زمانے بھر کے محبوب اور اس محبوب کے محبوب اقدس سے جوڑتے ایک طویل عالمانہ و عاملانہ قابل رشک زندگی گزار کے رب کے جوار رحمت میں جا بسے ہیں۔ رحمہ اللہ تعالی رحمہ واسعہ۔ دوستوں نے ان پر خوب لکھا، ابو بکر قدوسی حفظہ اللہ ، ڈاکٹر طاہر عسکری دام برکاتہ اور محب علم و علما مکرم خضر حیات مقیم مدینہ نے آنجناب پر اپنے فکر و قلم کے پھول نچھاور کیے۔ خوب کیے۔ اللہ قبول فرمائے۔ دو باتوں کا تذکرہ میں بھی کرنا چاہتا ہوں۔ ایک کا راوی یہ خاکسار خود ہے جبکہ دوسری بات یا واقعہ کے راوی معروف خطیب صبغت اللہ احسن صاحب ہیں۔ 1: جیسا کہ شیخ کو جاننے والے جانتے ہیں کہ آپ فیصل آباد کے نواح میں واقع ستیانہ بنگلہ کے ایک دینی ادارے کی مسند علم و ارشاد پر فائز تھے۔ واقفان حال یہ بھی جانتے ہیں کہ یہ ادارہ درویش منش اور صاحب دعا مولانا عتیق اللہ صاحب کی للہیت اور فکر و عمل کا امتیازی نشان ہے۔ آپ کا مزاج یہ ہے کہ طلبا کی تربیت پر بھی بہت دھیان دیتے ہیں۔ کبھی تو اتنا کہ طلبا سخت مشکل میں بھی پڑ جاتے ہیں۔ نماز کے ساتھ ساتھ سنتوں اور مسواک کی باقاعدہ پوچھ گچھ ہوتی ہے۔ اس پر سختی بھی کی جاتی ہے۔ مجھے، یاد ہے ایک رمضان کچھ دوستوں کے ہمراہ ہم وہاں دورہ تفسیر کے لیے حاضر تھے۔ رمضان اگلے دن شروع ہونا تھا۔ خیر رات تھکے ماندے ہم نہر کنارے بسے اس دیار پہنچے۔ نیا شہر ، نیا ادارہ، نئی جگہ اور ہم مسافر طالب علم ۔ پہلی رات کے بعد پہلی نماز فجر کا مرحلہ آیا تو کچھ دیر ہو گئی۔ رات کچھ وقت شاید جگہ ڈھونڈتے گزرا اور باقی رات مچھروں کی ڈھونڈی جگہ پر درد سہتے گزری تھی ۔ قصہ کوتاہ صبح فجر میں یوں شرکت کی کہ سنتیں بعد میں ادا کرنا پڑیں۔ اس پر ہمیں کہا گیا کہ جب تم نماز کی سنتیں اب ادا کر رہے ہو تو یہ کیسے ہو سکتا ہے تہجد تم نے ادا کی ہو گی۔ تو کچھ ایسا ہی وہاں تربیتی ماحول تھا اور اب بھی ہے۔ تو ایسا ہی کوئی دن ہوگا۔ جب مہتمم ادارہ مولانا عتیق اللہ صاحب ، جو مرحوم شیخ چھتوی صاحب کے شاگرد بھی تھے، نے نماز کے بعد یہ اعلان کیا کہ جن جن طلبا کی سنتیں رہ گئی ہیں، وہ کھڑے ہو جائیں۔ شاید نماز عصر کا موقع تھا۔ خیر ایسے جتنے بچے تھے، وہ ڈرتے ڈرتے کھڑے ہوگئے۔ اس دن مرحوم عبداللہ امجد چھتوی صاحب بھی براہ راست جماعت میں شریک ہو سکے تھے اور سنتیں پڑھنے سے آپ قاصر رہے تھے۔ ویسے بھی عصر کی سنتیں، سنن موکدہ میں نہیں آتیں۔ مہتمم صاحب نے ایک نظر شیخ کو دیکھا اور مودبانہ عرض کی "استاد جی! سنتیں تو آپ کی بھی رہ گئی تھیں۔" یہ سننا تھا کہ شیخ احترام المقام نے اپنے مخصوص دبنگ اور پنجابی لہجے میں کیا دین کی روح اعتدال کا عکاس جملہ ارشاد فرمایا، فرمایا: او توں میرے تے نبی لگاں ایں ، جیہڑا سنتاں وی فرض کیتی جاناں ایں؟ 2: دوسرا واقعہ میرا چشم دید ہے۔ اسی دورہ تفسیر کے دوران کا ، جس کا اوپر تذکرہ کیا۔ ہمارے ساتھ بے شمار لوگ اس دورے میں شریک و شامل تھے۔ جن میں لاہور الاسلامیہ کے عصری علوم کے ایک استاد اپنے بعض امتیازات کے ساتھ نمایاں تھے۔ لہجہ ان کا بھی سریع اور صوت ان کی بھی دبنگ تھی۔ پہلے بھی کئی دورے کر چکنے کے باعث شیخ سے متعارف اور شاید کچھ بے تکلف بھی تھے۔ ایک دن کا ذکر ہے۔ شیخ مکرم اپنی مسند تفسیر پر علم و حکمت کے موتی رول رہے تھے۔ طلبائے قرآن کافی لمبا مودبانہ حلقہ بنائے گہر قرآن اپنی سماعتوں میں سمیٹ رہے تھے۔ یہ صاحب مگر شاید تھک گئے تھے یا کیا۔ بیٹھنا بھی تو بہت پڑتا تھا۔ بہرحال جہاں دوسرے سارے طلبائے قرآن دو زانوں بیٹھے تھے یہ بڑے کرو فر سے آلتی پالتی مارے بیٹھے تھے۔ استاد گرامی کی جو نگاہ پڑی تو اپنے خاص بھیگے اور دبنگ انداز میں انھیں اپنی ہیئت درست کرنے کو کہا۔ یہ بھی اپنی طرز کے ایک تھے۔ بلند اوردبنگ آواز اور انداز میں لمبی چوڑی باتیں کرنے لگے۔ جس کا آخری جملہ مجھے اب یاد ہے، وہ یوں تھا۔ اس طرح بیٹھنے میں کیا قباحت ہے ، شرعی؟ اس جملے کو محترم طالب علم نے کچھ زیادہ اونچی آواز سے کہا اور شرعی کے لفظ پر کچھ زیادہ زور دیا۔ یہ ایک عجیب سا منظر بن گیا تھا۔ ہم نے طالب علم کی لمبی گفتگو بھی سن لی تھی اور اس کے آخر میں یہ شرط بھی سن لی تھی کہ جواب 'عین شرعی' ہونا چاہیے۔ سناٹے میں آئے اب ہم سبھی بیٹھے یہ سوچتے تھے کہ دیکھئے شیخ اس ناواقف آداب شاگردی کو کیا جواب دیتے اور کیسے مطمئن کرتے ہیں۔ استاد گرامی نے مگر ایک ہی پر تاثیر اور اکسیر جملہ ایسا کہا کہ ہمارے دبنگ صاحب فی الفور دو زانو ہو گئے۔ فرمایا "زیادہ تقریرکرنے کی ضرورت نہیں، میں اس کو بے ادبی سمجھتا ہوں۔" ان جملوں کا اصل لطف وہی لے سکتے ہیں، جنھوں نے شیخ کا مخمور سا اور دبنگ انداز سن رکھا ہے۔ رہے نام اللہ کا ، اب نہ شیخ رہے ، نہ ان کا علمی تشفی کر دیتا لہجہ رہا۔ اللہ مغفرت فرمائے۔ عجب آزاد مرد تھا۔ خدا رحمت کندایں عاشقان پاک طینت را۔
یوسف سراج