• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سےتبرک (مباحثہ )

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
دیکھئے فعل ہے صحابیہ کا اور اس کےصحیح ہونے کی تصدیق امام الانبیاء ﷺ کر رہے ہیں ۔
اب اگر جہل مرکب کے شکار لکھنوی مقلد کو علم نہیں یا سمجھ نہیں ۔تو قصور کس کا ؟

نبی علیہ السلام کی نہ ہی یہ تعلیمات تھیں اور نہ ہی نبی صلی الله علیہ وسلم نے "تبرک" سے متعلق کوئی حکم ارشاد فرمایا کہ میری وفات کے بعد میرے بالوں اور جوتیوں سے تبرک حاصل کرنا اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں صحابہ کرام رضی الله عنہم کا یہ عمل ملتا ہے - یہ تبرک کیا ہوتا ہے؟ (ہم دیکھتے ہیں کہ بریلویوں ، دیوبندیوں اور صوفیوں [کیا میں کہوں کہ اہلحدیث بھی شامل ہیں] کے اندر یہ اصطلاح خاص پائی جاتی ہے- اگر آپ کے پاس کوئی صحیح حدیث ہو تو پیش کیجئے - جس میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا ہو کہ میری وفات کے بعد میرے بالوں اور جوتیوں سے تبرک حاصل کرنا -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
نبی علیہ السلام کی نہ ہی یہ تعلیمات تھیں اور نہ ہی نبی صلی الله علیہ وسلم نے "تبرک" سے متعلق کوئی حکم ارشاد فرمایا کہ میری وفات کے بعد میرے بالوں اور جوتیوں سے تبرک حاصل کرنا اور نہ ہی کسی صحیح حدیث میں صحابہ کرام رضی الله عنہم کا یہ عمل ملتا ہے - یہ تبرک کیا ہوتا ہے؟ (ہم دیکھتے ہیں کہ بریلویوں ، دیوبندیوں اور صوفیوں [کیا میں کہوں کہ اہلحدیث بھی شامل ہیں] کے اندر یہ اصطلاح خاص پائی جاتی ہے- اگر آپ کے پاس کوئی صحیح حدیث ہو تو پیش کیجئے - جس میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے حکم دیا ہو کہ میری وفات کے بعد میرے بالوں اور جوتیوں سے تبرک حاصل کرنا -
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کرنے کا حکم

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار مثال کے طور پر مسجد نبوی کے در و دیوار وغیرہ سے تبرک حاصل کرنے کا کیا حکم ہے؟

الحمد للہ:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاتا تھا، مثال کے طور پر آپکے وضو کا پانی، آپ کے کپڑے، کھانے پینے کی اشیاء، الغرض آپکی ہر چیز سے، پھر عباسی خلفاء اور انکے بعد عثمانی خلفاء نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کو تبرک کے طور پر محفوظ کیا ہوا تھا، خاص طور پر اس سے جنگوں میں تبرک حاصل کرتے۔

اسی طرح جس چیز سے آپکا جسد مبارک لگا ہو، جیسے وضوکا پانی ، پسینہ، بال وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا بھی صحابہ کرام اور صحابہ کرام کے شاگردوں کے ہاں خیر و برکت کی وجہ سے ایک جائز اور معروف کام تھا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انکے اس عمل کو برقرار رکھا۔


جبکہ مسجد الحرام یا مسجد نبوی کے در و دیوار اور کھڑکیوں وغیرہ کو تبرکاً ہاتھ لگانا بدعت ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لئے یہ کام چھوڑ دینا ضروری ہے، کیونکہ عبادات توقیفی ہوتی ہیں، چنانچہ وہی عبادت کی جاسکتی ہے جسے شریعت جائز قرار دے،اسکی دلیل فرمانِ رسالت: (ہمارے دین میں ایسی نئی بات ایجاد کی گئی جو دین میں نہیں تھی وہ مردود ہوگی)اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے، اور مسلم کی ایک روایت میں ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں معلق بالفاظِ جزم بیان کیا ہے: (جو کوئی ایسا عمل کرے جس کے کرنے کا حکم ہماری طرف سے نہیں تھا، تو وہ مردود ہوگا)

صحیح مسلم ہی میں اور جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ وہ کہتے ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن اپنے خطبہ میں کہا کرتے تھے: (حمد وصلاۃ کے بعد: بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین راہنمائی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے) اس بارے میں بہت زیادہ احادیث ہیں، چنانچہ مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی شریعت پر پابند رہیں، مثلاً: حجر اسود کا استلام اور بوسہ دینا، اور رکن یمانی کا صرف استلام کرنا۔

اسی لئے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے جب حجرِ اسود کو بوسہ دیا تو فرمانے لگے:

(میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے، نا نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان، اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا میں کبھی بھی تیرا بوسہ نہ لیتا)

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کعبہ کے دیگر کونوں ، دیواروں، ستونوں کا استلام کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نہیں کیا، اور نہ ہی اسکے بارے میں راہنمائی فرمائی ہے، وجہ یہ ہے کہ یہ شرک کے وسائل میں سے ہے۔

جبکہ حجرہ نبویہ کی دیواروں، کھڑکیوں، ستونوں اور دیواروں کو چھونا تو بالاولی ناجائز ہوگا کیونکہ آپ نے اسکی اجازت نہیں دی، اور نہ ہی اس کام کیلئے راہنمائی فرمائی ہے، پھر آپکے صحابہ نے بھی یہ کام نہیں کیا.

ماخوذ از كتاب: "مجموع فتاوى ومقالات متنوعة لسماحة الشيخ العلامة عبد العزيز بن عبد الله بن باز رحمہ اللہ : ( 9/106)

http://islamqa.info/ur/10045
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کرنے کا حکم

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار مثال کے طور پر مسجد نبوی کے در و دیوار وغیرہ سے تبرک حاصل کرنے کا کیا حکم ہے؟

الحمد للہ:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاتا تھا، مثال کے طور پر آپکے وضو کا پانی، آپ کے کپڑے، کھانے پینے کی اشیاء، الغرض آپکی ہر چیز سے، پھر عباسی خلفاء اور انکے بعد عثمانی خلفاء نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کو تبرک کے طور پر محفوظ کیا ہوا تھا، خاص طور پر اس سے جنگوں میں تبرک حاصل کرتے۔

اسی طرح جس چیز سے آپکا جسد مبارک لگا ہو، جیسے وضوکا پانی ، پسینہ، بال وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا بھی صحابہ کرام اور صحابہ کرام کے شاگردوں کے ہاں خیر و برکت کی وجہ سے ایک جائز اور معروف کام تھا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انکے اس عمل کو برقرار رکھا۔


جبکہ مسجد الحرام یا مسجد نبوی کے در و دیوار اور کھڑکیوں وغیرہ کو تبرکاً ہاتھ لگانا بدعت ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لئے یہ کام چھوڑ دینا ضروری ہے، کیونکہ عبادات توقیفی ہوتی ہیں، چنانچہ وہی عبادت کی جاسکتی ہے جسے شریعت جائز قرار دے،اسکی دلیل فرمانِ رسالت: (ہمارے دین میں ایسی نئی بات ایجاد کی گئی جو دین میں نہیں تھی وہ مردود ہوگی)اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے، اور مسلم کی ایک روایت میں ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں معلق بالفاظِ جزم بیان کیا ہے: (جو کوئی ایسا عمل کرے جس کے کرنے کا حکم ہماری طرف سے نہیں تھا، تو وہ مردود ہوگا)

صحیح مسلم ہی میں اور جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ وہ کہتے ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن اپنے خطبہ میں کہا کرتے تھے: (حمد وصلاۃ کے بعد: بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین راہنمائی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے) اس بارے میں بہت زیادہ احادیث ہیں، چنانچہ مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی شریعت پر پابند رہیں، مثلاً: حجر اسود کا استلام اور بوسہ دینا، اور رکن یمانی کا صرف استلام کرنا۔

اسی لئے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے جب حجرِ اسود کو بوسہ دیا تو فرمانے لگے:

(میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے، نا نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان، اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا میں کبھی بھی تیرا بوسہ نہ لیتا)

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کعبہ کے دیگر کونوں ، دیواروں، ستونوں کا استلام کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نہیں کیا، اور نہ ہی اسکے بارے میں راہنمائی فرمائی ہے، وجہ یہ ہے کہ یہ شرک کے وسائل میں سے ہے۔

جبکہ حجرہ نبویہ کی دیواروں، کھڑکیوں، ستونوں اور دیواروں کو چھونا تو بالاولی ناجائز ہوگا کیونکہ آپ نے اسکی اجازت نہیں دی، اور نہ ہی اس کام کیلئے راہنمائی فرمائی ہے، پھر آپکے صحابہ نے بھی یہ کام نہیں کیا.

ماخوذ از كتاب: "مجموع فتاوى ومقالات متنوعة لسماحة الشيخ العلامة عبد العزيز بن عبد الله بن باز رحمہ اللہ : ( 9/106)

http://islamqa.info/ur/10045


qabr rasool sali allah wasalam.jpg



سَأَلته عَن الرجل يمس مِنْبَر النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ويتبرك بمسه ويقبله وَيفْعل بالقبر مثل ذَلِك أَو نَحْو هَذَا يُرِيد بذلك التَّقَرُّب إِلَى الله جلّ وَعز فَقَالَ لَا بَأْس بذلك


ترجمہ : عبد الله بن احمد کہتے ہیں کہ میرے والد سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص منبر النبی صلی الله علیہ وسلم کو تبرک کے لئے چھوئے اور قبر نبوی صلی الله علیہ وسلم کو تقرب الٰہی کی خاطر بوسہ دیتا ہے آپ کیا کہتے ہیں احمد بن حنبل نے کہا: اس نے کچھ بھی غلط نہیں کیا -

(العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله ، جلد ٢ ، صفحہ ٤٩٢ ، رقم ٣٢٤٣)


صحیح حدیث پیش کریں جس میں حضور صلی الله وسلم نے حکم دیا ہو کہ مرنے کے بعد میری قبر کو چھو کر یا بوسہ دے کر تبرک حاصل کیا جا ے -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069



سَأَلته عَن الرجل يمس مِنْبَر النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ويتبرك بمسه ويقبله وَيفْعل بالقبر مثل ذَلِك أَو نَحْو هَذَا يُرِيد بذلك التَّقَرُّب إِلَى الله جلّ وَعز فَقَالَ لَا بَأْس بذلك


ترجمہ : عبد الله بن احمد کہتے ہیں کہ میرے والد سے ایک شخص نے پوچھا کہ اگر کوئی شخص منبر النبی صلی الله علیہ وسلم کو تبرک کے لئے چھوئے اور قبر نبوی صلی الله علیہ وسلم کو تقرب الٰہی کی خاطر بوسہ دیتا ہے آپ کیا کہتے ہیں احمد بن حنبل نے کہا: اس نے کچھ بھی غلط نہیں کیا -

(العلل ومعرفة الرجال لأحمد رواية ابنه عبد الله ، جلد ٢ ، صفحہ ٤٩٢ ، رقم ٣٢٤٣)


صحیح حدیث پیش کریں جس میں حضور صلی الله وسلم نے حکم دیا ہو کہ مرنے کے بعد میری قبر کو چھو کر یا بوسہ دے کر تبرک حاصل کیا جا ے -
میرے بھائی میں نے اس پوسٹ میں کیا عقیدہ پیش کیا ہے جو آپ نے مجھے کہا ہے پہلے آُپ پورا پڑھیں

صحیح حدیث پیش کریں جس میں حضور صلی الله وسلم نے حکم دیا ہو کہ مرنے کے بعد میری قبر کو چھو کر یا بوسہ دے کر تبرک حاصل کیا جا ے -

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کرنے کا حکم

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار مثال کے طور پر مسجد نبوی کے در و دیوار وغیرہ سے تبرک حاصل کرنے کا کیا حکم ہے؟

الحمد للہ:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاتا تھا، مثال کے طور پر آپکے وضو کا پانی، آپ کے کپڑے، کھانے پینے کی اشیاء، الغرض آپکی ہر چیز سے، پھر عباسی خلفاء اور انکے بعد عثمانی خلفاء نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کو تبرک کے طور پر محفوظ کیا ہوا تھا، خاص طور پر اس سے جنگوں میں تبرک حاصل کرتے۔

اسی طرح جس چیز سے آپکا جسد مبارک لگا ہو، جیسے وضوکا پانی ، پسینہ، بال وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا بھی صحابہ کرام اور صحابہ کرام کے شاگردوں کے ہاں خیر و برکت کی وجہ سے ایک جائز اور معروف کام تھا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انکے اس عمل کو برقرار رکھا۔


جبکہ مسجد الحرام یا مسجد نبوی کے در و دیوار اور کھڑکیوں وغیرہ کو تبرکاً ہاتھ لگانا بدعت ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لئے یہ کام چھوڑ دینا ضروری ہے، کیونکہ عبادات توقیفی ہوتی ہیں، چنانچہ وہی عبادت کی جاسکتی ہے جسے شریعت جائز قرار دے،اسکی دلیل فرمانِ رسالت: (ہمارے دین میں ایسی نئی بات ایجاد کی گئی جو دین میں نہیں تھی وہ مردود ہوگی)اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے، اور مسلم کی ایک روایت میں ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں معلق بالفاظِ جزم بیان کیا ہے: (جو کوئی ایسا عمل کرے جس کے کرنے کا حکم ہماری طرف سے نہیں تھا، تو وہ مردود ہوگا)


صحیح مسلم ہی میں اور جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ وہ کہتے ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن اپنے خطبہ میں کہا کرتے تھے: (حمد وصلاۃ کے بعد: بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین راہنمائی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے) اس بارے میں بہت زیادہ احادیث ہیں، چنانچہ مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی شریعت پر پابند رہیں، مثلاً: حجر اسود کا استلام اور بوسہ دینا، اور رکن یمانی کا صرف استلام کرنا۔


اسی لئے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے جب حجرِ اسود کو بوسہ دیا تو فرمانے لگے:

(میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے، نا نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان، اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا میں کبھی بھی تیرا بوسہ نہ لیتا)

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کعبہ کے دیگر کونوں ، دیواروں، ستونوں کا استلام کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نہیں کیا، اور نہ ہی اسکے بارے میں راہنمائی فرمائی ہے، وجہ یہ ہے کہ یہ شرک کے وسائل میں سے ہے۔

جبکہ حجرہ نبویہ کی دیواروں، کھڑکیوں، ستونوں اور دیواروں کو چھونا تو بالاولی ناجائز ہوگا کیونکہ آپ نے اسکی اجازت نہیں دی، اور نہ ہی اس کام کیلئے راہنمائی فرمائی ہے، پھر آپکے صحابہ نے بھی یہ کام نہیں کیا.

ماخوذ از كتاب: "مجموع فتاوى ومقالات متنوعة لسماحة الشيخ العلامة عبد العزيز بن عبد الله بن باز رحمہ اللہ : ( 9/106)

http://islamqa.info/ur/10045
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
انبیاء کی بچی کچھی چیزوں سے تبرک لینا کتاب وسنت سے ثابت ہے اور اس کا انکار کوئی غبی اور جاہل ہی کر سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
وَقَالَ لَهُمْ نَبِيُّهُمْ إِنَّ آيَةَ مُلْكِهِ أَن يَأْتِيَكُمُ التَّابُوتُ فِيهِ سَكِينَةٌ مِّن رَّبِّكُمْ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ آلُ مُوسَىٰ وَآلُ هَارُونَ تَحْمِلُهُ الْمَلَائِكَةُ ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لَّكُمْ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿٢٤٨
لیکن اس میں اصل مسئلہ یہ ہے کہ پہلے یہ ثابت ہو جائے کہ یہ نبی یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق چیز ہے۔
جب نبیﷺ سے ”متعلق“کوئی ”چیز“ ثابت ہی نہیں تو ”تبرک لینے“کی بحث ہی” بیکار “ہے۔ ہاں یہ ”علمی“نہیں بلکہ ” جذباتی“بحث کا ” محور“ضرور ہے۔اور ”جذبات“سے ”دین“ثابت نہیں ہوتا۔
 

lovelyalltime

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 28، 2012
پیغامات
3,735
ری ایکشن اسکور
2,899
پوائنٹ
436
میرے بھائی میں نے اس پوسٹ میں کیا عقیدہ پیش کیا ہے جو آپ نے مجھے کہا ہے پہلے آُپ پورا پڑھیں

صحیح حدیث پیش کریں جس میں حضور صلی الله وسلم نے حکم دیا ہو کہ مرنے کے بعد میری قبر کو چھو کر یا بوسہ دے کر تبرک حاصل کیا جا ے -

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کرنے کا حکم

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار مثال کے طور پر مسجد نبوی کے در و دیوار وغیرہ سے تبرک حاصل کرنے کا کیا حکم ہے؟

الحمد للہ:

نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آثار سے تبرک حاصل کیا جاتا تھا، مثال کے طور پر آپکے وضو کا پانی، آپ کے کپڑے، کھانے پینے کی اشیاء، الغرض آپکی ہر چیز سے، پھر عباسی خلفاء اور انکے بعد عثمانی خلفاء نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لباس کو تبرک کے طور پر محفوظ کیا ہوا تھا، خاص طور پر اس سے جنگوں میں تبرک حاصل کرتے۔

اسی طرح جس چیز سے آپکا جسد مبارک لگا ہو، جیسے وضوکا پانی ، پسینہ، بال وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا بھی صحابہ کرام اور صحابہ کرام کے شاگردوں کے ہاں خیر و برکت کی وجہ سے ایک جائز اور معروف کام تھا، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی انکے اس عمل کو برقرار رکھا۔

جبکہ مسجد الحرام یا مسجد نبوی کے در و دیوار اور کھڑکیوں وغیرہ کو تبرکاً ہاتھ لگانا بدعت ہے، اس کی کوئی دلیل نہیں ہے، اس لئے یہ کام چھوڑ دینا ضروری ہے، کیونکہ عبادات توقیفی ہوتی ہیں، چنانچہ وہی عبادت کی جاسکتی ہے جسے شریعت جائز قرار دے،اسکی دلیل فرمانِ رسالت: (ہمارے دین میں ایسی نئی بات ایجاد کی گئی جو دین میں نہیں تھی وہ مردود ہوگی)اس حدیث کی صحت پر سب کا اتفاق ہے، اور مسلم کی ایک روایت میں ہے جسے امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح میں معلق بالفاظِ جزم بیان کیا ہے: (جو کوئی ایسا عمل کرے جس کے کرنے کا حکم ہماری طرف سے نہیں تھا، تو وہ مردود ہوگا)


صحیح مسلم ہی میں اور جابر رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث میں ہے کہ وہ کہتے ہیں :

نبی صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے دن اپنے خطبہ میں کہا کرتے تھے: (حمد وصلاۃ کے بعد: بہترین بات اللہ کی کتاب ہے اور بہترین راہنمائی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام بدعات ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے) اس بارے میں بہت زیادہ احادیث ہیں، چنانچہ مسلمانوں کیلئے ضروری ہے کہ وہ اللہ کی شریعت پر پابند رہیں، مثلاً: حجر اسود کا استلام اور بوسہ دینا، اور رکن یمانی کا صرف استلام کرنا۔


اسی لئے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے صحیح ثابت ہے کہ انہوں نے جب حجرِ اسود کو بوسہ دیا تو فرمانے لگے:

(میں جانتا ہوں کہ تو پتھر ہے، نا نفع دے سکتا ہے اور نہ ہی نقصان، اگر میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تجھے بوسہ دیتے ہوئے نہ دیکھا ہوتا میں کبھی بھی تیرا بوسہ نہ لیتا)

اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کعبہ کے دیگر کونوں ، دیواروں، ستونوں کا استلام کرنا جائز نہیں ہے، کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے نہیں کیا، اور نہ ہی اسکے بارے میں راہنمائی فرمائی ہے، وجہ یہ ہے کہ یہ شرک کے وسائل میں سے ہے۔

جبکہ حجرہ نبویہ کی دیواروں، کھڑکیوں، ستونوں اور دیواروں کو چھونا تو بالاولی ناجائز ہوگا کیونکہ آپ نے اسکی اجازت نہیں دی، اور نہ ہی اس کام کیلئے راہنمائی فرمائی ہے، پھر آپکے صحابہ نے بھی یہ کام نہیں کیا.

ماخوذ از كتاب: "مجموع فتاوى ومقالات متنوعة لسماحة الشيخ العلامة عبد العزيز بن عبد الله بن باز رحمہ اللہ : ( 9/106)

http://islamqa.info/ur/10045
آپ کے پیش کردہ فتویٰ کی روشنی میں کیا امام احمد بن حمبل رحم الله کی اولاد نے غلط کیا - یا امام ذہبی رحم الله نے غلط لکھا -



أبو بكر بن شاذان : حدثنا أبو عيسى أحمد بن يعقوب ، حدثتني فاطمة بنت أحمد بن حنبل ، قالت : وقع الحريق ، في بيت أخي صالح ، وكان ، قد تزوح بفتية ، فحملوا إليه جهازا شبيها بأربعة آلاف دينار ، فأكلته النار فجعل صالح يقول : ما غمني ما ذهب إلا ثوب لأبي . كان يصلي فيه أتبرك به وأصلي فيه . قالت : فطفئ الحريق ، ودخلوا فوجدوا الثوب على سرير قد أكلت النار ما حوله وسلم


ذہبی احمد بن حنبل رحم الله کی صاحبزادی فاطمہ سے نقل کرتے ہیں کہ:

ترجمہ : ایک مرتبہ میرے بھائی کے گھر میں آگ لگ گئی ، ایک دوشیزہ سے ان کا نکاح ہوا تھا ، سسرال والوں نے انہیں بہت سا سامان دیا تھا ، جس کی لاگت تقریباً چار ہزار دینار تھی ، جس کو آگ نے جلا کر خاکستر کر دیا - صالح کہنے لگے: سامان کے چلے جانے کا مجھے غم نہیں سوائے ابا جان کے کپڑے کے جس میں وہ نماز پڑھتے تھے ، میں اس سے برکت حاصل کرتا اور اس میں نماز پڑھتا تھا - فاطمہ فرماتی ہیں کہ: آگ بجھی اور لوگ گھر میں داخل ہوۓ ، تو انہوں نے تخت پر اس کپڑے کو پایا ، آگ اس کے اطراف کی تمام چیزوں کو کھا گئی مگر وہ کپڑا محفوظ تھا -
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
جب نبیﷺ سے ”متعلق“کوئی ”چیز“ ثابت ہی نہیں تو ”تبرک لینے“کی بحث ہی” بیکار “ہے۔ ہاں یہ ”علمی“نہیں بلکہ ” جذباتی“بحث کا ” محور“ضرور ہے۔اور ”جذبات“سے ”دین“ثابت نہیں ہوتا۔
الحمد للہ:

سب علماء کے نزدیک متفقہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں یا پسینے وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے، کیونکہ اس کے بارے میں دلائل موجود ہیں۔

چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرے کو کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی نحر کرنے کے بعد سر منڈوایا تو نائی کی طرف اپنی دائی طرف کی تو اس نے آپکی دائیں طرف سے بال مونڈ دیئے، پھر آپ نے ابو طلحہ انصاری کو بلایا اور اپنے بال انہیں دے دیئے، پھر نائی کی طرف اپنی بائیں جانب کی اور فرمایا: (مونڈ دو) تو اس نے آپکے بال استرے سے اتار دیئے اور آپ نے یہ بال بھی ابو طلحہ کو دیکر فرمایا: (انہیں لوگوں میں تقسیم کردو)

مسلم (1305)

اسی طرح انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام سلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے "نطع" چمڑے کی ایک شیٹ بچھاتی تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پرقیلولہ فرماتے، چنانچہ جب آپ سو جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ اور بال ایک شیشی میں جمع کرتیں، اور پھر اُسے ایک "سُک"خوشبو میں ملا دیتی تھی، (ثمامہ بن عبد اللہ بن انس) کہتے ہیں کہ جب انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ میری میت کو لگائی جانے والی خوشبو میں اسے ضرور شامل کرنا، تو آپکو لگائی گئی خوشبو میں اسے ملا دیا گیا۔

بخاری (6281)
 

T.K.H

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 05، 2013
پیغامات
1,123
ری ایکشن اسکور
330
پوائنٹ
156
الحمد للہ:

سب علماء کے نزدیک متفقہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں یا پسینے وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے، کیونکہ اس کے بارے میں دلائل موجود ہیں۔

چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرے کو کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی نحر کرنے کے بعد سر منڈوایا تو نائی کی طرف اپنی دائی طرف کی تو اس نے آپکی دائیں طرف سے بال مونڈ دیئے، پھر آپ نے ابو طلحہ انصاری کو بلایا اور اپنے بال انہیں دے دیئے، پھر نائی کی طرف اپنی بائیں جانب کی اور فرمایا: (مونڈ دو) تو اس نے آپکے بال استرے سے اتار دیئے اور آپ نے یہ بال بھی ابو طلحہ کو دیکر فرمایا: (انہیں لوگوں میں تقسیم کردو)

مسلم (1305)

اسی طرح انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام سلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے "نطع" چمڑے کی ایک شیٹ بچھاتی تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پرقیلولہ فرماتے، چنانچہ جب آپ سو جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ اور بال ایک شیشی میں جمع کرتیں، اور پھر اُسے ایک "سُک"خوشبو میں ملا دیتی تھی، (ثمامہ بن عبد اللہ بن انس) کہتے ہیں کہ جب انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ میری میت کو لگائی جانے والی خوشبو میں اسے ضرور شامل کرنا، تو آپکو لگائی گئی خوشبو میں اسے ملا دیا گیا۔

بخاری (6281)
کیا”تبرک لینا“کوئی ایسا”عمل“ہے جس پر ”نجات“کا دارومدار ہو ؟ اگر ”نہیں“اور یقینا نہیں ،تو ”لوگوں“کو ”تبرک “کے ”بھنور“ میں پھنسانے کی آخر کیا ”ضرورت“ہے؟ لوگوں کو ”قرآن“سے ”تبرک“لینے کی دعوت دیجئے نہ کہ کسی اور ”تبرک“سےجو ”ثابت “ بھی نہ ہو۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
جب نبیﷺ سے ”متعلق“کوئی ”چیز“ ثابت ہی نہیں تو ”تبرک لینے“کی بحث ہی” بیکار “ہے۔ ہاں یہ ”علمی“نہیں بلکہ ” جذباتی“بحث کا ” محور“ضرور ہے۔اور ”جذبات“سے ”دین“ثابت نہیں ہوتا۔
کوئی اپنا جملہ ہے تو وہ شیئر کریں۔ جذبات سے دین ثابت نہیں ہوتا؟ بہت معروف جملہ ہے۔ اور جس کا ہے وہ بھی معروف ہے۔ اور جس نے ان سے آگے لیا ہے، وہ بھی معروف ہیں۔ یہ ایک جملہ آپ کے سارے ذہنی پس منظر اور فکری سانچے کا عکاس ہے۔ آپ کے حق میں یہی دعا کی جا سکتی ہے اللہ تعالی آپ کو اہل حدیث کا منہج عطا فرمائے۔

ایسے لوگوں سے اب بہت تشویش ہونے لگی ہے جو اپنے گمراہ کن اور بدعتی افکار اہل حدیث کا لیبل لگا کر پیش کرنے لگے ہیں۔ اگر یہ اہل حدیث کا لیبل نہ لگائیں تو شاید ہی ان کو کوئی پوچھے لیکن اہل حدیث کا لیبل لگا کر جب یہ ایسی بحثیں کرتے ہیں تو ایسے ہی محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کسی پانی کے چشمے کو آلودہ کرنے کی کوئی سازشی مہم شروع کی گئی ہو۔

بھئی خداراہ، اپنے نظریات جنہیں آپ حق سمجھتے ہیں، ضرور بیان کریں لیکن انہیں کسی مکتب فکر کے کھاتے میں مت ڈالیں۔ اپنی آزاد امیداوار کی حیثیت سے بیان کریں۔ اگر آپ اپنے ذاتی نظریات کو اہل حدیث کے لیبل سے بیان کریں گے تو اس سے وہی شدید رد عمل جنم لے گا جو قادیانیوں کے اپنے آپ کو مسلمان قرار دیتے ہوئے اپنے افکار بیان کرنے سے پیدا ہوا۔

آپ کا جو بھی مسلک یا مکتب فکر ہے، وہ آپ کو مبارک ہو لیکن ایسا تاثر نہیں ملنا چاہیے کہ آپ فکر اہل حدیث کے نمائندہ یا ان میں سے ایک ہیں۔
 
Last edited:
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,800
پوائنٹ
1,069
کیا”تبرک لینا“کوئی ایسا”عمل“ہے جس پر ”نجات“کا دارومدار ہو ؟ اگر ”نہیں“اور یقینا نہیں ،تو ”لوگوں“کو ”تبرک “کے ”بھنور“ میں پھنسانے کی آخر کیا ”ضرورت“ہے؟ لوگوں کو ”قرآن“سے ”تبرک“لینے کی دعوت دیجئے نہ کہ کسی اور ”تبرک“سےجو ”ثابت “ بھی نہ ہو۔
لوگوں کو ”قرآن“سے ”تبرک“لینے کی دعوت دیجئے نہ کہ کسی اور ”تبرک“سےجو ”ثابت “ بھی نہ ہو۔

حیرت ہے مجھے ان لوگوں پر جنھوں نے اس پوسٹ کی ریٹنگ پر زبردست پر کلک کیا ہے آج مکمل طور پر واضح ہو گیا کہ آپ لوگ منکر حدیث ہے


Thread:

خلیل الرحمن جاوید صاحب کا نبی صلی الله علیہ وسلم پر جھوٹ یا سچ فیصلہ اسحاق سلفی بھائی کریں گے

زبردست x 2

محمد علی جوادlovelyalltime

جب کے صحیح حدیث سے ثابت ہے

الحمد للہ:


سب علماء کے نزدیک متفقہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں یا پسینے وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے، کیونکہ اس کے بارے میں دلائل موجود ہیں۔


چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرے کو کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی نحر کرنے کے بعد سر منڈوایا تو نائی کی طرف اپنی دائی طرف کی تو اس نے آپکی دائیں طرف سے بال مونڈ دیئے، پھر آپ نے ابو طلحہ انصاری کو بلایا اور اپنے بال انہیں دے دیئے، پھر نائی کی طرف اپنی بائیں جانب کی اور فرمایا: (مونڈ دو) تو اس نے آپکے بال استرے سے اتار دیئے اور آپ نے یہ بال بھی ابو طلحہ کو دیکر فرمایا: (انہیں لوگوں میں تقسیم کردو)

مسلم (1305)


اسی طرح انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام سلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے "نطع" چمڑے کی ایک شیٹ بچھاتی تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پرقیلولہ فرماتے، چنانچہ جب آپ سو جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ اور بال ایک شیشی میں جمع کرتیں، اور پھر اُسے ایک "سُک"خوشبو میں ملا دیتی تھی، (ثمامہ بن عبد اللہ بن انس) کہتے ہیں کہ جب انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ میری میت کو لگائی جانے والی خوشبو میں اسے ضرور شامل کرنا، تو آپکو لگائی گئی خوشبو میں اسے ملا دیا گیا۔

بخاری (6281)


 
Top