یہ ہے وہ بات جس کے لئے آپ کو الزامی سوالات کی زحمت دی گئی تھی۔ میرے بھائی، درج بالا سطور میں آپ نے اہل حدیث ہی کا موقف پیش کیا ہے۔ ماسوائے اس کے کہ اہل حدیث کے نزدیک بلا دلیل کسی کی بات ماننے کے بجائے دلیل طلب تو ضرور کرے اور سمجھنے کی کوشش کرتا رہے۔ نیز عامی کا اجتہاد یہی ہے کہ وہ درست یا متبع سنت عالم تک اپروچ کرے۔اور کسی ایک عالم کو خاص نہ کر لے کہ ہمیشہ اسی سے مسئلہ پوچھے اور بلا دلیل اس کی بات مانتا رہے۔جبکہ حنفی عالم ایسے خیرو کو اردو عربی پڑھ کر دلیل تک پہنچنے کا تو خیر نہیں کہیں گے۔ کیونکہ مقلدین کے لئے تو امام کا قول ہی دلیل ہوتی ہے۔ اگر کوئی سائل مفتی سے مسئلہ پوچھتے وقت یہ کہہ دے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیا جائے تو دیوبندی عالم اسے قاعدہ سے ناواقف کہہ کر چپ کروا دیتے ہیں۔ واللہ اعلم!
دلیل مانگنا اوردلیل سمجھنے کی کوشش کرتے رہناپتہ نہیں آنجناب نے کہاں سے اخذ کیاہے۔براہ کرم اس کی بھی دلیل بیان کردیں۔ایساکیوں نہ کریں کہ ہم اورآپ مصنف ابن ابی شیبہ اورمصنف عبدالرزاق اوردیگر کتب آثار کاجائزہ لیں کہ سائل کے سوال کے جواب میں اکابر تابعین بلکہ خود حضرات صحابہ نے کس حدتک قران وحدیث سے جواب دیااورکتنے جوابات اپنی رائے سے دیا اورکتنے سائلوں نے دلیل طلب کی اورکتنے سائلوں کو حضرات صحابہ وتابعین نے دلیل سمجھنے اورمانگنے کی تاکید کی۔ امید ہے کہ میری اس گزارش کا مثبت جواب دیں گے۔
تحریر کر دی ہیں۔ تقلید کی تعریف ہی میں یہ بات شامل ہے کہ عامی کا مفتی سے مسئلہ پوچھنا اورقاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا ہرگز تقلید نہیں۔
”التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین“ الخ
تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں“۔ الخ
(مسلم الثبوت ص٢٨٩طبع ١٣١٦ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص٤٠٠)
اگر عامی کا مفتی سے مسئلہ پوچھنا اور مفتی کا بغیر دلیل اسے مسئلہ سمجھا دینا تقلید ہے تو میرے بھائی آج کے دور میں کوئی حنفی نہیں رہے گا۔ کوئی عثمانوی ہوگا، تو کوئی اوکاڑوی، کوئی صفدروی وغیرہ۔ امید ہے کہ اس عام فہم بات پر تو آپ بضد نہیں ہوں گے۔
میرے خیال میں اصل غلط فہمی کے شکار آپ ہیں۔ آپ کی اوردیگر حضرات کی ایک بنیادی غلط فہمی یہ ہے کہ العمل بقول القول من غیرحجۃ میں آپ بغیر حجۃ کاتعلق عمل سے جوڑدیتے ہیں جب کہ اس کا تعلق بقول الغیر سے ہے۔
اس کو اس طرح سمجھئے۔تقلید ایسے شخص کے قول پر عمل کرنے کانام ہے جس کاقول حجت شرعیہ میں سے نہ ہو ۔ایسے شخص نے جو مسئلہ بتایاہے اس پر دلیل ہے یانہیں اس سے یہ تعریف خاموش ہے لیکن مجتہد کہتے ہی اس کو ہیں جو دلائل شرعیہ کتاب وسنت اوراجماع وقیاس سے مسئلہ مستنبط کرے تواس کا تقاضایہ ہواکہ وہ جوبتائے گاوہ کتاب وسنت سے ہی مستفاد ہوگا۔
آپ لوگ پتہ نہیں کس بزرگ سے عربی زبان کی تعلیم حاصل کی ہے جس کی وجہ سے آپ العمل بقول الغیر من غیرحجۃ میں بغیر حجۃ کا تعلق عمل سے جوڑدیتے ہیں جب کہ اس کا تعلق بقول الغیر سے ہے۔اگرمیری بات پر اعتماد نہ ہوتواپنے بزرگوں سے دریافت کیجئے گا۔
آپ نے مسلم الثبوت اورفواتح الرحموت کا حوالہ دیاآنجناب کا شکریہ۔ فواتح الرحموت کی پوری عبارت اوراس مسئلہ کی پوری تفصیل جومیں نے ایک پوسٹ میں قبل ازیں ایک صاحب کے جواب میں لکھاہے آپ کی خدمت میں پیش ہے۔
سب سے پہلا قابل ذکر حوالہ مضمون نگار نے مسلم الثبوت اوراس کی شرح فواتح الرحموت کا دیاہے۔جب کہ عبارت انہوں نے صرف مسلم الثبوت سے لیاہے اورحوالہ دونوں کادیاہے۔میرے خیال سے ایسالگتاہے کہ ان کے پاس مسلم الثبوت نہیں رہی ہوگی تو فواتح الرحموت سے عبارت لی ہوگی ۔اب ہم دیکھتے ہیں کہ مسلم الثبوت اورفواتح الرحموت دونوں کی عبارت کیاہے اورمتن کی شرح کیاہے۔
فصل * التقليد العمل بقول الغير من غير حجة) متعلق بالعمل والمارد بالحجة من الحج الأربع وإلا فقول المجتهد دليله وحجته (كأخذ العامي) من المجتهد (و) أخذ (المجتهد من مثله فالرجوع إلى النبي عليه) وآله وأصحابه (الصلاة والسلام أو إلى الاجماع ليس منه) فانه رجوع إلى الدليل (وكذا) رجوع (العامي إلى المفتي والقاضي إلى العدول) ليس هذا الرجوع نفسه تقليدا وإن كان العمل بما اخذوا بعده تقليدا (لا يجاف النص ذلك عليهما) فهو عمل حجه لا بقول الغير فقط (لكن العرف) دل (على أن العامي مقلد للمجتهد) بالرجوع إليه (قال الإمام) إمام الحرمين (وعليه معظم الاصوليين وهو المشتهر المعتمد عليهیہ توآپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ بریکٹ میں جوعبارت ہے وہ مسلم الثبوت کی ہے اوراس کے بعد جوعبارت ہے وہ ملانظام الدین لکھنوی کی ہے۔ہمارے مضمون نگار ہمیں جو سمجھاناچاہ رہے ہیں کہ عامی کا مفتی کی جانب رجوع کرنا تقلید نہیں ہے دیکھئے اس کے بارے میں شارح نے کیاشرح کی ہے۔
میں نے اس خط کشیدہ جملہ کو ملون کردیاہے تاکہ بات بآسانی سمجھ میں آسکے۔
شارح کہتے ہیں کہ عامی کا اہل علم اورمفتی سے رجوع کرنا فی نفسہ تقلید نہیں ہے لیکن اس کے بعد جو ہوگا یعنی مفتی یااہل علم کی بتائی بات پر عامی عمل کرے گا وہ تقلید ہے۔یہ بہت اہم بات ہے جسے سمجھنے کی ضرورت ہے۔ایک ہے عامی کا اہل علم یامفتی کی جانب رجوع کرنا ۔اتنانص سے ثابت ہے دوسراہے اس کی بات کو بلادلیل قبول کرلینا۔یہ جودوسراشق ہے وہ تقلید میں شامل ہے۔لیکن ہمارے مہربان اس کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔
اس کے بعد آتے ہیں انہوں نے پہلے ابن ہما م کی پیش کردہ تقلید کی تعریف ذکر کی جس میں یہ موجود ہے کہ عامی کا اہل علم کی جانب رجوع کرنا تقلید نہیں۔اس کے بعد وہ لکھتے ہیں۔
نوٹ : بلکل یہی تعریف ابنِ امیر الحجاج الحنفی نے کتاب التقریروالتحبیرفی علم الاصول ج ۳ص ۳۵۴،۴۵۴ اور قاضی محمد اعلیٰ تھانوی حنفی نے کشاف الاصطلاحات الفنون ج ۲ص۸۷۱۱ میں بیان کی ہے کہ نبی علیہ الصلاةوالسلام اور اجما ع کی طرف رجو ع کرنا تقلید نہیں (کیونکہ اسے دلیل نے واجب کیا ہے
دوسرے حوالہ جات کوچھوڑ ہم صرف ابن امیر الحاج کی بات کرتے ہیں کہ مضمون نگار نے ان کی بات کہاں تک سمجھی ہے اورسمجھنے میں کس ناسمجھی کا مظاہرہ کیاہے۔
ابن امیر الحاج ابن ہمام کے اس قول کی شرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اوراجماع کی جانب رجوع کرنا تقلید نہیں ۔اس میں وہ یہ بات لکھ کر کہ عامی کا مفتی سے رجوع کرنا اورقاضی کا گواہوں سے تقلید میں شامل نہیں ہے وہ کہتے ہیں
اس بناء پر تقلید کا تصور ہی محال ہے نہ اصول میں نہ فروع میں کہیں بھی تقلید نہیں پائی جائے گی کیونکہ یاتوآدمی مجتہد ہوگا تو وہ خود سے اجتہاد کرے گایااگر اجتہاد کی صلاحیت نہیں ہے تو مجتہد کے قول کی جانب رجوع کرے گا توجیسے عامی کا اہل علم کی جانب رجوع کرنا تقلید نہیں توکسی کامجتہد کی جانب رجوع کرناتقلید میں کیسے شامل ہوگا ۔وہ کہتے ہیں
بل على هذا لا يتصور تقليد في الشرع لا في الأصول ولا في الفروع فإن حاصله اتباع من لم يقم حجة باعتباره، وهذا لا يوجد في الشرع فإن المكلف إما مجتهد فمتبع لما قام عنده بحجة شرعية، وإما مقلد فقول المجتهد حجة في حقه فإن الله - تعالى - أوجب العمل عليه به كما أوجب على المجتهد بالاجتهاد(التقریر والتحبیرلابن امیرالحاج 195)
بلکہ اس پر اصول اورفروع کا تقلید کاتصور ہی نہیں کیاجاسکتاہے(یعنی اگر یہ مان لیاجائے کہ عامی کا مفتی کی جانب رجوع کرنا تقلید نہیں ہے)کیونکہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تقلید ایسی بات کے ماننے کا نام ہوگا جس پر کسی جہت سے دلیل نہ ہواوریہ شرع میں نہیں پایاجاتاہے مکلف یاتومجتہد ہوگا اس صورت میں وہ شرعی دلائل کے تابع ہوگا یامقلد ہوگا تومجتہد کا قول اس کیلئے دلیل ہوگا کیونکہ اللہ تعالیٰ اس پر(مقلدین)مجتہد کے قول کے مطابق عمل کرنے کوواجب کیاہے جیساکہ مجتہد پر اپنے اجتہاد پر عمل کرنے کو واجب کیاہے ۔
ابن امیر الحاج کی یہ بات بہت قابل قدر اورآب زر سے لکھنے کے قابل ہے ان کی اس بات نے ہمارے مضمون نگار کے وہ جملے جو انہوں نے مقلدین کے حق میں برستے اورگرجتے ہوئے لکھاتھا اس کے سارے بخیے ادھیڑ دیئے ہیں۔
چونکہ یہ بات بڑی اہم ہے اس لئے اس کی مزید تشریح کرنا چاہوں گا۔
اگر اہل علم سے یامفتی سے سوال کرنا تقلید نہیں ہے تو پھر دنیا میں کہیں بھی تقلید کاوجود نہیں رہے گا۔کیونکہ جس طرح ایک عام آدمی کسی مفتی سے جاکر کوئی مسئلہ پوچھ لے (بیشتر لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں )تووہ دائرہ تقلید سے خارج ہوگئے۔ اسی طرح کچھ لوگ اگر اس بارے میں امام ابوحنیفہ کی رائے کتابوں میں تلاش کریں اوراس پرعمل کریں تو وہ بھی اس دائرہ سے خارج ہوں گے کیونکہ امام ابوحنیفہ کی فقہی مقام ومرتبہ مجتہد کاہے لہذا ان کی بات پر عمل کرنا مفتی کے بتلائے ہوئے مسئلہ پر عمل کرنے سے زیادہ بہتر ہے ۔قران وحدیث میں یہ کہیں بھی موجود نہیں کہ جو اہل علم انتقال کرچکے ہیں ان کے بتائے ہوئے مسائل کی جانب رجوع نہ کیاجائے بلکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا توارشاد ہے کہ اگر تم پیروی اوراقتداء کرناہی چاہتے تو ان کی کرو جواس دنیاسے رخصت ہوچکے ہیں کیونکہ زندہ لوگوں کی حالت آئندہ کیاہوگی نہیں کہاجاسکتا۔
اب درج بالا تقلید کی تعریف کے تحت مفتی سے سائل کا مسئلہ پوچھنا تقلید کی تعریف کے تحت آتا ہی نہیں۔ اور آپ ہمارے کسی بھی عالم کی تقلید کے موضوع پر کتاب اٹھا کر دیکھ لیں ہر جگہ آپ کو یہ وضاحت ضرور ملے گی کہ عامی کا مفتی کی طرف رجوع تقلید ہی نہیں ہے لہٰذا اس کی مخالفت نہ ہم کرتے ہیں۔ نہ اس کی مخالفت کتاب و سنت سے ثابت ہے بلکہ نہ جاننے والوں کو اہل علم کی طرف رجوع کا حق تو قرآن سے ثابت ہے۔ کچھ مزید وضاحت علوی بھائی نے یہاں کر رکھی ہے۔ ضرور مطالعہ فرمائیں۔
اس کی وضاحت ماقبل میں ہوچکی ہے کہ عامی کامفتی اورمجتہد کی جانب رجوع کرناتقلید ہے یانہیں ۔