بھائی سب سے پہلے تو یہ بات کہ یہ فورم ایک منہج کی ترویج کے لئیے بنا ہے جو اہل الحدیث کے منہج سے موسوم ہے ۔ اگر کوئی تحقیق کرنے والا اس فورم پر آکر اس منہج کے بارے میں سوال کرے اور جواب میں دلائل سے جواب نہ آئے بلکہ الٹے سوالات اور الزامات ائیں تو سائل یہ سمجھے گا شاید ان کے پاس اپنے منہج پر اعتراضات کے جواب نہیں ۔ بہر جال آپ الٹا مجھ سے جواب مانگ رہے تو اپنی ناقص علم کے مطابق جواب دیتا ہوں
بھائی معذرت کہ آپ کی توقع پوری نہ ہو پائی۔ لیکن الزامی جوابات کا تعلق بھی وضاحت ہی سے تھا نہ کہ بس الزام در الزام لگانا۔ آپ دیکھئے گا کہ آپ ہی کے جوابات سے آپ کے پیش کردہ سوال کی وضاحت ہو جائے گی ان شاء اللہ۔
پہلی بات یہ تو کہیں نہیں کہ مقلد دلیل کی تحقیق نہیں کرے گا ۔ آپ سمجتے ہیں کہ مقلد تحقیق نہیں کرسکتا اور جو تحقیق کرے گا وہ مقلد نہیں رہے گا۔
جی بھائی ہم تو اب تک یہی سمجھتے آئے ہیں۔ کہ مقلد عالم نہیں ہوتا اور مقلد دلیل میں نظر نہیں کرتا اور مقلد کے لئے اس کے امام کا قول ہی دلیل ہوتی ہے۔ وغیرہ۔ آپ کو اس بات سے اختلاف ہے؟ جبکہ امام ابنِ قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”اجمع الناس ان المقلد لیس معدوداً من اھل العلم وان العلم معرفة الحق بدلیلہ“ (اعلام الموقعین:۲۶۰۲)
علماءکا اس بات پر اجماع ہے کہ مقلد کا شمار علماءمیں نہیں ہوتاکیونکہ علم دلیل کے ساتھ معرفت ِحق کا نام ہے (جبکہ تقلید بغیر دلیل اقوال و آراءکو مان لینے کا نام ہے)۔
مکلف مسلمان دو طرح کے ہیں ،
ایک “مجتہد“ دوسرا “غیر مجتہد“ ،
“مجتہد “وہ ہے جس میں اس قدر علم لیاقت اور قابلیت ہوکہ قرآنی اشارات ورموز سمجھ سکے اور کلام کے مقصد کو پہچان سکے اس سے مسائل نکال سکے ،ناسخ و منسوخ کا پورا علم رکھتا ہو ، علم صرف و نحو بلاغت وغیرہ میں اس کو پوری مہارت حاصل ہو ، احکام کی تمام آیتوں اور احادیث پر اس کی نظر ہو وغیرہ ، جو کہ اس درجہ پر نہ پہنچا ہو وہ غیر مجتہد یا مقلد ہے- غیر مجتہد پر تقلید ضروری ہے مجتہد کے لیے تقلید منع ہے ،
مجتہد کے چھ طبقے ہیں
1۔ مجتہد فی الشرع
2۔مجتہد فی المذہب
3۔ مجتہد فی المسائل
4۔اصحاب التخریف
5 ۔اصحاب الترجیح
6۔اصحاب التمیز
اس کے تحت آپ نے جو تشریح کاپی پیسٹ کی ہے وہ کم سے کم اس موضوع میں تو مفید نہیں۔ کیونکہ اس تقریر میں تو آپ نے مجتہدین کی اقسام اور ان کا مقام بیان کیا ہے۔ اور اس تفصیل کے بعد آپ نے لکھا ہے:
اکثر مساحد میں حنفی امام صاحب عالم ہوتے وہ قرآن و حدیث سے دلائل دینے کے باوجود حنفی رہیں گے۔ اور ان لئیے دلائل دینا ان کو حنفیت اور تقلید سے خارج نہیں کرے گا۔ تفصیل اوپر آگئی
کیا آپ واقعی سمجھتے ہیں کہ اکثر مساجد میں حنفی امام صاحب درج بالا مجتہدین کی چھ کیٹگریز میں سے کسی کیٹگری میں آتے ہیں؟ آپ نے جو تشریح کی ہے اس کی روشنی میں تو یہ حنفی امام کسی بھی کیٹگری میں نہیں آتے۔
ہم پہلے عرض کر چکے ہیں کہ مجتہد کو تقلید کرنا حرام ہے۔ تو ان چھ طبقوں میں جو صاحب ہیں جس درجہ کے مجتہد ہوں گے۔ وہ اس درجہ سے کسی کی تقلید نہ کریں گے۔ اور اس سے اوپر والے درجہ میں مقلد ہوں گے
تو اکثر مساجد کے حنفی امام کس درجے والے مجتہد ہیں اگر آپ اس کی بھی وضاحت کر دیں تو ہمیں سمجھنے میں کافی مدد ملے گی۔ ورنہ حنفی امام کا کتاب و سنت کے دلائل سے جواب دینا تو بہرحال غلط ماننا ہوگا یا یہ مانیں کہ ایک عام مقلد جو کہ درس نظامی کا فارغ شدہ بھی نہ ہو، اسے بھی کتاب و سنت کے دلائل دینے اور سمجھنے کا حق حاصل ہے؟؟
خیرو پہلے اردو سیکھے گا اور پھر عربی سیکھ کر اصل کتب میں دیکھ کر حق تک پہنچے گا ۔ اصل سوال یہ ہے کہ تب تک کیا کرے گا۔ ہم احناف کہتے ہیں کہ اس کو اگر اہل حدیث عالم کی بات صحیح لگتی ہے اور ان پر اس کو اعتماد ہے تو بلا دلیل ان کی بات مان لے اور اگر حنفی عالم پر اعتماد ہے تو ان کی بات مان لے اور جب خود تحقیق کے قابل ہو تو اپنی تحقیق کے مطابق چلے
یہ ہے وہ بات جس کے لئے آپ کو الزامی سوالات کی زحمت دی گئی تھی۔ میرے بھائی، درج بالا سطور میں آپ نے اہل حدیث ہی کا موقف پیش کیا ہے۔ ماسوائے اس کے کہ اہل حدیث کے نزدیک بلا دلیل کسی کی بات ماننے کے بجائے دلیل طلب تو ضرور کرے اور سمجھنے کی کوشش کرتا رہے۔ نیز عامی کا اجتہاد یہی ہے کہ وہ درست یا متبع سنت عالم تک اپروچ کرے۔اور کسی ایک عالم کو خاص نہ کر لے کہ ہمیشہ اسی سے مسئلہ پوچھے اور بلا دلیل اس کی بات مانتا رہے۔
جبکہ حنفی عالم ایسے خیرو کو اردو عربی پڑھ کر دلیل تک پہنچنے کا تو خیر نہیں کہیں گے۔ کیونکہ مقلدین کے لئے تو امام کا قول ہی دلیل ہوتی ہے۔ اگر کوئی سائل مفتی سے مسئلہ پوچھتے وقت یہ کہہ دے کہ قرآن و حدیث کی روشنی میں جواب دیا جائے تو دیوبندی عالم اسے قاعدہ سے ناواقف کہہ کر چپ کروا دیتے ہیں۔ واللہ اعلم!
اس عرصہ میں جو اسکو تعلیم میں لگ سکتے ہیں وہ جس عالم پر اعتماد ہو اس کی بات بلا دلیل مانے ۔ (اور یہ تقلید ہے ) ہم تو ایک عام مسلمان کے لئیے تقلید کے قائل ہیں ۔ آپ تو تقلید کو گمراہی اور کیا کچھ کہتے ہیں تو آپ کے منہج کے مطابق خیرو کو کیا کرنا چاہئیے ۔ بلا دلیل بات تو وہ مان کر چل نہیں سکتا ۔ اصل سوال میرا یہی ہے ۔
آپ کے اس اصل سوال کا جواب اس غلط فہمی میں پنہاں ہے کہ جو آپ نے بعد میں ذکر کی کہ:
تقلید کی تعریف کے مطابق کسی امتی کی بات کو بغیر دلیل ماننا تقلید ہے
یہاں بھی اگر عامی اگر مفتی سے مسئلہ پوچھے اور مفتی بغیر دلیل کے اسے مسئلہ سمجھا دے تو یہ بھی تقلید ہوگی ہے ۔
میرے بھائی یہاں آپ زبردست لاعلمی کا شکار ہیں یا یقیناً کسی غلط فہمی سے آپ نے درج بالا سطور تحریر کر دی ہیں۔ تقلید کی تعریف ہی میں یہ بات شامل ہے کہ عامی کا مفتی سے مسئلہ پوچھنا اورقاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا ہرگز تقلید نہیں۔
”التقلید: العمل بقول الغیرمن غیر حجةکا خذ العامی والمجتھد من مثلہ، فا لرجوع الی النبی علیہ الصلاٰة والسلام او الی ا الجماع لیس منہ و کذا العامی الی المفتی والقاضی الی العدول لا یجاب النص ذلک علیھما لکن العرف علی ان العامی مقلد للمجتھد، قال الامام: وعلیہ معضم الاصولین“ الخ
تقلید کسی دوسرے کے قول پر بغیر (قرآن و حدیث کی) دلیل کے عمل کو کہتے ہیں۔جیسے عامی (کم علم شخص) اپنے جیسے عامی اور مجتھدکسی دوسرے مجتھد کا قول لے لے۔پس نبی علیہ الصلاة اولسلام اور اجماع کی طرف رجوع کرنا اس (تقلید) میں سے نہیں۔ اور اسی طرح عامی کا مفتی کی طرف رجوع کرنا اور قاضی کا گواہوں کی طرف رجوع کرنا(تقلید نہیں) کیونکہ اسے نص (دلیل) نے واجب کیا ہے لیکن عرف یہ ہے کہ عامی مجتہد کا مقلد ہے۔امام (امام الحرمین الشافعی) نے کہا کہ” اور اسی تعریف پر علمِ اصول کے عام علماء(متفق)ہیں“۔ الخ
(مسلم الثبوت ص٢٨٩طبع ١٣١٦ھ وفواتح الر حموت ج۲ ص٤٠٠)
اگر عامی کا مفتی سے مسئلہ پوچھنا اور مفتی کا بغیر دلیل اسے مسئلہ سمجھا دینا تقلید ہے تو میرے بھائی آج کے دور میں کوئی حنفی نہیں رہے گا۔ کوئی عثمانوی ہوگا، تو کوئی اوکاڑوی، کوئی صفدروی وغیرہ۔ امید ہے کہ اس عام فہم بات پر تو آپ بضد نہیں ہوں گے۔
اب دوبارہ آتے ہیں آپ کے اصل سوال کی طرف:
اس عرصہ میں جو اسکو تعلیم میں لگ سکتے ہیں وہ جس عالم پر اعتماد ہو اس کی بات بلا دلیل مانے ۔ (اور یہ تقلید ہے ) ہم تو ایک عام مسلمان کے لئیے تقلید کے قائل ہیں ۔ آپ تو تقلید کو گمراہی اور کیا کچھ کہتے ہیں تو آپ کے منہج کے مطابق خیرو کو کیا کرنا چاہئیے ۔ بلا دلیل بات تو وہ مان کر چل نہیں سکتا ۔ اصل سوال میرا یہی ہے ۔
اب درج بالا تقلید کی تعریف کے تحت مفتی سے سائل کا مسئلہ پوچھنا تقلید کی تعریف کے تحت آتا ہی نہیں۔ اور آپ ہمارے کسی بھی عالم کی تقلید کے موضوع پر کتاب اٹھا کر دیکھ لیں ہر جگہ آپ کو یہ وضاحت ضرور ملے گی کہ عامی کا مفتی کی طرف رجوع تقلید ہی نہیں ہے لہٰذا اس کی مخالفت نہ ہم کرتے ہیں۔ نہ اس کی مخالفت کتاب و سنت سے ثابت ہے بلکہ نہ جاننے والوں کو اہل علم کی طرف رجوع کا حق تو قرآن سے ثابت ہے۔ کچھ مزید وضاحت علوی بھائی نے
یہاں کر رکھی ہے۔ ضرور مطالعہ فرمائیں۔
اب اس بات چیت کا دوسرا رخ بھی آپ کے الفاظ میں ملاحظہ کریں:
اگر عامی دلیل سمجھ کر مفتی کی بات مانے تو اتباع ہوگی ۔
اگر کبھی دلیل پائے کہ مفتی صاحب کا فتوی قرآن و حدیث کے خلاف ہے بھر بھی مفتی صاحب کے فتوی سے چمٹا رہے تو یہ اندھی تقلید ہے
آپ کی اس بات سے ایک تو یہ ثابت ہوا کہ تقلید اور اتباع میں فرق بہرحال ہے اور یہ فرق دلیل جاننے کا ہے۔ دوسرا یہ کہ دلیل پا لینے کے بعد کسی مفتی ( یا ہمارے اہل حدیث کے منہج میں کسی بھی بڑے سے بڑے امام، مجتہد) کے فتویٰ کے خلاف دلیل مل جائے تو پھر فوراً دلیل پر عمل کرنا چاہئے نہ کہ مفتی کے فتویٰ سے چمٹا رہے۔
ایک ضمنی بات تو یہ نوٹ کر لیں کہ آپ نے مثال پیش کی ہے ایسے شخص کی جو دلیل سمجھنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتا۔ لیکن کبار دیوبندی علماء کے نزدیک عام طور پر درست یہی ہے کہ مقلدین کو دلیل پوچھنی ہی نہیں چاہئے، بغیر اس بات میں تفریق کئے کہ وہ دلیل سمجھنے کی اہلیت رکھتا ہے یا نہیں۔ مثال عرض ہے:
ماہنامہ رسالہ تجلی ‘ جو دیو بند سے نکلتا ہے اس کی جلد نمبر 19 ‘ شمارہ نمبر ۱۱‘ ماہ جنوری فروری 1968ءصفحہ 47 میں اس کے ایڈیٹر مولانا عامر عثمانی فاضل دیو بند ایک مسئلہ کی بابت سوال کاجواب دینے کے بعد لکھتے ہیں ۔
”یہ تو جواب ہوا اب چند الفاظ اس فقرے کے بارے میں کہہ دیں جو آپ (سائل ) نے سوال کے اختتام پر سپر د قلم کیا ہے یعنی حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جواب دیں اس نوع کا مطالبہ اکثر سائلین کرتے رہتے ہیں ۔ یہ دراصل اس قاعدے سے ناواقفیت کا نتیجہ ہے کہ مقلدین کے لئے حدیث و قرآن کے حوالوں کی ضرورت نہیں بلکہ ائمہ و فقہاءکے فیصلوں اور فتوؤں کی ضرورت ہے “۔
اور جس کو آپ اندھی تقلید کہہ کر بیزاری کا اظہار کر رہے ہیں۔ یقین مانیں اہلحدیث بھی اسی اندھی تقلید سے بیزاری ظاہر کرتے ہیں۔ اندھی تقلید کی فوری طور پر صرف ایک مثال حاضر ہے۔ آپ صرف یہ بتا دیں کہ کیا یہ اندھی تقلید ہے یا نہیں؟ ازراہ کرم انصاف، خوف خدا اور آخرت میں جواب دہی کے تصور کو ذہن میں رکھئے گا۔ ہم اس پر آپ سے بحث کریں گے ہی نہیں۔
محمود الحسن دیوبندی فرماتے ہیں:
والحق والانصاف ان الترجیح للشافعی فی ھذہ المسالۃ ونحن مقلدون یجب علینا تقلید امامنا ابی حنیفۃ۔ کہ حق اور انصاف یہ ہے کہ خیار مجلس کے مسئلہ میں امام شافعی کو ترجیح حاصل ہے لیکن ہم مقلد ہیں ہم پر امام ابوحنیفہ کی تقلید واجب ہے۔
(تقریر ترمذی، جلد 1، صفحہ 49)
فیصلہ آپ خود کرلیں کہ حق و انصاف پر واقف ہو جانے کے باوجود امام کی تقلید کے وجوب کو واحد دلیل کے طور پر مانتے ہوئے مخالف بات پر عمل پیرا ہو جانا اندھی تقلید ہے یا نہیں؟ اور آپ تو یہ کہہ رہے ہیں کہ عام مقلد بھی تحقیق کے بعد دلیل سے واقف ہو تو اپنی تحقیق پر عمل کرے۔! دوسری طرف ایک عالم ہیں۔ کس کی بات مانیں!
آخر میں امید کرتا ہوں کہ اس بار مجھے دلائل سے جواب ملے گا اور الزامی سوالات نہیں ہوں گے ۔ کیوں کہ میں کچھ امور کی تحقیق کے لئیے وقتی طور پر اس فورم پر آیا ہوں ۔ دفاع حنفیت کے لئیے نہیں ۔
میں بھی امید کرتا ہوں کہ بالا سطور میں آپ کو جواب مل گیا ہوگا۔ مختصراً پھر عرض کر دیتا ہوں کہ:
جاہل کے لیئے تقلید کے عدم جواز کا یہ مطلب نہیں کہ وہ مجتہد اور عالم بن جائے یا خود مسائل کو حل کرنا شروع کر دے کیونکہ اللہ نے ہر ایک کو اس کا مکلف نہیں ٹھرایا۔ ہمارا موقف یہ ہے کہ آج کا جاہل یعنی عامی طبقہ سلف صالحین یعنی صحابہ کرام، تابعین اور تبع تابعین کے نقش قدم پر اپنی زندگی گزارنے کی حتی الامکان کوشش کرے کیونکہ ان میں بھی عامی طبقہ موجود تھا جس کا ہمیشہ یہ طریقہ رہا ہے کہ اپنے متبعین حق علماء کے پاس تصفیہ طلب مسائل لیکر جاتے اور متعلقہ مسئلے کے بارے میں قرآن و حدیث کا حکم معلوم کرتے۔اور علماء صرف کتاب و سنت کی روشنی میں حل پیش کرتے جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ عامی طبقہ کتاب و سنت پر عمل پیرا ہو جاتا اور علماء مبلغ کی حیثیت سے اپنا فریضہ انجام دیتے۔ بالکل ایسے ہی جیسے مقلد عامی ، اپنے مفتی کے پاس جا کر مسئلہ حل کرواتا ہے اور فقہ حنفی کا حکم معلوم کر لیتا ہے لیکن پھر بھی مفتی کا مقلد نہیں بنتا بلکہ حنفی ہی رہتا ہے۔ لہٰذا عامی اہلحدیث بھی کتاب و سنت کا متبع ہی رہے گا نہ کہ مفتی کا مقلد بن جائے گا۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ عامی طبقہ دلائل سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے تو یہ بات غلط ہے کیونکہ عقل اور ایمان کی دولت ایک عام شخص کے پاس بھی ہوتی ہے اور مومن کا سینہ حق و باطل میں تمیز کرنے والے نور سے منور ہوتا ہے۔ اپنی عقل اور ایمانی بصیرت کی روشنی میں عامی طبقہ بھی دلائل کو سمجھ سکتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ دل و دماغ اور نیت میں بغض و عناد کا شائبہ تک نہ ہو۔ اس کو عمل بروایت کہتے ہیں نہ کہ عمل بالرأی۔ یعنی راوی کی روایت پر عمل ہوتا ہے نہ کہ اس کی رائے پر۔ یہی سب باتیں امام شوکانی نے القول المفید:۲۷، امام ابن قیم نے کتاب الروح:۲۵۶ اور امام شاطبی نے کتاب الاعتصام:۳۴۵-۳۴۲ میں کہیں ہیں ۔ اور الزامی جواب یہ بھی ہے کہ جیسے ایک عامی غیر مسلم ان پڑھ دیہاتی، فرض کریں عیسائی ، جسے عربی یا عبرانی کا ایک لفظ پڑھنا نہ آتا ہو، وہ بھی اگر غیر متعصب ہو کر دل سے حق کی تلاش کرنا چاہے تو کی اسلام کی روشنی نہ پالے گا؟
آپ ہمارے بھائی ہیں ہم کبھی نہیں چاہیں گے کہ آپ ’وقتی طور پر‘ یہاں رہیں اورپھر چلے جائیں۔ آپ سے بات چیت سے کافی کچھ سیکھنے کو ملتا ہے۔ بات منوانا نہ آپ کا مقصد ہے نہ ہمارا۔ بلکہ ایک دوسرے کا موقف درست طور پر پہچاننا اور اس کا احترام کرنا چاہئے۔ اور حق بات کو واضح کرتے رہنا چاہئے۔
آخر میں عرض ہے کہ اس مقالہ
‘کیا ائمہ اربعہ صفات الٰہیہ میں مفوضہ ہیں‘ کا بھی مطالعہ کرلیں۔