مولانا چھتوی کا آخری دن
شیخ المشایخ کے جنازہ میں شرکت کے لئے تقریبا 3 بجے سہ پہر مرکزالدعوة السلفيه ستیانہ بنگلہ پہنچ گیا نماز ظہر ادا کرنے کے بعد اپنے بھائی حافظ عبیداللہ ارشد کے ساتھ باھر برآمدے کے پاس کھڑا تھا علمآء سے مسجد بھری ھوئی تھی ابھی آنے والوں کا سلسلہ رکا نہ تھا علم کےبادشاہ کے جنازہ تھا آخر
وھیں کھڑے تھے کہ بلند آواز سے کوئی دھائی دے رھا ھے
کہ اللہ کے بندو وضو کر لو کسی کی نماز ضائع نہ ھو۔ نماز بڑا اھم مسئلہ ھے۔
کسی کی تکبیراولی نہیں رھنی چاھیئے۔ جلدی کرو جلدی کرو۔
وضو کر لو
دیکھا تو دبلے پتلے اور نورسے منور چہرے والے بزرگ شیخ عتیق اللہ سلفی صاحب تھے جو اس شدت غم میں بھی لوگوں کو نماز کی تلقین کر رھے تھے
لوگ تھے کہ شیخ کو گھیر لیا اور گلے ملنے لگے اور تعزیت کرنے لگے
میں ارادہ کر ھی رھا تھا کہ شیخ آگے نکل گئے کچھ دیر بعد اذان شروع ھوگئی
اذان کے ختم ھوتے ھی دوبارہ وھی آوازیں آنا شروع ھوگئیں
کہ نماز کی تیاری کرو
وضو کر لو وقت ضائع نہ کرو
کوئی پیچھے نہ رھے تو اس وقت میں آگے بڑھا اور شیخ سے معانقہ کیا اور تعزیت کی اور بھی کافی علماء بھی جمع ھو گئے
شیخ عتیق اللہ صاحب فرمانے لگے کہ کل بخاری کے سبق سے فارغ ھوئے تو طلبہ کو واپس بلا لیا اور کہا میرا دل چاھتا ھے کہ بخاری دوبارہ پڑھاوں تو پھر بخاری کا درس شروع کردیا اور شیخ سلفی صاحب رونے لگ گئے
اور مزید فرمانے لگے کہ کل جامعہ میں میٹنگ میں شیخ چھتوی صاحب فرمانے لگے کہ فلاں جامعہ میں ترجمہ کلاس کاآغاز کرنا ھے تو کون یہ ذمہ داری لے گا ؟
تو علمآء کرام کہنے لگے کہ جواس طرف رھائش رکھتے ھیں ان میں سے کسی کو ذمہ داری لینی چاھئیے اسی بحث و تکرار میں کوئی بھی فائنل نہ ھوا تو شیخ چھتوی صاحب فرمانے لگے چلو فیر میں آج افتتاحی درس خود ھی دے آونگا
اللہ اکبر
تو مغرب کے بعد تقریبا ڈیڑھ گھنٹہ افتتاحی درس بھی دیا اور عشاء کی نماز باجماعت ادا کی اور رات دس بجے کندھے پہ کچھ درد ھوا کچھ دیر بعد ٹھیک ھو گئے
رات تقریبا 2 بجے دوبارہ درد ھوا فورا گاڑی میں فیصل آباد کی طرف روانہ ھوئے وھاں ھسپتال پہنچے تو پتا چلا کہ شیخ محترم تو اپنے رب کے حضور پہنچ چکے ھیں۔
یہ بات سنا کر شیخ سلفی صاحب کی آنکھیں برسنے لگ گئیں۔
میں سوچ رھا تھا کہ کتنی خوش نصیبی اور سعدت کی بات ھے کہ سارا دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث پڑھائیں اور رات کو اللہ کے قرآن کی تفسیر بیان کی
اس کے بعد اللہ کے حضور پہنچ گئے
تصور ھے کہ رب نے پوچھا ھوگا
کہ عبداللہ کیا لے کر آئے ھو تو جواب دیا ھوگا
جی اللہ کریم بس تیرا قرآن اور تیرے نبی کا فرمان لے کے آیا ھوں
تو رب نے کہا ھوگا
کہ تیرے لئے میری جنت کے سارے دروازے کھلے ھیں جہاں سے مرضی داخل ھو جاو
تم نے میرے قرآن اور میرے نبی کی حدیث کی خدمت کی ھے تو
میں تجھ سے راضی ھوگیا ھوں
ان شآءاللہ
پھر جنازہ کے موقع پہ جب شیخ عتیق اللہ صاحب مائک پہ آئے تو روتے ھوئے فرمانے لگے کہ میری شیخ کے ساتھ 22 سالہ رفاقت رھی ھے جامعہ میں
مگر شیخ نے ایک چھٹی نہیں کی
کبھی ایک منٹ لیٹ نہیں
طلباء کا وقت کبھی ضائع نہیں کیا
اور ساتھ ھی پھر وھی تلقین کرنا شروع کردی کہ لوگوں نماز کی حفاظت کیا کرو نماز کبھی نہ چھوڑنا
شیخ چھتوی صاحب نے کبھی نماز ضائع نہیں کی تھی
نبی کریم نے بھی اپنے آخری وقت فرمایا تھا
کہ لوگو نماز کا خیال رکھنا
نماز ضائع نہ کرنا
نماز کی حفاظت کرنا
اس کے ساتھ ھی تکبیر کہی اور جنازہ شروع کردیا
اللہ اکبر
اور جنازہ ایسے رقت امیز انداز میں پڑھا جیسے پنجابی میں کہتے ھیں کہ کھیڑے پئے گے
کہ اللہ اپنے بندے کو معاف کر دے
اپنے بندے سے راضی ھوجا
اپنے بندے کو جنت عطا کردے
یقینا اللہ نے ان دعاوں کو شرف قبولیت سے نوازا ھوگا
اور ھمارے مربی ومحسن شیخ چھتوی صاحب اللہ کی جنت میں تشریف لے گئے ھونگے
ان شآءاللہ
حافظ ارشد محمود ، مدیر مجموعہ علماء اہل حدیث