میرے ہمسفر
میرے ہمسفر تجھے کیا خبر
یہ جو وقت ھے کسی دھوپ چھاﺅں کے کھیل سا
اُسے دیکھتے،اُسے جھیلتے
مری آنکھ گرد سے اٹ گئی
مرے خواب ریت میں کھو گئے
مرےہاتھ برف سے ہوگئے
میرے ہمسفر
میرے بے خبر تیرے نام پر
وہ جو پھول کھلتے تھے ہونٹ پر
وہ جو دیپ جلتے تھے بام پر
وہ نہیں رہے
وہ نہیں رہے کہ جو اک ربط تھا درمیاں
وہ بکھر گیا
کسی شام ایسی ہوا چلی
کہ جو برگ تھے سرِشاخِ جاں
وہ گرِا دیے
وہ جو حرف درج تھے ریت پر
وہ اُڑ دیے
وہ جو راستوں کے یقین تھے
وہ جو منزلوں کے امین تھے
وہ نشانِ پا بھی مٹ گئے
میرے ہمسفر
ہے وہی سفر
مگر اک موڑ کے فرق سے
تیرے ہاتھ سے میرے ہاتھ تک
وہ جو ہاتھ بھر کا تھا فاصلہ
کئی موسموں میں بدل گیا
اُسے ناپتے ، اُسے کاٹتے
میرا سارا وقت نِکل گیا
تُو میرے سفر کا شریک ہے
میں تیرے سفر کا شریک ہوں
یہ جو درمیاں سے نکل گیا
اُسی فاصلے کے شمار میں
اُسی بے یقین کے غبار میں
اُسی راہ گُزر کے حصار میں
تیرا راستہ کوئی اور ہے
میرا راستہ کوئی اور ہے