• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چار آسمانی کتابوں کے بارے میں

طارق بن زیاد

مشہور رکن
شمولیت
اگست 04، 2011
پیغامات
324
ری ایکشن اسکور
1,719
پوائنٹ
139
[]بسـم الله الرحمن الـرحيم
[]السلام وعلیکم
[میرے ذہن میں چند دنوں سے اک سوال کھٹک رہا تھا سونچا آپ اہل علم حضرات سے پوچھ کر تشفی حاصل کرلوں۔
موسی علیہ السلام کو تورات ۔ یہود
عیسی علیہ السلام کو انجیل ۔ عیسائی
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن - مسلم
لیکن داود علیہ السلام کو زبور ۔ ؟ انکی قوم کہاں ہے؟ اگر پچھلے زمانے میں تھی تو وہ کونسی قوم تھی؟ اور زبور کیا آج بھی موجود ہے؟
اور آسمانی کتابیں کتنی ہیں؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
مورخین کے ایک اندازے کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ ۲۴ یا ۲۵ سو قبل مسیح بتلایا جاتا ہے یعنی آج سے تقریبا ۴۵ سو سال پہلے کا ہے۔ انہوں اپنے ایک بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو مکہ مکرمہ میں آباد کیا اور ان کی نسل سے صرف ایک ہی نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور دونوں کے مابین تقریبا ۳ ہزار سال کا زمانی وقفہ موجود ہے۔ دوسری طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دوسری بیوی سے اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کو سرزمین فلسطین میں آباد کیا اور پھر حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب کو نبوت عطا ہوئی اور مورخین کے مطابق وہ شام کے علاقے کنعان میں تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹوں میں صحف ابراہیم کی ہی شریعت لاگو تھی۔ واللہ اعلم بالصواب، اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب میں چار آسمانی کتب تورات،انجیل، زبور اور قرآن مجید کے علاوہ صحف ابراہیم کا بھی ذکر کیا ہے لیکن صحف ابراہیم کا کوئی تحریف شدہ ورژن بھی اس وقت موجود نہیں ہے البتہ دور جاہلیت میں اہل مکہ کے مشرکین میں صحف ابراہیم کی مسخ شدہ تعلیمات پر عمل موجود تھا جیسا کہ حج وغیرہ۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے یوسف علیہ السلام کا قصہ تفصیل سے قرآن مجید میں بیان ہوا ہے اور اس قصے کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین اور بھائیوں کو شام سے مصر میں بلوا لیا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں مصر پر چرواہے بادشاہوں کی حکومت تھی جو مصر کے گردا گرد کے صحرا کے بدو قبائل تھے اور انہوں نے مصر کی مقامی آبادی یعنی قبطیوں کو غلام بنا رکھا تھا۔ بعد ازاں حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات کے کافی عرصہ بعد مصر کی مقامی آبادی یعنی قبطیوں نے چرواہے بادشاہوں کے خلاف بغاوت کر دی اور ان کو مار بھگایا اور ان کے چہیتوں یعنی بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا۔ اس وقت سے بنی اسرائیل قبطیوں کے غلام چلے آ رہے ہیں۔

اس کے بعد اللہ تعالی نے اولاد یعقوب علیہ السلام یعنی بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی اور ان کو غلامی سے نجات دلانے کے لیے حضرت موسی علیہ السلام کو مبعوث کیا اور ان پر تورات نازل کی گئی۔ حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر ایک بہت بڑا صحرائے سینا عبور کرتے ہوئے فلسطین لے گئے اور اس واقعے کی تفصیلات قرآن مجید میں موجود ہیں۔ اس صحرائے سینا کے رستے میں کوہ طور پر تورات نازل کی گئی۔ صحرا میں من و سلوی کھانے کو ملا اور بادلوں نے صحرا کی دھوپ سے سایہ کیا۔ چٹان سے پانی کے چشمے جاری ہوئے۔ مورخین کے ایک اندازے کے مطابق مصر سے فلسطین کی طرف اس ہجرت میں بنی اسرائیل کی تعداد تقریبا ۶ لاکھ تھی۔ اس کے علاوہ بھی کئی اندازے بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت موسی علیہ السلام کا زمانہ ۱۵ سو قبل مسیح یعنی آج سے ۳۵ سو سال پہلے کا بتلایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم

فلسطین میں مشرکین کی حکومت تھی اور بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں فلسطین کو فتح کیا اور فلسطین پر بنی اسرائیل کی حکومت یا خلافت قائم ہو گئی اور اس خلافت کا نقطہ عروج حضرت داود علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کی خلافت ہے۔ حضرت داود علیہ السلام کا زمانہ تقریبا ایک ہزار قبل مسیح بتلایا جاتا ہے یعنی آج سے ۳ ہزار سال پہلے کا ہے۔ حضرت داود پر زبور کتاب نازل ہوئی جو اللہ کی حمد کے ترانوں پر مشتمل تھی نہ کہ کوئی علیحدہ سے شریعت یا قانون تھی کیونکہ حضرت داود بھی بنی اسرائیل ہی کے ایک پیغمبر تھے کہ ان کی شریعت بھی تورات ہی تھی۔

پھر بنی اسرائیل ہی کی اصلاح کے لیے ان میں ایک آخری پیغمبر عیسی علیہ السلام بھیجے گئے جن کی شریعت بھی تورات ہی تھی اور ان پر جو کتاب نازل ہوئی ہے یعنی انجیل اس کا موضوع تو تزکیہ نفس، اخلاق کی اصلاح اور حکمت کا بیان ہے کیونکہ یہود کے علما میں جو بگاڑ پیدا ہوا تھا وہ اخلاقی تھا، قانون یا شریعت کی تو وہ خوب بال کی کھال اتارتے تھے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد آج سے تقریبا ۲ ہزار سال پہلے ہوئی ہے۔ اس کے بعد نبوت بنی اسرائیل میں ختم ہوگئی اور وہاں سے نبوت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی نسل میں منتقل ہو گئی۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام کے شدید مخالف اور دشمن ہیں کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنو اسماعیل میں آمد سے ان کی خاندانی مذہبی قیادت و سیادت یعنی بنو یعقوب کی قیادت ختم ہو گئی اور امت مسلمہ کا ٹائٹل بنی اسرائیل سے بنو اسماعیل کی طرف منتقل ہو گیا۔
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
[]بسـم الله الرحمن الـرحيم
[]السلام وعلیکم
[میرے ذہن میں چند دنوں سے اک سوال کھٹک رہا تھا سونچا آپ اہل علم حضرات سے پوچھ کر تشفی حاصل کرلوں۔
موسی علیہ السلام کو تورات ۔ یہود
عیسی علیہ السلام کو انجیل ۔ عیسائی
محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن - مسلم
لیکن داود علیہ السلام کو زبور ۔ ؟ انکی قوم کہاں ہے؟ اگر پچھلے زمانے میں تھی تو وہ کونسی قوم تھی؟ اور زبور کیا آج بھی موجود ہے؟
اور آسمانی کتابیں کتنی ہیں؟
السلام علیکم۔

اللہ کی کتاب کے مطابق آپ کے سوال میں کئی سنگین غلطیاں ہیں، جن کو درست کرنا بہت ضروری ھے۔

موسی علیہ السلام کو تورات ۔ یہود

موسٰی علیہ سلام کو "الکتاب" ۔ مسلم


عیسی علیہ السلام کو انجیل ۔ عیسائی

عیسٰی علیہ سلام کو " الکتاب ، الحکمہ ، التوراۃ اور الانجیل۔۔۔۔۔ مسلم

محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن - مسلم

محمد صلی اللہ علیہ وسلم۔ الکتاب ، قرآن۔۔۔۔ مسلم۔


لیکن داود علیہ السلام کو زبور ۔ ؟ انکی قوم کہاں ہے؟ اگر پچھلے زمانے میں تھی تو وہ کونسی قوم تھی؟ اور زبور کیا آج بھی موجود ہے؟

داؤد علیہ سلام کو الکتاب، زبور۔۔۔۔۔۔ مسلم۔

اور آسمانی کتابیں کتنی ہیں؟

اللہ کی کتاب میں یہ نہیں لکھا کہ اللہ نے آسمان سے کتاب نازل کی ھے۔


یاد رکھیں انبیاء کے متعلق صرف وہی لکھیں جو حق ھے۔ جو اللہ کی کتاب میں لکھا ہوا ھے۔
 

Zahid Mian

مبتدی
شمولیت
فروری 17، 2018
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
مورخین کے ایک اندازے کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ ۲۴ یا ۲۵ سو قبل مسیح بتلایا جاتا ہے یعنی آج سے تقریبا ۴۵ سو سال پہلے کا ہے۔ انہوں اپنے ایک بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو مکہ مکرمہ میں آباد کیا اور ان کی نسل سے صرف ایک ہی نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور دونوں کے مابین تقریبا ۳ ہزار سال کا زمانی وقفہ موجود ہے۔ دوسری طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دوسری بیوی سے اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کو سرزمین فلسطین میں آباد کیا اور پھر حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب کو نبوت عطا ہوئی اور مورخین کے مطابق وہ شام کے علاقے کنعان میں تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹوں میں صحف ابراہیم کی ہی شریعت لاگو تھی۔ واللہ اعلم بالصواب، اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب میں چار آسمانی کتب تورات،انجیل، زبور اور قرآن مجید کے علاوہ صحف ابراہیم کا بھی ذکر کیا ہے لیکن صحف ابراہیم کا کوئی تحریف شدہ ورژن بھی اس وقت موجود نہیں ہے البتہ دور جاہلیت میں اہل مکہ کے مشرکین میں صحف ابراہیم کی مسخ شدہ تعلیمات پر عمل موجود تھا جیسا کہ حج وغیرہ۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے یوسف علیہ السلام کا قصہ تفصیل سے قرآن مجید میں بیان ہوا ہے اور اس قصے کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین اور بھائیوں کو شام سے مصر میں بلوا لیا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں مصر پر چرواہے بادشاہوں کی حکومت تھی جو مصر کے گردا گرد کے صحرا کے بدو قبائل تھے اور انہوں نے مصر کی مقامی آبادی یعنی قبطیوں کو غلام بنا رکھا تھا۔ بعد ازاں حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات کے کافی عرصہ بعد مصر کی مقامی آبادی یعنی قبطیوں نے چرواہے بادشاہوں کے خلاف بغاوت کر دی اور ان کو مار بھگایا اور ان کے چہیتوں یعنی بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا۔ اس وقت سے بنی اسرائیل قبطیوں کے غلام چلے آ رہے ہیں۔

اس کے بعد اللہ تعالی نے اولاد یعقوب علیہ السلام یعنی بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی اور ان کو غلامی سے نجات دلانے کے لیے حضرت موسی علیہ السلام کو مبعوث کیا اور ان پر تورات نازل کی گئی۔ حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر ایک بہت بڑا صحرائے سینا عبور کرتے ہوئے فلسطین لے گئے اور اس واقعے کی تفصیلات قرآن مجید میں موجود ہیں۔ اس صحرائے سینا کے رستے میں کوہ طور پر تورات نازل کی گئی۔ صحرا میں من و سلوی کھانے کو ملا اور بادلوں نے صحرا کی دھوپ سے سایہ کیا۔ چٹان سے پانی کے چشمے جاری ہوئے۔ مورخین کے ایک اندازے کے مطابق مصر سے فلسطین کی طرف اس ہجرت میں بنی اسرائیل کی تعداد تقریبا ۶ لاکھ تھی۔ اس کے علاوہ بھی کئی اندازے بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت موسی علیہ السلام کا زمانہ ۱۵ سو قبل مسیح یعنی آج سے ۳۵ سو سال پہلے کا بتلایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم

فلسطین میں مشرکین کی حکومت تھی اور بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں فلسطین کو فتح کیا اور فلسطین پر بنی اسرائیل کی حکومت یا خلافت قائم ہو گئی اور اس خلافت کا نقطہ عروج حضرت داود علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کی خلافت ہے۔ حضرت داود علیہ السلام کا زمانہ تقریبا ایک ہزار قبل مسیح بتلایا جاتا ہے یعنی آج سے ۳ ہزار سال پہلے کا ہے۔ حضرت داود پر زبور کتاب نازل ہوئی جو اللہ کی حمد کے ترانوں پر مشتمل تھی نہ کہ کوئی علیحدہ سے شریعت یا قانون تھی کیونکہ حضرت داود بھی بنی اسرائیل ہی کے ایک پیغمبر تھے کہ ان کی شریعت بھی تورات ہی تھی۔

پھر بنی اسرائیل ہی کی اصلاح کے لیے ان میں ایک آخری پیغمبر عیسی علیہ السلام بھیجے گئے جن کی شریعت بھی تورات ہی تھی اور ان پر جو کتاب نازل ہوئی ہے یعنی انجیل اس کا موضوع تو تزکیہ نفس، اخلاق کی اصلاح اور حکمت کا بیان ہے کیونکہ یہود کے علما میں جو بگاڑ پیدا ہوا تھا وہ اخلاقی تھا، قانون یا شریعت کی تو وہ خوب بال کی کھال اتارتے تھے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد آج سے تقریبا ۲ ہزار سال پہلے ہوئی ہے۔ اس کے بعد نبوت بنی اسرائیل میں ختم ہوگئی اور وہاں سے نبوت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی نسل میں منتقل ہو گئی۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام کے شدید مخالف اور دشمن ہیں کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنو اسماعیل میں آمد سے ان کی خاندانی مذہبی قیادت و سیادت یعنی بنو یعقوب کی قیادت ختم ہو گئی اور امت مسلمہ کا ٹائٹل بنی اسرائیل سے بنو اسماعیل کی طرف منتقل ہو گیا۔
 

Zahid Mian

مبتدی
شمولیت
فروری 17، 2018
پیغامات
2
ری ایکشن اسکور
0
پوائنٹ
2
مورخین کے ایک اندازے کے مطابق حضرت ابراہیم علیہ السلام کا زمانہ ۲۴ یا ۲۵ سو قبل مسیح بتلایا جاتا ہے یعنی آج سے تقریبا ۴۵ سو سال پہلے کا ہے۔ انہوں اپنے ایک بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کو مکہ مکرمہ میں آباد کیا اور ان کی نسل سے صرف ایک ہی نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پیدا ہوئے اور دونوں کے مابین تقریبا ۳ ہزار سال کا زمانی وقفہ موجود ہے۔ دوسری طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنی دوسری بیوی سے اپنے بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام کو سرزمین فلسطین میں آباد کیا اور پھر حضرت اسحاق علیہ السلام کے بیٹے حضرت یعقوب کو نبوت عطا ہوئی اور مورخین کے مطابق وہ شام کے علاقے کنعان میں تھے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بیٹوں میں صحف ابراہیم کی ہی شریعت لاگو تھی۔ واللہ اعلم بالصواب، اللہ سبحانہ وتعالی نے اپنی کتاب میں چار آسمانی کتب تورات،انجیل، زبور اور قرآن مجید کے علاوہ صحف ابراہیم کا بھی ذکر کیا ہے لیکن صحف ابراہیم کا کوئی تحریف شدہ ورژن بھی اس وقت موجود نہیں ہے البتہ دور جاہلیت میں اہل مکہ کے مشرکین میں صحف ابراہیم کی مسخ شدہ تعلیمات پر عمل موجود تھا جیسا کہ حج وغیرہ۔

حضرت یعقوب علیہ السلام کے بیٹے یوسف علیہ السلام کا قصہ تفصیل سے قرآن مجید میں بیان ہوا ہے اور اس قصے کے مطابق حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے والدین اور بھائیوں کو شام سے مصر میں بلوا لیا تھا۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں مصر پر چرواہے بادشاہوں کی حکومت تھی جو مصر کے گردا گرد کے صحرا کے بدو قبائل تھے اور انہوں نے مصر کی مقامی آبادی یعنی قبطیوں کو غلام بنا رکھا تھا۔ بعد ازاں حضرت یوسف علیہ السلام کی وفات کے کافی عرصہ بعد مصر کی مقامی آبادی یعنی قبطیوں نے چرواہے بادشاہوں کے خلاف بغاوت کر دی اور ان کو مار بھگایا اور ان کے چہیتوں یعنی بنی اسرائیل کو غلام بنا لیا۔ اس وقت سے بنی اسرائیل قبطیوں کے غلام چلے آ رہے ہیں۔

اس کے بعد اللہ تعالی نے اولاد یعقوب علیہ السلام یعنی بنی اسرائیل کی ہدایت و رہنمائی اور ان کو غلامی سے نجات دلانے کے لیے حضرت موسی علیہ السلام کو مبعوث کیا اور ان پر تورات نازل کی گئی۔ حضرت موسی علیہ السلام بنی اسرائیل کو مصر سے نکال کر ایک بہت بڑا صحرائے سینا عبور کرتے ہوئے فلسطین لے گئے اور اس واقعے کی تفصیلات قرآن مجید میں موجود ہیں۔ اس صحرائے سینا کے رستے میں کوہ طور پر تورات نازل کی گئی۔ صحرا میں من و سلوی کھانے کو ملا اور بادلوں نے صحرا کی دھوپ سے سایہ کیا۔ چٹان سے پانی کے چشمے جاری ہوئے۔ مورخین کے ایک اندازے کے مطابق مصر سے فلسطین کی طرف اس ہجرت میں بنی اسرائیل کی تعداد تقریبا ۶ لاکھ تھی۔ اس کے علاوہ بھی کئی اندازے بیان کیے گئے ہیں۔ حضرت موسی علیہ السلام کا زمانہ ۱۵ سو قبل مسیح یعنی آج سے ۳۵ سو سال پہلے کا بتلایا جاتا ہے۔ واللہ اعلم

فلسطین میں مشرکین کی حکومت تھی اور بنی اسرائیل نے حضرت موسی علیہ السلام کی وفات کے بعد حضرت یوشع بن نون کی قیادت میں فلسطین کو فتح کیا اور فلسطین پر بنی اسرائیل کی حکومت یا خلافت قائم ہو گئی اور اس خلافت کا نقطہ عروج حضرت داود علیہ السلام اور ان کے بیٹے حضرت سلیمان علیہ السلام کی خلافت ہے۔ حضرت داود علیہ السلام کا زمانہ تقریبا ایک ہزار قبل مسیح بتلایا جاتا ہے یعنی آج سے ۳ ہزار سال پہلے کا ہے۔ حضرت داود پر زبور کتاب نازل ہوئی جو اللہ کی حمد کے ترانوں پر مشتمل تھی نہ کہ کوئی علیحدہ سے شریعت یا قانون تھی کیونکہ حضرت داود بھی بنی اسرائیل ہی کے ایک پیغمبر تھے کہ ان کی شریعت بھی تورات ہی تھی۔

پھر بنی اسرائیل ہی کی اصلاح کے لیے ان میں ایک آخری پیغمبر عیسی علیہ السلام بھیجے گئے جن کی شریعت بھی تورات ہی تھی اور ان پر جو کتاب نازل ہوئی ہے یعنی انجیل اس کا موضوع تو تزکیہ نفس، اخلاق کی اصلاح اور حکمت کا بیان ہے کیونکہ یہود کے علما میں جو بگاڑ پیدا ہوا تھا وہ اخلاقی تھا، قانون یا شریعت کی تو وہ خوب بال کی کھال اتارتے تھے۔ حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد آج سے تقریبا ۲ ہزار سال پہلے ہوئی ہے۔ اس کے بعد نبوت بنی اسرائیل میں ختم ہوگئی اور وہاں سے نبوت حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دوسرے بیٹے حضرت اسمعیل علیہ السلام کی نسل میں منتقل ہو گئی۔ اور یہی وجہ ہے کہ یہود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام کے شدید مخالف اور دشمن ہیں کیونکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بنو اسماعیل میں آمد سے ان کی خاندانی مذہبی قیادت و سیادت یعنی بنو یعقوب کی قیادت ختم ہو گئی اور امت مسلمہ کا ٹائٹل بنی اسرائیل سے بنو اسماعیل کی طرف منتقل ہو گیا۔
یہ بات تو درست ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنو یعقوب کے آخری نبی تھے، مگر ایک خلش جو میرے ذہن میں ہے۔ "آپ کے مطابق انجیل جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوئی ، دراصل تورات کا ہی تسلسل ہے، مگر اللہ نے قُرآن میں یہودیوں اور عیسائیوں کو علیحدہ علیحدہ کر کے مخاطب کیا ہے اور پھر یہ دونوں بھی خود کو ایک نہیں مانتے۔ آپ کیا کہتے ہیں
 

صمیم طارق

مبتدی
شمولیت
دسمبر 10، 2017
پیغامات
17
ری ایکشن اسکور
3
پوائنٹ
9
یہود یا بنی اسرائیل کے دو قبائیل بنی یہودہ و بنیا امین نے تو حضرت عیسیٰ کی نبوت و تعلیمات کو ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ انکے بعد پال نے دعوای کیا کے حضرت عیسیٰ انسے ملے ہیں اور انکو تعلیمات سیکھائی ہیں٬ اور انکی تبلیغ پر بھی یہود نے کوئی کان نہیں دھرا اور آخر میں پال نے اپنی تعلیمات کو غیر یہودیوں میں پھیلانا شروع کردیا جو بعد میں عیسائیت کہلائی اور پال کی تعلیمات پر چلنے والے مسیحی یا عیسائی۔
 

عالی جاہ

مبتدی
شمولیت
ستمبر 12، 2018
پیغامات
14
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
7
لیکن اس بات کا کیا ثبوت ہے کہ تورات وہی کتاب ہے جو موسیٰ ؑ پر اتری تھی؟؟؟؟
یا اس کتاب کا نام تورات ہے؟؟؟؟
 
Top