’اللہ عزوجل کا فرمان ہے کہ تمہیں حالت اسلام میں موت آنی چاہیے ، لیکن کسی کو کیا پتہ کہ اس کو موت کب آجائے ؟ کسی ڈاکٹر ، حکیم ، بادشاہ ، عالم دین ، بہت بڑے علامہ ، الغرض کائنات کی کسی شخصیت کو موت ، کب کہاں ، کس حال میں آنی ہے ؟ کوئی علم نہیں ، لہذا مسلمان ہو کر مرنا کیسے ممکن ہے ؟! امام کائنات حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کو اپنا لیا جائے ، شب و روز کے لیے مشعل راہ بنالیا جائے ، تو یقینا موت اسلام کی حالت میں ہی آئے گی ۔ ‘
یہ اس روحانی ڈاکٹر ، حکیم ، دلوں کے بادشاہ ، حدیث و تفسیر کے عالم دین اور علوم و فنون کے بہت بڑے علامہ کی
تقریر کے
ابتدائی کلمات ہیں ، جن میں وہ کچھ عرصہ قبل ’ فلا تموتن إلا و أنتم مسلمون ‘ کی دل نشین انداز میں تفسیر بیان کر رہے تھے ، آج وہ اس کی عملی صورت بن گئے ، ہمیشہ تو اس دنیا میں کسی نے بھی نہیں رہنا ، لیکن عالِم کی موت ، ایک عالَم کے لیے موت بن جاتی ہے ۔
مولانا عبد اللہ امجد بن عبد العزیز بن جمال الدین چھتوی نے زندگی کا وہ سفر جو 1935ء میں ریاست بیکانیر ، ضلع گنگا نگر کی ایک علم و صلاح سے معمور بستی سے شروع کیا تھا ، بیاسی تراسی سال بعد ضلع جڑانوالہ کے چک 36 میں 15 اگست 2017ء کو تہجد سے ذرا پہلے تمام ہوا۔ مولانا کو یہ خصوصیت حاصل رہی کہ ہندوستان میں ان کا پیدائشی گاؤں بھی علماء و دعاۃ کا مسکن تھا ، اور ہجرت کے بعد پاکستان میں بھی ان کا قریہ علماء و فضلاء کے لیے جائے قرار ٹھہرا ، آپ جس چک کی نسبت سے 36 وی کہلاتے تھے ، اس میں تقسیم کے بعد سے لیکر اب تک جلیل القدر علماء موجود ہیں ، البتہ ہمارے علم کی حد تک یہ نسبت صرف آپ کا ہی خاصہ ہے ، جب بھی مولانا چھتوی کہا جائے ، تو شیخ الحدیث مولانا عبد العزیز علوی ، صوفی عائش یا مولوی عتیق اللہ سلفی وغیرہ ہستیوں کی بجائے ، فورا ذہن آپ کی طرف ہی جاتا ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے سرزمین بخارا نے بہت سارے محدثین پیدا کیے ، بغداد سے علم وفضل کے سالار نکلے ، لیکن ’ امام بخاری ‘ اور ’ خطیب بغدادی ‘ کا نام نامی آج بھی بولا جائے ، تو محمد بن اسماعیل ، اور ’ احمد بن ثابت ‘ کے لیے علاوہ کوئی اور مراد نہیں ہوتا ۔
کسی زمانے میں ’ امیر المؤمنین فی الحدیث اور شیخ الاسلام ‘ جیسے القاب اہل علم کے لیے استعمال کیے جاتے تھے ، برصغیر پاک و ہند میں متبعین کتاب وسنت میں ’ شیخ الحدیث ‘ ایک اعلی مرتبہ ہے ، ہمارے ممدوح شیخ الحدیث تو تھے ہی ، کہ انہوں نے کم و بیش چار پانچ دہائیاں اس درجے کے مدرس کی حیثیت سے گزاریں ، لیکن جس طرح دیگر محدثین سے ممتاز کرنے کے لیے امام بخاری کو امیر امراء المؤمنین فی الحدیث کہا گیا ، شیخ چھتوی صاحب ’ شیخ شیوخ الحدیث ‘ کے لقب کے مکمل مستحق ٹھہرتے ہیں ، کیونکہ ملک کے طول و عرض میں ’ شیخ الحدیث ‘ کے اعلی درجے پر فائز بیسیوں علماء و محدثین آپ کے تلامذہ اور حلقہ درس کے مستفیدین میں سے ہیں ۔
فكأنه قمر الدجى ونجومه....من حوله من خيرة الخلاّن
وكأنه شمس المعارف كلها....وصقيلها يهوي على الطغيان
ويظلُّ يدعو للفضيلة والتقى....يرويا لعطاش مناهل القرآن
ويدارس الصحب الكرام مآثرا....للصالحين بسالف الأزمان
کچھ لوگوں پر لکھا جاتا ہے ، تاکہ لوگ ان سے متعارف ہوجائیں ، جبکہ کچھ ہستیوں کے متعلق قلمکاریاں اس لیے کرلی جاتی ہیں کہ وہ لکھنے والوں کے لیے تعارف ، اعزاز اور شرف کا ذریعہ بن جاتے ہیں ، مولانا چھتوی صاحب کی وفات پر بطور تعارف میرے جیسے کے لیے ایک لفظ بھی لکھنا ، اس بلند قامت ہستی کی توہین کے مترادف ہے ، لہذا میرے ان ٹوٹے پھوٹے حروف کو دوسرے قبیل سے لیا جائے ۔
و ما كنت أهلا للذي قد كتبته ... و إني لفي خوف من الله نادم
و لكني أرجو من الله عفوه .... و إني لأهل العلم لا شك خادم
حضرت چھتوی صاحب کو پہلی بار آج سے تقریبا دس سال قبل رائیونڈ کی مرکزی مسجد میں خطبہ جمعہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا تھا ، موضوع تھا فضائل صحابہ ، حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ اور اہل کوفہ کا تذکرہ کرتے ہوئے ، انہوں نےکچھ الفاظ ارشاد فرمائے ، جو آج بھی مجھے اچھی طرح یاد ہیں ۔
أهكذا الموتُ يخفي اليـوم مرآكا .... وخلْف أستاره يخفـي محيَّاكا!
لا، لا يزال رنين الصوت في أذني ..... يعيه قلبي ، فلا تقْطَـعْ به فاكا
بعد میں پھر کئی بار محترم سید حبیب الرحمن کاظمی صاحب ( جو آپ کے خصوصی شاگرد ہیں) کی معیت میں آپ سے ملاقات کرنے کا شرف حاصل ہوا ، جمعہ پنجابی زبان میں پڑھاتے تھے ، باتیں علمی و تحقیقی البتہ انداز عوام کو سمجھ میں آنے والا ہوتا تھا ، خطبہ کے بعد محراب سے متصل ہجرے میں تشریف فرما ہوتے ، لوگ آکر سوالات پوچھتے ، ساتھ ساتھ تلامذہ و عقیدتمند آپ کے پاؤں اور کندھے دباتے رہتے ، بعض علماء زہد و ورع کی بنا پر طالبعلموں کو بھی پاؤں دبانے کی اجازت نہیں دیتے ، لیکن شیخ چھتوی صاحب اس حوالے سے کسی نیازمند یا شاگرد کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچاتے تھے ۔ لہذا راقم الحروف کو بھی یہ سعادت حاصل ہوئی ۔ الحمدللہ ۔
ایک بار ایک شخص آپ سے سوال کرنے کے لیے آیا ، مسلکی اختلافات کے متعلق کافی حساس سوال تھا ، شیخ نے اس کو جواب دیا ، جب وہ چلا گیا ، تو شیخ کہنے لگے ، اس طرح کے لوگوں کو جواب دیتے ہوئے یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ یہ فتنہ و فساد کا باعث بھی بنتے ہیں ، بعض دفعہ کارندے مرضی کے جملے علما سے اڑا کر دعوت دین کے لیے رکاوٹیں پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
رائیونڈ کی اہل حدیث جماعت سے شیخ کا کیا تعلق تھا ، اور انہوں نے کس طرح آپ کو راضی کیا کہ آپ کم و بیش چالیس سال تک دور دراز کا سفر کرکے وہاں خطبہ جمعہ دینے کے لیے آتے رہے ؟ یہ سب باتیں تو واقفان حال ہی بتاسکتے ہیں ، البتہ مجھے رائیونڈ کے ایک ساتھی سلیمان زرگر صاحب نے بتایا کہ 1999ء میں دوران خطبہ شیخ کی طبیعت بہت خراب ہوگئی ، منبر پر ہی خون کی الٹیاں شروع ہوگئیں ، اس وقت سے آپ نے معذرت کرنے کی کوشش کی ، لیکن جماعت کے اصرار پر ، آپ مہینہ میں ایک جمعہ پڑھانے کے لیے آتے رہے ۔ امسال شوال کے دوسرے جمعے آپ نے آخری خطبہ رائیونڈ دیا ، اس کے بعد تشریف نہیں لاسکے ، عموما خطبہ 50 منٹ کا ہوتا تھا ، البتہ آخری خطبہ علالت کے سبب صرف پچیس منٹ تک فرماسکے ۔
شیخ سے ایک اور ملاقات مادر علمی جامعہ رحمانیہ کی تقریب بخاری کے موقعہ پر ہوئی تھی ، وہاں آپ نے آخری حدیث پر درس ارشاد فرمایا ، جبکہ شیخ ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ و متعنا بطول حیاتہ نے حجیت حدیث پر تقریر فرمائی ۔ چھتوی صاحب کی تقریر میں یہ بات نوٹ کرنے والے تھی کہ علما چاہے اپنے مسلک کے ہوں یا دوسرے مسلک کے ، نام بہت اہتمام سے لیتے تھے ، مثلا اس تقریر سے یہ جملہ ابھی بھی کانوں میں گونج رہا ہے ’ میرے اکابرین حنفیہ فرماتے ہیں ، میرے اکابرین حنفیہ لکھتے ہیں ‘ وغیرہ ۔
اس تقریب کی مختصر روئیداد ، راقم الحروف کے قلم سے مجلہ محدث لاہور(ستمبر 2013ء) میں چھپ چکی ہے ۔
مولانا
اسحاق بھٹی رحمہ اللہ نے ’
دبستان حدیث ‘ میں آپ کا تذکرہ کیا ہے ، جس میں آپ کے درس و تدریس کے مختلف ادوار کو قدرے تفصیل سے قلمبند کیا ہے ، گو آپ نے عمر عزیز کے آخری بیس پچیس سال جامعہ سلفیہ ستیانہ بنگلہ میں خدمت تدریس میں گزارے ، لیکن ابتدا میں بطور طالبعلم اور پھر بحیثیت مدرس آپ کی شخصیت کی تعمیر و ترقی میں مولانا معین الدین لکھوی رحمہ اللہ کے مدرسہ جامعہ محمدیہ اوکاڑہ کا بہت حصہ ہے ۔ اسی دورانیے میں تحریک ختم نبوت میں شمولیت ، مولانا معین الدین کی گرفتاری کے بعد ان کی نیابت میں لوگوں کو فتنہ مرزائیت کے خلاف اکٹھا کرنے میں جدو جہد کرنا آپ کی شخصیت کا ایک نمایاں پہلو ہے ۔
مولانا خوش خوراک ، عمدہ خصال ، بہترین مدرس ، شیریں بیاں خطیب تھے ، دعوتی و تبلیغی سرگرمیاں سر انجام دیتے تھے ، البتہ تدریسی فرائض سب سے مقدم ہوا کرتے تھے ، دعوتی و تبلیغی پروگراموں کے حوالے سے آپ کے ایفائے عہد اور تدریسی امور میں آپ کی لگن کے کئی ایک قصے تلامذہ و معتقدین میں مشہور ہیں ، جب وعدہ کرلیتے تھے ، تو ضرور حاضر ہوتے ، چاہے وہ کسی طالبعلم کی دور دراز علاقے میں مسجد ہی کیوں نہ ہو ، ہاں البتہ جہاں تدریس کا وقت متاثر ہونے کا خدشہ ہوتا ، وہاں معذرت کرلیتے ، چاہے وہ علماء و فضلا کی کوئی خصوصی میٹنگ ہی کیوں نہ ہو ۔
چھوٹوں سے شفقت اور پیار کی مثال میں یوں بیان کرنا چاھوں گا کہ میرے چھوٹے بھائی حافظ عمر مرکز الدعوۃ السلفیہ میں زیر تعلیم ہیں ، حضرت کا جب رائیونڈ جمعہ ہوتا تو کئی بار طالبعلموں کے ذریعے پیغام بھجوادیتے ، شاہ صاحب ( سید حبیب الرحمن کاظمی) کے عزیز سے پوچھ لیں ، اگر اس نے جانا ہے ، تو ہمارے ساتھ گاڑی میں آجائے ۔ اور چھوٹے بھائی کو یہ سعادت حاصل ہوئی بھی ، اللہ سے دعا ہے صالحین کی رفاقت اس کے لیے علم و عمل میں ترقی کی ضمانت بن جائے ۔
اعتراف علم و فضل کے سلسلے میں ، اقران و معاصرین ہوں یا آپ کے تلامذہ ، کسی قسم کا بخل نہیں کرتے تھے ، کہا جاتا ہے ، سائل نے انکار حدیث کے تعلق سے آپ سے رہنمائی چاہی ، فرمایا میرے بھائی مولانا عبد الرحمن مدنی اور میرے شاگرد مولانا ارشاد الحق اثری سے رابطہ کرلیں ۔ خود میں نے اسٹیج پر آپ کی زبان سے سنا ، کہ میرے اردگرد جو علماء بیٹھے ہیں ، وہ گرچہ عمر میں مجھ سے چھوٹے ہیں ، لیکن علم میں مجھ سے بڑے ہیں ۔ شاید مولانا کی انہیں خصوصیات اور اخلاق کا اثر تھا ، کہ علماء و شیوخ الحدیث آپ کے سامنے جھکے جایا کرتے تھے ، آپ کی وفات کی خبر سن کر زبانیں لڑ کھڑار ہی تھیں اور آنکھیں اشک برسا رہی تھیں ۔ سقی اللہ ثراہ و جعل الجنۃ مثواہ ۔
و ما كان قيس هلكه هلك واحد
و لكنه بنيان قوم تهدما
اس میں کوئی شک نہیں ، اس درجے کا عالم دین جب دنیا سے اٹھتا ہے ، تو اس کا خلا پرکرنا تو ممکن نہیں ہوتا ، البتہ صدیوں سے موجود اس دین حق کی تاریخ بتاتی ہے کہ اگر انبیاء کے وارثين علماء قرار پائے ہیں ، تو علماء کے مشن کو بھی ان کے سعادتمند تلامذہ و اور خوش بخت شاگرد اوج ثریا پر پہنچانے کا سبب بنتے رہے ہیں ۔
اللہ تعالی ہمیں ان پاکیزہ ہستیوں کے نقش قدم پر چلائے ، یہ اپنی ذمہ داری بطریق احسن نبھا گئے ، اللہ ہمارے کندھوں کو بھی یہ بارِ گراں اٹھانے کے قابل بنائے ۔ و ما ذلک علی اللہ بعزیز ۔