• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پردہ کے بارے میں

شمولیت
اپریل 16، 2015
پیغامات
57
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
57
السلام علیکم ورحمۃ اللہ!!!
عورت کا پردہ کیسا ہونا چاہیئے؟
بارے مھربانی اس قرآن و حدیث سے واضح کریں!
اور چھرے کے پردہ کے بارے میں جو ابوداؤد کی روایت ہے شاید 4750 ہے، اس کی تحقیق بھی برائے مھربانی لکھ دیں!

شیخ @اسحاق سلفی
شیخ @ابن داود
شیخ @خضر حیات

جزاک اللہ خیر!!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
عورت کا پردہ کیسا ہونا چاہیئے؟
سب سے پہلے تو محدث میگزین کا ایک مفید ،تفصیلی مضمون پیش خدمت ہے

قرآنِ مجید میں پردے کے احکام

عورت کے پردے کے بارے میں اکثر لوگ یہ خلط ِ مبحث کرتے ہیں کہ وہ ستر اور حجاب میں فرق نہیں کرتے، جب کہ شریعت ِاسلامیہ میں ان دونوں کے الگ الگ احکام ہیں ۔ عورت کا ستر یہ ہے کہ وہ اپنے چہرے اور دونوں ہتھیلیوں کے سوا اپنا پورا جسم چھپائے گی جس کا کوئی حصہ بھی وہ اپنے شوہر کے سوا کسی اور کے سامنے کھول نہیں سکتی۔ ستر کا یہ پردہ ان افراد سے ہے جن کو شریعت نے مَحرمقرار دیا ہے اور ان محرم افرادکی پوری تفصیل قرآنِ مجید کی سورۂ نور کی آیت: ۳۱ میں موجود ہے اوران میں عورت کا باپ، اس کا بیٹا، اس کا بھائی، اس کا بھانجا اور اس کابھتیجا وغیرہ شامل ہیں ۔ ان محرم افراد سے عورت کے چہرے اور اس کے ہاتھوں کا پردہ نہیں ہے، البتہ ان کے سامنے عورت اپنے سر اور سینے کواوڑھنی یا دوپٹہ وغیرہ سے ڈھانپے گی۔ ستر(i) کے یہ احکام سورۂ نور میں اسی طرح بیان ہوئے ہیں :
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَـٰتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَـٰرِ‌هِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُ‌وجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ‌ مِنْهَا ۖ وَلْيَضْرِ‌بْنَ بِخُمُرِ‌هِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ ۖ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا لِبُعُولَتِهِنَّ أَوْ ءَابَآئِهِنَّ أَوْ ءَابَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ أَبْنَآئِهِنَّ أَوْ أَبْنَآءِ بُعُولَتِهِنَّ أَوْ إِخْوَ‌ٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ إِخْوَ‌ٰنِهِنَّ أَوْ بَنِىٓ أَخَوَ‌ٰتِهِنَّ أَوْ نِسَآئِهِنَّ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَـٰنُهُنَّ أَوِ ٱلتَّـٰبِعِينَ غَيْرِ‌ أُولِى ٱلْإِرْ‌بَةِ مِنَ ٱلرِّ‌جَالِ أَوِ ٱلطِّفْلِ ٱلَّذِينَ لَمْ يَظْهَرُ‌وا عَلَىٰ عَوْرَ‌ٰ‌تِ ٱلنِّسَآءِ ۖ وَلَا يَضْرِ‌بْنَ بِأَرْ‌جُلِهِنَّ لِيُعْلَمَ مَا يُخْفِينَ مِن زِينَتِهِنَّ ۚ وَتُوبُوٓاإِلَى ٱللَّهِ جَمِيعًا أَيُّهَ ٱلْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٣١﴾...سورۃ النور
''اے نبیؐ! آپ مؤمن عورتوں سے کہیں کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں ، اپنے ستر کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر جو اس میں سے خود بخود ظاہر ہوجائے او راپنے دوپٹے اپنے سینوں پر ڈالے رہیں ۔ اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں مگر اپنے شوہروں کے سامنے، یا اپنے باپ کے، یا اپنے سسر کے، یا اپنے بیٹوں کے، یا اپنے شوہر کے بیٹوں کے، یا اپنے بھائیوں کے، یااپنے بھائیوں کے بیٹوں کے، یا اپنی بہنوں کے بیٹوں کے، یا اپنی عورتوں کے، یا اپنے لونڈی غلام کے، یا زیردست مردوں کے جو کچھ غرض نہیں رکھتے، یا ایسے لڑکوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے ابھی ناواقف ہوں ۔ اس کے علاوہ وہ اپنے پاؤں زور سے نہ ماریں کہ ان کی مخفی زینت معلوم ہوجائے اور اے ایمان والو! تم سب مل کر اللہ کی طرف رجوع کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔''

گھر میں محرم مردوں کے سامنے عورت کے لئے پردے کی یہی صورت ہے۔ مگر عورت کا حجاب اس کے ستر سے بالکل مختلف ہے اوریہ وہ پردہ ہے، جب عورت گھر سے باہر کسی ضرورت کے لئے نکلتی ہے یا گھر کے اندر غیر محرم مردوں سے سامنا ہوتا ہے(ii)۔ اس صورت میں شریعت کے وہ احکام ہیں جو اجنبی مردوں سے عورت کے پردے سے متعلق ہیں ۔ حجاب کے یہ احکام قرآنِ مجید کی سورۂ احزاب کی دو آیات (59 اور54) میں بیان ہوئے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ گھر سے باہر نکلتے وقت عورت جِلباب یعنی بڑی چادراوڑھے گی تاکہ اس کا پورا جسم ڈھک جائے، ایسے ہی چہرے پر بھی چادرکا ایک پلو ڈالے گی۔ اب وہ صرف اپنی آنکھ کھلی رکھ سکتی ہے، باقی پورا جسم چھپائے گی۔ یہ چہرے پر نقاب کا حکم ہے، اجنبی مردوں سے عورت کا یہ پردہ ہے جسے 'حجاب' کہا جاتا ہے۔ اُردو زبان میں اسے 'گھونگھٹ نکالنا' بھی کہتے ہیں ۔ اس کے بارے میں ارشاد خداوندی ہے کہ
يَـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَ‌ٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّ ۚ ذَ‌ٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَ‌فْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ...﴿٥٩﴾...سورۃ الاحزاب
''اے نبیؐ! اپنی بیویوں ، بیٹیوں اور مسلمان عورتوں سے کہہ دو کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں ۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور اُنہیں کوئی نہ ستائے۔ اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔''

سب سے پہلے اس آیت کے اصل الفاظ پر غورکیجئے۔ اس میں ( یُدنین )کا لفظ آیا، جس کا مصدر اِدنائ ہے اور عربی زبان میں اس کے معنی 'قریب کرنے' اور 'لپیٹ لینے' کے ہیں مگر جب ا س کے ساتھ عَلی کا صلہ آجائے تو پھر اس میں اِرخاء کا مفہوم پیدا ہوجاتا ہے کہ 'اوپر سے لٹکا لینا'۔ دوسرا اہم لفظ جَلَابِیْبِھِنَّ ہے۔جَلابیب جمع ہے جلبابکی جس کے معنی رِدَاءیعنی 'بڑی چادر ' کے ہیں اور ا س کے ساتھ مِنْکا حرف آیا ہے جو یہاں تبعیض ہی کے لئے ہوسکتا ہے، یعنی چادر کا ایک حصہ۔ مطلب یہ ہے کہ عورتیں جب کسی ضرورت کے لئے گھر سے باہرنکلیں تو اپنی بڑی چادریں اچھی طرح اوڑھ لپیٹ لیں اور ان کا ایک حصہ یا ان کا پلو اپنے اوپر لٹکا لیاکریں ۔ اُردو زبان میں اسے گھونگھٹ نکالنا کہا جاتاہے۔ اِدْنَاءعَلی کے الفاظ کااستعمال عربی زبان میں اسی مفہوم کے لئے ہے۔ جب کسی عورت کے چہرے پر سے کپڑا سرک جائے تو اسے دوبارہ چہرے پر لٹکا لینے کے لئے عربی زبان میں یوں کہا جائے گا:
اَدْنِيْ ثَوْبَکِ عَلیٰ وَجْھِکِ

''اپنا کپڑا اپنے چہرے پر لٹکا لو۔''

اور جب ہم یہ کہتے ہیں کہ عورت کے لئے چہرے کے پردے اور کپڑا لٹکانے کا یہ حکم اجنبی مردوں سے متعلق ہے تو یہ مفہوم لینے کا واضح قرینہ اسی آیت کے ان الفاظ میں موجود ہے کہ

ذَ‌ٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَ‌فْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ...﴿٥٩﴾...سورۃ الاحزاب

یعنی جب عورتیں اپنے چہرے کا پردہ کریں اور چادر اوڑھیں گی تو اجنبی لوگوں کو معلوم ہوجائے گا کہ یہ شریف زادیاں ہیں ۔ اس طرح کسی بدباطن کو یہ جرأت نہ ہوگی کہ وہ ان کو چھیڑے یا ستائے۔ ظاہر ہے کہ اس طرح پہچاننے کی اور چھیڑنے ستانے کی صورت گھر سے باہر کے ماحول ہی میں پیش آسکتی ہے۔

دوسرے یہ کہ بڑی چادر لینے کی ضرورت بھی عموماًگھر سے باہر ہوسکتی ہے، کیونکہ گھر میں اجنبی مردوں کی آمد شاذ ونادر ہی ہوتی ہے۔ گھر میں چونکہ اکثر محرم مردوں سے ہی سامنا ہوتا ہے، لہٰذا اس کے لیے عورت کے پردے کے بارے میں الگ سے حکم موجود ہے جو سورۂ نور کی آیت 31 میں اس طرح آیا ہے:{وَلْيَضْرِ‌بْنَ بِخُمُرِ‌هِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ} ''اور عورتوں کو چاہئے کہ وہ اپنی اوڑھنیاں اپنے سینوں پر ڈال لیا کریں ۔ '' گویا گھر کے اندر عورت کو چادر پہننے کی ضرورت نہیں ، صرف اوڑھنی کافی ہوسکتی ہے،کیونکہ گھر میں اجنبی مردوں سے بہت کم سامنا ہوتا ہے اورجب وہ گھر سے باہر نکلے گی تو بڑی چادر اوڑھے گی جس کا ایک حصہ اپنے چہرے پر بھی ڈال لے گی۔(iii)

اُمت ِمسلمہ کے تمام جلیل ُالقدر مفسرین نے سورۂ احزاب کی اس آیت کا یہی مفہوم بیان کیا ہے :
1 حضرت عبداللہ بن عباس ؓ نے اس کی جو تفسیر بیان فرمائی ہے، اسے حافظ ابن کثیر رحمة اللہ علیہ نے اپنی تفسیر میں اس طرح نقل کیا ہے کہ
أمراﷲ نساء المؤمنین إذا خرجن من بیوتھن في حاجة أن یغطین وجوھھن من فوق رؤسھن بالجلابیب ویبدین عینا واحدة
''اللہ نے مسلمان عورتوں کو حکم دیا ہے کہ جب وہ کسی کام کے لئے گھروں سے نکلیں تو اپنی چادروں کے پلو اوپر سے ڈال کر اپنا منہ چھپالیں اور صرف ایک آنکھ کھلی رکھیں ۔''
2 ابن جریر رحمة اللہ علیہ اور ابن منذر رحمة اللہ علیہ کی روایت ہے کہ محمد بن سیرین رحمة اللہ علیہ نے حضرت عبیدہ سلمانی سے اس آیت کا مطلب پوچھا۔( یہ حضرت عبیدہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں مسلمان ہوچکے تھے مگر حاضر خدمت نہ ہوسکے تھے۔ حضرت عمرؓ کے زمانے میں مدینہ آئے اور وہیں کے ہوکر رہ گئے۔ اُنہیں فقہ اور قضا میں قاضی شریح ؓکے ہم پلہ مانا جاتا تھا۔)اُنہوں نے جواب میں کچھ کہنے کی بجائے اپنی چادر اٹھائی اور اسے اس طرح اوڑھاکہ پورا سر او رپیشانی اور پورا منہ ڈھانک کر صرف ایک آنکھ کھلی رکھی۔
3 امام ابن جریر طبری رحمة اللہ علیہ نے اپنی تفسیر جامع البیان (ج22؍33) پر اسی آیت کے تحت لکھا ہے کہ
''شریف عورتیں اپنے لباس میں لونڈیوں سے مشابہ بن کر گھر سے نہ نکلیں کہ ان کے چہرے اور سر کے بال کھلے ہوئے ہوں ، بلکہ اُنہیں چاہئے کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں تاکہ کوئی فاسق ان کو چھیڑنے کی جرأت نہ کرے۔''
4 امام فخر الدین رازی رحمة اللہ علیہ اپنی تفسیر کبیر میں اسی آیت کے ضمن میں لکھتے ہیں کہ
فأمر اﷲ الحرائر بالتجلبب۔ ۔ ۔المراد یعرفن أنھن لا یزنین لأن من تستر وجھھا مع أنه لیس بعورة لا یطمع فیھا أنھا تکشف عورتھا فیعرفن أنھن مستورات لایمکن طلب الزنا منهن
''اللہ تعالیٰ نے آزاد عورتوں کو چادر اوڑھنے کا حکم دیا ہے۔ اس سے مقصود یہ ہے کہ لوگوں کو معلوم ہوجائے کہ یہ بدکار عورتیں نہیں ہیں ۔ کیونکہ جو عورت اپنا چہرہ چھپائے گی، حالانکہ چہرہ ستر میں داخل نہیں ہے، اس سے کوئی شخص یہ توقع نہیں کرسکتا کہ وہ اپنا ستر غیر کے سامنے کھولنے پرراضی ہوگی۔ اس طرح ہر شخص جان لے گا کہ یہ باپردہ عورتیں ہیں ، ان سے زنا کی اُمیدنہیں کی جاسکتی۔''
5 مشہور مفسر زمخشری، اسی آیت کی تفسیر میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
یرخینھا علیھن ویغطین بھا وجوھھن وأعطافھن 1
''وہ اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں اور اس سے اپنے چہرے اور اپنے اطراف کو اچھی طرح ڈھانک لیں ۔''
6 علامہ نظام الدین نیشاپوری رحمة اللہ علیہ اپنی تفسیر 'غرائب القرآن' میں اسی آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
''عورتیں اپنے اوپر چادر کا ایک حصہ لٹکا لیا کریں ، اس طرح عورتوں کو سر اور چہرہ ڈھانکنے کا حکم دیا گیا ہے۔'' 2
7 مشہور حنفی مفسر ابوبکر جصاص رحمة اللہ علیہ اپنی تفسیر میں اسی آیت کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ
في ھذہ الآیة دلالة أن المرأة مأمورة بستر وجھھا عن الأجنبیین وإظهار الستروالعفاف عند الخروج لئلا یطمع أھل الریب فیھن
''یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کو اجنبیوں سے اپنا چہرہ چھپانے کا حکم ہے اور اسے گھر سے نکلتے وقت ستر اور عفت کا اظہار کرنا چاہئے تاکہ مشتبہ سیرت و کردار کے لوگ اسے دیکھ کر کسی طمع میں مبتلا نہ ہوں ۔''3
8 علامہ عبداللہ بن احمد بن محمود نسفی رحمة اللہ علیہ اپنی تفسیر 'تفسیر نسفی' میں اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ
ومعنی {يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّ ۚ} یرخینھن علیھن ویغطین بھا وجوھھن وأعطافھن 4
''اور آیت کے الفاظ( يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّ ۚ )کا مطلب یہ ہے کہ عورتیں اپنے اوپر اپنی چادروں کا ایک حصہ لٹکا لیاکریں اور اس طرح اپنے چہروں اور اپنے اطراف کو اچھی طرح ڈھانک لیں ۔''
9 مفتی محمد شفیع مرحوم اپنی تفسیر 'معارف القرآن' میں اسی آیت کے تحت لکھتے ہیں کہ
''اس آیت نے بصراحت چہرہ کے چھپانے کا حکم دیا ہے۔ جس سے اس مضمون کی مکمل تائید ہوگئی جو اوپر حجاب کی پہلی آیت کے ذیل میں مفصل بیان ہوچکا ہے کہ چہرہ او رہتھیلیاں اگرچہ فی نفسہٖ ستر میں داخل نںی ، مگر بوجہ خوف فتنہ کے ان کا چھپانا بھی ضروری ہے، صرف مجبوری کی صورتیں مستثنیٰ ہیں ۔''5
10 مودودی مرحوم نے اس آیت کے تحت اپنی تفسیر میں لکھا ہے کہ
''اللہ تعالیٰ صرف چادر لپیٹ کر زینت چھپانے ہی کا حکم نہیں دے رہا ہے بلکہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ عورتیں چادر کا ایک حصہ اپنے اوپر سے لٹکا لیا کریں ۔ کوئی معقول آدمی اس ارشاد کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں لے سکتا کہ اس سے مقصود گھونگھٹ ڈالنا ہے تاکہ جسم و لباس کی زینت چھپنے کے ساتھ ساتھ چہرہ بھی چھپ جائے۔'' 6
11 امین احسن اصلاحی (جاوید غامدی صاحب کے 'استاد امام') اپنی تفسیر 'تدبر قرآن' میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
''قرآن نے اس جلباب سے متعلق یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اس کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ چہرہ بھی فی الجملہ ڈھک جائے اور اُنہیں چلنے پھرنے میں بھی زحمت نہ آئے۔ یہی جلباب ہے جو آج بھی دیہات میں شریف بوڑھی عورتیں لیتی ہیں جس نے بڑھ کر برقع کی شکل اختیار کرلی ہے۔'' 7

حضرات مفسرین نے سورۂ احزاب کی اسی زیر بحث آیت 59میں چہرے کے پردے کا حکم سمجھا ہے اور چہرے کا یہ پردہ خود قرآن مجید سے ثابت ہے۔ ظاہر ہے کہ اسلام کے پیش نظر زنا اور زنا کے مقدمات و محرکات کی پیش بندی اور روک تھام ہے۔ ورنہ حقیقت ہر شخص پر عیاں ہے کہ ایک جوان عورت کا چہرہ ہی سب سے زیادہ جاذبِ نگاہ اور صنفی محرک ہوتا ہے، بالخصوصی جب اسے غازہ و رنگ سے بھی خوب مزین کردیا جائے۔ فقط چہرہ دیکھ لینے ہی سے عورت کے حسن و جمال کا اندازہ کرلیا جاتا ہے اور بغیر چہرہ دیکھے اس کے حسن و جمال کا تصور ممکن نہیں ہوتا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ جو اسلام محرکاتِ زنا کو ایک ایک کرکے ان کی مخالفت کرتاہے۔ جو نامحرم عورت کو دیکھنے پر پابندی لگاتا ہے اور غض بصر کا حکم دیتا ہے۔ جو مرد اور عورت کو تنہائی میں یکجا ہونے سے روکتا ہے۔ جو عورت کو کسی غیر مرد سے بات کرتے وقت لگاوٹ کا لہجہ اختیا رکرنے سے منع کرتا ہے۔ جو اس کی آواز کا پردہ چاہتا ہے کہ عورت نماز میں امام کو اس کی غلطی پر ٹوکنے کے لئے 'سبحان اللہ' تک نہ کہے۔ عورت اپنی کوئی زینت بھی غیر مرد کو نہ دکھائے۔ وہ اسلام یہ کیسے چاہے گا کہ چھوٹے چھوٹے دروازوں پر تو کنڈیاں چڑھائی جائیں اور سب سے بڑے دروازے کو چوپٹ کھلا چھوڑ دیا جائے، اور نسوانی حسن و جمال کے مرکز چہرے کو چھپانے کا کوئی حکم نہ دیا جائے۔

البتہ ہنگامی اور جنگی صورتِ حال میں یا حج اور عمرہ کے مناسک اداکرتے وقت، علاج معالجے کی صورت میں اور زیادہ بوڑھی عورت کے لئے چہرے کے پردے میں رخصت دی گئی ہے، مگر اصل حکم جو عام ہے او رسب کے لئے ہے، وہ یہی ہے کہ اسلام میں عورت کے چہرے کا پردہ ضروری ہے۔ شریعت ِاسلامیہ نے اسی کا حکم دیا ہے۔

پردے کے بارے میں غامدی صاحب کا موقف اور اس پر ہمارا تبصرہ
عورت کے پردے کے بارے میں جناب جاوید غامدی صاحب کا موقف 'ارتقا پذیری' کا شکار رہتا ہے اور وقت کے ساتھ ساتھ حالات کے مطابق بدلتا رہتا ہے۔

اس کی مثالیں درج ذیل ہیں :
1 دوپٹے سے متعلق ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
''اصل میں ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کو اس بات کا احساس دلایا جائے کہ ان کی تہذیب و ثقافت کیا ہے اور اُنہیں کن حدود کا پابند رہ کر زندگی بسر کرنی چاہئے۔ دوپٹا ہمارے ہاں مسلمانوں کی تہذیبی روایت ہے، اس بارے میں کوئی شرعی حکم نہیں ہے۔ دوپٹے کو اس لحاظ سے پیش کرنا کہ یہ شرعی حکم ہے، اس کا کوئی جواز نہیں ۔ البتہ اسے ایک تہذیبی شعار کے طور پر ضرور پیش کرنا چاہئے۔ اصل چیز سینہ ڈھانپنا اور زیب و زینت کی نمائش نہ کرنا ہے۔ یہ مقصد کسی اور ذریعے سے حاصل ہوجائے تو کافی ہے، اس کے لئے دوپٹہ ہی ضروری نہیں ہے۔'' 8

اس سے معلوم ہوا کہ غامدی صاحب کے نزدیک مسلمان عورت کے لئے دوپٹہ یا اوڑھنی کا استعمال کوئی شرعی حکم نہیں ہے، بس ایک تہذیبی شعار اور رسم و رواج ہے،جبکہ دوسری طرف قرآن مجید کی نص قطعی اور واضح حکم ہے کہ
وَلْيَضْرِ‌بْنَ بِخُمُرِ‌هِنَّ عَلَىٰ جُيُوبِهِنَّ...﴿٣١﴾...سورۃ النور
'' اورچاہئے کہ عورتیں اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیاں (دوپٹے) ڈالے رہیں ۔''
غالبا ًغامدی صاحب کے ہاں قرآن سے کوئی شرعی حکم ثابت نہیں ہوتا ہوگا۔

2 مارچ ۲۰۰۷ء میں 'جیو' ٹی وی کے پروگرام 'غامدی نامہ' میں اسلام اور پردہ کے موضوع پرایک مذاکرہ ہوا۔ اس مذاکرے کے شرکا میں غامدی صاحب اور تین خواتین: سمیعہ راحیل قاضی، مونا اسلم اور ایک دانشور غزالہ نثار شامل تھیں ۔ اس مذاکرے میں غامدی صاحب نے پردے کے بارے میں یہ موقف اختیا رکیا تھا کہ
ـٰٓأَيُّهَا ٱلنَّبِىُّ قُل لِّأَزْوَ‌ٰجِكَ وَبَنَاتِكَ وَنِسَآءِ ٱلْمُؤْمِنِينَ يُدْنِينَ عَلَيْهِنَّ مِن جَلَـٰبِيبِهِنَّ ۚ ذَ‌ٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَ‌فْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ...﴿٥٩﴾...سورۃ الاحزاب
''اے نبیؐ! اپنی بیویوں ، اپنی بیٹیوں او رمسلمان عورتوں سے کہہ دیں کہ اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکا لیا کریں ۔ یہ زیادہ مناسب طریقہ ہے تاکہ وہ پہچان لی جائیں اور اُنہیں کوئی نہ ستائے اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔''

اس فرمان الٰہی میں موجود شرعی حکم ایک عارضی او رہنگامی حکم تھا اور منافقین اور یہود کی طرف سے مسلم خواتین کو چھیڑ چھاڑ اور ایذا رسانی سے بچانے کی ایک وقتی تدبیر تھی۔ اس آیت کا عورت کے پردے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور آج یہ حکم باقی نہیں ہے۔9

یاد رہے کہ غامدی صاحب اس سے پہلے مرتد کے لئے قتل کی سزا، کافر اور مسلمان کی وراثت اور کفار سے جہاد وغیرہ کو بھی وقتی او رہنگامی احکام قرار دے چکے ہیں اور آج کے دور میں مرتد کے لئے قتل کی سزا اور آج کفار سے جہاد کرنے کے شرعی احکام کو تسلیم نہیں کرتے۔ اس طرح شریعت کے بیشتر احکام غامدی صاحب کی اس ایک ہی 'لاٹھی' اور'فارمولے' کی زد میں آکر ختم ہوجاتے ہیں ۔ اللہ اللہ خیر سلا!!

لیکن ہم اُن کو اُن کے 'استاد امام' مولانا امین احسن اصلاحی کا اس بارے میں موقف پیش کئے دیتے ہیں ۔ وہ سورہ احزاب کی آیت 59 کی تفسیر کرتے ہوئے آخر میں لکھتے ہیں :
''اس ٹکڑے {ذَ‌ٰلِكَ أَدْنَىٰٓ أَن يُعْرَ‌فْنَ فَلَا يُؤْذَيْنَ ۗ} سے کسی کو یہ غلط فہمی نہ ہو کہ یہ ایک وقتی تدبیر تھی جو اَشرار کے شر سے مسلمان خواتین کومحفوظ رکھنے کے لئے اختیار کی گئی اور اب اس کی ضرورت باقی نہیں رہی۔ اوّل تو احکام جتنے بھی نازل ہوئے ہیں ، سب محرکات کے تحت ہی نازل ہوئے ہیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ محرکات نہ ہوں تو وہ احکام کالعدم ہوجائیں ۔ دوسرے یہ کہ جن حالات میں یہ حکم دیا گیا تھا، کیا کوئی ذی ہوش یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس زمانے میں حالات کل کی نسبت ہزار درجہ زیادہ خراب ہیں ،البتہ حیا اور عفت کے وہ تصورات معدوم ہوگئے جن کی تعلیم قرآن نے دی تھی۔''10

نیز اسی آیت (الاحزاب :59) کی تفسیر میں وہ مزید لکھتے ہیں کہ
''قرآن نے اس جلباب (چادر) سے متعلق یہ ہدایت فرمائی کہ مسلمان خواتین گھروں سے باہر نکلیں تو اس کا کچھ حصہ اپنے اوپر لٹکا لیا کریں تاکہ چہرہ بھی فی الجملہ ڈھک جائے اور انہیں چلنے پھرنے میں بھی زحمت پیش نہ آئے۔ یہی 'جلباب' ہے جو ہمارے دیہاتوں کی شریف بڑی بوڑھیوں میں اب بھی رائج ہے اور اسی نے فیشن کی ترقی سے اب برقعہ کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس برقعہ کو اس زمانہ کے دل دادگان اگر تہذیب کے خلاف قرار دیتے ہیں تو دیں لیکن قرآنِ مجید میں اس کا حکم نہایت واضح الفاظ میں موجود ہے، جس کا انکار صرف وہی برخود لوگ کرسکتے ہیں جو خدا اوررسولؐ سے زیادہ مہذب ہونے کے مدعی ہوں ۔'' 11

غامدی صاحب کے نزدیک اُمت ِمسلمہ کے تمام علماے کرام تو 'خاک' کے مرتبہ میں ہیں اور پوری اُمت میں سے صرف ان کے ممدوح دو 'علما' ہیں جن کو وہ 'آسمان' کا درجہ دیتے ہیں ۔ چنانچہ غامدی صاحب اپنی کتاب'مقامات' میں لکھتے ہیں کہ
''میں نے بھی بہت عالم دیکھے ، بہتوں کوپڑھا اور بہتوں کو سُنا ہے، لیکن امین احسن اور ان کے اُستاد حمیدالدین فراہی کا معاملہ وہی ہے کہ12


غالب نکتہ داں سے کیا نسبت
خاک کو آسماں سے کیا نسبت''


لیکن عورت کے چہرے کے پردے کے بارے میں جاوید احمد غامدی صاحب کا موقف نہ صرف قرآنِ مجید اور اجماعِ اُمت کے خلاف ہے، بلکہ اُن کے اپنے 'استاد امام' کے موقف کے بھی خلاف ہے۔

حوالہ جات
1. الکشاف:ج2؍ص221
2. ج 22؍ ص 32
3. احکام القرآن :ج3؍ ص485
4. تفسیر نسفی: ج3؍ ص313
5. معارف القرآن: ج4؍ ص234
6. تفہیم القرآن : ج4؍ ص131
7. تدبر قرآن:ج6؍ص269
8. ماہنامہ اشراق :مئی 2002ء ،ص47
9. اس مذاکرے کی سی ڈی 'اسلام میں پردہ' کے عنوان سے موجود ہے
10. تدبرقرآن: جلد6؍ ص270
11. تدبرقرآن: جلد6؍ ص269
12. 'مقامات' ص57،58، مطبوعہ دسمبر 2001ء، لاہور

i. اسے ستر کی بجائے زینت کے احکام سے تعبیر کرنا زیادہ مناسب ہے کیونکہ اس آیت میں "زینت کو چھپانے کے احکام" ہی بیان ہوئے ہیں ۔ اور یہ امر ظاہر ہے کہ زینت کا لفظ "ستر" سے وسیع تر ہے مثلاً پاؤں مار کرچلنا، دیدہ زیب لباس یا زیورات کو چھپانا وغیرہ زینت کو چھپانا تو ہے لیکن ستر کو چھپانا نہیں ۔

ii. جیسا کہ قرآن کریم میں اسے بھی "حجاب" قرار دیا گیا ہے : (وَإِذَا سَأَلْتُمُوهُنَّ مَتَاعًا فَاسْأَلُوهُنَّ مِن وَرَ‌اءِ حِجَابٍ...﴿٥٣﴾...سورۃ الاحزاب) ""جب تم ان سے کسی شے کا سوال کرو تو حجاب کے پیچھے سے کیا کرو۔""
iii. پردہ کے سلسلہ میں تیسری اہم آیت سورة الاحزاب کی آیت ِحجاب (نمبر53)بھی ہے جس میں یہ مسئلہ بیان ہوا کہ اگر کوئی غیر محرم شخص خواتین خانہ سے کسی چیز کا سوال کرے تو اسے حجاب کے پیچھے سے یہ تقاضا کرنا چاہئے۔اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جہاں سورة الاحزاب کی آیت 59 کی رو سے خواتین کو گھروں سے باہر جلباب... یعنی ایسی بڑی چادر جو سر سے اُنہیں ڈھانپ لے اور اس میں ان کا چہرہ بھی چھپ جائے... اوڑھنے کا حکم ہے وہاں سورة الاحزاب کی آیت 53 کی رو سے گھروں کے اندر بھی غیرمحرم مردوں سے اُنہیں حجاب کا اہتمام کرنا چاہئے۔ یہ احکام توغیرمحرم مردوں کیلئے ہیں ، جہاں تک محرم مردوں کا تعلق ہے تو سورة النور کی آیت ِزینت (نمبر27) کی روسے عورتوں کو چند محرم مردوں کے سامنے ہی اپنی زینت دکھانے کی اجازت ہے۔
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
عورت کا پردہ کیسا ہونا چاہیئے؟
بارے مھربانی اس قرآن و حدیث سے واضح کریں!
عورت کن کن لوگوں سے پردہ نہیں کرے گی

مسلمان عورت کا کن لوگوں سے پردہ نہ کرنا جائز ہے ؟

الحمد للہ :

عورت اپنے محرم مردوں سے پردہ نہیں کرے گی ۔

اورعورت کا محرم وہ ہے جس سے اس کانکاح قرابت داری کی وجہ سے ہیشہ کےلیے حرام ہو ( مثلا باپ دادا اوراس سے بھی اوپر والے ، بیٹا پوتا اوران کی نسل ، چچا ، ماموں ، بھائي ، بھتیجا ، بھانجا ) یا پھر رضاعت کے سبب سے نکاح حرام ہو ( مثلا رضاعی بھائي ، اوررضاعی باپ ) یا پھر مصاہرت ( شادی ) کی وجہ سے نکاح حرام ہوجائے ( مثلا والدہ کا خاوند ، سسر ، اگرچہ اس سے بھی اوپر والی نسل کے ہوں ، اورخاوند کا بیٹا اوراس کی نسل ) ۔

ذیل میں ہم سائلہ کے سامنے یہ موضوع بالتفصیل پیش کرتے ہیں :

نسبی محرم :

نسبی طورپر عورت کے محرم کی تفصیل کا بیان سورۃ النور کی مندرجہ ذیل آیت میں بیان ہے :

فرمان باری تعالی ہے :

{ اوراپنی زینت کوظاہر نہ کریں سوائے اس کےجوظاہر ہے ، اوراپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں ، اوراپنی زیب وآرائش کوکسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکرمردوں سے جوشہوت والے نہ ہوں ، یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہيں ۔۔۔ } النور ( 31 )۔

مفسرین حضرات کا کہنا ہے کہ نسب کی بنا پرعورت کے لیے جومحرم اشخاص ہيں اس کی صراحت اس آیت میں بیان ہوئي ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں :

اول : آباء واجداد ۔

یعنی عورتوں کے والدین کے آباء اوراوپرکی نسل مثلا والد ، دادا ، نانا اوراس کا والد اوران سے اوپر والی نسل ، اورسسر اس میں شامل نہیں کیونکہ وہ محرم مصاہرت میں شامل ہے نہ کہ نسبی میں ہم اسے آگے بیان کریں گے ۔

دوم : بیٹے :

یعنی عورتوں کے بیٹے جس میں بیٹے ، پوتے ، اوراسی طرح دھوتے یعنی بیٹی کے بیٹے اوران کی نسل ، اورآیت کریمہ میں جو ( خاوند کے بیٹوں ) کا ذکر ہے وہ خاوند کی دوسری بیوی کے بیٹے ہیں جوکہ محرم مصاھرت میں شامل ہے ، اوراسی طرح سسر بھی محرم مصاھرت میں شامل ہے نہ کہ محرم نسبی میں ہم اسے بھی آگے چل کربیان کريں گے ۔

سوم : عورتوں کے بھائي ۔

چاہے وہ سگے بھائي ہوں یا پھر والد کی طرف سے یا والدہ کی طرف سے ہوں ۔

چہارم : بھانجے اوربھتیجے یعنی بھائي اوربہن کے بیٹے اوران کی نسلیں ۔

پنجم : چچا اورماموں :

یہ دونوں بھی نسبی محرم میں سے ہیں ان کا آيت میں ذکر نہیں اس لیے کہ انہیں والدین کا قائم مقام رکھا گیا ہے ، اورلوگوں میں بھی والدین کی جگہ پر شمار ہوتے ہیں ، اوربعض اوقات چچا کوبھی والد کہا جاتا ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ کیا تم یعقوب ( علیہ السلام ) کی موت کے وقت موجود تھے ؟ جب انہوں نے اپنی اولاد کو کہا کہ میرے بعد تم کس کی عبادت کروگے ؟

تو سب نے جواب دیا کہ آپ کے معبود کی اورآپ کے آباء واجداد ابراہیم اوراسماعیل ، اوراسحاق ( علیھم السلام ) کے معبود کی جومعبود ایک ہی ہے اورہم اسی کے فرمانبردار رہيں گے } البقرۃ ( 133 ) ۔

اوراسماعیل علیہ السلام تویعقوب علیہ السلام کے بیٹوں کے چچا تھے ۔

دیکھیں تفسیر الرازی ( 23 / 206 ) تفسیر القرطبی ( 12 / 232 – 233 ) تفسیر الآلوسی ( 18 / 143 ) فتح البیان فی مقاصد القرآن تالیف نواب صدیق حسن خان ( 6 / 352 ) ۔

رضاعت کی بنا پر محرم :

عورت کے لیے رضاعت کی وجہ سے بھی محرم بن جاتے ہیں ، تفسیر الآلوسی میں ہے :

( جس طرح نسبی محرم کے سامنے عورت کے لیے پردہ نہ کرنا مباح ہے اسی طرح رضاعت کی وجہ سے محرم بننے والے شخص کے سامنے بھی اس کے لیے پردہ نہ کرنا مباح ہے ،اسی اس طرح عورت کے لیے اس کے رضاعی بھائي اوروالد سےبھی پردہ نہ کرنا جائز ہے ) دیکھیں تفسیر الآلوسی ( 18 / 143 ) ۔

اس لیے کہ رضاعت کی وجہ سے محرم ہونا بھی نسبی محرم کی طرح ہی ہے جوکہ ابدی طور پر نکاح حرام کردیتا ہے ۔

امام جصاص رحمہ اللہ تعالی نے اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے :

( جب اللہ تعالی نے آباء کے ساتھ ان محارم کا ذکر کیا جن سے ان کا نکاح ابدی طور پرحرام ہے ، جوکہ اس پر دلالت کرتا ہے کہ جوبھی اس طرح کی حرمت والا ہوگا اس کا حکم بھی یہی حکم ہے مثلا عورت کی ماں ، اوررضاعی محرم وغیرہ ) دیکھیں احکام القرآن للجصاص ( 3 / 317 ) ۔

اورسنت نبویہ شریفہ میں بھی اس کی دلیل ملتی ہے :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

( رضاعت بھی وہی حرام کرتی ہے جونسب کرتا ہے )

تواس کا معنی یہ ہوا کہ جس طرح عورت کے نسبی محرم ہوں گے اسی طرح رضاعت کے سبب سے بھی محرم ہوں گے ۔

صحیح بخاری میں مندرجہ ذيل حدیث وارد ہے :

ام المؤمنین عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ :

( ابوقعیس کے بھائي افلح نےپردہ نازل ہونے کےبعد آ کر اندر آنے کی اجازت طلب کی جوکہ ان کا رضاعی چچا تھا تومیں نے اجازت دینے سے انکار کردیا ، اورجب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر تشریف لائے تو میں نے جوکچھ کیا تھا انہيں بتایا تونبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ میں اسے اپنے پاس آنے کی اجازت دے دوں ) صحیح بخاری مع الفتح الباری لابن حجر ( 9 / 150 ) ۔

امام مسلم رحمہ اللہ تعالی نے بھی اس حدیث کوراویت کیا ہے جس کے الفاظ یہ ہيں :

عروۃ رحمہ اللہ تعالی بیان کرتے ہیں کہ عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا نےانہیں بتایا کہ ان کے رضاعی چچا جس کا نام افلح تھا نے میرے پاس اندرآنے کی اجازت طلب کی تومیں نے انہيں اجازت نہ دی ، اورپردہ کرلیا ، اورنبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارہ میں بتایا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

اس سے پردہ نہ کرو ، اس لیے کہ رضاعت سے بھی وہی حرمت ثابت ہوتی ہے جونسب کی وجہ سے ثابت ہوتی ہے ۔

دیکھیں صحیح مسلم بشرح نووی ( 10 / 22 ) ۔

عورت کے رضاعی محرم بھی اس کے نسبی محرم کی طرح ہی ہیں :

فقھاء کرام نے جوکچھ قرآن مجید اورسنت نبویہ سے ثابت ہے پر عمل کرتےہوئے اس بات کی صراحت کی ہے کہ عورت کے رضاعی محرم بھی اس کے نسبی محرم کی طرح ہی ہیں ، لھذا اس کے لیے رضاعی محرم کے سامنے زینت کی چيزیں ظاہر کرنا جائز ہیں جس طرح کہ نسبی محرم کے سامنے کرنا جائز ہے ، اوران کے لیے بھی عورت کے بدن کی وہ جگہیں دیکھنی حلال ہيں جونسبی محرم کےلیے دیکھنی حلال ہيں ۔

مصاھرت کی وجہ سے محرم : ( یعنی نکاح کی وجہ سے )

عورت کےلیے مصاھرت کے محرم وہ ہیں جن کا اس سے نکاح ابدی طور پر حرام ہوجاتا ہے ، مثلا ، والد کی بیوی ، بیٹے کی بیوی ، ساس یعنی بیوی کی والدہ ۔ دیکھیں : شرح المنتھی ( 3 / 7 ) ۔

تواس طرح والدکی بیوی کے لیے محرم مصاھرت وہ بیٹا ہوگا جو اس کی دوسری بیوی سے ہو ، اوربہو یعنی بیٹے کی بیوی کے لیے اس کا باپ یعنی سسر ہوگا ، اورساس یعنی بیوی کی ماں کے لیے خاوند یعنی داماد محرم ہوگا ۔

اللہ عزوجل نے سورۃ النور کی مندرجہ ذيل آیت میں ذکر کرتے ہوئے فرمایا ہے :

{ اوراپنی زیب وآرائش کوکسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکرمردوں سے جوشہوت والے نہ ہوں ، ایاایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہيں ۔۔۔ } النور ( 31 )۔

تواس میں سسر اورخاوند کے بیٹے عورت کے لیےمصاھرت کی وجہ سے محرم ہیں ، اوراللہ تعالی نے انہيں ان کے باپوں اوربیٹوں کے ساتھ ذکر کیا ہے اورانہيں حکم میں بھی برابر قرار دیا ہے کہ ان سے پردہ نہیں کیا جائے گا ۔ دیکھیں المغنی لابن قدامہ المقدسی ( 6 / 555 ) ۔

واللہ اعلم .

شیخ محمد صالح المنجد
الاسلام سوال و جواب
 
Last edited by a moderator:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
عورت کا پردہ کیسا ہونا چاہیئے؟
بارے مھربانی اس قرآن و حدیث سے واضح کریں!
عورت کا مردوں کے سامنے جانا

بعض خاندانوں میں بہت سے مرد اپنی بیوی یا بیٹی یا پھر اپنی بہن کو غیرمحرم مردوں مثلا دوست واحباب اوررشتہ داروں کے سامنے جانے اوران کے ساتھ بیٹھنے اوران سے بات چیت کی اجازت دیتےہیں جیسے کہ وہ ان کے محرم ہوں ، جب ہم انہیں نصیحت کرتے اورسمجھاتے ہیں کہ یہ صحیح نہیں تو وہ جواب ميں کہتے ہیں کہ یہ ان کی اوران کےخاندان اورآباء واجداد کی عادت میں شامل ہے ، اوران کا یہ بھی گمان ہے یہ ان کے دل صاف ہوتے ہیں ۔
کچھ تو ان لوگوں میں معاند ہيں اورکچھ متکبر ہیں حالانکہ وہ اس کے حکم کا بھی علم رکھتے ہیں اورکچھ لوگ اس کے حکم سے جاہل ہیں ، توآپ ایسے لوگوں کو کیا نصیحت کرتے ہیں ؟

الحمدللہ

ہرمسلمان شخص پر واجب اورضروری ہے کہ وہ عادات اوررسم ورواج پر اعتماد نہ کرے بلکہ اسے شریعت مطہرہ پر پیش کرے جو شریعت مطہرہ کے موافق ہو اس پر عمل کرے اورجو شریعت اسلامیہ کے مخالف ہو اس پر عمل نہیں کرنا چاہیے ، لوگوں کا کسی چيز کی عادت بنالینا اس کے حلال ہونے کی دلیل نہیں ۔

بلکہ لوگوں نے جتنی بھی اپنے خاندانوں ، قبیلوں ، ملکوں اورمعاشروں میں عادات اوررسم ورواج بنا رکھے ہیں انہیں کتاب اللہ اورسنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کرنا واجب ہے ، جوکچھ اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مباح کیا ہو وہ مباح ہے اورجس سے اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے اس پرعمل کرنا جائز نہيں اوراس کا ترک کرنا اورچھوڑنا واجب ہے چاہے وہ لوگوں کی عادت میں ہی کیوں نہ شامل ہو ۔

اورجب لوگوں نے کسی اجنبی عورت سے خلوت یا غیر محرم سے پردہ نہ کرنے کی عادت بنا لی ہو اوراس میں تساہل سے کام لیں توان کی یہ عادت باطل ہے اسے ترک کرنا واجب ہوگا ، اوراسی طرح اگر کچھ لوگ زنا یا پھر لواطت یا شراب نوشی اورنشہ کرنے کی عادت بنالیں تو ان پر بھی اسے ترک کرنا واجب ہے ، اورعادت ہونا ان کےلیے حجت اوردلیل نہیں بن سکتی ۔

بلکہ شریعت مطہرہ تو سب سے اوپر ہے اس لیے جسے اللہ تعالی نے اسلام کی ھدایت نصیب فرمائي ہے اسے اللہ تعالی کے حرام کردہ کاموں شراب نوشی ، زنا ، چوری و ڈاکہ ، اورقطع تعلقی اورقطع رحمی اورنافرمانی وغیرہ اورباقی جوبھی اللہ تعالی نے حرام کیا ہے سے اجتناب کرنا اوردور رہنا چاہیے ، اوراسے چاہیے کہ اللہ تعالی کے واجبات کا التزام کرے ۔

اوراسی طرح خاندان والوں پر بھی واجب ہے کہ وہ اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات کا احترام کریں اوراللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے حرام کردہ سے دوررہیں اوراجتناب کریں ، اورجب ان کی عورتوں کی یہ عادت ہوکہ وہ غیرمحرموں سے پردہ نہیں کرتیں یا پھر ان سے خلوت کرتی ہيں توانہيں یہ عادت ترک کرنی چاہیے بلکہ ان پر اسے چھوڑنا واجب ہے ۔

کیونکہ عورت کے لیےجائز نہيں کہ وہ اپنے چچا زاد ، خالہ زاد ، پھوپھی زاد ، یا بہنوئی یا پھر اپنے دیوروں ، اوراپنے خاوند کے چچا اورماموں کے سامنے ننگے منہ پھرے اورپردہ نہ کرے ، بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ ان سب سے پردہ کرے اوراپنے سر چہرہ اورباقی بدن وغیرہ کوچھپائے کیونکہ یہ اس کے غیرمحرم ہيں ۔

اوررہا مسئلہ کلام یعنی سلام کے جواب اورسلام کرنا وغیرہ کا تو پردہ کے اندر رہتے ہوئے اورخلوت کے بغیر اس میں کوئي حرج نہیں ، کیونکہ اللہ تعالی کا فرمان ہے :

{ اورجب تم نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویوں سے کوئي چيز طلب کرو تو پردے کے پیچھے سے طلب کرو ، تمہارے اوران کےدلوں کے لیے کامل پاکيزگی یہی ہے } الاحزاب ( 53 ) ۔

اورایک دوسرے مقام پر کچھ اس طرح فرمایا:

{ اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیویو ! تم عام عورتوں کی طرح نہيں ہو ، اگر تم پرہیز گاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وہ کوئي برا خیال کرے ، اورہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو } الاحزاب ( 32 ) ۔

تواللہ تعالی نے اپنے اس فرمان میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کونرم لہجہ اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے کہ وہ اپنی بات میں نرمی اختیار نہ کریں تا کہ دل میں بیماری رکھنے والا یا پھر جس کے دل میں شھوت کی بیماری ہے وہ یہ خیال کرنے لگے کہ کمزور ہے اوراسے کوئي مانع نہیں ۔

بلکہ اسے درمیانے لہجہ میں بات کرنی چاہیے جس میں نہ تونرمی ہواورنہ ہی درشتی اورسختی ہو اوراللہ تعالی نے یہ بھی بیان کیا کہ پردہ کرنا سب کے دلوں کی پاکیزگي ہے اوربہتر ہے ۔

اورایک مقام پر اللہ تعالی نے فرمایا ہے :

{ اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی بیویوں اورصاحبزادیوں سے اورمسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں ، اس سے بہت جلد ان کی شناخت ہوجایا کرے گی پھر وہ ستائي نہ جائيں گی ، اور اللہ تعالی بخشنے والا مہربان ہے } الاحزاب ( 59 ) ۔

جلباب ایسے کپڑے کوکہا جاتا ہے جوسر پررکھا جائے جس سے سارا بدت چھپ جائے اورعورت اسے اپنے سر پر رکھ کر لباس کے اوپرسے اپنے سارے جسم کو چھپاتی ہے ۔

اورایک مقام پر اللہ تعالی کا فرمان کچھ اس طرح ہے :

{ اورمسلمان عورتوں سے کہہ دیجئے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اوراپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں اوراپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں ، اوراپنی زینت کوظاہر نہ کریں سوائے اس کےجوظاہر ہے ، اوراپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں ، اوراپنی زیب وآرائش کوکسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد کے یا اپنے سسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکرمردوں سے جوشہوت والے نہ ہوں ، یاایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہيں ۔۔۔ } النور ( 31 )۔

تواس آیت میں مذکور اشخاص کے علاوہ کسی اورکے سامنے وہ اپنی زينت کوظاہر نہیں کرسکتی ۔

توسب مسلمان عورتوں پر واجب اورضروری ہے کہ وہ اللہ تعالی کا تقوی اختیار کریں اوراللہ تعالی نے جوان کی زينت کے ظاہر کرنے سے ان پر حرمت کی ہے اس کے ظاہر کرنے سے بچیں اورانہيں غیرمحرموں کے سامنے زينت کے ساتھ سامنے نہيں آنا چاہیے ۔.

دیکھیں : فتاوی و مقالات متنوعۃ للشيخ ابن باز رحمہ اللہ تعالی ( 6 / 406 ) ۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,564
پوائنٹ
791
اور چھرے کے پردہ کے بارے میں
چہرے كا پردہ كرنے كےتفصیلی دلائل


ميں عورت كے پردہ كے متعلق قرآنى آيات معلوم كرنا چاہتى ہوں تا كہ اپنى كچھ مسلمان بہنوں كو پيش كر سكوں، وہ معلوم كرنا چاہتى ہيں كہ اگر چہرے كا پردہ واجب يا كہ افضل ہے واجب نہيں ؟
الحمد للہ:

مسلمان بھائى آپ كو معلوم ہونا چاہيے كہ عورت كا اجنبى اور غير محرم مردوں سے چہرے كا پردہ كرنا واجب ہے، جس كے وجوب پر كتاب اللہ اور محمد صلى اللہ عليہ وسلم كى سنت، اور معتبر اور صحيح قياس مطردہ كے دلائل موجود ہيں:

اول:

كتاب اللہ كے دلائل:

پہلى دليل:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور آپ مومن عورتوں كو كہہ ديجئے كہ وہ بھى اپنى نگاہيں نيچى ركھيں اور اپنى شرمگاہوں كى حفاظت كريں، اور اپنى زينت كو ظاہر نہ كريں، سوائے اسكے جو ظاہر ہے، اوراپنے گريبانوں پر اپنى اوڑھنياں ڈالے رہيں، اور اپنى آرائش كو كسى كے سامنے ظاہر نہ كريں، سوائے اپنے خاوندوں كے، يا اپنے والد كے، يا اپنے سسر كے، يا اپنے بيٹوں كے، يا اپنے خاوند كے بيٹوں كے، يا اپنے بھائيوں كے، يا اپنے بھتيجوں كے، يا اپنے بھانجوں كے، يا اپنے ميل جول كى عورتوں كے، يا غلاموں كے، يا ايسے نوكر چاكر مردوں كے جو شہوت والے نہ ہوں، يا ايسے بچوں كے جو عورتوں كے پردے كى باتوں سے مطلع نہيں، اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے، اے مسلمانو! تم سب كے سب اللہ كى جانب توبہ كرو، تا كہ تم نجات پا جاؤ ﴾النور ( 31 ).

اس آيت سے عورت كے پردہ كے وجوب كى دلالت درج ذيل ہے:

ا ـ اللہ سبحانہ و تعالى نے مومن عورتوں كو اپنى عفت و عصمت كى حفاظت كا حكم ديا ہے، اور عفت و عصمت كى حفاظت كا حكم ايسا معاملہ ہے جو اس كے وسيلہ كى حفاظت كے ساتھ ہوگا، اور كسى بھى عاقل شخص كو اس ميں شك نہيں كہ اس كے وسائل ميں چہرہ ڈھانپنا بھى شامل ہے، كيونكہ چہرہ ننگا ركھنا عورت كو ديكھنے، اور اس كے حسن و جمال ميں غور و فكر كرنے اور اس سے لذت حاصل كرنے كا سبب ہے، جس كے نتيجہ ميں وہاں تك پہنچنے كى كوشش اور رابطہ كيا جائيگا.

اور رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" آنكھيں زنا كرتى ہيں، اور ان كا زنا ديكھنا ہے....

پھر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اور شرمگاہ اس كى تصديق كرتى ہے، يا پھر تكذيب كر ديتى ہے "

صحيح بخارى حديث نمبر ( 6612 ) صحيح مسلم حديث نمبر ( 2657 ).

تو جب چہرہ كا ڈھانپنا عفت و عصمت اور شرمگاہ كى حفاظت كے وسائل ميں سے ہے تو پھر ا سكا بھى حكم ہے، كيونكہ وسائل كو بھى مقاصد كے احكام حاصل ہيں.

ب ـ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور وہ اپنى اوڑھنياں اپنے گريبانوں پر اوڑھ كر ركھيں ﴾.

گريبان سر ڈالنے والا سوراخ ہے، ور الخمار اس چادر كو كہتے ہيں جس سے وہ اپنا سر ڈھانپتى ہے، تو جب عورت كو يہ حكم ہے كہ وہ اپنى اوڑھنى اپنے گريبان پر اوڑھيں تو عورت كو اپنا چہرہ چھپانے كا بھى حكم ہے، كيونكہ يا تو يہ اس سے لازم ہے، يا پھر قياس كے ساتھ، كيونكہ جب حلقوم اور سينہ چھپانے كا حكم ہے تو بالاولى چہرہ ڈھانپنے كا حكم ہے، كيونكہ يہ تو حسن و خوبصورتى اور جمال اور پرفتن جگہ ہے.

ج ـ اللہ سبحانہ و تعالى نے ظاہرى زينت كے علاوں باقى سب زيبائش اور بناؤ سنگھار كو مطلقا ظاہر كرنے سے منع كيا ہے، اور ظاہرى زينت مثلا ظاہرى كپڑوں كا ظاہر ہونا تو ضرورى ہے، اسى ليے اللہ تعالى نے " الا ما ظھر منھا " كے الفاظ بولے ہيں، اور يہ نہيں فرمايا: " الا ما اظھر منھا " بعض سلف مثلا ابن مسعود رضى اللہ تعالى عنھما، اور ابن سيرين وغيرہ نے قولہ تعالى:

" الا ما ظھر منھا " كى تفسير چادر اور كپڑے، اور كپڑوں كے نيچى طرف سے ( يعنى اعضاء كے كنارے ) جو ظاہر ہوں كى ہے، پھر پھر اللہ تعالى نے انہيں زينت ظاہر كرنے سے دوبارہ منع كيا ہے، ليكن جن كو اس سے استثنى كيا ہے ان كے سامنے ظاہر كر سكتى ہے، تو اس سے پتہ چلا كہ دوسرى زينت پہلى زينت كے علاوہ ہے، تو پہلى زينت سے مراد ظاہرى زينت ہے جو ہر ايك كے ليے ظاہر ہو گى جس كا چھپانا ممكن نہيں، اور دوسرى زينت سے مراد باطنى زينت ہے ( اور اس ميں چہرہ بھى ہے ) اور اگر يہ زينت ہر ايك كے سامنے ظاہر كرنى جائز ہوتى تو پھر پہلى زينت كو عام كرنے اور دوسرى كو استثنى كرنے ميں كوئى فائدہ معلوم نہيں ہوتا.

د ـ اللہ سبحانہ و تعالى نے غير اولى الاربۃ مردوں كے سامنے زينت ظاہر كرنے كى رخصت دى ہے، اور غير اولى الاربہ وہ خادم ہيں جنہيں كوئى شہوت نہيں، اور وہ بچے ہيں جو شہوت كو نہيں پہنچے، اور نہ ہى عورتوں كى پردہ والى اشياء كى اطلاع ركھتے ہيں، تو يہ دو چيزوں پر دلالت كرتا ہے:

1 - ان دو قسموں كے علاوہ باطنى زينت كسى اور اجنبى اور غير محرم كے سامنے ظاہر كرنى جائز نہيں.

2 - حكم كى علت اور مدار عورت سے فتنہ اور اس سے تعلق پيدا ہونے كے خوف اور خدشہ پر مبنى ہے، اور بلاشك و شبہ چہرہ حسن و جمال كا منبع اور پرفتن جگہ ہے، تو اس كا چھپانا واجب ہوا، تا كہ شہوت والے مرد اس سے فتنہ ميں نہ پڑيں.

ھـ ـ اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان:

﴿ اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار كر نہ چليں كہ انكى پوشيدہ زينت معلوم ہو جائے ﴾

يعنى عورت اپنے پاؤں زمين پر مت مارے كہ جو اس نے خفيہ پازيب اور پاؤں ميں زيور پہن ركھا ہے ا نكى جھنكار سنائى دے، چنانچہ جب پازيب وغيرہ كى آواز سن كر مرد كے فتنہ ميں پڑنے كے خوف سے عورت كو زمين پر پاؤں مارنے سے منع كيا گيا ہے تو پھر چہرہ ننگا ركھنا كيسا ہوگا.

ان دونوں ميں سے فتنہ كے اعتبار سے كونسى چيز بڑى ہے آيا عورت كے پازيب كى آواز جس كے متعلق يہ پتہ نہيں كہ وہ كيسى اور كتنى خوبصورت ہے، اور نہ ہى يہ علم ہے كہ آيا وہ نوجوان ہے يا بوڑھى ؟ اور نہ ہى يہ معلوم ہے كہ آيا وہ بدصورت ہے يا كہ خوبصورت ؟

يا كہ خوبصورتى و جمال اور نوجوانى سے بھرپور چہرے كو ديكھنا، اور پرفتن حسن و جمال كا نظارہ كرنا جو اس كى جانب ديكھنے كى دعوت دے رہا ہو ؟

ہر انسان جسے عورتوں ميں تھوڑى بھى خواہش ہے وہ يہ جانے كہ دونوں فتنوں ميں سے كونسا بڑا ہے، اور كون چھپانے اور مخفى ركھنے كا زيادہ حق ركھتا ہے.

دوسرى دليل:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اور وہ بڑى بوڑھى عورتيں جنہيں نكاح كى اميد ( اور خواہش ہى ) نہ رہى ہو وہ اگر اپنى چادر اتار ركھيں تو ان پر كوئى گناہ نہيں، بشرطيكہ وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر كرنے والياں نہ ہوں، تاہم اگر ان سے بھى ا حتياط ركھيں تو ان كے ليے بہت بہتر اور افضل ہے، اور اللہ تعالى سنتا اور جانتا ہے ﴾النور ( 60 ).

وجہ دلالت يہ ہے كہ:

اللہ سبحانہ و تعالى نے بڑى عمر كى بوڑھى عورتوں سے ايك شرط كے ساتھ گناہ كى نفى كى ہے جو زيادہ عمر ہو جانے كى بنا پر مردوں كى رغبت نہ ركھتے ہوئے نكاح كى خواہش نہيں ركھتيں، كہ اس سے انكى غرض بےپردگى اور زيب و زينت نہ ہو.

اور ان بوڑھى عورتوں كے ساتھ حكم كى تخصيص اس بات كى دليل ہے كہ نوجوان لڑكياں جو نكاح كرنا چاہتا ہيں وہ اس ميں مخالفت حكم ركھتى ہيں، اور اگر چادر اتارنے كا حكم سب كو عام ہوتا تو پھر ان بورھى عورتوں كى تخصيص كرنے كا كوئى فائدہ نہ تھا.

اور قولہ تعالى:

﴿ بشرطيكہ وہ اپنا بناؤ سنگھار ظاہر كرنے والياں نہ ہوں ﴾

سے نكاح كى خواہش كرنے والى نوجوان لڑكى كے پردہ كرنے كے وجوب پر ايك اور دليل ملتى ہے كہ اس كے ليے غالب يہ ہے كہ جب وہ اپنا چہرہ ننگا كريگى تو وہ اپناء سنگھار اور خوبصورتى و جمال ظاہر كرنا چاہتى ہے، اور اپنى جانب مردوں كو متوجہ كرنا چاہتى ہے تا كہ وہ اس كى طرف ديكھيں، اور اس كے سوا نادر ہے، اور نادر كا حكم نہيں ہوتا.

تيسرى دليل:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ اے نبى صلى اللہ عليہ وسلم آپ اپنى بيويوں اور اپنى بيٹيوں اور مومنوں كى عورتوں سے كہہ ديجئے كہ وہ اپنے اوپر اپنى چادر لٹكا ليا كريں، اس سے بہت جلد ا نكى شناخت ہو جايا كريگى پھر وہ ستائى نہ جائينگى، اور اللہ تعالى بخشنے والا مہربان ہے ﴾الاحزاب ( 59 ).

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ:

" اللہ تعالى نے مومن كى عورتوں كو يہ حكم ديا كہ جب وہ اپنے گھروں سے ضرورت كے ليے باہر نكليں تو اوڑھنيوں كے ساتھ اپنے چہروں كو اپنے سروں كے اوپر سے ڈھانپ ليں، اور اپنى ايك آنكھ ظاہر ركھيں "

اور جليل القدر صحابى كى تفسير حجت ہے، بلكہ بعض علماء كرام تو كہتے ہيں كہ:

يہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم تك مرفوع حديث كے حكم ميں ہے.

اور ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما كا يہ قول كہ:

" وہ اپنى ايك آنكھ ظاہر كريں " صرف ضرورت كى بنا پر اس كى رخصت دى گئى ہے، تا كہ وہ راستہ ديكھ سكيں، ليكن اگر ضرورت نہ ہو تو پھر اسے بھى ظاہر كرنا صحيح نہيں.

اور جلباب اس چادر كو كہتے ہيں جو دوپٹے كے اوپر ہوتى ہے، اور عبايا كے طور پر استعمال كى جاتى ہے.

چوتھى دليل:

اللہ سبحانہ و تعالى كا فرمان ہے:

﴿ ان عورتوں پر كوئى گناہ نہيں كہ وہ اپنے باپوں، اور اپنے بيٹوں، اور بھائيوں اور بھتيجوں، اور بھانجوں، اور اپنى ( ميل جول كى ) عورتوں، اور ملكيت كے ماتحت ( لونڈي اور غلام ) كے سامنے ہوں، اور اے عورتو اللہ تعالى سے ڈرتى رہو اللہ تعالى يقينا ہر چيز پر شاہد ہے ﴾الاحزاب ( 55 )

ابن كثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

جب اللہ تعالى نے عورتوں كو اجنبى اور غير محرم مردوں سے پردہ كا حكم ديا تو بيان كيا كہ ان قريبى رشتہ دار مردوں سے پردہ كرنا واجب نہيں، جيسا كہ سورۃ النور ميں بھى انہيں استثناء كرتے ہوئے اللہ تعالى نےفرمايا ہے:

﴿ اور وہ اپنى زينت اور بناؤ سنگھار ظاہر مت كريں، مگر اپنے خاوندوں كے ليے ﴾الخ

دوم:

چہرے كا پردہ واجب ہونے كے سنت نبويہ سے دلائل:

پہلى دليل:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

جب تم ميں سے كوئى شخص بھى كسى عورت كو شادى كا پيغام بھيجے اور اس سے منگنى كرنا چاہے تو اس كے ليے اسے ديكھنے ميں كوئى گناہ نہيں، اگر وہ اسے منگنى كى غرض سے ديكھنا چاہتا ہو، چاہے وہ عورت كى لاعلمى ميں ہى اسے ديكھ لے "

اسے احمد نے روايت كيا ہے، مجمع الزوائد كے مؤلف كہتے ہيں: اس كے رجال صحيح كے رجال ہيں.

اس سے وجہ دلالت:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے منگنى كرنے والے شخص سے گناہ كى نفى كى ہے، خاص كر اس شرط كے ساتھ كہ وہ اسے منگنى كى غرض سے ديكھے، جو اس كى دليل ہے كہ منگنى كے بغير ہر اجنبى عورت كو ديكھنے والا شخص ہر حالت ميں گناہ گار ہوگا، اور اسى طرح جب شادى كا پيغام بھيجنے والا شخص منگنى كرنے كى غرض كے بغير ہى لڑكى كو ديكھے تو بھى اسے گناہ ہوگا، مثلا كوئى شخص لذت اور فائدہ حاصل كرنے كے ليے ديكھے.

اور اگر يہ كہا جائے كہ: حديث ميں تو اس كا بيان ہى نہيں كہ وہ كيا چيز ديكھے، ہو سكتا ہے اس سے مراد سينہ اور گلا ہو ؟

ا سكا جواب يہ ہے كہ:

ہر كوئى جانتا ہے كہ شادى كا پيغام دينے والے شخص كا مقصد خوبصورتى حاصل كرنا ہے، اور سارى خوبصورى چہرے ميں ہى ہوتى ہے، اور اس كے علاوہ جو كچھ ہے وہ چہرے كى خوبصورتى كے تابع ہے، ا سكا غالبا قصد ہى نہيں كيا جاتا، تو شادى كا پيغام دينے والا صرف عورت كے چہرہ كو ديكھےگا، كيونكہ بلا شك خوبصورتى چاہنے والے كے ليے فى ذاتہ يہى مقصود ہے.

دوسرى دليل:

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے جب عورتوں كو عيد كے ليے عيدگاہ جانے كا حكم ديا تو عورتوں نے عرض كيا:

اے اللہ تعالى كے رسول صلى اللہ عليہ وسلم ہم ميں سے كسى ايك كے پاس ہو سكتا ہے پردہ كرنے كے ليے چادر اور اوڑھنى نہ ہو ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اس كى ( مسلمان ) بہن كو چاہيے كہ وہ اپنى اوڑھنى اوڑھا دے "

صحيح بخارى اور صحيح مسلم.

تو يہ حديث اس كى دليل ہے كہ صحابہ كرام كى عورتوں ميں عادت تھى كہ وہ چادر اور اوڑھنى كے بغير باہر نہيں نكلتى تھيں، اور چادر نہ ہونے كى حالت ميں ان كے ليے باہر نكلنا ممكن نہ تھا، اور چادر اور اوڑھنى اوڑھنے كے حكم ميں يہ دليل پائى جاتى ہے كہ پردہ كرنا لازمى ہے.

واللہ اعلم.

تيسرى دليل:

صحيح بخارى اور صحيح مسلم ميں عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا سے مروى ہے وہ بيان كرتى ہيں كہ:

" رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نماز فجر ادا كرتے تو آپ كے ساتھ مومن عورتيں بھى اپنى چادريں لپيٹ كر نماز ميں شامل ہوتيں، اور پھر وہ اپنے گھروں كو واپس ہوتى تو اندھيرا ہونے كى بنا پر انہيں كوئى بھى نہيں پہچانتا تھا "

اور وہ كہتى ہيں:

" اگر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم عورتوں كى يہ حالت ديكھ ليتے جو ہم ديكھ رہے ہيں، تو انہيں مسجدوں ميں آنے سے روك ديتے جس طرح بنى اسرائيل كى عورتوں كو روك ديا گيا تھا "

عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہ سے بھى اسى طرح روايت ہے.

اس حديث سے دو وجہ سے دلالت كى گئى ہے:

پہلى:

پردہ كرنا اور چھپ كر رہنا صحابہ كرام كى عورتوں كى عادت تھى، جو كہ سب سے بہتر لوگ ہيں، اور اللہ كے ہاں لوگوں سے سب سے زيادہ عزيز ہيں.

دوسرى:

ام المومنين عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا، اور عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما عالم و فقيہ اور بصيرت كے مالك ہيں، دونوں ہى يہ بتا رہے ہيں كہ اگر رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم وہ كچھ ديكھ ليتے جو ہم عورتوں كى حالت ديكھ رہے ہيں ت وانہيں مسجدوں ميں آنے سے روك ديتے، اور يہ اس دور كى بات ہے جو سب ادوار سے بہتر اور افضل تھا، تو پھر اب ہمارے اس دور ميں كيا ؟!!

چوتھى دليل:

ابن عمر رضى اللہ تعالى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس نے بھى تكبر كے ساتھ كپڑا كھينچا اللہ تعالى روز قيامت اس كى جانب ديكھے گا بھى نہيں "

تو ام سلمہ رضى اللہ تعالى عنہا كہنے لگيں:

تو پھر عورتيں اپنى لٹكتى ہوئى چادروں كا كيا كريں ؟

تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" وہ ايك بالشت تك اسے ٹخنوں سے نيچے لٹكا كر ركھيں "

وہ كہنے لگيں:

" پھر تو ان كے پاؤں ننگے ہو جايا كرينگے "

رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" تو پھر وہ ايك ہاتھ نيچے لٹكا ليا كريں، اور اس سے زيادہ نہيں "

جامع ترمذى حديث نمبر ( 1731 ) سنن نسائى حديث نمبر ( 5336 ) سنن ابو داود حديث نمبر ( 4117 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 3580 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے صحيح سنن ترمذى ميں اس حديث كو صحيح قرار ديا ہے.

تواس حديث ميں عورت كے پاؤں ڈھانپنے كے وجوب كى دليل پائى جاتى ہے، اور اس كى دليل ہے كہ يہ چيز صحابہ كرام كى عورتوں ميں معلوم تھى، اور پھر بلا شك و شبہ پاؤں تو چہرے اور ہاتھ سے كم فتنہ و خرابى كے باعث ہيں، تو كم چيز كى تنبيہ اس سے بڑھى چيز پر تنبيہ ہے، اور وہ اس كے حكم ميں اولى اور افضل ہے.

اور پھر شرعى حكمت ا سكا انكار كرتى ہے كہ كم فتنہ اور خرابى كى باعث چيز كا تو پردہ ہو، اور اسے چھپايا اور ڈھانپا جائے، اور جو اس سے فتنہ و خرابى ميں بڑى اور زيادہ ہو اسے ننگا ركھنے كى اجازت دى جائے، يہ ايك ايسا تناقض ہے جو اللہ كى حكمت و شرع كے ليے مستحيل ہے.

پانچويں دليل:

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بيان كرتى ہيں كہ:

" ہمارے پاس سے قافلہ سوار گزرتے اور ہم رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم كے ساتھ احرام كى حالت ميں تھيں، تو جب وہ ہمارے برابر آتے تو ہم ميں سے عورتيں اپنى چادر اپنے سر سے اپنے چہرہ پر لٹكا ديتى، اور جب وہ ہم سے آگے نكل جاتے تو ہم چہرہ ننگا كر ديتيں "

سنن ابو داود حديث نمبر ( 1562 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 2935 ) ابن خزيمہ نے ( 4 / 203 ) ميں اسے صحيح قرار ديا ہے، اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اپنى كتاب " جلباب المراۃ المسلۃ " ميں اسے صحيح قرار ديا ہے.

عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كا قول:

" جب وہ ہمارے برابر آتے "

اس سے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا كى مراد قافلہ سوار ہيں, اور يہ قول:

" ہم ميں سے عورتيں اپنے چہرے پر اپنى اوڑھنى لٹكا ليتى "

يہ چہرے كہ پردہ كے واجب ہونے كى دليل ہے، كيونكہ احرام كى حالت ميں عورت كے ليے اپنا چہرہ ننگا ركھنا مشروع ہے، تو اگر چہرہ ننگا ركھنے ميں كوئى قوى مانع نہ ہو تو اس وقت ننگا ركھنا باقى رہتا حتى كہ قافلہ سواروں كے گزرتے وقت بھى.

ا سكا بيان اور تفصيل يہ ہے كہ: احرام كى حالت ميں عورت كے ليے اپنا چہرہ ننگا ركھنا اكثر اہل علم كے ہاں واجب ہے، اس كا كوئى معارض نہيں، صرف وہى جو واجب ہے، تو اگر پردہ كرنا اور چہرہ ڈھانپنا واجب نہ ہوتا تو احرام كى حالت ميں واجب كو ترك كرنا جائز نہ ہوتا.

صحيح بخارى اور مسلم وغيرہ ميں يہ حديث موجود ہے كہ:

" احرام كى حالت ميں عورت كو نقاب اور دستانے پہننا ممنوع ہيں "

شيخ الاسلام ابن تيميہ رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" يہ اس كى دليل ہے كہ نقاب اور دستانے ان عورتوں ميں معروف تھے جو احرام والى نہ تھيں، اور يہ عورتوں كے چہرے اور ہاتھ كا پردہ كرنے كا تقاضا كرتا ہے.

يہ كتاب و سنت ميں سو نو دلائل تھے:

اور دوسويں دليل يہ ہے كہ:

صحيح اعتبار اور قياس مطرح ہے، جو يہ كامل شريعت لائى ہے اور وہ مصالح اور اس كے وسائل كا اقرار ، اور ان پر ابھارنا، اور خرابيوں اور ان كے وسائل كا انكار اور اس سے منع كرنا ہے.

اور جب ہم غير محرم اور اجنبى مردوں كے سامنے بے پردگى، اور عورت كا چہرہ ننگا ركھنے پر غور و فكر اور تامل كرتے ہيں تو ہم يہ اس كے نتيجہ ميں بہت سارى خرابياں ديكھتے ہيں، اور اگر يہ فرض بھى كر ليا جائے كہ اس ميں كوئى مصلحت پائى جاتى ہے، تو يہ ان خرابيوں كے مقابلہ ميں بہت ہى چھوٹى ہے.

بےپردگى كى خرابياں درج ذيل ہيں:

1 - فتنہ: اس ليے كہ عورت اپنے آپ كو ايسے فعل كے ساتھ فتنہ ميں ڈالتى ہے جو اس كے چہرہ كو خوبصورت اور بنا سنوار كر پيش كرتا ہے، اور اسے پرفتن بنا كر دوسروں كے سامنے لاتا ہے، اور يہ چيز شر و برائى اور فساد كے سب سے بڑے اسباب ميں سے ہے.

2 - عورت سے شرم و حياء ہى ختم ہو جاتى ہے، جو كہ ايمان كا حصہ ہے، اور پھر يہ شرم و حياء عورت كى فطرت كا تقاضا بھى تھا، عورت شرم و حياء ميں ضرب المثل تھى، اسى ليے كہا جاتا ہے:

اپنے پردہ ميں رہنے والى كنوارى عورت سے بھى زيادہ شرم والا "

اور عورت سے شرم و حياء كا ختم ہو جانا اس كے ايمان ميں نقص كى نشانى ہے، اور جس فطرت پر وہ پيدا ہوئى ہے اس سے نكلنے كى علامت ہے.

3 - اس سے مرد بھى فتنہ كا شكار ہو جاتا ہے، اور خاص كر جب عورت خوبصورت، اور حسن و جمال والى ہو، اور وہ ہنسى مذاق اور اٹھكيلياں بھى كرتى ہو، جيسا كہ بہت سارى بےپردہ عورتيں مٹك مٹك كر چلتى اور كرتى ہيں، اور پھر شيطان تو انسان ميں اس طرح سرايت كرتا ہے جس طرح جسم ميں خون ہوتا ہے.

4 - مردوں كے ساتھ عورت كا اختلاط اور ميل جول:

كيونكہ جب عورت اپنے آپ كو چہرہ ننگا ركھنے اور بےپردہ گھومنے پھرنے ميں مردوں كے برابر سمجھےگى تو اس سے شرم و حياء كہا ملے گى اور نہ ہى وہ مردوں كے ساتھ دھكم پيل كرنے ميں شرمائيگى.

اور اس چيز ميں بہت زيادہ خرابى و فتنہ ہے، امام ترمذى نے حمزہ بن ابو اسيد انصارى عن ابيہ كے طريق سے حديث روايت كي ہے وہ بيان كرتے ہيں كہ ان كے باپ نے بيان كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم مسجد سے نكلے تو راہ ميں مرد عورتوں كے ساتھ مل گئے تو رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے عورتوں كو فرمايا:

" تم ذرا پيچھے ہٹ جاؤ بعد ميں آنا، كيونكہ تمہيں راہ كے درميان چلنے كا حق نہيں، تم راستے كى كناروں كى طرف ہو كر چلا كر، تو عورت بالكل ديوار كے ساتھ ہو كر چلتى حتى كہ ديوار كے ساتھ چپك كر چلنے كى وجہ سے اس كے كپڑے ديوار كے ساتھ اٹك جاتے "

جامع ترمذى جديث نمبر ( 5272 ) علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے صحيح الجامع حديث نمبر ( 929 ) ميں حسن قرار ديا ہے.

شيخ ابن عثيمين رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى.

ماخوذ از: رسالۃ الحجاب تاليف ابن عثيمين.

واللہ اعلم .

الاسلام سوال و جواب
 
Last edited:
شمولیت
دسمبر 11، 2015
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
57
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته الشيخ محترم کیا یہ حديث ہے
جیس شخص کی بہن بیٹی ماں بیوی کی زینت کوئی غیر محرم دیکھے تو وہ شخص جہنمی ہیں ۔دیوس
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

ایک فتوی ملاحظہ فرمائیں:
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا دیوث وہ ہے جو خلوت میں اپنی بیوی کے ساتھ گزرے ہوئے حالات و واقعات کو بیان کرے یا دین حنیف کی نظر میں صحیح معنوں میں دیوث کون ہے؟
الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة اللہ وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
دیوث وہ ہے جو اپنی بیوی کے بدکاری کرنے پر راضی ہو اور اسے زنا سے نہ روکے اور اس بات پر بے غیرتی اور بے ایمانی کی وجہ سے ناراض نہ ہو اور جو شخص اسے منع کرے اور فحاشی سے روکے تو وہ دیوث نہیں ہے۔
ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فتاویٰ اسلامیہ

ج3ص134
محدث فتویٰ
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
دیوث کون ہے؟؟؟؟؟؟

جو مرد اپنی عورتوں کے بارے غفلت کا شکار ہیں
ایسے مرد کچھ اور نہیں بس دیوث {بے غیرت} ہیں۔۔
جو شخص غیرت مند نہیں ہوتا وہ ''دیوث'' ہوتا ہے۔'شرعی اصطلاح میں 'دیوث '' اس شخص کو کہتے ہیں جو اپنے گھر میں بدکاری فحاشی اور غلط روش کودیکھتا ہے اور اپنی آنکھیں بند کرلیتا ہے ۔ایسے شخص کے متعلق فرمان نبوی ہے کہ وہ جنت میں نہیں جاسکے گا۔۔۔۔

حدیث رسول صلہ اللہ علیہ وسلم میں تین افراد پر جنت کا داخلہ ممنوع{حرام} قرار دیا گیا ہے۔۔۔۔

عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثَةٌ قَدْ حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ الْجَنَّةَ مُدْمِنُ الْخَمْرِ وَالْعَاقُّ وَالدَّيُّوثُ الَّذِي يُقِرُّ فِي أَهْلِهِ الْخَبَثَ

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی رسول اللہ صلہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" تین آدمی ایسے ہیں۔جن پر اللہ نے جنت کو حرام کر دیا ہے۔دائمی شرابی،ماں باپ کا نافرمان،اور "دیوث"جو اپنے بیوی بچوںمیں بے حیائ برداشت کرتا ہے"
۔۔۔۔۔۔
مسند احمد ح 5349


حیرت ہے فضول باتوں کی وجہ سے عورت پر سختی کرتے ہیں آجکل کے مرد حضرات مگر اسلام کے لیے غیرت نام کی چیز ہی نظر نہیں آتی۔۔۔۔۔

اللہ مسلمان مردوں کو با غیرت مند مومن مسلمان بننے کی توفیق عنایت فرمائے۔
آمین یا رب العالمین۔۔
 
شمولیت
دسمبر 11، 2015
پیغامات
43
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
57
السلام عليكم ورحمة الله وبركاته الشيخ محترم کیا یہ حديث ہے
جیس شخص کی بہن بیٹی ماں بیوی کی زینت کوئی غیر محرم دیکھے تو وہ شخص جہنمی ہیں ۔دیوس
 

عمر اثری

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 29، 2015
پیغامات
4,404
ری ایکشن اسکور
1,132
پوائنٹ
412
اس سلسلے میں یہ حدیث بھی ملاحظہ فرمائیں:
أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ قَالَ حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ قَالَ حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ مُحَمَّدٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَسَارٍ عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةٌ لَا يَنْظُرُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ الْعَاقُّ لِوَالِدَيْهِ وَالْمَرْأَةُ الْمُتَرَجِّلَةُ وَالدَّيُّوثُ وَثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ الْعَاقُّ لِوَالِدَيْهِ وَالْمُدْمِنُ عَلَى الْخَمْرِ وَالْمَنَّانُ بِمَا أَعْطَى
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے منقول ہے، رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’۔تین شخص ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ان کی طرف نہیں دیکھے گا: والدین کا نامفرنا، مردوں کی مشابہت اختیار کرنے والی عورت اور بے غیرت خاوند، نیز تین شخص جنت میں داخل نہ ہوں گے: ماں باپ کا نافرمان، ہمیشہ شراب پینے والا اور دے کر احسان جتلانے والا۔‘‘
{سنن النسائي: كِتَابُ الزَّكَاةِ (بَابُ الْمَنَّانِ بِمَا أَعْطَى)، حدیث: 2562}
* علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو صحيح النسائي : 2561 میں حسن صحیح کہا ہے

حدیث حاشیہ: (۱) ’’نہیں دیکھے گا۔‘‘ یعنی رحمت اور پیار ومحبت سے نہیں دیکھے گا کیونکہ اصل دیکھنا تو یہی ہوتا ہے، ورنہ کوئی شخص اللہ تعالیٰ سے چھپا ہوا ہے، نہ چھپ ہی سکتا ہے۔ یاد رہے کہ یہ سزا بھی اولاً ہے ورنہ آخر کار یہ بھی اگر مومن ہوئے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت بے کنار میں آہی جائیں گے۔ (۲) ’’والدین کا نافرمان۔‘‘ یعنی ان کے حقوق ادا نہ کرنے والا۔ (۳) ’’مردوں سے مشابہت کرنے والی عورت۔‘‘ یعنی ان معاملات میںجو مردوں کے ساتھ خاص ہیں، مثلاً: لباس، حجامت وغیرہ۔ یا مردوں جیسے کام کرے، مثلاً: کھیتوں میں ہل چلانا، حکومت اور سیاست کرنا وغیرہ، جن کاموں میں مردوں سے اختلاط ہو۔ (۴) دیوث بے غیرت جسے اپنی بیوی، بیٹی یا بہن کے غیروں کے ساتھ ناجائز تعلقات پر کوئی اعتراض نہ ہو۔ (۵) ’’جنت میں نہیں جائیں گے۔‘‘ یعنی اولاً، ورنہ سزا بھگتنے کے بعد تو ہر ایمان والا جنت میں جائے گا۔ صحیح روایات میں صراحت ہے۔ (۶) ’’ہمیشہ شراب پینے والا۔‘‘ یعنی شراب پیتا رہا اور بغیر توبہ کیے مر گیا، خواہ زندگی کے آخر میں شراب شروع کی ہو۔
 
Top