ابن طاھر
رکن
- شمولیت
- جولائی 06، 2014
- پیغامات
- 165
- ری ایکشن اسکور
- 60
- پوائنٹ
- 75
اگر فلوس کی کی اپنی قیمت تھی تو پھر ہم ان فلوس کو آج کی کرنسی کی طرح نہیں کہیں گے کیوں کہ آج کی کرنسی کی کوئی اپنی قیمت نہیں اور نہ ہی اس کے پیچھے کوئی سونے یا چاندی کا حوالہ ہے.بعض حضرات کا یہ نظریہ ہے جو آپ نے بیان کیا ہے لیکن یہ نظریہ درست نہیں ہے۔
فلوس اپنی قیمت رکھتے تھے۔
علامہ مقریزیؒ نے اغاثۃ الامہ بکشف الغمہ صفحہ 141 پر فلوس کی تفصیل ذکر کی ہے۔ ان کے مطابق سونا یا چاندی چونکہ دینار اور درہموں کی شکل میں ڈھل چکی تھی اور ایک دینار یا درہم کی ایک خاص مقدار تھی جس سے کوئی چھوٹی موٹی چیز لینا ممکن نہیں تھا اس لیے فلوس بنائے گئے۔ وہ کہتے ہیں کہ بادشاہوں نے حقیر چیزوں کی لین دین کے لیے سیسے کے ٹکڑے بنائے جنہیں فلوس کہا جاتا تھا اور یہ فلوس سونے یا چاندی جیسی حیثیت نہیں رکھتے تھے۔
ان کی اس تفصیل سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلوس کو سونے چاندی کے حوالے کے طور پر نہیں بنایا گیا تھا بلکہ ایک الگ کرنسی کے طور پر بنایا گیا تھا جن سے چھوٹی موٹی چیزوں کی لین دین کی جاتی تھی۔ اسے ہم آج کی جدید معاشیات کی اصطلاح میں "باسکٹ آف گڈز" کہتے ہیں جس کے ذریعے کرنسی کی قیمت لگائی جاتی ہے۔
اسی طرح فقہاء کرام نے مختلف جگہوں پر فلوس کا ذکر کیا ہے تو وہاں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ یہ فلوس لوگوں کے استعمال کی وجہ سے نقدی سمجھے جاتے تھے۔ یعنی سب لوگ انہیں کرنسی سمجھتے تھے تو یہ کرنسی بن گئے تھے۔ اگر یہ کسی زمانے میں سونے چاندی کا حوالہ رہے ہوتے تو فقہاء نہ صرف اس کا ذکر کرتے بلکہ ان کے احکام بھی الگ سے بیان کرتے۔
مثال کے طور پر ایک فلس کی دو فلس کے بدلے خرید و فروخت جائز ہے یا نہیں؟ اس بارے میں دو مسلک ہیں:
جو لوگ فقہ حنفی سے تعلق رکھتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر یہ فلوس سونے یا چاندی کا حوالہ ہوتے تو امام ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ کا فتوی کبھی بھی ایک کی دو کے بدلے خرید و فروخت کے جائز ہونے کا نہیں ہو سکتا تھا۔ یہ ان کے اصول کے خلاف تھا۔ بلکہ سرے سے فلس کی فلس سے بیع ہی شاید کسی کے نزدیک جائز نہ ہوتی۔
- امام ابو حنیفہؒ اور امام ابو یوسفؒ کا مسلک یہ ہے کہ یہ جائز ہے۔
- امام شافعیؒ، امام مالکؒ، امام احمدؒ اور امام ابو حنیفہؒ کے شاگرد امام محمدؒ کا مسلک یہ ہے کہ ناجائز ہے۔
اس سے پتا چلتا ہے کہ ان کی الگ قیمت تھی۔