• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور اہالیانِ پاکستان

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
محترم جتنے بھی اخبارات اٹھا کے لے آئیں بار بار ایک ہی بات پیش کرنے سے اصل اپنی حالت نہیں بدلتا، جب ظالم نے کسی مظلوم کے ساتھ کوئی زیادتی کرنی ہو تو پھر اس کے لئے اسے کے مطابق رپورٹس بھی تیار کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا، اگر کوئی نئی بات ہو تو پیش کریں ورنہ دوسرں کا وقت بہت قیمتی ہے۔ شکریہ!

خوفناک سچائی، The Terrible Truth
On January 23, 2012, Khurshid Kasuri, former foreign minister of Pakistan under General Musharraf, admitted handing over Dr. Aafia to the US and expressed his regret. In a twitter message he said: “I’m so sorry for handing over the innocent Dr. Aafia Siddiqui to the Americans. It was my biggest mistake ever. Khurshid Kasuri”
R

In February 2011, the International Justice Network published a report revealing shocking new evidence that Aafia had been abducted in Karachi by Pakistani security forces in March 2003. The government of Pakistan has never denied the allegations set forth in the report. The U.S. has denied and ignored their involvement in Aafia's kidnapping and imprisonment; however on January 23, 2012, Khurshid Kasuri, former foreign minister of Pakistan under General Musharraf, admitted handing over Dr. Aafia to the U.S. and expressed his regret.
R
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ڈاکٹر عافيہ کو پاکستان سے نہيں بلکہ افغانستان سے گرفتار کيا گيا تھا۔
جہاں تک امريکی دائرہ اختيار کے متعلق سوال ہے تو سب سے پہلے تو ميں يہ واضح کر دوں کہ ڈاکٹر عافيہ کے خلاف مقدمہ امريکی فوجيوں کے خلاف اقدام قتل کی کوشش کے حوالے سے تھا جو موقعہ واردات پر اپنی سرکاری حيثيت ميں موجود تھے۔​
عافیہ کو کراچی سے اغوا کرکے افعانستان پہنچانے والے کون تھے ؟ اور وہ اغوا کرکے امریکیوں کے پاس کیوں لے کر گئے؟ کیا یہ آپ کی طرف سے کھلا اعتراف نہیں کہ امریکی لوگ اغوا کاروں کی پشت پناہی کرتے ہیں ؟
دوسری بات : جو نہتی عورت اپنے گھر کراچی سے اغوا ہوتے ہوئے ، کچھ نہ کرسکی ، درندوں کے چنگل میں جاکر اس کو ہتھیار کس نے تھمادیے ، کہ وہ امریکی فوجیوں پر تان لے ؟ وہاں بچوں کا کھیل آنکھ مچولی تو نہیں چل رہا تھا ؟ یا پھر حسب عادت جھوٹ ، مکر اور فریب کا سہارا لیا گیا ہے ؟
امريکہ کسی بھی دوسرے ملک ميں کسی بھی دورانيے کے لیے موجود اپنے کسی بھی فوجی کی موجودگی کی صورت ميں اس ملک کی حکومت کے ساتھ ايک معاہدہ کرتا ہے جسے اسٹيٹس آف فورسز اگريمنٹ (ايس – او- ايف – اے) کہا جاتا ہے۔ اسی طرح دیگر ممالک بھی جب کسی ملک ميں اپنی فوجی بيجھتے ہيں تو ميزبان ملک کی حکومت سے معمول کے مطابق ايس – او- ايف – اے کے تحت معاہدے کرتے ہيں۔
يہ مطالبات نہيں بلکہ شرائط اور قواعد وضوابط ہوتے ہیں جن کے اطلاق کے لیے دونوں ممالک کی حکومتوں کا رضامند ہونا لازمی ہوتا ہے۔ ايس – او- ايف – اے اور اس ميں باہمی اتفاق راۓ سے طے پانے والے ضوابط کا بنيادی مقصد ان مشترکہ اہداف اور مقاصد کا حصول ہوتا ہے جن پر دونوں ممالک کی حکومتوں کا اتفاق راۓ ہوتا ہے۔امريکہ کسی بھی ملک پر اس کی مرضی کے خلاف اس معاہدے کو مسلط نہيں کر سکتا۔
جہاں تک ڈاکٹر عافيہ کا تعلق ہے تو ان پر جو الزام تھا، وہ امريکہ اور ميزبان ملک افغانستان دونوں ميں قابل سزا جرم تھا۔ ايس – او – ايف – اے ميں طے شدہ ضوابط کے مطابق يہ معاملہ "کنکرنٹ جوريسڈکشن" يعنی بيک وقت دونوں ممالک کے دائرہ اختيار ميں آتا ہے اور ايسے معاملات ميں ايس – او- ايف –اے کے تحت دونوں ممالک کے درميان بنيادی اور ثانوی دائرہ اختيار کا تعين کيا جاتا ہے۔
عمومی طور پر "کنکرنٹ جوريسڈکشن" کے ضمن ميں ميزبان رياست کو بنيادی دائرہ اختيار تخفيف کيا جاتا ہے اور امريکہ کو ثانوی "کنکرنٹ جوريسڈکشن" يا دائرہ کار ديا جاتا ہے۔ دائرہ کار کا يہ تعين رائج عالمی قانون کے عين مطابق ہے۔
سبحان اللہ ، دو حرف بھیجتے ہیں ، ایسے اصولوں پر اور ان کے بنانے والے ، اور ان گورکھ دھندوں پر یقین رکھنے والوں پر ۔ خود ہی مدعی ، خود ہی گواہ ، اور خود ہی منصف ۔
ليکن اس اصول ميں دو مستثنيات ہيں جن ميں سے ايک ڈاکٹر عافيہ کی افغانستان سے امريکہ منتقلی کی وجہ بنا۔
اگر جرم کے نتيجے ميں امريکی شہری يا امريکی املاک کو نقصان پہنچے تو پھر امريکہ کو بنيادی دائرہ اختيار حاصل ہے۔ جيسا کہ ميں نے ابتداء ميں واضح کيا تھا کہ جرم امريکی فوجيوں کے خلاف تھا جو سرکاری فرائض انجام دے رہے تھے۔ چنانچہ افغانستان اور امريکہ کے درميان ايس – او – ايف – اے کے قواعد کی بدولت امريکی عہديدران کے ليے يہ ممکن ہو سکا کہ ڈاکٹر عافيہ کو نيويارک منتقل کر کے امريکی عدالت ميں فوجداری مقدمے کے ليے پيش کر سکيں۔
کہاں کے اصول ، اور کیسی مستثنیات ؟ سیدھا سیدھا اعتراف کریں کہ امریکی جو کرنا چاہیں کرتے ہیں ، کبھی اصول کی آڑ میں ، اور کبھی استثنا کا سہارا لے کر ، چلو عافیہ صدیقی تو استثنا کی بھینٹ چڑھ گئی ، قاتل ریمنڈ ڈیوس کس اصول کے تحت یہاں سے بھگایا گیا ؟
بس یہ ہے کہ مسلمان اپنی بے اعتدالیوں کی سزا بھگت رہے ہیں ، اور محمد بن قاسم ، صلاح الدین ، ٹیپو سلطان جیسے لوگ اللہ نے روک لیے ہیں ، ورنہ جب اس طرح کا کوئی ایک بھی پاکستان یا کسی اسلامی ملک میں پیدا ہوگیا ، بدمعاش امریکہ اور اس کے ظالم حواریوں کو سب اصول و قواعد بمع مستثنیات ازبر کروادے گا ۔ إن شاءاللہ ۔
مسلمانوں نے ہلاکو خان کو جھیلا ہے ، تو کوئی بات نہیں امریکہ بہادر بھی مرضی کرلے ، لیکن آخر کب تک ؟؟!!
إن بطش ربك لشديد إنه هو يبدي و يعيد
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
عافیہ کو کراچی سے اغوا کرکے افعانستان پہنچانے والے کون تھے ؟ اور وہ اغوا کرکے امریکیوں کے پاس کیوں لے کر گئے؟

إن بطش ربك لشديد إنه هو يبدي و يعيد


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ​

ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کا سب سے پہلا اصول يہ ہے کہ کسی بھی موضوع کے حوالے سے راۓ دينے سے قبل متعلقہ حکام سے رابطہ کر کے اصل حقائق حاصل کيے جائيں اور الزامات کی تحقيق کی جاۓ۔ جبکہ اسکے مقابلے ميں فورمز پر دوست احباب کسی بھی خبر پر بغيرتحقيق اور ثبوت کے اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہيں۔

اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے متعلقہ حکام سے رابطہ بھی کيا اور تحقيق بھی کی ہے تا کہ "قيدی نمبر650 " کا معمہ حل کیا جا سکے۔

اس حوالے سے ميڈيا پر جو خبريں آ رہی تھيں ان ميں بڑا واضح تضاد تھا۔ مثال کے طور پر قريب تمام اخباری کالم، ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری خبروں ميں يہ دعوی کيا گيا تھا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کو مارچ 2003 ميں پاکستان ميں گرفتار کيا گيا تھا ليکن امريکی اٹارنی جرنل جان ايش کرافٹ نے ڈاکٹر عافيہ صديقی کو مطلوبہ افراد کی فہرست ميں 26 مئ 2004 کو شامل کيا تھا۔

http://pakistaniat.com/images/Aafia-Siddiqui/Aafia-FBI-notice.jpg

اگر امريکی حکام نے ڈاکٹر عافيہ صديقی کو سال 2003 ميں گرفتار کر ليا تھا اور وہ اس کی گرفتاری کو خفيہ رکھنا چاہتے تھے (جيسا کہ پاکستانی ميڈيا ميں کچھ صحافيوں نے دعوی کيا ہے) تو پھر امريکی اٹارنی جرنل گرفتاری کے ايک سال کے بعد ان کا نام مطلوبہ افراد کی فہرست ميں شامل کر کے اس کی تشہير کيوں کر رہے تھے؟


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
چلو عافیہ صدیقی تو استثنا کی بھینٹ چڑھ گئی ، قاتل ریمنڈ ڈیوس کس اصول کے تحت یہاں سے بھگایا گیا ؟

إن بطش ربك لشديد إنه هو يبدي و يعيد

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


ڈاکٹر عافيہ اور ڈیوس کيس میں کوئ مماثلت نہيں ہے۔ ڈاکٹرعافيہ کا کيس کوئ پوشيدہ ٹرائل نہيں تھا۔ اس کيس کی تمام کاروائ پاکستانی ميڈيا کے اہم اداروں، پاکستانی سفارت خانے کے افسران اور عالمی ذرائع ابلاغ کے موجودگی ميں عمل ميں لائ جارہی تھی۔ ڈاکٹر عافيہ صديقی کو واقعات کے حوالے سے اپنا موقف بيان کرنے کے ليے انھی طے شدہ ضوابط کے تحت پورا موقع فراہم کيا گيا جسے دونوں فريقين کے وکلاء تسليم کر چکے تھے۔

ريمنڈ ڈيوس کی رہائ کے بعد جو تجزيہ نگار اور راۓ دہندگان امريکہ کو اپنی شديد تنقید کا نشانہ بنا رہے ہيں وہ اس کيس کے حوالے سے حقائق کو نظرانداز کر رہے ہيں۔ اس کيس کا فيصلہ پاکستانی نظام قانون کے مطابق سفارتی استثنی سے متعلق سوالات کے حوالے سے سرکاری حقائق پر پہنچے بغير کيا گيا ہے۔ اگر بعض مبصرين کی راۓ کے مطابق امريکی حکومت کا اس تمام تر کاروائ میں فیصلہ کن اثر ہوتا تو ان کی رہائ سفارتی استثنی سے متعلق عالمی قوانین ميں مختص کيے گيے ضوابط کے مطابق ہو جاتی۔

ہم سب جانتے ہیں کہ ايسا نہیں ہوا۔

اس کيس کا فيصلہ پاکستانی قانون کے عين مطابق اور پاکستانی خودمختاری سے متعلق احترام کو ملحوظ رکھتے ہوۓ کيا گيا۔


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

کنعان

فعال رکن
شمولیت
جون 29، 2011
پیغامات
3,564
ری ایکشن اسکور
4,425
پوائنٹ
521
السلام علیکم

آپ ایسے کہہ رہے ہیں کہ سٹیٹ سے پوچھیں جیسے مقدمہ ری اوپن کرنے کی اجازت ملی ہو، جب مقدمہ کا معیار ہی درست نہیں تو کیا پوچھیں، ہو سکے تو اس کا مطالعہ بھی فرمائیں تازہ ہے۔

والسلام
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم کا سب سے پہلا اصول يہ ہے کہ کسی بھی موضوع کے حوالے سے راۓ دينے سے قبل متعلقہ حکام سے رابطہ کر کے اصل حقائق حاصل کيے جائيں اور الزامات کی تحقيق کی جاۓ۔ جبکہ اسکے مقابلے ميں فورمز پر دوست احباب کسی بھی خبر پر بغيرتحقيق اور ثبوت کے اپنے جذبات کا اظہار کر سکتے ہيں۔
اس خبر کے منظر عام پر آنے کے بعد ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم نے متعلقہ حکام سے رابطہ بھی کيا اور تحقيق بھی کی ہے تا کہ "قيدی نمبر650 " کا معمہ حل کیا جا سکے۔
ٹیم کو چاہیے تھا کہ متعلقہ حکام سے رابطہ کرنے کے بعد وہ عافیہ صدیقی کیس کی تمام جزئیات کو تفصیل کے ساتھ سب لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ۔ اور اس میں ہونے والے اشکالات کا ازالہ بھی کرتے ، لیکن ٹیم ایسا کچھ نہیں کرسکی ، بلکہ الٹا میڈیا کے تضاد کی طرف بات موڑ دی ہے ، تاکہ خود کو سوالوں اور اعتراض سے بچایا جاسکے ۔
اس حوالے سے ميڈيا پر جو خبريں آ رہی تھيں ان ميں بڑا واضح تضاد تھا۔ مثال کے طور پر قريب تمام اخباری کالم، ٹی وی ٹاک شوز اور اخباری خبروں ميں يہ دعوی کيا گيا تھا کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی کو مارچ 2003 ميں پاکستان ميں گرفتار کيا گيا تھا ليکن امريکی اٹارنی جرنل جان ايش کرافٹ نے ڈاکٹر عافيہ صديقی کو مطلوبہ افراد کی فہرست ميں 26 مئ 2004 کو شامل کيا تھا۔
http://pakistaniat.com/images/Aafia-Siddiqui/Aafia-FBI-notice.jpg
اگر امريکی حکام نے ڈاکٹر عافيہ صديقی کو سال 2003 ميں گرفتار کر ليا تھا اور وہ اس کی گرفتاری کو خفيہ رکھنا چاہتے تھے (جيسا کہ پاکستانی ميڈيا ميں کچھ صحافيوں نے دعوی کيا ہے) تو پھر امريکی اٹارنی جرنل گرفتاری کے ايک سال کے بعد ان کا نام مطلوبہ افراد کی فہرست ميں شامل کر کے اس کی تشہير کيوں کر رہے تھے؟
میڈیا نے جو کیا ، کہا ، اس پر بھی بات کر لیں ، لیکن متعلقہ حکام سے یہ بھی جوابات لے دیں کہ عافیہ صدیقی کو پاکستان سے اٹھانے والے کون تھے ؟ اور اس کے یہاں سے اٹھائے جانے کے بعد کیسے ممکن ہوا کہ اس نے امریکی فوجیوں پر حملہ بھی کردیا ؟
ڈاکٹر عافيہ اور ڈیوس کيس میں کوئ مماثلت نہيں ہے۔
جی یہ تو ہم بھی مانتے ہیں کہ دونوں واقعات میں کوئی مماثلت نہیں بنتی ۔
عافیہ صدیقی ایک نہتی عورت تھی ، جسے اغوا کیا گیا ہے ، جبکہ ریمنڈ ڈیوس ایجنٹ تھا ، اور مسلح تھا ، اور اس نے دوسرے ملک میں جاکر اس کے شہری کو قتل کرنے کا گھناؤنا جرم بھی کیا تھا ۔
عافیہ صدیقی بلا جرم دھر لی گئی ، لیکن ریمنڈ ڈیوس رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے بعد بھی بھگا لیا گیا ۔
عافیہ صدیقی پاکستانی تھی ، اور ایک عام پاکستانی شہری تھی ، اس لیے نہ کسی سفارت خانے کو اس کی سپورٹ کی ضرورت تھی ، اور نہ ہی کسی ایجنسی کو اس کی پیروی کی کوئی حاجت ، جبکہ ریمنڈ ڈیوس کی مثال ایک سدھائے ہوئے کتے کی سی ہے ، جو دوسرے کو کاٹنے کے لیے بھیجا گیا تھا ، اب اگر اس نے مالک کے حکم پر کسی کو کاٹ لیا اور فرض کی انجام دی میں وہ پکڑ لیا گیا ، تو مالک کا فرض بنتا تھا کہ اس کو چھڑائے ، اور دشمن کے نرغے سے آزاد کرائے ۔
جی ہاں ان دونوں میں کوئی مماثلت نہیں ، عافیہ صدیقی کا پاکستانی ہونا اس کا سب سے بڑا جرم تھا ، اور ریمنڈ ڈیوس کا امریکی ہونا اس کے لیے ہر پاپ کی معافی کا پروانہ ہے ۔
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہوجاتے ہیں بدنام
وہ قتل بھی کرتے ہیں تو چرچا نہیں ہوتا
عافیہ صدیقی نے بلا وجہ اٹھائے جانے پر ’ آہ ‘ کی ہوگی تو عدالتوں میں بدنام ہوگئی ، ریمنڈ ڈیوس نے ’ قتل ‘ کیا اور خاموشی سے چلتا بنا ، درست فرمایا دونوں میں کوئی مماثلت نہیں ہوسکتی ۔
اس کيس کا فيصلہ پاکستانی قانون کے عين مطابق اور پاکستانی خودمختاری سے متعلق احترام کو ملحوظ رکھتے ہوۓ کيا گيا۔
گڈ جوک ۔
دو پاکستانی شہریوں کو ان کے ملک میں قتل کردینے والے کو بچانے کے لیے امریکی سفارت خانے کی گاڑی الٹی سمت سے دوڑتی ہوئی آئی ، اور بٹھا کر لے گئی ، اور اس قاتل کو بچانے کے لیے اس گاڑی نے ایک اور پاکستانی شہری کو موٹر سائیکل سمیت روند دیا ۔ جی ہاں یہ ہے پاکستانی خود مختاری جس کا پہلے قتل ریمنڈ ڈیوس نے مکمل احترام کیا ، پھر اس کو بچانے والوں نے اس کار خیر میں حصہ ڈالا ، تین پاکستانی سٹرک پر تڑپ رہے تھے ، جبکہ ان کے لواحقین میں سے کچھ کے منہ پیسوں سے بھر دیے جو پیسوں کے لالچ میں نہ آ سکتے تھے، انہیں خود کشی کی گاڑی میں بٹھاکر اگلے جہاں روانہ کردیا گیا ۔
یوں پاکستان کے چار پانچ شہریوں کو مار کر قاتل امریکہ جا بیٹھا ، اور پاکستان کی ’ خود مختاری ‘ اور ’ مکمل احترام ‘ کی ایک اور کہانی پایہ تکمیل کو پہنچی ۔
 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
ٹیم کو چاہیے تھا کہ متعلقہ حکام سے رابطہ کرنے کے بعد وہ عافیہ صدیقی کیس کی تمام جزئیات کو تفصیل کے ساتھ سب لوگوں کے سامنے رکھ دیتے ۔۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

ڈاکٹر عافيہ کيس کے حوالے سے ميرا ہميشہ يہ موقف رہا ہے کہ ميڈيا کے کچھ عناصر نے دانستہ حقائق کو نظرانداز کيا اور انفرادی آراء اور راۓ کو واقعات کے تسلسل کے طور پر پيش کيا۔ باوجود اس کے کہ امريکی سفير اين پيٹرسن نے تمام ميڈيا کے نام ايک خط لکھا تھا اور يہ واضح کیا تھا کہ امريکی حکومت جولائ 2008 ميں ان کی گرفتاری سے قبل ان کے حدودواربعہ سے واقف نہيں تھی، کچھ صحافيوں نے اس سرکاری وضاحت کو رد کر کے ايسی بے شمار افسانوی کہانيوں کی تشہير شروع کر دی جن کا کبھی کوئ ثبوت پيش نہيں کيا گيا۔
کچھ تبصرہ نگاروں نے اپنی بيان کردہ کہانی ميں کئ مرتبہ ردوبدل کيا لیکن اس کے مقابلے میں ہمارا موقف يکساں رہا ہے کيونکہ حقائق ہمارے موقف کی ترجمانی کر رہے تھے۔​
ہم نے وہ بے شمار کالم بھی پڑھے ہيں جن ميں ڈاکٹر عافيہ پر گرفتاری کے بعد کيے جانے والے مبينہ مظالم کو بيان کيا کيا تھا۔ ايسے افراد جنھيں ڈاکٹر عافيہ يا اس کيس سے متعلق کوئ رسائ يا آگاہی بھی نہيں تھی وہ روزانہ امريکی حکام کے ہاتھوں ڈاکٹر عافيہ پر تشدد کی کہانياں لکھ رہے تھے۔ دلچسپ بات يہ ہے کہ خود ڈاکٹر عافيہ نے اپنے مقدمے کے دوران تشدد کے ان الزامات کو يکسر مسترد کر ديا تھا


فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
عافیہ صدیقی پاکستانی تھی ، اور ایک عام پاکستانی شہری تھی ، اس لیے نہ کسی سفارت خانے کو اس کی سپورٹ کی ضرورت تھی ، اور نہ ہی کسی ایجنسی کو اس کی پیروی کی کوئی حاجت ،
عافیہ صدیقی کا پاکستانی ہونا اس کا سب سے بڑا جرم تھا ، ۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

بہت سے تجزيہ نگار اس حقيقت کو نظرانداز کر رہے ہيں کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی امريکہ ميں موجود واحد پاکستانی مسلمان خاتون نہيں ہيں۔ يہاں پر ہزاروں کی تعداد ميں پاکستانی خواتين موجود ہيں جو امريکہ ميں تعليم اور رہائش کے علاوہ مختلف شعبہ زندگی سے وابستہ ہيں۔ انھيں وہ تمام حقوق ميسر ہيں جو امريکی معاشرے کا لازمی جزو ہيں۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ خود ڈاکٹر عافيہ بھی ايک دہائ تک امريکہ ہی ميں زير تعليم بھی رہيں اور ملازمت بھی کرتی رہيں۔ ان کی بہن نے بھی امريکہ ميں تعليم حاصل کی۔ اسی طرح ان کی والدہ بھی امريکہ میں رہ چکی ہيں۔ اس وقت بھی ان کے بھائ اپنے خاندان کے ساتھ امريکہ ہی ميں رہائش پذير ہيں۔

امريکی حکومت کو صرف ڈاکٹر عافيہ ہی کو منتخب کر کے دانستہ ان کے خلاف کاروائ کرنے اور ان پر تشدد کرنے سے کيا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ اور اگر بحث کے ليے يہ دليل مان بھی لی جاۓ تو سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ ان کے خلاف اس وقت کاروائ کيوں نہ
کی گئ جب وہ قريب 10 برس تک امريکہ ميں موجود تھيں؟

جہاں تک پانچ برس تک ان کی مبينہ گمشدگی کے حوالے سے الزامات اور کہانيوں کا تعلق ہے تو اس حوالے سے تو خود ان کے اپنے وکيل نے يہ واضح کر ديا کہ اس ايشو کا ان پر جاری مقدمے سے کوئ تعلق نہيں تھا۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu


 

فواد

رکن
شمولیت
دسمبر 28، 2011
پیغامات
434
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
74
ریمنڈ ڈیوس کی مثال ایک سدھائے ہوئے کتے کی سی ہے ، جو دوسرے کو کاٹنے کے لیے بھیجا گیا تھا ، اب اگر اس نے مالک کے حکم پر کسی کو کاٹ لیا اور فرض کی انجام دی میں وہ پکڑ لیا گیا ، تو مالک کا فرض بنتا تھا کہ اس کو چھڑائے ، اور دشمن کے نرغے سے آزاد کرائے ۔
فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ


امريکی حکومت نے شروع دن سے يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ريمنڈ ڈيوس کو سال 1961 کے سفارتی تعلقات سے متعلق ويانا کنونشن کے تحت سفارتی استثنی حاصل تھی۔ جب ريمنڈ ڈيوس پاکستان آۓ تھے تو امريکی حکومت نے تحريری طور پر حکومت پاکستان کو مطلع کيا تھا کہ ان کی تعنياتی اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں تکنيکی اور انتظامی سٹاف کی حيثيت سے سفارتی کيٹيگری ميں سفارت کار کی حيثيت سے کی گئ ہے۔ ويانا کنونشن کے آرٹيکل 37 کے تحت سفارت خانے کے تکنيکی اور انتظامی عملے کو مکمل طور پر قانونی کاروائ سے استثنی حاصل ہوتی ہے اور کنونشن کے تحت انھيں قانونی طور پر گرفتار يا قيد نہيں کيا جا سکتا۔

جس طريقے سے کچھ تجزيہ نگار اندھادھند انداز ميں ريمنڈ ڈيوس کا ذکر ايک خاص پيراۓ ميں کرتے ہيں، اس سے تو يہ تاثر ملتا ہے کہ وہ کوئ ايسا گمنام شخص تھا جسے اچانک ہی دريافت کر ليا گيا ہے اور اس کی ملک میں موجودگی اور حدودواربعہ کے بارے میں کسی کو بھی کچھ پتا نہيں تھا۔

يقينی طور پر حقيقت يہ نہيں ہے۔ جو شخص اپنے نام کا کارڈ اور اپنے پاسپورٹ کے ساتھ سفر کر رہا ہو وہ کوئ ايسا مشکوک کردار نہيں ہو سکتا جو اپنے آپ کو پوشيدہ رکھنے کی کوشش کر رہا ہو۔ اس کے علاوہ پاکستانی ميڈيا پر جن دستاويزات کو دکھايا گيا ہے اس سے يہ واضح ہوتا ہے کہ پاکستانی اور امريکی افسران کے مابين مراسلے جاری تھے جو اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستانی حکومت اور وزارت خارجہ پاکستانی ميں ان کی موجودگی سے پوری طرح آگاہ تھی۔ بلکہ حکومت پاکستان نے تو انھيں متعلقہ ويزہ بھی جاری کيا تھا۔

جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا کہ يہ ذمہ داری کلی طور پر پاکستانی حکومت کی ہے کہ وہ امريکی سميت پاکستان کے اندر رہنے اور کام کرنے والے ہر غير ملکی شہری کو ضروری تفتيشی مراحل سے گزارے۔ پاکستان ايک خودمختار ملک ہے جو اس بات کا مکمل اختيار رکھتا ہے کہ کسی بھی غير ملکی شخص کا ويزہ منظور يا مسترد کرے۔ اس کام کی تکميل کے ليے درجنوں کی تعداد ميں حکومتی ادارے اور اہلکار موجود ہيں۔

فواد – ڈيجيٹل آؤٹ ريچ ٹيم – يو ايس اسٹيٹ ڈيپارٹمينٹ

digitaloutreach@state.gov

www.state.gov

https://twitter.com/USDOSDOT_Urdu

http://www.facebook.com/USDOTUrdu

 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,496
پوائنٹ
964
باوجود اس کے کہ امريکی سفير اين پيٹرسن نے تمام ميڈيا کے نام ايک خط لکھا تھا اور يہ واضح کیا تھا کہ امريکی حکومت جولائ 2008 ميں ان کی گرفتاری سے قبل ان کے حدودواربعہ سے واقف نہيں تھی
آخر آپ اس سوال کا جواب دینے سے کیوں کترا رہے ہیں کہ افعانستان میں عافیہ صدیقی امریکیوں تک ہی نہیں ، بلکہ ان کے اسلحہ تک کیسے پہنچ گئی ؟ امریکی بہانہ تو بندوق اٹھانے کے بعد کا ہے ، بندوق تک عافیہ کو کس نے پہنچایا ؟
عافیہ امریکی کیمپ میں اس حالت میں پہنچی کہ وہ بندوق اٹھاسکتی تھی ، اور اس نے اٹھا بھی دی ، وہ زمین سے نکلی تھی یا آسمان سے ٹپکی تھی ؟
ہم نے وہ بے شمار کالم بھی پڑھے ہيں جن ميں ڈاکٹر عافيہ پر گرفتاری کے بعد کيے جانے والے مبينہ مظالم کو بيان کيا کيا تھا۔ ايسے افراد جنھيں ڈاکٹر عافيہ يا اس کيس سے متعلق کوئ رسائ يا آگاہی بھی نہيں تھی وہ روزانہ امريکی حکام کے ہاتھوں ڈاکٹر عافيہ پر تشدد کی کہانياں لکھ رہے تھے۔
اور کچھ نہیں تو یہ کم تشدد ہے کہ جھوٹی کہانی گھڑ کر کسی عورت زاد کو اپنے گھر والوں ، بچوں سے دور کرکے درندوں کے چنگل میں دے دیا جائے ؟
دلچسپ بات يہ ہے کہ خود ڈاکٹر عافيہ نے اپنے مقدمے کے دوران تشدد کے ان الزامات کو يکسر مسترد کر ديا تھا
جیل میں کسی کے ذمے کیا کچھ نہیں لگوایا جاسکتا ؟ اور وہ بھی امریکی جیل میں ۔
بہت سے تجزيہ نگار اس حقيقت کو نظرانداز کر رہے ہيں کہ ڈاکٹر عافيہ صديقی امريکہ ميں موجود واحد پاکستانی مسلمان خاتون نہيں ہيں۔ يہاں پر ہزاروں کی تعداد ميں پاکستانی خواتين موجود ہيں جو امريکہ ميں تعليم اور رہائش کے علاوہ مختلف شعبہ زندگی سے وابستہ ہيں۔ انھيں وہ تمام حقوق ميسر ہيں جو امريکی معاشرے کا لازمی جزو ہيں۔ بلکہ حقيقت يہ ہے کہ خود ڈاکٹر عافيہ بھی ايک دہائ تک امريکہ ہی ميں زير تعليم بھی رہيں اور ملازمت بھی کرتی رہيں۔ ان کی بہن نے بھی امريکہ ميں تعليم حاصل کی۔ اسی طرح ان کی والدہ بھی امريکہ میں رہ چکی ہيں۔ اس وقت بھی ان کے بھائ اپنے خاندان کے ساتھ امريکہ ہی ميں رہائش پذير ہيں۔
امريکی حکومت کو صرف ڈاکٹر عافيہ ہی کو منتخب کر کے دانستہ ان کے خلاف کاروائ کرنے اور ان پر تشدد کرنے سے کيا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ اور اگر بحث کے ليے يہ دليل مان بھی لی جاۓ تو سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ ان کے خلاف اس وقت کاروائ کيوں نہ
کی گئ جب وہ قريب 10 برس تک امريکہ ميں موجود تھيں؟
یہ کسی جرم کے جواز کی وجہ نہیں بن سکتی کہ فلاں نے فلاں کو اتنے سال کچھ نہیں کہا ، لہذا بعد میں وہ جو مرضی کردے تو اس پر کوئی حرف نہ آئے ۔
دوسری بات : ٹھیک ہے ، ایسے تو ایسے ہی سہی ، ہمیں بھی ایک سوال کا جواب دے دیں ، عافیہ اتنے سال امریکہ رہی ، وہاں اس نے کبھی کسی امریکی پر بندوق کیوں نہیں اٹھائی ؟
اگر سابقہ زمانہ امریکی جرائم اور مظالم کے لیے وجہ جواز ہوسکتا ہے تو پھر عافیہ صدیقی کا سابقہ ریکارڈ اس کے لیے ( مزعومہ ) جرم کی معافی کا ذریعہ کیوں نہیں ہوسکتا ؟
امريکی حکومت نے شروع دن سے يہ موقف اختيار کيا ہے کہ ريمنڈ ڈيوس کو سال 1961 کے سفارتی تعلقات سے متعلق ويانا کنونشن کے تحت سفارتی استثنی حاصل تھی۔ جب ريمنڈ ڈيوس پاکستان آۓ تھے تو امريکی حکومت نے تحريری طور پر حکومت پاکستان کو مطلع کيا تھا کہ ان کی تعنياتی اسلام آباد ميں امريکی سفارت خانے ميں تکنيکی اور انتظامی سٹاف کی حيثيت سے سفارتی کيٹيگری ميں سفارت کار کی حيثيت سے کی گئ ہے۔ ويانا کنونشن کے آرٹيکل 37 کے تحت سفارت خانے کے تکنيکی اور انتظامی عملے کو مکمل طور پر قانونی کاروائ سے استثنی حاصل ہوتی ہے اور کنونشن کے تحت انھيں قانونی طور پر گرفتار يا قيد نہيں کيا جا سکتا۔
جيسا کہ ميں نے پہلے بھی واضح کيا کہ يہ ذمہ داری کلی طور پر پاکستانی حکومت کی ہے کہ وہ امريکی سميت پاکستان کے اندر رہنے اور کام کرنے والے ہر غير ملکی شہری کو ضروری تفتيشی مراحل سے گزارے۔ پاکستان ايک خودمختار ملک ہے جو اس بات کا مکمل اختيار رکھتا ہے کہ کسی بھی غير ملکی شخص کا ويزہ منظور يا مسترد کرے۔ اس کام کی تکميل کے ليے درجنوں کی تعداد ميں حکومتی ادارے اور اہلکار موجود ہيں۔
ایک طرف آپ قانونی استثنا بیان کررہے ہیں ، دوسری طرف پاکستان کے کلی اختیار کا بھی ذکر کر رہے ہیں ، کیا یہ کھلا تضاد نہیں ؟
ویسے یہ سب فضول باتیں ہیں ، اگر کسی قانون کے تحت استثناء ملا ہے تو رہے ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ریمنڈ ڈیوس نے دو افراد مار کر ، اور پھر ان کو بچانے کےلیے آنے والی گاڑی نے تیسرا روند کر ،جس جرم کا ارتکاب کیا ہے ، وہ ایک بڑا شریف اور قانونی کام ہوا ہے ، یہ ہر حال میں غنڈہ گردی ہی ہے ۔ اور یہ کرنے والے اور ان کی حمایت کرنے والے عالمی غنڈے ہیں ۔
اور یہی ہم کہنا چاہتے ہیں کہ امریکہ اپنی بدمعاشی کو اصولوں اور معاہدوں میں چھپانے کی سعی نامسعود کرتا ہے ۔
 
Last edited:
Top