ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
س: وہاں آپ کی نصابی سرگرمیاں کیا تھیں؟
ج: وہاں بھی نصابی سر گرمیاں تجوید و قراء ات کے حوالے سے تھیں۔ ایک دن میں نے خلافِ ضابطہ بلند آواز میں تلاوت شروع کر دی ۔ اسی دوران امیر عبدالعزیز جو ذرا سخت مزاج کے تھے، وہاں سے گزر رہے تھے، انہو ں نے جب اس کی وجہ پوچھی تو میں ڈر ڈر کے بتارہا تھا،کہنے لگے کہ ڈرو نہیں،میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے پہلے بھی کہیں پڑھا ہے؟ تو میں نے کہا الحمدﷲ پاکستان میں پڑھتا رہا ہوں،بلکہ پڑھاتا بھی رہا ہوں۔ وہاں میں نے شعبہ لغہ میں تین چار ماہ پڑھا، اس کے بعد کلیۃ القرآن میں آگیا۔ کلیۃ القرآن میں قاری ادریس عاصم حفظہ اللہ بھی موجود تھے، ان کی مشاورت سے میں نے فترہ ثانیہ سے آغاز کیا۔ جب میں فترہ ثانیہ میں پہنچاتو معلوم ہوا کہ اس کے پانچ سو عربی کے شعریادکرنے ہیں۔ پھر وہاں ادبیات بھی نصاب کا حصہ تھیں، جو پاکستان میں نصاب میں شامل نہیں تھیں، اس لئے ابتداء ً وہ مجھے ایک پہاڑکی طرح محسوس ہوئیں، بہر صورت میں جنت البقیع کا ایک راونڈ لگا کے دوسری طرف کھیتوں میں سے ہوتے ہوئے تقریباً اڑھائی گھنٹے تک صبح فجر کے بعد یہ اشعار یاد کرتا،سات بجے، بس روانہ ہونے سے قبل میں تقریباً ۲۰؍ اشعار یاد کرلیتا۔یہ بیس اشعار میرا معمول تھا، بلکہ ایک دفعہ شیخ علی عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے مجھ سے پوچھا کہ بھائی میرا دل بھی قراء ات سبعہ پڑھنے کو چاہتا ہے، لیکن یہ لوگ کہتے ہیں شاطبیہ یاد کرنی پڑے گی۔ میں اس عمر میں اسے مشکل محسوس کرتا ہوں۔ میں نے کہا میری اور آپ کی عمر قریب قریب ہے، تو ہنسنے لگے اور مجھ سے پوچھا کہ تم کیسے یادکرتے ہو؟ میں نے بتایا کہ میں اس طرح سے جنت البقیع کا چکر کاٹتا ہوں، تو ہنس کے کہنے لگے میں تو جنت البقیع کا طواف نہیں کروںگا، تم کرتے رہو۔ میں نے کہاکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جامع القرآن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور امام نافع رحمہ اللہ وغیرہ یہاں مدفون ہیں، ان حضرات کی برکت میں نے پائی، ورنہ آپ یہ دیکھئے کہ ایک شخص کی عمر ۳۵ سال کے قریب ہو، اس کے چھ بچے بھی ہوں اوروہ اس عمر میں شاطبیہ یاد کرے، پھر شاطبیہ بھی ایسے یادکرے کہ باقاعدہ پارے کی طرح سنانے کادور کرے، تو یہ برکت کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟
ج: وہاں بھی نصابی سر گرمیاں تجوید و قراء ات کے حوالے سے تھیں۔ ایک دن میں نے خلافِ ضابطہ بلند آواز میں تلاوت شروع کر دی ۔ اسی دوران امیر عبدالعزیز جو ذرا سخت مزاج کے تھے، وہاں سے گزر رہے تھے، انہو ں نے جب اس کی وجہ پوچھی تو میں ڈر ڈر کے بتارہا تھا،کہنے لگے کہ ڈرو نہیں،میں آپ سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آپ نے پہلے بھی کہیں پڑھا ہے؟ تو میں نے کہا الحمدﷲ پاکستان میں پڑھتا رہا ہوں،بلکہ پڑھاتا بھی رہا ہوں۔ وہاں میں نے شعبہ لغہ میں تین چار ماہ پڑھا، اس کے بعد کلیۃ القرآن میں آگیا۔ کلیۃ القرآن میں قاری ادریس عاصم حفظہ اللہ بھی موجود تھے، ان کی مشاورت سے میں نے فترہ ثانیہ سے آغاز کیا۔ جب میں فترہ ثانیہ میں پہنچاتو معلوم ہوا کہ اس کے پانچ سو عربی کے شعریادکرنے ہیں۔ پھر وہاں ادبیات بھی نصاب کا حصہ تھیں، جو پاکستان میں نصاب میں شامل نہیں تھیں، اس لئے ابتداء ً وہ مجھے ایک پہاڑکی طرح محسوس ہوئیں، بہر صورت میں جنت البقیع کا ایک راونڈ لگا کے دوسری طرف کھیتوں میں سے ہوتے ہوئے تقریباً اڑھائی گھنٹے تک صبح فجر کے بعد یہ اشعار یاد کرتا،سات بجے، بس روانہ ہونے سے قبل میں تقریباً ۲۰؍ اشعار یاد کرلیتا۔یہ بیس اشعار میرا معمول تھا، بلکہ ایک دفعہ شیخ علی عبد الرحمن الحذیفی حفظہ اللہ نے مجھ سے پوچھا کہ بھائی میرا دل بھی قراء ات سبعہ پڑھنے کو چاہتا ہے، لیکن یہ لوگ کہتے ہیں شاطبیہ یاد کرنی پڑے گی۔ میں اس عمر میں اسے مشکل محسوس کرتا ہوں۔ میں نے کہا میری اور آپ کی عمر قریب قریب ہے، تو ہنسنے لگے اور مجھ سے پوچھا کہ تم کیسے یادکرتے ہو؟ میں نے بتایا کہ میں اس طرح سے جنت البقیع کا چکر کاٹتا ہوں، تو ہنس کے کہنے لگے میں تو جنت البقیع کا طواف نہیں کروںگا، تم کرتے رہو۔ میں نے کہاکہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ جامع القرآن حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور امام نافع رحمہ اللہ وغیرہ یہاں مدفون ہیں، ان حضرات کی برکت میں نے پائی، ورنہ آپ یہ دیکھئے کہ ایک شخص کی عمر ۳۵ سال کے قریب ہو، اس کے چھ بچے بھی ہوں اوروہ اس عمر میں شاطبیہ یاد کرے، پھر شاطبیہ بھی ایسے یادکرے کہ باقاعدہ پارے کی طرح سنانے کادور کرے، تو یہ برکت کے علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟