• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

چہرے کے پردے کو واجب نہ سمجھنے والوں کے دلائل اور ان کا جواب

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033

السلام علیکم۔

محترمہ سدرہ منتہا صاحبہ۔
بیشک اللہ کے نذدیک دین اسلام ھے۔(آل عمران۔١٩)

شریعت ہمیشہ سے ایک ہی رہی ھے۔ اللہ نے جو چیز حلال کردی یا حرام کردی وہ ہمیشہ کے لئے ھے۔ حضرت مریم علیہ سلام کا زکر اللہ کی کتاب میں ھے اور اللہ کی کتاب کی اتباع مسلمانوں پر فرض ھے۔

" اس نے دین میں تمہارے لئے وہی شرع قرار دی۔جس کی وصیت اس نے نوح کو کی۔ اور جس کی وحی ہم نے تجھ پر کی۔ اور جس کی وصیت ہم نے ابراہیم، موسی اور عیسی کو کی۔ کہ دین کو قائم کرو۔ اور اس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ مشرکین پر وہ بات بہت گراں ھے جس کی طرف تو انہیں بلاتا ھے۔ اللہ اپنے لئے جسے چاہتا ھے منتخب کرلیتا ھے۔ اور اپنی طرف اس کی ہدایت کرتا ھے جو رجوع کرنے والا ھے" (الشوری۔١٣)

آیات پر غور کریں۔ اللہ کے نذدیک دین بھی ایک اور شرع بھی ایک۔ اللہ نے پہلی قوموں کی مثالیں ہماری ہدایت کے لئے دی ہیں۔ اللہ کے کلمات کبھی تبدیل نہیں ہوتے۔
مریم علیہ سلام وہ واحد عورت ہیں جن کا نام قرآن میں ھے ان کے علاوہ یہ شرف کسی اور خاتون کو حاصل نہیں ھے۔ آپ کو اللہ نے جہانوں کی عورتوں پر فضیلت دی ھے۔


سدرہ بہن یاد رکھیں اللہ کے متعلق صرف وہ بات کریں جسکا آپ کو علم ہو۔ لوگوں سے سنی سنائی باتوں مثلا" شراب پہلے حلال تھی یا بہن بھائی کا نکاح جائز تھا (استغفر اللہ) یہ اللہ پر سخت جھوٹ افتراء ھے جو آپ سے شاید نادانستگی میں سرزد ھوگیا ھے۔ ہمیشہ صرف اللہ کی کتاب کو ہی فرقان بنائیں۔

امید ھے بات واضح ھوگئی ھوگی۔
وعلیکم السلام محترم مسلم صاحب .

آپ نے کہا کہ دین الله کے یہاں ایک ہی ہے کیا آپ بتا سکتے ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام دنیا میں نہیں تھے تو نوح علیہ السلام کیسے حج کرتے تھے؟ حج کرنا تو ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے کیا آپ اس پر بھی یہی اعتراض کرینگے کہ شاید نوح علیہ السلام بھی حج کرتے ہونگے؟؟!!؟؟ دین تو الله کے یہاں ایک ہی ہے اور ایک ہی رہیگا. الحمد للھ دین الله کے یہاں ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کی ایک الله پر ایمان لانا اور الله کے ساتھ شرک نہ کرنا. لیکن شریعت ہر دور میں تبدیل ہوتی رہتی ہے .

بھائی ایک سوال آپ کے لئے اور وہ یہ کہ آدم علیہ السلام کی جو اولادیں ہوئی انہوں نے انسانی نسل کو آگے بڑھانے کے لئے کیا آپس میں نکاح نہیں کیا؟ اگر نہیں تو یہ بتا دیجئے کہ پھر انسانوں کی آبادی کیسے بڑھی؟ جب کی آپ نے کہا کہ بہن بھائیوں کا نکاح جائز نہیں؟
امیدیں ہے کہ ہر بار کی طرح میرے سوالوں کے جواب نہیں ملینگے.
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
وعلیکم السلام محترم مسلم صاحب .

آپ نے کہا کہ دین الله کے یہاں ایک ہی ہے کیا آپ بتا سکتے ہے کہ جب ابراہیم علیہ السلام دنیا میں نہیں تھے تو نوح علیہ السلام کیسے حج کرتے تھے؟ حج کرنا تو ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے کیا آپ اس پر بھی یہی اعتراض کرینگے کہ شاید نوح علیہ السلام بھی حج کرتے ہونگے؟؟!!؟؟ دین تو الله کے یہاں ایک ہی ہے اور ایک ہی رہیگا. الحمد للھ دین الله کے یہاں ایک ہی ہے اور وہ یہ ہے کی ایک الله پر ایمان لانا اور الله کے ساتھ شرک نہ کرنا. لیکن شریعت ہر دور میں تبدیل ہوتی رہتی ہے .

بھائی ایک سوال آپ کے لئے اور وہ یہ کہ آدم علیہ السلام کی جو اولادیں ہوئی انہوں نے انسانی نسل کو آگے بڑھانے کے لئے کیا آپس میں نکاح نہیں کیا؟ اگر نہیں تو یہ بتا دیجئے کہ پھر انسانوں کی آبادی کیسے بڑھی؟ جب کی آپ نے کہا کہ بہن بھائیوں کا نکاح جائز نہیں؟
امیدیں ہے کہ ہر بار کی طرح میرے سوالوں کے جواب نہیں ملینگے

.
السلام علیکم۔
درج زیل آیات میں آپ کے سوالات کے جوابات موجود ہیں۔

"اور بالتحقیق ہم نے نوح کو اور ابراہیم کو بھیجا۔ اور ہم نے ان کی زریت میں نبوت اور کتاب قرار دی۔پس ان میں سے کچھ ھدایت یافتہ ہیں۔ مگر ان کی اکثریت نافرمانوں کی ھے۔"
پھر ان ہی کے نقش قدم پر ہم نے یکے بعد دیگرے اپنے رسول بھیجے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔" (الحدید ٢٦)

"اور بے شک ابراہیم بھی اسی (نوح) کے گروہ (پارٹی) میں سے تھا۔" (الصفت ٨٣)

"اور تحقیق ہم نے تمہیں خلق کیا۔ پھر تمہاری صورتیں بنائیں۔ پھر ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ پس انہوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا۔" (الاعراف ١١)


آپ کے سوالوں کے جوابات اللہ کی آیات میں واضح ہو رہے ہیں۔ اب آپ ایمان لائیں یا نہ لائیں آپ کی مرضی ھے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
السلام علیکم۔
درج زیل آیات میں آپ کے سوالات کے جوابات موجود ہیں۔

"اور بالتحقیق ہم نے نوح کو اور ابراہیم کو بھیجا۔ اور ہم نے ان کی زریت میں نبوت اور کتاب قرار دی۔پس ان میں سے کچھ ھدایت یافتہ ہیں۔ مگر ان کی اکثریت نافرمانوں کی ھے۔"
پھر ان ہی کے نقش قدم پر ہم نے یکے بعد دیگرے اپنے رسول بھیجے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔" (الحدید ٢٦)

"اور بے شک ابراہیم بھی اسی (نوح) کے گروہ (پارٹی) میں سے تھا۔" (الصفت ٨٣)

"اور تحقیق ہم نے تمہیں خلق کیا۔ پھر تمہاری صورتیں بنائیں۔ پھر ہم نے ملائکہ سے کہا کہ آدم کو سجدہ کرو۔ پس انہوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے۔ وہ سجدہ کرنے والوں میں سے نہ ہوا۔" (الاعراف ١١)


آپ کے سوالوں کے جوابات اللہ کی آیات میں واضح ہو رہے ہیں۔ اب آپ ایمان لائیں یا نہ لائیں آپ کی مرضی ھے۔
وعلیکم السلام بھائی مسلم ،

مجھے تو کوئی جواب نظر نہیں آ رہا ہے.!!
میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ آدم علیہ السلام کی جو اولادیں ہوئی انکی تعداد کیسے بڑھی.؟؟ اس کا جواب نہیں آیا..

میں نے کہا نوح علیہ السلام حج کرتے تھے یا نہیں ؟؟ اسکا جواب بھی نہیں آیا..
آپ نے جو آیتیں پیش کی ان میں سے تو کہیں بھی مجھے جواب نظر نہیں آ رہا ہے. ذرا ان آیتوں کی تفسیر بھی بتا دیتے تو اچھا ہوتا مسلم بھائی.
الله آپکو قرآن کی آیت سمجھنے کی توفیق عطا فرماے آمین .
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
وعلیکم السلام بھائی مسلم ،

مجھے تو کوئی جواب نظر نہیں آ رہا ہے.!!
میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ آدم علیہ السلام کی جو اولادیں ہوئی انکی تعداد کیسے بڑھی.؟؟ اس کا جواب نہیں آیا..

میں نے کہا نوح علیہ السلام حج کرتے تھے یا نہیں ؟؟ اسکا جواب بھی نہیں آیا..
آپ نے جو آیتیں پیش کی ان میں سے تو کہیں بھی مجھے جواب نظر نہیں آ رہا ہے. ذرا ان آیتوں کی تفسیر بھی بتا دیتے تو اچھا ہوتا مسلم بھائی.
الله آپکو قرآن کی آیت سمجھنے کی توفیق عطا فرماے آمین .
اگر آپ واقعی سمجھنا چاہتے ہیں، تو سورۃ الحدید آیت ٢٥ اور ٢٦سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ سلام اور حضرت ابراہیم علیہ سلام ساتھ ساتھ تھے کیوں کہ آیت ٢٦ میں لکھا ہے کہ باقی رسولوں کو ان ہی نقش قدم پر بھیجا گیا۔

اسی طرح سورۃ الصف آیت ٨٣ میں معلوم ہورہا ہے کہ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم ایک ہی زمانے میں موجود تھے۔

سورۃ الاعراف آیت ١١ میں اللہ بتا رہا ہے کہ اس نے (جمع) میں انسان کو تخلیق کیا اور اس تخلیق کے بعد ملائکہ کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ یعنی آدم کو سجدہ کروانے سے پہلے ہی انسان (جمع کا صیغہ) تخلیق ہو چکے تھے۔
امید ہے انشاء اللہ ، بات واضح ہو گئی ہوگی۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اگر آپ واقعی سمجھنا چاہتے ہیں، تو سورۃ الحدید آیت ٢٥ اور ٢٦سے ثابت ہوتا ہے کہ حضرت نوح علیہ سلام اور حضرت ابراہیم علیہ سلام ساتھ ساتھ تھے کیوں کہ آیت ٢٦ میں لکھا ہے کہ باقی رسولوں کو ان ہی نقش قدم پر بھیجا گیا۔

اسی طرح سورۃ الصف آیت ٨٣ میں معلوم ہورہا ہے کہ حضرت نوح اور حضرت ابراہیم ایک ہی زمانے میں موجود تھے۔

سورۃ الاعراف آیت ١١ میں اللہ بتا رہا ہے کہ اس نے (جمع) میں انسان کو تخلیق کیا اور اس تخلیق کے بعد ملائکہ کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ یعنی آدم کو سجدہ کروانے سے پہلے ہی انسان (جمع کا صیغہ) تخلیق ہو چکے تھے۔
امید ہے انشاء اللہ ، بات واضح ہو گئی ہوگی۔
السلام علیکم بھائی مسلم.

بھائی میرا سوال یہ تھا کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے حج کیا تو اس وقت نوح علیہ السلام کہاں تھے؟ کیا نوح علیہ السلام نے حج کیا؟ آپ نے تو صرف زمانہ بتایا کہ نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام دونوں ہی ایک ہی زمانے میں تھے. اس سے میرے سوال کا مقصد کہاں حاصل ہوا؟

آپ نے کہا:
سورۃ الاعراف آیت ١١ میں اللہ بتا رہا ہے کہ اس نے (جمع) میں انسان کو تخلیق کیا اور اس تخلیق کے بعد ملائکہ کو حکم دیا کہ وہ آدم کو سجدہ کریں۔ یعنی آدم کو سجدہ کروانے سے پہلے ہی انسان (جمع کا صیغہ) تخلیق ہو چکے تھے۔
بھائی میں دنیا کی بات کر رہا ہوں، کیا الله نے تمام انسانوں کو ایک ساتھ دنیا میں بھیج دیا ؟؟؟؟؟؟؟
جہاں تک میری معلومات ہے الله نے صرف آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کو ہی دنیا میں سب سے پہلے بھیجا تھا. نہ کی پوری انسانیت کو. میرا سوال اب بھی برقرار ہے کی انسانوں کی آبادی دنیا میں کیسے پھیلی؟؟ نکاح کر کے؟؟ یا آسمان سے سیدھے نازل ہونے سے ؟ یا کوئی اور طریقے سے.؟؟ قرآن سے ثابت کریں .
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
السلام علیکم بھائی مسلم.

بھائی میرا سوال یہ تھا کہ جب ابراہیم علیہ السلام نے حج کیا تو اس وقت نوح علیہ السلام کہاں تھے؟ کیا نوح علیہ السلام نے حج کیا؟ آپ نے تو صرف زمانہ بتایا کہ نوح علیہ السلام اور ابراہیم علیہ السلام دونوں ہی ایک ہی زمانے میں تھے. اس سے میرے سوال کا مقصد کہاں حاصل ہوا؟

آپ نے کہا:

بھائی میں دنیا کی بات کر رہا ہوں، کیا الله نے تمام انسانوں کو ایک ساتھ دنیا میں بھیج دیا ؟؟؟؟؟؟؟
جہاں تک میری معلومات ہے الله نے صرف آدم علیہ السلام اور ان کی بیوی کو ہی دنیا میں سب سے پہلے بھیجا تھا. نہ کی پوری انسانیت کو. میرا سوال اب بھی برقرار ہے کی انسانوں کی آبادی دنیا میں کیسے پھیلی؟؟ نکاح کر کے؟؟ یا آسمان سے سیدھے نازل ہونے سے ؟ یا کوئی اور طریقے سے.؟؟ قرآن سے ثابت کریں

.

السلام علیکم۔
بھائی صاحب، حضرت نوح علیہ سلام، اللہ کے ایک رسول تھے۔ اللہ نے اپنی کتاب میں جو ان کے متعلق بتایا ہے وہ ہی حق ہے۔

آپ حج کرنا جانتے ہیں ۔ کیا نوح علیہ سلام حج سے واقف نہ ہوں گے؟
یہ سوال آپ اللہ سے کریں کہ نوح علیہ سلام کیسے حج کرتے تھے؟

جس طرح آدم زمین پر آئے اسی طرح اور انسان بھی آئے۔

یہودی اور نصرانیوں کے عقائد اور ان کی کتاب بائبل کے مطابق آدم کی بیوی حوا تھیں اور بہن اور بھائی کا نکاح ہوتا تھا۔ اس طرح انسانوں کی آبادی بڑھی۔

اللہ کی کتاب میں ایسی کوئی بات نہیں لکھی ھے۔ اگر آپ یہودیوں اور عیسائیوں کے عقائد پر ایمان رکھتے ہیں اور اللہ کی کتاب پر بائبل جیسی بیہودہ کتاب کو فوقیت دیتے ہیں تو یہ بہت ہی شرمناک بات ہوگی۔

جس اللہ نے ساری کائنات پیدا کردی ۔ کیا وہ انسانی نسل کو بہن بھائی کے زنا سے آگے بڑھائے گا؟؟؟؟؟

بہت بیہودہ اور شرمناک افتراء ہے یہ جو آپ اپنی لاعلمی میں اللہ پر کر رہے ہیں۔

اللہ جو ہر شے کا خالق ہے کیا وہ آدم کی طرح اور انسان پیدا نہیں کرسکتا؟؟؟؟

اب آپ کو فیصلہ کرنا ھے کہ اللہ کی کتاب کا اتباع کرنا ہے یا بائبل کا؟؟؟
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
وعلیکم السلام
بھائی میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں یہ تو آپ کو ثابت کرنا ہے کی انسانوں کی آبادی دنیا میں کس طرح پھیلی؟؟ اگر کوئی غیر مسلم مجھ سے سوال کر لیں تو میں کیا جواب دوں؟ نہ ہی میں نے کوئی حدیث پیش کی ہے نہ ہی بائبل وغیرہ.!! ہم مسلمان ہے کم سے کم ہمیں یہ تو معلوم
ہی ہونا چاہیے کہ انسانوں کی نسل کس طرح بڑھی اور وہ بھی قرآن سے ثابت کرنی پڑیگی.! جو آپ اب تک ثابت نہیں کر پاے ہے.
سوال ایک بار پھر سن لیں اگر انسانوں کی نسل بہن بھائی کے نکاح سے آگے نہیں بڑھی تو کس طرح آگے بڑھی؟

ان شاء الله منگل کے دن بات ہوگی. باقی تو دوسرے کئی دوست آپکو جواب دیتے رہینگے ان شاء الله.

ولسلام
 

muslim

رکن
شمولیت
ستمبر 29، 2011
پیغامات
467
ری ایکشن اسکور
567
پوائنٹ
86
وعلیکم السلام
بھائی میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں یہ تو آپ کو ثابت کرنا ہے کی انسانوں کی آبادی دنیا میں کس طرح پھیلی؟؟ اگر کوئی غیر مسلم مجھ سے سوال کر لیں تو میں کیا جواب دوں؟ نہ ہی میں نے کوئی حدیث پیش کی ہے نہ ہی بائبل وغیرہ.!! ہم مسلمان ہے کم سے کم ہمیں یہ تو معلوم
ہی ہونا چاہیے کہ انسانوں کی نسل کس طرح بڑھی اور وہ بھی قرآن سے ثابت کرنی پڑیگی.! جو آپ اب تک ثابت نہیں کر پاے ہے.
سوال ایک بار پھر سن لیں اگر انسانوں کی نسل بہن بھائی کے نکاح سے آگے نہیں بڑھی تو کس طرح آگے بڑھی؟

ان شاء الله منگل کے دن بات ہوگی. باقی تو دوسرے کئی دوست آپکو جواب دیتے رہینگے ان شاء الله.

ولسلام



عامر بھائی آپ کے لئے اور تمام لو گوں کے لئے یہ آیت کافی ہے۔


قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٣٨﴾

"ہم نے کہا سب یہاں سے اتر جاؤ پس جب بھی تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے جو کہ یقینی ہے۔ پس جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے انہیں نہ کوئی خوف اور نہ حزن و ملال ہوگا۔

عربی میں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ جو دو سے زیادہ لوگوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ شیطان اس میں مخاطب ہو نہیں سکتا ، کیوں کہ آیت میں اللہ کہہ رہا ہے کہ "جب بھی تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے۔۔۔۔۔" اور شیطان کے پاس کبھی بھی ھدایت نہیں آسکتی۔ لہذا جمع میں اترنے والے انسانوں کو ہی اللہ مخاطب کررہا ہے جو لازما" دو سے زیادہ بلکہ جماعت ہیں۔
 

انس

منتظم اعلیٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 03، 2011
پیغامات
4,178
ری ایکشن اسکور
15,346
پوائنٹ
800
عامر بھائی آپ کے لئے اور تمام لو گوں کے لئے یہ آیت کافی ہے۔
قُلْنَا اهْبِطُوا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ ﴿٣٨﴾
"ہم نے کہا سب یہاں سے اتر جاؤ پس جب بھی تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے جو کہ یقینی ہے۔ پس جو میری ہدایت کی پیروی کریں گے انہیں نہ کوئی خوف اور نہ حزن و ملال ہوگا۔
عربی میں جمع کا صیغہ استعمال ہوا ہے۔ جو دو سے زیادہ لوگوں کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ شیطان اس میں مخاطب ہو نہیں سکتا ، کیوں کہ آیت میں اللہ کہہ رہا ہے کہ "جب بھی تمہارے پاس میری طرف سے ہدایت آئے۔۔۔۔۔" اور شیطان کے پاس کبھی بھی ھدایت نہیں آسکتی۔ لہذا جمع میں اترنے والے انسانوں کو ہی اللہ مخاطب کررہا ہے جو لازما" دو سے زیادہ بلکہ جماعت ہیں۔[/COLOR]
مسلم صاحب! قرآن وحدیث کے بہت سے دلائل سے معلوم ہوتا ہے اور پوری دُنیا بھی اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ آسمان سے آدم وحوا علیہما السلام کو ہی اتارا گیا کسی اور انسان کو نہیں، اب آپ نے ہمیشہ کی طرح دوسروں کو مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر 38 میں جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے جو دو سے زیادہ کیلئے ہی استعمال ہوتا ہے۔

میرے محترم! جمع کا صیغہ اکثر دو سے زیادہ کیلئے استعمال ہوتا ہے بالکل ٹھیک، لیکن عربی گرائمر میں ہی یہ قاعدہ بھی مسلّم ہے کہ جمع کا صیغہ کبھی دو کیلئے بھی استعمال ہوجاتا ہے، اسی لئے دو اشخاص کی اکٹھی نماز کو جماعت کہا جاتا ہے، انفرادی نماز نہیں۔ اور اسی لئے عربی گرائمر میں ماضی، مضارع اور امر وغیرہ کی گردانوں میں متکلّم کے دو ہی صیغے ہیں، واحد متکلم اور جمع متکلم (تثنیہ متکلّم جمع میں ہی آتا ہے) اگرچہ غائب اور حاضر کے صیغوں میں واحد، تثنیہ اور جمع کے الگ الگ صیغے ہیں۔

قرآن کریم میں بھی جمع کا صیغہ ’دو‘ کیلئے استعال کیا گیا ہے مثلاً فرمانِ باری ہے:
﴿ إِن تَتُوبَا إِلَى اللَّـهِ فَقَدْ صَغَتْ قُلُوبُكُمَا ... ﴾ ... التحريم: 4
کہ ’’اگر تم دونوں اللہ سے توبہ کرتی ہو (تو یہ تمہارے لیے بہتر ہے) کیونکہ تمہارے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔‘‘
یہاں تتوبا تثنیہ مؤنث حاضر کا صیغہ ہے (یعنی دو عورتوں (ازواج مطہرات) کو مخاطب کیا جا رہا ہے) اور آگے ان کے دلوں کا ذکر ہے کہ تمہارے (دونوں عورتوں) کے دل سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں۔ یہاں دو عورتوں کے دلوں کیلئے قلوب استعمال كيا گیا ہے جو ’جمع‘ ہے۔
حالانکہ یہ بات مسلمہ ہے کہ دو عورتوں کے دو ہی دل ہوتے ہیں، زیادہ نہیں۔ اگر آپ کی بات صحیح ہے تو یہاں قلباكما ہونا چاہئے تھا نہ کہ قلوبكما

مسئلہ یہ ہے کہ مسلم صاحب مسلّمہ باتوں کو تو مانتے نہیں، صرف قرآن کو مانتے ہیں ممکن ہیں وہ کہیں
کہ نہیں عورتوں کے دل زیادہ بھی ہو سکتے ہیں اس لئے جمع کا صیغہ استعمال کیا گیا ہے۔ (ابتسامہ)
تو ہم قرآن سے ہی ثابت کر دیتے ہیں کہ کسی انسان کا ایک سے زیادہ دل نہیں ہو سکتا، فرمانِ باری ہے:
﴿ مَّا جَعَلَ اللَّـهُ لِرَ‌جُلٍ مِّن قَلْبَيْنِ فِي جَوْفِهِ ﴾ ... الأحزاب: 4

تو مسلم صاحب کی دلیل کی تمام عمارت دھڑام سے گر پڑی کہ آسمان سے دیگر انسان بھی اُترے تھے۔

مسلم صاحب! آپ کے نزدیک صرف سورۂ بقرہ ہی قرآن ہے، كيا سورۂ طٰہ قرآن میں شامل نہیں؟؟؟ جس میں صریح طور پر فرمایا گیا:
﴿ قَالَ اهْبِطَا مِنْهَا جَمِيعًا ۖ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ ۖ فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ﴾ ... طه: 123
کہ ’’فرمایا، تم دونوں یہاں سےاتر جاؤ تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن ہو، اب تمہارے پاس کبھی میری طرف سے ہدایت پہنچے تو جو میری ہدایت کی پیروی کرے نہ تو وه بہکے گا نہ تکلیف میں پڑے گا۔‘‘
مسلم صاحب! یہاں تو صراحتاً تثنیہ کا صیغہ ہی استعمال کیا گیا ہے، اور آپ کا کہنا ہے کہ یہاں شیطان مراد نہیں لیا جا سکتا تو دو سے آدم اور حوا علیہما السلام کے علاوہ اور کون مراد ہیں؟؟؟

واللہ تعالیٰ اعلم!
نوٹ: یہ میرا الزامی جواب ہے، اپنا موقف نہیں۔
 
Top