ارسلان بھای فرحت ھاشمی علم وعمل کا ایک بلامثال نام ھے ماننا پڑیگا آپ ذرا ان کی سورہ مومنون کی تفسیر سنو والذین ھم عن اللغو معرضون آیت کی تفسیر ان کا سن لو پھر بتاو کہ کیا دنیا کی کسی
بھی مفسر نے ایسا تفسیر بیان کیا ھے؟؟؟؟؟؟؟
السلام علیکم
بھائی یہی غلو ہے،جسے آپ ماننے کو تیار نہیں،جس سے ہم آپ کو مسلسل منع کر رہے ہیں اور آپ اس کو تعریف کا نام دے کر مسلسل سر انجام دے رہے ہیں،اس سے شخصیت پرستی پیدا ہوتی ہے،آئیے اس کے نقصانات پر غور کریں۔
آدمی کسی کی عقیدت میں غلو کا شکار ہو جائے تو اس کی کسی بھی بات کو غلط ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا،اس کی مثال صوفی لوگوں اور امام ابو حنیفہ کی تقلید کرنے والوں میں با آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔
اگر قرآن و حدیث سے اس شخصیت کی کوئی بات غلط ثابت کر دی جائے تو (نعوذباللہ) قرآن و حدیث کے فیصلے پر دل میں ناگواری پیدا ہونے کا خدشہ ہے،جس کی سزا بربادی ہے اور آخرت میں خسارہ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا۟ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَٰلَهُمْ ﴿٩﴾
یہ اس لیے کہ انہیں نے ناپسند کیا جو الله نے اتارا ہے سو اس نے ان کے اعمال ضائع کر دیے (سورۃ محمد،آیت 9)
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ ٱتَّبَعُوا۟ مَآ أَسْخَطَ ٱللَّهَ وَكَرِهُوا۟ رِضْوَٰنَهُۥ فَأَحْبَطَ أَعْمَٰلَهُمْ﴿٢٨﴾
یہ اس لیے کہ یہ اس پر چلے جس پر الله ناراض ہے اور انہوں نے الله کی رضا مندی کو برا جانا پھر اس نے بھی ان کے اعمال اکارت کر دیئے (سورۃ محمد،آیت 28)
اور موسی علیہ السلام کا واقعہ تو بہت ہی نصیحت آموز ہے:
حدثنا أبي بن كعب، عن النبي صلى الله عليه وسلم: (قام موسى النبي خطيبا في بني إسرائيل فسئل: أي الناس أعلم؟ فقال: أنا أعلم، فعتب الله عليه، إذ لم يرد العلم إليه، فأوحى الله إليه: إن عبدا من عبادي بمجمع البحرين، هو أعلم منك. قال: يا رب، وكيف به؟ فقيل له: احمل حوتا في مكتل، فإذا فقدته فهو ثم، فانطلق وانطلق بفتاه يوشع بن نون، وحمل حوتا في مكتل، حتى كانا عند الصخرة وضعا رؤوسهما وناما، فانسل الحوت من المكتل فاتخذ سبيله في البحر سربا، وكان لموسى وفتاه عجبا، فانطلقا، بقية ليلتهما ويومهما، فلما أصبح قال موسى لفتاه: آتنا غداءنا لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا. ولم يجد موسى مسا من النصب حتى جاوز المكان الذي أمر به، قال له فتاه: أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة؟ فإني نسيت الحوت، قال موسى: ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا، فلما انتهيا إلى الصخرة، إذا رجل مسجى بثوب، أو قال تسجى بثوبه، فسلم موسى، فقال الخضر: وأنى بأرضك السلام؟ فقال: أنا موسى، فقال: موسى بني إسرائيل؟ قال: نعم، قال: هل أتبعك على أن تعلمني مما علمت رشدا؟ قال: إنك لن تسطيع معي صبرا، يا موسى، إني على علم من علم الله علمنيه لا تعلمه أنت، وأنت على علم علمكه لا أعلمه. قال: ستجدني إن شاء الله صابرا، ولا أعصي لك أمرا، فانطلقا يمشيان على ساحل البحر، ليس لهما سفينة، فمرت بهما سفينة، فكلموهم أن يحملوهما، فعرف الخضر، فحملوهما بغير نول، فجاء عصفور فوقع على حرف السفينة، فنقر نقرة أو نقرتين في البحر، فقال الخضر: يا موسى: ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا كنقرة هذا العصفور في البحر، فعمد الخضر إلى لوح من ألواح السفينة فنزعه، فقال موسى: قوم حملونا بغير نول، عمدت إلى سفينتهم فخرقتها لتغرق أهلها؟ قال: ألم أقل لك إنك لن تسطيع معي صبرا؟ قال: لا تؤاخذني بما نسيت - فكانت الأولى من موسى نسيانا - فانطلقا، فإذا غلام يلعب مع الغلمان، فأخذ الخضر برأسه من أعلاه فاقتلع رأسه بيده، فقال موسى: أقتلت نفسا زكية بغير نفس؟ قال: ألم أقل لك إنك لن تسطيع معي صبرا؟ - قال ابن عيينة: وهذا أؤكد - فانطلقا، حتى إذا أتيا أهل قرية استطعما أهلها فأبوا أن يضيفوهما، فوجد فيها جدارا يريد أن ينقض فأقامه، قال الخضر بيده فأقامه، فقال له موسى: لو شئت لاتخذت عليه أجرا، قال: هذا فراق بيني وبينك). قال النبي صلى الله عليه وسلم: (يرحم الله موسى، لوددنا لو صبر حتى يقص علينا من أمرهما). [ر: 74].
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”موسیٰ علیہ السلام (ایک دن) بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ سب سے بڑا عالم تو میں ہی ہوں۔ لہٰذا اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انھوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف کیوں نہ کی؟ پھر اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے، تم میں بڑا عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے اے میرے پروردگار! میری ان سے کس طرح ملاقات ہو گی؟ تو ان سے کہا گیا کہ مچھلی کو زنبیل میں رکھو (اور مجمع البحرین کی طرف چلو) پھر جب (جس مقام پر) مچھلی کو نہ پاؤ تو (سمجھ لینا کہ) وہ بندہ وہیں ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام چل پڑے اور اپنے ہمراہ اپنے خادم یوشع بن نون کو بھی لے لیا اور ان دونوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ یہاں تک کہ جب صخرہ (ایک پتھر) کے پاس پہنچے تو دونوں نے اپنے سر (زمین پر) رکھ لیے اور سو گئے تو (یہیں) مچھلی زنبیل سے نکل گئی اور دریا میں اس نے راہ بنا لی اور (مچھلی کے زندہ ہو جانے سے) موسیٰ علیہ السلام اور ان کے خادم کو تعجب ہوا، پھر وہ دونوں باقی رات اور ایک دن چلتے رہے، جب صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ (یعنی مچھلی والا کھانا) بیشک ہم نے اپنے اس سفر سے تکلیف اٹھائی اور موسیٰ علیہ السلام جب تک کہ اس جگہ سے آگے نہیں نکل گئے، جس کا انھیں حکم دیا گیا تھا، اس وقت تک انھوں نے کچھ تکلیف محسوس نہیں کی۔ (اب جو ان کے خادم نے دیکھا تو مچھلی غائب تھی)۔ تب انھوں نے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا (آپ کو یاد پڑتا) ہے کہ جب ہم پتھر کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی (کا بتانا بالکل ہی) بھول گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہی وہ (مقام) ہے جس کو ہم تلاش کر رہے تھے۔ پھر وہ دونوں کھوج لگاتے ہوئے اپنے قدموں کے نشانات پر واپس لوٹ گئے۔ پس جب اس پتھر تک پہنچے (تو کیا دیکھتے ہیں کہ) ایک آدمی کپڑا اوڑھے ہوئے (یا یہ کہا کہ اس نے کپڑا لپیٹ رکھا تھا) بیٹھا ہوا ہے۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے انھیں سلام کیا تو خضر علیہ السلام نے کہا کہ تیرے ملک میں سلام کہاں سے آیا؟ تو انھوں نے کہا کہ میں (یہاں کا رہنے والا نہیں ہوں، میں) موسیٰ (علیہ السلام) ہوں۔ خضر علیہ السلام نے کہا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ (علیہ السلام) انھوں نے کہا ”ہاں“ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا میں اس (امید) پر تمہاری پیروی کر سکتا ہوں کہ جو کچھ ہدایت تمہیں سکھائی گئی ہے۔ مجھے بھی سکھا دو؟ انھوں نے کہا کہ تم میرے ساتھ (رہ کر میری باتوں پر) ہرگز صبر نہ کر سکو گے۔ اے موسیٰ! بیشک میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر (مطلع) ہوں کہ جسے خاص کر اس نے مجھے عطا کیا ہے، تم اسے نہیں جانتے اور تم ایسے علم پر (مطلع) ہو جو اللہ نے تمہیں تعلیم کیا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا انشاءاللہ تم مجھے صبر کرنے والا پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا، (چنانچہ خضر علیہ السلام راضی ہو گئے) پھر وہ دونوں دریا کے کنارے چلے، (اور) ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی۔ اتنے میں ایک کشتی ان کے پاس (سے ہو کر) گزری تو کشتی والوں سے انھوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر (علیہ السلام) پہچان لیے گئے اور کشتی والوں نے انھیں بے کرایہ بٹھا لیا۔ پھر (اسی اثنا میں) ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی اور اس نے ایک چونچ یا دو چونچیں دریا میں ماریں۔ خضر (علیہ السلام) بولے کہ اے موسیٰ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم سے صرف اس چڑیا کی چونچ کی بقدر کم کیا ہے۔ پھر خضر (علیہ السلام) نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ کی طرف قصد کیا اور اسے اکھیڑ ڈالا۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ ان لوگوں نے ہم کو بغیر کرایہ (لیے ہوئے) بٹھا لیا اور آپ نے ان کی کشتی کی طرف قصد کیا اور اسے توڑ دیا تاکہ اس پر سوار لوگ غرق ہو جائیں۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا ”کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر صبر نہ کر سکو گے۔“ موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں بھول گیا تھا اس لیے میرا مؤاخذہ نہ کیجئیے اور میرے معاملے میں مجھ پر تنگی نہ کیجئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی بار موسیٰ علیہ السلام سے بھول کر یہ بات (اعتراض کی) ہو گئی۔ پھر وہ دونوں (کشتی سے اتر کر) چلے تو ایک لڑکا (ملا جو اور) لڑکوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا۔ خضر (علیہ السلام) نے اس کا سر اوپر سے پکڑ لیا اور اپنے ہاتھ سے اس کو اکھیڑ ڈالا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ایک بےگناہ جان کو بے وجہ تم نے قتل کر دیا۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا: کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ (رہ کر میری باتوں پر) ہرگز صبر نہ کر سکو گے؟“ ابن عینیہ (راوی حدیث) نے کہا ہے کہ (پہلے جواب کی نسبت) اس میں زیادہ تاکید تھی۔ پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں کے پاس پہنچے۔ وہاں کے رہنے والوں سے انھوں نے کھانا مانگا چنانچہ ان لوگوں نے ان کی مہمانی کرنے سے (صاف) انکار کر دیا۔ پھر وہاں ایک دیوار ایسی دیکھی جو کہ گرنے ہی والی تھی تو خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے اس کو سہارا دیا اور اس کو درست کر دیا۔ (اب پھر) موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے۔ خضر (علیہ السلام) بولے کہ (بس اب اس مرحلے پر) ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس قدر بیان فرما کر) ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ہم یہ چاہتے تھے کہ کاش موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے تو ان کے اور حالات ہم سے بیان کیے جاتے۔“(
صحیح بخاری،کتاب العلم، باب: ما يستحب للعالم إذا سئل: أي الناس أعلم؟ فيكل العلم إلى الله.)
تو برائے مہربانی بات کو ٹھنڈے دل سے سمجھنے کی کوشش کیا کریں،ہر بات کو جذبات کے ترازو میں تولنا صحیح بات نہیں۔اب اسی غلو کے نتیجے میں چند نقصانات آپ بھی اسی تھریڈ کو پڑھ کر دیکھ سکتے ہیں کہ:
کسی نے لعنت ملامت کا سلسلہ شروع کر دیا۔
کسی نے مردعورت کا تقابل کیا۔
کسی نے بہتان باندھے سے گریز نہیں کیا۔
تو آپ سمجھداری کا مظاہرہ کریں،آپ کے نام سے پہلے "مفتی" کا لفظ لکھا ہوا ہے،جس کا مطلب "فتوی دینے والا" ہوتا ہے۔اور فتوی دینے والے کو،سنجیدہ ،معتدل مزاج،اور معاملات پر غوروفکر کرنے والا ہونا چاہیے۔جزاک اللہ خیرا