ایک خاتون اپنے تین معصوم بچوں: سات سالہ محمد احمد، پانچ سالہ مریم اور ایک سالہ سلیمان کے ہمراہ اُٹھا لی گئی۔ وہ اس وقت آغاخان ہسپتال میں کام کررہی تھی اور کراچی میں اپنے کمسن بچوں کے ساتھ زندگی گزار رہی تھی۔ اگلے دن کے اخباروں میں یہ خبر شائع ہوئی۔ وزارتِ داخلہ کے ترجمان نے اِس کی تصدیق کردی لیکن دو دن بعد حکومت ِپاکستان اور ایف بی آئی امریکہ بیک زبان ہوکر بولے کہ ہمیں عافیہ کے بارے میں کچھ علم نہیں۔ لیکن اس بیان سے ایک دن پہلے ایک شخص ڈاکٹر عافیہ کی والدہ کے گھر گیا۔ اُس نے موٹر سائیکل والا ہیلمٹ پہنا ہوا تھا۔ اُس نے ہیلمٹ نہیں اتارا اور ویسے ہی کھڑے کھڑے ایک بے بس او رمجبور ماں کو اتنا کہا:
’’اگر اپنی بیٹی اور نواسوں کی زندگی چاہتے ہو تو زبان بند رکھو۔‘‘
اس کے بعد چند دن کالم آتے رہے او رپھر اس قوم پربے حسی کی خاموشی چھا گئی۔ نہ کسی کی آنکھ سے آنسو ٹپکے، نہ دل سے آہ نکلی کہ ان تین معصوم بچوں کا کیا قصور ہے جن کے پیاروں کو ان کاکچھ اتہ پتہ معلوم نہیں کہ وہ کس حال میں ہیں؟
اس خاتون کے اُٹھائے جانے کے تین ماہ بعد۲۳جون۲۰۰۳ء کو ’نیوز وِیک‘ میں ایک رپورٹ شائع ہوئی کہ ڈاکٹر عافیہ کا القاعدہ کیساتھ تعلق ہے اور وہ ایف بی آئی کے پاس ہے۔ اگلے سال یعنی ۲۰۰۴ء میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر رابرٹ ملر نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی سے پوچھ گچھ کی جارہی ہے، اس کے بعد ایک طویل خاموشی رہی۔ کچھ اَتہ پتہ اس وقت چلا جب پاکستانی معظم بیگ جو برطانوی شہری بھی تھا اورجسے مشرف نے اسلام آباد سے گرفتار کرکے امریکہ کے ہاتھ بیچا تھا، وہ جب برطانوی حکومت کی کوشش سے گوانتا موبے سے رہا ہوا ، تو اس نے بتایا کہ جب بگرام جیل میں اس پر تشدد کیا جاتاتھا تو اسے قید خانے میں ایک عورت کے چیخنے چلانے اور مدد کیلئے پکارنے کی صدائیں آتی تھیں اور یوں لگتا تھا کہ اُس پربہت شدید تشدد کیا جارہا ہو۔ بعد میں دیگر رہا ہونے والے قیدیوں نے بھی اس کی تصدیق کی کہ اس خاتون کو قیدی نمبر ۶۵۰کے نام سے پکارا جاتا ہے او رکبھی کبھی اسے Grey Ladyبھی کہا جاتا ہے۔ انٹیلی جنس کی زبان میں بلیک اس کو کہتے ہیں جس پر جرم ثابت ہو، وائٹ اس کو کہتے ہیں جس پر کوئی جرم ثابت نہ ہو، لیکن گرے مشکوک کو کہتے ہیں۔