محمود حمید
رکن
- شمولیت
- جنوری 17، 2018
- پیغامات
- 26
- ری ایکشن اسکور
- 2
- پوائنٹ
- 36
چائے
چائے ایک لذیذ مشروب ہے جو ارکان ثلاثہ چاۓ پتّی، چینی اور پانی سے مرکب ہوتا ہے اور اسے ہم لال چاۓ کے نام سے جانتے ہیں ، اور اگر آپ اس کی مٹھاس اور لذت کو دوبالا کرنے کے خواہاں ہیں تو اس میں دودھ کا اضافہ کر کے اسے ارکان اربعہ سے مرکب کر سکتے ہیں ، ایسی چائے کو ہم دودھ چائے کہتے ہیں ۔ اگر گھر میں مہمان آجائے تو پھر اس چوتھے رکن کی شمولیت ناگزیر ہو جاتی ہے ۔ جہاں تک ہمارے علاقے کی بات ہے تو یہ مشروب اپنے پانچویں رکن یعنی نمک کے بغیر ادھورا مانا جاتا ہے ، لیکن دھیان رہے کہ نمک کی مقدار نسبتاً کم ہو ورنہ نمک کی قیمت بڑھ سکتی ہے، البتہ اگر گھر میں بیوی ہے تو بقول مہرو اس کے لیے چینی کے برابر نمک ڈالنا جائز ہے، لیکن میری مکمل رائے یہی ہے کہ بیوی کے لیے بھی ایسا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں خدشہ ہے کہ کہیں نمک کی زیادتی سے بیویوں کی زیادتی لازم نہ آجائے ۔
آپ چائے کا اصل مزہ اسی وقت محسوس کر سکتے ہیں جب ساتھ میں دوست و احباب ہوں اور چائے بھی گرم ہو، کیونکہ ٹھنڈی چائے مثل شربت ہے جس سے ٹھنڈک تو مل سکتی ہے لیکن گرماہٹ نہیں ، ٹھنڈی چائے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ بندہ بغیر چُسکی لیے کب پیالی خالی کر دیتا ہے اسے اس کی ذرہ برابر بھی خبر نہیں ہوتی ۔
پکوڑے اور چائے کا بھی آپس میں کافی گہرا تعلق ہے ، اگر برسات کا موسم ہو، ہریالی زمین کے پاس مکان ہو جس کی کھڑکیوں سے بھینی بھینی ہوائیں آتی ہوں اور ساتھ میں چار عدد پاکیزہ بیویاں ہوں تو خود بخود پکوڑے اور چائے کا موسم بن جاتا ہے ۔
گھر میں رہیں تو صبح و شام دو مرتبہ چائے مل ہی جاتی ہے لیکن اگر آپ پردیش میں ہیں تو بمشکل ہی چائے نصیب ہوتی ہے اور اس طرح سے آپ دو محبوب اشیاء یعنی چائے اور چائے بنانے والی سے محروم ہو جاتے ہیں اور بسااوقات مرحوم بھی ہو سکتے ہیں ، اس لیے اگر آپ بکثرت چائے پینے کے خواہشمند ہیں تو گھر میں رہا کریں ، البتہ اگر اصل چائے کا آنند لینا چاہتے ہیں تو دارجلنگ کا سفر کر سکتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ آپ کو زیادہ سے زیادہ چائے پینے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔
چائے کے طلب گار : محمود حمید پاکوڑی ( پکوڑے نہیں)
چائے ایک لذیذ مشروب ہے جو ارکان ثلاثہ چاۓ پتّی، چینی اور پانی سے مرکب ہوتا ہے اور اسے ہم لال چاۓ کے نام سے جانتے ہیں ، اور اگر آپ اس کی مٹھاس اور لذت کو دوبالا کرنے کے خواہاں ہیں تو اس میں دودھ کا اضافہ کر کے اسے ارکان اربعہ سے مرکب کر سکتے ہیں ، ایسی چائے کو ہم دودھ چائے کہتے ہیں ۔ اگر گھر میں مہمان آجائے تو پھر اس چوتھے رکن کی شمولیت ناگزیر ہو جاتی ہے ۔ جہاں تک ہمارے علاقے کی بات ہے تو یہ مشروب اپنے پانچویں رکن یعنی نمک کے بغیر ادھورا مانا جاتا ہے ، لیکن دھیان رہے کہ نمک کی مقدار نسبتاً کم ہو ورنہ نمک کی قیمت بڑھ سکتی ہے، البتہ اگر گھر میں بیوی ہے تو بقول مہرو اس کے لیے چینی کے برابر نمک ڈالنا جائز ہے، لیکن میری مکمل رائے یہی ہے کہ بیوی کے لیے بھی ایسا کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ اس میں خدشہ ہے کہ کہیں نمک کی زیادتی سے بیویوں کی زیادتی لازم نہ آجائے ۔
آپ چائے کا اصل مزہ اسی وقت محسوس کر سکتے ہیں جب ساتھ میں دوست و احباب ہوں اور چائے بھی گرم ہو، کیونکہ ٹھنڈی چائے مثل شربت ہے جس سے ٹھنڈک تو مل سکتی ہے لیکن گرماہٹ نہیں ، ٹھنڈی چائے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ بندہ بغیر چُسکی لیے کب پیالی خالی کر دیتا ہے اسے اس کی ذرہ برابر بھی خبر نہیں ہوتی ۔
پکوڑے اور چائے کا بھی آپس میں کافی گہرا تعلق ہے ، اگر برسات کا موسم ہو، ہریالی زمین کے پاس مکان ہو جس کی کھڑکیوں سے بھینی بھینی ہوائیں آتی ہوں اور ساتھ میں چار عدد پاکیزہ بیویاں ہوں تو خود بخود پکوڑے اور چائے کا موسم بن جاتا ہے ۔
گھر میں رہیں تو صبح و شام دو مرتبہ چائے مل ہی جاتی ہے لیکن اگر آپ پردیش میں ہیں تو بمشکل ہی چائے نصیب ہوتی ہے اور اس طرح سے آپ دو محبوب اشیاء یعنی چائے اور چائے بنانے والی سے محروم ہو جاتے ہیں اور بسااوقات مرحوم بھی ہو سکتے ہیں ، اس لیے اگر آپ بکثرت چائے پینے کے خواہشمند ہیں تو گھر میں رہا کریں ، البتہ اگر اصل چائے کا آنند لینا چاہتے ہیں تو دارجلنگ کا سفر کر سکتے ہیں ۔
اللہ تعالیٰ آپ کو زیادہ سے زیادہ چائے پینے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین ۔
چائے کے طلب گار : محمود حمید پاکوڑی ( پکوڑے نہیں)