• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چند باتیں

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بسم اللہ الرحمن الرحیم​
دین اسلام کامل مکمل ضابطہ حیات ہے اسی لئے عالمگیریت، ابدیت اور ہمہ گیریت و جامعیت جیسی صفاتِ جاوداں کا حامل ہے۔
ہر علم و فن اور پیش آمدہ مسائل سے متعلق راہنمائی کتاب اللہ کے اندر موجود ہے جیسا کہ امام شافعی aکی ''الرسالہ'' اور امام سیوطی a کی ''الاتقان'' وغیرہ میں اظہار کیا گیا ہے۔​
صنعت و حرفت اور بیع و تجارت انسانی زندگی کا لازمی جزء ہیں۔ بھلا اِن کے متعلق اسلام کس طرح خاموش رہ سکتا تھا۔​
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:​
وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا (البقرة:275)
اللہ نے تو بیع کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے۔
باہمی رضامندی سے اللہ تعالیٰ نے تجارت کرنے کی اجازت دی ہے۔ (النساء:29)​
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نورانی فرامین میں معاملات کی تعلیم دی ہے؛ فرمایا:​
انما البیع عن تراض (سنن ابن ماجہ۔ ارواء الغلیل)
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
بیع باہمی رضا مندی سے ہوتی ہے۔

دین اسلام نے اپنے سنہری احکامات میں یہ تعلیم دی رکھی ہے کہ حرام چیز کی خرید و فروخت نہ ہو، دھوکہ اورغرر سے س بیع نہ ہو۔ اسی طرح دیگر معاملات بالکل واضح طور پر دونوں فریقوں کو معلوم ہونا چاہئیں۔ (تفصیل کتب احادیث و فقہ میں موجود ہے)۔

حدیث کی تقریباً تمام کتب میں احکام تجارت و بیع بیان ہوئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ دین اسلام نے بیوع کو کس قدر اپنا موضوع بنایا ہے۔

خرید و فروخت (معاملات) میں اصل یہ ہے کہ وہ معاملات جن کی لوگوں کو ضرورت ہوتی ہے ان میں سے صرف وہی حرام ہیں جن کی حرمت پر کتاب و سنت دلالت کر رہی ہوں جیسا کہ عبادات میں سے وہی جائز ہیںجن کی مشروعیت پر قرآن و حدیث میں رہنمائی موجود ہے۔ (مجموع الفتاویٰ از امام ابن تیمیہa)۔

تجارت کے پیشے کو بھی کما حقہ وہی سمجھ سکتا ہے جو دین سے جڑا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سیدنا عمر t فرماتے تھے:

''ہمارے بازاروں میں وہی خرید و فروخت کرے جسے دین کی سمجھ ہو''۔ جامع ترمذی کے اس اثرکو خود امام ترمذی a نے حسن درجے کا قرار دیا ہے۔

اور اگر ایسی تفقہ حاصل نہ ہو سکے تو پھر حکم ہے کہ یقینی بات کو تھام لو اور شک و شبہ کو چھوڑ دو۔
دع ما یربیک الی ما لا یربیک (جامع ترمذی)

ایسے وقت میں کہ جب ہم اس حدیث کا مصداق بنے ہوئے ہیں جس میں نبی اکرم e نے فرمایا تھا:
''لوگوں پر ایک زمانہ آئے گا جب انسان کو اس بات کی پرواہ نہیں رہے گی کہ اس نے جو حاصل کیا وہ حلال ہے یا حرام ہے''۔ (صحیح بخاری)۔

مذکور حدیث ''دع ما یریبک...'' سے بھی واضح ایک حدیث ہماری رہنمائی کرتی ہے کہ جو معاملہ شک و شبہ میں ڈال دے اس سے کنارہ کش رہنے میں ہی ہماری خیر و عافیت ہے۔
فرمایا نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے:

''یقیناً حلال بھی بالکل واضح ہے اور حرام بھی بالکل ظاہر ہے۔ اور ان کے درمیان کچھ معاملات مشتبہ ہیں جنہیں لوگوں کی اکثریت سمجھ نہیں پاتی۔ پس جو شبہات سے بچا تو اُس نے اپنا دین اور عزت بچا لی۔ اور جو شبہات میں پڑ گیا اس کی مثال اُس چرواہے کی سی ہے جو (شاہی) چراگاہ کے آس پاس (اپنے جانور) چراتا ہے، قریب ہے کہ اس میں جا داخل ہو۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم)۔

دورِ حاضر جو خالصتاً ''مادہ پرستی'' کا دور ہے، میں بے شمار لوگ حلال و حرام سے نابلد کھانے، کمانے میں مشغول ہیں۔ اہل علم و فضل پر لازم ہے کہ وہ انہیں تجارت و کسب کے سلسلے میں ''اسلامی رہنمائی'' بتائیں اور خود ایسے لوگوں پر بھی سب سے بڑھ کر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ دین اسلام کے معاشی احکامات کو سمجھتے ہوئے کسب حلال کے لئے جستجو کریں۔ اور اکل حرام سے کلی اجتناب کریں۔ اور ''مشتبہ اُمور'' سے اپنے لئے راستہ بنا کر ''دین و عزت''کو داغدار نہ کریں بلکہ ان اُمور سے اس طور بچیں کہ ''دین و عزت'' محفوظ تر ہو جائے۔ واللہ المستعان۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اسلامی بینک ... حقیقت کیا ہے؟
لوگوں کو حلال و حرام کی تمیز سے بے نیاز کر دینے والے سب سے زیادہ وہ بینک ہیں جنہوں نے اسلام کا لبادہ استعمال کر کے خود کو، خود ساختہ اسلامی بینک بنا لیا ہے۔ اور لفظ ''اسلامی''اور ''حلال'' تو اس طور اپنے اور بیگانے استعمال کرنے لگے ہیں کہ اب عنقریب ہی شاید ''اسلامی شراب خانہ'' یا ''حلال شراب'' کے اڈے کھلنا شروع ہو جائیں۔ معاذ اللہ۔​

اس حقیقت کا انکار ممکن ہی نہیں کہ ''موجودہ بینکنگ سسٹم''سود سے آلودہ ہے اور نام نہاد ''اسلامی بینک'' بھی کلی نہ سہی جزوی طور پر اس سودی نظام کی ''پرورش'' میں ''تعاون'' فرما رہے ہیں۔ یاد رہے کہ کوئی نظریہ یا معاملہ اس وقت اسلامی نہیں بن جاتا جب تک کہ وہ اسلامی اصول سے ہم آہنگ نہ ہو جائے۔ مگر آج تو ''عوام و خواص''''اسلامی'' اور ''البرکہ'' وغیرہ کے الفاظ کو قرآن و حدیث کی سند سمجھ بیٹھے ہیں۔

اسلام بےشک ہر دور و ہر قوم کے لئے ہے اور ہر ہر شعبہ ہائے زندگی میں رہنمائی کر سکتا ہے۔ مگر یہ حقیقت ہے کہ ابھی ''اسلامی لیبل'' کے حامی بینکوں میں بہت سی خامیاں باقی ہیں جنہیں ان بینکوں سے مراعات و وظائف لینے والے احباب بھی ''مشکوک'' نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
اسلامی بینکوں پر تنقید کا سبب


اسلامی بینکوں پر تنقید کا سبب وہ شکوک وشبہات ہیں جو خود ''اسلامی بینکوں'' کے پیدا کردہ ہیں، جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
1اسلامی بینکوں میں رائج معاملات جیسے اجارہ، مشارکہ، متناقصہ وغیرہ سے بینک کی اصل غرض لوگوں کی مالی ضرورت پوری کر کے فائدہ اُٹھانا ہے۔ حقیقی اجارہ یا شراکت کا ارادہ نہیں ہوتا۔ جہاں اجارہ اور شراکت کے نام پر صرف تمویل کے ذریعہ فائدہ اُٹھانا مقصود ہو وہ معاملہ جائز نہیں رہتا کیونکہ معاملات میں مقصد کو دیکھا جاتا ہے نہ کہ الفاظ کو۔ قانونِ اسلامی کا معروف قاعدہ ہے: ''عقود میں مقاصد اور معانی کا خیال رکھا جاتا ہے نہ کہ الفاظ کا''۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''معلوم ہوا کہ عقود اور افعال میں اصل اعتبار ان کے حقائق اور مقاصد کا ہے۔ ظاہری الفاظ اور افعال کا نہیں''۔ (اعلام الموقعین)۔
2اسلامی بینک مرابحہ اور اجارہ کو جو اپنی اصل کے اعتبار سے طریقہ ہائے تمویل نہیں ہیں، کو تمویلی سرگرمیوں کے لئے استعمال کرتے وقت اپنے منافع کا تعین شرح سود کے مطابق کرتے ہیں۔ دارالعلوم کے استاد اور موجودہ ''اسلامی بینکاری'' کے سرگرم حامی لکھتے ہیں:
''چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اسلامی بینک عام طور پر مروجہ بینکوں کے باہمی شرح سود کو معیار کے طور پر استعمال کر کے اپنا نفع یا کرایہ کا تعین کرتے ہیں جیسے پاکستان کا ئبور (سود کی وہ شرح جس پر کراچی کے بینک ایک دوسرے سے لین دین کرتے ہیں) کو معیار بنایا جاتا ہے۔ اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں''۔ (اسلامی بینکاری ایک حقیقت پسندانہ جائزہ)۔
مولانا تقی عثمانی صاحب جنہیں ''اسلامی بینکوں'' کی ''شرعی رہنمائی'' کا شرف حاصل ہے، فرماتے ہیں:
''مثالی نظام مشارکہ اور مضاربہ معاشی انصاف فراہم کر سکتا ہے، وہ وقت ابھی دُور ہے کیونکہ مشارکہ اور مضاربہ کا استعمال Assestsسائیڈ پر بہت کم ہوتاہے۔ اور استعمال کم ہوئے پھر ان کی بنیاد پر Investmentکم ہے۔ لہٰذا اس کی جگہ ثانوی نوعیت کی پراڈکٹ اجارہ، مرابحہ وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ ان میں مشکل یہ ہے کہ Bench Mark وہی رہتا ہے جو سودی نظام میں ہے۔ اس کے معانی یہ ہیں کہ آپ کو روپیہ اُدھار دینے کے بجائے کتاب بیچ دی کہ چھ مہینے بعد دینا۔ کتاب بیچی لیکن نفع Fix کر دیا اور ایک مخصوص مدت بعد وصولنے کا معاہدہ کر لیا۔ اس منافع کمانے کا بینچ مارک وہی ہے جو سودی نظام کا ہے اس لئے اسلامی نظام کے معاشرے پر جو اثرات ہونے چاہئیے تھے وہ ابھی تک نہیں ہو رہے۔ (روزنامہ اُمت 4دسمبر 2005ء)۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ان معاملات کو اسلامی ثابت کرنے کی کوشش کیوں کی جار ہی ہے؟
3 سودی بینکوں کی طرح اسلامی بینک بھی متعین منافع دیتے ہیں اور اپنے کھاتہ داروں کو اس بات کا یقین پیشگی دلاتے ہیں۔ اگر آپ سودی بینک کے ساتھ لیز پر گاڑی لینے کا معاملہ کرتے ہیں تو بینک بکنگ کے لئے رقم جمع کروانے کی تاریخ سے ہی اپنا کرایہ وصول کرنا شروع کر دے گا خواہ آپ کو گاڑی تین ماہ بعد ہی ملے۔ کیوں؟
اسلامی بینک بھی ہیرپھیر کے بعد اسی طرح رقم وصول کرتا ہے۔ (دیکھئے ماہر اسلامی بینکاری جناب محمد ایوب کی کتاب: Understanding Islamic Finance۔
4 سودی بینکوںکی طرح اسلامی بینک بھی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ کرتے ہیں جوکہ اسلامی بینک کے زیرنگرانی قائم خیراتی فنڈ میں جمع کروایا جاتا ہے۔ یہاں بھی سودی فارمولا اختیار کیا جاتا ہے کہ ایک تو جرمانہ واجب الادا رقم کے تناسب سے عائد کیا جاتا ہے اور دوسرا تاخیر کی مدت بڑھنے کے ساتھ جرمانہ کی رقم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں تاخیر پر جرمانہ کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔
5 سودی بینکاری کی طرح اسلامی بینک بھی Non Riskہیں۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جب کوئی اسلامی بینک کے ساتھ مرابحہ یا اجارہ کا معاملہ کرنے جاتا ہے تو بینک اس سے اچھی خاصی رقم جو عام طور پر مطلوبہ چیز کی قیمت کا دس فیصد ہوتی ہے ٹوکن منی کے نام سے وصول کرتا ہے تاکہ اگر بعد میں وہ شخص چیز لینے سے انکار کر دے اور بینک کو وہ چیز دوسری جگہ قیمت لاگت سے کم پر فروخت کرنی پڑے تو بینک اس ٹوکن منی سے اپنا نقصان پورا کر سکے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی بینکوں کے نزدیک یہ خطرہ مول لینا رسک میں شامل نہیں؟ ممکن ہے اسلامی بینکنگ کے محققین یہ فرمائیں کہ ہمارے نزدیک اس قسم کے خطرے میں پڑنا رسک میں شامل نہیں۔ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دوسری جگہ بیچنے پر بینک کو فائدہ ہو تو کیا وہ یہ نفع خریداری کا آرڈر دینے والے شخص کو دینے کے لئے تیار ہے؟ ظاہر ہے بینک اس پر تیار نہیں ہو گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بینک نقصان اُٹھانے کے لئے تیار نہیں تو نفع کس بنیاد پر لیتا ہے؟
علاوہ ازیں اسلامی بینکوں میں سرمایہ کاری اور لوگوں کی مالی ضرورتیں پوری کرنے کے جو طریقے مضاربہ، مرابحہ، مشارکہ، اجارہ اور بیع تورق رائج ہیں وہ اس سادہ صورت میں موجود نہیں جو کتب حدیث و فقہ میں بیان ہوئی ہیں۔
(ماخوذ : اسلامی بینکاری کی حقیقت۔ از حافظ ذوالفقار علی۔ طبع دارالدعوہ السلفیہ لاہور)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
انشورنس (بیمہ)
انشورنس انگریزی زبان کے لفظ Insureسے ہے جو وثوق دلانے اور ضمانت کے معنی میں آتا ہے۔ انشورنس کا اطلاق ایسے معاملے پرہوتا ہے جس میں کوئی شخص یا ادارہ دوسرے شخص کو یہ ضمانت دیتا ہے کہ مستقبل میں پیش آنے والے فلاں ممکنہ خطرات کے نقصان کی تلافی وہ کرے گا۔ چنانچہ اس شرط پر دوسرا شخص ایک معینہ مدت تک ایک مقرر رقم اقساط کی شکل میں ادا کرتا ہے۔​
عربی میں انشورنس کے لئے ''تامین'' کا لفظ استعمال ہوتا ہے جو ''امن'' سے ماخوذ ہے۔ جس کا معنی طمانیت قلبی اور خطرے سے محفوظ رہنا ہے۔ انشورنس کے ذریعے بھی انسان مستقبل کے خطرات سے محفوظ رہتا ہے اس لئے اسے تامین کہتے ہیں۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
انشورنس کی قسمیں


منتظم اداروں کے لحاظ سے اس کی تین قسمیں ہیں:
1گروپ انشورنس: حکومت کا اپنے ملازمین کی تنخواہ سے ہر ماہ کچھ رقم کاٹ لینا اور پھر ملازم کی ریٹائرمنٹ، انتقال یا حادثہ کی صورت میں ملازم یا اس کے ورثاء کو اضافے کے ساتھ لوٹا دینا۔ اگر اس میں (لوٹاتے ہوئے) اضافے کی وجہ سود نہ ہو تو یہ جائز ہے۔ واللہ اعلم۔
2 میوچل انشورنس یا تعاونی بیمہ: اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ کسی ادارے، جماعت یا قبیلے کے لوگ باہم مل کر ایک فنڈ تشکیل دیتے ہیں اور کسی رُکن کو حادثہ پیش آنے کی صورت میں اس فنڈ سے اس کی مدد کی جاتی ہے۔ اگر فنڈ میں جمع شدہ رقم کم پڑ جائے تو اراکین سے مزید وصول کی جاتی ہے اور اگر بچ جائے تو آئندہ سال کے لئے جمع کر لی جاتی ہے۔ اس کی بنیاد سراسر تعاون پر ہے جس میں جو کوئی شرعی قباحت نہیں پائی جاتی۔ اس لئے انشورنس کی یہ قسم جائز اور مباح ہے۔ ابتداء میں بیمہ کی یہی شکل رائج ہوئی تھی۔
3کمرشل انشورنس یا تجارتی بیمہ: انشورنس کی اس قسم کا انتظام کاروباری کمپنیاں کرتی ہیں جن کے پیش نظر لوگوں سے مالی تعاون کے بجائے مال کمانا ہوتا ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ بیمہ ہولڈر کمپنی کو ایک متعین رقم اقساط کی صورت میں مخصوص مدت تک ادا کرتا ہے۔ اس کےعوض بیمہ کمپنی اسے یقین دہانی کرواتی ہے کہ کمپنی اس کے فلاں نوعیت کے نقصان کی تلافی کرے گی۔ انشورنس کی یہ قسم بطور کاروبار اختیار کی جاتی ہے اس لئے اسے کمرشل انشورنس کہا جاتا ہے۔
جب انشورنس کا لفظ بغیر کسی اضافی قید کے ذکر کیا جائے تو اس سے یہی قسم مراد ہوتی ہے اور محل نزاع بھی یہی ہے۔ اس وقت عالم اسلام کے مشاہیر علماء اس کی حرمت کے قائل ہیں کہ اس میں قمار بھی ہے اور سود بھی۔
بیمہ کی اس کے علاوہ بہت سی اقسام رائج ہو چکی ہیں جن کی تفصیل بڑی کتابوں میں دیکھی جا سکتی ہے۔
(دیکھئے: بینک کا سود حلال ہے؟۔ از مشتاق کریمی۔ دورِ حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم۔ از حافظ ذوالفقار علی اور فتاویٰ شیخ ابن باز مترجم زیر اہتمام ڈاکٹر لقمان سلفی)۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کریڈٹ کارڈ


کریڈٹ کارڈ کو عربی میں ''بطاقہ الائتمان'' کہا جاتا ہے۔ جس کا لغوی معنی ہے اعتبار، اعتماد اور قرض کا کارڈ۔ عصر حاضر میں یہ ایسی کرنسی کا روپ دھار چکا ہے جو پوری دنیا میں یکساں طور پر استعمال ہو سکتی ہے۔ بنیادی طور پر کارڈ کی دو قسمیں ہیں:
1سودی کارڈ: جن پر تاخیر کی صورت میں جرمانہ عائد ہوتا ہے۔ عام کریڈٹ کارڈ اور چارج کارڈ اسی قسم سے ہیں۔ چارج کارڈ کو عربی میں ''بطاقہ الائتمان العادیہ'' یا ''بطاقہ الخصم الشھری'' کہا جاتا ہے۔
2غیر سودی کارڈ۔ اس سے مراد Debit Cardہے۔ یہ کارڈ اس کو جاری کیا جاتا ہے جس کا اس بینک میں جس سے کارڈ لیا جا رہا ہے، بیلنس موجود ہو۔ اس میں یوں سمجھیں کہ کارڈ کا حامل اپنی ہی رقم استعمال کرتا ہے جبکہ بینک اس پر سروس چارجز وصول کرتا ہے۔ کارڈ کا حامل اپنے بیلنس سے زیادہ پیسہ استعمال نہیں کر سکتا الا یہ کہ بینک کی طرف سے پیشگی اجازت ہو۔ اس میں ادائیگی میں تاخیر اور جرمانہ کا اندیشہ نہیں ہوتا۔
 

ساجد تاج

فعال رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
7,174
ری ایکشن اسکور
4,517
پوائنٹ
604
کریڈٹ کارڈ اور چارج کا رڈ کا شرعی حکم



اگر کریڈٹ کارڈ اور چارج کارڈ کی حقیقت پر غور کیا جائے تو ثابت ہوتا ہے کہ یہ دونوں درحقیقت قرض کے کارڈزہیں۔ کریڈٹ کارڈ میں طویل مدت کا قرض ہے جبکہ چارج کارڈ میں مختصر مدت کا۔ چونکہ ان میں تاخیر پر جرمانہ وصول کیا جاتا ہے جو زمانہ جاہلیت کے سود ''اما ان تقفی و اما ان تربی'' کے مشابہ ہے۔ جس سے قرآن نے سختی سے روکا ہے۔ لہٰذا ان کا استعمال شرعاً جائز نہیں ہے۔ البتہ ڈیبٹ کارڈ میں چونکہ کارڈ ہولڈر اپنا ہی بیلنس استعمال کرتا ہے اس وجہ سے جرمانے کا اندیشہ نہیں ہوتا لہٰذا اس کا استعمال جائز ہے۔
(دیکھئے: قرض کے فضائل و مسائل: از ڈاکٹر فضل الٰہی اور دورِ حاضر کے مالی معاملات کا شرعی حکم۔ از حافظ ذوالفقار علی)۔
 
Top