۔ایک بات تو یہ طے ہے کہ ہر مسئلہ میں ایسا نہیں ہوتا ہے کہ دلیل عامی کی سمجھ میں نہ آئے بلکہ قرآن وسنت کے اکثر مسائل میں دلیل بالکل واضح اور دوٹوک ہوتی ہے جو ہر کسی کو سمجھ میں آتی ہے یعنی بس کتاب اللہ کی آیت یا حدیث کا مخاطب کی زبان میں آسان فہم ترجمہ پیش کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
٢۔ہاں بعض مسائل میں یہ بات درست ہے کہ کچھ چیزیں سائل کو سمجھانی مشکل ہوں لیکن یہ جو چیزیں سمجھانی مشکل ہوں گی وہ دلیل نہیں بلکہ اس کے ثبوت یا تفہیم سے متعلقہ مصطلحات ہوں گی۔پس
ایک عام مسلمان بعض دلائل کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے وہ جرح مفسر ، تصحیح مبہم وغیرہ یا قطع الدلالہ و ظنی الدلالہ وغیرہ کی اصطلاحات سے نا واقف ہوتا ہے بلکہ کئی دفعہ تو اگر ان اصطلاحات کا مفہوم بھی بتایا جائے تو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے
میرے بھائی!یہ دلیل نہیں بلکہ دلیل یعنی کتاب وسنت کو سمجھنے کے لیے اہل علم کی مدون کردہ مصطلحات ہیں۔ ان اصطلاحات کے جاننے اور نہ جاننے سے کوئی فرق نہیں پڑتا مثلا اگر کسی مسئلہ کی دلیل قیاس ہے تو اب آپ عامی کو یہ تھوڑا بتلائیں گے کہ اس کی دلیل قیاس ہے بلکہ آپ اس عامی کو مقیس علیہ بھی بطور دلیل بیان کر سکتے ہیں اور قیاس کا سادہ سا خلاصہ بھی بیان کر سکتے ہیں۔مثلا کوئی شخص کسی عالم دین سے چرس کے بارے سوال کرتا ہے کہ وہ حلال ہے یا حرام؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ حرام ہے۔ اب وہ سوال کرتا ہے کہ اس کی دلیل کیا ہے؟ تو اس کا ایک تو جواب ہے کہ قیاس ہے جسے شاید وہ نہ سمجھ سکے اور ایک جواب یہ ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں شراب کو حرام کیا ہے اور اس کی حرمت کی وجہ نشہ ہے اور چرس میں بھی نشہ ہوتا ہے لہذا حرام ہے۔ میرے خیال میں بات سمجھانی کوئی مشکل تو نہیں ہے۔
اوپر آپ نے صرف اصطلاحات نقل کی ہیں۔ انہیں کسی سوال میں استعمال کریں تو میں یہ وضاحت کر دوں گا کہ آپ اس سوال کا جواب ایک عامی کو کیسے عامیانہ انداز میں دلیل کو بیان کرتے ہوئے نقل کریں گے۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ عالم کا کام ہی یہی ہے کہ وہ عامی کو دلیل آسان فہم انداز میں سمجھائے۔ عالم اگر کتاب اللہ کی آیت یا حدیث نقل کرے تو ظاہری بات ہے کہ عامی اس کا ترجمہ نہیں جانتا ہے لہذا عالم کے ذریعہ ہی سے وہ اس دلیل کو سمجھے گا۔ پس عالم دلیل بتلانے اور اسے سمجھانے کا ذریعہ ہے۔یہی تو کام اس نے کرنا ہے کہ مشکل اصطلاحات کو مخاطب کی ذہنی سطح کے مطابق بیان کرنا ہے تا کہ اس کا اطمینان ہو جائے کہ اس نے کتاب وسنت کی پیروی کی ہے۔
جہاں تک حدیث کی صحت وضعف کا معاملہ ہے تو ہر حدیث میں ماہرین فن کا اختلاف نہیں ہے۔ پس اگر کسی حدیث میں ماہرین فن یعنی محدثین کا اس کی صحت پر اتفاق ہو تو اس صحت کو قبول کیا جائے گا اور اگر کسی حدیث کی تضعیف میں ماہرین فن کا اتفاق ہو تو اس حدیث کو ضعیف قرار دیا جائے گا اور غیر ماہرین فن یعنی فقہاء کا قول اس بارے معتبر نہ ہو گا۔یعنی ہر فن میں اہل فن کا اجماع معتبر ہوگا۔ حدیث کی تصحیح و تضعیف میں اہل فن یعنی محدثین کا اجماع معتبر ہو گا اور کسی شرعی حکم یا فقہی مسائل میں فقہاء کا اجماع معتبر ہو گا۔
اور اگر کسی حدیث کی تصحیح وتضعیف میں اہل فن کا اختلاف ہو تو ایک عامی شخص اپنے معاصر ماہرین فن یعنی محدثین سے سوال کرے گا اور وہ اس کی ذہنی سطح کے مطابق اسے آسان فہم انداز اور اسلوب بیان میں راجح قول کی نشاندہی کر دیں گے۔مثلا اس روایت کی سند میں ایک راوی ہے جو جھوٹا ہے یا اس روایت کی سند میں ایک راوی ہے جس کے حالات زندگی کے بارے کچھ معلوم نہیں ہے یعنی مجہول کی آپ یوں وضاحت کریں یا قطعی الدلالہ کی یوں وضاحت کریں کہ اس آیت کا مفہوم اس کے علاوہ کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا ہے اور ظنی الدلالہ کا یہ مفہوم بیان کریں کہ اس آیت سے کئی معنی لیے جا سکتے ہیں وغیرہ ذلک۔جرح مفسر کو یوں بیان کر سکتے ہیں کہ فلاں محدثین نے اس راوی کا تفصیل سے پوسٹ مارٹم کیا ہے۔ تصحیح مبہم کے بارے کہہ سکتے ہیں کہ اس راوی کو فلاں محدثین صحیح تو کہا ہے لیکن انہوں نے اس کے بارے کوئی زیادہ تفصیل سے نہیں لکھا ہے وغیرذلک۔