- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
(61) لوگوں پر ظلم کرنا (چاہے وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلم):
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٤٢﴾ (الشوریٰ)
’’یہ الزام صرف ان لوگوں پر ہے جو خود دوسروں پر ظلم کریں اور زمین میں ناحق فساد کرتے پھریں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا:
وَمَن يَظْلِم مِّنكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا ﴿١٩﴾ (الفرقان)
’’اور تم میں سے جو بھی ظلم کرے گا ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔‘‘
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیوں کا باعث ہو گا‘‘۔ (مسلم 2578)
ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پہلے ظالم کو مہلت دیتا رہتا ہے پھر جب اسے پکڑتا ہے تو پھر کوئی مہلت نہیں دیتا‘‘۔ (بخاری 4686، مسلم 2583)
ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ایک غلام کو کوڑے مار رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا اور فرمایا: ’’اے ابو مسعود! جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر اس سے زیادہ قادر ہے جتنا تم اس غلام پر قادر ہو۔ یہ سنکر خوف سے میرے ہاتھ سے کوڑا گر گیا‘‘۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اسے اللہ کے لیے آزاد کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر تم ایسا نہ کرتے تو آگ تمہیں چھوتی‘‘۔
(مسلم۔ الایمان۔ باب صحبۃ المما لیک 1659)
ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ شام میں چند لوگوں کے پاس سے گزرے جو دھوپ میں کھڑے کیے گئے تھے۔ اور ان کے سروں پر تیل ڈالا ہوا تھا۔ انہوں نے پوچھا ان کا کیا معاملہ ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ جزیہ (کی وصولی) کے لیے انہیں عذاب دیا جا رہا ہے۔ ہشام رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو لوگوں کو دنیا میں عذاب دیتے رہتے ہیں‘‘۔ پس وہ گورنر فلسطین عمیر بن سعد کے پاس گئے اور انہیں یہ حدیث سنائی۔ اس نے انہیں چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ (مسلم۔ البر والصلہ والاداب باب الوعید الشدید لمن عذب الناس بغیر حق 2613)
(62) جانوروں پر ظلم کرنا:
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا۔ اس نے اسے قید کر لیا حتی کہ وہ مر گئی۔ پس وہ اس کی وجہ سے جہنم میں گئی نہ اس نے اسے کھلایا پلایا اور نہ اسے اس نے چھوڑا کہ وہ خود زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی‘‘۔
(بخاری۔ المساقاۃ باب فضل سقی الماء 2365، مسلم۔ السلام۔ باب تحریم قتل الھرہ 2242)
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گدھا دیکھا جس کے چہرے کو داغا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے اس کے منہ پر داغا۔ آپ نے چہرے پر مارنے اور چہرے کو داغنے سے منع فرمایا‘‘۔ (مسلم۔ اللباس۔ باب النھی عن ضرب الحیوان فی وجھہ ووسمہ فیہ 2117)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے ایک پرندے کو پکڑا ہوا تھا اور اسے اپنے تیروں کا نشانہ بنا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہے جو روح والی چیز کو تیر اندازی کے لیے ہدف بناتا ہے‘‘ (بخاری 5515۔ مسلم 1958)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چیونٹیوں کے بل کے پاس سے گزرے جسے آگ سے جلا دیا گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آگ کی سزا تو آگ کا مالک یعنی اللہ ہی دے سکتا ہے‘‘ (ابو داود 2675)
{63} مسلمان کو کافر کہنا یا اس پر لعنت کرنا:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی آدمی کو کافر یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا۔ اگر وہ ایسا نہ ہوا تو بات کہنے والے کی طرف لوٹ جائے گی‘‘ (بخاری۔ الادب باب من اکفر اخاہ بغیر تاویل 6104۔ مسلم۔ الایمان۔ باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کافر 60)
ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کو لعنت کرنا اس کے قتل کرنے کے مانند ہے‘‘۔
(بخاری۔ الادب باب ماینھی من السباب واللعن 6047، مسلم۔ الایمان باب غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ 110)
ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لعنت کرنے والے قیامت کے دن نہ کسی کے گواہ بن سکیں گے اور نہ سفارشی ہوں گے‘‘۔ (مسلم۔ البر والصلہ والاداب باب النھی عن لعن الدواب 2598)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب بندہ کسی چیز پر لعنت کرتا ہے وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے تو اس کے لیے آسمان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، پھر وہ زمین کی طرف گرتی ہے تو اس کے لیے زمین کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں پھر وہ دائیں بائیں چکر لگاتی ہے۔ پھر جب اس کو کوئی راستہ کسی طرف نہیں ملتا تو جس پر لعنت کی گئی ہو اس کی طرف چلی جاتی ہے۔ اگر وہ اس کا مستحق ہو تو ٹھیک ورنہ کہنے والے کی طرف لوٹ آتی ہے‘‘۔ (ابو داود۔ الادب۔ باب فی اللعن 4905)
اس طرح ظالمانہ انداز سے کسی غیر مستحق پر لعنت بھیجنے والا خود اپنے خلاف ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کی بد دعا کرتا ہے۔
ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک دفعہ ایک نوجوان لڑکی ایک اونٹنی پر سوار تھی۔ اس پر لوگوں کا سامان تھا۔ اس لڑکی نے اونٹنی کی رفتار تیز کرنے کے لیے اسے ڈانٹا اور کہا اے اللہ اس پر لعنت فرما۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فوراً فرمایا: ’’اس اونٹنی پر جو سامان لدا ہوا ہے وہ اتار لو اور اسے چھوڑ دو۔ وہ اونٹنی ہمارے ساتھ نہ رہے جس پر لعنت کی گئی ہے‘‘۔ (مسلم۔ البر۔ باب النھی عن لعن الدواب 2596)
یہ لعنت کی ممانعت مخصوص شخص کے بارے میں ہے۔ آیات و احادیث کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں پر اور کافروں پر لعنت کرے۔ اللہ تعالیٰ نے سود کھانے اور کھلانے والوں پر لعنت کی ہے، حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت ہو، جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔
کسی کو یہ کہنا کہ اللہ تجھے ہرگز نہیں معاف کرے گا:
کسی معین شخص کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کسی کو مایوس کرنا جائز نہیں۔
جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ایک شخص نے کہا اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کون ہے جو میرے بارے میں یہ کہتا ہے کہ میں فلاں کو ہرگز نہیں بخشوں گا پس بے شک میں نے فلاں کو بخش دیا اور تیرے اعمال ضائع کر دئیے‘‘۔ (مسلم۔ البر والصلۃ باب النھی عن تقنیط الانسان من رحمۃ اللہ 2621)
(64) احسان جتلانا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ (البقرہ 264)
’’اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو۔ جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ قیامت پر۔‘‘
یعنی خیرات کر کے احسان جتلانا اور تکلیف وہ باتیں کرنا اہل ایمان کا شیوہ نہیں بلکہ منافقین اور ریاکاروں کا شیوہ ہے۔
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین (قسم کے) آدمیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام تک نہ کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے: (۱) غرور سے تہہ بند کو گھسیٹنے والا (۲) احسان جتلانے والا جو کسی کو کوئی بھی چیز دیتا ہے تو احسان جتلاتا ہے (۳) جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا سامان بیچنے والا‘‘۔ (مسلم۔ الایمان باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار106)
{65} چغل خوری کرنا:
چغل خور وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے کے لیے باتیں ایک دوسرے تک پہنچاتا ہے۔ یہ حسد، بغض، کینہ اور دشمنی کی آگ بھڑکانے کا بہت بڑا سبب ہے۔ اور اس کی بد ترین شکل یہ ہے کہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات کو بگاڑنے کے لیے شوہر کو بیوی کے خلاف اور بیوی کو شوہر کے خلاف اکسایا جائے۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت میں چغل خور داخل نہیں ہو گا‘‘۔ (بخاری۔ الادب۔ باب ما یکرہ من النمیمہ 6056، مسلم۔ الایمان باب بیان غلظ تحریم النمیمہ 105)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان کو عذاب ہو رہا ہے اور یہ عذاب کسی بڑی بات پر نہیں ہو رہا (پھر فرمایا) کیوں نہیں وہ بڑی بات ہی ہے۔ ان میں سے ایک چغلی کیا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا‘‘۔ (بخاری۔ الوضوء باب من الکبائر ان لا یستتر من بولہ 216۔ مسلم۔ الطہارہ باب الدلیل علی نجاسۃ البول 292)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں میں سب سے شریر دو رخہ شخص ہے جو ایک گروہ کے پاس ایک رخ لے کر جاتا ہے اور دوسرے گروہ کے پاس دوسرا رخ‘‘۔ (بخاری کتاب المناقب 3494، مسلم۔ فضائل الصحابہ۔ باب خیار الناس 2526)
(66) غیبت:
آج مسلمان کثرت سے ایک دوسرے کی غیبت کرتے ہیں۔ لوگوں کے وہ عیوب جو جسم، دین، دنیا، شخصیت یا اخلاق سے متعلق ہیں دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کرنا جن کا ذکر وہ ناپسند کرتے ہوں، غیبت کہلاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بھیانک صورت سے تشبیہ دیکر ہمیں غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے:
وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ (الحجرات 12)
’’اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟؟ یقیناََ تم کو اس سے نفرت آئے گی‘‘
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’معراج کی رات میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ناخن تانبے کے بنے ہوئے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جو غیبت کر کے لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں اور ان کی عزتوں کو پامال کرتے ہیں‘‘ (ابوداود۔ 4878)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عورت کو اس کے خاوند سے یا غلام کو اس کے آقا سے نفرت دلانے کے لیے ان کی بدگوئی کرتا ہے۔" (ابو داؤد: 2175)
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی دوسری بیوی صفیہ عنہا کے پستہ قد ہونے کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! تو نے ایسی بات کہی کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو اس کا ذائقہ بھی بدل جائے‘‘۔ (ابو داود۔ الادب باب فی الغیبۃ 4875)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ ‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے بھائی کا ایسے انداز میں ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے‘‘۔ عرض کی کہ اگر میرے بھائی میں وہ چیز موجود ہو جس کا میں ذکر کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر اس میں وہ بات موجود ہے تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے جو تو نے اس کی بابت بیان کی تو تو نے اس پر بہتان باندھا‘‘۔ (مسلم۔ البر باب تحریم الغیبۃ 2589)
اگر کسی محفل میں کسی مسلمان بھائی کی غیبت کی جا رہی ہو تو اس مسلمان کی عزت کا دفاع کرنا واجب اور باعث اجر ہے۔
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرہ سے جہنم کی آگ دور کرے گا‘‘۔ (ترمذی۔ البر والصلۃ باب ما جاء فی الذب عن عرض المسلم ۔1931)
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّمَا السَّبِيلُ عَلَى الَّذِينَ يَظْلِمُونَ النَّاسَ وَيَبْغُونَ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ ۚ أُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٤٢﴾ (الشوریٰ)
’’یہ الزام صرف ان لوگوں پر ہے جو خود دوسروں پر ظلم کریں اور زمین میں ناحق فساد کرتے پھریں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
ایک اور جگہ فرمایا:
وَمَن يَظْلِم مِّنكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِيرًا ﴿١٩﴾ (الفرقان)
’’اور تم میں سے جو بھی ظلم کرے گا ہم اسے بڑا عذاب چکھائیں گے۔‘‘
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بیشک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ظلم سے بچو کیونکہ ظلم قیامت کے دن تاریکیوں کا باعث ہو گا‘‘۔ (مسلم 2578)
ابو موسیٰ الاشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ پہلے ظالم کو مہلت دیتا رہتا ہے پھر جب اسے پکڑتا ہے تو پھر کوئی مہلت نہیں دیتا‘‘۔ (بخاری 4686، مسلم 2583)
ابو مسعود بدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں اپنے ایک غلام کو کوڑے مار رہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھ لیا اور فرمایا: ’’اے ابو مسعود! جان لو کہ اللہ تعالیٰ تمہارے اوپر اس سے زیادہ قادر ہے جتنا تم اس غلام پر قادر ہو۔ یہ سنکر خوف سے میرے ہاتھ سے کوڑا گر گیا‘‘۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں اسے اللہ کے لیے آزاد کرتا ہوں۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر تم ایسا نہ کرتے تو آگ تمہیں چھوتی‘‘۔
(مسلم۔ الایمان۔ باب صحبۃ المما لیک 1659)
ہشام بن حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ شام میں چند لوگوں کے پاس سے گزرے جو دھوپ میں کھڑے کیے گئے تھے۔ اور ان کے سروں پر تیل ڈالا ہوا تھا۔ انہوں نے پوچھا ان کا کیا معاملہ ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ جزیہ (کی وصولی) کے لیے انہیں عذاب دیا جا رہا ہے۔ ہشام رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو عذاب دے گا جو لوگوں کو دنیا میں عذاب دیتے رہتے ہیں‘‘۔ پس وہ گورنر فلسطین عمیر بن سعد کے پاس گئے اور انہیں یہ حدیث سنائی۔ اس نے انہیں چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ (مسلم۔ البر والصلہ والاداب باب الوعید الشدید لمن عذب الناس بغیر حق 2613)
(62) جانوروں پر ظلم کرنا:
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا۔ اس نے اسے قید کر لیا حتی کہ وہ مر گئی۔ پس وہ اس کی وجہ سے جہنم میں گئی نہ اس نے اسے کھلایا پلایا اور نہ اسے اس نے چھوڑا کہ وہ خود زمین کے کیڑے مکوڑے کھا لیتی‘‘۔
(بخاری۔ المساقاۃ باب فضل سقی الماء 2365، مسلم۔ السلام۔ باب تحریم قتل الھرہ 2242)
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گدھا دیکھا جس کے چہرے کو داغا ہوا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس شخص پر لعنت کرے جس نے اس کے منہ پر داغا۔ آپ نے چہرے پر مارنے اور چہرے کو داغنے سے منع فرمایا‘‘۔ (مسلم۔ اللباس۔ باب النھی عن ضرب الحیوان فی وجھہ ووسمہ فیہ 2117)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما قریش کے چند نوجوانوں کے پاس سے گزرے جنہوں نے ایک پرندے کو پکڑا ہوا تھا اور اسے اپنے تیروں کا نشانہ بنا رہے تھے۔ آپ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت ہے جو روح والی چیز کو تیر اندازی کے لیے ہدف بناتا ہے‘‘ (بخاری 5515۔ مسلم 1958)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چیونٹیوں کے بل کے پاس سے گزرے جسے آگ سے جلا دیا گیا تھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آگ کی سزا تو آگ کا مالک یعنی اللہ ہی دے سکتا ہے‘‘ (ابو داود 2675)
{63} مسلمان کو کافر کہنا یا اس پر لعنت کرنا:
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے کسی آدمی کو کافر یا اللہ کا دشمن کہہ کر پکارا۔ اگر وہ ایسا نہ ہوا تو بات کہنے والے کی طرف لوٹ جائے گی‘‘ (بخاری۔ الادب باب من اکفر اخاہ بغیر تاویل 6104۔ مسلم۔ الایمان۔ باب بیان حال ایمان من قال لاخیہ المسلم یا کافر 60)
ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مومن کو لعنت کرنا اس کے قتل کرنے کے مانند ہے‘‘۔
(بخاری۔ الادب باب ماینھی من السباب واللعن 6047، مسلم۔ الایمان باب غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ 110)
ابودرداء رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لعنت کرنے والے قیامت کے دن نہ کسی کے گواہ بن سکیں گے اور نہ سفارشی ہوں گے‘‘۔ (مسلم۔ البر والصلہ والاداب باب النھی عن لعن الدواب 2598)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب بندہ کسی چیز پر لعنت کرتا ہے وہ لعنت آسمان کی طرف چڑھتی ہے تو اس کے لیے آسمان کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، پھر وہ زمین کی طرف گرتی ہے تو اس کے لیے زمین کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں پھر وہ دائیں بائیں چکر لگاتی ہے۔ پھر جب اس کو کوئی راستہ کسی طرف نہیں ملتا تو جس پر لعنت کی گئی ہو اس کی طرف چلی جاتی ہے۔ اگر وہ اس کا مستحق ہو تو ٹھیک ورنہ کہنے والے کی طرف لوٹ آتی ہے‘‘۔ (ابو داود۔ الادب۔ باب فی اللعن 4905)
اس طرح ظالمانہ انداز سے کسی غیر مستحق پر لعنت بھیجنے والا خود اپنے خلاف ہی اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دوری کی بد دعا کرتا ہے۔
ابو برزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ایک دفعہ ایک نوجوان لڑکی ایک اونٹنی پر سوار تھی۔ اس پر لوگوں کا سامان تھا۔ اس لڑکی نے اونٹنی کی رفتار تیز کرنے کے لیے اسے ڈانٹا اور کہا اے اللہ اس پر لعنت فرما۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فوراً فرمایا: ’’اس اونٹنی پر جو سامان لدا ہوا ہے وہ اتار لو اور اسے چھوڑ دو۔ وہ اونٹنی ہمارے ساتھ نہ رہے جس پر لعنت کی گئی ہے‘‘۔ (مسلم۔ البر۔ باب النھی عن لعن الدواب 2596)
یہ لعنت کی ممانعت مخصوص شخص کے بارے میں ہے۔ آیات و احادیث کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ظالموں پر اور کافروں پر لعنت کرے۔ اللہ تعالیٰ نے سود کھانے اور کھلانے والوں پر لعنت کی ہے، حلالہ کرنے اور کرانے والے پر لعنت ہو، جھوٹے پر اللہ کی لعنت ہو۔ وغیرہ وغیرہ۔
کسی کو یہ کہنا کہ اللہ تجھے ہرگز نہیں معاف کرے گا:
کسی معین شخص کے بارے میں یہ نہیں کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے کسی کو مایوس کرنا جائز نہیں۔
جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ایک شخص نے کہا اللہ کی قسم اللہ تعالیٰ فلاں شخص کو ہرگز معاف نہیں کرے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: کون ہے جو میرے بارے میں یہ کہتا ہے کہ میں فلاں کو ہرگز نہیں بخشوں گا پس بے شک میں نے فلاں کو بخش دیا اور تیرے اعمال ضائع کر دئیے‘‘۔ (مسلم۔ البر والصلۃ باب النھی عن تقنیط الانسان من رحمۃ اللہ 2621)
(64) احسان جتلانا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُم بِالْمَنِّ وَالْأَذَىٰ كَالَّذِي يُنفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ (البقرہ 264)
’’اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو۔ جس طرح وہ شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہے اور نہ قیامت پر۔‘‘
یعنی خیرات کر کے احسان جتلانا اور تکلیف وہ باتیں کرنا اہل ایمان کا شیوہ نہیں بلکہ منافقین اور ریاکاروں کا شیوہ ہے۔
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین (قسم کے) آدمیوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کلام تک نہ کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے: (۱) غرور سے تہہ بند کو گھسیٹنے والا (۲) احسان جتلانے والا جو کسی کو کوئی بھی چیز دیتا ہے تو احسان جتلاتا ہے (۳) جھوٹی قسمیں کھا کر اپنا سامان بیچنے والا‘‘۔ (مسلم۔ الایمان باب بیان غلظ تحریم اسبال الازار106)
{65} چغل خوری کرنا:
چغل خور وہ ہوتا ہے جو لوگوں کے درمیان فساد ڈالنے کے لیے باتیں ایک دوسرے تک پہنچاتا ہے۔ یہ حسد، بغض، کینہ اور دشمنی کی آگ بھڑکانے کا بہت بڑا سبب ہے۔ اور اس کی بد ترین شکل یہ ہے کہ میاں بیوی کے آپس کے تعلقات کو بگاڑنے کے لیے شوہر کو بیوی کے خلاف اور بیوی کو شوہر کے خلاف اکسایا جائے۔
حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت میں چغل خور داخل نہیں ہو گا‘‘۔ (بخاری۔ الادب۔ باب ما یکرہ من النمیمہ 6056، مسلم۔ الایمان باب بیان غلظ تحریم النمیمہ 105)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان کو عذاب ہو رہا ہے اور یہ عذاب کسی بڑی بات پر نہیں ہو رہا (پھر فرمایا) کیوں نہیں وہ بڑی بات ہی ہے۔ ان میں سے ایک چغلی کیا کرتا تھا اور دوسرا پیشاب کے چھینٹوں سے نہیں بچتا تھا‘‘۔ (بخاری۔ الوضوء باب من الکبائر ان لا یستتر من بولہ 216۔ مسلم۔ الطہارہ باب الدلیل علی نجاسۃ البول 292)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں میں سب سے شریر دو رخہ شخص ہے جو ایک گروہ کے پاس ایک رخ لے کر جاتا ہے اور دوسرے گروہ کے پاس دوسرا رخ‘‘۔ (بخاری کتاب المناقب 3494، مسلم۔ فضائل الصحابہ۔ باب خیار الناس 2526)
(66) غیبت:
آج مسلمان کثرت سے ایک دوسرے کی غیبت کرتے ہیں۔ لوگوں کے وہ عیوب جو جسم، دین، دنیا، شخصیت یا اخلاق سے متعلق ہیں دوسرے لوگوں کے سامنے بیان کرنا جن کا ذکر وہ ناپسند کرتے ہوں، غیبت کہلاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ایک بھیانک صورت سے تشبیہ دیکر ہمیں غیبت کرنے سے منع فرمایا ہے:
وَلَا يَغْتَب بَّعْضُكُم بَعْضًا ۚ أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَن يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ (الحجرات 12)
’’اور نہ تم میں سے کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے؟؟ یقیناََ تم کو اس سے نفرت آئے گی‘‘
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’معراج کی رات میرا گزر ایسے لوگوں کے پاس سے ہوا جن کے ناخن تانبے کے بنے ہوئے تھے اور وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے۔ جبرائیل علیہ السلام نے کہا یہ وہ لوگ ہیں جو غیبت کر کے لوگوں کا گوشت کھاتے ہیں اور ان کی عزتوں کو پامال کرتے ہیں‘‘ (ابوداود۔ 4878)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "وہ شخص ہم میں سے نہیں جو عورت کو اس کے خاوند سے یا غلام کو اس کے آقا سے نفرت دلانے کے لیے ان کی بدگوئی کرتا ہے۔" (ابو داؤد: 2175)
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی دوسری بیوی صفیہ عنہا کے پستہ قد ہونے کا ذکر کیا۔ آپ نے فرمایا: ’’اے عائشہ! تو نے ایسی بات کہی کہ اگر اسے سمندر کے پانی میں ملا دیا جائے تو اس کا ذائقہ بھی بدل جائے‘‘۔ (ابو داود۔ الادب باب فی الغیبۃ 4875)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا تم جانتے ہو غیبت کیا ہے؟ ‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے بھائی کا ایسے انداز میں ذکر کرنا جسے وہ ناپسند کرے‘‘۔ عرض کی کہ اگر میرے بھائی میں وہ چیز موجود ہو جس کا میں ذکر کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر اس میں وہ بات موجود ہے تو تو نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ بات اس میں نہیں ہے جو تو نے اس کی بابت بیان کی تو تو نے اس پر بہتان باندھا‘‘۔ (مسلم۔ البر باب تحریم الغیبۃ 2589)
اگر کسی محفل میں کسی مسلمان بھائی کی غیبت کی جا رہی ہو تو اس مسلمان کی عزت کا دفاع کرنا واجب اور باعث اجر ہے۔
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کی عزت کا دفاع کیا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے چہرہ سے جہنم کی آگ دور کرے گا‘‘۔ (ترمذی۔ البر والصلۃ باب ما جاء فی الذب عن عرض المسلم ۔1931)