• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پولیو ویکسینیشن

ضرب توحید

مبتدی
شمولیت
دسمبر 01، 2014
پیغامات
24
ری ایکشن اسکور
23
پوائنٹ
13
ہمارے گھر بھی آئے تھے ایک دن میں نے انھیں آدھا گھنٹہ تبلیغ کی چائے پلائی الحمد للہ اب جب آتے ہیں میرے ساتھ اتنی خیر خواہی کرتے ہیں کہ اپنے افسروں کو مطمئن کرنے کے لئے میرے بچے کو انگلی پر صرف نشان لگا دیتے ہیں اور قطرے نہیں پلاتے اور میرے ہم ذہن ھو گئے ہیں لیکن کہتے ہیں کہ بھائی کیا کریں ہم ملازم ہیں میں بھی ان کی مجبوری کو سمجھتا ہوں بلکہ اب صورت حال یہ ہے کہ قطرے پلانے والے آدمی نے اپنے بچوں کو قطرے پلانے چھوڑ دئیے ہیں بلکہ اس نے مجھے آ کر بتایا کہ میں قطرے نہ پلانے کی وجہ سے پولیس والوں سے لڑائی بھی لے لی لیکن قطرے نہیں پلائے بہر حال اللہ نے ہمارے لئے آسانی فرمائی ھے
 

عکرمہ

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 27، 2012
پیغامات
658
ری ایکشن اسکور
1,870
پوائنٹ
157
میرے علم میں یہ بات آئی ہے،اس کی تصدیق مطلوب ہے۔
پولیو ڈراپس پلانے کی یہ زبردست مہم یہودی ممالک’’اسرائیل‘‘ کے علاوہ پوری دنیا خصوصاً ایشیائی ممالک میں انتہائی زور و شور سے جاری ہے
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
ڈاکٹر ابو عدنان سہیل
دام ہم رنگ زمین !

پولیو ڈراپ سے متعلق چونکانے والی مگر چشم کشا تحریر

اقوام متحدہ کے ادارہ ’’یونیسیف‘‘ (UNICEF) کی زیرِ نگرانی ۱۹۸۵ ؁ء سے ہندوستان کے طول و عرض میں مرض پولیو کے امداد کے لیے ٹیکے لگانے اور اس کے ڈراپس پلانے کی مہم نہایت زور و شور اور جوش و خروش کے ساتھ جاری ہے ۔اس طرح اب تک بلا مبالغہ اربوں ڈالر اس مہم پر خرچ کئے جا چکے ہیں۔جب کہ اس سے کہیں زیادہ خطرناک اور جان لیوا بیماریاں جیسے ٹی وی،کینسر،ایڈس وغیرہ کے ذریعہ ہندوستان اور دیگر ممالک میں لاکھوں لوگ ہر سال لقمۂ اجل بن جاتے ہیں ،ان کے خلاف امداد پولیو جیسی زبردست مہم اور ان پر اتنی خطیر رقم کیوں خرچ نہیں کی جاتی ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو عوام الناس کے ذہنوں میں پولیو مہم کے سلسلے میں شکوک و شبہات اور اندیشہ ہائے دور دراز پیدا کرنے کا باعث ہے ۔خصوصاً جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ پولیو ڈراپس پلانے کی یہ زبردست مہم یہودی ممالک’’اسرائیل‘‘ کے علاوہ پوری دنیا خصوصاً ایشیائی ممالک میں انتہائی زور و شور سے جاری ہے اور ہندوستان و پاکستان ،بنگلہ دیش اور عرب ممالک جیسے کثیر مسلم آبادی والے ملکوں میں اس پر پورا زور صرف کیا جارہا ہے۔ ایسی صورت میں ذہن میں یہ سوال پیدا ہو نا لازمی ہے کہ مال کے حریص یہودی اور عیسائی اس مہم پر اربوں کھر بوں ڈالر آخر کیوں خرچ کر رہے ہیں؟ یہ عالم اسلام اور باقی دنیا کے خلاف کو ئی خطرناک سازش تو نہیں ہے؟ اس کے علاوہ غور طلب بات یہ بھی ہے کہ دور ماضی میں ملیریا اور چیچک کے خاتمے کے لیے ٹیکے لگائے گئے تھے ۔کیا ان کے نتیجہ میں یہ بیماریاں اب معدوم ہو چکی ہیں؟ اس کا جواب یقیناًنفی میں ہے۔
عالمی ادارہ صحت (MEDIA) میں شائع ہو چکی ہے۔ پوری دنیا میں صرف 600بچے پولیو کا شکار پائے گئے ہیں جب کہ ٹی وی،ایڈس،ملیریا،چیچک،اور سرطان یعنی کینسر وغیرہ میں مبتلا افراد کی تعداد ہزاروں اور لاکھوں میں ہے ۔پھر بھی پولیو کو ختم کرنے کے لئے اربوں کھربوں ڈالر بے تکلف خرچ کئے جارہے ہیں جب کہ مذکورہ بالا سنگین امراض کی دوائیں روز بروز مہنگی اور عوام کی دسترس سے باہر ہو تی جا رہی ہیں۔ صورت حال یہ ہے کہ ’’میڈیا‘‘ میں چھپ رہی خبروں کے مطابق پولیو کی متعدد خوراکیں پلوانے کے باوجود بہت سے بچے پولیو کا شکار ہو گئے۔ انگریزی اخبار ’’TIMES OF INDIA‘‘ مورخہ 18-03-2005 کے مطابق صوبہ بہار کے 18اضلاع میں 2003میں پولیو کے اٹھارہ معاملے سامنے آئے تھے۔ اس کے بعد جب وہاں پولیو ڈراپس پلانے کی مہم تیز تر کر دی گئی تو اس کے ایک سال بعد 2004میں پولیو میں مبتلا ہو نے والے بچوں کی تعداد کم ہو نے کے بجائے بڑھ کر 41ہو گئی! کیا یہ انکشاف پولیو ڈراپس پلانے کی اس زبردست مہم کی قلعی کھول دینے کے لئے کافی نہیں ہے ۔ ؟
جہاں تک پولیو ڈراپس پلانے کی یونیسیف(UNICEF) کی تیار کر دہ حکمت عملی اور اس کے نتائج کی بات ہے، تو یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ جب 1985ء میں عالمی سطح پر پانچ سال کے بچوں کو پولیو ڈراپس پلانے کا آغاز کیا گیا تھا ،تو اس مہم کا نعرہ تھا ’’ایک بوند زندگی میں ایک بار‘‘ اور اب یہ نعرہ بدل دیا گیا ہے ’’دو بوند پولیو ڈراپ کی ہر بار‘‘ اس طرح اب سال بھر میں تقریباً 40 بار سے بھی زائد یہ خوراک پانچ سال تک کے بچوں کو پلائی جا رہی ہے۔آخر ایسا کیوں ؟
ایک سوال اور ذہن میں پیدا ہو تا ہے وہ یہ کہ اقوام متحدہ (U.N.O.) کا ذیلی ادارہ برائے بہبود اطفال ’’یونیسیف‘‘(UNICEF) جو ہندوستان کے پولیو کا نگراں اور ذمہ دار ہے اور وہ اس پر اب تک اربوں ڈالر خرچ کر چکا ہے۔اس ادارہ کی انسانی ہمدردی اور بچوں کی فلاح اور بہبود کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ ۱۹۹۱ء ؁ کی پہلی خلیجی جنگ کے بعد سے اقوام متحدہ (U.N.O.) نے صدام حسین کے دور اقتدار کے آخر تک عراق میں ضروری اور جان بچانے والے ادویات پہنچنے نہ دینے کی پابندی لگا رکھی تھی، جس کی وجہ سے وہاں اس تمام عرصہ میں پانچ لاکھ سے زائد بچے مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو نے کے بعد مطلوبہ ادویہ نہ ملنے سے فوت ہو گئے۔’’سوڈان‘‘ میں دوائیں بنانے کی فیکٹری قائم کی گئی ،تاکہ آئندہ دواؤں سے محروم عراقی بچوں کو موت سے بچا یا جا سکے ،تو امریکہ نے اس فیکٹری پر بم برسا کر تباہ و برباد کر دیا۔ اتنے بڑے پیمانے پر بچوں کے قاتلوں کو دنیا کے چند بچوں کے معذور ہو نے سے بچا نے کی فکر کہاں سے لاحق ہو گئی ؟ اس بات پر سنجیدگی سے غور و فکر کرنے کی ضرورت ہے !
عالمی ادارہ صحت(W.H.O.) جو خالصتاً ایک ’’صیہونی ادارہ‘‘ ہے اور صیہونیت کی عالمی تنظیم زنجری(ZENGERY) کا ایک اہم ترین شعبہ ہے۔ اس کے طبی بلیٹن جلد ۴۷: صفحہ ۲۵۹ (۱۹۷۲ء ؁) کا حوالہ دیتے ہوئے یورپ کے ایک ڈاکٹر الین کیمپ بیل(ALLEN CAMP BELL) رقمطراز ہیں۔
’’ٹیکوں(VACCINESS) کے ذریعہ بیماریوں کا مقابلہ کر نے کے نام پر عالمی ادارہ صحت(W.H.O.) ہمارے قدرتی دفاعی نظام (NATURAL IMMUNE SYSTEN) بر باد کر نے پر تلا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ زمین سے انسانوں کے وجود ہی کو ختم کر دینا چاہتاہے‘‘۔
’’ڈاکٹر الین کیمپ بیل‘‘ جو کہ میڈیسین میں ایم ڈی (M.D.)، ہیں انہوں نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ ’’ایڈز وائرس‘‘(H.I.V.) انسانوں کے لئے لیبارٹری میں ہی بنا یا گیا ہے، یعنی وہ (GENITICALLY ENGINEERED) وائرس ہے،قدرتی پیداوار جرثومہ نہیں ہے۔ اس موضوع پر انہوں نے دو کتابیں لکھی ہیں جن میں سے ایک کتاب کا نام (AIDS AND THE DOCTOR OF DEATH) ہے اور دوسری کتاب (QUEER BLOOD) کے نام سے مارکیٹ میں آئی ہے!۔
ڈاکٹر کیمپ بیل نے لکھا ہے کہ ماضی قریب میں ایک مشہور یہودی سائنس داں جس کا نام ’’جوناس ایڈوارڈ سیلک‘‘ (JONAS EDWARD SALK) تھا وہ محض ایک اعلیٰ پائے کا بیکٹریا لوجیسٹ(1914-1995) ہی نہیں تھا ،بلکہ ایک بہت بڑا یہودی روحانی پیشوا(ربی) بھی تھا اور جس کا نام آج بھی یہودی ’’ حاخات‘‘ (علماء یہود) اور ربی بڑی عقیدت و احترام سے لیتے ہیں۔ اس نے ۱۹۶۳ء ؁ میں امریکہ کے شہر ’’ کیلی فورنیا‘‘ کے ’’لازولہ‘‘ علاقے میں ’’ سیلک انسٹی ٹیوٹ فار بایولوجیکل اسٹڈیز ‘‘ کے نام سے قائم کی تھی، جس کا شمار دنیا کے عظیم الشان بایو لوجیکل اداروں میں ہو تا ہے۔ اس ادارہ کا سالانہ بجٹ ایک کروڑ بیس لاکھ ڈالر( ساڑھے پانچ ارب روپئے) ہے۔ اس انسٹی ٹیوٹ میں چار سو سے زیادہ ’’بایو ٹیکنا لوجیسٹ ‘‘ جنٹک انجینےئر(GENETIC ENGINEERS) اور حیاتی علوم کے سائنس داں شب و روز کا م کر تے رہتے ہیں ۔ڈاکٹر کیمپ بیل کے بیان کے مطابق اس یہودی سائنس داں جوناس سیلک نے ہی اس انسٹی ٹیوٹ کے قیام سے چار سال قبل ۱۹۵۵ء ؁ میں ہندوستان اور’’ فلنیائن‘‘ سے چار ہزار بندر منگوا کر کیلی فورنیا کے ’’ بلفٹن‘‘ علاقے میں ندی کے کنارے ایک سنسان مگر پر فضا مقام پر واقع اپنی تجربہ گاہ (LABORATORY) میں ان بندروں پر کئی سطحوں (STAGES) پر متعدد مرحلوں پر مشتمل تجربات کئے تھے، اور اس کے بعد ان بندروں کے گردوں (KIDNEY) سے حاصل کر دہ خلیات(CELLS) سے پولیو(POLIO) کے پولیو کے مشہور عالم ٹیکے VACCINE تیار کر نا اسی یہودی سائنس داں کا کار نامہ ہے۔ اس کے بعد امریکہ نے ’’ جو ناس سیلک‘‘ کے بتائے ہو ئے پولیو ویکسین کو ہی عالمی امداد پولیو مہموں (WORLD SWEEPING DRIVES) کے لئے لمبے عرصہ تک استعمال کر نے کا فیصلہ کیا تھا! موجودہ دور میں پولیو ویکسین بنا نے والی سب سے بڑی بین الاقوامی دوا ساز کمپنی ’’ لیڈر لے‘‘( LEDERLE) جو یہودیوں کی ہی ملکیت میں ہے وہ رے سیس بندروں(RHESIS MONKEYS) کے گردوں (KIDNEYS) سے ہی یہ ویکسین تیار کر رہی ہے ۔اس کمپنی نے ۱۹۶۹ء ؁ سے ۱۹۹۹ء ؁ تک تیس برسوں میں ساٹھ کروڑ پولیو ڈراپس کی فروخت کا ریکارڈ قائم کیا تھا۔!
’’پولیو ویکسین‘‘ کے سلسلے میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مغربی ذرائع ابلاغ (MEDIA) نے ،جو اب کے سب یہودیوں کے قبضہ میں اور انہیں کی ملکیت ہیں۔ اس حقیقت پر پردہ ڈالنے کی بھر پور کوشش کی ہے کہ ’’امریکی تحفظ ادارہ برائے تدارک امراض‘‘ یعنی(CDC) نے سات سال قبل یکم جنوری ۲۰۰۰ء ؁ سے پولیو کے خاتمے کے لئے پلائی جانے والی اورلی پولیو ویکسین(OPV) پر امریکہ میں مکمل طور پر پابندی عائد کر رکھی ہے،اور اس کی وجہ امریکی تحفظ صحت ادارے (CDC)نے یہ بتائی ہے کہ پولیو ویکسین کی ان بوندوں میں مردہ پولیو وائرس (ATTENUATED VIRUS) کے ساتھ پولیو کچھ زندہ وائرس بھی پائے گئے ہیں(جو کہ قصداً اس میں شامل کئے گئے ہیں) ۔
اس سے دوسرے صحت مند بچوں کو بھی یہ مرض لگ سکتا ہے۔ اس کے بجائے اس ادارہ نے امریکہ میں پولیو ڈراپس(OPD) پلانے کے بجائے پولیو کی انجکشن لگا نے کی سفارش کی ہے۔ تاکہ پولیو کے پچھلے خطرات کو کم کیا جاسکے۔لیکن اس نئے انجکشن کا خرچ اٹھا نا عوام الناس میں ہر ایک کے بس کی بات نہیں ہے، کیونکہ ایک انجکشن کی قیمت تقریباً پانچ ہزار روپئے ہے۔ظاہر سی بات ہے کہ اتنے مہنگے انجکشن ’’تیسری دنیا‘‘ (یعنی ایشیائی ممالک) کے بچوں کو تو دئے جانے سے قاصر رہے اس لئے عالمی ادار�ۂ صحت (W.H.O.) اور ’’ یونی سیف‘‘ (UNICEF) جیسے یہودی بین الاقوامی اداروں کے ذریعہ امریکی گوداموں میں کروڑوں کی تعداد میں بیکار ٹیری ’’لیڈر لے کمپنی‘‘ مسترد شدہ پولیو ڈراپس کی خوراکیں(OPD) پیکنگ اور لیبل بدل کر دوسری کمپنیوں کے نام سے زبردست پروپیگنڈے کے ذریعہ ایشیائی ممالک میں مفت اور زبردستی پلائی جا رہی ہیں تاکہ غیر یہودی قوموں خصوصاً مسلمانوں کی آئندہ نسلوں کو آپاہیچ بنا کر عالمی داؤدی سلطنت کے ذریعہ یہودی خوابوں کو شرمندۂ تعبیر کیا جا سکے!
ڈاکٹر الین کیمپ بیل لکھتے ہیں کہ پولیو کی ان بوندوں (OPV) کے پینے سے مستقبل میں نئی نسلوں کے پولیو زدہ ہو نے اور ایک خطرناک قسم کے زہریلی جسم کے فالج (PARALITIC POLIO) ہو جانے کا خطرہ بڑھ گیا ہے ۔بہر صورت ہندوستان ،پاکستان،سعودی عرب،مصر،یمن،افغانستان،انڈونسیا،نائجریاو غیرہ کثیر مسلم آبادی والے ملکوں میں ان پولیو ڈراپس(OPD )کو پلا نے کے بعد بھی اچھے خاصے صحت مند بچوں میں اچانک پولیو (POLIO) ہو جانے کے واقعات کے پیچھے یہی حقیقت کار فرما ہے کہ پلائی جانے والی پولیو ڈراپس (OPV) میں موجود ’’زندہ وائرس‘‘ ہی پولیو کے اسباب بن جاتے ہیں۔!!
ایک امریکی صحافی مائیکل ڈورمن نے اس بات کا انکشاف کیا ہے کہ امریکہ ۱۹۶۲ء ؁ سے ۲۰۰۰ء ؁ تک ڈاکٹر ’’جوناس سیلک‘‘ کے ذریعہ بنائے گئے پولیو ویکسین تیس سال کے عرصے میں صرف عیسائی بچوں کو ہی پلائے گئے تھے ،جبکہ امریکہ کے ڈیڑھ فیصد سے بھی کم یہودیوں نے ’’مذہبی اسباب‘‘ کا بہانہ لے کر اپنے بچوں کو پولیو ڈراپس سے پلانے سے انکار کر دیا تھا۔!!
پولیو ڈراپس (OPD) سلسلے میں سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ : یورپ میں ’’میسو تھیلی یو ما کینسر‘‘ (MESOTHELIOMAS CANCER) کے ماہرین میں سے ڈاکٹر ٹیڈ گرنی (DR.TEDGERNEY) جو ایک خطرناک وائرس SV-40 پر ریسرچ کر رہے ہیں ،ان کا دعویٰ ہے کہ یہ وائرس SV-40 انسانوں میں کینسر (CANCER)پھیلنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔اس وائرس کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اتنا خطرناک ہے کہ اگلی نسل انسانی میں بغیر کوئی ٹیکہ یا انجکشن لگائے پیدائشی طور پر مستقل ہو سکتا ہے۔یہ مہلک اور خطرناک ترین وائرس،پولیو ویکسین (OPD) میں پائے جانے کے شوہد ان ہی تجربات کے بعد ملے ہیں اور ان شہادتوں کے بعد کہ پولیو ویکسین(OPD) میں کینسر کا خطرناک جر ثومہ SV-40موجود ہے۔ کینسر کے ان ماہرین کی رپورٹ پر ہی امریکہ کے محکمہ تحفظ صحت(CDC) نے امریکہ میں پولیو ڈراپس پلانے پر مکمل طور پر پابندی عائد کی تھی،مگر’’ یہودی ربی‘‘ کے دباؤ پر اس حکم امتناعی کی وجہ صرف یہ ظاہر کی گئی اس میں کچھ زندہ پولیو کے جراثیم پائے گئے ہیں۔!!
بہرنوع! اس بات میں کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ عالمی محکمہ صحت(W.H.O.) اور یونی سیف(UNICEF) جیسے صیہونی ادارے ایشیائی ملکوں،خصوصاً ہند و پاک میں زبردستی اور مسلسل ’’پولیو ڈراپس‘‘پلا کر ایشیائی قوموں بالخصوص مسلمانوں کے معصوم بچوں کے خون میں SV-40 نامی کینسر کا وائرس اور پولیو کے زندہ جراثیم دانستہ طور پر پہونچا کر ان کی آئندہ نسلوں کو آپاہیج اور تباہ و برباد کر نے پر تلے ہو ئے ہیں۔
جہاں تک ایڈز(AIDS) کے پھیلنے کے ممکنہ خطرات اور امکانات کی بات ہے تو یہ جان لیوا مرض بھی ان صیہونی درندوں کی اپنے دشمنوں(خصوصاً مسلمانوں) کے خلاف حیاتیاتی اسلحوں کی جنگ (BIOLOGICAL WARFARE) کا ایک مہلک ہتھیار ہے، جس کا جر ثومہ(VIRUSES) اصلیت میں لیبار ٹری میں مصنوعی طور پر تیار کیا گیا وائرس(GENETICALLY ENGINEERED VIRUSES) ہے، جس کو HIV کا نام دیا گیا ہے۔ یہ جر ثومہ جس کو پہلے چیچک کے ٹیکوں (SMALL POX VACCINE) کے ذریعہ، اور اب ہیپاٹائٹس بی (HEPATITIS-B) کے ٹیکوں کے ذریعہ WHO کی مدد سے دنیا میں پھیلا یا گیا ہے۔ ۱۱؍مئی ۱۹۷۸ء ؁ کے ’’لنڈن ٹایمز‘‘ میں چھپی رپورٹ کے مطابق افریقی ممالک میں ’’ایڈز‘‘ کی بیماری پھیلنے کی وجہ ۱۹۷۲ء ؁ میں عالمی محکمہ صحت یعنی WHOاور’’یونی سیف‘‘(UNICEF) کے ذریعہ لگائے گئے چیچک کے ٹیکوں(SMALL POX VACCINE) کو اس کا ذمہ دار ٹھہرا یا گیا ہے۔ افریقی بندروں کی ایک مخصوص قسم GREEN MONKEYپر ’’ایڈز‘‘ کے جراثیم پھیلا نے کی ذمہ داری ڈالنا WHO کا ’’سفید جھوٹ‘‘ اور قطعی پروپیگنڈہ ہے ،کیو نکہ بقول ڈاکٹر ڈگلس ایم ڈی بندروں کی ’’جین‘‘(GENE) کی بناوٹ(STRUCTURE) کا تجزیہ (ANALYSIS) بتا تا ہے کہ بندروں کے ذریعہ قدرتی طور پر ایڈز کے وائرس کا انسانوں کے جسم میں داخل ہو نا ممکن ہی نہیں ہے ۔اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل غور ہے کہ ۱۹۷۹ء ؁ میں امریکہ کے مختلف شہروں میں آخر ’’ایڈز‘‘وباکیسے پھیلی؟ کیا وہاں بھی افریقی بندر’’ ایڈز‘‘ پھیلا نے پہونچ گئے تھے۔؟؟ حقیقت یہ ہے اس وقت مختلف امریکی شہروں میں ہم جنسی کی لعنت میں گرفتار مردوں کو دے گئے ہیپا ٹائٹس(HEPATITIS-B VACCINE) کے ٹیکوں کے ذریعہ ہی ’’ایڈز‘‘ وہاں پھیلا تھا۔اس سلسلے میں قابل غور بات یہ ہے کہ W.H.O. اور UNICEFکی رپورٹوں سے پتہ چلتا ہے کہ ہیپا ٹائٹس بی(HEPATITIS-B) جو اب تک دنیا بھر میں پچاس کروڑ سے زائد لوگوں کو لگایا جا چکا ہے،وہ بھی پولیو ڈراپس(OPD) کی طرح صیہونی مملکت’’اسرائیل‘‘ میں8 ہی نہیں لگایا جا تا ہے اور اس پر وہاں مکمل پابندی عائد ہے۔
پولیوڈراپس(OPD) کے بارے میں یہ بات طے شدہ ہے کہ وہ بندروں کے گردوں کے خلیات(CELLS) سے تیار کیا جاتا ہے،جس میں’’STRUCTURE‘‘ ڈی این اے(DNA) اور آر این اے(RNA) پوری طرح موجود ہو تا ہے۔مسلمان ہو نے کی حیثیت سے ہم پر بندر و خنزیر جیسے حرام جانوروں کا نہ صرف گوشت کھانا حرام ہے بلکہ ان کے جسم کے کسی بھی جزء کا اکلاً و شرباً استعمال کرنا بھی شرعی طور پر جائز نہیں ہے۔اس بات کو ہمیں نظر انداز نہ کر نا چاہئے کہ اس کے علاوہ مذکورہ بالا حقائق کے پیشِ نظر جب ہمارے دیرینہ دشمن یہودؔ ، ہماری آئندہ نسلوں کو ناکارہ اور تباہ و برباد کر نے پر تلے ہوئے ہیں تو ہم دانستہ طور پر ان کی اسی مہم میں معاون اور آلہ کار کیوں بنیں؟۔
اگر ہمیں آئندہ نسلوں کا تحفظ اور مستقبل میں مسلمانوں کی بقاء اور ایمان عزیز ہے تو ہمیں ذاتی مفاد اور چند سکوں کے لالچ سے دست بردار ہو کر مسلمانوں کی ’’نسل کشی‘‘ کی اس خطرناک مہم سے دامن کش ہو جانا چاہئے ۔افسوس ناک بات یہ ہے کہ آج ہمارے بہت سے بے روز گار مسلمان نوجوان اور پردہ نشین خواتین ذاتی مفاد اور چند روپیوں کے لالچ میں پولیو(POLIO) کی اس زہریلی مہم کے ورکر بنے ہو ئے ہیں اور گھر گھر جاکر یہ میٹھا زہر(SLOW POISON) مسلمانوں کے معصون بچوں کے حلق میں اتار تے ہو ئے جھجھک تک محسوس نہیں کرتے۔ اور غضب بالائے غضب یہ ہے کہ اب ’’علماء کرام‘‘ کو بھی اس اسلام دشمن اور انسانیت سوز مہم میں استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور بعض علماء اپنی سادہ لوحی اور حقیقت سے لا علمی کی بنا پر اپنے دشمن یہودیوں کی اس ’’جنگی مہم‘‘ میں ان کے معاون اور آلہ کار بنے ہو ئے ہیں ۔حالانکہ قرآن مجید میں وہ حق تعالیٰ کا یہ فرمان برابر پڑھتے اور طلباء عزیز کو پڑھاتے رہتے ہیں:
’’لتجدن اشد الناس عداوۃللذین آمنوا الیھود و الذین اشرکوا ولتجدن أقربھم مودۃ للذین آمنوا الذین قالوا انا نصاریٰ ذالک بان منھم قسیین ورھباناً و انھم لا یستکبرون‘‘۔(المائدہ:۸۲)
’’لوگوں میں مومنوں کا سب سے سخت دشمن تم قوم یہود کو پاؤگے اور ان لوگوں کو جو شرک کر تے ہیں اور مسلمانوں کے لئے نرم گوشہ ان لوگوں کے دلوں میں ہے جو اپنے آپ کو نصاریٰ کہلاتے ہیں۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں درویش اور عبادت گذار لوگ پائے جاتے ہیں اور وہ تکبر نہیں کرتے۔‘‘
کیا ہمارے علماء کرام اور درد مندان ملت اس سلسلے میں اپنی خصوصی توجہ مبذول فرما کر کوئی عملی قدم اٹھا نے کی زحمت گوارہ فرمائیں گے؟۔
 
  • پسند
Reactions: Dua

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
میرے نزدیک اس بارے کچھ نہ کچھ خدشات ضرور موجود ہیں چاہئے انکی نوعیت کسی کے ہاں کم اور کسی کے ہاں زیادہ ہو تو یہ نوعیت میں اختلاف ہونا کوئی اتنی بڑی بات نہیں کہ جس پر ہم دوسرے کو بھی قائل کرنا لازمی سمجھیں پس مجھے اگر اسکی نوعیت زیادہ خطرناک لگتی ہے تو اسکے پہچھے میرے سارے تجربات اور قرآنو سنت کا علم اور دوسری چیزیں ہوں گی اور دوسرے کو اگر اسکی نوعیت کم لگتی ہے تو اسکے پیچھے اسکی یہ ساری معلومات ہوں گی
پس دوسرے کو ہمیں مناسب طریقے سے اپنے خدشات تو بتانے چاہیں مگر یہ نہ ہو کہ ہم یہ کہیں کہ دوسرا بھی ہماری والی نوعیت کو مان لے ایسا تو دین کے مسائل میں بھی اتفاق کبھی نہیں ہوتا تو صلیبی جنگ میں بالکل اتفاق ہونا کیسے ممکن ہے جیسا کہ صلیبی جنگ میں کچھ مسلمان کہتے ہیں کہ امریکہ پر حملہ نہیں کرنا چاہئے تھا اور کچھ اسکے خلاف رائے رکھتے ہیں

ویسے ایک بات اوپر بار بار کی جا رہی ہے کہ خدشہ شاید صرف بچے کم پیدا کرنے کا ہے اور اس میں مشاہدہ نظر نہیں آ رہا کہ بچے کم پیدا ہوتے دیکھے ہوں اس پر میرے ذہن میں ایک سوال ہے کہ
یونیسف کے تحت قطرے پرانے دور میں بھی پلائے جاتے تھے اس وقت اتنا زور نہیں ہوتا تھا اور نہ فنڈ اتنے زیادہ باہر سے آتے تھے
بعد میں یہ جب فنڈ آنا شروع ہوئے اور باہر سے غیر معمولی زور شروع ہوا اور بندوق وغیرہ کا معاملہ شروع ہوا اس وقت سے لے کر بھی تک میرے خیال میں کوئی پولیو کا قطرہ پینے والا باپ یا ماں نہ بنا ہو کہ ہم اسکا رزلٹ دیکھ سکیں کیا ایسا تو نہیں
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

فیض بھائی معذرت کے ساتھ اگر کنورسیشن ہی کرنی ھے تو پھر اپنا مشاہدہ اپنے قلم سے لکھ کر پیش کریں، اخباری تراشہ اور ویڈیو کلپس اگر پیش کرنے ہیں تو لگاتے جائیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک عام ممبر اپنی بات منوانے کے لئے ایسا کرتے ہیں بغیر علم کے جیسے اب آپ نے سوال پوچھنے شروع کر دئے وجہ یہ ھے کہ جو مضامین اپنی زندگی میں مطالعہ کا حصہ نہیں رہے ہوں اس پر تحقیق میں کمزوریاں رہتی ہیں اگر میں نے بھی ایسے اخباری تراشے اور کلپس لگانے شروع کر دئے تو پھر یہ انتاکشری کھیل بن جائے گا اور ہم اپنی بات ایک دوسرے کو نہیں سمجھا پائیں گے کیونکہ گوگل سے ہر قسم کا مواد حرام کو حلال اور حلال کو حرام والا آسانی سے مل جاتا ھے۔

کنعان بھائی ایک سوال اور ہے بشرط فرصت کیا امریکی بچوں کو یہ قطرے پلائے جاتے ہیں یا نہیں اور یہ بھی بتا دیجے گا کہ وہاں کب پابندی لگی تھی؟
میں برطانیہ میں رہتا ہوں امریکہ نہیں اور یہاں بھی بچہ کی پیدائش کے بعد حفاظتی ٹیکے اور ڈوز پلائی جاتی ہیں جیسے پاکستان اور گلف میں اور یقیناً امریکہ میں بھی ایسا ہوتا ہو گا اس فورم میں شائد ایک ہی ممبر رضا بھائی جو امریکہ میں مقیم ہیں وہ بھی اس پر نہیں بتا سکتے کیونکہ وہ ابھی عمر کے اس حصہ میں نہ ہونے کی وجہ سے اس کیٹگری میں نہیں آتے۔

پولیو ڈوز نہ پلانے پر آپ اپنے تجربات کی روشنی میں معلومات فراہم کرتے رہیں میں الگ سے دھاگہ بنا لیتا ہوں کیونکہ اب اخباری کٹنگ شروع ہو گئی ھے، اور ایک بات پر معذرت اگر کوئی بات بری لگی ہو کیونکہ شائد کچھ باتیں پڑھنے میں بری لگتی ہوں مگر لکھنے والے کا ارادہ یا نیت بری نہیں ہوتی۔

والسلام
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
السلام علیکم

فیض بھائی معذرت کے ساتھ اگر کنورسیشن ہی کرنی ھے تو پھر اپنا مشاہدہ اپنے قلم سے لکھ کر پیش کریں، اخباری تراشہ اور ویڈیو کلپس اگر پیش کرنے ہیں تو لگاتے جائیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک عام ممبر اپنی بات منوانے کے لئے ایسا کرتے ہیں بغیر علم کے جیسے اب آپ نے سوال پوچھنے شروع کر دئے وجہ یہ ھے کہ جو مضامین اپنی زندگی میں مطالعہ کا حصہ نہیں رہے ہوں اس پر تحقیق میں کمزوریاں رہتی ہیں اگر میں نے بھی ایسے اخباری تراشے اور کلپس لگانے شروع کر دئے تو پھر یہ انتاکشری کھیل بن جائے گا اور ہم اپنی بات ایک دوسرے کو نہیں سمجھا پائیں گے کیونکہ گوگل سے ہر قسم کا مواد حرام کو حلال اور حلال کو حرام والا آسانی سے مل جاتا ھے۔



میں برطانیہ میں رہتا ہوں امریکہ نہیں اور یہاں بھی بچہ کی پیدائش کے بعد حفاظتی ٹیکے اور ڈوز پلائی جاتی ہیں جیسے پاکستان اور گلف میں اور یقیناً امریکہ میں بھی ایسا ہوتا ہو گا اس فورم میں شائد ایک ہی ممبر رضا بھائی جو امریکہ میں مقیم ہیں وہ بھی اس پر نہیں بتا سکتے کیونکہ وہ ابھی عمر کے اس حصہ میں نہ ہونے کی وجہ سے اس کیٹگری میں نہیں آتے۔

پولیو ڈوز نہ پلانے پر آپ اپنے تجربات کی روشنی میں معلومات فراہم کرتے رہیں میں الگ سے دھاگہ بنا لیتا ہوں کیونکہ اب اخباری کٹنگ شروع ہو گئی ھے، اور ایک بات پر معذرت اگر کوئی بات بری لگی ہو کیونکہ شائد کچھ باتیں پڑھنے میں بری لگتی ہوں مگر لکھنے والے کا ارادہ یا نیت بری نہیں ہوتی۔

والسلام
نہیں کنعان بھائی ایسی کوئی بات نہیں ہم ایک دوسرے سے اللہ کے لیے محبت کرتے ہیں اور یہ بات آپ کی ٹھیک ہے کہ اخباری تراشوں سے کچھ حاصل نہیں ہو گا لیکن کنعان بھائی ہمارے ذرائع بھی یہی ہیں اور جہاں جہاں مشاہدات تھے میں وہ بھی جزوی طور پر لکھتا گیا اور میری معلومات اور مشاہدات کا ماحصل تو یہی ہے کہ یہ ساری مہم شکوک و شبہات کے گہرے پردوں میں چھپی ہوئی ہے یہ بات واضح رہے کہ نہ تو میں اسے حرام کہہ رہا ہوں اور نہ ہی نسل کشی کی مہم اور میری کوشش یہ ہوتی ہے کہ مشکوک امور سے بچوں
اس امر کی اہمیت سے انکار نہیں کہ عمر کے ایک مخصوص حصے میں ان ویکسین کا متبادل ہمارے علاقوں میں بھی پایا جاتا ہے جیسا کہ میرے ابی جی رحمہ اللہ نے ہم سب بہن بھائیوں کو کچلہ مدبر کر کے اس کی آدھے چاول جتنی مقدار وقفوں کے ساتھ کچھ خوراکیں کھلائی تھی بالخصوص میرے دونوں بچے جنہیں ابی جی رحمہ اللہ نے ماں کے دودھ میں مکس کر کے دیا تھا اور میرے دونوں بچوں کو کوئی ویکسین نہیں کروائی کسی بھی قسم کی البتہ پیدائش کے فوری بعد اگر ہسپتال میں کچھ دے دی گئی ہو تو کچھ کہہ نہیں سکتا تو اس کی اہمیت کا منکر نہیں
اور اس کی اہمیت اس وقت اور دوچند ہو جاتی ہے جب ہماری مائیں دبلا ہونے کے غم میں خوراک چھوڑ دیتی ہیں اور نتیجہ ماں بننے کے بعد بچوں کو دودھ سے وہ غذائیت ملتی ہی نہیں جو ملنی چاہیے اور ہمارے بچوں کے بیشتر امراض کی وجہ ہماری مائیں ہیں
یہ ساری باتیں اپنی جگہ پر لیکن اس کا متبادل پولیو ویکسین جیسی مشکوک اور جبری مہم ہرگز نہیں ہو سکتی شاید آپ کے لیے یہ خبر نئی ہو لیکن یہاں ایکساپائرڈ ویکسین بھی استعمال ہوئی ہے۔
اور رپورٹ کرنے کے ارادے کے بعد دھمکیاں اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔
میری کوئی بات بری لگی ہو تو معذرت خواہ ہوں
 

عبدہ

سینئر رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 01، 2013
پیغامات
2,035
ری ایکشن اسکور
1,227
پوائنٹ
425
فیض بھائی معذرت کے ساتھ اگر کنورسیشن ہی کرنی ھے تو پھر اپنا مشاہدہ اپنے قلم سے لکھ کر پیش کریں، اخباری تراشہ اور ویڈیو کلپس اگر پیش کرنے ہیں تو لگاتے جائیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے ایک عام ممبر اپنی بات منوانے کے لئے ایسا کرتے ہیں بغیر علم کے جیسے اب آپ نے سوال پوچھنے شروع کر دئے وجہ یہ ھے کہ جو مضامین اپنی زندگی میں مطالعہ کا حصہ نہیں رہے ہوں اس پر تحقیق میں کمزوریاں رہتی ہیں اگر میں نے بھی ایسے اخباری تراشے اور کلپس لگانے شروع کر دئے تو پھر یہ انتاکشری کھیل بن جائے گا اور ہم اپنی بات ایک دوسرے کو نہیں سمجھا پائیں گے کیونکہ گوگل سے ہر قسم کا مواد حرام کو حلال اور حلال کو حرام والا آسانی سے مل جاتا ھے۔
جزاک اللہ محترم بھائی آپ ک بات اپنی جگہ درست ہو گی البتہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں اس دجالی میڈیا سے ہی کچھ باتوں کو مجبورا لینا پڑتا ہے
مثلا طالبان کے حق اور مخآلفت میں ساری باتیں ہمیں میڈیا سے ہی مل سکتی ہیں ڈائریکٹ رابطہ نہیں ہے تو ہم انہیں دونوں طرح کے تراشوں کو دیکھ کر کچھ حد تک فیصلہ کر سکتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ہے کہ نہیں

محترم بھائی ایک بات بتا دوں کہ میں نے اس پولیو کو پہلے اتنی اہمیت کبھی نہیں دی اور واللہ اپنے سارے بچوں کو ٹیکے لگواتے وقت جب پولیو پلائی گئی تو میں نے اس طرف کوئی خآص توجہ ہی نہیں دی ابھی چھوٹی بچی کو کچھ مہینہ پہلے میں ٹیکہ لگوانے لے گیا تھاتو یہ پلائی گئی تو میں نے اس پر اتنا غور نہیں کیا لیکن اب اوپر بحث پڑھ کر کچھ شکوک و شبہات میرے دل میں بھی کھڑے ہوئے ہیں حالانکہ پہلے یہ جانتا تھا کہ یہود و نصاری ہمارے دوست نہیں ہو سکتے مگر پولیو کے وقت یہ خیال کو زیادہ نہ آ سکا تھا اب ڈر لگ رہا ہے

اب محترم بھائی میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ آپ نے جو دلائل اس کے حق میں دیئے ہیں وہ آپ نے خود تجربہ کر کے دیئے ہیں یا پھر کسی جگہ کی خبر لگائی ہے اگر آپ نے بھی کوئی خبر لگائی ہے تو یہ بات تو درست نہ ہو گی
جہاں تک خدشات کا تعلق ہے وہ خآلی ایک خدشہ نہیں کہ بچے نہ پیدا ہوں اور نہ پیدا ہونے کا بھی نہیں بلکہ کم پیدا ہونے کا ایک خدشہ ہے اور اسکا بھی ابھی تجرباتی چیک ممکن نہیں جیسا کہ اوپر بتایا ہے کہ جب سے بندوق کے زقر پر ایسا کام شروع کیا ہے اس وقت سے کوئی بچہ باپ بننے کے لیول تک نہیں پہنچا
کیونکہ عام ٹیکے تو اور چیزوں کے بھی پہلے لگاتے تھے مگر ان سب میں وہ شدت نہیں ہوتی تھی پس کسی کو خدشہ ہو سکتا ہے کہ جب سے انہوں نے اس سلسلے میں فنڈ دینے شروع کیے اور پھر بندوق کا سارا لیا ہے اس وقت سے ہو سکتا ے انہوں نے دال میں کالا ڈالا ہو
یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہی انجکشن کی قسم کسی امریکی یا برطانیہ کے بچے کو لگانے کی اجازت بھی ہو گی کیونکہ مسئلہ خالی ویکسینیشن کا نہیں بلکہ خاص اس انجکشن کے لگوانے کا ہے جو ان امریکیوں نے ہی ہمیں دیا ہے اگر ہماری حکومت خود کہیں سے وہ ویکسینیشن لے کر استعمال کرے تو معاملہ کا رخ بدل سکتا ہو
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
جزاک اللہ محترم بھائی آپ ک بات اپنی جگہ درست ہو گی البتہ ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہمیں اس دجالی میڈیا سے ہی کچھ باتوں کو مجبورا لینا پڑتا ہے
مثلا طالبان کے حق اور مخآلفت میں ساری باتیں ہمیں میڈیا سے ہی مل سکتی ہیں ڈائریکٹ رابطہ نہیں ہے تو ہم انہیں دونوں طرح کے تراشوں کو دیکھ کر کچھ حد تک فیصلہ کر سکتے ہیں کہ دال میں کچھ کالا ہے کہ نہیں

محترم بھائی ایک بات بتا دوں کہ میں نے اس پولیو کو پہلے اتنی اہمیت کبھی نہیں دی اور واللہ اپنے سارے بچوں کو ٹیکے لگواتے وقت جب پولیو پلائی گئی تو میں نے اس طرف کوئی خآص توجہ ہی نہیں دی ابھی چھوٹی بچی کو کچھ مہینہ پہلے میں ٹیکہ لگوانے لے گیا تھاتو یہ پلائی گئی تو میں نے اس پر اتنا غور نہیں کیا لیکن اب اوپر بحث پڑھ کر کچھ شکوک و شبہات میرے دل میں بھی کھڑے ہوئے ہیں حالانکہ پہلے یہ جانتا تھا کہ یہود و نصاری ہمارے دوست نہیں ہو سکتے مگر پولیو کے وقت یہ خیال کو زیادہ نہ آ سکا تھا اب ڈر لگ رہا ہے

اب محترم بھائی میں یہ نہیں سمجھ سکا کہ آپ نے جو دلائل اس کے حق میں دیئے ہیں وہ آپ نے خود تجربہ کر کے دیئے ہیں یا پھر کسی جگہ کی خبر لگائی ہے اگر آپ نے بھی کوئی خبر لگائی ہے تو یہ بات تو درست نہ ہو گی
جہاں تک خدشات کا تعلق ہے وہ خآلی ایک خدشہ نہیں کہ بچے نہ پیدا ہوں اور نہ پیدا ہونے کا بھی نہیں بلکہ کم پیدا ہونے کا ایک خدشہ ہے اور اسکا بھی ابھی تجرباتی چیک ممکن نہیں جیسا کہ اوپر بتایا ہے کہ جب سے بندوق کے زقر پر ایسا کام شروع کیا ہے اس وقت سے کوئی بچہ باپ بننے کے لیول تک نہیں پہنچا
کیونکہ عام ٹیکے تو اور چیزوں کے بھی پہلے لگاتے تھے مگر ان سب میں وہ شدت نہیں ہوتی تھی پس کسی کو خدشہ ہو سکتا ہے کہ جب سے انہوں نے اس سلسلے میں فنڈ دینے شروع کیے اور پھر بندوق کا سارا لیا ہے اس وقت سے ہو سکتا ے انہوں نے دال میں کالا ڈالا ہو
یہاں یہ بھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہی انجکشن کی قسم کسی امریکی یا برطانیہ کے بچے کو لگانے کی اجازت بھی ہو گی کیونکہ مسئلہ خالی ویکسینیشن کا نہیں بلکہ خاص اس انجکشن کے لگوانے کا ہے جو ان امریکیوں نے ہی ہمیں دیا ہے اگر ہماری حکومت خود کہیں سے وہ ویکسینیشن لے کر استعمال کرے تو معاملہ کا رخ بدل سکتا ہو
عبدہ بھائی میں نے بلکہ میرے گھر میں کسی بچے کو یہ ویکسین نہیں کروائی گئی کہ میں شروع سے یعنی آج سے 18 سال پہلے جب میرے بھائی کے گھر بیٹا پیدا ہوا تو اس وقت سے یہ سوچ موجود تھی کہ یہ ویکسین مشکوک ہے
میرے والد صاحب نے کنگ ایڈروڈ کالج سے 1970 میں ایم بی بی ایس کیا تھا اور طویل عرصہ مشہور اداروں اور ڈاکٹروں کے ساتھ رابطے میں رہے ان کی کیا تحقیق تھی میں نہیں جانتا لیکن انہوں نے ہمیں سختی سے منع کیا ہوا تھا کہ کسی بھی قسم کی ویکسین نہیں کروانی بالخصوص پولیو ۔
یہ تو ہے میرا ذاتی تجربہ اور جہاں تک بات ہے مشاہدہ کی تو جتنے قرائن اور شواہد اس حوالے سے مل رہے ہیں وہ سب اسے مشکوک ہی بنا رہے ہیں۔
دنیا کے کون سے ممالک کو اس ویکسین کے حوالے سے ھدف بنایا گیا ہے؟
امریکہ میں اس ویکسین پر 2000 میں پابندی لگا دی گئی تھی اور بعد میں انجیکشن کے ذریعے شروع کی گئی اور وہ بھی بہت محدود پیمانے پر (اخباری اطلاع کے مطابق)
مغربی ممالک کے بچوں کو پیدائش کے بعد کون سی ویکسین کروائی جاتی ہے اس سوال کے جواب کے اندر ہمارے بہت سے شکوک و شبہات حل ہو جائیں گے۔
اور اگر آپ مجھے جذباتی ہونے کی اجازت دیں تو کہہ سکتا ہوں کہ ایک طرف ہمارے بچے بھوک سے مر رہے ہیں ، صاف پانی میسر نہیں، خوراک ناپید، سرگودھا، تھر مٹھی وغیرہ اور اسی طرح بے شمار مقامات شیر خوار بچے بھوک اور پیاس سے دم توڑ رہے ہوں ، کہیں ڈرون، تو کہیں بم دھماکے، علاج معالجے کی سہولیات صرف ایک مخصوص طبقے کے لیے باقی کسی بھی سول اور جنرل ہسپتال کے مناظر دیکھ لیں، تعلیم کے نام پر کاروبار اور تجارتی مراکز، علم کے نام پر ڈگریاں فروخت کی جا رہی ہیں تو ایسے میں
پولیو ویکسین کی مہم رینجرز اور پولیس کی حفاظت میں ؟
یہ ایک بہت بڑا سوال ہے ہو سکتا ہے یہ محض سوال ہی ہو لیکن میں اس پر کبھی بھی نہیں مان سکتا کہ اقوام متحدہ جس کا قیام ہی مسلمان امت کی تباہی اور بربادی کے لیے ہوا ہو وہ ایک طرف تو افغانستان، عراق، شام، برما میں شیر خوار بچوں کی سنگدلانہ اور وحشیانہ ہلاکتوں پر خاموش ہو اور ہمارے بچوں کی صحت کے بارے میں اتنی فکر مند ہے نا یہ اس صدی کا سب سے بڑا لطیفہ؟
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207

پاکستان کے شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخوا کی پولیس نے ایسے تقریبا پانچ سو والدین کو گرفتا کر لیا ہے، جنہوں نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کر دیا تھا۔

پیر کے روز پاکستانی حکام نے بتایا ہے کہ شمال مغربی صوبے خیبر پختونخوا میں 471 والدین کو اپنے بچوں کو پولیو ویکسین پلوانے سے انکار پر حراست میں لے لیا گیا ہے۔ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور میں کے ڈپٹی کمشنر ریاض خان محسود کے مطابق ان والدین کو جیل بھجوا دیا گیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستان دنیا کے ان تین ممالک میں سے ایک ہے، جہاں پولیو کی متعدی بیماری موجود ہے۔ کئی برسوں کی کوشش کے باوجود پاکستان میں اس بیماری کا خاتمہ ممکن نہیں ہو سکا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ملک میں والدین کی جانب سے اپنے بچوں کو یہ ویکسین پلانے سے انکار ہے جب کہ پولیو ٹیموں پر عسکریت پسندوں کے حملے بھی اس جانب کسی مثبت پیش رفت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق پاکستان میں اس وائرس کے سب سے زیادہ واقعات خیبر پختونخوا اور قبائلی علاقوں میں رپورٹ ہوتے ہیں۔ پیر کے روز اسی صوبے میں پولیو ویکسینیشن کی مہم شروع کی گئی، جس کے تحت صوبے بھر میں دو اعشاریہ سات ملین سے زائد بچوں کو یہ ویکسین دی جانا ہے۔

محسود نے بتایا کہ گزشتہ برس حکومت کی جانب سے پولیس کے خلاف ’’جنگ‘‘ کا اعلان کیا جا چکا ہے اور اس صورت حال میں والدین کی جانب سے انکار قبول نہیں کیا جائے گا، ’’اس سلسلے میں کسی کو معافی نہیں ملے گی۔ ہم نے طے کیا ہے کہ انکار کرنے والوں سے ہم آہنی ہاتھوں سے نمٹیں گے اور انہیں جیل بھیجا جائے گا۔‘‘

خیال رہے کہ پیر کے روز اپنے بچوں کو ویکسین پلانے سے انکار کے والے والدین کو پشاور کے اس مضافاتی علاقے سے حراست میں لیا گیا، جہاں اس سے قبل عسکریت پسند پولیو ٹیموں پر متعدد حملے کر چکے ہیں، جب کہ اس علاقے میں اس ویکسینیشن کے خلاف خاصی مخالفت پائی جاتی ہے۔

دوسری جانب یہ تجویز بھی دی جا رہی ہے کہ والدین کو گرفتار کرنے کی بجائے بچوں کے اسکول میں داخلے کے لیے پولیو سرٹیفیکیٹ لازمی قرار دیا جائے۔ یہ اعلان کر دیا جائے کہ صرف انہی والدین کے بچوں کو اسکول داخل کیا جائے گا، جو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوا چکے ہیں۔
 
Top