اسلامی بینکوں پر تنقید کا سبب
اسلامی بینکوں پر تنقید کا سبب وہ شکوک وشبہات ہیں جو خود ''اسلامی بینکوں'' کے پیدا کردہ ہیں، جس کی تفصیل کچھ اس طرح ہے:
1اسلامی بینکوں میں رائج معاملات جیسے اجارہ، مشارکہ، متناقصہ وغیرہ سے بینک کی اصل غرض لوگوں کی مالی ضرورت پوری کر کے فائدہ اُٹھانا ہے۔ حقیقی اجارہ یا شراکت کا ارادہ نہیں ہوتا۔ جہاں اجارہ اور شراکت کے نام پر صرف تمویل کے ذریعہ فائدہ اُٹھانا مقصود ہو وہ معاملہ جائز نہیں رہتا کیونکہ معاملات میں مقصد کو دیکھا جاتا ہے نہ کہ الفاظ کو۔ قانونِ اسلامی کا معروف قاعدہ ہے: ''عقود میں مقاصد اور معانی کا خیال رکھا جاتا ہے نہ کہ الفاظ کا''۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
''معلوم ہوا کہ عقود اور افعال میں اصل اعتبار ان کے حقائق اور مقاصد کا ہے۔ ظاہری الفاظ اور افعال کا نہیں''۔ (اعلام الموقعین)۔
2اسلامی بینک مرابحہ اور اجارہ کو جو اپنی اصل کے اعتبار سے طریقہ ہائے تمویل نہیں ہیں، کو تمویلی سرگرمیوں کے لئے استعمال کرتے وقت اپنے منافع کا تعین شرح سود کے مطابق کرتے ہیں۔ دارالعلوم کے استاد اور موجودہ ''اسلامی بینکاری'' کے سرگرم حامی لکھتے ہیں:
''چوتھا مسئلہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں اسلامی بینک عام طور پر مروجہ بینکوں کے باہمی شرح سود کو معیار کے طور پر استعمال کر کے اپنا نفع یا کرایہ کا تعین کرتے ہیں جیسے پاکستان کا ئبور (سود کی وہ شرح جس پر کراچی کے بینک ایک دوسرے سے لین دین کرتے ہیں) کو معیار بنایا جاتا ہے۔ اس پر اعتراض کیا جاتا ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں''۔ (اسلامی بینکاری ایک حقیقت پسندانہ جائزہ)۔
مولانا تقی عثمانی صاحب جنہیں ''اسلامی بینکوں'' کی ''شرعی رہنمائی'' کا شرف حاصل ہے، فرماتے ہیں:
''مثالی نظام مشارکہ اور مضاربہ معاشی انصاف فراہم کر سکتا ہے، وہ وقت ابھی دُور ہے کیونکہ مشارکہ اور مضاربہ کا استعمال Assestsسائیڈ پر بہت کم ہوتاہے۔ اور استعمال کم ہوئے پھر ان کی بنیاد پر Investmentکم ہے۔ لہٰذا اس کی جگہ ثانوی نوعیت کی پراڈکٹ اجارہ، مرابحہ وغیرہ استعمال کرتے ہیں۔ ان میں مشکل یہ ہے کہ Bench Mark وہی رہتا ہے جو سودی نظام میں ہے۔ اس کے معانی یہ ہیں کہ آپ کو روپیہ اُدھار دینے کے بجائے کتاب بیچ دی کہ چھ مہینے بعد دینا۔ کتاب بیچی لیکن نفع Fix کر دیا اور ایک مخصوص مدت بعد وصولنے کا معاہدہ کر لیا۔ اس منافع کمانے کا بینچ مارک وہی ہے جو سودی نظام کا ہے اس لئے اسلامی نظام کے معاشرے پر جو اثرات ہونے چاہئیے تھے وہ ابھی تک نہیں ہو رہے۔ (روزنامہ اُمت 4دسمبر 2005ء)۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر ان معاملات کو اسلامی ثابت کرنے کی کوشش کیوں کی جار ہی ہے؟
3 سودی بینکوں کی طرح اسلامی بینک بھی متعین منافع دیتے ہیں اور اپنے کھاتہ داروں کو اس بات کا یقین پیشگی دلاتے ہیں۔ اگر آپ سودی بینک کے ساتھ لیز پر گاڑی لینے کا معاملہ کرتے ہیں تو بینک بکنگ کے لئے رقم جمع کروانے کی تاریخ سے ہی اپنا کرایہ وصول کرنا شروع کر دے گا خواہ آپ کو گاڑی تین ماہ بعد ہی ملے۔ کیوں؟
اسلامی بینک بھی ہیرپھیر کے بعد اسی طرح رقم وصول کرتا ہے۔ (دیکھئے ماہر اسلامی بینکاری جناب محمد ایوب کی کتاب: Understanding Islamic Finance۔
4 سودی بینکوںکی طرح اسلامی بینک بھی ادائیگی میں تاخیر پر جرمانہ کرتے ہیں جوکہ اسلامی بینک کے زیرنگرانی قائم خیراتی فنڈ میں جمع کروایا جاتا ہے۔ یہاں بھی سودی فارمولا اختیار کیا جاتا ہے کہ ایک تو جرمانہ واجب الادا رقم کے تناسب سے عائد کیا جاتا ہے اور دوسرا تاخیر کی مدت بڑھنے کے ساتھ جرمانہ کی رقم میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ حالانکہ قرآن و حدیث میں تاخیر پر جرمانہ کا کوئی تصور موجود نہیں ہے۔
5 سودی بینکاری کی طرح اسلامی بینک بھی Non Riskہیں۔ اس کی واضح مثال یہ ہے کہ جب کوئی اسلامی بینک کے ساتھ مرابحہ یا اجارہ کا معاملہ کرنے جاتا ہے تو بینک اس سے اچھی خاصی رقم جو عام طور پر مطلوبہ چیز کی قیمت کا دس فیصد ہوتی ہے ٹوکن منی کے نام سے وصول کرتا ہے تاکہ اگر بعد میں وہ شخص چیز لینے سے انکار کر دے اور بینک کو وہ چیز دوسری جگہ قیمت لاگت سے کم پر فروخت کرنی پڑے تو بینک اس ٹوکن منی سے اپنا نقصان پورا کر سکے۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا اسلامی بینکوں کے نزدیک یہ خطرہ مول لینا رسک میں شامل نہیں؟ ممکن ہے اسلامی بینکنگ کے محققین یہ فرمائیں کہ ہمارے نزدیک اس قسم کے خطرے میں پڑنا رسک میں شامل نہیں۔ اس پر سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر دوسری جگہ بیچنے پر بینک کو فائدہ ہو تو کیا وہ یہ نفع خریداری کا آرڈر دینے والے شخص کو دینے کے لئے تیار ہے؟ ظاہر ہے بینک اس پر تیار نہیں ہو گا۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب بینک نقصان اُٹھانے کے لئے تیار نہیں تو نفع کس بنیاد پر لیتا ہے؟
علاوہ ازیں اسلامی بینکوں میں سرمایہ کاری اور لوگوں کی مالی ضرورتیں پوری کرنے کے جو طریقے مضاربہ، مرابحہ، مشارکہ، اجارہ اور بیع تورق رائج ہیں وہ اس سادہ صورت میں موجود نہیں جو کتب حدیث و فقہ میں بیان ہوئی ہیں۔
(ماخوذ : اسلامی بینکاری کی حقیقت۔ از حافظ ذوالفقار علی۔ طبع دارالدعوہ السلفیہ لاہور)۔