محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
پلیز اس کا جواب جلد از جلد دیں - سلسلہ وار - تا کہ باطل کا رد کیا جا سکے - جزاک اللہ
کسی بھائی نے پوچھے ہیں -
سوال :
حضرات مفتیان کرام اور گرامی قدر علمائے کرام ! ایک سوال ہے، اللہ کے واسطے اس کا جواب جلد دیں ۔
تقلید شخصی کو قرآن و سنت سے ثابت کیجیے۔ علمائے کرام کہتے ہیں کہ اگر ایک امام کی تقلید شروع کی تو بس اسی ایک ہی امام کی تقلید کی جائے۔ ایک امام کی تقلید فرض ہے۔ کیا آپ اس مسئلہ کو قرآن و سنت سے ثابت کرسکتے ہیں؟ مجھے بس آپ کی طرف سے جواب چاہیے نہ کہ کسی کتاب کا نام۔ کتابیں تو بہت ہیں، لیکن کسی کتاب میں کسی قرآن میں بھی کسی حدیث میں بھی یہ تقلید شخصی فرض ہے، ایسا نہیں لکھا ہوا ہے۔
--------------------------------------------------------------------------
الجواب :
سب سے پہلے تقلید کے وجوب میں قرآن کی چند آیتیں پیش کی جاتی ہیں ۔۔۔۔۔
الف
( فَاسْأَلُوا أَهْلَ الذِّكْرِ إِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُونَ ) (21:17,16:43)
اس آیت میں لوگوں کو حکم ہے کہ جو شرعی حکم تم کو معلوم نہ ہو اس کو اہل علم سے معلوم کرکے اس پر عمل کرو۔ اسی کا نام تقلید ہے۔
ب
( أُولَئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهِ )( 6:90)
اس آیت میں حکم ہے کہ جو لوگ ہدایت پر ہیں )یعنی انبیائے سابقین علیہم الصلاة والتسلیم( ان کی اقتدا اور پیروی کرو۔
ج
( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ ) (4:59)
اس آیت میں اہل علم کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے، ان مسائل میں جو قرآن و حدیث میں صراحتاً مذکور نہیں ہیں۔
د
( وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ (4:83)
اگر یہ لوگ اس امر کو رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور اولو الامر کے حوالہ کرتے تو جو لوگ اہل فقہ اور اہل استنباط ہیں وہ سمجھ کر ان کو بتلادیتے۔ اس آیت سے بھی ائمہ مجتہدین کی اتباع کا ثبوت ملتا ہے۔
ھ
( وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا) (32:24)
ان تمام آیات میں اتباع و تقلید کی تاکید فرمائی گئی ہے اور ان سے تقلید مطلق کا ثبوت ہوتا ہے۔
اب ایسی چند احادیث لکھی جاتی ہیں جن سے تقلید شخصی کا ثبوت ہوتا ہے۔
الف:
( عن حذیفة -رضي اللہ عنہ- قال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم:
إني لا أدري ما بقائي فیکم فاقتدوا بالذین من بعدي أبي بکر و عمر-رضي اللہ عنھما- )
ب
( قال النبي صلی اللہ علیہ وسلم: أصحابي کالنجوم فبأیھم اقتدیتم اھتدیتم ) (مشکوٰة: ص554)
ج
( عن ماذ بن جبل -رضي اللہ عنہ- أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما بعثہ إلی الیمن قال: کیف تقضي إذا عرض علیک قضاء قال: أقضي بکتاب اللہ، قال: فإن لم تجد في کتاب اللہ؟ قال بسنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، فإن لم تجد في سنة رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، قال: أجتھد برأیي ولا آلو، فضرب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی صدرہ وقال: الحمد للہ الذي وفق رسولّ رسولِ اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لما یرضی۔ ) (أبوداوٴد: ص149، مشکوٰة: ص324)
د
( إن أھل المدینة سألوا ابن عباس -رضي اللہ عنھما- عن امرأة طافت ثم حاضت قال لھم: تنفر قالوا: لا نأخذ بقولک وندع قول زید. ) (بخاري: ۱/۲۳۷)
اس حدیث میں اس بات کی صراحت ہے کہ اہل مدینہ حضرت زید -رضی اللہ عنہ- کی تقلید شخصی کرتے تھے۔
ھ
( عن عمر بن الخطاب -رضي اللہ عنہ- قال: سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول: سألت ربّي عن اختلاف أصحابي من بعد فأوحی إلي یا محمد إن أصحابک عندي بمنزلة النجوم في السماء بعضھا أقوی من بعض ولکل نور فمن أخذ بشيء مماھم علیہ من اختلافھم فھو عندي علی ہدی. ) (مشکوٰة: ص554)
اس حدیث میں خود اللہ تبارک و تعالیٰ فرمارہے ہیں کہ صحابہ کرام کے اختلافی مسائل میں جو کوئی کسی صحابی کی تقلید کرلے گا وہ میرے نزدیک حق پر ہوگا۔ ان تمام احادیث سے قولی یا فعلی طور پر تقلید شخصی کا وجوب معلوم ہوتا ہے۔
واضح رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہٴ کرام جہاں جہاں تشریف لے گئے وہاں اُن کی تقلید کی گئی اوران کے بعد ان کے شاگردوں کی پھر ائمہ اربعہ کا زمانہ آیا تو جب اہل زمانہ نے ان کو علوم قرآن و حدیث میں سب سے زیادہ فائق اور قابل اعتماد پایا اور ان کو اسلاف کے تمام تر علوم کا جامع پایا تو ان کی تقلید کی، انھوں نے قرآن وحدیث سے مسائل کے استنباط کے لیے اصول و قواعد مرتب کیے اور ایسے مسائل کا استنباط کیا جو قرآن وحدیث میں صراحتاً مذکور نہیں ہیں اور واضح رہے کہ ائمہ اربعہ کے مقلدین ان کی تقلید صرف استنباطی مسائل، اور ایسے مسائل ہی میں کرتے ہیں جو قرون اولیٰ صحابہٴ کرام -رضی اللہ عنہم- کے زمانہ سے اختلافی چلے آرہے ہیں، ان مسائل میں کوئی کسی کی تقلید نہیں کرتا جو قرآن وحدیث میں صراحتاً مذکور ہیں، جن میں کسی قسم کے اجمال و احتمال کی گنجائش نہیں ہے۔
واللہ تعالیٰ اعلم