• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پینٹ شرٹ یا اسلامی لباس مگر کونسا؟

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
فتاوى الإسلام سؤال وجواب (1 / 5668) لمحمد صالح المنجد
وهذا الذي قلناه هو مقتضى مدلول هذه الكلمة ، وقد صرَّح بمثله صاحب "فتح الباري" حيث قال (10/272) : " وقد كره بعض السلف لبس البرنس ؛ لأنَّهُ كان من لباسِ الرهبانِ ، وقد سئل مالكٌ عنه فقال : لا بأس به ، قيل : فإنَّهُ من
لبوس النصارى ، قال : كان يلبس ههنا " انتهى . قلت : لو استدلَّ مالك بقول النبي صلى الله عليه وسلم حين سئل ما يلبس المحرم ؟ فقال : ( لا يلبس القميص ولا السراويل ولا البرانس ... ) لكان أولى .
وفي "الفتح" أيضاً (10/307) : " وإن قلنا النهي عنها ( أي : عن المياثر الأرجوان ) من أجل التشبُّه بالأعاجم : فهو لمصلحة دينية ، لكن كان ذلك شعارهم حينئذ وهم كفار ، ثم لما لم يصر الآن يختص بشعارهم زال ذلك المعنى ، فتزول الكراهة ، والله أعلم " انتهى .
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
سئل الشيخ الدكتور سليمان بن سليم الله الرحيلي - حفظه الله - بعد إحدى الدروس :
ما هو الضابط في التشبه بالكفار ؟
فأجاب :


الضابط للتشبه بالكفار (أن يفعل الإنسان فعلًا لا يفعله إلا الكفار لا بمقتضى الإنسانية) ، انتبهوا لهذه الضوابط ، (لا يفعله إلا الكفار) فيُخرج ما يفعله الكفار وغيرهم ، فإذا كان هذا الفعل يفعله الكفار وغيرهم ؛ فإنه لا يكون تشبهًا ، ومن ذلك - فيما يظهر لي أنا والله أعلم - لبس السروايل أو ما يسمى في هذه الأيام بالبناطيل للرجال - إذا لم يكن البنطال ضيقًا ولا شفافًا - فإن لبسه ليس تشبهًا ، لأن هذا لا يختص به الكفار ، بل يلبسه الكفار وغير الكفار من القديم ، وكان يسمى قديما عند العرب بالسراويل.
وأقول : (مالا يفعله إلا الكفار بغير مقتضى الإنسانية) فإذا كان يفعلونه بمقتضى الإنسانية فإنه لا بأس أن نأخذه عنهم ، مثلًا : السيارات ، السيارات اختُرعت عند الكفار ، ويركبون السيارات بمقتضى حاجة الإنسان إلى ركوبها ، فنأخذ عنهم السيارات ، ونركب السيارات ، هذا بمقتضى الإنسانية ، هذا ليس من باب التشبه ، لكن إذا كان الفعل لا يفعله إلا الكفار ، ويفعلونه بغير مقتضى الإنسانية ، مثل بعض الألبسة الخاصة بهم ، يمثِّل العلماء بطاقية اليهود مثلا ، أو في الألبسة - أنا فيما يظهر لي والله أعلم - أن ما يسمى بالكرفتة من هذا الباب ، من الألبسة الخاصة بالكفار التي يفعلها الكفار ، بل قرأت في بعض الكتب التي تؤرخ لهم أن هذه الكرفتة إنما هي مكان الصليب ، حيث كانوا يضعون في رقابهم صليبًا كبيرًا من خشب أو نحوه ، فلما تمدنوا وثقل عليهم ذلك وضعوا ما يسمى بالفوونكا أو نحوها التي تكون لها وردة طويلة ثم حبل من أسفل ، ثم طوروه إلى ما سموه بالكرفتة ، ويشترطون أن يكون لها عُقَد جانبية وحبل في الوسط يقوم هذا مقام الصليب عندهم، فأنا - يظهر لي والله أعلم - أنه لا يجوز للمسلمين أن يلبسوها .
أ.هـ


من شرح الأصول الثلاثة في درسه في المسجد النبوي في موسم حج 1429-1430 هـ .
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
المجلد الرابع والعشرون (كتاب الجامع 1) > كتاب الجامع > اللباس والزينة > لبس البنطلون الضيق
الفتوى رقم ( 4257 )
س : ما حكم لبس البنطلون إذا كان يلتصق بالجسم ، وإذا كان واسعا ، إذا كان محاكاة لما يرتديه الغربيون ، إذا كان يخالفهم في شكل البنطلون (التفصيلة) ما حكم لبس البدلة ، وحكم ما يسمونه رباط العنق (الكرفته) وغيرها من ملابسي الكفار ، هل يغير من حكمها أنها أصبحت من عادات المسلمين ، بحيث لا يظن عامتهم أن فيهما تشبها بالكفار ؟ وأخيرا ما اللباس الذي يمكن أن يرتديه المسلم في هذا الزمان ، فما حكم الله في هذه الأشياء كلها رحمكم الله ؟

ج : الأصل في الملابس أنها جـائزة ، إلا ما استثناه الشرع مطلقا ؛ كالذهب للرجال ، وكالحرير لهم ، إلا لجرب أو نحوه ، ولبس البنطلون ليس خاصا بالكفار ، لكن لبس الضيق منه الذي يحدد أعضاء الجسم حتى العورة لا يجوز ، أمـا الواسع فيجوز ، إلا إذا قصد بلبسه التشبه بمن يلبسه من الكفار ، وكذا لبس البدلة وربـاط العنق (الكرفتة) ليس من اللباس الخاص بالكفار ، فيجوز ، إلا إذا قصد لا بسه التشبه بهم . وبالجملة فالأصل في اللباس الجـواز إلا مـا دل الدليل الشرعي على منعه كما تقدم . وبالله التوفيق ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو عضو نائب الرئيس الرئيس
عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
السلام علیکم
حضرت اس سے یہ کہاں ثابت ہوگیا کہ پینٹ شرٹ اسلامی لباس ہے کوئی دلیل تو ہے نہیں بس ایک رائے ہے اور رائے ہماری بھی ہے وہ بھی رجال اور ہم بھی رجال
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
ما حكم لبس البنطلون للنساء وللرجال؟

لا أعلم فيه مانعاً إذا كان على هيئة ليس فيها ما يصف العورة بل يستر العورة وليس فيه تشبه، فالبنطلون الذي يختص بالرجال لا تلبسه المرأة، والذي يختص بالمرأة لا يلبسه الرجال، وإذا كان على هيئة تختص بالكفار لا يلبسها المسلم أيضاً، فالحاصل أن الرجل والمرأة كلٌ منهما يتوخى ويتحرى أن يكون لباسه لا يشبه لباس الآخر، لا في البنطلون ولا في غيره، وأن يكون لا يشبه أيضاً لباساً يختص بالكفار، أما المشترك الذي لا يخص الكفار مشترك فلا بأس، وهكذا المشترك الذي لا يخص النساء ولا الرجال كالخاتم من الفضة لا حرج في ذلك، شيء لا يخص الجميع، لا يخص أحداً. المقدم: الواقع من صفة البنطلون -سماحة الشيخ- أنه يفصِّل أعضاء الجسم؟ الشيخ: إذا كان يفصِّل العورة وأعضاء الجسم يفتن الناس ينبغي للمرأة أن لا تلبسه إلا عند زوجها. المقدم: وأمام محارمها؟ الشيخ: كذلك ينبغي تركه حذراً من الفتنة. (شيخ بن باز)
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
29- هل يجوز للرجل لبس القميص والبنطلون أحيانا أم يجب لبس الجلباب دائما وهل هو حرام أم تشبه ؟
ج 29 - أما لبس البنطلون فلست أراه من التشبه لأنه زي غلب على ديار المسلمين وكما في القاعدة الفقهية إذا ضاق الأمر اتسع
ومع ذلك ففيه حرج من جهة الصلاة فيه ولذلك أرى ألا يلبسه المسلم اذا لم يكن هناك داع اليه
.

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
السلام علیکم
یہ جتنے بھی فتاویٰ پوسٹ کئے ہیں پہلی بات تو یہی ہے کہ انہوں نے جواز اور عدم جواز کی کوئی دلیل نہیں دی اور کوئی ٹھوس طریقہ پر فتویٰ بھی صادر بھی نہیں فرمایا ۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ علماء کرام بھی خوداپنی بات پر پراعتماد نہیں ہیں ۔ان حضرات نے یہ اعترف کیا ہے کہ یہ لباس کبھی غیر مسلموں کا ہوا کرتا تھا لیکن چونکہ اب مسلمانوں کی اکثریت نے اس کواپنا لیا ہے تو چند شرطوں کے ساتھ ان کے استعمال میں کوئی قباحت نہیں کہ کپڑے ڈھیلے ڈھالے ہوجن سے جسم ڈھک جائے اور جسم کا کوئی حصہ نمایا نہ ہو۔ البتہ عورتوں کے لیے منع فرمایا ہے۔ اور یہ بھی واضح فرمایا کہ اگر کوئی معاملہ مجبوری کا تنگی کا آجائے تو اس میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے ۔لیکن آخر میں یہ بھی فرمایا ہے کہ مسلمان کے لئے یہی مناسب ہے کہ وہ اس کو نہ پہنیں جب تک اس کا محرک نہ ہو یعنی اس کو مجبورآ پہننے کی اجازت ہے۔یہ تو تھا آپ کے فتاویٰ کا خلاصہ جیسا میں نے سمجھا ۔
علاوہ ازیں میری گزارش یہ ہے کہ جہاں تک پتلوں کا معاملہ ہے اگر وہ ڈھیلی ڈھالی ہے تو ایک طریقہ سے پائجامہ ہی بن جاتا ہے اگر اس پر کرتا پہن لیا جائے تو معلوم بھی نہیں ہوگا کہ پتلون ہے یا پائجامہ ۔ سارا مسئلہ شرٹ کا ہے اگر یہ شرٹ سرین کو ڈھانپ لیتی ہے اور ڈھیلی ڈھالی ہے تو وہ کرتا ہی کہلائے گی کیوں کہ کرتہ کی پیمائش ہر آدمی اپنی پسند سے رکھتا ہے، اتنا ضرور ہے کہ وہ ڈھیلا اور سرین سے نیچا ہوتا ہے یہاں تک تو کوئی اشکال نہیں لیکن وہ شرٹ جو جسم سے چپکی ہوئی ہو اور جوسرین سے اوپر ہو وہ وجہ اعتراض ہے اوریہ کیسے اسلامی لباس ہوسکتا ہے ۔
زاد المعاد میں جہاں نبی ﷺ کے لباس کا ذکر ہے اس میں لکھا ہے کہ آپ ﷺ قمیص پسند تھی البتہ وہ زیادہ لمبی نہیں ہوتی تھی ’’جبہ‘‘ اکثر زیب تن فرمایا کرتے تھے اور اسی میں لکھا ہے کہ آپ ﷺ نے پائجامہ بھی خریدہ تھا اور اس کو پسند بھی فرمایا آپ ﷺ نے ٹوپی بھی استعمال فرمائی پگڑی بھی باندھی ،اب اس میں کون سی بات سنت ’’ہدیٰ‘‘ اور کون سی سنت ’’زوائد‘‘ اس بارے میں کوئی صاحب میری رہنائی فرما دیں ۔ اگر میری بات پر یقین نہ ہو تو وہ پوراحصہ کمپوژ کر کے خدمت عالیہ میں پیش کردوں گا ۔ ایک دعاء بھی لکھی ہے جو آپ ﷺ کوئی نیا کپڑا زیب تن فرماتے تو پڑ ھتے تھے:
اللہم انت کسوتنی ھذا القمیص اولرداء اوالعمامۃ اسئلک خیرہ وخیر ما صنع لہ واعوذبک شرہ وشر ما صنع لہ
اے اللہ آپ ہی نے مجھے یہ قمیص یا چادر یا عمامہ پہنایا ہے اس کی بھلائی اور جس کے لیے بنی اس کی بھلائی کا سوال کرتا ہوں اور اس کی برائی اور جس برائی کے لیے یہ ہو اس کی پناہ چاہتا ہوں
اس لیے میرے نزدیک جو لباس علماء کرام زیب تن فرماتے وہ بالکل موزوں اور صحیح ہے اس میں وہ تما م پہلو موجود ہے جو شریعت کو مطلوب ہے ۔ پنٹ شرٹ میں جو جواز کو پہلو نکا لا گیا ہے، اس نرمی کا فائدہ اٹھا کر عوام ٹی شرٹ اور ٹائٹ پتلون پر آگئے اور جو حالت ان کی نمایاں ہوتی ہے وہ بیان سے باہر ہے ۔بلکہ اب تو اس کو عیب ہی نہیں سمجھا جاتا کہ جسم نمایاں ہورہا ہے۔ میں تو اس کو شرعی لباس نہیں مانتا اور اسی پر قائم ہوں۔ اواللہ اعلم بالصواب
 
شمولیت
مارچ 15، 2012
پیغامات
154
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
95
محترمی السلام علیکم - اپ کافی جذباتی ہیں - لیکن یاد رہے کہ جذباتیت ہر جگہ صحیح ہو یہ ضروری نہیں-سب سے پہلی بات جمشید صاحب اور دیگر علما وضاحت کرچکے ہیں کہ جو لباس ستر کے تقاضوں کو پورا نہ کرے وہ جایز نہیں لھذا جو پینٹ شرٹ بالکل فٹ ہو وہ ہماری بحث سے خارج ہو گیا- یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل خود سنیت کو ثابت کرتا ہے نہ کہ وجوب اپ یوسف علیہ السلام کے عمل سے استدلال کر رہے ہیں- یہاں جو علما آپ کہ مقابل ہیں وہ بھی پینٹ شرٹ کے داعی نہیں البتہ اسے حرام یا مکروہ نہیں سمجھتے کیونکہ یہ شرعی حکم جس کے لیے دلیل چاہیے ظن نہیں- اگر کوی واضح دلیل آپ کہ پاس ہو تو پیش فرماییں-یاد رہے کہ کسی واضح دلیل کہ حکم لگانا بغیر افترا علی اللہ کے ضمن میں آتا ہے- یہاں ہمارے علاقہ میں اس مسلہ میں اتنا تشدد ہے کہ ایک متقی مسلمان کو صرف پینٹ شرٹ کی بنا پر یہودی کہ دیا جاتا ہے-
 
شمولیت
مارچ 15، 2012
پیغامات
154
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
95
السلام علیکم
بھائی جان پہلے تو آپ یہ فرمادیں کہ صحابہؓ کا لباس کیا تھا اور کیا نبی اکرم ﷺ کا لباس تھا (١)عن عبداللہ بن عمر ان رجلا قال-ےا رسول اللہ ما یلبس المحرم من الثیاب؟ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم-لا تلبسوا القمیص ولا العمایم ولا السراویلات ولاالبرانس ولا الخفاف(بخاری فی کتاب اللباس) (٢)عن ام سلمہ قالت-کان احب الثیاب الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم القمیص(ابوداود و صححہ البانی)(٣) حدیث مسور بن المخرمہ وفیہ فخرج الیہ وعلیہ قبا منھا(بخاری کتاب اللباس )(٤)حدیث مغیرہ بن شعبہ وفیہ فتوضا و علیہ جبۃ الشامیہ (بخاری کتاب اللباس)(٥)فخرج الینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وانھا لازارہ (بخ-کتاب اللباس)(٦)عن سوید بن قیس قال اتانا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فساومنا سراویل(ابن ماجہ و صححہ البانی)(٧)عن انس بن مالک قال کان احب الثیاب الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان یلبسھا الحبرۃ(بخ- کتاب اللباس)(٨)عن ابی رمثہ انطلقت مع ابی نحو النبی صلی اللہ علیہ وسلم فرایت علیہ بردین اخضرین(ابو داود وصححہ الالبانی)(٩)عن انس بن مالک کنت امشی مع رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم وعلیہ برد نجرانی غلیظ الحاشیۃ غور سے پڑھیں تقریبا تمام لباس جو صحابہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں رایج تھے وہ ذکر کردیے ہیں-
 
شمولیت
مارچ 15، 2012
پیغامات
154
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
95
محترمی السلام علیکم - اپ کافی جذباتی ہیں - لیکن یاد رہے کہ جذباتیت ہر جگہ صحیح ہو یہ ضروری نہیں-سب سے پہلی بات جمشید صاحب اور دیگر علما وضاحت کرچکے ہیں کہ جو لباس ستر کے تقاضوں کو پورا نہ کرے وہ جایز نہیں لھذا جو پینٹ شرٹ بالکل فٹ ہو وہ ہماری بحث سے خارج ہو گیا- یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل خود سنیت کو ثابت کرتا ہے نہ کہ وجوب اپ یوسف علیہ السلام کے عمل سے استدلال کر رہے ہیں- یہاں جو علما آپ کہ مقابل ہیں وہ بھی پینٹ شرٹ کے داعی نہیں البتہ اسے حرام یا مکروہ نہیں سمجھتے کیونکہ یہ شرعی حکم جس کے لیے دلیل چاہیے ظن نہیں- اگر کوی واضح دلیل آپ کہ پاس ہو تو پیش فرماییں-یاد رہے کہ کسی واضح دلیل کہ حکم لگانا بغیر افترا علی اللہ کے ضمن میں آتا ہے- یہاں ہمارے علاقہ میں اس مسلہ میں اتنا تشدد ہے کہ ایک متقی مسلمان کو صرف پینٹ شرٹ کی بنا پر یہودی کہ دیا جاتا ہے-
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
محترمی السلام علیکم - اپ کافی جذباتی ہیں - لیکن یاد رہے کہ جذباتیت ہر جگہ صحیح ہو یہ ضروری نہیں-سب سے پہلی بات جمشید صاحب اور دیگر علما وضاحت کرچکے ہیں کہ جو لباس ستر کے تقاضوں کو پورا نہ کرے وہ جایز نہیں لھذا جو پینٹ شرٹ بالکل فٹ ہو وہ ہماری بحث سے خارج ہو گیا- یہاں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل خود سنیت کو ثابت کرتا ہے نہ کہ وجوب اپ یوسف علیہ السلام کے عمل سے استدلال کر رہے ہیں- یہاں جو علما آپ کہ مقابل ہیں وہ بھی پینٹ شرٹ کے داعی نہیں البتہ اسے حرام یا مکروہ نہیں سمجھتے کیونکہ یہ شرعی حکم جس کے لیے دلیل چاہیے ظن نہیں- اگر کوی واضح دلیل آپ کہ پاس ہو تو پیش فرماییں-یاد رہے کہ کسی واضح دلیل کہ حکم لگانا بغیر افترا علی اللہ کے ضمن میں آتا ہے- یہاں ہمارے علاقہ میں اس مسلہ میں اتنا تشدد ہے کہ ایک متقی مسلمان کو صرف پینٹ شرٹ کی بنا پر یہودی کہ دیا جاتا ہے-
السلام علیکم
اپ کافی جذباتی ہیں
اس خطاب کا شکریہ
بات جمشید صاحب
محترم جمشید صاحب جہاں بول رہے تھے اور کیو ں بول رھے تھے وہ سمجھتے ہیں یا میں سمجھتا ہوں۔دیگر کسی کا محض عالم ہونا یہ کوئی حجت نہیں غلطی کا امکان بتقاضائے بشریت سب سے ممکن ہے میں بھی اسی میں شامل ہوں
حرام یا مکروہ نہیں سمجھتے
حرام مکروہ کی بات نہ میں کہی نہ انہوں نے کہی
یاد رہے کہ کسی واضح دلیل کہ حکم لگانا
کون سی واضح دلیل بیان کی رہنمائی فرمادیں
بغیر افترا علی اللہ کے
یہاں آپ جذباتی ہوگئے اور غلط بیانی بھی فرمادی میں کہاں اللہ پر افتراء کیا ذرا غور فرمالیں ایسا مت کہو بھائی مجھے رات بھر نیند نہیں آئے گی
کیونکہ یہ شرعی حکم جس کے لیے دلیل چاہیے ظن نہیں-
یہاں بھی آپ کا مغالطہ ہوا ہے
اگر کوئی واضح دلیل آپ کہ پاس ہو تو پیش فرماییں
میں نے قران پاک کی طرف بھی متوجہ کیا ہے۔ اور زادلمعاد کا حوالہ بھی دیا ہے اور ایک دعاء بھی پیش کی ہے
بلکہ اس کے رد میں دلیل کامطالبہ میں کروں گا آپ نہیں
ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل خود سنیت کو ثابت
سنیت کو آپ خود تسلیم فرما رہے ہیں
نہ کہ وجوب اپ یوسف علیہ السلام کے عمل سے استدلال کر رہے ہیں
میں نے تو کہیں نہیں کہا کہ واجب ہے اور نہ ہی یوسف علیہ السلام سے اس کا وجوب ثابت کیا یہ تو آپ کرم فرمائی ہے
بنا پر یہودی کہ دیا جاتا ہے
آپ کے علاقے میں کہتے ہوں گے میں نے تو نہیں کہا۔ اپنے علاقہ کا بدلہ مجھ سے چکائیں گے کیا
بھائی سخت الفاظ کہدیئے ہوں تو معاف فرمانا ( لیکن لباس ہی ایک ایسی چیز ہوتی جو شخصیت کو نمایاں کرتی ہے)
ابوالحسن علوی صاحب کی جو عربی عبارت تھی اس کا جیسا میری سمجھ میں آیا خلاصہ پیش کردیا اس کے بعد اپنی فہم کے مطابق کچھ الٹ سیدھا جواب بھی دیدیا۔ اپنی علمیت کا دعویٰ نہیں کرہا ہوں آپ عالم ہیں مجھ سے زیادہ بہتر سمجھتے ہوں گے اگر آپ کے علم کے مطابق میں غلطی پر ہوں آپ عمل فرمائیں ابھی اس بارے میں مجھے انشراح نہیں ہوا محض کسی کے کہنے کو میں قبول نہیں کروںگا ۔ تکلیف کےلئے معذرت خواہ ہوں۔ فقط والسلام وللہ اعلم بالصواب
عابدالرحمٰن بجنوری
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
بھائی جان پہلے تو آپ یہ فرمادیں کہ صحابہؓ کا لباس کیا تھا اور کیا نبی اکرم ﷺ کا لباس تھا (١)عن عبداللہ بن عمر ان رجلا قال-ےا رسول اللہ ما یلبس المحرم من الثیاب؟ قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم-لا تلبسوا القمیص ولا العمایم ولا السراویلات ولاالبرانس ولا الخفاف(بخاری فی کتاب اللباس) (٢)عن ام سلمہ قالت-کان احب الثیاب الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم القمیص(ابوداود و صححہ البانی)(٣) حدیث مسور بن المخرمہ وفیہ فخرج الیہ وعلیہ قبا منھا(بخاری کتاب اللباس )(٤)حدیث مغیرہ بن شعبہ وفیہ فتوضا و علیہ جبۃ الشامیہ (بخاری کتاب اللباس)(٥)فخرج الینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وانھا لازارہ (بخ-کتاب اللباس)(٦)عن سوید بن قیس قال اتانا النبی صلی اللہ علیہ وسلم فساومنا سراویل(ابن ماجہ و صححہ البانی)(٧)عن انس بن مالک قال کان احب الثیاب الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان یلبسھا الحبرۃ(بخ- کتاب اللباس)(٨)عن ابی رمثہ انطلقت مع ابی نحو النبی صلی اللہ علیہ وسلم فرایت علیہ بردین اخضرین(ابو داود وصححہ الالبانی)(٩)عن انس بن مالک کنت امشی مع رسول اللہ صلی اللہ وعلیہ وسلم وعلیہ برد نجرانی غلیظ الحاشیۃ غور سے پڑھیں تقریبا تمام لباس جو صحابہ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں رایج تھے وہ ذکر کردیے ہیں-
السلام علیکم
بھائی جان ترجمہ بھی فرمادیتے تو زیادہ مناسب ہوتا ۔میری سمجھ میں تو اتنا آیا کہ لباس پہنتے تھے مگر پیٹ شرٹ نہیں پہن تھے اتنا طے ہے نہیں تو دلیل آپ پیش فرمائیں
 
Top