محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,800
- پوائنٹ
- 1,069
پیپر کرنسی چند اھم سوالات ؟ِ
اگر تو یہ تحریر آپ نے لکھی ھے تو پھر اس تحریر کے حوالہ سے معلومات شیئر کی جا سکتی ہیں گر نہیں تو پھر آپ اسلام کا نظریہ زر اور کاغذی کرنسی کی حقیقت کا مطالعہ فرمائیں جو آپ کے لئے یقیناً فائدہ مند ثابت ہو گا۔کاغزی نوٹوں کی حقیقت:
کرنسی نوٹوں پرعموماً یہ تحریر پائی جاتی ھے:
"حاملِ ھذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا"
رھا یہ سوال کہ سٹیٹ بینک مطالبہ پر سونا چاندی یا دیگر اجناس دے گا سراسر دھوکہ اور فریب ھے۔ زیرِ نظر بحث میں نوٹ پر مرقوم عبارت کو دوبارہ ملاحظہ فرمائیے:
"بینک دولت پاکستان
پانچ سو روپیہ
حاملِ ھذا کو مطالبہ پر اداکرے گا"
السلام علیکم
اگر تو یہ تحریر آپ نے لکھی ھے تو پھر اس تحریر کے حوالہ سے معلومات شیئر کی جا سکتی ہیں گر نہیں تو پھر آپ اسلام کا نظریہ زر اور کاغذی کرنسی کی حقیقت کا مطالعہ فرمائیں جو آپ کے لئے یقیناً فائدہ مند ثابت ہو گا۔
والسلام
یہمطلب بھی کسی زمانے میں تھا۔ بعد میں حکومت نے ایک کے نوٹ یا سکے بڑے نوٹوں کے حساب سے جاری نہیں کیے۔ اس لیے آج کل یہ عبارت فضول اور لغو ہے۔ (تفصیل کے لیے "اسلام اور جدید معیشت و تجارت" دیکھیے۔ نیز "زر کا تحقیقی مطالعہ" از مولانا عصمت اللہ صاحب بھی اس موضوع پر ایک عمدہ کتاب ہے۔)اس تحریر میں سٹیٹ بینک فقط اس بات کی گارنٹی دے رھا ھے کہ اگر کسی کو ھمارے [سٹیٹ بینک کے] جاری کردہ 10، 20، 50، 100، 500، 1000 اور 5000 کے نوٹوں پر بھروسہ نہیں تو ایسا شخص ھمارے نوٹ ھمیں واپس کر کے حکومت کے جارے کردہ سکے بوریوں میں بھر کر لے جائے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔بالفاظِ دیگریہ نوٹ لوگوں کو سکوں کا بوجھ اٹھانے سے بچانے کے علاوہ اپنے اندر کسی قسم کی کوئی افادیت نہیں رکھتے۔
بھائی تفصیل سے پوچھئے۔ آپ کے سوالات پوری طرح سمجھ نہیں آئے۔کچھ سوالات میرے بھی ہیں اس کرنسی اور پیپر نوٹ کے ضمن میں.
١. کیا اسلام میں ٹریڈنگ (تجارت) کے لئے کرنسی، پیپر نوٹ کا کیا حکم ہے؟
٢. اگر کرنسی کا کوئی نظام ہے تو اس کرنسی کی قیمت کو رائج کیسے اور کس کی ذمہ داری ہے؟ حکومت کی، تاجر کی یا عوام (خریدار) کی.
٣. اسلام میں تجارت کی بنیاد کس چیز پر ہے؟ سونے کی بنیاد پر کرنسی دی جا سکتی ہے؟
براۓ مہربانی اگر کوئی بھائی اس سلسلے میں کوئی راہنمائی کرسکے. جزاک الله خیر
جی اشماریہ بھائی،بھائی تفصیل سے پوچھئے۔ آپ کے سوالات پوری طرح سمجھ نہیں آئے۔
ایک بات تو یہ کہ یہ بات پرانی ہو چکی ہے کہ کرنسی کسی دھات کے عوض جاری ہوتی ہے۔ اب وہ دور گزر گیا۔ البتہ میں اس دور کی اور اب کی، دونوں کی وضاحت شرعی نقطہ نظر سے کر دیتا ہوں۔جی اشماریہ بھائی،
پہلا سوال یہ تھا کہ کیا اسلامی حکم ہمیں کرنسی کے بارے میں ملتا ہے؟ یعنی جیسے کہ کرنسی کسی دھات (زیادہ تر سونا) کے عوض جاری کی جاتی ہے حکومت کی طرف سے. تو کیا یہ اسلامی طور پر جائز اور حلال ہے؟ اگر نہیں تو اسلام خرید و فروخت کا کیا نظام وضح کرتا ہے؟
میری قابل رحم اردو کے لئے پیشگی معذرت لیکن امید ہے سوال واضح کر دیا ہے؟
جزاک الله خیرا
تو اس کا مطلب ہوا کہ کرنسی (جو کہ آج کل ھم استعمال کرتے ہیں) کے استعمال میں کوئی "حرام" چیز نہیں ہے، (جیسا کے میرے علم میں تھا کہ یہ بھی سود کی ایک قسم ہے، اس چیز (سونا) کو بیچنا جو آپ کے قبضہ میں نہیں) آپ کی تحریر سے کرنسی کا استعمال درست ثابت ہوتا ہے.ایک بات تو یہ کہ یہ بات پرانی ہو چکی ہے کہ کرنسی کسی دھات کے عوض جاری ہوتی ہے۔ اب وہ دور گزر گیا۔ البتہ میں اس دور کی اور اب کی، دونوں کی وضاحت شرعی نقطہ نظر سے کر دیتا ہوں۔
کرنسی جب سونے کے عوض جاری ہوتی تھی تو وہ اس قرض سونے کی دستاویز یا ڈاکومینٹ ہوتا تھا۔ کسی سے قرض لینے کو اسلام نے منع نہیں کیا اور قرض کی لکھائی کا حکم تو قرآن کریم میں سورہ بقرہ کے آخری سے پہلے رکوع میں موجود ہے۔
اب رہا مسئلہ اس کرنسی کو دوسرے کو دینا تو یہ اس کو فقہ کی اصطلاح میں "حوالہ" کہتے ہیں۔ یعنی میرا حکومت کے اوپر قرض تھا اور میں نے آپ کو کہا کہ آپ وہ قرض وصول کر لیں۔ یہ حوالہ متفقہ طور پر تمام ائمہ کرام کے نزدیک جائز ہے۔
اب جو کرنسی جاری ہوتی ہے (غالباً 1971 یا 1973 کے بعد سے جب بریٹن وڈ کا عالمی نظام فیل ہوا) اس کی بیک پر کچھ نہیں ہوتا۔ اسے "ثمن عرفی" کہتے ہیں۔ سلف کے زمانے میں ایک طرح کے سکے ہوتے تھے جو سونے چاندی کے نہیں بنے ہوتے تھے اور انہیں فلوس کہا جاتا تھا۔ اس پر بھی علماء کا اتفاق رہا ہے کہ فلوس کے ذریعے خرید و فروخت درست ہے۔ یہ ہر زمانے میں ہوتی رہی ہے اور کسی نے نکیر بھی نہیں کی۔
اسلام کا اصل اصول اس حوالے سے یہ ہے کہ کسی چیز کو بھی دے کر دوسری چیز حاصل کی جا سکتی ہے۔ بس سود نہ ہو۔ چنانچہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے زمانے میں جہاں سونے چاندی سے خرید و فروخت ہوتی تھی وہیں "بارٹر" (چیز کے بدلے چیز) سسٹم کے ذریعے بھی چیزیں بھی لی اور دی جاتی تھیں تو اسلام تو کسی قسم کی کرنسی کو بھی منع نہیں کرتا۔
بعض حضرات کا یہ نظریہ ہے جو آپ نے بیان کیا ہے لیکن یہ نظریہ درست نہیں ہے۔تو اس کا مطلب ہوا کہ کرنسی (جو کہ آج کل ھم استعمال کرتے ہیں) کے استعمال میں کوئی "حرام" چیز نہیں ہے، (جیسا کے میرے علم میں تھا کہ یہ بھی سود کی ایک قسم ہے، اس چیز (سونا) کو بیچنا جو آپ کے قبضہ میں نہیں) آپ کی تحریر سے کرنسی کا استعمال درست ثابت ہوتا ہے.
فلوس اپنی قیمت رکھتے تھے۔ایک بات کی وضاحت فرما دیجئے کہ جو "فلوس" کا استعمال تھا، تو کیا فلوس کی کوئی اپنی قیمت ہوتی تھی یا وہ بھی سونے یا چاندی کے حوالہ کے طور پر استعمال ہوتے تھے؟