• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اہالیانِ پاکستان

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
عافیہ تم ہماری بہن نہیں ہو............
.........
محمد بن قاسم کی کہانی بھی سنی سنی سی لگتی ہے...معتصم کا فسانہ بھی سنا ہے کہ ایک مسلمان عورت کی پکار پر چل نکلا تھا.....اس طرح کی "جذباتی" باتیں ہم بہت سن چکے...لیکن اب زمانہ بدل گیا ہے...اب یہ فسانے پرانے ہو چکے....حلب کے ہسپتال پر بمباری ہوئی...درجنوں مریض مارے گئے....چند ماہ پیشتر ہلمند کے ہسپتال پر امریکیوں نے بمباری کی اور جان بوجھ کر کی ....سب کو معلوم ہے ...اگر کوئی جھوٹ بولے اور کہے کہ غلطی سے ہو گئی ...تو میرا بھی حق بنتا ہے کہ میں ان نام نہاد سپر پاوروں کو کہوں کہ مرغے بن جاؤ....اور اتنے جوتے ماروں کہ جتنا حق بنتا ہے...کہ سٹلائٹ سے زمین پر پڑی سوئی کو اماں کے جہیز کی رضائی کا لازمی جز جان کر تلاش سکتے ہو.....لیکن کنالوں پر پھیلے ہسپتال دکھائی نہیں دیتے...یا پھر خون مسلمان کو ارزاں جان کر اپنے " اناڑی" اور "نابینا" پائلٹوں کے نشانے پکے کروانے کو ان کو یہاں بھیجتے ہو........

.یا پھر شاید ہماری غیرت کو آزمانے کو معصوم مریضوں اور بچوں اور عورتوں پر بمباری کرتے ہو؟؟؟

......تو میں اس غیرت کا قصہ تمام کرتا ہوں.......سنو ان "ڈراموں" کو چھوڑو میں امت مسلمہ کا نمائندہ بن کر تم سے بات کرتا ہوں...تم بھلا کیوں ہماری غیرت کی پرکھ کرتے ہو

  • ...کیا اس کے لیے ایک عافیہ کافی نہ تھی؟؟
  • ... عافیہ کو کیا ہم نے خود تمہارے حوالے نہیں کیا ؟
  • ...تم نے اس پر اتنے ظلم کیے....کیا ہم بولے؟
  • ...یقیناّ وہ ایک "سمبل" تھی ہماری غیرت کا...لیکن ہم نے کوئی احتجاج کیا؟
  • ...کوئی آواز بلند کی؟
...پھر بھی تمھاری تسلی نہ ہوئی.......لو میں آج صاف صاف کہتا ہوں ...."عافیہ تم ہماری بہن نہیں ہو....".........اب تو مان جاؤ ہمارے............آقاؤ............

ابو بکر قدوسی
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ واضح کردوں کہ ڈاکٹر عافيہ کيس کبھی بھی دہشت گردی سے متعلق نہيں تھا۔ انھيں کبھی بھی القائدہ يا کسی اور دہشت گرد تنظيم سے وابستگی کے حوالے سے نا تو گرفتار کيا گيا تھا اور نا ہی اس ضمن ميں ان پر فردجرم عائد کی گئ تھی۔

ڈاکٹر عافيہ پر سرکاری چارج شيٹ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں

http://www.justice.gov/opa/pr/2008/August/siddiqui-aafia-complaint.pdf

علاوہ ازيں انھيں کبھی بھی سياسی قيدی نہيں گردانا گيا۔ چنانچہ پاک امريکہ تعلقات يا دہشت گردی کے عفريت کے خلاف جاری مشترکہ کاوشوں کے ضمن ميں کسی بھی بحث ميں اس کيس کا حوالہ دينا يا اسے دليل کے طور پر استعمال کرنا نا صرف يہ کہ ايک غير متعلقہ فعل ہے بلکہ اس کيس سے متعلق عمومی غلط معلومات اور تاثرات کو استعمال کرنے کی دانستہ کاوش ہے۔
امريکی حکومت نے اس کيس کی سماعت کے دوران تسلسل کے ساتھ اس موقف کو دہرايا تھا کہ يہ کيس دونوں ممالک کے مابين کوئ سفارتی يا سياسی کيس نہيں تھا۔ ڈاکٹر عافيہ کے خلاف سرکاری چارج شيٹ سے بھی يہ واضح ہے کہ ان پر امريکی فوجی پر ہتھيار استعمال کرنے کا الزام لگا تھا اور اسی جرم پر انھيں سزا ہوئ۔ ان کے خلاف نہ ہی دہشت گردی اور نہ ہی سياسی حوالے سے کوئ الزام لگايا گيا تھا۔ ان کے مقدمے کا فيصلہ ملک ميں رائج قوانين کے عين مطابق کمرہ عدالت میں کيا گيا تھا۔

عافیہ صدیقی کارزويل فیڈرل میڈیکل سینٹر میں ايک قيدی ہے اور يہ بھی واضح کر دوں کہ وہ مرد قيديوں کے ساتھ نہیں ہيں ۔ باقی قيديوں کی طرح امریکی قانون کے تحت وہ پوری طبی دیکھ بھال اور توجہ کی مستحق ہيں۔

اس کے علاوہ ڈاکٹر عافيہ کو حکومت پاکستان کے قونصل خانے کے حکام تک رسائ بھی فراہم کی گئ ہے۔​

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ڈاکٹر عافيہ کيس کے حوالے سے امريکہ پر جو شديد تنقید اور جس نفرت کا اظہار کيا جاتا ہے وہ ان کے مبينہ طور پر کئ برسوں تک گمشدہ رہنے اور امريکی حکام کی جانب سے ان پر اس دوران ڈھاۓ جانے والے مبينہ الزامات پر مبنی ہے۔ يہ الزامات اور کہانياں، جو کہ اکثر خود ايک دوسرے کی نفی کرتی ہيں پاکستانی ميڈيا کے ايک مخصوص حصے کی جانب سے اس کيس کو سياسی رنگ دينے کی کوششوں کا حصہ ہے۔

دلچسپ بات يہ ہے کہ خود ان کی قانونی ٹيم نے يہ واضح کيا ہے کہ ان پر گرفتاری کے دوران کسی بھی قسم کا تشدد نہيں کيا گيا۔ اس کے علاوہ ان کے وکيل کا يہ بيان ريکارڈ پر موجود ہے کہ ان کی کئ برسوں تک گمشدگی کا نيويارک ميں ہونے والے مقدمے سے کوئ تعلق نہيں ہے۔

اس معاملے ميں تو "مدعی سست اور گواہ چست" والی کہاوت صادق آتی ہے۔

سازشی کہانيوں کو من وعن تسليم کرنے والے دوست جو اس کيس کو بنياد بنا کر امريکہ معاشرے اور يہاں کے نظام کو ہدف تنقيد بناتے ہيں، انھيں ميں ياد دلا دوں کہ خود ڈاکٹر عافيہ بھی اسی معاشرے اور نظام کا حصہ رہی ہيں اور انھوں نے اپنی مرضی سے اسی نظام کے اصولوں کے تحت قريب 10 برس گزارے ہیں۔

اس وقت بھی ڈاکٹر عافيہ کو اپنے وکيلوں تک رسائ حاصل ہے اور ايک قيدی کی حيثيت سے انھيں مخصوص قانونی حقوق بھی حاصل ہيں۔ انھيں اور ان کے وکلاء کو اس بات کا اختيار ہے کہ وہ کسی بھی زيادتی کے حوالے سے مناسب تاديبی کاروائ کريں اور اگر وہ يہ سمجھتے ہيں کہ کسی بھی طرح سے ان کے حقوق پامال کيے گۓ ہيں تو متعلقہ حکام کو اس بارے ميں آگاہ کريں۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

ريکارڈ کی درستگی کے ليے يہ واضح کر دوں کہ ڈاکٹر عافيہ کيس کبھی بھی دہشت گردی سے متعلق نہيں تھا۔ انھيں کبھی بھی القائدہ يا کسی اور دہشت گرد تنظيم سے وابستگی کے حوالے سے نا تو گرفتار کيا گيا تھا اور نا ہی اس ضمن ميں ان پر فردجرم عائد کی گئ تھی۔ علاوہ ازيں انھيں کبھی بھی سياسی قيدی نہيں گردانا گيا۔ چنانچہ پاک امريکہ تعلقات يا دہشت گردی کے عفريت کے خلاف جاری مشترکہ کاوشوں کے ضمن ميں کسی بھی بحث ميں اس کيس کا حوالہ دينا يا اسے دليل کے طور پر استعمال کرنا نا صرف يہ کہ ايک غير متعلقہ فعل ہے بلکہ اس کيس سے متعلق عمومی غلط معلومات اور تاثرات کو استعمال کرنے کی دانستہ کاوش ہے۔

عافیہ صدیقی کے خاندان کے مطابق وہ اور ان کے تین بچے احمد، مریم اور سلیمان گلشن اقبال میں واقع اپنے گھر سے کراچی ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہو رہے تھے جب انھیں پاکستانی اور امریکی اہلکاروں نے پکڑ لیا۔

2003 میں اپنی گمشدگی اور پھر 2008 میں منظر عام پر آنے کے دوران وہ کہاں رہیں؟

واضح رہے کہ بلوشی کو 2003 میں گرفتار کر کے گوانتاناموبے بھیج دیا گیا تھا۔


ڈاکٹر عافيہ کے خلاف سرکاری چارج شيٹ سے بھی يہ واضح ہے کہ ان پر امريکی فوجی پر ہتھيار استعمال کرنے کا الزام لگا تھا اور اسی جرم پر انھيں سزا ہوئ۔ان کے خلاف نہ ہی دہشت گردی اور نہ ہی سياسی حوالے سے کوئ الزام لگايا گيا تھا۔ ان کے مقدمے کا فيصلہ ملک ميں رائج قوانين کے عين مطابق کمرہ عدالت میں کيا گيا تھا۔

عافیہ صدیقی کی کہانی 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' سے جڑی کہانیوں میں سب سے اہم ہے، جو مارچ 2003 میں اُس وقت شروع ہوئی جب القاعدہ کے نمبر تین اور نائن الیون حملوں کے مبینہ ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد کو کراچی سے گرفتار کیا گیا۔

خالد شیخ محمد کو گرفتاری کے بعد گوانتاناموبے منتقل کر دیا گیا، جہاں سی آئی اے کے تشدد کے حوالے سے امریکی سینیٹ کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ وہاں ان پر بدترین تشدد کیا گیا۔

ان کی گرفتاری کے بعد جلد ہی عافیہ صدیقی اپنے تین بچوں کے ہمراہ کراچی سے لاپتہ ہو گئیں۔

امریکی میڈیا کی کچھ رپورٹس کے مطابق عافیہ صدیقی وہ پہلی خاتون ہیں جن پر اسامہ بن لادن کے دہشت گرد نیٹ ورک سے تعلق کا الزام لگایا گیا، اس طرح انھیں 'لیڈی القاعدہ' کا خطاب بھی دیا گیا۔

افغانستان نے انھیں امریکا کے حوالے کر دیا اور جب عافیہ سے امریکی فوجیوں اور ایف بی آئی عہدیداران نے سوالات کیے تو انہوں نے مبینہ طور پر ایک رائفل اٹھا کر ان پر فائرنگ کردی، جوابی فائرنگ میں وہ زخمی ہوگئیں۔ جس کے بعد انہیں امریکا بھیج دیا گیا جہاں 2010 میں انہیں اقدام قتل کا مجرم قرار دے کر 86 سال قید کی سزا سنائی گئی۔


عافیہ صدیقی کو جس جرم میں سزا سنائی گئی اس میں کہیں بھی القاعدہ سے ان کے تعلق کا حوالہ نہیں ملتا اور اس حوالے سے بھی کوئی شواہد نہیں ملتے کہ 2003 میں اپنی گمشدگی اور پھر 2008 میں منظر عام پر آنے کے دوران وہ کہاں رہیں؟

حتیٰ کہ امریکی جج رچرڈ برمن نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ انھیں اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ عافیہ صدیقی اور ان کا بیٹا افغانستان میں کیوں موجود تھے۔

انھوں نے اس دعویٰ کی حمایت کی کہ عافیہ صدیقی کو پاک۔ امریکا خفیہ پلاٹ کا شکار بنایا گیا۔

عافیہ صدیقی کے خاندان کے مطابق
وہ اور ان کے تین بچے احمد، مریم اور سلیمان (جو اُس وقت چھ ماہ کا تھا لیکن اب اس دنیا میں نہیں ہے) گلشن اقبال میں واقع اپنے گھر سے کراچی ایئرپورٹ کے لیے روانہ ہو رہے تھے جب انھیں پاکستانی اور امریکی اہلکاروں نے پکڑ لیا۔

عافیہ کی بہن فوزیہ صدیقی نے اے ایف پی کو بتایا کہ جب عافیہ کو گئے ہوئے کچھ گھنٹے گزر گئے تو دروازے پر دستک ہوئی، میری والدہ نے دروازہ کھولا تو وہاں موجود ایک شخص نے کہا کہ 'اگر تم لوگوں نے اس بارے میں کچھ کہا یا اس واقعے کی رپورٹ درج کروانے کی کوشش کی تو تم ان چاروں کی لاشیں پاؤ گے'۔

جبکہ 2010 میں نیو یارک میں اپنے مقدمے کی سماعت کے دوران عافیہ صدیقی کا کہنا تھا کہ انھیں افغانستان میں طویل عرصہ تک خفیہ قید میں رکھا گیا۔

ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ وہ بگرام جیل میں قیدی نمبر 650 کی حیثیت سے قید تھیں، تاہم امریکا اس کی تردید کرتا ہے۔

عافیہ صدیقی پاکستان اور زیمبیا میں اپنا بچپن گزارنے کے بعد 18 سال کی عمر میں ٹیکساس چلی گئیں جہاں ان کے بھائی رہائش پزیر تھے، جس کے بعد انھوں نے بوسٹن کی مشہور ایم آئی ٹی یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی اور پھر نیورو سائنسز میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔
ح


 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں
تیری رہبری کا سوال ہے
ایوان رڈلی نے کہا میں تو ایک نو مسلم ہوں، مجھے اسلام کی حقانیت کا علم ہے۔ میں تو تصور بھی نہیں کرسکتی کہ کوئی مسلمان اپنی بہن کو غیرمسلموں کے حوالے کردے کہ وہ اسے جسمانی، ذہنی اور جنسی تشدد کا نشانہ بنائیں۔ سولہ کروڑ لوگوں کے مقابلے میں اس ایک مسلمان برطانوی خاتون کی آواز زیادہ گرج دار، زیادہ جذباتی او رزیادہ ایمان افروز تھی۔
پھر نیویارک کے جنوبی ڈسٹرکٹ کی عدالت میں مقدمہ چلا، سزا سنائی گئی تو اس کی وکیل اور ترجمان ٹینا فوسٹر نے اتنا کہا کہ عافیہ کو سزا صرف اور صرف پاکستانی حکومت کی بے حسی، لاپرواہی اور بے اعتنائی کی وجہ سے ہوئی۔ ہمارے اوپر بحیثیت ِقوم لگنے والی فردِ جرم مکمل ہوگئی۔ سب کے اعضاکل اس کے خلاف گواہی دیں گے: جس نے بیچا،جس نے جھوٹ بولا، جس کو اس ظلم کا علم تھا اور مجرمانہ خاموشی کا شکار رہا، سب اپنی اپنی فردِ جرم پر کیا جواب دیں گے۔ یہ معاملہ ان کا اور ان کے اللہ کا ہے!!
یہ سب مسلمانوں کے منہ پر لگنے والے طمانچے ہیں ، جو اس وقت تک بار بار پڑتے رہیں گے ، جب تک تاریخ ان واقعات کو محفوظ رکھے گی ۔
مان لیں ، عافیہ ملزم یا مجرم تھی ، لیکن اس پر کاروائی پاکستانی قانونی ادارے کریں ، اپنی بہن بیٹی کو سزا کے لیے کسی غیر کے ہاتھ دینا ، قلب و ضمیر کی موت تو ہے ہی ، عزت و غیرت کی خود کشی کے بھی مترادف ہے ۔
ریمنڈ ڈیوس مبینہ قتل کرکے محفوظ ہاتھوں میں امریکہ پہنچ جاتا ہے ، لیکن عافیہ صدیقی اپنے گھر میں کچھ نہ کرکے بھی غیروں کے شکنجے میں دے دی جاتی ہے ، یہ ہماری غیرت پر سوالیہ نشان تو ہے ہی ، لیکن ساتھ دوستی کا دم بھرنے والے ، اور مساوات و برابری کا ڈھونڈرا پیٹنے والے بد نما چہروں پر مزید ایک سیاہ دھبہ ہے ۔
ڈاکٹر عافيہ پر سرکاری چارج شيٹ آپ اس ويب لنک پر پڑھ سکتے ہيں
ڈاکٹر عافيہ کے خلاف سرکاری چارج شيٹ سے بھی يہ واضح ہے کہ ان پر امريکی فوجی پر ہتھيار استعمال کرنے کا الزام لگا تھا اور اسی جرم پر انھيں سزا ہوئ۔ ان کے خلاف نہ ہی دہشت گردی اور نہ ہی سياسی حوالے سے کوئ الزام لگايا گيا تھا۔ ان کے مقدمے کا فيصلہ ملک ميں رائج قوانين کے عين مطابق کمرہ عدالت میں کيا گيا تھا۔
عافیہ صدیقی کو کراچی سے اٹھایا گیا ہے ، وہاں امریکی فوجی کیا کر رہے تھے ؟ کہ عافیہ صدیقی کو ہتھیار اٹھانے کی ضرورت پیش آئی ؟
عافیہ صدیقی ایک غیرت مند بیٹی محسوس ہوتی ہے ، جس نے مصیبت کے ان اچانک ٹوٹنے والے پہاڑوں تلے دب کر کسی مختاراں مائی ، یا ملالہ ولالہ کی طرح عزت و غیرت کا سواد نہیں کیا ۔ امریکیوں نے اسے بلاوجہ اٹھا( یا اٹھوا ) لیا ، تو اس کے مقابلے میں اگر اس نے کسی پر ہتھیار تان لیے تو کیا ہوا ؟
ان ہیجڑوں میں شرم و حیا ہوتی تو ناک ڈوب کر مرجاتے کہ ایک نہتی عورت پر ظلم و ستم کو سند جواز عطا کرنے کے لیے کس قدر گھٹیا اور فضول الزامات لگارہے ہیں ۔
فواد امریکی صاحب ہمیں آپ جیسے دشمنوں سے گلہ نہیں ، ہمیں اپنے نہ لوٹیں تو غیروں میں کہاں دم ہے ؟!
ہم پاکستانیوں میں سے ہر مرد و عورت امریکی جارحیت کا منہ توڑ جواب دے سکتا ہے ، ان یہودیوں عیسائیوں کی دسیسہ کاریوں کو طشت از بام کرسکتا ہے ، لیکن کیا کریں ، جس پاک دھرتی پر ہمیں مان ہے ، اس کی زمیں ہمارے پاؤں تلے سے کھینچ لی جاتی ہے ، پشت پر موجود جن مضبوط ہاتھوں پر فخر کرتے ہوئے ہم دشمنوں سے بر سر پیکار ہوتے ہیں ، وہی آہنی ہاتھ ہمیں نیزوں کی نوک پر رکھ لیتے ہیں ۔
جی ہاں ہمارے بڑوں کا یہ رویہ ہے ، کہ ہمیں بھیڑیے نوچ جائیں ، یا کتے کھا جائیں ، کسی کے کان پر کوئی جوں نہیں رینگتی ، لیکن جونہی ہم جوابا پتھر پھینکے کی کوشش کریں ، تو اس جرم پر ہمارے ہاتھ توڑ دیے جاتے ہیں ، اور وہی زنجیریں اور بیڑیاں جو بھیڑیوں اور کتوں کو ڈالنی چاہیں ، وہ ہمیں ڈال دی جاتی ہیں ۔
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
عافیہ صدیقی کو کراچی سے اٹھایا گیا ہے ، وہاں امریکی فوجی کیا کر رہے تھے ؟ ۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

حقیقت يہ ہے کہ ڈاکٹر عافيہ کو تو امريکی اہلکاروں نے گرفتار بھی نہيں کيا تھا۔ جولائ 17 2008 کو انکی گرفتاری افغان اہلکاروں کے ہاتھوں ہوئ تھی۔ اس واقعے کے صرف ايک دن بعد ايک پريس کانفرنس بھی ہوئ تھی جس ميں صحافيوں کو ان کی گرفتاری کے بارے ميں تفصيلات سے آگاہ کيا گيا تھا۔ اس واقعے کو ميڈيا ميں رپورٹ بھی کيا گيا تھا۔ ليکن چونکہ اس وقت ڈاکٹر عافيہ کی شناخت نہيں ہو سکی تھی اس ليے يہ خبر شہ سرخيوں ميں جگہ حاصل نہ کر سکی۔

يہاں ميں جولائ 18 کو مختلف ميڈيا پر اس خبر کی رپورٹنگ کے حوالے سے کچھ ويب لنکس دے رہا ہوں


http://www.taipeitimes.com/News/world/archives/2008/07/19/2003417865

http://www.dailystar.com.lb/article.asp?edition_id=10&categ_id=2&article_id=94279

ميں ايک بار پھر يہ واضح کر دوں کہ جولائ 2008 ميں افغانستان ميں ان کی گرفتاری سے پہلے وہ امريکی حکام کی تحويل ميں نہيں تھيں۔ ايسا کوئ ثبوت موجود نہيں ہے جو اس حقیقت کو رد کر سکے۔ ميڈيا ميں اس کيس کے حوالے سے مبہم کہانيوں کی بنياد پر کوئ فيصلہ کر دينا دانشمندی نہيں ہے۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

http://s24.postimg.org/sulh4j7f9/USDOTURDU_banner.jpg
 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,423
پوائنٹ
521
السلام علیکم

قوانین کی سوجھ بوجھ تو میں بھی رکھتا ہوں، پریس کانفرنس تو بے نظیر کے قتل کے بعد بھی ہوئی تھی مگر قاتل۔۔۔۔۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ
حقیقت يہ ہے کہ ڈاکٹر عافيہ کو تو امريکی اہلکاروں نے گرفتار بھی نہيں کيا تھا۔ جولائ 17 2008 کو انکی گرفتاری افغان اہلکاروں کے ہاتھوں ہوئ تھی۔ اس واقعے کے صرف ايک دن بعد ايک پريس کانفرنس بھی ہوئ تھی جس ميں صحافيوں کو ان کی گرفتاری کے بارے ميں تفصيلات سے آگاہ کيا گيا تھا۔ ميں ايک بار پھر يہ واضح کر دوں کہ جولائ 2008 ميں افغانستان ميں ان کی گرفتاری سے پہلے وہ امريکی حکام کی تحويل ميں نہيں تھيں۔ ايسا کوئ ثبوت موجود نہيں ہے جو اس حقیقت کو رد کر سکے۔ ميڈيا ميں اس کيس کے حوالے سے مبہم کہانيوں کی بنياد پر کوئ فيصلہ کر دينا دانشمندی نہيں ہے۔

یہی تو اہم نقطہ ہے ورنہ جج اس پر کیوں اعتراف کرتا،

حتیٰ کہ امریکی جج رچرڈ برمن نے بھی اس بات کا اعتراف کیا کہ انھیں اس بات کی سمجھ نہیں آئی کہ عافیہ صدیقی اور ان کا بیٹا افغانستان میں کیوں موجود تھے۔ انھوں نے اس دعویٰ کی حمایت کی کہ عافیہ صدیقی کو پاک۔ امریکا خفیہ پلاٹ کا شکار بنایا گیا۔


کچھ امریکی افسران کا ماننا ہے کہ امریکا میں عافیہ القاعدہ سے منسلک رہیں جبکہ 2003 سے 2008 کے دوران افغانستان میں انھوں نے بلوشی کے خاندان کے ساتھ وقت گزارا۔

واضح رہے کہ بلوشی کو 2003 میں گرفتار کر کے گوانتاناموبے بھیج دیا گیا تھا۔
ح
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
حقیقت يہ ہے کہ ڈاکٹر عافيہ کو تو امريکی اہلکاروں نے گرفتار بھی نہيں کيا تھا۔ جولائ 17 2008 کو انکی گرفتاری افغان اہلکاروں کے ہاتھوں ہوئ تھی۔
گرفتاری پاکستان میں ہوئی ، کرنے والے افغانی تھے ، جرم اس کا امریکیوں پر اسلحہ تاننا تھا ، مقدمہ نیویارک میں چل رہا ہے ۔۔۔
واہ کیا خوب !!!
انھوں نے اس دعویٰ کی حمایت کی کہ عافیہ صدیقی کو پاک۔ امریکا خفیہ پلاٹ کا شکار بنایا گیا۔
یہی بات ہے ، جو دو لفظوں میں بیان کردی گئی ۔
دوسروں کے گھروں میں جاکر دخل اندازی کرنا یہ امریکہ کی بدمعاشی و بد قماشی کی پہلی یا آخری مثال نہیں ۔
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
گرفتاری پاکستان میں ہوئی ، کرنے والے افغانی تھے ، جرم اس کا امریکیوں پر اسلحہ تاننا تھا ، مقدمہ نیویارک میں چل رہا ہے ۔۔۔
واہ کیا خوب !!!

۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ڈاکٹر عافيہ کو پاکستان سے نہيں بلکہ افغانستان سے گرفتار کيا گيا تھا۔

جہاں تک امريکی دائرہ اختيار کے متعلق سوال ہے تو سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ ڈاکٹر عافيہ کے خلاف مقدمہ امريکی فوجيوں کے خلاف اقدام قتل کی کوشش کے حوالے سے تھا جو موقعہ واردات پر اپنی سرکاری حيثيت ميں موجود تھے۔

امريکہ کسی بھی دوسرے ملک ميں کسی بھی دورانيے کے لیے موجود اپنے کسی بھی فوجی کی موجودگی کی صورت ميں اس ملک کی حکومت کے ساتھ ايک معاہدہ کرتا ہے جسے اسٹيٹس آف فورسز اگريمنٹ (ايس – او- ايف – اے) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر ممالک بھی جب کسی ملک ميں اپنی فوجی بيجھتے ہيں تو ميزبان ملک کی حکومت سے معمول کے مطابق ايس – او- ايف – اے کے تحت معاہدے کرتے ہيں۔

يہ مطالبات نہيں بلکہ شرائط اور قواعد وضوابط ہوتے ہیں جن کے اطلاق کے لیے دونوں ممالک کی حکومتوں کا رضامند ہونا لازمی ہوتا ہے۔ ايس – او- ايف – اے اور اس ميں باہمی اتفاق راۓ سے طے پانے والے ضوابط کا بنيادی مقصد ان مشترکہ اہداف اور مقاصد کا حصول ہوتا ہے جن پر دونوں ممالک کی حکومتوں کا اتفاق راۓ ہوتا ہے۔امريکہ کسی بھی ملک پر اس کی مرضی کے خلاف اس معاہدے کو مسلط نہيں کر سکتا۔

جہاں تک ڈاکٹر عافيہ کا تعلق ہے تو ان پر جو الزام تھا، وہ امريکہ اور ميزبان ملک افغانستان دونوں ميں قابل سزا جرم تھا۔ ايس – او – ايف – اے ميں طے شدہ ضوابط کے مطابق يہ معاملہ "کنکرنٹ جوريسڈکشن" يعنی بيک وقت دونوں ممالک کے دائرہ اختيار ميں آتا ہے اور ايسے معاملات ميں ايس – او- ايف –اے کے تحت دونوں ممالک کے درميان بنيادی اور ثانوی دائرہ اختيار کا تعين کيا جاتا ہے۔

عمومی طور پر "کنکرنٹ جوريسڈکشن" کے ضمن ميں ميزبان رياست کو بنيادی دائرہ اختيار تخفيف کيا جاتا ہے اور امريکہ کو ثانوی "کنکرنٹ جوريسڈکشن" يا دائرہ کار ديا جاتا ہے۔ دائرہ کار کا يہ تعين رائج عالمی قانون کے عين مطابق ہے۔ ليکن اس اصول ميں دو مستثنيات ہيں جن ميں سے ايک ڈاکٹر عافيہ کی افغانستان سے امريکہ منتقلی کی وجہ بنا۔

اگر جرم کے نتيجے ميں امريکی شہری يا امريکی املاک کو نقصان پہنچے تو پھر امريکہ کو بنيادی دائرہ اختيار حاصل ہے۔ جيسا کہ ميں نے ابتداء ميں واضح کيا تھا کہ جرم امريکی فوجيوں کے خلاف تھا جو سرکاری فرائض انجام دے رہے تھے۔ چنانچہ افغانستان اور امريکہ کے درميان ايس – او – ايف – اے کے قواعد کی بدولت امريکی عہديدران کے ليے يہ ممکن ہو سکا کہ ڈاکٹر عافيہ کو نيويارک منتقل کر کے امريکی عدالت ميں فوجداری مقدمے کے ليے پيش کر سکيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 
Top