- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
کبیرہ گناہ اور نواقض اسلام
تالیف
ڈاکٹر سید شفیق الرحمن
نظر ثانی
الشیخ اسد اللہ عثمان مدنی
عرض ناشر
تمام تعریفیں اس اللہ وحدہ لا شریک کے لیے ہیں جس نے اس امت کی ہدایت کے لیے اپنے نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی شریعت نازل فرمائی۔ جس میں اس امت کے لیے ہر قسم کی رہنمائی موجود ہے۔ پھر اس شریعت کی اطاعت کا حکم دیا۔ فرمایا:
قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ (آل عمران 32)
کہہ دیجئے تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ پھر اگر وہ منہ پھیر لیں تو بلا شبہ اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
یقینا وہ قوم ہلاک ہونے والی ہے جس کا خوشحال طبقہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی نافرمانی کرے اور دوسرے لوگ بھی ان کی پیروی شروع کر دیں یوں جب قوم میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی عام ہو جائے تو وہ عذاب کی مستحق بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا ﴿١٦﴾(بنی اسرائیل)
’’اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں۔ اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات ثابت ہو جاتی ہے پھر ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔‘‘
مذکورہ آیت سے یہ واضح ہے کہ تباہی و بربادی اور عذاب الٰہی لانے والے امور در اصل بندوں کے گناہ اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزیاں ہیں۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اگر ہم اللہ کی بڑی بڑی نافرمانیوں سے بچیں تو وہ چھوٹے چھوٹے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔
آج معاشرہ میں علانیہ گناہ کئے جا رہے ہیں، اہل ایمان کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو ان گناہوں کے کرنے سے روکیں، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو، اور اس کا مطلب غلط لیتے ہو:
عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ [المائدۃ105]
"تم اپنے نفسوں کو لازم پکڑو۔ تم کو وہ شخص نقصان نہیں پہنچا سکتا جو گمراہ ہے جب کہ تم ہدایت پر ہو"۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے، بے شک جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کو ظلم سے نہ روکیں، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب نازل فرما دے۔ ایک روایت میں ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کسی قوم میں جب گناہ کئے جاتے ہیں اور وہ ان کو گناہ سے روکنے پر قادر ہو پھر نہ روکیں، قریب ہے اللہ ان پر عذاب نال فرما دے‘‘۔ [ابوداؤد 4338]
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی قوم میں کوئی شخص گناہ کرتا ہے اور وہ قوم اس کو روکنے کی طاقت رکھتی ہے پھر اگر وہ اس کو نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے اس قوم کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ [ابو داؤد 4339]
ڈاکٹر سید شفیق الرحمن نے ان کبیرہ گناہوں کو جمع کیا ہے جن سے بچ کر ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار بن سکتے ہیں۔ شیخ اسد اللہ عثمان حفظہ اللہ فاضل مدینہ یونیورسٹی نے اس پر نظر ثانی فرمائی۔ منبر التوحید و السنہ اللہ کی رضا کی خاطر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کے تحت ان کو شائع کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
آپ کا دینی بھائی
عبدالسلام زیدی
ابتدائیہ
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین۔
آج مسلمان ہر مقام پر ذلیل و خوار ہیں۔ کل افغانستان میں مسلم نوجوانوں کے تڑپتے ہوئے لاشے تھے اور ماؤں بہنوں کی چیخ و پکار تھی۔ آج عراق اور فلسطین میں برستے ہوئے میزائل ہیں۔ سومنات کے پجاریوں کے پاؤں اللہ اکبر کی صداؤں سے گونجنے والی بابری مسجد کے گنبد پر اور ان کا خنجر بے بس مسلمانوں کی گردن پر ہے۔ آخر کیوں؟ کیوں خون مسلم اتنا ارزاں ہے؟ کیوں مسلمان بیٹیوں کی عزتیں تار تار ہو رہی ہیں؟
اللہ تعالیٰ اپنے کلام مقدس میں اعلان فرماتا ہے:
أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٢٢﴾ (المجادلہ)
’’خبردار بے شک اللہ کے لشکر والے ہی کامیاب ہو نگے۔‘‘
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٣٩﴾(آل عمران)
’’اور ہمت مت ہارو اور غم نہ کرو اگر تم ایمان والے ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔‘‘
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا (النور 55)
’’جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور عمل صالح کیے ان سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان کو ضرور ملک میں حکومت دے گا جیسے اس نے اگلے لوگوں کو ان سے پہلے حکومت دی تھی اور جس دین (اسلام) کو ان کے لیے پسند کیا ہے وہ ان کے لیے مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا اور ان کے ڈر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا۔‘‘
جنگ بدر میں مسلمانوں کا مقابلہ تین گناہ زیادہ طاقت سے تھا۔ مسلمان نہتے اور بے سر و سامان تھے جبکہ کافروں کے پاس اسلحے کی بھی فراوانی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتے نازل فرما دیئے۔ جنہوں نے کافروں کی گردنوں پر اور ان کے پور پور پر مارا۔
آج جو ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہیں ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ (الانفال 53)
’’یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہ بدل دیں۔‘‘
اس آیت پر غور فرمائیے کہ جب تک کوئی قوم کفران نعمت کا راستہ اختیار کر کے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات سے بغاوت کر کے اپنے حالات کو نہیں بدل لیتی اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں کا دروازہ بند نہیں فرماتا۔ یعنی گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں چھین لیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے حالات تفصیل سے قرآن حکیم میں بیان فرمائے ہیں۔ ان کی اخلاقی کمزوریوں، مذہبی غلط فہمیوں اور اعتقادی و عملی گمراہیوں کا ذکر کیا تاکہ مسلمان ان غلط راہوں سے بچ سکیں جن پر چل کر بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ہوئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خبردار کر چکے ہیں کہ امت مسلمہ میں بھی انہیں راستوں سے بگاڑ آئے گا جن سے یہود و نصاریٰ میں آیا تھا۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی آخرکار پچھلی امتوں ہی کی روش پر چلو گے حتیٰ کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہیں تو تم بھی اسی میں گھسو گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں، آپ نے فرمایا: اور کون؟ (بخاری۔ احادیث الانبیاء۔ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل۔ 3456 مسلم ۔العلم ۔باب اتباع سنن الیہود والنصاریٰ 2669)
ابو واقد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ضرور بالضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے راستے پر چلو گے‘‘۔ (ترمذی۔ الفتن۔ باب ماجاء لترکبن سنن من کان قبلکم ۔2180)
اللہ تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت دلائی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب پانے والے جب اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرتے ہیں تو پھر ان کو کیسی دردناک سزا ملتی ہے۔ یہ تاریخ آج ہمیں بھی سبق دے رہی ہے۔ کہ ہم اللہ تعالیٰ سے بغاوت نہ کریں ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلط یہ سزا ہمارا بھی مقدر بن جائے گی۔
وَقَضَيْنَا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا ﴿٤﴾(بنی اسرائیل)
’’اور ہم نے بنی اسرائیل کے لیے کتاب میں صاف فیصلہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو بار فساد برپا کرو گے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے۔‘‘
چنانچہ پہلے موقعہ پر انہوں نے اللہ کے نبی شعیب علیہ السلام کو قتل کیا، ارمیا علیہ السلام کو قید کیا۔ تورات کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے بغاوت کی تو اللہ تعالیٰ نے بابل کے بادشاہ بخت نصر کو ان پر بطور سزا مسلط کیا جس نے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے۔ یروشلم پر قبضہ کیا اور بے دریغ یہودیوں کو قتل کیا۔ اور ایک بڑی تعداد کو اس نے غلام بنا لیا۔ یہ واقعہ عیسیٰ علیہ السلام سے تقریباً 600 سال قبل پیش آیا۔ پھر عزیر علیہ السلام کی کوششوں سے ان کی اصلاح ہوئی۔ انہوں نے قوانین شریعت کو نافذ کر کے انکی اعتقادی اور اخلاقی برائیوں کو دور کیا۔ بابل کی حکومت کو زوال ہوا اور انہیں اہل بابل کی غلامی سے نجات ملی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا یوں ذکر فرمایا ہے:
فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا ﴿٥﴾ ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَاكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا ﴿٦﴾(سورة الإسراء)
’’ان دونوں وعدوں میں سے پہلے کے آتے ہی ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے بندے بھیج دیے جو بڑے ہی لڑاکے تھے پس وہ تمہارے گھروں کے اندر تک پھیل گئے اور اللہ کا یہ وعدہ پورا ہونا ہی تھا۔ پھر ہم نے ان پر تمہارا غلبہ دے کر تمہارے دن پھیرے اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں بڑے جھتے والا بنا دیا۔‘‘
دوسری دفعہ پھر انہوں نے فساد برپا کیا۔ زکریا علیہ السلام کو قتل کر دیا۔ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کے درپے ہوئے کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوئے انہوں نے ان کی اعتقادی اور عملی گمراہیوں پر تنقید کی تو یہودیوں کے تمام مذہبی رہنمائوں نے مل کر ان کی مخالفت کی اور انہیں سزائے موت دلوانے کی کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا کر ان سے بچا لیا۔
اس بغاوت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان پر رومی بادشاہ ٹیٹس کو مسلط کر دیا۔ اس نے یروشلم پر حملہ کر کے ان کے کشتے کے پشتے لگا دیئے اور بہت سوں کو قیدی بنا لیا۔ ان کے اموال لوٹ لیے مذہبی صحیفوں کو پاؤں تلے روندا اور بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو تاراج کیا اور انہیں جلا وطن کر کے ذلیل خوار کیا۔ یہ تباہی 70ء میں ان پر آئی۔
اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر یوں فرمایا:
فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءُوا وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِيرًا ﴿٧﴾(بنی اسرائیل)
’’پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (تو ہم نے دوسرے بندوں کو بھیج دیا) تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور پہلی دفعہ کی طرح پھر اسی مسجد میں گھس جائیں اور جس جس چیز پر قابو پائیں توڑ پھوڑ کر جڑ سے اکھاڑ دیں۔‘‘
ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بات کہہ دی:
وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا (بنی اسرائیل 8)
’’اور اگر تم پھر وہی کرنے لگو تو ہم بھی دوبارہ (ایسی ہی سزا) دیں گے۔‘‘
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہے کہ جو شخص یا گروہ یا قوم راہ راست پر نہ آئے اور اللہ تعالیٰ کی بغاوت اس کا معمول بن جائے اسے پھر اس سزا کے لیئے تیار رہنا چاہیے جو بنی اسرائیل نے بھگتی تھی۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر وسیع ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جو اس کے پاس عرش پر ہے لکھ دیا ہے کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے‘‘۔ (بخاری التوحید۔ باب قول اللہ ویحذرکم اللہ نفسہ 7404، مسلم۔ التوبہ۔ باب فی سعۃ رحمۃ اللہ ۔2751)
یہ اس کی رحمت ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گناہوں سے درگزر فرماتا ہے بشرطیکہ ہم کبیرہ گناہوں سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِيمًا ﴿٣١﴾(النساء )
’’اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کر دیں گے اور عزت و بزرگی کی جگہ داخل کریں گے۔‘‘
یہ بھی ارشاد فرمایا:
الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ (النجم 32)
’’تاکہ اللہ تعالیٰ اچھا بدلہ دے ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں سے بچتے ہیں اور بے حیائی سے بھی سوائے چھوٹے گناہوں کے۔ بے شک تیرا رب بہت کشادہ مغفرت والا ہے۔‘‘
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پانچوں نمازیں اور جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک بیچ کے گناہوں کا کفارہ ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا گیا ہو‘‘۔ (مسلم الطھارہ۔ باب الصلوات الخمس ۔233)
کبیرہ گناہوں کے اس اہمیت کی پیش نظر ائمہ کرام نے اس پر مستقل کتابیں لکھیں، جن میں علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ کی کتاب الکبائر، شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے نواقض اسلام اور کبائر، اور شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کی شرح الکبائر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
انہی کتب کی روشنی میں میں نے ان کبیرہ گناہوں کو جمع کیا ہے تاکہ ہم ان سے خود بھی بچیں اور عوام و خواص کو ان سے بچنے کی دعوت دیں تاکہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی ہم پر رحم فرمائے۔ اور آخرت کے عذاب سے بھی محفوظ فرمائے۔ (آمین)
حدیث کی صحت کے لیے بیت الافکار الدولیہ کی شائع کردہ کتب احادیث سے مدد لی گئی ہے اور صرف صحیح احادیث سے استدلال کیا گیا ہے۔
خادم کتاب و سنت
ڈاکٹر سید شفیق الرحمن
تالیف
ڈاکٹر سید شفیق الرحمن
نظر ثانی
الشیخ اسد اللہ عثمان مدنی
عرض ناشر
تمام تعریفیں اس اللہ وحدہ لا شریک کے لیے ہیں جس نے اس امت کی ہدایت کے لیے اپنے نبی اکرم محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنی شریعت نازل فرمائی۔ جس میں اس امت کے لیے ہر قسم کی رہنمائی موجود ہے۔ پھر اس شریعت کی اطاعت کا حکم دیا۔ فرمایا:
قُلْ أَطِيعُوا اللَّـهَ وَالرَّسُولَ ۖ فَإِن تَوَلَّوْا فَإِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْكَافِرِينَ (آل عمران 32)
کہہ دیجئے تم اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ پھر اگر وہ منہ پھیر لیں تو بلا شبہ اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔
یقینا وہ قوم ہلاک ہونے والی ہے جس کا خوشحال طبقہ اللہ تعالیٰ کے حکموں کی نافرمانی کرے اور دوسرے لوگ بھی ان کی پیروی شروع کر دیں یوں جب قوم میں اللہ تعالیٰ کی نافرمانی عام ہو جائے تو وہ عذاب کی مستحق بن جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
وَإِذَا أَرَدْنَا أَن نُّهْلِكَ قَرْيَةً أَمَرْنَا مُتْرَفِيهَا فَفَسَقُوا فِيهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنَاهَا تَدْمِيرًا ﴿١٦﴾(بنی اسرائیل)
’’اور جب ہم کسی بستی کی ہلاکت کا ارادہ کر لیتے ہیں تو وہاں کے خوشحال لوگوں کو (کچھ) حکم دیتے ہیں۔ اور وہ اس بستی میں کھلی نافرمانی کرنے لگتے ہیں تو ان پر (عذاب کی) بات ثابت ہو جاتی ہے پھر ہم اسے تباہ و برباد کر دیتے ہیں۔‘‘
مذکورہ آیت سے یہ واضح ہے کہ تباہی و بربادی اور عذاب الٰہی لانے والے امور در اصل بندوں کے گناہ اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی خلاف ورزیاں ہیں۔ اور یہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اگر ہم اللہ کی بڑی بڑی نافرمانیوں سے بچیں تو وہ چھوٹے چھوٹے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔
آج معاشرہ میں علانیہ گناہ کئے جا رہے ہیں، اہل ایمان کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں کو ان گناہوں کے کرنے سے روکیں، ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے خطبہ دیا اللہ کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا کہ لوگو تم اس آیت کو پڑھتے ہو، اور اس کا مطلب غلط لیتے ہو:
عَلَيْكُمْ أَنفُسَكُمْ ۖ لَا يَضُرُّكُم مَّن ضَلَّ إِذَا اهْتَدَيْتُمْ [المائدۃ105]
"تم اپنے نفسوں کو لازم پکڑو۔ تم کو وہ شخص نقصان نہیں پہنچا سکتا جو گمراہ ہے جب کہ تم ہدایت پر ہو"۔
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ فرماتے تھے، بے شک جب لوگ ظالم کو دیکھیں اور اس کو ظلم سے نہ روکیں، قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب پر اپنا عذاب نازل فرما دے۔ ایک روایت میں ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ کسی قوم میں جب گناہ کئے جاتے ہیں اور وہ ان کو گناہ سے روکنے پر قادر ہو پھر نہ روکیں، قریب ہے اللہ ان پر عذاب نال فرما دے‘‘۔ [ابوداؤد 4338]
جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر کسی قوم میں کوئی شخص گناہ کرتا ہے اور وہ قوم اس کو روکنے کی طاقت رکھتی ہے پھر اگر وہ اس کو نہ روکیں تو اللہ تعالیٰ مرنے سے پہلے اس قوم کو عذاب میں مبتلا کرے گا۔ [ابو داؤد 4339]
ڈاکٹر سید شفیق الرحمن نے ان کبیرہ گناہوں کو جمع کیا ہے جن سے بچ کر ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت کے امیدوار بن سکتے ہیں۔ شیخ اسد اللہ عثمان حفظہ اللہ فاضل مدینہ یونیورسٹی نے اس پر نظر ثانی فرمائی۔ منبر التوحید و السنہ اللہ کی رضا کی خاطر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضہ کے تحت ان کو شائع کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔
آپ کا دینی بھائی
عبدالسلام زیدی
ابتدائیہ
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی نبینا محمد وعلی آلہ وأصحابہ أجمعین۔
آج مسلمان ہر مقام پر ذلیل و خوار ہیں۔ کل افغانستان میں مسلم نوجوانوں کے تڑپتے ہوئے لاشے تھے اور ماؤں بہنوں کی چیخ و پکار تھی۔ آج عراق اور فلسطین میں برستے ہوئے میزائل ہیں۔ سومنات کے پجاریوں کے پاؤں اللہ اکبر کی صداؤں سے گونجنے والی بابری مسجد کے گنبد پر اور ان کا خنجر بے بس مسلمانوں کی گردن پر ہے۔ آخر کیوں؟ کیوں خون مسلم اتنا ارزاں ہے؟ کیوں مسلمان بیٹیوں کی عزتیں تار تار ہو رہی ہیں؟
اللہ تعالیٰ اپنے کلام مقدس میں اعلان فرماتا ہے:
أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّـهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ ﴿٢٢﴾ (المجادلہ)
’’خبردار بے شک اللہ کے لشکر والے ہی کامیاب ہو نگے۔‘‘
وَلَا تَهِنُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الْأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ ﴿١٣٩﴾(آل عمران)
’’اور ہمت مت ہارو اور غم نہ کرو اگر تم ایمان والے ہو تو تم ہی غالب رہو گے۔‘‘
وَعَدَ اللَّـهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَىٰ لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْنًا (النور 55)
’’جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور عمل صالح کیے ان سے اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ ان کو ضرور ملک میں حکومت دے گا جیسے اس نے اگلے لوگوں کو ان سے پہلے حکومت دی تھی اور جس دین (اسلام) کو ان کے لیے پسند کیا ہے وہ ان کے لیے مضبوطی کے ساتھ محکم کر کے جما دے گا اور ان کے ڈر کو وہ امن و امان سے بدل دے گا۔‘‘
جنگ بدر میں مسلمانوں کا مقابلہ تین گناہ زیادہ طاقت سے تھا۔ مسلمان نہتے اور بے سر و سامان تھے جبکہ کافروں کے پاس اسلحے کی بھی فراوانی تھی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لیے فرشتے نازل فرما دیئے۔ جنہوں نے کافروں کی گردنوں پر اور ان کے پور پور پر مارا۔
آج جو ہم اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہیں ہمیں اپنا جائزہ لینا چاہیے کہ آخر اس کی وجہ کیا ہے؟؟
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
ذَٰلِكَ بِأَنَّ اللَّـهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِّعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَىٰ قَوْمٍ حَتَّىٰ يُغَيِّرُوا مَا بِأَنفُسِهِمْ (الانفال 53)
’’یہ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ایسا نہیں کہ کسی قوم پر کوئی نعمت انعام فرما کر پھر بدل دے جب تک کہ وہ خود اپنی حالت کو نہ بدل دیں۔‘‘
اس آیت پر غور فرمائیے کہ جب تک کوئی قوم کفران نعمت کا راستہ اختیار کر کے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات سے بغاوت کر کے اپنے حالات کو نہیں بدل لیتی اللہ تعالیٰ اس پر اپنی نعمتوں کا دروازہ بند نہیں فرماتا۔ یعنی گناہوں کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اپنی نعمتیں چھین لیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کے حالات تفصیل سے قرآن حکیم میں بیان فرمائے ہیں۔ ان کی اخلاقی کمزوریوں، مذہبی غلط فہمیوں اور اعتقادی و عملی گمراہیوں کا ذکر کیا تاکہ مسلمان ان غلط راہوں سے بچ سکیں جن پر چل کر بنی اسرائیل اللہ تعالیٰ کے غضب کے مستحق ہوئے۔ ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں خبردار کر چکے ہیں کہ امت مسلمہ میں بھی انہیں راستوں سے بگاڑ آئے گا جن سے یہود و نصاریٰ میں آیا تھا۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم بھی آخرکار پچھلی امتوں ہی کی روش پر چلو گے حتیٰ کہ اگر وہ کسی گوہ کے بل میں گھسے ہیں تو تم بھی اسی میں گھسو گے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا آپ کی مراد یہود و نصاریٰ ہیں، آپ نے فرمایا: اور کون؟ (بخاری۔ احادیث الانبیاء۔ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل۔ 3456 مسلم ۔العلم ۔باب اتباع سنن الیہود والنصاریٰ 2669)
ابو واقد رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم ضرور بالضرور اپنے سے پہلے لوگوں کے راستے پر چلو گے‘‘۔ (ترمذی۔ الفتن۔ باب ماجاء لترکبن سنن من کان قبلکم ۔2180)
اللہ تعالیٰ نے سورہ بنی اسرائیل کے آغاز میں بنی اسرائیل کی تاریخ سے عبرت دلائی کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے کتاب پانے والے جب اللہ تعالیٰ سے بغاوت کرتے ہیں تو پھر ان کو کیسی دردناک سزا ملتی ہے۔ یہ تاریخ آج ہمیں بھی سبق دے رہی ہے۔ کہ ہم اللہ تعالیٰ سے بغاوت نہ کریں ورنہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مسلط یہ سزا ہمارا بھی مقدر بن جائے گی۔
وَقَضَيْنَا إِلَىٰ بَنِي إِسْرَائِيلَ فِي الْكِتَابِ لَتُفْسِدُنَّ فِي الْأَرْضِ مَرَّتَيْنِ وَلَتَعْلُنَّ عُلُوًّا كَبِيرًا ﴿٤﴾(بنی اسرائیل)
’’اور ہم نے بنی اسرائیل کے لیے کتاب میں صاف فیصلہ کر دیا تھا کہ تم زمین میں دو بار فساد برپا کرو گے اور تم بڑی زبردست زیادتیاں کرو گے۔‘‘
چنانچہ پہلے موقعہ پر انہوں نے اللہ کے نبی شعیب علیہ السلام کو قتل کیا، ارمیا علیہ السلام کو قید کیا۔ تورات کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے بغاوت کی تو اللہ تعالیٰ نے بابل کے بادشاہ بخت نصر کو ان پر بطور سزا مسلط کیا جس نے ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے۔ یروشلم پر قبضہ کیا اور بے دریغ یہودیوں کو قتل کیا۔ اور ایک بڑی تعداد کو اس نے غلام بنا لیا۔ یہ واقعہ عیسیٰ علیہ السلام سے تقریباً 600 سال قبل پیش آیا۔ پھر عزیر علیہ السلام کی کوششوں سے ان کی اصلاح ہوئی۔ انہوں نے قوانین شریعت کو نافذ کر کے انکی اعتقادی اور اخلاقی برائیوں کو دور کیا۔ بابل کی حکومت کو زوال ہوا اور انہیں اہل بابل کی غلامی سے نجات ملی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا یوں ذکر فرمایا ہے:
فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ أُولَاهُمَا بَعَثْنَا عَلَيْكُمْ عِبَادًا لَّنَا أُولِي بَأْسٍ شَدِيدٍ فَجَاسُوا خِلَالَ الدِّيَارِ ۚ وَكَانَ وَعْدًا مَّفْعُولًا ﴿٥﴾ ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَاكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيرًا ﴿٦﴾(سورة الإسراء)
’’ان دونوں وعدوں میں سے پہلے کے آتے ہی ہم نے تمہارے مقابلے پر اپنے بندے بھیج دیے جو بڑے ہی لڑاکے تھے پس وہ تمہارے گھروں کے اندر تک پھیل گئے اور اللہ کا یہ وعدہ پورا ہونا ہی تھا۔ پھر ہم نے ان پر تمہارا غلبہ دے کر تمہارے دن پھیرے اور مال اور اولاد سے تمہاری مدد کی اور تمہیں بڑے جھتے والا بنا دیا۔‘‘
دوسری دفعہ پھر انہوں نے فساد برپا کیا۔ زکریا علیہ السلام کو قتل کر دیا۔ عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے کے درپے ہوئے کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی اصلاح کے لیے مبعوث ہوئے انہوں نے ان کی اعتقادی اور عملی گمراہیوں پر تنقید کی تو یہودیوں کے تمام مذہبی رہنمائوں نے مل کر ان کی مخالفت کی اور انہیں سزائے موت دلوانے کی کوشش کی مگر اللہ تعالیٰ نے عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھا کر ان سے بچا لیا۔
اس بغاوت کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ نے ان پر رومی بادشاہ ٹیٹس کو مسلط کر دیا۔ اس نے یروشلم پر حملہ کر کے ان کے کشتے کے پشتے لگا دیئے اور بہت سوں کو قیدی بنا لیا۔ ان کے اموال لوٹ لیے مذہبی صحیفوں کو پاؤں تلے روندا اور بیت المقدس اور ہیکل سلیمانی کو تاراج کیا اور انہیں جلا وطن کر کے ذلیل خوار کیا۔ یہ تباہی 70ء میں ان پر آئی۔
اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر یوں فرمایا:
فَإِذَا جَاءَ وَعْدُ الْآخِرَةِ لِيَسُوءُوا وُجُوهَكُمْ وَلِيَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوهُ أَوَّلَ مَرَّةٍ وَلِيُتَبِّرُوا مَا عَلَوْا تَتْبِيرًا ﴿٧﴾(بنی اسرائیل)
’’پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (تو ہم نے دوسرے بندوں کو بھیج دیا) تاکہ وہ تمہارے چہرے بگاڑ دیں اور پہلی دفعہ کی طرح پھر اسی مسجد میں گھس جائیں اور جس جس چیز پر قابو پائیں توڑ پھوڑ کر جڑ سے اکھاڑ دیں۔‘‘
ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بات کہہ دی:
وَإِنْ عُدتُّمْ عُدْنَا (بنی اسرائیل 8)
’’اور اگر تم پھر وہی کرنے لگو تو ہم بھی دوبارہ (ایسی ہی سزا) دیں گے۔‘‘
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہے کہ جو شخص یا گروہ یا قوم راہ راست پر نہ آئے اور اللہ تعالیٰ کی بغاوت اس کا معمول بن جائے اسے پھر اس سزا کے لیئے تیار رہنا چاہیے جو بنی اسرائیل نے بھگتی تھی۔
اللہ تعالیٰ کی رحمت ہر چیز پر وسیع ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں جو اس کے پاس عرش پر ہے لکھ دیا ہے کہ میری رحمت میرے غصہ پر غالب ہے‘‘۔ (بخاری التوحید۔ باب قول اللہ ویحذرکم اللہ نفسہ 7404، مسلم۔ التوبہ۔ باب فی سعۃ رحمۃ اللہ ۔2751)
یہ اس کی رحمت ہے کہ وہ چھوٹے چھوٹے گناہوں سے درگزر فرماتا ہے بشرطیکہ ہم کبیرہ گناہوں سے بچیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِن تَجْتَنِبُوا كَبَائِرَ مَا تُنْهَوْنَ عَنْهُ نُكَفِّرْ عَنكُمْ سَيِّئَاتِكُمْ وَنُدْخِلْكُم مُّدْخَلًا كَرِيمًا ﴿٣١﴾(النساء )
’’اگر تم بڑے گناہوں سے بچتے رہو گے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے تو ہم تمہارے چھوٹے گناہ دور کر دیں گے اور عزت و بزرگی کی جگہ داخل کریں گے۔‘‘
یہ بھی ارشاد فرمایا:
الَّذِينَ يَجْتَنِبُونَ كَبَائِرَ الْإِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ إِلَّا اللَّمَمَ ۚ إِنَّ رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِ (النجم 32)
’’تاکہ اللہ تعالیٰ اچھا بدلہ دے ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں سے بچتے ہیں اور بے حیائی سے بھی سوائے چھوٹے گناہوں کے۔ بے شک تیرا رب بہت کشادہ مغفرت والا ہے۔‘‘
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پانچوں نمازیں اور جمعہ دوسرے جمعہ تک اور رمضان دوسرے رمضان تک بیچ کے گناہوں کا کفارہ ہیں بشرطیکہ کبیرہ گناہوں سے پرہیز کیا گیا ہو‘‘۔ (مسلم الطھارہ۔ باب الصلوات الخمس ۔233)
کبیرہ گناہوں کے اس اہمیت کی پیش نظر ائمہ کرام نے اس پر مستقل کتابیں لکھیں، جن میں علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ کی کتاب الکبائر، شیخ الاسلام محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کے نواقض اسلام اور کبائر، اور شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ کی شرح الکبائر وغیرہ قابل ذکر ہیں۔
انہی کتب کی روشنی میں میں نے ان کبیرہ گناہوں کو جمع کیا ہے تاکہ ہم ان سے خود بھی بچیں اور عوام و خواص کو ان سے بچنے کی دعوت دیں تاکہ اللہ تعالیٰ اس دنیا میں بھی ہم پر رحم فرمائے۔ اور آخرت کے عذاب سے بھی محفوظ فرمائے۔ (آمین)
حدیث کی صحت کے لیے بیت الافکار الدولیہ کی شائع کردہ کتب احادیث سے مدد لی گئی ہے اور صرف صحیح احادیث سے استدلال کیا گیا ہے۔
خادم کتاب و سنت
ڈاکٹر سید شفیق الرحمن