• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ڈاکٹر فرحت ھاشمی صاحبہ حفظھا اللہ تعالی

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
اوہ باذوق نی کتنی بی ذوق بات کی
اگر آپ کی اس بات کو ڈاکٹر صاحبہ کے سامنے پیش کیا جائے تو امید ہے کہ وہ آپ کی مذمت کریں گی۔یہ کوئی قابل تعریف کام نہیں۔
تعریف سے نہیں بلکہ "غلو" سے گریز سے مشورہ دیا گیا ہے۔ اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی تعریف میں غلو سے ہمیں روکا ہے تو کسی امتی کی تو بات ہی کیا۔
کیا یہ بات بے ذوق ہے؟
لا حول ولاقوۃ الا باللہ
 

مفتی عبداللہ

مشہور رکن
شمولیت
جولائی 21، 2011
پیغامات
531
ری ایکشن اسکور
2,183
پوائنٹ
171
میں نے کافی لوگوں سے سنا کہ ڈاکٹر فرحت ھاشمی صاحبہ حفظھا اللہ تعالی کا رویہ اپنی شاگرداووں کی ساتھ فیاض ترین بادشاھوں کی طرح ھے وہ انتھای مشفقانہ طرز عمل رکھتی ھے اس لیے تو
اللہ تعالی ان کو ترقی دی رھاھے الھم زد فزد
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,771
ری ایکشن اسکور
8,497
پوائنٹ
964
بھای کیوں حسد کرتے ھو ایک ولی اللہ خاتون سے وہ تو ملکۃ القلوب ھے لاجل حبھا مع اللہ تعالی تو بھی اللہ سے محبت کر اللہ تعالی لوگوں کی دلوں مین آپ کا محبت ڈالیگا حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو
ہم نہیں سمجھتے کہ فرحت ہاشمی صاحبہ اپنے تلامذہ کی اس طرح تربیت کرتی ہوں گے ۔ ۔ ۔
میں اپنے بھائیوں اور بہنوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اگر ان کو اپنی استاذہ کی تعریف کرنی ہی ہے تو برائے مہر بانی سنجیدہ اور علمی انداز اپنائیں ۔ یوں بچگانہ او رجذباتی حرکات پڑھ کر لکھنے والوں کے بارے میں تو جو تأثر قائم ہوتا ہے ، سو ہوتا ہے دین کی ایک مبلغہ کے بارے میں جن کی اس حوالے سے وسیع خدمات ہیں ان کے بارے میں بھی سوء ظن کا باعث بن سکتا ہے ۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
بھای کیوں حسد کرتے ھو ایک ولی اللہ خاتون سے وہ تو ملکۃ القلوب ھے لاجل حبھا مع اللہ تعالی تو بھی اللہ سے محبت کر اللہ تعالی لوگوں کی دلوں مین آپ کا محبت ڈالیگا حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو حسد نا کرو
نہ تو باذوق حفظہ اللہ نے ایسی کوئی بات کہی جسے آپ نے بے ذوقی کہا اور نہ ہی ارسلان بھائی نے ایسا کوئی جملہ کہا جو آپ کو حسد لگا۔ ذرا اپنے جملوں پر نظر ثانی فرمائیں کسی سے اختلاف کا یہ انداز مناسب نہیں۔
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
محترم شاہدنزیر بھائی،یہاں لفظ "بہتوں" سےکیوں مجھے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ یہ آپ کے الفاظ نہیں ہیں،یہ کسی اور کے الفاظ ہیں یا یہ کسی اور(مرد یا عورت) کا نظریہ ہے جسے ظاہر کرنے کے لیے آپ کو استعمال کیا گیا ہے،ذرا ان بہتوں کے نام تو لکھ دیں یا چند لوگوں کے نام ہی لکھ دیں تاکہ میں دیکھوں وہ کون سے لوگ ہیں جن کو میری یہ بات ناگریز لگی ہے۔اگر میری یہ غلط فہمی ہے تو آپ وضاحت کر دیں کہ نہیں یہ آپ کے ہی الفاظ ہیں اور آپ بھی ان رنجیدہ لوگوں میں سے ہیں پھر میں اس بات کا جواب (احسن اندازمیں) دوں گا۔ان شاءاللہ
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی یہ میرے ہی الفاظ و احساسات ہیں۔ اور اسکا سبب یہ ہے کہ جب کوئی اہل حدیث کسی دوسرے صحیح العقیدہ شخص پر بلاوجہ تنقید کرتا ہے تو مجھے دکھ ہوتا ہے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
بھائی یہ میرے ہی الفاظ و احساسات ہیں۔ اور اسکا سبب یہ ہے کہ جب کوئی اہل حدیث کسی دوسرے صحیح العقیدہ شخص پر بلاوجہ تنقید کرتا ہے تو مجھے دکھ ہوتا ہے۔
نہیں بھائی،میں آپ کی اس بات سے ایگری نہیں کرتا،آپ کو کیسے معلوم کہ بہتوں کو دلی رنج ہوا ہے،آپ ضرور کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں اگر معاملہ آپ کی ذات کا ہوتا تو شاید آپ یہ گلہ شکوہ نہ کرتے،لیکن اتنا پرزور گلہ کا میں نے آپ کی طرف سے پہلی مرتبہ سامنا کیا ہے،یہ اختلاف بھی نہیں ہے جس کو اختلاف کا نام دیا جا سکے۔
جب کوئی اہل حدیث کسی دوسرے صحیح العقیدہ شخص پر بلاوجہ تنقید کرتا ہے
شاہد نزیر بھائی،یہ کام تو خود آپ کئی مرتبہ کر چکے ہیں،کیا آپ کو اس وقت کوئی دکھ نہیں ہوا تھا؟
شاہد نزیر بھائی،جس نے بھی آپ کو میرے خلاف بھڑکایا ہےچاہے وہ مرد ہے یا عورت اسے جا کر کہہ دیں کہ آپ سے میری محبت کسی دنیاوی مفاد یا وقتی فائدے کے لیے نہیں بلکہ یہ محبت اللہ کے لیے ہے جو ہر صحیح العقیدہ شخص سے مجھے ہے،جو ان کی اس بلاوجہ تنقید سے ختم نہیں ہو جائے گی۔ان شاءاللہ
میں نے آوارہ بولنے کی عادت کو کسی کے ساتھ خاص نہیں کیا،یا اگر ایسی بات ہوتی یا یہ مذاق غلط ہوتا تو شاکر بھائی ضرور میری اصلاح کر دیتے،اسی تھریڈ کی ایک پوسٹ پر شاکر بھائی نے اعتراض کیا جو مذاق پر مبنی تھی تو میں نے فورا ہی اسے ڈیلیٹ کر دیا،لیکن وہ اعتراض پی ایم میسج میں کیا گیا تھا اوپن فارم نہیں۔جزاک اللہ خیرا
اللہ تعالیٰ آپ کو خوش رکھے آمین۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
ارسلان بھای فرحت ھاشمی علم وعمل کا ایک بلامثال نام ھے ماننا پڑیگا آپ ذرا ان کی سورہ مومنون کی تفسیر سنو والذین ھم عن اللغو معرضون آیت کی تفسیر ان کا سن لو پھر بتاو کہ کیا دنیا کی کسی
بھی مفسر نے ایسا تفسیر بیان کیا ھے؟؟؟؟؟؟؟
السلام علیکم
بھائی یہی غلو ہے،جسے آپ ماننے کو تیار نہیں،جس سے ہم آپ کو مسلسل منع کر رہے ہیں اور آپ اس کو تعریف کا نام دے کر مسلسل سر انجام دے رہے ہیں،اس سے شخصیت پرستی پیدا ہوتی ہے،آئیے اس کے نقصانات پر غور کریں۔
آدمی کسی کی عقیدت میں غلو کا شکار ہو جائے تو اس کی کسی بھی بات کو غلط ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتا،اس کی مثال صوفی لوگوں اور امام ابو حنیفہ کی تقلید کرنے والوں میں با آسانی دیکھی جا سکتی ہے۔
اگر قرآن و حدیث سے اس شخصیت کی کوئی بات غلط ثابت کر دی جائے تو (نعوذباللہ) قرآن و حدیث کے فیصلے پر دل میں ناگواری پیدا ہونے کا خدشہ ہے،جس کی سزا بربادی ہے اور آخرت میں خسارہ۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ كَرِهُوا۟ مَآ أَنزَلَ ٱللَّهُ فَأَحْبَطَ أَعْمَٰلَهُمْ ﴿٩﴾
یہ اس لیے کہ انہیں نے ناپسند کیا جو الله نے اتارا ہے سو اس نے ان کے اعمال ضائع کر دیے (سورۃ محمد،آیت 9)
ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمُ ٱتَّبَعُوا۟ مَآ أَسْخَطَ ٱللَّهَ وَكَرِهُوا۟ رِضْوَٰنَهُۥ فَأَحْبَطَ أَعْمَٰلَهُمْ﴿٢٨﴾
یہ اس لیے کہ یہ اس پر چلے جس پر الله ناراض ہے اور انہوں نے الله کی رضا مندی کو برا جانا پھر اس نے بھی ان کے اعمال اکارت کر دیئے (سورۃ محمد،آیت 28)
اور موسی علیہ السلام کا واقعہ تو بہت ہی نصیحت آموز ہے:
حدثنا أبي بن كعب، عن النبي صلى الله عليه وسلم: (قام موسى النبي خطيبا في بني إسرائيل فسئل: أي الناس أعلم؟ فقال: أنا أعلم، فعتب الله عليه، إذ لم يرد العلم إليه، فأوحى الله إليه: إن عبدا من عبادي بمجمع البحرين، هو أعلم منك. قال: يا رب، وكيف به؟ فقيل له: احمل حوتا في مكتل، فإذا فقدته فهو ثم، فانطلق وانطلق بفتاه يوشع بن نون، وحمل حوتا في مكتل، حتى كانا عند الصخرة وضعا رؤوسهما وناما، فانسل الحوت من المكتل فاتخذ سبيله في البحر سربا، وكان لموسى وفتاه عجبا، فانطلقا، بقية ليلتهما ويومهما، فلما أصبح قال موسى لفتاه: آتنا غداءنا لقد لقينا من سفرنا هذا نصبا. ولم يجد موسى مسا من النصب حتى جاوز المكان الذي أمر به، قال له فتاه: أرأيت إذ أوينا إلى الصخرة؟ فإني نسيت الحوت، قال موسى: ذلك ما كنا نبغي، فارتدا على آثارهما قصصا، فلما انتهيا إلى الصخرة، إذا رجل مسجى بثوب، أو قال تسجى بثوبه، فسلم موسى، فقال الخضر: وأنى بأرضك السلام؟ فقال: أنا موسى، فقال: موسى بني إسرائيل؟ قال: نعم، قال: هل أتبعك على أن تعلمني مما علمت رشدا؟ قال: إنك لن تسطيع معي صبرا، يا موسى، إني على علم من علم الله علمنيه لا تعلمه أنت، وأنت على علم علمكه لا أعلمه. قال: ستجدني إن شاء الله صابرا، ولا أعصي لك أمرا، فانطلقا يمشيان على ساحل البحر، ليس لهما سفينة، فمرت بهما سفينة، فكلموهم أن يحملوهما، فعرف الخضر، فحملوهما بغير نول، فجاء عصفور فوقع على حرف السفينة، فنقر نقرة أو نقرتين في البحر، فقال الخضر: يا موسى: ما نقص علمي وعلمك من علم الله إلا كنقرة هذا العصفور في البحر، فعمد الخضر إلى لوح من ألواح السفينة فنزعه، فقال موسى: قوم حملونا بغير نول، عمدت إلى سفينتهم فخرقتها لتغرق أهلها؟ قال: ألم أقل لك إنك لن تسطيع معي صبرا؟ قال: لا تؤاخذني بما نسيت - فكانت الأولى من موسى نسيانا - فانطلقا، فإذا غلام يلعب مع الغلمان، فأخذ الخضر برأسه من أعلاه فاقتلع رأسه بيده، فقال موسى: أقتلت نفسا زكية بغير نفس؟ قال: ألم أقل لك إنك لن تسطيع معي صبرا؟ - قال ابن عيينة: وهذا أؤكد - فانطلقا، حتى إذا أتيا أهل قرية استطعما أهلها فأبوا أن يضيفوهما، فوجد فيها جدارا يريد أن ينقض فأقامه، قال الخضر بيده فأقامه، فقال له موسى: لو شئت لاتخذت عليه أجرا، قال: هذا فراق بيني وبينك). قال النبي صلى الله عليه وسلم: (يرحم الله موسى، لوددنا لو صبر حتى يقص علينا من أمرهما). [ر: 74].
سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”موسیٰ علیہ السلام (ایک دن) بنی اسرائیل میں خطبہ پڑھنے کھڑے ہوئے تو ان سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے بڑا عالم کون ہے؟ تو انھوں نے کہا کہ سب سے بڑا عالم تو میں ہی ہوں۔ لہٰذا اللہ نے ان پر عتاب فرمایا کہ انھوں نے علم کی نسبت اللہ کی طرف کیوں نہ کی؟ پھر اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ مجمع البحرین میں ہے، تم میں بڑا عالم ہے۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے اے میرے پروردگار! میری ان سے کس طرح ملاقات ہو گی؟ تو ان سے کہا گیا کہ مچھلی کو زنبیل میں رکھو (اور مجمع البحرین کی طرف چلو) پھر جب (جس مقام پر) مچھلی کو نہ پاؤ تو (سمجھ لینا کہ) وہ بندہ وہیں ہے۔ پس موسیٰ علیہ السلام چل پڑے اور اپنے ہمراہ اپنے خادم یوشع بن نون کو بھی لے لیا اور ان دونوں نے ایک مچھلی زنبیل میں رکھ لی۔ یہاں تک کہ جب صخرہ (ایک پتھر) کے پاس پہنچے تو دونوں نے اپنے سر (زمین پر) رکھ لیے اور سو گئے تو (یہیں) مچھلی زنبیل سے نکل گئی اور دریا میں اس نے راہ بنا لی اور (مچھلی کے زندہ ہو جانے سے) موسیٰ علیہ السلام اور ان کے خادم کو تعجب ہوا، پھر وہ دونوں باقی رات اور ایک دن چلتے رہے، جب صبح ہوئی تو موسیٰ علیہ السلام نے اپنے خادم سے کہا کہ ہمارا ناشتہ لاؤ (یعنی مچھلی والا کھانا) بیشک ہم نے اپنے اس سفر سے تکلیف اٹھائی اور موسیٰ علیہ السلام جب تک کہ اس جگہ سے آگے نہیں نکل گئے، جس کا انھیں حکم دیا گیا تھا، اس وقت تک انھوں نے کچھ تکلیف محسوس نہیں کی۔ (اب جو ان کے خادم نے دیکھا تو مچھلی غائب تھی)۔ تب انھوں نے کہا کہ کیا آپ نے دیکھا (آپ کو یاد پڑتا) ہے کہ جب ہم پتھر کے پاس ٹھہرے تھے تو میں مچھلی (کا بتانا بالکل ہی) بھول گیا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا یہی وہ (مقام) ہے جس کو ہم تلاش کر رہے تھے۔ پھر وہ دونوں کھوج لگاتے ہوئے اپنے قدموں کے نشانات پر واپس لوٹ گئے۔ پس جب اس پتھر تک پہنچے (تو کیا دیکھتے ہیں کہ) ایک آدمی کپڑا اوڑھے ہوئے (یا یہ کہا کہ اس نے کپڑا لپیٹ رکھا تھا) بیٹھا ہوا ہے۔ چنانچہ موسیٰ علیہ السلام نے انھیں سلام کیا تو خضر علیہ السلام نے کہا کہ تیرے ملک میں سلام کہاں سے آیا؟ تو انھوں نے کہا کہ میں (یہاں کا رہنے والا نہیں ہوں، میں) موسیٰ (علیہ السلام) ہوں۔ خضر علیہ السلام نے کہا بنی اسرائیل کے موسیٰ؟ (علیہ السلام) انھوں نے کہا ”ہاں“ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا میں اس (امید) پر تمہاری پیروی کر سکتا ہوں کہ جو کچھ ہدایت تمہیں سکھائی گئی ہے۔ مجھے بھی سکھا دو؟ انھوں نے کہا کہ تم میرے ساتھ (رہ کر میری باتوں پر) ہرگز صبر نہ کر سکو گے۔ اے موسیٰ! بیشک میں اللہ کے علم میں سے ایک ایسے علم پر (مطلع) ہوں کہ جسے خاص کر اس نے مجھے عطا کیا ہے، تم اسے نہیں جانتے اور تم ایسے علم پر (مطلع) ہو جو اللہ نے تمہیں تعلیم کیا ہے کہ میں اسے نہیں جانتا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا انشاءاللہ تم مجھے صبر کرنے والا پاؤ گے اور میں کسی بات میں تمہاری نافرمانی نہ کروں گا، (چنانچہ خضر علیہ السلام راضی ہو گئے) پھر وہ دونوں دریا کے کنارے چلے، (اور) ان کے پاس کوئی کشتی نہ تھی۔ اتنے میں ایک کشتی ان کے پاس (سے ہو کر) گزری تو کشتی والوں سے انھوں نے کہا کہ ہمیں بٹھا لو۔ خضر (علیہ السلام) پہچان لیے گئے اور کشتی والوں نے انھیں بے کرایہ بٹھا لیا۔ پھر (اسی اثنا میں) ایک چڑیا آئی اور کشتی کے کنارے پر بیٹھ گئی اور اس نے ایک چونچ یا دو چونچیں دریا میں ماریں۔ خضر (علیہ السلام) بولے کہ اے موسیٰ! میرے اور تمہارے علم نے اللہ کے علم سے صرف اس چڑیا کی چونچ کی بقدر کم کیا ہے۔ پھر خضر (علیہ السلام) نے کشتی کے تختوں میں سے ایک تختہ کی طرف قصد کیا اور اسے اکھیڑ ڈالا۔ موسیٰ علیہ السلام کہنے لگے کہ ان لوگوں نے ہم کو بغیر کرایہ (لیے ہوئے) بٹھا لیا اور آپ نے ان کی کشتی کی طرف قصد کیا اور اسے توڑ دیا تاکہ اس پر سوار لوگ غرق ہو جائیں۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا ”کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ رہ کر میری باتوں پر صبر نہ کر سکو گے۔“ موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں بھول گیا تھا اس لیے میرا مؤاخذہ نہ کیجئیے اور میرے معاملے میں مجھ پر تنگی نہ کیجئیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پہلی بار موسیٰ علیہ السلام سے بھول کر یہ بات (اعتراض کی) ہو گئی۔ پھر وہ دونوں (کشتی سے اتر کر) چلے تو ایک لڑکا (ملا جو اور) لڑکوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا۔ خضر (علیہ السلام) نے اس کا سر اوپر سے پکڑ لیا اور اپنے ہاتھ سے اس کو اکھیڑ ڈالا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا کہ ایک بےگناہ جان کو بے وجہ تم نے قتل کر دیا۔ خضر (علیہ السلام) نے کہا: کیا میں نے تم سے نہ کہا تھا کہ تم میرے ہمراہ (رہ کر میری باتوں پر) ہرگز صبر نہ کر سکو گے؟“ ابن عینیہ (راوی حدیث) نے کہا ہے کہ (پہلے جواب کی نسبت) اس میں زیادہ تاکید تھی۔ پھر وہ دونوں چلے یہاں تک کہ ایک گاؤں کے لوگوں کے پاس پہنچے۔ وہاں کے رہنے والوں سے انھوں نے کھانا مانگا چنانچہ ان لوگوں نے ان کی مہمانی کرنے سے (صاف) انکار کر دیا۔ پھر وہاں ایک دیوار ایسی دیکھی جو کہ گرنے ہی والی تھی تو خضر (علیہ السلام) نے اپنے ہاتھ سے اس کو سہارا دیا اور اس کو درست کر دیا۔ (اب پھر) موسیٰ علیہ السلام نے ان سے کہا کہ اگر آپ چاہتے تو اس پر کچھ اجرت لے لیتے۔ خضر (علیہ السلام) بولے کہ (بس اب اس مرحلے پر) ہمارے اور تمہارے درمیان جدائی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (اس قدر بیان فرما کر) ارشاد فرمایا: ”اللہ تعالیٰ موسیٰ علیہ السلام پر رحم کرے ہم یہ چاہتے تھے کہ کاش موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے تو ان کے اور حالات ہم سے بیان کیے جاتے۔“(صحیح بخاری،کتاب العلم، باب: ما يستحب للعالم إذا سئل: أي الناس أعلم؟ فيكل العلم إلى الله.)
تو برائے مہربانی بات کو ٹھنڈے دل سے سمجھنے کی کوشش کیا کریں،ہر بات کو جذبات کے ترازو میں تولنا صحیح بات نہیں۔اب اسی غلو کے نتیجے میں چند نقصانات آپ بھی اسی تھریڈ کو پڑھ کر دیکھ سکتے ہیں کہ:
کسی نے لعنت ملامت کا سلسلہ شروع کر دیا۔
کسی نے مردعورت کا تقابل کیا۔
کسی نے بہتان باندھے سے گریز نہیں کیا۔
تو آپ سمجھداری کا مظاہرہ کریں،آپ کے نام سے پہلے "مفتی" کا لفظ لکھا ہوا ہے،جس کا مطلب "فتوی دینے والا" ہوتا ہے۔اور فتوی دینے والے کو،سنجیدہ ،معتدل مزاج،اور معاملات پر غوروفکر کرنے والا ہونا چاہیے۔جزاک اللہ خیرا
 

شاہد نذیر

سینئر رکن
شمولیت
فروری 17، 2011
پیغامات
2,014
ری ایکشن اسکور
6,264
پوائنٹ
437
نہیں بھائی،میں آپ کی اس بات سے ایگری نہیں کرتا،آپ کو کیسے معلوم کہ بہتوں کو دلی رنج ہوا ہے،آپ ضرور کچھ چھپانے کی کوشش کر رہے ہیں اگر معاملہ آپ کی ذات کا ہوتا تو شاید آپ یہ گلہ شکوہ نہ کرتے،لیکن اتنا پرزور گلہ کا میں نے آپ کی طرف سے پہلی مرتبہ سامنا کیا ہے،یہ اختلاف بھی نہیں ہے جس کو اختلاف کا نام دیا جا سکے۔
ارسلان بھائی اصل بات وہی ہے جو میں بیان کر چکا ہوں۔ آپ یقین کریں وہ پوسٹ کرنے سے پہلے میں بار بار سوچ رہا تھا کہ کروں یا نہ کروں کیونکہ مجھے قوی امید تھی کہ آپ اس تنقید کا برا منائیں گے۔ لیکن پھر یہ سوچ کر کہ میرا دینی بھائی ہے اور بے تکلف بھی تو شاید برانہ مانے میں نے پوسٹ کردی۔

شاہد نزیر بھائی،یہ کام تو خود آپ کئی مرتبہ کر چکے ہیں،کیا آپ کو اس وقت کوئی دکھ نہیں ہوا تھا؟
یہ بات پڑھ کر پہلے مجھے غصہ آیا لیکن بعد میں بہت دیر تک مسکراتا رہا۔ یہ رعایت صرف آپ کے لئے ہے وگرنہ کوئی اور اس طرح کی بات کرتا تو صورت حال مختلف ہوتی۔ بھائی اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میں بلاوجہ کسی پر تنقید کر رہا ہوں تو پھر میں تنقید ہی کیوں کرتا میں تو اسی وقت تنقید کرتا ہوں جب میں سمجھتا ہوں کہ یہ صحیح اور جائز ہے۔دیکھیں آپ جیسے خیرخواہ بھائی نے بھی مجھے ایسے غلط کام سے نہیں روکا۔ بہرحال یہ آئندہ سے آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ نے مجھ پر کھل کر تنقید کرنی ہے تاکہ میں اگر غلطی پر ہوں تو اپنی اصلاح کرسکوں۔ میں آپ کی یقین دلا دوں کہ میں تنقید پر برا ماننے والوں میں سے نہیں ہوں۔ ان شاء اللہ

شاہد نزیر بھائی،جس نے بھی آپ کو میرے خلاف بھڑکایا ہےچاہے وہ مرد ہے یا عورت اسے جا کر کہہ دیں کہ آپ سے میری محبت کسی دنیاوی مفاد یا وقتی فائدے کے لیے نہیں بلکہ یہ محبت اللہ کے لیے ہے جو ہر صحیح العقیدہ شخص سے مجھے ہے،جو ان کی اس بلاوجہ تنقید سے ختم نہیں ہو جائے گی۔ان شاءاللہ
دیکھیں میں نے وضاحت کردی ہے اس لئے اب ایسی بدگمانی صحیح نہیں۔

میں نے آوارہ بولنے کی عادت کو کسی کے ساتھ خاص نہیں کیا،یا اگر ایسی بات ہوتی یا یہ مذاق غلط ہوتا تو شاکر بھائی ضرور میری اصلاح کر دیتے،
یہ تو مجھے آج آپ کی زبانی معلوم ہوا کہ اپنے محترم شاکر بھائی صحیح اور غلط جاننے کی کسوٹی ہیں اور کسی بات پر ان کی خاموشی اس بات کے صحیح ہونے کی دلیل ہے۔ آج سے ہم بھی اپنی تحریریں شاکر بھائی کی خدمت میں پیش کرکے صحیح اور غلط ہونے کا فیصلہ کروالینگے۔ ہاں یاد آیا میری جس پوسٹ کا آپ نے برا منایا ہے اس پر بھی تو شاکر بھائی نے خاموشی اختیار کی ہے اور مجھے کوئی تنبیہ نہیں کی۔ کہیں بشری تقاضے کے تحت ان سے کوئی غلطی تو نہیں ہوگئی؟؟؟

اسی تھریڈ کی ایک پوسٹ پر شاکر بھائی نے اعتراض کیا جو مذاق پر مبنی تھی تو میں نے فورا ہی اسے ڈیلیٹ کر دیا،لیکن وہ اعتراض پی ایم میسج میں کیا گیا تھا اوپن فارم نہیں۔جزاک اللہ خیرا
ہم میں اور شاکر بھائی میں بہت فرق ہے۔ ہماری تحریریں اکثر آگ برسا رہی ہوتی ہیں اور شاکر بھائی اپنی تحریروں سے پھول نچھاور کررہے ہوتے ہیں۔ چلیں کوشش کرونگا کہ شاکر بھائی کی اندھی تقلید کرسکوں۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top