• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سےتبرک (مباحثہ )

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
السلام و علیکم -
محترم -


جہاں تک امام احمد بن حنبل رح کا تعلق ہے تو ممکن ہے میرے دل میں آپ لوگوں سے زیادہ ان کا احترام ہو - لیکن محترم وہ عالم و امتی تھے - نبیوں کی طرح معصوم نہیں تھے کہ ان سے غلطی ہونا محال ہو - ،میرا حسن زن یہ بھی کہتا ہے کہ ممکن ہے کہ انہوں نے اپنے عقیدے سے رجوع کرلیا ہو -

لیکن انتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میرے یہ متشدد اہل سلف بھائی جنھیں امام حنبل رح کے نظریہ پر تنقید کی وجہ سے تکلیف ہو رہی ہے -جب ان کا حنفیوں سے بحث و مباحثہ ہوتا ہے تو امام ابو حنیفہ رح کو کذاب تک کا لقب دے ڈالتے ہیں - اور امام احمد بن حنبل رح کے صرف ایک غلط نظریے پر کوئی انگلی اٹھاے تو کہتے ہیں کہ یہ امام کے گستاخ ہیں- ایسے امام پر انگلی اٹھا رہے ہیں کہ جس کے عقیدے سے رو گردانی کرنا ان پر بہتان ہے -آخر یہ کس منہ سے ابو حنیفہ رح اور ان کی کی تقلید پر تنقید کے صفحے سیاہ کرتے ہیں - ؟؟؟ کیا یہ انصاف کا تقاضہ ہے - کہ اک امام غلطی کرے تو اس کی تنقید پر پورا زور ہو اور دوسرا امام غلطی کرے تو اس کے بارے میں کچھ بیان کرنا گناہ کبیرہ ہو جائے -؟؟ جتنا میں حنفیت کا مخالف ہوں شاید ہی اتنا سلفی بھائیوں میں سے کوئی ہو - لیکن انصاف کا تقاضہ یہی تھا کہ ہر اک کی علمیت کو ایک ہی ترازو میں تولا جاتا

مزید یہ کہ انبیاءکا قبروں میں زندہ ہونا اگر کوئی بریلوی کہے توفورا اس کی تنقیص کی جاتی ہے -اور اگر یہی نظریہ اک معزز امام کا ہو جو یہ کہے کہ واقعہ کربلا کے دنوں میں نبی کریم صل الله علیہ و آ له وسلم کی قبرمبارک سے اذان کی آواز آتی تھی تو اس نظریہ پر کوئی تنقید کرنا جائز نہیں ؟؟

الله سے یہی دعا ہے ہم سب کو کہ اپنی سیدھی راہ پر قائم کرے (آمین )



میں بھی یہاں ایک حوالہ دیتا ہوں - اگر یہ کام بریلوی کریں تو توفورا اس کی تنقیص کی جاتی ہے- اور اگر یہی نظریہ اک معزز امام کا ہو اس نظریہ پر کوئی تنقید کرنا جائز نہیں ؟؟

الله سے یہی دعا ہے ہم سب کو کہ اپنی سیدھی راہ پر قائم کرے (آمین )



سیر اعلام النبلاء --- احمد بن عثمان الذہبی --- احمد بن حنبل نبی صلی الله علیہ وسلم کے بال سے شفاء حاصل کرتے تھے



bal say shifa ahmed bin humble.jpg


ترجمہ : عبد الله بن احمد فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے والد (احمد بن حنبل) کو دیکھا کہ آپ نبی صلی الله علیہ وسلم کا ایک بال تھامے ہوۓ ہیں ، اس کو اپنے ہونٹوں پر رکھ کر بوسہ دے رہے ہیں - میرا خیال ہے کہ میں نے یہ بھی دیکھا کہ آپ نے اس کو آنکھوں پر رکھا پانی میں ڈبویا اور شفاء حاصل کرنے کے لئے اس کو پی لیا - میں نے یہ بھی دیکھا کہ آپ نے نبی صلی الله علیہ وسلم کا پیالہ لیا اولوں کے پانی سے اس کو دھویا اور اس سے پانی نوش فرمایا - میں نے آپکو طلبِ شفاء کے لئے زمزم پیتے اور اس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں کو تر کرتے ہوۓ دیکھا - ذہبی فرماتے ہیں: احمد کی ذات میں غلو کرنے والے اور آپ پر نکیر کرنے والے کہاں ہیں؟ حالانکہ صحیح سند سے یہ بات معلوم ہو چکی ہے کہ عبد الله نے اپنے والد (احمد بن حنبل) سے اس شخص کے متعلق دریافت کیا ، جو نبی صلی الله علیہ وسلم کے منبر کی لکڑی کو ہاتھ لگائے اور حجرہ کو بوسہ دے؟ تو آپ نے جواب دیا: میں اس میں کوئی گناہ نہیں سمجھتا (ذہبی نے فرمایا) الله ہم کو اور تم لوگوں کو خوارج کے نظریہ اور بدعات سے محفوظ رکھے -

لیکن جب یہی کام بریلوی کریں تو یہ انہیں بدعتی کہتے ہیں-

نتہائی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ میرے یہ متشدد اہل سلف بھائی جنھیں امام حنبل رح کے نظریہ پر تنقید کی وجہ سے تکلیف ہو رہی ہے -جب ان کا حنفیوں سے بحث و مباحثہ ہوتا ہے تو امام ابو حنیفہ رح کو کذاب تک کا لقب دے ڈالتے ہیں - اور امام احمد بن حنبل رح کے صرف ایک غلط نظریے پر کوئی انگلی اٹھاے تو کہتے ہیں کہ یہ امام کے گستاخ ہیں- ایسے امام پر انگلی اٹھا رہے ہیں کہ جس کے عقیدے سے رو گردانی کرنا ان پر بہتان ہے -آخر یہ کس منہ سے ابو حنیفہ رح اور ان کی کی تقلید پر تنقید کے صفحے سیاہ کرتے ہیں - ؟؟؟ کیا یہ انصاف کا تقاضہ ہے - کہ اک امام غلطی کرے تو اس کی تنقید پر پورا زور ہو اور دوسرا امام غلطی کرے تو اس کے بارے میں کچھ بیان کرنا گناہ کبیرہ ہو جائے -؟؟ - لیکن انصاف کا تقاضہ یہی تھا کہ ہر اک کی علمیت کو ایک ہی ترازو میں تولا جاتا

مجھے بہت دکھ ہوا کہ ہم پر طرح طرح کے فتویٰ لگے - لیکن الله کو معلوم ہے کہ ہمارے دلوں میں کیا ہے - الله ہم سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرما دے - آمین
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
آثار رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک لینا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں؛اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
آثار رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے تبرک لینا جائز ہے اس میں کوئی حرج نہیں؛اہل حدیث کا یہی مذہب ہے۔

kapray sya tabarak.jpg


أبو بكر بن شاذان : حدثنا أبو عيسى أحمد بن يعقوب ، حدثتني فاطمة بنت أحمد بن حنبل ، قالت : وقع الحريق ، في بيت أخي صالح ، وكان ، قد تزوح بفتية ، فحملوا إليه جهازا شبيها بأربعة آلاف دينار ، فأكلته النار فجعل صالح يقول : ما غمني ما ذهب إلا ثوب لأبي . كان يصلي فيه أتبرك به وأصلي فيه . قالت : فطفئ الحريق ، ودخلوا فوجدوا الثوب على سرير قد أكلت النار ما حوله وسلم


ذہبی احمد بن حنبل کی صاحبزادی فاطمہ سے نقل کرتے ہیں کہ:

ترجمہ : ایک مرتبہ میرے بھائی کے گھر میں آگ لگ گئی ، ایک دوشیزہ سے ان کا نکاح ہوا تھا ، سسرال والوں نے انہیں بہت سا سامان دیا تھا ، جس کی لاگت تقریباً چار ہزار دینار تھی ، جس کو آگ نے جلا کر خاکستر کر دیا - صالح کہنے لگے: سامان کے چلے جانے کا مجھے غم نہیں سوائے ابا جان کے کپڑے کے جس میں وہ نماز پڑھتے تھے ، میں اس سے برکت حاصل کرتا اور اس میں نماز پڑھتا تھا - فاطمہ فرماتی ہیں کہ: آگ بجھی اور لوگ گھر میں داخل ہوۓ ، تو انہوں نے تخت پر اس کپڑے کو پایا ، آگ اس کے اطراف کی تمام چیزوں کو کھا گئی مگر وہ کپڑا محفوظ تھا -

(سیر اعلام النبلاء ، جلد ١١ ، صفحہ ٢٣٠)

اطراف کی تمام چیزیں جل گئیں لیکن وہ چیز جسے آگ سب سے پہلے پکڑتی ہے ، محفوظ رہ گیا اور جس تخت پر وہ کپڑا رکھا تھا شاید اسی وجہ سے بج گیا کہ وہ کپڑا احمد بن حنبل کا تھا - اور پھر وفات شدہ انسان کے کپڑوں سے برکت حاصل کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟


@حافظ طاہر اسلام عسکری بھائی کل یہاں بھی کہہ دینا کہ یہ بھی اہلحدیث کا مذہب ہے


 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256


أبو بكر بن شاذان : حدثنا أبو عيسى أحمد بن يعقوب ، حدثتني فاطمة بنت أحمد بن حنبل ، قالت : وقع الحريق ، في بيت أخي صالح ، وكان ، قد تزوح بفتية ، فحملوا إليه جهازا شبيها بأربعة آلاف دينار ، فأكلته النار فجعل صالح يقول : ما غمني ما ذهب إلا ثوب لأبي . كان يصلي فيه أتبرك به وأصلي فيه . قالت : فطفئ الحريق ، ودخلوا فوجدوا الثوب على سرير قد أكلت النار ما حوله وسلم


ذہبی احمد بن حنبل کی صاحبزادی فاطمہ سے نقل کرتے ہیں کہ:

ترجمہ : ایک مرتبہ میرے بھائی کے گھر میں آگ لگ گئی ، ایک دوشیزہ سے ان کا نکاح ہوا تھا ، سسرال والوں نے انہیں بہت سا سامان دیا تھا ، جس کی لاگت تقریباً چار ہزار دینار تھی ، جس کو آگ نے جلا کر خاکستر کر دیا - صالح کہنے لگے: سامان کے چلے جانے کا مجھے غم نہیں سوائے ابا جان کے کپڑے کے جس میں وہ نماز پڑھتے تھے ، میں اس سے برکت حاصل کرتا اور اس میں نماز پڑھتا تھا - فاطمہ فرماتی ہیں کہ: آگ بجھی اور لوگ گھر میں داخل ہوۓ ، تو انہوں نے تخت پر اس کپڑے کو پایا ، آگ اس کے اطراف کی تمام چیزوں کو کھا گئی مگر وہ کپڑا محفوظ تھا -

(سیر اعلام النبلاء ، جلد ١١ ، صفحہ ٢٣٠)

اطراف کی تمام چیزیں جل گئیں لیکن وہ چیز جسے آگ سب سے پہلے پکڑتی ہے ، محفوظ رہ گیا اور جس تخت پر وہ کپڑا رکھا تھا شاید اسی وجہ سے بج گیا کہ وہ کپڑا احمد بن حنبل کا تھا - اور پھر وفات شدہ انسان کے کپڑوں سے برکت حاصل کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟


@حافظ طاہر اسلام عسکری بھائی کل یہاں بھی کہہ دینا کہ یہ بھی اہلحدیث کا مذہب ہے


رسول اللہ ﷺ لے علاوہ دیگر صالحین کے آثار سے تبرک کا مسئلہ اختلافی ہے؛بعض جواز کے قائل ہیں لیکن صحیح یہی ہے کہ یہ صرف نبی اکرم ﷺ سے خاص ہے دیگر لوگوں کے آثار سے تبرک لینا درست نہیں کیوں کہ صحابہ سے ثابت نہیں کہ انھوں نے آں حضور ﷺ کے علاوہ کسی شخص کے آثار سے یہ معاملہ کیا ہو جب کہ ان میں سیدنا صدیق اکبر ؓ اور دیگر اکابر ہستیاں موجود تھیں؛واللہ اعلم
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
جہاں تک پیارے نبی ﷺ کے آثار سے تبرک کامسئلہ ہے
تو یہ سلف سے ثابت ہے ۔ہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ آپ یا کسی اور لکھنوی اردو خوان محقق کے علم میں نہیں
صحیح مسلم مندرجہ ذیل حدیث دیکھیں اور کمینٹس عالیہ زیب رقم فرمائیں
عرق النبي.jpg
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
جہاں تک پیارے نبی ﷺ کے آثار سے تبرک کامسئلہ ہے
تو یہ سلف سے ثابت ہے ۔ہاں یہ علیحدہ بات ہے کہ آپ یا کسی اور لکھنوی اردو خوان محقق کے علم میں نہیں
صحیح مسلم مندرجہ ذیل حدیث دیکھیں اور کمینٹس عالیہ زیب رقم فرمائیں
9771 اٹیچمنٹ کو ملاحظہ فرمائیں
نبی علیہ السلام کی نہ ہی یہ تعلیمات تھیں اور نہ ہی نبی صلی الله علیہ وسلم نے "تبرک" سے متعلق کوئی حکم ارشاد فرمایا کہ میری وفات کے بعد میرے بالوں اور جوتیوں سے تبرک حاصل کرنا اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں صحابہ کرام رضی الله عنہم کا یہ عمل ملتا ہے - یہ تبرک کیا ہوتا ہے؟ (ہم دیکھتے ہیں کہ بریلویوں ، دیوبندیوں اور صوفیوں [کیا میں کہوں کہ اہلحدیث بھی شامل ہیں] کے اندر یہ اصطلاح خاص پائی جاتی ہے- اگر آپ کے پاس کوئی صحیح حدیث ہو تو پیش کیجئے - جس میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا ہو کہ میری وفات کے بعد میرے بالوں اور جوتیوں سے تبرک حاصل کرنا -

کیا یہ بھی تبرک ہے جو احمد بن حمبل رحم الله کی صاحبزادی فاطمہ بیان کر رہی ہیں -


kapray sya tabarak.jpg



أبو بكر بن شاذان : حدثنا أبو عيسى أحمد بن يعقوب ، حدثتني فاطمة بنت أحمد بن حنبل ، قالت : وقع الحريق ، في بيت أخي صالح ، وكان ، قد تزوح بفتية ، فحملوا إليه جهازا شبيها بأربعة آلاف دينار ، فأكلته النار فجعل صالح يقول : ما غمني ما ذهب إلا ثوب لأبي . كان يصلي فيه أتبرك به وأصلي فيه . قالت : فطفئ الحريق ، ودخلوا فوجدوا الثوب على سرير قد أكلت النار ما حوله وسلم


ذہبی احمد بن حنبل رحم الله کی صاحبزادی فاطمہ سے نقل کرتے ہیں کہ:

ترجمہ : ایک مرتبہ میرے بھائی کے گھر میں آگ لگ گئی ، ایک دوشیزہ سے ان کا نکاح ہوا تھا ، سسرال والوں نے انہیں بہت سا سامان دیا تھا ، جس کی لاگت تقریباً چار ہزار دینار تھی ، جس کو آگ نے جلا کر خاکستر کر دیا - صالح کہنے لگے: سامان کے چلے جانے کا مجھے غم نہیں سوائے ابا جان کے کپڑے کے جس میں وہ نماز پڑھتے تھے ، میں اس سے برکت حاصل کرتا اور اس میں نماز پڑھتا تھا - فاطمہ فرماتی ہیں کہ: آگ بجھی اور لوگ گھر میں داخل ہوۓ ، تو انہوں نے تخت پر اس کپڑے کو پایا ، آگ اس کے اطراف کی تمام چیزوں کو کھا گئی مگر وہ کپڑا محفوظ تھا -

(سیر اعلام النبلاء ، جلد ١١ ، صفحہ ٢٣٠)

اطراف کی تمام چیزیں جل گئیں لیکن وہ چیز جسے آگ سب سے پہلے پکڑتی ہے ، محفوظ رہ گیا اور جس تخت پر وہ کپڑا رکھا تھا شاید اسی وجہ سے بج گیا کہ وہ کپڑا احمد بن حنبل رحم الله کا تھا - اور پھر وفات شدہ انسان کے کپڑوں سے برکت حاصل کرنا کیا معنی رکھتا ہے؟
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
کل کہیں ایسا نہ ہو کہ @اسحاق سلفی بھائی امام صاحب کی اندھی تقلید میں منبر النبی کو تبرک کے لئے چھونا اور قبر نبوی کو تقرب الہی کے لئے بوسہ دینے کو بھی جائز قرار دے دیں -

qabr rasool sali allah wasalam.jpg



سَأَلته عَن الرجل يمس مِنْبَر النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ويتبرك بمسه ويقبله وَيفْعل بالقبر مثل ذَلِك أَو نَحْو هَذَا يُرِيد بذلك التَّقَرُّب إِلَى الله جلّ وَعز فَقَالَ لَا بَأْس بذلك


ترجمہ : عبد الله بن احمد کہتے ہیں کہ میرے والد سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص منبر النبی صلی الله علیہ وسلم کو تبرک کے لئے چھوئے اور قبر نبوی صلی الله علیہ وسلم کو تقرب الٰہی کی خاطر بوسہ دیتا ہے آپ کیا کہتے ہیں احمد بن حنبل نے کہا: اس نے کچھ بھی غلط نہیں کیا -

(العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله ، جلد ٢ ، صفحہ ٤٩٢ ، رقم ٣٢٤٣)

اب صحیح حدیث @اسحاق بھائی کے ذمہ ہے جس میں حضور صلی الله وسلم نے حکم دیا ہو کہ مرنے کے بعد میری قبر کو چھو کر یا بوسہ دے کر تبرک حاصل کیا جا ے -
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,589
پوائنٹ
791
اوپر میں صحیح مسلم کی حدیث نقل کی تھی ۔کہ ایک صحابیہ نے بڑی عقیدت ومحبت سے اپنے محبوب نبی ﷺ کا پسینہ مبارک محفوظ کیا تھا
اور اللہ کے حبیب ﷺ نے اپنی زبان نبوت سے اس کی تصویب فرمائی تھی ۔
عن أنس بن مالك، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يدخل بيت أم سليم فينام على فراشها، وليست فيه، قال: فجاء ذات يوم فنام على فراشها، فأتيت فقيل لها: هذا النبي صلى الله عليه وسلم نام في بيتك، على فراشك، قال فجاءت وقد عرق، واستنقع عرقه على قطعة أديم، على الفراش، ففتحت عتيدتها فجعلت تنشف ذلك العرق فتعصره في قواريرها، ففزع النبي صلى الله عليه وسلم فقال: «ما تصنعين؟ يا أم سليم» فقالت: يا رسول الله نرجو بركته لصبياننا، قال: «أصبت»
باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینہ مبارک سے تبرک کا بیان۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ام سلیم کے گھر میں جاتے اور ان کے بچھونے پر سو رہتے، اور وہ گھر میں نہیں ہوتیں تھیں ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور ان کے بچھونے پر سو رہے۔ لوگوں نے انہیں بلا کر کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے گھر میں تمہارے بچھونے پر سو رہے ہیں، یہ سن کر وہ آئیں دیکھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسینہ آیا ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ چمڑے کے بچھونے پر جمع ہو گیا ہے۔ ام سلیم نے اپنا ڈبہ کھولا اور یہ پسینہ پونچھ پونچھ کر شیشوں میں بھرنے لگیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اچانک اٹھ بیٹھے اور فرمایا کہ اے ام سلیم! کیا کرتی ہے؟ انہوں نے کہا کہ یا رسول اللہ! ہم اپنے بچوں کے لئے اس مبارک پسینے سےبرکت کی امید رکھتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم نے ٹھیک کیا۔ ۔ صحیح مسلم (2331)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دیکھئے فعل ہے صحابیہ کا اور اس کےصحیح ہونے کی تصدیق امام الانبیاء ﷺ کر رہے ہیں ۔
اب اگر جہل مرکب کے شکار لکھنوی مقلد کو علم نہیں یا سمجھ نہیں ۔تو قصور کس کا ؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
انبیاء کی بچی کچھی چیزوں سے تبرک لینا کتاب وسنت سے ثابت ہے اور اس کا انکار کوئی غبی اور جاہل ہی کر سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٤٨
لیکن اس میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ پہلے یہ ثابت ہو جائے کہ یہ نبی یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق چیز ہے۔
 
Top