• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈاکٹر فرحت ھاشمی صاحبہ حفظھا اللہ تعالی

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ارسلان بھائی اصل بات وہی ہے جو میں بیان کر چکا ہوں۔ آپ یقین کریں وہ پوسٹ کرنے سے پہلے میں بار بار سوچ رہا تھا کہ کروں یا نہ کروں کیونکہ مجھے قوی امید تھی کہ آپ اس تنقید کا برا منائیں گے۔ لیکن پھر یہ سوچ کر کہ میرا دینی بھائی ہے اور بے تکلف بھی تو شاید برانہ مانے میں نے پوسٹ کردی۔
لیکن شاہد نزیر بھائی،آپ کی پوسٹ میں تنقید برائے اصلاح کا کوئی پہلو تو نہیں چھپا تھا،بلکہ آپ نے تو صراحتا یہ بھی نہیں لکھا تھا کہ آپ کو اعتراض ہے بلکہ آپ نے لفظ "بہتوں" استعمال کیا ،تو میں ان بہتوں کا نام جاننا چاہتا ہوں ،ان بہتوں نے خود کیوں نہیں لکھا ،اپنا پیغام پہنچانے کے لیے آپ کو ہی کیوں استعمال کیا؟
میری اس پوسٹ کے آگے پیچھے آپ کی کوئی پوسٹ تو تھی نہیں جس پر آپ میری اس بات کو تنقید سمجھتے؟
شاہد نزیر بھائی،اگر یہ تنقید آپ کی طرف سے ہوتی تو میں اس کو ہنس کر برداشت کر لیتا بلکہ اس سے بھی زیادہ سخت تنقید کر کے دیکھ لیں،آخر آپ نے جو لفظ بہتوں استعمال کیا ہے تو اس کا کوئی نہ کوئی مقصد تو ہو گا جس کو بیان کرنے سے آپ گریز کر رہے ہیں،جبکہ آپ کہہ رہے ہیں کہ یہ میں نے ہی لکھا ہے تو آپ کی عبارت اس طرح ہونی چاہیے تھی۔
"ارسلان بھائی مجھے آپ کے اس مذاق سے دلی دکھ ہوا ہے"
لہذا آپ لفظ "بہتوں" کی وضاحت کریں۔
یہ بات پڑھ کر پہلے مجھے غصہ آیا لیکن بعد میں بہت دیر تک مسکراتا رہا۔ یہ رعایت صرف آپ کے لئے ہے وگرنہ کوئی اور اس طرح کی بات کرتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔
یہ کیا ہے شاہد نزیر بھائی،اگر یہ بات میں نہ لکھتا کوئی اور لکھتا تو کیا آپ بڑے چھوٹے کے لحاظ کو قطع نظر کر کے ادب بھول جاتے،یا اگر میں نے غلط لکھا ہے یا آپ پر بہتان لگایا ہے اور غلط کام کیا ہے تو مجھے رعایت دے کر آپ مجھے مزید غلطیاں کرنے سے کیوں نہیں روکنا چاہتے؟
بھائی اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں بلاوجہ کسی پر تنقید کر رہا ہوں تو پھر میں تنقید ہی کیوں کرتا میں تو اسی وقت تنقید کرتا ہوں جب میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح اور جائز ہے۔
اور آپ کو اکثر دیکھا گیا ہے کہ جب آپ نے تنقید کی ہے اور کسی نے اس کا جواب دیا ہے تو آپ نے رجوع کیا ہے تو اگر تنقید جائز اور صحیح ہوتی ہے تو رجوع کا کیا مقصد؟
دیکھیں آپ جیسے خیرخواہ بھائی نے بھی مجھے ایسے غلط کام سے نہیں روکا۔ بہرحال یہ آئندہ سے آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ نے مجھ پر کھل کر تنقید کرنی ہے تاکہ میں اگر غلطی پر ہوں تو اپنی اصلاح کرسکوں۔ میں آپ کی یقین دلا دوں کہ میں تنقید پر برا ماننے والوں میں سے نہیں ہوں۔ ان شاء اللہ
اور یہی پیغام میرا بھی آپ کی طرف سے ہی ہے،بلکہ میرے پیغام میں یہ اضافہ بھی ہے کہ شاہد نزیر بھائی کے علاوہ بھی کوئی میری غلطی دیکھے تو مجھے روک ٹوک کرے۔
دیکھیں میں نے وضاحت کردی ہے اس لئے اب ایسی بدگمانی صحیح نہیں۔
آپ نے لفظ "بہتوں" کی وضاحت نہیں کی جس سے مجھے گمان ہوا ہے،ابھی یہ بدگمانی ہے یا صحیح گمانی،یہ تو میں نے نہیں جانتا،اللہ تعالیٰ کو ہی اس کا علم ہے۔
یہ تو مجھے آج آپ کی زبانی معلوم ہوا کہ اپنے محترم شاکر بھائی صحیح اور غلط جاننے کی کسوٹی ہیں اور کسی بات پر ان کی خاموشی اس بات کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔
شاہد نزیر بھائی ،لگتا ہے آپ بھی سوچنے سمجھنے کی کنڈیشن میں نہیں ہیں،بھلا میں نے ایسا کب لکھا ہے،میرے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ فورم کے قوانین کے تحت اگر میں کوئی ایسی بات لکھوں جو اس فورم کے قوانین کے خلاف ہو تو شاکر بھائی میری اصلاح کر دیتے ہیں۔
آج سے ہم بھی اپنی تحریریں شاکر بھائی کی خدمت میں پیش کرکے صحیح اور غلط ہونے کا فیصلہ کروالینگے۔
بے ادبی معاف،آپ کی بعض تحریروں پر شاکر بھائی آپ کی اصلاح کرتے رہے ہیں لیکن آپ نے کم ہی ان پر توجہ کی ہے ،وہ تو اپنا کام پورا کرتے رہے ہیں۔
ہاں یاد آیا میری جس پوسٹ کا آپ نے برا منایا ہے اس پر بھی تو شاکر بھائی نے خاموشی اختیار کی ہے اور مجھے کوئی تنبیہ نہیں کی۔ کہیں بشری تقاضے کے تحت ان سے کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی؟؟؟
آپ کی پوسٹ فورم قوانین کے خلاف نہیں تھی،انتظامیہ کے افراد غیر جانبدار ہیں ،صرف آپ کی پوسٹ پر اس لیے تنبیہ نہیں کر سکتے تھے کہ یہ ارسلان پر تنقید ہے،محدث فورم کے قوانین سب کے لیے ہیں ،یہ نہیں کہ کسی کے لیے اور اور کسی کے لیے اور،میں نے بھی اپنی پوسٹوں میں آپ کی پوسٹ پر کسی انتظامیہ کے فرد کو آگاہ نہیں کیا،یا رپورٹ نہیں کی کہ یہ مجھ پر تنقید ہے اسے ڈیلیٹ کرو،نہیں قطعا نہیں،محدث فورم پر اپنی رائے کو احسن انداز میں پیش کرنے کی مکمل آزادی ہے۔
ہم میں اور شاکر بھائی میں بہت فرق ہے۔ ہماری تحریریں اکثر آگ برسا رہی ہوتی ہیں اور شاکر بھائی اپنی تحریروں سے پھول نچھاور کررہے ہوتے ہیں۔
جو تحریریں آگ برساتی ہوں وہ "صحیح اور جائز" کیسے ہو سکتی ہیں؟
آگ کی فطرت میں شدت،طیش اور جلانا ہے،اور آگ سے ہمیشہ عقلمند انسان دوربھاگتا ہے،آپ کوشش کریں کہ آپ کی تحریروں سے پھول برسیں ،کیونکہ پھولوں کی خوشبو انسان کو اپنی طرف مائل کرتی ہے اور انسان پھول کی خوشبو سونگھنے کے لیے اپنے جسم کے نازک ترین حصے "چہرے" کی طرف لے جاتا ہے۔
چلیں کوشش کرونگا کہ شاکر بھائی کی اندھی تقلید کرسکوں۔
لاحول ولا قوۃ الا باللہ
 

siddique

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
170
ری ایکشن اسکور
900
پوائنٹ
104
السلام علیکم
بھائی یہی غلو ہے،جسے آپ ماننے کو تیار نہیں،جس سے ہم آپ کو مسلسل منع کر رہے ہیں اور آپ اس کو تعریف کا نام دے کر مسلسل سر انجام دے رہے ہیں،اس سے شخصیت پرستی پیدا ہوتی ہے،آئیے اس کے نقصانات پر غور کریں۔
آدمی کسی کی عقیدت میں غلو کا شکار ہو جائے تو اس کی کسی بھی بات کو غلط ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا،اس کی مثال صوفی لوگوں اور امام ابو حنیفہ کی تقلید کرنے والوں میں با آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔
اگر قرآن و حدیث سے اس شخصیت کی کوئی بات غلط ثابت کر دی جائے تو (نعوذباللہ) قرآن و حدیث کے فیصلے پر دل میں ناگواری پیدا ہونے کا خدشہ ہے،جس کی سزا بربادی ہے اور آخرت میں خسارہ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا۟ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَٰلَهُمْ ﴿٩﴾

ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ ٱتَّبَعُوا۟ مَآ أَسْخَطَ ٱللَّهَ وَكَرِهُوا۟ رِضْوَٰنَهُۥ فَأَحْبَطَ أَعْمَٰلَهُمْ﴿٢٨﴾


اور موسی علیہ السلام کا واقعہ تو بہت ہی نصیحت آموز ہے:
حدثنا أبي بن كعب، عن النبي صلى الله عليه وسلم: (قام موسى النبي خطيبا في بني إسرائيل فسئل: أي الناس أعلم؟ فقال: أنا أعلم، فعتب الله عليه، إذ لم يرد العلم إليه، فأوحى الله إليه: إن عبدا من عبادي بمجمع البحرين، هو أعلم منك. قال: يا رب، وكيف به؟ فقيل له: احمل حوتا في مكتل، فإذا فقدته فهو ثم، فانطلق وانطلق بفتاه يوشع بن نون، وحمل حوتا في مكتل، حتى كانا عند الصخرة وضعا رؤوسهما وناما، فانسل الحوت من المكتل فاتخذ سبيله في البحر سربا، وكان لموسى وفتاه عجبا، فانطلقا، بقية ليلتهما ويومهما، فلما أصبح قال موسى لفتاه: آتنا غداءنا لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا. ولم يجد موسى مسا من النصب حتى جاوز المكان الذي أمر به، قال له فتاه: أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة؟ فإني نسيت الحوت، قال موسى: ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا، فلما انتهيا إلى الصخرة، إذا رجل مسجى بثوب، أو قال تسجى بثوبه، فسلم موسى، فقال الخضر: وأنى بأرضك السلام؟ فقال: أنا موسى، فقال: موسى بني إسرائيل؟ قال: نعم، قال: هل أتبعك على أن تعلمني مما علمت رشدا؟ قال: إنك لن تسطيع معي صبرا، يا موسى، إني على علم من علم الله علمنيه لا تعلمه أنت، وأنت على علم علمكه لا أعلمه. قال: ستجدني إن شاء الله صابرا، ولا أعصي لك أمرا، فانطلقا يمشيان على ساحل البحر، ليس لهما سفينة، فمرت بهما سفينة، فكلموهم أن يحملوهما، فعرف الخضر، فحملوهما بغير نول، فجاء عصفور فوقع على حرف السفينة، فنقر نقرة أو نقرتين في البحر، فقال الخضر: يا موسى: ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا كنقرة هذا العصفور في البحر، فعمد الخضر إلى لوح من ألواح السفينة فنزعه، فقال موسى: قوم حملونا بغير نول، عمدت إلى سفينتهم فخرقتها لتغرق أهلها؟ قال: ألم أقل لك إنك لن تسطيع معي صبرا؟ قال: لا تؤاخذني بما نسيت - فكانت الأولى من موسى نسيانا - فانطلقا، فإذا غلام يلعب مع الغلمان، فأخذ الخضر برأسه من أعلاه فاقتلع رأسه بيده، فقال موسى: أقتلت نفسا زكية بغير نفس؟ قال: ألم أقل لك إنك لن تسطيع معي صبرا؟ - قال ابن عيينة: وهذا أؤكد - فانطلقا، حتى إذا أتيا أهل قرية استطعما أهلها فأبوا أن يضيفوهما، فوجد فيها جدارا يريد أن ينقض فأقامه، قال الخضر بيده فأقامه، فقال له موسى: لو شئت لاتخذت عليه أجرا، قال: هذا فراق بيني وبينك). قال النبي صلى الله عليه وسلم: (يرحم الله موسى، لوددنا لو صبر حتى يقص علينا من أمرهما). [ر: 74].
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”موسیٰ علیہ السلام (ایک دن) بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ سب سے بڑا عالم تو میں ہی ہوں۔ لہٰذا اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انھوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف کیوں نہ کی؟ پھر اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے، تم میں بڑا عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے اے میرے پروردگار! میری ان سے کس طرح ملاقات ہو گی؟ تو ان سے کہا گیا کہ مچھلی کو زنبیل میں رکھو (اور مجمع البحرین کی طرف چلو) پھر جب (جس مقام پر) مچھلی کو نہ پاؤ تو (سمجھ لینا کہ) وہ بندہ وہیں ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام چل پڑے اور اپنے ہمراہ اپنے خادم یوشع بن نون کو بھی لے لیا اور ان دونوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ یہاں تک کہ جب صخرہ (ایک پتھر) کے پاس پہنچے تو دونوں نے اپنے سر (زمین پر) رکھ لیے اور سو گئے تو (یہیں) مچھلی زنبیل سے نکل گئی اور دریا میں اس نے راہ بنا لی اور (مچھلی کے زندہ ہو جانے سے) موسیٰ علیہ السلام اور ان کے خادم کو تعجب ہوا، پھر وہ دونوں باقی رات اور ایک دن چلتے رہے، جب صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ (یعنی مچھلی والا کھانا) بیشک ہم نے اپنے اس سفر سے تکلیف اٹھائی اور موسیٰ علیہ السلام جب تک کہ اس جگہ سے آگے نہیں نکل گئے، جس کا انھیں حکم دیا گیا تھا، اس وقت تک انھوں نے کچھ تکلیف محسوس نہیں کی۔ (اب جو ان کے خادم نے دیکھا تو مچھلی غائب تھی)۔ تب انھوں نے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا (آپ کو یاد پڑتا) ہے کہ جب ہم پتھر کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی (کا بتانا بالکل ہی) بھول گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہی وہ (مقام) ہے جس کو ہم تلاش کر رہے تھے۔ پھر وہ دونوں کھوج لگاتے ہوئے اپنے قدموں کے نشانات پر واپس لوٹ گئے۔ پس جب اس پتھر تک پہنچے (تو کیا دیکھتے ہیں کہ) ایک آدمی کپڑا اوڑھے ہوئے (یا یہ کہا کہ اس نے کپڑا لپیٹ رکھا تھا) بیٹھا ہوا ہے۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے انھیں سلام کیا تو خضر علیہ السلام نے کہا کہ تیرے ملک میں سلام کہاں سے آیا؟ تو انھوں نے کہا کہ میں (یہاں کا رہنے والا نہیں ہوں، میں) موسیٰ (علیہ السلام) ہوں۔ خضر علیہ السلام نے کہا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ (علیہ السلام) انھوں نے کہا ”ہاں“ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا میں اس (امید) پر تمہاری پیروی کر سکتا ہوں کہ جو کچھ ہدایت تمہیں سکھائی گئی ہے۔ مجھے بھی سکھا دو؟ انھوں نے کہا کہ تم میرے ساتھ (رہ کر میری باتوں پر) ہرگز صبر نہ کر سکو گے۔ اے موسیٰ! بیشک میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر (مطلع) ہوں کہ جسے خاص کر اس نے مجھے عطا کیا ہے، تم اسے نہیں جانتے اور تم ایسے علم پر (مطلع) ہو جو اللہ نے تمہیں تعلیم کیا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا انشاءاللہ تم مجھے صبر کرنے والا پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا، (چنانچہ خضر علیہ السلام راضی ہو گئے) پھر وہ دونوں دریا کے کنارے چلے، (اور) ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی۔ اتنے میں ایک کشتی ان کے پاس (سے ہو کر) گزری تو کشتی والوں سے انھوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر (علیہ السلام) پہچان لیے گئے اور کشتی والوں نے انھیں بے کرایہ بٹھا لیا۔ پھر (اسی اثنا میں) ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی اور اس نے ایک چونچ یا دو چونچیں دریا میں ماریں۔ خضر (علیہ السلام) بولے کہ اے موسیٰ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم سے صرف اس چڑیا کی چونچ کی بقدر کم کیا ہے۔ پھر خضر (علیہ السلام) نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ کی طرف قصد کیا اور اسے اکھیڑ ڈالا۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ ان لوگوں نے ہم کو بغیر کرایہ (لیے ہوئے) بٹھا لیا اور آپ نے ان کی کشتی کی طرف قصد کیا اور اسے توڑ دیا تاکہ اس پر سوار لوگ غرق ہو جائیں۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا ”کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر صبر نہ کر سکو گے۔“ موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں بھول گیا تھا اس لیے میرا مؤاخذہ نہ کیجئیے اور میرے معاملے میں مجھ پر تنگی نہ کیجئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی بار موسیٰ علیہ السلام سے بھول کر یہ بات (اعتراض کی) ہو گئی۔ پھر وہ دونوں (کشتی سے اتر کر) چلے تو ایک لڑکا (ملا جو اور) لڑکوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا۔ خضر (علیہ السلام) نے اس کا سر اوپر سے پکڑ لیا اور اپنے ہاتھ سے اس کو اکھیڑ ڈالا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ایک بےگناہ جان کو بے وجہ تم نے قتل کر دیا۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا: کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ (رہ کر میری باتوں پر) ہرگز صبر نہ کر سکو گے؟“ ابن عینیہ (راوی حدیث) نے کہا ہے کہ (پہلے جواب کی نسبت) اس میں زیادہ تاکید تھی۔ پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں کے پاس پہنچے۔ وہاں کے رہنے والوں سے انھوں نے کھانا مانگا چنانچہ ان لوگوں نے ان کی مہمانی کرنے سے (صاف) انکار کر دیا۔ پھر وہاں ایک دیوار ایسی دیکھی جو کہ گرنے ہی والی تھی تو خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے اس کو سہارا دیا اور اس کو درست کر دیا۔ (اب پھر) موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے۔ خضر (علیہ السلام) بولے کہ (بس اب اس مرحلے پر) ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس قدر بیان فرما کر) ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ہم یہ چاہتے تھے کہ کاش موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے تو ان کے اور حالات ہم سے بیان کیے جاتے۔“(صحیح بخاری،کتاب العلم، باب: ما يستحب للعالم إذا سئل: أي الناس أعلم؟ فيكل العلم إلى الله.)
تو برائے مہربانی بات کو ٹھنڈے دل سے سمجھنے کی کوشش کیا کریں،ہر بات کو جذبات کے ترازو میں تولنا صحیح بات نہیں۔اب اسی غلو کے نتیجے میں چند نقصانات آپ بھی اسی تھریڈ کو پڑھ کر دیکھ سکتے ہیں کہ:
کسی نے لعنت ملامت کا سلسلہ شروع کر دیا۔
کسی نے مردعورت کا تقابل کیا۔
کسی نے بہتان باندھے سے گریز نہیں کیا۔
تو آپ سمجھداری کا مظاہرہ کریں،آپ کے نام سے پہلے "مفتی" کا لفظ لکھا ہوا ہے،جس کا مطلب "فتوی دینے والا" ہوتا ہے۔اور فتوی دینے والے کو،سنجیدہ ،معتدل مزاج،اور معاملات پر غوروفکر کرنے والا ہونا چاہیے۔جزاک اللہ خیرا
السلام علیکم ارسلان بھائی
آپ نے بہت خوب بات کہی ہے
یہ لوگ غلو کی طرف بڑھ رہے ہے
میں اس مضمون کے تعلق سے زیا دہ کچھ لکھنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ میری پچھلی پوسٹ میں کچھ شدت پسندی تھی
مجھے مفتی عبداللہ اور ایک پٹھان خاتون کا قول بہت چبتا ہے۔اور انتظامیہ ابھی تک خاموش کیوں رہی۔
فرحت ہاشمی نے مسلک اہلحدیث کو زندہ کیا
اہلحدیث کا ایک اور نام اہل سنت ہے
اور اہل سنت کو زندہ رکھنے کے لیے احمد بن حنبل نے جو قربانی دی ہے کیوں دی ہے؟
امام ابن تیمیہ نے ہر باطل کے خلاف پہاڑ کی مانند کھڑے رہے۔اور آخری سانس تک مسلک اہل حدیث کا پرچم تھامے رہے
امام محمد بن عبدالوہاب نجدی کا حال کیا ہمارے سے چھپا ہوا ہے
کیا میاں نظیر حسین دہلوی اور انکے شاگردان نے کیا مسلک اہلحدیث کا پرچم تھامے نہیں رکھے
کیا ہم احسان الہیٰ ظہیر کی شہادت کو بھول جائے۔جومسلک اہلحدیث کا پرچم تھامے رکھے اور شہادت کے عظیم مرتبے پایا۔
کیا ہم معراج ربانی کی قربانیوں کو بھول جائے۔ممبی میں انکے ساتھ کیا ہوا۔حتٰی کے انکے نام کی سپاری تک نکالی گیئ
خیر مفتی عبداللہ بھائی علوی بھی نے جو کہا وہ بہت ہی صحیح کہا۔کہ فرحت ہاشمی صاحبہ کے علم اور انکی خدمت سے کس کو بھی انکار نہیں۔خا کر اہلحدیث میں۔
اللہ حافظ
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
یہ الگ بات ھے (ہے) کہ اکثر اھلحدیث (اہل حدیث) عبارت اور اخلاق میں پیدل ھوتے (ہوتے) ھیں (ہیں) الا ماشاء اللہ!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!
حضرت آتش کا ایک شعر یاد آگیا ، بلا تبصرہ پیش خدمت ہے
لگے منہ بھی چڑانے دیتے دیتے گالیاں صاحب
زباں بگڑی تو بگڑی تھی ، خبر لیجئے دہن بگڑا

خواجہ حیدر علی آتش
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
میں غلو کا معنی جانتا ھو
وعلیکم السلام مفتی صاحب
آپ کے نزدیک غلو کے کیا معنی ہیں،اور کیا میں نے آپ کا جو جملہ ہیڈ لائن کیا ہے وہ غلو نہیں ہے؟دلیل سے ثابت کریں۔
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
کوی ایسا شخص ایک بھی نھی دیکھا جو کبیرہ کا مرتکب نا ھو میرا دعوی ھے کہ اس ملک میں اسلامی انقلاب اس لیے نھی آتا کہ کوی بھی ایسی گروہ یا جماعت نھی ھے ایسی صالح لوگوں کی کوی جماعت نھی جو اسلام کی ساتھ مخلص ھو سب کی اندر بی شمار خامیاں ھے میری نزدیک موجودہ دور میں سب سے بھتر فرحت ھاشمی ھے اپنی علم اور گمان میں جو کچھ دیکھا سنا سمجھا وھی لکھا اسلیے میںمیری
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسلیے میں پھر کھتا ھو کہ جو کچھ لکھا ایک ایک حرف حقیقت لکھا اللہ تعالی محترمہ ڈاکٹر فرحت ھاشمی صاحبہ کی علم وعمل میں برکت عطاء فرماے اور اللہ تعالی ان کی خدمات کو قبول فرماے وہ میری نزدیک اس دور کی سب سے بڑی عالمہ اور اسلام کی حقیقی داعیہ ھے کوی مانے یا نامانے وہ ان کی مرضی قیامت کی دن ھر کسی نے اللہ تعالی کو جواب دیناھوگا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی صاحب !میں آپ کو نہیں جانتا
اس طرح کی باتیں کہنے ضرورت ہی نہں کیونکہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بے شمار ان گنت محدثین کرام اس وقت دنیا اور پاکستان میں موجود ہیں ۔جن کی خدمات اس قدر ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔
مگر آپ کو اگر کوئی دوسرا نظر نہیں آتا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے ۔آئندہ امید ہے کہ قارئین کا وقت ضایع کرنے کے لئے ماضی کی طرح کی کوئی پوسٹ نہیں لگائیں گے والسلام علیکم
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
یوسف ثانی صاحب سلام !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!! انپڑ آدمی ھو کچھ سمجھ نھی آیا کہ آپ نے گالیا ں دی ھے مجھ کو یا ڈانٹا ھے واللہ اعلم
 

siddique

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
170
ری ایکشن اسکور
900
پوائنٹ
104
قابل احترام ارسلان بھای السلام علیکم غلو کا معنی ھے کسی کو اپنی حدود سے بڑھا چڑھا کر پیش کرنا التعبیرات اللغویہ جلدنمبر ٢ صفحہ نمبر٢٢٢
جناب ارسلان بھای میں نے چودہ سال درس نظامی پڑھا ھے اورپندرہ سال پڑھایا ھے دنیا کی چند ممالک دیکھیں ھے ھزارون علماء میرے استادھے اور ھزاروں میرے شاگرد ھزاروں علماء کی لیکچر
سنے ھیں بیانات سنیں ھے کم ازکم اپنی زندگی میں فرحت ھاشمی جیسی متقی پرھیزگار علم کاسمندر اور عالم اسلام میں تبدیلی پیداکرنے والی ایسی انسان میں نے نھی دیکھا نا سنا فرحت ھاشمی کو میں نا دیکھا ھے نہ کبھی ان سے بات ھوی ھے
وعلیکم سلام بھائی جان
آپ مفتی ہے اور آپکے قابلیت کے حساب سے اسطرح کی بات آپ کو جچتی نہیں۔ اگر آپ نے اب تک ایسی شخصیت نہیں دیکھی ہے تو جائے۔حافظ زبیر علی زئی اور ارشاد الحق اثری حفظ اللہ کو دیکھے، سنیے ،ملیے،یہ دو شیخین کی کتابوں کا مطالعہ کرے۔
مین نے فرحت ھاشمی کی بارے میں جو کچھ لکھا اپنی اللہ کو حاضر وناضر کرکے لکھا یہ حاضر و ناظر جو آپ نے لکھا ہے کیا کسی سلفی اہل حدیث و اہل سنہ شخص کو یہ بات کہنا چاہیے۔ذرا اس مسلئہ پر روشنی ڈالے۔
اللہ حافظ
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,410
پوائنٹ
562
قابل احترام ارسلان بھای السلام علیکم غلو کا معنی ھے (ہے) کسی کو اپنی حدود سے بڑھا چڑھا کر پیش کرنا التعبیرات اللغویہ جلدنمبر ٢ صفحہ نمبر٢٢٢
جناب ارسلان بھای (بھائی) میں نے چودہ سال درس نظامی پڑھا ھے (ہے) اورپندرہ سال پڑھایا ھے (ہے) دنیا کی (کے) چند ممالک دیکھیں ھے (دیکھے ہیں) ھزارون (ہزاروں) علماء میرے استادھے (ہیں) اور ھزاروں (ہزاروں) میرے شاگرد
ہزاروں علماء کے استاد اور ہزاروں علماء کے شاگرد ہونے کے ’’دعویدار‘‘ مفتی صاحب کے اردو کےایک فقرے میں املا کی نَو (٩) غلطیاں ؟؟؟ اگر ہزاروںکا لفظ یہاں بطور غلو استعمال نہیں ہوا ہے تو مفتی صاحب نے یقینا" اس لفظ کو محاورتا" استعمال کیا ہوگا ۔ کیونکہ ٤ا سالہ دورِ طالب علمی میں اگر کوئی طالب علم (ہزاروں نہیں بلکہ صرف) ایک ہزار استاد کی بھی شاگردی اختیار کرے تو ایک استاد کے حصہ میں محض پانچ دن آتے ہیں۔ اور ایک استاد سے پانچ دن میں کوئی طالب علم کیا کچھ سیکھ سکتا ہے، اس کا اندازہ کوئی بھی اچھا استاد کرسکتا ہے۔ یہاں پھر مجھے اردو کے ایک ممتاز شاعر اور استاد جگن ناتھ آزاد کا ایک شعر یاد آرہا ہے، جو بلا تبصرہ پیش کرتا ہوں۔
ابتدا یہ تھی کہ میں تھا اور دعویٰ علم کا
انتہا یہ کہ اس دعویٰ پہ میں شرمایا بہت

یوسف ثانی صاحب سلام !!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!!! انپڑ (اَن پڑھ)آدمی ھو (ہوں) کچھ سمجھ نھی (نہیں) آیا کہ آپ نے گالیا ں دی ھے (ہیں) مجھ کو یا ڈانٹا ھے (ہے) واللہ اعلم
مفتی عبداللہ صاحب! وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہٰ
میرے محترم بھائی! ایک طرف تو آپ ہزاروں علماء کی شاگردی اور ہزاروں ہی علماء کی استادی کا ’’دعویٰ‘‘ فرما رہے ہیں اور دوسرے ہی سانس میں خود کو ’’اَن پڑھ آدمی‘‘ بھی قرار دے رہے ہیں۔ یہ معمہ کم از کم میری سمجھ سے تو بالا تر ہے۔ آپ کے ان دونوں ’’دعووں‘‘ میں سے کون سا دعویٰ درست ہے؟
ہاں! حضرت آتش کے مذکورہ بالا شعر کا روئے سخن آپ کی طرف تھا نہ کہ میری طرف۔ ایک سانس میں عالمانہ دعویٰ اور دوسرے ہی سانس میں ’’کچھ سمجھ نہیں آیا‘‘ کی سادگی بھری اس ’’ معصومیت ‘‘ پر ایک اور شعر یاد آگیا۔ع

اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں​
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,118
ری ایکشن اسکور
4,480
پوائنٹ
376
ابن بشیر صاحب زبان تو آپ کا ابن نذیر الیزیدوی جیساھے
کیونکہ اللہ تعالی کے فضل و کرم سے بے شمار ان گنت محدثین کرام اس وقت دنیا اور پاکستان میں موجود ہیں ۔جن کی خدمات اس قدر ہیں کہ ۔۔۔۔۔۔
مگر آپ کو اگر کوئی دوسرا نظر نہیں آتا تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے
شاباش مفتی صاحب !!!!!!!
کوئی اہل علم ان دونوں باتوں میں تقابل کرے !!!
افسوس کہ ہمیں ایسے مفتیوں سے بھی واسطہ پڑنا تھا ۔واقعۃ یہ مفتی اسم با مسمی ہیں
مفتی صاحب کیا بتانا پسند کریں گے کہ آپ کے فتاوی جات کہاں شایع ہوتے ہیں تاکہ ہم استفادہ کر سکیں ۔کہ بس نام کے مفتی ہیں ۔!؟
فرق کی وضاحت کریں ۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top