ساجد
رکن ادارہ محدث
- شمولیت
- مارچ 02، 2011
- پیغامات
- 6,602
- ری ایکشن اسکور
- 9,379
- پوائنٹ
- 635
س: ایسی کوئی مشکلات بتائیں،جو آپ کو مدرسہ دارالعلوم میں پڑھاتے وقت پیش آئی ہوں؟
ج: درس نظامی اور قراء ات کا جب ہم تقابل کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ درس نظامی کے اَساتذہ کا مزاج سکون و خاموشی کا ہے، ان کو بالکل سکون اور یکسوئی چاہیے، جہاں کوئی شوراور ہنگامہ نہ ہو،جبکہ قرا کا مزاج شور مچانے کاہے ۔ اس پر اساتذہ کا اختلاف ہوتا تھا۔ میں ان اساتذہ کو بار باریہ بات سمجھاتاتھا کہ دیکھئے یہ تجوید کے طلبہ ہیں، درسِ نظامی کے نہیں۔ بنیادی طور پر مدرسہ بھی تجوید کا ہے اور یہ طلبہ بھی تجوید سیکھنے آتے ہیں، میں ان کو درس نظامی پڑھانا چاہ رہا ہوں، میں درس نظامی کے طلبہ کو تجوید نہیں پڑھا رہا، لہٰذا آپ کو اس کا لحاظ رکھنا ہوگا۔ ادھر تجوید کے اَساتذہ کو میں یہ کہتا تھا کہ درس نظامی والے اگر نہ پڑھائیں گے تو تجوید کے طلبہ درس نظامی سے محروم ہوجائیں گے، لہٰذا ان کے ساتھ ذرا رویہ اچھا رکھو۔ اتنی دشواریاں پیش آئیں کہ مجھے بعض مرتبہ استاد نکالنا پڑے، مثلاً ہمارے ہاں ایک بڑے اچھے استاد تھے، انہوں نے طلبہ سے کہا کہ تم ہروقت یہ روں روں کرتے رہتے ہو، کتابیں پڑھا کرو، ان کا تکرار کیا کرو۔ مجھے طلبہ نے بتایا تو مجھے بہت افسوس ہوا کہ یہ قرآن کے پڑھنے کو ’روں، روں‘ کہہ رہے ہیں۔ ان کوبلا کے میں نے ان کا مزاج دیکھا تو وہ جوں کا توں تھا، چنانچہ میں نے ان کو فارغ کردیا۔مہتمم اورمیرے درمیان یہ معاہدہ تھا کہ درس نظامی اورتجوید و قراء ات کو ملا کر چلیں گے اور جو میں نظام چاہوں گا، بس وہی چلے گا۔
ج: درس نظامی اور قراء ات کا جب ہم تقابل کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ درس نظامی کے اَساتذہ کا مزاج سکون و خاموشی کا ہے، ان کو بالکل سکون اور یکسوئی چاہیے، جہاں کوئی شوراور ہنگامہ نہ ہو،جبکہ قرا کا مزاج شور مچانے کاہے ۔ اس پر اساتذہ کا اختلاف ہوتا تھا۔ میں ان اساتذہ کو بار باریہ بات سمجھاتاتھا کہ دیکھئے یہ تجوید کے طلبہ ہیں، درسِ نظامی کے نہیں۔ بنیادی طور پر مدرسہ بھی تجوید کا ہے اور یہ طلبہ بھی تجوید سیکھنے آتے ہیں، میں ان کو درس نظامی پڑھانا چاہ رہا ہوں، میں درس نظامی کے طلبہ کو تجوید نہیں پڑھا رہا، لہٰذا آپ کو اس کا لحاظ رکھنا ہوگا۔ ادھر تجوید کے اَساتذہ کو میں یہ کہتا تھا کہ درس نظامی والے اگر نہ پڑھائیں گے تو تجوید کے طلبہ درس نظامی سے محروم ہوجائیں گے، لہٰذا ان کے ساتھ ذرا رویہ اچھا رکھو۔ اتنی دشواریاں پیش آئیں کہ مجھے بعض مرتبہ استاد نکالنا پڑے، مثلاً ہمارے ہاں ایک بڑے اچھے استاد تھے، انہوں نے طلبہ سے کہا کہ تم ہروقت یہ روں روں کرتے رہتے ہو، کتابیں پڑھا کرو، ان کا تکرار کیا کرو۔ مجھے طلبہ نے بتایا تو مجھے بہت افسوس ہوا کہ یہ قرآن کے پڑھنے کو ’روں، روں‘ کہہ رہے ہیں۔ ان کوبلا کے میں نے ان کا مزاج دیکھا تو وہ جوں کا توں تھا، چنانچہ میں نے ان کو فارغ کردیا۔مہتمم اورمیرے درمیان یہ معاہدہ تھا کہ درس نظامی اورتجوید و قراء ات کو ملا کر چلیں گے اور جو میں نظام چاہوں گا، بس وہی چلے گا۔