ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
ڈاکٹرقاری اَحمد میاں تھانوی حفظہ اللہ سے ملاقات
انٹرویو پینل
س :آپ اپنا مکمل تعارف کروائیں ۔شیخ القراء قاری اَحمد میاں تھانوی حفظہ اللہ کا شمار علم القراء ات میں دیوبندی مکتب فکر کے نمایاں ترین لوگوں میں سے ہوتا ہے۔ آپ کلیہ القرآن الکریم، مدینہ یونیورسٹی کے نمایاں فضلاء میں سے ہیں۔محکمہ اَوقاف کی طرف سے لجنہ تصحیح المصاحف، پاکستان کے رئیس ہیں اور پاکستان میں کلیہ القرآن، جامعہ لاہور الاسلامیہ کی طرز پر اہل دیوبند میں’ دار العلوم الاسلامیہ‘ کے نام سے کامران بلاک میں ایک دینی درسگاہ کے نائب مہتمم ہیں۔ آپ کی شخصیت کے اسی پہلو کی نسبت سے رشد ’قراء ات نمبر‘ میں ہم آپ کا انٹرویو شائع کر رہے ہیں۔ انٹرویو پینل میں کلیہ کے تین اساتذہ قاری محمد فیاض حفظہ اللہ ، قاری محمد حسین حفظہ اللہ ، قاری فہد اللہ حفظہ اللہ اور ثالثہ کلیہ کے احسان الٰہی ظہیر شامل تھے۔ (ادارہ)
ج: ہندوستان میں ایک مشہور قصبہ ہے، مصطفی نگر وہاں تھانہ بھون ہے۔ تھانہ بھون وہ قصبہ ہے جہاں ۱۸۵۷ء میں مسلمانانِ ہند نے انگریز کے خلاف بغاوت میں حصہ لیا اور آزادی کی تحریک شروع کی۔ اس آزادی کی تحریک میں حضرت حاجی امداداللہ رحمہ اللہ، حضرت حافظ ضامن شہیدرحمہ اللہ اور حضرت مولانا رحمت اللہ کیرانوی رحمہ اللہ نے تھانہ بھون سے حصہ لیا۔ یہاں مسلمانوں نے انگریزوںکو ٹف ٹائم دیا، حتیٰ کہ انہوں نے پہلی مرتبہ توپ بناکر انگریزوں اور ہندوؤں کے خلاف اس کا استعمال کیا اور ان کو آگے نہ بڑھنے دیا،لیکن انگریز چونکہ ایک قوت اور طاقت تھی اور مسلمان کمزور تھے توآخر کار اس میں حافظ ضامن شہید رحمہ اللہ ہوگئے اور باقی حضرات نے اپنی پالیسی تبدیل کرلی۔یہ تھانہ بھون کا مختصر ساتعارف ہے اکابر علماء دیو بند وہاں پیدا ہوئے، مثلاحاجی امداد اللہ مہاجررحمہ اللہ اور حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ وغیرہ۔ میرا نام اَحمدمیاں تھانوی ، والد کا نام مفتی جمیل احمد تھانوی رحمہ اللہ اور دادا کا نام مولانا فرید احمد تھانوی رحمہ اللہ ہے۔ مولانا فرید احمد تھانوی رحمہ اللہ بھی ریشمی رومال کی تحریک میں شریک تھے اور علی گڑھ یونیورسٹی میں ملازم تھے۔مسلمانوں کی تحریکوں میں مدد اور ان کی اخلاقی ، تعلیمی تربیت بھی کرتے تھے۔ انہوں نے مسلمانوں کے لیے خاص طور پر ایسی تنظیم قائم کی جو نو مسلموں کی مدد کرتی۔ والد صاحب رحمہ اللہ زیادہ عرصہ، تھانہ بھون میں رہے پھر انہوں نے مظاہر العلوم سہارنپور میں تعلیم حاصل کی۔قیام پاکستان کے بعدمیں ۲۵؍نومبر۱۹۴۷ء میں تھانہ بھون میں پیداہوا۔ ہم لوگ۱۹۵۲ء تک تھانہ بھون میں رہے۔ اس کے بعد پاکستان آنا ہوا تو سب سے پہلے ہم لاہور آئے۔لاہور آنے کے بعد مولانا مفتی محمد حسن رحمہ اللہ کی دعوت پرجامعہ اشرفیہ آئے۔ والد صاحب نے یہاں تدریس شروع کی، جبکہ میں نے جامعہ اشرفیہ لاہورنیلا گنبد میں حفظ کرنا شروع کر دیا ۔ میرے سب سے پہلے حفظ کے استاد حضرت خدابخش رحمہ اللہ ہیں۔ ان سے میں نے سورۃ مریم تک پڑھا، پھر یہ ادارہ چونکہ مسلم ٹاون منتقل ہو گیا تھا، اس لیے میں نے دارالعلوم الاسلامیہ پرانی انارکلی میں داخلہ لے لیا۔ وہاں میں نے قاری رونق علی رحمہ اللہ اور قاری افتخارعثمانی رحمہ اللہ ان دونوں حضرات سے قرآن پاک مکمل کیا۔ میرے حفظ کے یہ تین استاد ہیں۔ میرا حفظ ۱۹۵۸ء میں مکمل ہوا۔ اس وقت میری عمر تقریباً دس سال تھی۔