- شمولیت
- اپریل 27، 2013
- پیغامات
- 26,584
- ری ایکشن اسکور
- 6,762
- پوائنٹ
- 1,207
(20) انبیاء اور اولیاء کی قبروں کو مسجد بنانا:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گرجے کا ذکر کیا جس کو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا۔ اس میں تصویریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان (یہود و نصاریٰ) کا کوئی نیک آدمی مر جاتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور وہاں صورتیں بناتے۔ یہ لوگ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدتر ہوں گے‘‘۔ (بخاری۔427، مسلم، المساجد باب النھی عن بناء المساجد علی القبور 528)
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری بیماری میں فرمایا: ’’اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اگر اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد بنا لیں گے تو آپ کی قبر کھلی جگہ میں ہوتی، حجرہ میں نہ ہوتی‘‘ (بخاری 1330۔ مسلم 529)
(21) ریاکاری:
کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کے لیے یہ لازمی شرط ہے کہ وہ ہر قسم کی ریاکاری اور دکھلاوے سے پاک ہو۔ اللہ تعالیٰ منافقین کا حال بیان فرماتا ہے:
يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٤٢﴾ (النساء)
’’صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یونہی برائے نام کرتے ہیں۔‘‘
جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص دکھلاوے کے لیے کوئی عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن رسوا کرے گا اور جو کوئی نیک عمل لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کے لیے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے چھپے عیبوں کو لوگوں کے سامنے ظاہر کر دے گا‘‘۔ (بخاری، الرقاق، باب الریا والسمعہ 6499۔ مسلم الزھد ۔2987)
محمود بن لبید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں سب سے زیادہ تمہارے بارے میں شرک اصغر سے ڈرتا ہوں‘‘۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ریا یعنی دکھلاوہ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا جن کو دکھلانے کے لیے تم اعمال کرتے تھے۔ ان کے پاس جاؤ اور دیکھو کیا وہ تمہیں اس کا اجر (بدلہ) دے سکتے ہیں‘‘ (مسند احمد 24030، 428/5)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس امت میں شرک (اصغر) چیونٹی کی چال سے زیادہ پوشیدہ ہے‘‘۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(یہ دعا) پڑھو:
’’اَللَّھُمَّ اِنِّی أَعُوْذُ بِکَ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ وَاَنَا اَعْلَمُ وَاسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا اَعْلَمُ‘‘۔
’’اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جان بوجھ کر شرک کروں اور معافی چاہتا ہوں (اس شرک سے) جو لا علمی میں ہو جائے ‘‘۔ (ابن حبان، صحیح الجامع 233-3۔)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ سب سے پہلے قیامت کے دن ایک شہید سے سوال و جواب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اسے عطا کی گئی نعمتیں یاد دلائے گا وہ ان کا اقرار کرے گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں تیری راہ میں لڑ کر شہید ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے بلکہ تو اس لیے لڑا کہ تجھے بہادر کہا جائے پس تحقیق کہا گیا (یعنی تیری نیت دنیا میں پوری ہو گئی) پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر ایک مالدار شخص کو لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا وہ اقرار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں نے وہ مال تیرے پسندیدہ راستوں میں تیری رضا کے لیے خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے بلکہ تو نے اس لیے خرچ کیا تاکہ لوگ تجھے سخی کہیں پس تحقیق (تجھے سخی) کہا گیا۔ پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر ایک اور شخص لایا جائے گا جس نے (دین کا) علم سیکھا اور سکھایا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا وہ ان کا اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا میں نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا تیری رضا کی خاطر قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو نے اس لیے علم حاصل کیا کہ لوگ تجھے عالم کہیں پس تحقیق (تجھے عالم) کہا گیا۔ پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا‘‘۔ (مسلم، الامارہ، باب من قاتل للریا والسمعہ استحق النار 1905)
(22) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امیدی:
سخت سے سخت حالات میں بھی صبر و رضا اور اللہ کی رحمت واسع کی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ﴿٨٧﴾ (یوسف)
’’یقینا اللہ کی رحمت سے نا امید تو صرف کافر ہی ہوتے ہیں‘‘
جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کسی کو بھی موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہو‘‘۔ (مسلم، الجنۃ، باب الامر بحسن الظن باللہ عند الموت 2877)
اللہ کی رحمت سے امید کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس کی تدبیروں سے بے خوف ہو جائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے :
’’اللَّهُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ‘‘
’’اے اللہ! میرے دل کو اپنے دین پر جمائے رکھ‘‘۔
عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہمارے بارے میں آپ کو کوئی اندیشہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام (لوگوں کے) دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں جیسے وہ چاہے ان کو پھیر دیتا ہے‘‘ ۔ (ابن ماجہ، الدعا، باب دعاء رسول اللہ 3834) (قال الشيخ الألباني: صحيح وقال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف)
اللہ کی رحمت سے امید کے ساتھ اسکا ڈر بھی لازم ہے۔ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے اعمال کو حقیر جاننا چاہیے۔
(23) تکبر کرنا:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا‘‘۔ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آدمی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں، اس کا جوتا اچھا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(یہ تکبر نہیں) اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر یہ ہے کہ انسان حق کو جھٹلائے اور لوگوں کو حقیر سمجھے‘‘۔ (مسلم، الایمان باب تحریم الکبر 91)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’عظمت اللہ کی لنگی ہے اور تکبر اس کا اوڑھنا ہے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) جس نے بھی ان کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کی میں اس کو عذاب دوں گا‘‘۔ (مسلم، البر وصلہ، باب تحریم الکبر 2620)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "متکبر (گھمنڈ کرنے والے) لوگوں کو قیامت کے دن میدان حشر میں چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کے مانند لوگوں کی صورتوں میں لایا جائے گا، انہیں ہر جگہ ذلت ڈھانپے رہے گی، پھر وہ جہنم کے ایک ایسے قید خانے کی طرف ہنکائے جائیں گے جس کا نام «بولس» ہے۔ اس میں انہیں بھڑکتی ہوئی آگ ابالے گی، وہ اس میں جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پئیں گے جسے «طينة الخبال» کہتے ہیں، یعنی سڑی ہوئی بدبودار کیچڑ“۔ (ترمذی 2492)
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین قسم کے آدمیوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرے گا نہ (رحمت کی نظر سے) دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا، تکبر سے کپڑے کو گھسیٹنے والا، احسان کر کے احسان جتلانے والا اور اپنا سامان جھوٹی قسم کے ذریعے بیچنے والا‘‘ (مسلم، الایمان، باب غلظ تحریم اسبال الازار والمن با لعطیہ 106)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے غرور سے اپنا جامہ گھسیٹا اللہ تعالیٰ اس کی طرف (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا‘‘۔ (بخاری، اللباس، باب من جرثوبہ من الخیلاء 5791۔ مسلم، اللباس، باب تحریم جر الثوب خیلاء 2085)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک آدمی اچھا لباس پہنے، سر میں کنگھا کیے ہوئے غرور و تکبر کے ساتھ چل رہا تھا اللہ نے اسے زمین میں دھنسا دیا وہ قیامت تک اس میں دھنستا رہے گا‘‘۔ (بخاری، اللباس، باب: من جر ثوبہ من الخیلاء 5789۔ مسلم، اللباس 2088)
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گرجے کا ذکر کیا جس کو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا۔ اس میں تصویریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان (یہود و نصاریٰ) کا کوئی نیک آدمی مر جاتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور وہاں صورتیں بناتے۔ یہ لوگ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدتر ہوں گے‘‘۔ (بخاری۔427، مسلم، المساجد باب النھی عن بناء المساجد علی القبور 528)
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری بیماری میں فرمایا: ’’اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اگر اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد بنا لیں گے تو آپ کی قبر کھلی جگہ میں ہوتی، حجرہ میں نہ ہوتی‘‘ (بخاری 1330۔ مسلم 529)
(21) ریاکاری:
کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کے لیے یہ لازمی شرط ہے کہ وہ ہر قسم کی ریاکاری اور دکھلاوے سے پاک ہو۔ اللہ تعالیٰ منافقین کا حال بیان فرماتا ہے:
يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٤٢﴾ (النساء)
’’صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یونہی برائے نام کرتے ہیں۔‘‘
جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص دکھلاوے کے لیے کوئی عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن رسوا کرے گا اور جو کوئی نیک عمل لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کے لیے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے چھپے عیبوں کو لوگوں کے سامنے ظاہر کر دے گا‘‘۔ (بخاری، الرقاق، باب الریا والسمعہ 6499۔ مسلم الزھد ۔2987)
محمود بن لبید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں سب سے زیادہ تمہارے بارے میں شرک اصغر سے ڈرتا ہوں‘‘۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ریا یعنی دکھلاوہ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا جن کو دکھلانے کے لیے تم اعمال کرتے تھے۔ ان کے پاس جاؤ اور دیکھو کیا وہ تمہیں اس کا اجر (بدلہ) دے سکتے ہیں‘‘ (مسند احمد 24030، 428/5)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس امت میں شرک (اصغر) چیونٹی کی چال سے زیادہ پوشیدہ ہے‘‘۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(یہ دعا) پڑھو:
’’اَللَّھُمَّ اِنِّی أَعُوْذُ بِکَ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ وَاَنَا اَعْلَمُ وَاسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا اَعْلَمُ‘‘۔
’’اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جان بوجھ کر شرک کروں اور معافی چاہتا ہوں (اس شرک سے) جو لا علمی میں ہو جائے ‘‘۔ (ابن حبان، صحیح الجامع 233-3۔)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ سب سے پہلے قیامت کے دن ایک شہید سے سوال و جواب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اسے عطا کی گئی نعمتیں یاد دلائے گا وہ ان کا اقرار کرے گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں تیری راہ میں لڑ کر شہید ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے بلکہ تو اس لیے لڑا کہ تجھے بہادر کہا جائے پس تحقیق کہا گیا (یعنی تیری نیت دنیا میں پوری ہو گئی) پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر ایک مالدار شخص کو لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا وہ اقرار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں نے وہ مال تیرے پسندیدہ راستوں میں تیری رضا کے لیے خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے بلکہ تو نے اس لیے خرچ کیا تاکہ لوگ تجھے سخی کہیں پس تحقیق (تجھے سخی) کہا گیا۔ پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر ایک اور شخص لایا جائے گا جس نے (دین کا) علم سیکھا اور سکھایا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا وہ ان کا اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا میں نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا تیری رضا کی خاطر قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو نے اس لیے علم حاصل کیا کہ لوگ تجھے عالم کہیں پس تحقیق (تجھے عالم) کہا گیا۔ پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا‘‘۔ (مسلم، الامارہ، باب من قاتل للریا والسمعہ استحق النار 1905)
(22) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امیدی:
سخت سے سخت حالات میں بھی صبر و رضا اور اللہ کی رحمت واسع کی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ﴿٨٧﴾ (یوسف)
’’یقینا اللہ کی رحمت سے نا امید تو صرف کافر ہی ہوتے ہیں‘‘
جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کسی کو بھی موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہو‘‘۔ (مسلم، الجنۃ، باب الامر بحسن الظن باللہ عند الموت 2877)
اللہ کی رحمت سے امید کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس کی تدبیروں سے بے خوف ہو جائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے :
’’اللَّهُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ‘‘
’’اے اللہ! میرے دل کو اپنے دین پر جمائے رکھ‘‘۔
عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہمارے بارے میں آپ کو کوئی اندیشہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام (لوگوں کے) دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں جیسے وہ چاہے ان کو پھیر دیتا ہے‘‘ ۔ (ابن ماجہ، الدعا، باب دعاء رسول اللہ 3834) (قال الشيخ الألباني: صحيح وقال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف)
اللہ کی رحمت سے امید کے ساتھ اسکا ڈر بھی لازم ہے۔ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے اعمال کو حقیر جاننا چاہیے۔
(23) تکبر کرنا:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا‘‘۔ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آدمی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں، اس کا جوتا اچھا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(یہ تکبر نہیں) اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر یہ ہے کہ انسان حق کو جھٹلائے اور لوگوں کو حقیر سمجھے‘‘۔ (مسلم، الایمان باب تحریم الکبر 91)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’عظمت اللہ کی لنگی ہے اور تکبر اس کا اوڑھنا ہے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) جس نے بھی ان کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کی میں اس کو عذاب دوں گا‘‘۔ (مسلم، البر وصلہ، باب تحریم الکبر 2620)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "متکبر (گھمنڈ کرنے والے) لوگوں کو قیامت کے دن میدان حشر میں چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کے مانند لوگوں کی صورتوں میں لایا جائے گا، انہیں ہر جگہ ذلت ڈھانپے رہے گی، پھر وہ جہنم کے ایک ایسے قید خانے کی طرف ہنکائے جائیں گے جس کا نام «بولس» ہے۔ اس میں انہیں بھڑکتی ہوئی آگ ابالے گی، وہ اس میں جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پئیں گے جسے «طينة الخبال» کہتے ہیں، یعنی سڑی ہوئی بدبودار کیچڑ“۔ (ترمذی 2492)
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین قسم کے آدمیوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرے گا نہ (رحمت کی نظر سے) دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا، تکبر سے کپڑے کو گھسیٹنے والا، احسان کر کے احسان جتلانے والا اور اپنا سامان جھوٹی قسم کے ذریعے بیچنے والا‘‘ (مسلم، الایمان، باب غلظ تحریم اسبال الازار والمن با لعطیہ 106)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے غرور سے اپنا جامہ گھسیٹا اللہ تعالیٰ اس کی طرف (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا‘‘۔ (بخاری، اللباس، باب من جرثوبہ من الخیلاء 5791۔ مسلم، اللباس، باب تحریم جر الثوب خیلاء 2085)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک آدمی اچھا لباس پہنے، سر میں کنگھا کیے ہوئے غرور و تکبر کے ساتھ چل رہا تھا اللہ نے اسے زمین میں دھنسا دیا وہ قیامت تک اس میں دھنستا رہے گا‘‘۔ (بخاری، اللباس، باب: من جر ثوبہ من الخیلاء 5789۔ مسلم، اللباس 2088)