لوگوں کو ”قرآن“سے ”تبرک“لینے کی دعوت دیجئے نہ کہ کسی اور ”تبرک“سےجو ”ثابت “ بھی نہ ہو۔
حیرت ہے مجھے ان لوگوں پر جنھوں نے اس پوسٹ کی ریٹنگ پر زبردست پر کلک کیا ہے آج مکمل طور پر واضح ہو گیا کہ آپ لوگ منکر حدیث ہے
Thread:
خلیل الرحمن جاوید صاحب کا نبی صلی الله علیہ وسلم پر جھوٹ یا سچ فیصلہ اسحاق سلفی بھائی کریں گے
زبردست x 2
محمد علی جوادlovelyalltime
جب کے صحیح حدیث سے ثابت ہے
الحمد للہ:
سب علماء کے نزدیک متفقہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالوں یا پسینے وغیرہ سے تبرک حاصل کرنا جائز ہے، کیونکہ اس کے بارے میں دلائل موجود ہیں۔
چنانچہ انس بن مالک رضی اللہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جمرے کو کنکریاں ماریں اور اپنی قربانی نحر کرنے کے بعد سر منڈوایا تو نائی کی طرف اپنی دائی طرف کی تو اس نے آپکی دائیں طرف سے بال مونڈ دیئے، پھر آپ نے ابو طلحہ انصاری کو بلایا اور اپنے بال انہیں دے دیئے، پھر نائی کی طرف اپنی بائیں جانب کی اور فرمایا: (مونڈ دو) تو اس نے آپکے بال استرے سے اتار دیئے اور آپ نے یہ بال بھی ابو طلحہ کو دیکر فرمایا: (انہیں لوگوں میں تقسیم کردو)
مسلم (1305)
اسی طرح انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ام سلیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کیلئے "نطع" چمڑے کی ایک شیٹ بچھاتی تھیں، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پرقیلولہ فرماتے، چنانچہ جب آپ سو جاتے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پسینہ اور بال ایک شیشی میں جمع کرتیں، اور پھر اُسے ایک "سُک"خوشبو میں ملا دیتی تھی، (ثمامہ بن عبد اللہ بن انس) کہتے ہیں کہ جب انس رضی اللہ عنہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو انہوں نے وصیت کی کہ میری میت کو لگائی جانے والی خوشبو میں اسے ضرور شامل کرنا، تو آپکو لگائی گئی خوشبو میں اسے ملا دیا گیا۔
بخاری (6281)
السلام و علیکم -
میرے نزدیک ان صحیح احادیث نبوی سے زیادہ سے زیادہ یہی بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی حد تک تو ان تبرکات کا استمعال جائز تھا -کیوں کہ صحابہ کرام نے ان تبرکات کا استمعال نبی کریم سے اپنی فطری محبت کے تحت کیا تھا - دنیاوی و اخروی فائدے حاصل کرنے کے لئے نہیں کیا تھا - کیوں کہ وہ بھی یہ بات اچھی طرح جانتے تھے کہ نفع و نقصان کا ملک صرف الله کی ذات ہے یہ بے جان چیزیں نہیں - ورنہ حضرت عمر رضی الله عنہ حجر اسود کو بوسہ دیتے وقت یہ نہ کہتے کہ "م
یں جانتا ہوں کہ تو صرف ایک پتھر ہے- میں تیرے اندر کسی نفع و نقصان کی تاثیر نہیں پاتا- میں تجھے صرف اس بنا پر بوسہ دیتا ہوں کہ میں نے اپنے نبی کو تجھے بوسہ دیتے دیکھا" - یعنی صرف سنّت نبوی کے طور پراس کو بوسہ دیتا ہوں -
دوسری بات یہ کہ وہ لوگ (صحابہ کرام رضوان الله اجمعین) اچھی طرح جانتے تھا کہ فلاں چیز نبی کریم صل اللہ علیہ و آ لہ وسلم کے زیر استمعال رہی ہے-جب کہ آج کل کے دور میں اس قسم کا ثبوت پیش کرنا کہ واقعی فلاں چیز نبی کریم نے استمعال کی آسان نہیں-اور ہمارا دین ظنیات پر قائم نہیں ہے- بالفرض اگرکسی روایت کی رو سے یہ یقینی ہو کہ فلاں چیز نبی کریم کے استمعال میں رہی ہے تب بھی آج اس سے تبرک حاصل کرنا جائز نہیں- کیوں کہ اس سے لوگوں کا شرک و بدعت کی طرف راغب ہونے کا خطرہ بہت زیادہ ہو جاتا ہے- صرف ان چیزوں کی تعظیم جائز ہے جس کا حکم نبی کریم نے خود دیا - جیسا کہ حرم کعبہ و حجر اسود وغیرہ
یہاں پر ایک حدیث بھی پیش کردوں جس کا مفہوم ہے کہ ایک صحابی رسول نے نبی کریم سے فرمایا کہ ہم نے اہل فارس و اہل روم کو اپنے بادشاہوں کو سجدہ کرتے دیکھا ہے - جب کہ آپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم کی ہستی اس بات کی زیادہ حق دار ہے کہ اس کو سجدہ کیا جائے - اس پر آپ صل الله علیہ و آ له وسلم نے فرمایا کہ جب میں وفات پا جاؤں گا تو کیا تم میری قبر پر سجدہ کرنے آؤ گے ؟؟؟ صحابی رسول نے نفی میں جواب دیا - توآپ صل الله علیہ و آ لہ وسلم نے فرمایا کہ پھر میری زندگی میں بھی مجھے سجدہ جائز نہیں - سجدہ صرف الله کے لئے ہے- اگر کسی کو غیرالله کے لئے سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں- (متفق علیہ)