• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

پینٹ شرٹ یا اسلامی لباس مگر کونسا؟

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَيَا سَيِّدَہَا لَدَا الْبَابِ۝۰ۭ
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے (آگے یوسف اور پیچھے زلیخا) اور عورت نے ان کا کرتا پیچھے سے (پکڑ کر جو کھینچا تو) پھاڑ ڈالا
اِذْہَبُوْا بِقَمِيْصِيْ ہٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰي وَجْہِ اَبِيْ يَاْتِ بَصِيْرًا۝۰ۚ
یہ میرا کرتہ لے جاؤ اور اسے والد صاحب کے منہ پر ڈال دو۔ وہ بینا ہو جائیں گے۔
وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِہٖ بِدَمٍ كَذِبٍ
اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔
یہ جسے آپ دلیل کہہ رہے ہیں، پچھلی اقوام کے واقعات ہیں جسے ہم شرائع من قبلنا کہتے ہیں یعنی سابقہ شریعتوں کا بیان۔ بلکہ میں تو اسے شریعت بھی نہ کہوں گا بلکہ سابقہ قوموں کے تمدن کا بیان جو دین کے علاوہ ہے۔ بہرحال اگر یہ قمیص والی آیات شرعی یا دینی حکم بھی ہوں تو سابقہ شریعت ہے اور سابقہ شریعت پر عمل ہمارے لیے حجت نہیں ہے جب تک کہ ہماری شریعت سے ثابت نہ ہو جائے۔
جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ سابقہ شریعت بھی نہیں ہے بلکہ سابقہ تمدن کا بیان ہے۔ پھر اس دور میں جو قمیص ہوتی تھی کیا وہ ایسی ہی تھی جیسی کہ ہمارے ہاں پہنی جاتی ہے کف اور بین یا کالر کے ساتھ یا بٹن اور گول یا چوکور گھیرے کے ساتھ۔ یا صرف قمیص کے نام کا اشتراک ہے۔
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
یہ جسے آپ دلیل کہہ رہے ہیں، پچھلی اقوام کے واقعات ہیں جسے ہم شرائع من قبلنا کہتے ہیں یعنی سابقہ شریعتوں کا بیان۔ بلکہ میں تو اسے شریعت بھی نہ کہوں گا بلکہ سابقہ قوموں کے تمدن کا بیان جو دین کے علاوہ ہے۔ بہرحال اگر یہ قمیص والی آیات شرعی یا دینی حکم بھی ہوں تو سابقہ شریعت ہے اور سابقہ شریعت پر عمل ہمارے لیے حجت نہیں ہے جب تک کہ ہماری شریعت سے ثابت نہ ہو جائے۔
جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ یہ سابقہ شریعت بھی نہیں ہے بلکہ سابقہ تمدن کا بیان ہے۔ پھر اس دور میں جو قمیص ہوتی تھی کیا وہ ایسی ہی تھی جیسی کہ ہمارے ہاں پہنی جاتی ہے کف اور بین یا کالر کے ساتھ یا بٹن اور گول یا چوکور گھیرے کے ساتھ۔ یا صرف قمیص کے نام کا اشتراک ہے۔
السلام علیکم
چلئے حضرت اگر میں وقتی طور سے میں آپ کی بات تسلیم کربھی لوں تو بات بنتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کو آپ ہلکے میں نہ لیں غور فرمالیں کہ آپ کا ارشاد مبارک کن کے بارے میں ہے، انبیاءؑ کے عمل کو امم سابقہ کا عمل کہہ کر نظر انداز کرنا مناسب نہیں ،اگر ان کی شریعت کو الگ اور شریعت محمدیہ ﷺ کوالگ کہیں گےتو بہت سے سوال قائم ہوجایئں گے۔ جبکہ شریعت محمدیہﷺ کے بارے میں قرآن شاہد ہے کہ یہ کوئی نیا دین نہیں بلکہ یہ وہی دین ہے جو سابقہ انبیاءؑ کا تھا ۔اور ان سابقہ شریعتوں میں جو تبدیلی ہوسکتی تھی وہ آپ ﷺ کے زمانہ رسالت میں ہوگئی تھی ۔ اگر اولین سابقین انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے عمل کو امم سابقہ کے عمل پر محمول کیا جائے تو حج کے ارکان کو کیا فرمائیں گے ،قربانی کرنا ،طواف کرنا ، سعی کرنا، رمی جمار کرنا ،روزہ رکھنا وغیر ذالک یہ سارے اعمال ان برگزیدہ ہستوں کے ہی تو ہیں جن پر عمل کرنا قیامت تک لئے سعادت مندی اور نجات کا ذریعہ قرار دیدیا گیا ہے۔ بہر حال پینٹ شرٹ کی نسبت انگریزوں سے کسی نبی یا صحابی سے نہیں ہے انبیاء کرام علیہم السلام کے عمل پر عمل کرنا جب کہ وہ شریعت محمدیہ ﷺ سے متضاد نہ ہوں اغیا ر کی نقل کرنے سے اولیٰ اور افضل ہے اور اگر یہی سوچ کر کرلیا جائے کہ فلاں نبی ؑ کاعمل تھا تو کوئی گناہ نہیں ہوگا، بس ابھی تو میں اتنا ہی عرض کروں گا ۔ اس بارے میں ہماری شریعت( شریعت محمدیہﷺ) کیا کہتی ہے ابن تیمیہؒ سے ہی پیش کروں گا تاکہ کوئی اعتراض ہی نہ رہے تھوڑا توقف فرمائیں فقط والسلام
عابدالرحمٰن بجنوری
 
شمولیت
مارچ 15، 2012
پیغامات
154
ری ایکشن اسکور
493
پوائنٹ
95
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
محترم علماء عظام و تمام قارئین کرام
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۝۰ۭ وَلِبَاسُ التَّقْوٰى۝۰ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ۝۰ۭ ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۝۲۶ [٧:٢٦]
اے نبی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت (دے) اور (جو) پرہیزگاری کا لباس (ہے) وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصحیت پکڑ یں
پوری سیرت پاک ﷺ کا مطالعہ کرلیا جائے اس میں یہی ملے گا آپ ﷺ نے ہمیشہ غیر مسلموں کی مخالفت کی اور ان کے طرز زندگی کو پسند نہیں فرمایا کیون کہ اسلام رہنمائی کرتا ہے کسی کی نقل نہیں اتارتا ایک بات دوسری بات یہ ہیکہ
عرف میں اس عرف کا اعتبار کیا جاتا ہے جو صلحاء اور شرفاء میں رائج ہو( علماء عظام) اس میں خواص کااعتبار ہے نہ کہ عوام کا ۔دیگر اسلام کی ایک مستقل پہچان ہے جو دوسروں سے ممتاز ہے
یہ بات ذہن نشیں رہے کہ لباس کے معنیٰ ستر پوشی اور چھپانا ہے وہ لباس ہی کیا جو انسان کے نشیب و فراز کونمایاں کردے ایک وقت ہوا کرتا تھا کہ عورتیں ڈھیلا ڈھالا برقعہ زیب تن فرمایا کرتی تھیں اور آج کا جو عرف عام ہے وہ سب کے سامنے ہے بہر حال مجھے برقعہ پر بات نہیں کرنی مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ پینٹ شرٹ اسلامی لباس قطعی نہیں ہے کیوں کہ مسلمانوں کے شرفاء کا لباس نہیں ہے شرفاء سے مراد علماء ہیں اور ان کا لباس ہے قمیص اور پائجامہ وہ کس طرح سے چلئے دیکھتے ہیں اس بارے میں قرآن پاک ہماری کیا رہنمائی فرماتا ہے چلئے چلتے ہیں سورہ یوسف میں زلیخا اور یوسف علیہ السلام کا واقعہ کہ جب اس نے بدی کی دعوت دی اور یوسف علیہ السلام وہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں
وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَيَا سَيِّدَہَا لَدَا الْبَابِ۝۰ۭ
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے (آگے یوسف اور پیچھے زلیخا) اور عورت نے ان کا کرتا پیچھے سے (پکڑ کر جو کھینچا تو) پھاڑ ڈالا
اِذْہَبُوْا بِقَمِيْصِيْ ہٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰي وَجْہِ اَبِيْ يَاْتِ بَصِيْرًا۝۰ۚ
یہ میرا کرتہ لے جاؤ اور اسے والد صاحب کے منہ پر ڈال دو۔ وہ بینا ہو جائیں گے۔
وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِہٖ بِدَمٍ كَذِبٍ
اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔
یہ تو رہی قرآن پاک کی بات
اب اور سنئے ہمارے ہندوستان میں سکھ حضرات ہیں پاکستان میں بھی ہوں گے انہوں نے اپنی مذہبی شناخت نہیں کھوئی باقاعدہ ان کی ریجمنٹ الگ ہوتی ہے جس کو سکھ ریجمنٹ کہا جاتا ہے۔ ان کی شناخت ہے’’ پگڑی ‘‘’’داڑھی‘‘ اور’’ کرپان‘‘ ان کے یہاں تو کوئی عرف نہیں چلتا عرف چلتا ہے توصرف مسلمانوں میں ہی چلتا ہے اگر عرف کی ہی بات کی جا ئے تو آج کل جتنی بھی بدعات ہیں وہ سب عرف میں داخل ہیں کیوں کسی کو قبر پرست وغیرہ کہا جاتا ہے
کیا داڑھی رکھنا شعار اسلام میں نہیں کیا نبی ﷺ نے پگڑی نہیں باندھی کیا آپ ﷺ نے قمیص زیب تن نہیں فرمائی یہ سنتیں کون زندہ کریگا ۔کیا سنت کچھ چیزوں میں محصور ہوکر رہ گئی ہے؟ اور وہ ہے رفع یدین اٰمین بالجہر وغیرہ وغیرہ بتائیں کتنے لوگ ڈاڑھی رکھتے ہیں وہ مقلدین ہوں یا غیر مقلدین ۔ جو حضرات اپنے کو برحق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے منہ سے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ عرف ایسا ہی ہے تو بھائیو عرف تورفع یدین کا بھی نہیں ہے
میں نے قرآن پاک سے دلیل دی قمیص کے بارے میں کوئی بھی اس کے رد میں ایک حدیث بھلے سے ضعیف ہی کیوں نہ ہو بیان فرمادیں ، بھائی یہ دو رخی بات کیسی کم ازکم جو اپنے کو اہل حدیث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے منہ سے عجیب ہے
لہٰذا لباس کے بارے میں ایک اصول ہے جس ملک میں جو لباس اس کے شرفاء استعمال کرتے ہیں وہ وہاں کا شرعی لباس ہے فتدبروا ۔
فقط والسلام
احقر عابدالرحمٰن بجنوری
عرف صرف شرفا کا معتبر ہے اور شرفا سے مراد علما ہیں اس کی دلیل کیا ہے -دوسری بات صحابہ میں بھی علما اور غیر علما تھے تو کیا علما کاکوی مخصوص یونیفارم تھا-عرب کے علما جبہ پہنتے ہیں کچھ شیروانی(ندوی حضرات) دیوبندیوں کا لباس کچھ اور ہوتا ہے -بریلویوں کا کچھ اور-تو کس کا اعتبار کریں-
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
چلئے حضرت اگر میں وقتی طور سے میں آپ کی بات تسلیم کربھی لوں تو بات بنتی نظر نہیں آرہی ہے۔ اس کو آپ ہلکے میں نہ لیں غور فرمالیں کہ آپ کا ارشاد مبارک کن کے بارے میں ہے، انبیاء کے عمل کو امم سابقہ کا عمل کہہ کر نظر انداز کرنا مناسب نہیں ،اگر ان کی شریعت کو الگ اور شریعت محمدی ﷺ کاالگ کہیں گے بہت سے سوال قائم ہوجایئں گے۔
ان سوالات کے جوابات کے لیے اصول فقہ کی کسی کتاب میں شرائع من قبلنا کا باب پڑھ لیں۔


اگر اولین سابقین انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے عمل کو امم سابقہ کے عمل پر محمول کیا جائے تو حج کے ارکان کو کیا فرمائیں گے ،قربانی کرنا ،طواف کرنا ، سعی کرنا، رمی جمار کرنا ،روزہ رکھنا وغیر ذالک یہ سارے اعمال ان برگزیدہ ہستوں کے ہی تو ہیں جن پر عمل کرنا قیامت تک لئے سعادت مندی اور نجات کا ذریعہ ہے۔
شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے سابقہ شرائع منسوخ ہو گئی ہیں اور یہ تمام اعمال شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔


بہر حال پینٹ شرٹ کی نسبت انگریزوں سے کسی نبی یا صحابی سے نہیں ہے
پہلی بات درست نہیں ہے۔ اس کے موجد مسلمان ہیں۔ انگریز پینٹ شرٹ کے موجد ہیں، اسے دلیل سے ثابت کریں۔ لہذا اس لباس کی ابتدا کرنے والے مسلمان تھے۔


انبیاء کرام علیہم السلام کے عمل پر عمل کرنا جب کہ وہ شریعت محمدیہ ﷺ سے متضاد نہ ہوں اغیا ر کی نقل کرنے سے اولیٰ اور افضل ہے۔
جملہ درست ہے لیکن تطبیق یعنی ایپلیکیشن درست جگہ نہیں کی ہے۔ پینٹ شرٹ جب مسلمانوں کا عرف بن جائے تو اغیار کی نقالی نہیں کہلائے گی بلکہ مسلمانوں کی نقالی کہلائے گی۔ باقی یہ کہنا کہ پینٹ شرٹ فاسق لوگوں کا عرف ہے، امر واقعہ کے خلاف ہے۔ بڑی تعداد میں متقی حضرات بھی پینٹ شرٹ پہنتے ہیں۔


اور اگر یہی سوچ کر کرلیا جائے کہ فلاں نبی ؑ کاعمل تھا تو کوئی گناہ نہیں ہوگا،
گناہ ہونے اور نہ ہونے کا تعلق کسی نبی کے فعل سے نہیں ہے بلکہ اللہ کے حکم سے ہے۔ حضرت یعقوب نے اپنے بیٹے حضرت یوسف کو سجدہ کیا، اسے قرآن نے بیان کیا، یہ نبی کا عمل تھا۔ حضرت موسی نے ایک قطبی کو قتل کیا، اسے قرآن نے بیان کیا، یہ نبی کا عمل تھا۔ حضرت خضر نے ایک بچے کو قتل کیا، اسے قرآن نے بیان کیا، یہ بعض لوگوں کے قول کے مطابق نبی کا عمل تھا۔ حضرت آدم نے شجر ممنوعہ کا پھل کھایا، اسے قرآن نے بیان کیا، یہ نبی کا عمل تھا۔ اور بھی مثالیں دی جا سکتی ہیں۔ مقصود کلام یہ ہے کہ نہ قرآن میں کسی چیز کا نقل ہونا دلیل ہے اور نہ ہی کسی نبی کا اسے کرنا دلیل ہے۔ دلیل اس کا شرعی حکم ہونا ہے یعنی
اس مسئلہ کے بارے شارع کا خطاب مکلفین کی طرف بطریق تکلیف یا بطریق وضع متوجہ ہو۔


اس بارے میں ہماری شریعت( شریعت محمدیہﷺ) کیا کہتی ہے ابن تیمیہؒ سے ہی پیش کروں گا تاکہ کوئی اعتراض ہی نہ رہے
میرے خیال میں کتاب وسنت کا بیان ہی کافی ہے۔
 

جمشید

مشہور رکن
شمولیت
جون 09، 2011
پیغامات
871
ری ایکشن اسکور
2,332
پوائنٹ
180
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًا۝۰ۭ وَلِبَاسُ التَّقْوٰى۝۰ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌ۝۰ۭ ذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللہِ لَعَلَّہُمْ يَذَّكَّرُوْنَ۝۲۶ [٧:٢٦]
اے نبی آدم ہم نے تم پر پوشاک اتاری کہ تمہارا ستر ڈھانکے اور (تمہارے بدن کو) زینت (دے) اور (جو) پرہیزگاری کا لباس (ہے) وہ سب سے اچھا ہے۔ یہ اللہ کی نشانیاں ہیں تاکہ لوگ نصحیت پکڑ یں
آیت کریم سے آپ کا مدعاقطعاثابت نہیں ہوتا۔کیونکہ سترڈھانکے اوربدن کو زینت دینے کی جہاں تک بات ہے وہ شرٹ پینٹ میں بھی حاصل ہے۔اب یہ فرق بہرحال ضروری ہے کہ کچھ لوگ اتناتنگ سلواتے ہیں کہ بدن کے نشیب وفراز ،فرازونشیب میں تبدیل ہوجاتے ہیں ۔جب کہ بہت سے لوگ اس کے برعکس ڈھیلاڈھالاآرام دہ لباس جیساکہ دیگرلباس ہے سلواتے ہیں۔
پوری سیرت پاک ﷺ کا مطالعہ کرلیا جائے اس میں یہی ملے گا آپ ﷺ نے ہمیشہ غیر مسلموں کی مخالفت کی اور ان کے طرز زندگی کو پسند نہیں فرمایا کیون کہ اسلام رہنمائی کرتا ہے کسی کی نقل نہیں اتارتا ایک بات دوسری بات یہ ہیکہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیروں کی مخالفت بھی کی ہے۔لیکن موافقت بھی کی ہے۔آپ اگرحجۃ اللہ البالغہ کی ابتداء کا مطالعہ کریں تویہ بات واضح ہوجائے گی کہ قریش کے رسوم ورواج جب تک وہ صریح دین کی مخالفت میں نہ ہوتے ان کو برقراررکھاہے۔کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس قریش کے اوراس زمانہ کے عربوں کے لباس سے کچھ مختلف تھا؟یاایک ہی ایسالباس دونوں پہنتے تھے؟
عرف میں اس عرف کا اعتبار کیا جاتا ہے جو صلحاء اور شرفاء میں رائج ہو( علماء عظام) اس میں خواص کااعتبار ہے نہ کہ عوام کا ۔دیگر اسلام کی ایک مستقل پہچان ہے جو دوسروں سے ممتاز ہے
یہ شق کہیں بھی مذکور نہیں ہے۔ عرف میں اسی عرف کا اعتبار کیاجاتاہے جوعوام کے اندر رائج ہو اورجس میں عوام سے لے کر خواص تک سبھی مبتلاہوں۔ اردو لسانیات میں نہ غلط العوام کا اعتبار ہے اورنہ غلط الخواص کا بلکہ اعتبار غلط العام کاہے۔اسی طرح عرف وعادت میں اسی عرف وعادت کا اعتبار کیاجاتاہے جس میں عوام خاص سبھی مبتلاہوں۔
دوسرے کسی خاص جماعت کا کوئی الگ لباس متعین ہوجانااس کی سند نہیں بن جاتاکہ دیگر سبھی لوگ ایساہی لباس پہناکریں اوریہ کہ ایسے لباس کو پہننا"اسلامی"ہونے کی سندعطاکرتاہے۔
مجھے صرف یہ عرض کرنا ہے کہ پینٹ شرٹ اسلامی لباس قطعی نہیں ہے کیوں کہ مسلمانوں کے شرفاء کا لباس نہیں ہے شرفاء سے مراد علماء ہیں اور ان کا لباس ہے قمیص اور پائجامہ
یہ دعویٰ بہت بڑاہے اوراگرناگوارخاطر نہ ہوعرض کردیں کہ یہ دعویٰ ہی غلط ہے۔ کوئی لباس اسلامی لباس نہیں ہے۔ حضورپاک ،صحابہ کرام سے کہیں منقول نہیں کہ اس طول وعرض کالباس پہناجائے۔اگرآپ تاریخ اٹھاکر دیکھیں تومعلوم ہوگاکہ علماء کا الگ لباس متعین کرنایہ بہت بعد میں جاکر ہواہے۔ پہلے عوام خواص علماء جہلاء،شرفاء اوررذلاء (ابتسامہ)ایک ہی قسم کا لباس پہناکرتے تھے۔عرب میں لوگ جبہ پہنتے ہیں توکیاوہ اسلامی لباس ہے۔ ہندوپاک میں کرتاپائجامہ توکیاوہ اسلامی لباس ہے۔مصر وغیرہ میں علماء بھی دھڑلے سے شرٹ پینٹ اورکوٹ وغیرہ پہنتے ہیں توکیاوہ اسلامی لباس ہے؟۔

وہ کس طرح سے چلئے دیکھتے ہیں اس بارے میں قرآن پاک ہماری کیا رہنمائی فرماتا ہے چلئے چلتے ہیں سورہ یوسف میں زلیخا اور یوسف علیہ السلام کا واقعہ کہ جب اس نے بدی کی دعوت دی اور یوسف علیہ السلام وہاں سے بھاگ کھڑے ہوتے ہیں
وَاسْتَبَقَا الْبَابَ وَقَدَّتْ قَمِيْصَہٗ مِنْ دُبُرٍ وَّاَلْفَيَا سَيِّدَہَا لَدَا الْبَابِ۝۰ۭ
اور دونوں دروازے کی طرف بھاگے (آگے یوسف اور پیچھے زلیخا) اور عورت نے ان کا کرتا پیچھے سے (پکڑ کر جو کھینچا تو) پھاڑ ڈالا
اِذْہَبُوْا بِقَمِيْصِيْ ہٰذَا فَاَلْقُوْہُ عَلٰي وَجْہِ اَبِيْ يَاْتِ بَصِيْرًا۝۰ۚ
یہ میرا کرتہ لے جاؤ اور اسے والد صاحب کے منہ پر ڈال دو۔ وہ بینا ہو جائیں گے۔
وَجَاۗءُوْ عَلٰي قَمِيْصِہٖ بِدَمٍ كَذِبٍ
اور ان کے کرتے پر جھوٹ موٹ کا لہو بھی لگا لائے۔
یہ تو رہی قرآن پاک کی بات
ویسے قمیص کا ترجمہ کرتاہی ہوگااس کی دلیل کیاہے۔ شاید محترم عابدالرحمن کاخیال اس جانب گیاہے کہ بعض تفسیری روایا ت مین دامن پکڑ کر کھینچنے کا ذکر ہے لیکن وہ تفسیری روایات ہیں۔ ان سے قطع نظرقرآن کی آیت پر غورکریں توصرف پیچھے سے کھینچنے کا ذکر ملتاہےاس میں پیٹھ کے پاس سے بھی کرتاپھٹ سکتاہے۔ نیچے والاحصہ بھی پھٹ سکتاہے۔بہرحال قمیص کا ترجمہ کرتاکرناذراعجیب سالگتاہے۔برصغیر ہندوپاک میں رائج بول چال پر غورکریں توقمیص کااطلاق شرٹ پربھی کیاجاتاہے۔
اب اور سنئے ہمارے ہندوستان میں سکھ حضرات ہیں پاکستان میں بھی ہوں گے انہوں نے اپنی مذہبی شناخت نہیں کھوئی باقاعدہ ان کی ریجمنٹ الگ ہوتی ہے جس کو سکھ ریجمنٹ کہا جاتا ہے۔ ان کی شناخت ہے’’ پگڑی ‘‘’’داڑھی‘‘ اور’’ کرپان‘‘ ان کے یہاں تو کوئی عرف نہیں چلتا عرف چلتا ہے توصرف مسلمانوں میں ہی چلتا ہے اگر عرف کی ہی بات کی جا ئے تو آج کل جتنی بھی بدعات ہیں وہ سب عرف میں داخل ہیں کیوں کسی کو قبر پرست وغیرہ کہا جاتا ہے
آپ نے کرتاسے پگڑی اورڈاڑھی پر چھلانگ لگادی ہے اوروہ بھی سکھوں کے حوالہ کے ساتھ لہذا اب اس باب میں کچھ کہناکاربے کاراں ہے؟
کیا داڑھی رکھنا شعار اسلام میں نہیں کیا نبی ﷺ نے پگڑی نہیں باندھی کیا آپ ﷺ نے قمیص زیب تن نہیں فرمائی یہ سنتیں کون زندہ کریگا ۔کیا سنت کچھ چیزوں میں محصور ہوکر رہ گئی ہے؟ اور وہ ہے رفع یدین اٰمین بالجہر وغیرہ وغیرہ بتائیں کتنے لوگ ڈاڑھی رکھتے ہیں وہ مقلدین ہوں یا غیر مقلدین ۔ جو حضرات اپنے کو برحق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے منہ سے یہ بات اچھی نہیں لگتی کہ عرف ایسا ہی ہے تو بھائیو عرف تورفع یدین کا بھی نہیں ہے
سنتیں دوقسم کی ہیں۔ ایک کو سنن ہدی کہاجاتاہے اوردوسرے کو سنن زوائد کہاجاتاہے۔ سنن ہدی ایسے اعمال وافعال کوکہاجاتاہے جس کی جانب حضورپاک نے توجہ دلائی اوراس کے فضائل بیان فرمائے۔اورسنن زوائد جس کو حضورپاک نے بطورعادت یامباح انجام دیاہے۔
مثلاپانی پینے سے پہلے بسم اللہ کہناچاہئے یہ سنن ہدی ہے لیکن پانی پینے کا برتن اس زمانے میں مٹی اورلکڑی کاہواکرتاتھااسی برتن کو استعمال کرنایہ سنن زوائد ہے۔ ہم آج کےدور مین اسٹیل کا گلاس استعمال کرتے ہیں۔اس میں کوئی حرج نہیں۔حضورپاک کو ٹھنڈاپانی مرغوب تھایہ بھی سنن زوائد ہے۔ ٹھنڈے پانی کیلئے اس زمانہ میں مٹی کے آبخورے استعمال کئے جاتے تھے یہ بھی سنن زوائد میں ہے۔
حضورپاک کیسابستراستعمال کرتے تھے یہ سبھی سنن زوائد میں ہے۔ حضورپاک فرش پرسوتے تھے یہ سنن زوائد میں ہے۔ ہم لوگ پلنگ اورمسہری پر سوتے ہیں اس طرح اگرسنن زوائد کو ضروری قراردیاجانے لگے توشاید ہم مین سے بہت سارے لوگوں کو اپناطرززندگی بالکل بدل لیناہوگا۔
سنن زوائد پر اگرکوئی اس نیت سے عمل کرتاہے کہ حضورنے کیاہے ہم ان کی متابعت کررہے ہیں تویہ بہترخیال ہے اوراس کا ثواب انشاء اللہ متابعت کی نیت سے ملے گالیکن ایسانہ کرنے والےپر نکیر کرنابجائے خود ایک مکر فعل ہے جس پر انکار کیاجاناچاہئے۔

میں نے قرآن پاک سے دلیل دی قمیص کے بارے میں کوئی بھی اس کے رد میں ایک حدیث بھلے سے ضعیف ہی کیوں نہ ہو بیان فرمادیں ، بھائی یہ دو رخی بات کیسی کم ازکم جو اپنے کو اہل حدیث ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ان کے منہ سے عجیب ہے۔لہٰذا لباس کے بارے میں ایک اصول ہے جس ملک میں جو لباس اس کے شرفاء استعمال کرتے ہیں وہ وہاں کا شرعی لباس ہے فتدبروا ۔
آپ نے قمیص کا ترجمہ کرتاکیاہے پہلے اس کے اثبات کی ضرورت ہے!دوسری چیز اس کو اس دور کا لباس اورتہذیب وتمدن کے آثار کیوں نہ سمجھے جائیں۔ پھرجب حضورپاک کی سیرت میں سنن ہدی اورسنن زوائد کی تفریق موجود ہے توپھرگزشتہ انبیاء کی زندگی میں یہ تفریق کیوں نہیں۔ پھراس کے علاوہ یہ واقعہ جوآپ پیش کررہے ہیں وہ ان کے نبوت سے پہلے کا واقعہ ہے اورنبوت سے پہلے کا کوئی واقعہ کسی نبی کا بھی حجت نہیں ہواکرتا۔
یہ کچھ گزارشات ہیں ہماری آپ کی اس تحریر پر ۔سنجیدگی سے اپنے موقف پر غورکریں اوربالخصوص کسی لباس کواسلامی لباس قراردینے کاموقف پر مزید نظرثانی کریں۔ والسلام
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
عرف صرف شرفا کا معتبر ہے اور شرفا سے مراد علما ہیں اس کی دلیل کیا ہے -دوسری بات صحابہ میں بھی علما اور غیر علما تھے تو کیا علما کاکوی مخصوص یونیفارم تھا-عرب کے علما جبہ پہنتے ہیں کچھ شیروانی(ندوی حضرات) دیوبندیوں کا لباس کچھ اور ہوتا ہے -بریلویوں کا کچھ اور-تو کس کا اعتبار کریں-
السلام علیکم
بھائی جان پہلے تو آپ یہ فرمادیں کہ صحابہؓ کا لباس کیا تھا اور کیا نبی اکرم ﷺ کا لباس تھا اگر نہیں معلوم تو انتظار فرمائیں۔ دیگر آپ مجھے صرف بتادیں یہ پینٹ شرٹ کہاں سے لی گئی کون اس کے بانی مبانی اور موجدہیں ، اب رہا سوال دیوبندی کٹ بریلوی کٹ ، ندوی کٹ ، اہل حدیث کٹ ، یہ جتنے بھی کٹ ہیں کہلاتے تو عالموں کے ہی ہیں، ایک غیر مسلم دیکھ کر یہی کہے گا کہ یہ مسلمان ہے عالم وغیرہ تو مسلمان ہی سمجھ پائیں گے کہ یہ عالم ہے یا غیر عالم ۔ اب مجھے آپ اتنا اور بتادیں کہ ایک مسلمان ہے اس کے داڑھی بھی نہیں سر پر ٹوپی بھی نہیں پینٹ شرٹ اس نے پہن رکھی ہے تو اس کو’’ سلام ‘‘ کس طریقہ سے کیا جا ئے(کیسے معلوم ہو کہ یہ مسلمان ہے اس کو سلام کیا جائے) یا اس کہیں دیار غیر میں اس کا انتقال ہوجائے تو اس کا مسلمان ہونا کیسے ثابت ہوگا۔ کیوں کہ شباہت غیر مسلموں کی اختیار کئے ہوئے ہے تو اس کے ساتھ غیر مسلموں والا ہی برتاؤ کیا جائے گا وہ بات الگ ہے کہ اس کو بے پردا کیا جائے گا۔ ایک مسئلہ اور سمجھ لیں ایسے آدمی کوجس کی کوئی مسلمانوں والی شناخت نہ ہو اور کوئی مسلم اس کو سلام نہ کرے تو وہ سلام نہ کرنے والا معتوب نہ ہوگا یعنی اس پر کوئی گناہ لازم نہیں آئے گا یہیں سے سمجھ لیں
من تشبہ بقوم
کا مسئلہ اس موضوع پر میں ان شاءللہ تفصیل سے لکھوں گا اگرچہ میرا کتنا ہی وقت خراب ہو
 

عابدالرحمٰن

سینئر رکن
شمولیت
اکتوبر 18، 2012
پیغامات
1,124
ری ایکشن اسکور
3,234
پوائنٹ
240
السلام علیکم
محترم جناب ابو الحسن علوی صاحب ،عبد العلام صاحب اور جناب جشید صاحب ۔ آپ تینوں حضرات کو الگ الگ طور پر مطمئن کرنا میرے لئے مشکل کھڑی کردیگا اس لئے تینوں کو ایک ہی مان کر چل رہا ہوں ، وباللہ التوفیق وہی نصرت اور مدد کرنے والا ہے۔
محترم جمشید صاحب کچھ عجیب سا معلوم ہوا:
(۱)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غیروں کی مخالفت بھی کی ہے۔لیکن موافقت بھی کی ہے۔آپ اگرحجۃ اللہ البالغہ کی ابتداء کا مطالعہ کریں تویہ بات واضح ہوجائے گی کہ قریش کے رسوم ورواج جب تک وہ صریح دین کی مخالفت میں نہ ہوتے ان کو برقراررکھاہے۔کیاآپ صلی اللہ علیہ وسلم کا لباس قریش کے اوراس زمانہ کے عربوں کے لباس سے کچھ مختلف تھا؟یاایک ہی ایسالباس دونوں پہنتے تھے؟
یہاں آپ نے ابوالحسن صاحب کے قول کی نفی کردی ’’کہ امم سابقہ (شرائع من قبلنا)بلکہ میں تو اس کو شریعت بھی نہ کہوںگا‘‘جمشید صاحب آپ ﷺ نے یہودو نصاریٰ بہت سے طریقوں میں مخالفت کی ہے آپ سب صاحب علم ہیں طول دینے سے کوئی فائدہ نہیں ۔
شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے سابقہ شرائع منسوخ ہو گئی ہیں اور یہ تمام اعمال شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں۔
پہلی شریعتیں منسوخ نہیں بلکہ ان میں تجدید ہوئی ۔جب کے جمشید صاحب فرمارہے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے قریش کے کچھ رسم و رواج کو باقی رکھا ہے یہ دونوں کے بیان میں تضاد ہے۔ اور میں واضح کرچکا ہوں کہ اگر ہماری شریعت سے تضاد نہ ہو۔
پہلی بات درست نہیں ہے۔ اس کے موجد مسلمان ہیں۔ انگریز پینٹ شرٹ کے موجد ہیں، اسے دلیل سے ثابت کریں۔ لہذا اس لباس کی ابتدا کرنے والے مسلمان تھے۔
پہلے تو مجھے معلوم نہیں کہ کوئی مسلم پنیٹ شرٹ کا موجد ہے اگر تاریخ بیان کردی جاتی تو مناسب تھا اس کے با وجود اگر مسلمان درزی کا کام کرتا ہو اس سے یہ کہاں ثابت ہوجا تا ہے کہ یہ اسلامی لباس ہوگیا مسلمانوں نے تو مندر بھی بنائے شراب بھی بناتے ہیں قتل بھی کرتے ہیں اور کیا کیا کرتے ہیں۔اور پھر یہ بھی تو ثابت نہیں کہ مغل دور میں مسلمان پینٹ شرٹ پہنتے تھے یا نہیں ہمیں تو اتنا معلوم ہے کہ اس وقت انگریزوں خلاف محاذ آرائی تھی اور مسلمان ان کا بایئکاٹ کرتے تھے حتیٰ کہ انگریزی تعلیم کی بھی مخالفت بھی کی جاتی تھی جب اسکول میں پڑھتا تھا تو میں نے ہسٹری پڑھی تھی لیکن میری نالج میں نہیں کہ مسلمان پینٹ شرٹ کے موجد تھے، مسلمان تو آج کل لڑکیوں کے بھی لباس سیتے ہیں تو کیا یہ آج کل لڑکیاں جو لباس پہنتی ہیں وہ آپ کے بقول جائز ہوگیا۔
گناہ ہونے اور نہ ہونے کا تعلق کسی نبی کے فعل سے نہیں ہے بلکہ اللہ کے حکم سے ہے۔ حضرت یعقوب نے اپنے بیٹے حضرت یوسف کو سجدہ کیا، اسے قرآن نے بیان کیا،
یہ آپ کی غلط تطبیق ہے میں کہہ چکا ہوں کہ اگر ہماری شریعت سے کوئی تضاد نہ ہو تو کسی نبی کسی فعل عمل کرنے میں کوئی قباحت نہیں جیسا کہ جمشید صاحب فرماچکےہیں قریش کےبارے میں، اور ہماری شریعت قتل وغیرہ حرام ہے تو پھر یہ بات کیسے مناسب ہوگی۔
میرے خیال میں کتاب وسنت کا بیان ہی کافی ہے۔
ابن تیمیہ ؒ آپ کے یہاں ثقہ ہیں اور ان کی بات کتاب وسنت سے ہی ہوتی ہے۔
ویسے قمیص کا ترجمہ کرتاہی ہوگااس کی دلیل کیاہے۔ شاید محترم عابدالرحمن کاخیال اس جانب گیاہے کہ بعض تفسیری روایا ت مین دامن پکڑ کر کھینچنے کا ذکر ہے لیکن وہ تفسیری روایات ہیں۔ ان سے قطع نظرقرآن کی آیت پر غورکریں توصرف پیچھے سے کھینچنے کا ذکر ملتاہےاس میں پیٹھ کے پاس سے بھی کرتاپھٹ سکتاہے
بیشک دبر سے مراد آپ پشت لے سکتے ہیں لیکن واضح رہے اگر شرٹ کو پیچھے سے پکڑ کھینچا جائے تو اس کا پھٹنا مشکل ہے ادھڑ تو سکتی ہے پھٹے گی تبھی جب وہ بڑی ہو، اوراگر قمیص چھوٹی ہوتی تو زلیخا ان کی کولی بھر لیتی ۔ اس سے معلوم ہوا کرتا بڑا تھا اس کو کھینچا تو پھٹ گیا اور پھر دامن کا ذکر جو خود بڑا ہنے پر دال ہے،جیسا کہ ہارون علیہ السلام کی ڈاڑھی پکڑی تو اس مراد قبضہ بھر لی جاتی ہے۔
یہ شق کہیں بھی مذکور نہیں ہے۔ عرف میں اسی عرف کا اعتبار کیاجاتاہے جوعوام کے اندر رائج ہو اورجس میں عوام سے لے کر خواص تک سبھی مبتلاہوں۔ اردو لسانیات میں نہ غلط العوام کا اعتبار ہے اورنہ غلط الخواص کا بلکہ اعتبار غلط العام کاہے۔اسی طرح عرف وعادت میں اسی عرف وعادت کا اعتبار کیاجاتاہے جس میں عوام خاص سبھی مبتلاہوں۔
اور جمشید صاحب رہا عرف وغیرہ کا معاملہ تو عرض خدمت عالیہ میں ہے
آج کل مسلمانوں کا عرف بہت وسیع ہوگیاہے، اگر سرسری طور پر بھی دیکھا جائے تو آج کل ولیمہ کی شکل کیا ہے یہ بارات کی کیا شکل ہے جہیز کا کیا معاملہ ہے منگنی کا رواج ہے اور آم کی فصل پھل آنے سے پہلے ہی خرید کی جاتی ہے یہ سب آج عرف میں ہی داخل ہےتو کون کون سے عرف کو جائز کہو گے اور کس عرف کو جائز۔
اور جمشید صاحب رہا سنت ھدیٰ اور سنت زوائد کا معاملہ اس بارے میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ آپ پینٹ شرٹ کو اسلامی لباس قرار دینا چاہ رہے ہیں جو سنت رسول ﷺ اور صحابہ کرام کے خلاف ہے، یہ تو آپ کا بھینس کو سفید بتانا جیسا ہےمعاملہ لگ رہا ہے۔ لیکن میں یہ کہنا چاہ رہا ہوں لباس ایک علامت ہوتی ایک شعار جیسا ہے تاریخ دان جب تاریخ بیان کرتا ہے اس قوم کا تہذیب تمدن رہن سہن لباس وغیرہ سبھی بیان کرتا ہے اور لباس ہی اندازہ لگا یا جا تا ہے کہ وہ قوم مہذب تھی یا غیر مہذب، ایک وکیل کا لباس لگ ہوتا ہے جج کا الگ ہوتا ہے پولس کی وردی الگ ہوتی ہے فوجی کی وردی الگ ہوتی چور کا لباس الگ ہوتا ہے ڈاکٹروں کا لباس الگ ہوتا ہے ایک پولس والا لباس سے ہی اندازہ لگا لیتا ہے کہ یہ آدمی شریف ہے یا بدمعاش۔ یہی لباس لڑکا اور لڑکی میں تمیز کرتا تھا آج کوئی پتہ ہی نہیإ چلتا لڑکا کون ہے لڑکی کون ہے جب کہ اسلام میں ایک دوسرے مشابہت اختیار کرنے کی مما نعت آئی ہے ۔
اس میں بھی مسلمانوں کا قصور ہے کہ آج جو لڑکے لڑکیوں کی حالت اور شکل بگڑی ہے اس کا سہرا مسلمان کے سر ہی جائے گا کیون کہ یہ لباس مسلمان نے ہی بنایا تھا اس لیے لڑکا اور لڑکی کے اس طرح کا لباس پہننا اور یک دوسرےکی مشابہت اختیار کرنا یہ مسلمانوں کی ہی دین ہے اس بارے میں انگریز بے قصور ہے اس کو غلط الزام دیا جاتا ہے۔ سارے اچھے کام انگریز کرتا ہے اور تہذیب و تمدن مسلمان بگاڑتا ہے کیوں کہ یہ لباس مسلمانوں ہی کی دین ہے
’’ادر یادکھئے جو قوم اپنی تہذیب اور تمدن پاسداری نہیں کرسکتی وہ قوم جلد فنا ہوجاتی ہے اور اگر باقی بھی رہتی ہے تو اس کی حیثیت غلاموں کی ہوتی ہے اور غلام کی اپنی کوئی وقعت نہیں ہوتی اور اس بارے میں خضر بھائی نے اشارہ کردیا ‘‘ اور یہ میں نہیں کہہ رہا تجربہ کا رحضرات فرماگئے ہیں
فقط والسلام عابدالرحمٰن بجنوری
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
المجلد الرابع والعشرون (كتاب الجامع 1) > كتاب الجامع > اللباس والزينة > لبس البنطلون الضيق
الفتوى رقم ( 4257 )
س : ما حكم لبس البنطلون إذا كان يلتصق بالجسم ، وإذا كان واسعا ، إذا كان محاكاة لما يرتديه الغربيون ، إذا كان يخالفهم في شكل البنطلون (التفصيلة) ما حكم لبس البدلة ، وحكم ما يسمونه رباط العنق (الكرفته) وغيرها من ملابسي الكفار ، هل يغير من حكمها أنها أصبحت من عادات المسلمين ، بحيث لا يظن عامتهم أن فيهما تشبها بالكفار ؟ وأخيرا ما اللباس الذي يمكن أن يرتديه المسلم في هذا الزمان ، فما حكم الله في هذه الأشياء كلها رحمكم الله ؟

ج : الأصل في الملابس أنها جـائزة ، إلا ما استثناه الشرع مطلقا ؛ كالذهب للرجال ، وكالحرير لهم ، إلا لجرب أو نحوه ، ولبس البنطلون ليس خاصا بالكفار ، لكن لبس الضيق منه الذي يحدد أعضاء الجسم حتى العورة لا يجوز ، أمـا الواسع فيجوز ، إلا إذا قصد بلبسه التشبه بمن يلبسه من الكفار ، وكذا لبس البدلة وربـاط العنق (الكرفتة) ليس من اللباس الخاص بالكفار ، فيجوز ، إلا إذا قصد لا بسه التشبه بهم . وبالجملة فالأصل في اللباس الجـواز إلا مـا دل الدليل الشرعي على منعه كما تقدم . وبالله التوفيق ، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم .

اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء
عضو عضو نائب الرئيس الرئيس
عبد الله بن قعود عبد الله بن غديان عبد الرزاق عفيفي عبد العزيز بن عبد الله بن باز
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
وفي فتاوى نور على الدرب للعثيمين 1052

السؤال : جزاكم الله خيرا تقول يا فضيلة الشيخ يقول النبي صلى الله عليه وسلم في الحديث الذي ما معناه من تشبه بقوم فهو منهم السؤال يا فضيلة الشيخ بأن الأمر قد بلغ حدا كبيرا فألبستنا من الكفار غالبا ومتاع البيت أيضا فما العمل في هذا مأجورين؟

الجواب :
الشيخ: المراد بالتشبه أن يفعل الإنسان شيئا خاصا بالكفار بمعنى أن من رآه ظن أنه كافر لأن حليته ولباسه حلية الكافر ولباسه وليس كلما فعل الكفار يكون تشبها إذا فعلناه وليس كل الأطعمة التي يصنعها الكفار يكون تشبها إذا أكلناها المراد بالتشبه أن يفعل ما يختص به الكافر فمن تشبه بقوم فهو منهم ولهذا لما كان لبس الرجل للبنطلون تشبها بالكفار لأن المسلمين ما كانوا يلبسونه ثم شاع وأنتشر وصار غير خاص بالكفار صار لبسه جائزا للرجال وأما النساء فمعلوم أنه لا يجوز لهن لبس البنطلون ولو عند الزوج لأن ذلك من باب التشبه بالرجال نعم.
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
فتاوى أبو إسحاق الحويني (1 / 11) المكتبة الشاملة
29- هل يجوز للرجل لبس القميص والبنطلون أحيانا أم يجب لبس الجلباب دائما وهل هو حرام أم تشبه ؟
ج 29 - أما لبس البنطلون فلست أراه من التشبه لأنه زي غلب على ديار المسلمين وكما في القاعدة الفقهية إذا ضاق الأمر اتسع ومع ذلك ففيه حرج من جهة الصلاة فيه ولذلك أرى ألا يلبسه المسلم اذا لم يكن هناك داع اليه.
 
Top