اذن خرام لیتے ہوئے آسماں سے ہم
ہٹ کر چلے ہیں رہ گزر کارواں سے ہم
کیا پوچھتے ہو جھومتے آئے کہاں سے ہم
پی کر اٹھے ہیں خمکدۂ آسماں سے ہم
کیوں کر ہوا ہے فاش زمانہ پہ کیا کہیں
وہ راز دل جو کہہ نہ سکے راز داں سے ہم
ہمدم یہی ہے رہ گزر یار خوش خرام
گزرے ہیں لاکھ بار اسی کہکشاں سے ہم
کیا کیا ہوا ہے ہم سے جنوں میں نہ پوچھئے
الجھے کبھی زمیں سے کبھی آسماں سے ہم
ہر نرگس جمیل نے مخمور کر دیا
پی کر اٹھے شراب ہر اک بوستاں سے ہم
ٹھکرا دیئے ہیں عقل و خرد کے صنم کدے
گھبرا چکے تھے کشمکش امتحاں سے ہم
دیکھیں گے ہم بھی کون ہے سجدہ طراز شوق
لے سر اٹھا رہے ہیں ترے آستاں سے ہم
بخشی ہیں ہم کو عشق نے وہ جرأتیں مجازؔ
ڈرتے نہیں سیاستِ اہلِ جہاں سے ہم