• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کبیرہ گناہ اور نواقض اسلام

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(20) انبیاء اور اولیاء کی قبروں کو مسجد بنانا:
ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک گرجے کا ذکر کیا جس کو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا۔ اس میں تصویریں تھیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ان (یہود و نصاریٰ) کا کوئی نیک آدمی مر جاتا تو وہ اس کی قبر پر مسجد بناتے اور وہاں صورتیں بناتے۔ یہ لوگ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے بدتر ہوں گے‘‘۔ (بخاری۔427، مسلم، المساجد باب النھی عن بناء المساجد علی القبور 528)
عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی آخری بیماری میں فرمایا: ’’اللہ یہود و نصاریٰ پر لعنت کرے جنہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجد بنا لیا۔ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اگر اس بات کا ڈر نہ ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کو مسجد بنا لیں گے تو آپ کی قبر کھلی جگہ میں ہوتی، حجرہ میں نہ ہوتی‘‘ (بخاری 1330۔ مسلم 529)

(21) ریاکاری:
کسی بھی نیک عمل کی قبولیت کے لیے یہ لازمی شرط ہے کہ وہ ہر قسم کی ریاکاری اور دکھلاوے سے پاک ہو۔ اللہ تعالیٰ منافقین کا حال بیان فرماتا ہے:
يُرَاءُونَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُونَ اللَّـهَ إِلَّا قَلِيلًا ﴿١٤٢﴾ (النساء)
’’صرف لوگوں کو دکھاتے ہیں اور یاد الٰہی تو یونہی برائے نام کرتے ہیں۔‘‘
جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص دکھلاوے کے لیے کوئی عمل کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے قیامت کے دن رسوا کرے گا اور جو کوئی نیک عمل لوگوں کی نظروں میں بڑا بننے کے لیے کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے چھپے عیبوں کو لوگوں کے سامنے ظاہر کر دے گا‘‘۔ (بخاری، الرقاق، باب الریا والسمعہ 6499۔ مسلم الزھد ۔2987)
محمود بن لبید رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں سب سے زیادہ تمہارے بارے میں شرک اصغر سے ڈرتا ہوں‘‘۔ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسول وہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ریا یعنی دکھلاوہ۔ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ فرمائے گا جن کو دکھلانے کے لیے تم اعمال کرتے تھے۔ ان کے پاس جاؤ اور دیکھو کیا وہ تمہیں اس کا اجر (بدلہ) دے سکتے ہیں‘‘ (مسند احمد 24030، 428/5)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس امت میں شرک (اصغر) چیونٹی کی چال سے زیادہ پوشیدہ ہے‘‘۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ ہم اس سے کیسے بچ سکتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(یہ دعا) پڑھو:
’’اَللَّھُمَّ اِنِّی أَعُوْذُ بِکَ اَنْ اُشْرِکَ بِکَ وَاَنَا اَعْلَمُ وَاسْتَغْفِرُکَ لِمَا لَا اَعْلَمُ‘‘۔
’’اے اللہ میں تیری پناہ مانگتا ہوں اس بات سے کہ میں جان بوجھ کر شرک کروں اور معافی چاہتا ہوں (اس شرک سے) جو لا علمی میں ہو جائے ‘‘۔ (ابن حبان، صحیح الجامع 233-3۔)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ سب سے پہلے قیامت کے دن ایک شہید سے سوال و جواب ہو گا۔ اللہ تعالیٰ اسے عطا کی گئی نعمتیں یاد دلائے گا وہ ان کا اقرار کرے گا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں تیری راہ میں لڑ کر شہید ہوا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے بلکہ تو اس لیے لڑا کہ تجھے بہادر کہا جائے پس تحقیق کہا گیا (یعنی تیری نیت دنیا میں پوری ہو گئی) پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر ایک مالدار شخص کو لایا جائے گا اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا وہ اقرار کرے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا کہ میں نے وہ مال تیرے پسندیدہ راستوں میں تیری رضا کے لیے خرچ کیا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے بلکہ تو نے اس لیے خرچ کیا تاکہ لوگ تجھے سخی کہیں پس تحقیق (تجھے سخی) کہا گیا۔ پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ پھر ایک اور شخص لایا جائے گا جس نے (دین کا) علم سیکھا اور سکھایا۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نعمتیں یاد دلائے گا وہ ان کا اقرار کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے کیا عمل کیا؟ وہ کہے گا میں نے علم سیکھا اور دوسروں کو سکھایا تیری رضا کی خاطر قرآن پڑھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو جھوٹا ہے تو نے اس لیے علم حاصل کیا کہ لوگ تجھے عالم کہیں پس تحقیق (تجھے عالم) کہا گیا۔ پھر اسے منہ کے بل گھسیٹ کر آگ میں ڈال دیا جائے گا‘‘۔ (مسلم، الامارہ، باب من قاتل للریا والسمعہ استحق النار 1905)

(22) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے نا امیدی:
سخت سے سخت حالات میں بھی صبر و رضا اور اللہ کی رحمت واسع کی امید کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِن رَّوْحِ اللَّـهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ ﴿٨٧﴾ (یوسف)
’’یقینا اللہ کی رحمت سے نا امید تو صرف کافر ہی ہوتے ہیں‘‘
جابر رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کسی کو بھی موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ وہ اللہ کے بارے میں حسن ظن رکھتا ہو‘‘۔ (مسلم، الجنۃ، باب الامر بحسن الظن باللہ عند الموت 2877)
اللہ کی رحمت سے امید کا یہ مطلب نہیں کہ ہم اس کی تدبیروں سے بے خوف ہو جائیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر یہ دعا کیا کرتے تھے :
’’اللَّهُمَّ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ‘‘
’’اے اللہ! میرے دل کو اپنے دین پر جمائے رکھ‘‘۔
عرض کیا گیا: اے اللہ کے رسول! کیا ہمارے بارے میں آپ کو کوئی اندیشہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمام (لوگوں کے) دل رحمن کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں جیسے وہ چاہے ان کو پھیر دیتا ہے‘‘ ۔ (ابن ماجہ، الدعا، باب دعاء رسول اللہ 3834) (قال الشيخ الألباني: صحيح وقال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف)
اللہ کی رحمت سے امید کے ساتھ اسکا ڈر بھی لازم ہے۔ اپنے گناہوں کا اعتراف کرتے ہوئے اپنے اعمال کو حقیر جاننا چاہیے۔

(23) تکبر کرنا:
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہو گا وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا‘‘۔ ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! آدمی اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کے کپڑے اچھے ہوں، اس کا جوتا اچھا ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’(یہ تکبر نہیں) اللہ تعالیٰ خوبصورت ہے خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ تکبر یہ ہے کہ انسان حق کو جھٹلائے اور لوگوں کو حقیر سمجھے‘‘۔ (مسلم، الایمان باب تحریم الکبر 91)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’عظمت اللہ کی لنگی ہے اور تکبر اس کا اوڑھنا ہے (اللہ تعالیٰ فرماتا ہے) جس نے بھی ان کو مجھ سے چھیننے کی کوشش کی میں اس کو عذاب دوں گا‘‘۔ (مسلم، البر وصلہ، باب تحریم الکبر 2620)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "متکبر (گھمنڈ کرنے والے) لوگوں کو قیامت کے دن میدان حشر میں چھوٹی چھوٹی چیونٹیوں کے مانند لوگوں کی صورتوں میں لایا جائے گا، انہیں ہر جگہ ذلت ڈھانپے رہے گی، پھر وہ جہنم کے ایک ایسے قید خانے کی طرف ہنکائے جائیں گے جس کا نام «بولس» ہے۔ اس میں انہیں بھڑکتی ہوئی آگ ابالے گی، وہ اس میں جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پئیں گے جسے «طينة الخبال» کہتے ہیں، یعنی سڑی ہوئی بدبودار کیچڑ“۔ (ترمذی 2492)
ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تین قسم کے آدمیوں سے قیامت کے دن اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرے گا نہ (رحمت کی نظر سے) دیکھے گا اور نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا، تکبر سے کپڑے کو گھسیٹنے والا، احسان کر کے احسان جتلانے والا اور اپنا سامان جھوٹی قسم کے ذریعے بیچنے والا‘‘ (مسلم، الایمان، باب غلظ تحریم اسبال الازار والمن با لعطیہ 106)
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے غرور سے اپنا جامہ گھسیٹا اللہ تعالیٰ اس کی طرف (رحمت کی نظر سے) نہیں دیکھے گا‘‘۔ (بخاری، اللباس، باب من جرثوبہ من الخیلاء 5791۔ مسلم، اللباس، باب تحریم جر الثوب خیلاء 2085)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک آدمی اچھا لباس پہنے، سر میں کنگھا کیے ہوئے غرور و تکبر کے ساتھ چل رہا تھا اللہ نے اسے زمین میں دھنسا دیا وہ قیامت تک اس میں دھنستا رہے گا‘‘۔ (بخاری، اللباس، باب: من جر ثوبہ من الخیلاء 5789۔ مسلم، اللباس 2088)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(24) اللہ اور اس کے رسول پر جھوٹ بولنا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ تَرَى الَّذِينَ كَذَبُوا عَلَى اللَّـهِ وُجُوهُهُم مُّسْوَدَّةٌ ۚ ﴿٦٠﴾ (الزمر)
’’اور جن لوگوں نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے تو آپ دیکھیں گے کہ قیامت کے دن ان کے چہرے سیاہ ہوں گے۔‘‘
یہ کہنا کہ اللہ تعالی نے فرمایا حالانکہ اللہ نے ایسا نہ کہا ہو یا اللہ کے کلام کی ایسی تفسیر بیان کرنا جو اللہ کے کلام کا مقصود نہ ہو، اللہ تعالی پر جھوٹ باندھنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف من گھڑت روایات منسوب کرکے بیان کرنا بھی اس میں شامل ہے۔ کیونکہ رسول کو اللہ تعالی نے مبعوث فرمایا۔
انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں بے شک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولا اسے چاہیے کہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے‘‘۔ (بخاری، العلم، باب اثم من کذب علی النبی 108 مسلم ۔2)
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھ پر جھوٹ باندھنا دوسروں پر جھوٹ باندھنے کی طرح نہیں ہے لہذا جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے اسے جہنم میں اپنا مقام تیار کر لینا چاہیے‘‘۔ (بخاری، الجنائز ما یکرہ من النیا حہ علی المیت1291، مسلم ۔4)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آخری زمانے میں ایسے دجال اور جھوٹے پیدا ہوں گے جو تمہیں ایسی حدیثیں سنائیں گے جو نہ تم نے سنی ہوں گی نہ تمھارے باپ دادا نے ایسے لوگوں سے اپنے آپ کو دور رکھنا تاکہ وہ تمہیں گمراہ نہ کر دیں اور تمہیں فتنے میں نہ ڈال دیں‘‘۔ (مقدمہ صحیح مسلم 16)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ پیش گوئی پوری ہوئی۔ صوفیاء نے اپنے خاص افکار و نظریات اور عبادات کے خاص طریقوں کو رواج دینے کے لیے اپنی کتابوں میں جن احادیث کا ذکر کیا وہ اکثر موضوع یعنی من گھڑت اور بے بنیاد ہیں۔ خصوصاََ پاک و ہند میں اردو زبان میں تفسیر، فقہ، فضائل اعمال پر لکھی جانے والی اکثر کتابوں میں ضعیف اور موضوع روایات بیان کی گئی ہیں۔ حتیٰ کہ شرک (جس کی کوئی دلیل ممکن ہی نہیں) اور اہل قبور سے مرادیں مانگنے کے ثبوت میں روایات گھڑی گئیں۔ تزکیہ نفس کے نام پر بہت سے وہ اعمال مسلمانوں میں رواج پا گئے جن کا سنت رسول میں ذکر تک نہیں۔
یہاں ان لوگوں کے کفر کا تذکرہ ضروری ہے جنہوں نے بہت سی احادیث صحیحہ کا اس لیے انکار کیا کہ وہ ان کے باطل گمان میں قرآن کے خلاف ہیں۔ دجال کی آمد، عیسیٰ علیہ السلام کا نزول، رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ذاتی حیثیت سے جادو کے بعض اثرات کا ہونا سمیت جس حدیث کو چاہا یہ کہہ کر رد کر دیا کہ یہ قرآن مجید کے خلاف ہیں۔ حالانکہ احادیث رسول کے بغیر نہ تو قرآن مجید کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ ہی قرآن مجید کی تعلیمات اور احکامات پر عمل ممکن ہے۔

(25) نماز چھوڑنا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
فَخَلَفَ مِن بَعْدِهِمْ خَلْفٌ أَضَاعُوا الصَّلَاةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ ۖ فَسَوْفَ يَلْقَوْنَ غَيًّا ﴿٥٩﴾} (مریم)
’’پھر ان کے بعد ایسے نااہل جانشین پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کر دی اور نفسانی خواہشوں کے پیچھے پڑ گئے سو ان کی ہلاکت ان کے آگے آئے گی۔‘‘
فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ ۗ (التوبہ ۱۱)
پس اگر وہ توبہ کریں، نماز قائم کریں اور زکاۃ ادا کریں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں۔
اللہ تعالی نے اس آیت میں بتا دیا کہ اگر مشرک اپنے شرک سے توبہ کرے، نماز قائم کرے اور زکاۃ ادا کرے تو وہ دینی بھائی یعنی مسلمان بنے۔
مَا سَلَكَكُمْ فِي سَقَرَ ﴿٤٢﴾ قَالُوا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّينَ ﴿٤٣﴾ (المدثر)
’’(جنتی جہنم میں جلنے والے مجرموں سے پوچھیں گے) تمہیں دوزخ میں کس چیز نے ڈالا وہ جواب دیں گے ہم نمازی نہ تھے‘‘
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک بندے اور شرک اور کفر کے درمیان فرق نماز کا چھوڑ دینا ہے‘‘۔ (مسلم، الایمان بیاں اطلاق اسم الکفر علی من ترک الصلوٰۃ 82)
یعنی ترک نماز مسلمان کو کفر تک پہنچانے والا عمل ہے۔
بریدہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہمارے اور منافقوں کے درمیان عہد نماز ہے۔ جس نے نماز چھوڑ دی پس اس نے کفر کیا‘‘۔ (ترمذی، الایمان، باب ما جاء فی ترک الصلوٰۃ 2621)
یعنی منافقوں کو جو امن حاصل ہے، وہ قتل نہیں کیے جاتے اور ان کے ساتھ مسلمانوں جیسا سلوک کیا جاتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ نماز پڑھتے ہیں۔
ابو دردا رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص جان بوجھ کر فرض نماز چھوڑ دے تو یقینا اس (کی بابت اللہ کا معاف کرنے) کا ذمہ ختم ہو گیا‘‘۔ (ابن ماجہ، الفتن باب الصبر علی البلاء 4034)
عبداللہ بن شقیق روایت کرتے ہیں کہ اصحاب رسول رضی اللہ عنہم اعمال میں سے کسی چیز کے ترک کو کفر نہیں سمجھتے تھے سوائے نماز کے۔ (ترمذی۔ 2622)
ان احادیث سے واضح ہے کہ کلمہ توحید کے بعد نماز وہ فرض ہے جو کسی شکل میں معاف نہیں، آدمی مقیم ہو یا مسافر، حالت امن ہو یا حالت جنگ، آدمی صحت مند ہو یا مریض نماز بہرحال اس کو ادا کرنا ہو گی۔ مریض کھڑے ہو کر نہ پڑ سکے تو بیٹھ کر پڑھ لے۔ بیٹھنے کی ہمت نہیں تو لیٹ کر پڑھ لے۔ رکوع اور سجدہ اشارہ سے کر لے لیکن جب تک ہوش و حواس باقی ہے، نماز کی معافی نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہو رہے تھے تو نماز کی بار بار تاکید کر رہے تھے۔
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا آخری کلام یہ تھا: ’’نماز (ادا کرنا) اور غلاموں (کا خیال رکھنا)‘‘ (ابن ماجہ الوصایا، باب ھل اوصیٰ رسول اللہ 2698)

(26) جمعہ اور جماعت کا تارک:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگوں کو جمعہ چھوڑنے سے باز آجانا چاہیے ورنہ اللہ تعالیٰ ان کے دلوں پر مہر لگا دے گا پھر وہ غافلوں میں سے ہو جائیں گے‘‘۔ (مسلم، الجمعہ، باب التغلیظ فی ترک الجمعہ 865)
ابو الجعد ضمری سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص سستی کی وجہ سے تین جمعہ چھوڑ دے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل پر مہر لگا دیتا ہے‘‘۔ (ابو داود: الجمعۃ، باب: التشدید فی ترک الجمعہ 1052)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرا دل چاہتا ہے کہ میں کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر میں ان لوگوں کے گھروں کو جلا دوں جو بلا عذر جمعہ میں نہیں آتے‘‘۔ (مسلم، المساجد، باب فضل صلاۃ الجماعۃ: 652)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے البتہ میں نے ارادہ کیا کہ میں لکڑیوں کے جمع کرنے کا حکم دو۔ پھر اذان کہلواؤں اور کسی شخص کو امامت کے لیے کہوں پھر ان لوگوں کے گھر جلا دو ں جو نماز (باجماعت) میں حاضر نہیں ہوتے‘‘۔ (بخاری، الاذان، باب وجوب صلاۃ الجماعۃ 644۔ مسلم، المساجد، باب فضل صلاۃ الجماعۃ 651)
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اذان سننے کے باوجود بغیر عذر کے نماز کے لیے (مسجد میں) نہیں آتا اس کی نماز نہیں ہوتی‘‘۔ (ابن ماجہ، المساجد، باب التغلیظ فی التخلف عن الجماعۃ 793)

(27) زکوٰۃ ادا نہ کرنا:
اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر زکوٰۃ فرض کی۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر نماز قائم کرنے کے حکم کے ساتھ ہی زکوٰۃ ادا کرنے کا حکم دیا۔ خلافت اسلامیہ کی ذمہ داری ہے کہ لوگوں سے زبردستی زکوٰۃ وصول کرے۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے حکم ملا ہے کہ میں لوگوں سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کا اقرار کریں۔ نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔ جب وہ یہ کام کر لیں گے تو ان کی جان اور ان کا مال مجھ سے محفوظ ہو گیا۔ ہاں اسلام کا حق ان سے لیا جائے گا اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے‘‘۔ (بخاری 25۔ مسلم 22)
جو قوم زکوٰۃ ادا نہیں کرتی تو ان کے اعمال کی نحوست کی وجہ سے آسمان سے بارش نازل نہیں ہوتی۔
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب کوئی قوم زکوٰۃ ادا نہیں کرتی تو آسمان سے ان کے لیے بارش روک دی جاتی ہے اور اگر جانور نہ ہوں تو ایک قطرہ بھی بارش کا نہ برسے‘‘ (ابن ماجہ، الفتن، باب العقوبات 4019)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا قیامت کے دن اس کے مال کو آگ کی تختیاں بنا دیا جائے گا جس سے اس کے دونوں پہلوؤں کو، پیشانی اور کمر کو داغا جائے گا۔ یہ دن پچاس ہزار سال کا ہو گا اور لوگوں کے فیصلے ہو جانے تک اس کا یہی حال رہے گا اس کے بعد جنت یا جہنم میں اسے لے جایا جائے گا‘‘۔ (مسلم، الزکوٰۃ باب اثم مانع الزکوٰۃ 987)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کو اللہ تعالیٰ نے مال عطا کیا مگر وہ اس کی زکوٰۃ ادا نہیں کرتا تو وہ مال اس کے لیے ایک زہریلا اور نہایت خوفناک سانپ بنا کر طوق کی طرح اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ وہ سانپ اس کی بانچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں، میں تیرا خزانہ ہوں پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت کی:
وَلَا يَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَبْخَلُونَ بِمَا آتَاهُمُ اللَّـهُ مِن فَضْلِهِ هُوَ خَيْرًا لَّهُم ۖ بَلْ هُوَ شَرٌّ لَّهُمْ ۖ سَيُطَوَّقُونَ مَا بَخِلُوا بِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ (آل عمران 180)
’’جنہیں اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے کچھ دے رکھا ہے وہ اس میں اپنی کنجوسی کو اپنے لیے بہتر خیال نہ کریں بلکہ وہ ان کے لیے نہایت بدتر ہے۔ عنقریب قیامت کے دن یہ اپنی کنجوسی کی چیز کے طوق ڈالے جائیں گے‘‘۔ (بخاری، التفسیر، آل عمران۔4565)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوتے ہی عرب کے بعض لوگوں نے کفر اختیار کیا (یعنی زکوۃ دینے سے انکار کر دیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے جنگ کرنے کا ارادہ کیا) عمر رضی اللہ عنہ نے کہا آپ ان لوگوں سے کیسے لڑ سکتے ہیں حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک وہ لا الہٰ الا اللہ نہ کہیں۔ پھر جس نے یہ کلمہ پڑھ لیا تو اس نے اپنا مال اور اپنی جان کو مجھ سے بچا لیا مگر کلمہ کا جو حق ہے وہ اس سے ضرور لیا جائے گا اور اس کا حساب اللہ کے ذمے ہو گا‘‘۔ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا ’’اللہ کی قسم میں ضرور اس سے لڑوں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں تفریق کرے گا (یعنی جو نماز تو پڑھے گا لیکن زکوٰۃ ادا نہیں کرے گا) اللہ کی قسم اگر ایک اونٹ کا بچہ بھی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا کرتے تھے مجھے نہ دیں گے تو میں ضرور ان سے اس بچہ کو روک لینے پر جنگ کروں گا‘‘۔ عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ’’اللہ کی قسم اللہ نے ابو بکر کا سینہ کھول دیا تھا۔ بعد میں میں بھی سمجھ گیا کہ یہ حق ہے‘‘ (یعنی جنگ کرنا ضروری ہے)۔ (بخاری، الزکاۃ باب وجوب الزکوٰۃ: 1399۔ مسلم: الایمان باب الامر بقتال الناس 20)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(28) بغیر عذر کے رمضان کا روزہ چھوڑنا:
کتاب و سنت اور اجماع امت سے رمضان کے مہینے کے روزوں کا فرض ہونا ثابت ہے۔ اور یہ اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک رکن ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ (البقرۃ 183)
’’اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔‘‘
فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ (البقرۃ 185)
’’جو تم میں سے (رمضان کے) مہینہ کو پائے وہ اس کے روزے رکھے۔‘‘
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ایک آدمی نے کہا کہ آپ ہر سال حج کرتے ہیں۔ اور ہر سال عمرہ کرتے ہیں اور آپ نے اللہ کے راستے میں جہاد کرنا کیوں چھوڑ دیا ہے؟ تو فرمانے لگے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا: ’’اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے۔ لا الہٰ الا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ کی گواہی دینا، نماز قائم کرنا، زکوٰۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا اور خانہ کعبہ کا حج کرنا‘‘۔ (بخاری، التفسیر، باب وقاتلوھم حتی لا تکون فتنۃ4514، مسلم، الایمان، بیان ارکان الاسلام و دعائمہ الفطام 16)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس کی ناک خاک آلود ہو جس کے پاس میرا ذکر ہوا اور اس نے مجھ پر درود نہیں پڑھا۔ اور اس کی ناک خاک آلود ہو جس نے رمضان پایا اور اپنی بخشش نہیں کروائی اور اس کی ناک خاک آلود ہو جس نے اپنے والدین کا بڑھاپا پایا اور جنت میں داخل نہیں ہوا‘‘۔ (ترمذی، الدعوات، باب: قول رسول اللہ رغم انف رجل۔3545)

(29) استطاعت کے باوجود حج نہ کرنا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَلِلَّـهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا ۚ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللَّـهَ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ (آل عمران 97)
’’اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پا سکتے ہیں اس گھر کا حج فرض کر دیا ہے۔ اور جو کوئی کفر کرے تو اللہ تعالیٰ (اس سے بلکہ) تمام دنیا سے بے پرواہ ہے۔‘‘
استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے کو اللہ تعالیٰ نے کفر سے تعبیر کیا ہے جس سے حج کی فرضیت اور اس کی تاکید میں کوئی شبہ نہیں رہتا۔
حج اسلام کے پانچ ارکان میں سے ایک اہم رکن ہے۔ حج ادا کرنے کے بعد ایک مسلمان کو دنیوی اور اخروی فائدے ملتے ہیں۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پے درپے حج اور عمرے کا اہتمام کیا کرو کیونکہ یہ دونوں کام گناہوں اور غربت کو اس طرح ختم کر دیتے ہیں جس طرح بھٹی لوہے،سونے اور چاندی کی میل کچیل کو ختم کر دیتی ہے۔ اور مقبول حج کا ثواب جنت کے علاوہ کچھ نہیں‘‘۔ (ترمذی، الحج باب ما جاء فی ثواب الحج والعمرہ 810)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے حج کیا اور حج کے دوران جنسی باتوں سے اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانیوں سے اجتناب کیا وہ اپنے گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہو گیا جس دن اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا‘‘۔ (بخاری 1819۔ مسلم، الحج، باب فی فضل الحج والعمرہ 1350)

(30) کسی مومن کو ناحق قتل کرنا:
ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حجۃ الوداع کے موقع پر میدان عرفات میں ۹ ذو الحجہ کو) خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’تمہارا خون، تمہارا مال اور تمہاری عزت تم پر آپس میں اس طرح حرام ہے جس طرح تمہارے لیے اس دن (۹ ذوالحجہ) کی اور اس شہر (مکہ) کی اور اس مبارک مہینے (ذوالحجہ) کی حرمت ہے‘‘۔ (بخاری، الحج، باب الخطبہ ایام منیٰ۔1739)
جب مومن کے خون کی یہ حرمت ہے تو اسے ناحق بہانا حقوق العباد میں سب سے بڑا جرم ہے۔
عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص ہم پر ہتھیار اٹھائے وہ ہم میں سے نہیں ہے‘‘۔ (بخاری 6874، مسلم، الایمان، باب قول النبی من حمل علینا السلاح فلیس منا 98)
یعنی ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر ہتھیار اٹھانا کبیرہ گناہ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَمَن يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا (النساء 93)
’’اور جو کوئی کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر ڈالے اس کی سزا دوزخ ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اس پر اللہ تعالیٰ کا غضب ہے۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے لعنت کی ہے اور اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
أَنَّهُ مَن قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا (المائدہ 32)
’’جو شخص کسی کو بغیر اس کے کہ وہ کسی کا قاتل ہو یا زمین میں فساد مچانے والا ہو، قتل کر ڈالے تو گویا اس نے تمام لوگوں کو قتل کر دیا۔‘‘
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں سونت کر ایک دوسرے کو (مارنے کی نیت سے) ملتے ہیں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔ عرض کیا گیا کہ قاتل کا جہنمی ہونا تو سمجھ میں آتا ہے۔ مقتول کیوں جہنمی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ وہ بھی تو اپنے مسلمان بھائی کے قتل کا خواہشمند تھا‘‘ (بخاری، الفتن، باب اذا التقی المسلمان بسیفیھما 7083۔ مسلم، الفتن، باب اذا تواجہ المسلمان بسیفیھما 2888)
اگر کوئی مسلمان کسی باغی یا چور ڈاکو سے اپنی جان یا مال کی حفاظت کے لیے مدافعت کرے گا تو اس کے لیے یہ وعید نہیں ہے۔
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد کافر مت ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو‘‘۔ (بخاری: 1742، مسلم، الایمان، باب بیان معنی قول النبی لا ترجعوا بعدی کفارا 65)
مسلمان کے خون کی اہمیت اور اسے قتل کر دینے کا جرم اتنا سنگین ہے کہ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک مسلمان کے قتل کے مقابلے میں پوری دنیا کا تباہ و برباد ہو جانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ معمولی بات ہے‘‘ (ترمذی، الدیات، باب ما جاء فی تشدید قتل المومن 1395)
ابو سعید خدری اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر زمین و آسمان کے رہنے والے کسی ایک مومن کے قتل میں شریک ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ لازماََ ان سب کو جہنم میں اوندھے منہ پھینک دے گا۔ (ترمذی 1398 قال الشيخ الألباني: صحيح، قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف)
قتل مومن کا معاملہ انتہائی سنگین ہے۔ اس کی معافی کی شرط پوری خلوص سے توبہ کرنا ہے۔
اگر کوئی توبہ کی بجائے کسی مومن کو قتل کرنے پر خوش ہو اور اس کو کارنامہ سمجھے تو اسکی نجات مشکل ہے۔
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی مومن کو قتل کیا اور اپنے اس فعل پر خوش ہوا۔ اللہ تعالیٰ اس کے نہ فرض قبول کرے گا اور نہ کوئی نفل‘‘۔ (ابو داود 4270)
ابو دردا رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر گناہ کی توقع ہے کہ اللہ تعالیٰ معاف فرما دے گا سوا ئے اس آدمی کے جو حالت شرک میں مر جائے یا جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کر دے‘‘۔ (ابو داود، الفتن و الملاحم، باب فی تعظیم قتل المومن 4270)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن لوگوں میں سب سے پہلے خون کا فیصلہ کیا جائے گا‘‘۔ (بخاری، الرقاق، باب القصاص یوم القیامۃ 6533۔ مسلم، القسامہ والمحارمین، باب المجازاۃ بالدما فی الآخرہ 1678)
کسی مسلمان کا قتل قصاص یا حدود یا تعزیرات کے اعتبار سے صرف وقت کا مسلمان حاکم یا اس کا نائب کر سکتا ہے۔ انفرادی طور پر کسی مسلمان کو یہ حق نہیں کہ وہ دوسرے مسلمان کو قتل کرے۔ ورنہ مذکورہ وعیدوں کا وہ مستحق بنے گا۔
غیر مسلم معاہد کا قتل:
غیر مسلم (جو اسلامی حکومت میں عہد و پیمان کے ساتھ رہ رہا ہو) کو قتل کرنا بھی کبیرہ گناہ ہے۔
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی غیر مسلم کو جو سلطنت اسلامیہ میں عہد و پیمان کے ساتھ رہ رہا ہو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پا سکتا جب کہ جنت کی خوشبو چالیس سال کی مسافت کی دوری سے سونگھی جا سکتی ہے‘‘ (بخاری، الدیاتم باب اثم من قتل ذمیا بغیر جرم 6914)
غیر مسلم اگر اسلامی حکومت کو جزیہ ادا کرے تو اسلامی حکومت اس کی جان و مال اور عزت و آبرو کی محافظ ہوتی ہے۔ اس لیے اس کا قتل سنگین جرم ہے۔
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے کسی معاہد (وہ کافر جس نے کسی اسلامی حکومت کے زیر سایہ رہنے کیلئے مسلمان حاکم وقت سے معاہدہ کیا ہو) کو اس کے معاہدہ ختم ہونے سے پہلے قتل کیا اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی ہے‘‘ (ابو داود، الجھاد، باب فی الوفاء للمعاھد 2760)

(31) اولاد کا قتل:
اپنی اولاد کو قتل کرنا کبیرہ گناہ ہے۔ یہ جاہلانہ قدم وہی انسان اٹھا سکتا ہے جو مال و دولت کی ہوس پرستی میں مبتلا ہو۔ اور اس کو یہ خوف ہو کہ اولاد کو کھلانا پڑے گا اور وہ میرے بھوک و افلاس کا سبب بنے گی۔ اللہ تعالیٰ فرماتاہے:
وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ ۖ نَّحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ ۚ إِنَّ قَتْلَهُمْ كَانَ خِطْئًا كَبِيرًا (بنی اسرائیل 31)
’’اپنی اولاد کو افلاس کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور تمہیں بھی۔ درحقیقت ان کا قتل ایک بڑی خطا ہے‘‘
قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ قَتَلُوا أَوْلَادَهُمْ سَفَهًا بِغَيْرِ عِلْمٍ (الانعام 140)
’’یقینا خسارے میں پڑ گئے وہ لوگ جنہوں نے اپنی اولاد کو حماقت اور نادانی کی بنا پر قتل کیا‘‘۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا حالانکہ اس نے تجھے پیدا کیا‘‘۔ عرض کیا اس کے بعد کونسا گناہ بڑا ہے؟ فرمایا: ’’اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ وہ تیرے ساتھ کھانا کھائے گی‘‘۔ عرض کیا پھر کونسا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یہ کہ تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے‘‘۔ (بخاری, التفسیر، باب: فلا تجعلوا للہ اندادا وانتم تعلمون 4477۔ مسلم, الایمان, باب کون الشرک اقبح الذنوب 86)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(32) خود کشی:
بعض لوگ دنیا کی عارضی تکالیف پر صبر کرنے کی بجائے اپنے آپ کو قتل کر لیتے ہیں۔ ان بد نصیبوں کا تقدیر اور آخرت پر ایمان صحیح نہیں ہوتا۔ مرنے کے بعد خود کشی کرنے والوں کے لیے جس عذاب اور مصیبت کا احادیث صحیحہ میں ذکر ہے اگر ان پر صحیح ایمان ہو تو کوئی مسلمان خود کشی کا سوچ بھی نہیں سکتا۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے اپنے آپ کو دھار والی چیز کے ذریعے قتل کیا تو دھار والی وہ چیز اس کے ہاتھ میں ہو گی، وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ اپنے پیٹ کو اس کے ذریعے چیرتا رہے گا اور جس نے زہر پی کر اپنے آپ کو قتل کیا جہنم کی آگ میں وہ زہر کو اپنے اندر انڈیلتا رہے گا اور جس نے اپنے آپ کو پہاڑ سے گرا کر قتل کیا وہ جہنم کی آگ میں ہمیشہ اسی طرح اپنے آپ کو گراتا رہے گا‘‘۔ (بخاری۔ الطب۔ باب شرب السم والدواء بہ 5778۔ مسلم۔ الایمان۔ باب غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ 109)
جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم سے پہلے گذرے ہوئے لوگوں میں ایک زخم خوردہ آدمی تھا جس نے تکلیف سے گھبرا کر چھری سے اپنا ہاتھ کاٹ دیا جس سے اس قدر خون نکلا کہ وہ مر گیا۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اس بندے نے میرے حکم (موت) سے پہلے اپنے بارے میں جلدی کی میں نے اس پر جنت حرام کر دی‘‘۔ (بخاری۔ احادیث الانبیاء۔ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل 3463۔ مسلم: الایمان باب غلط تحریم قتل الانسان نفسہ 113)
ثابت بن ضحاک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’مومن کو لعنت کرنا اس کے قتل کرنے کے برابر ہے۔ جس نے کسی مومن کو کافر کہا تو وہ گویا اس کے قتل کرنے کی طرح ہے جس کسی نے کسی چیز سے خودکشی کی قیامت تک اسے اسی سے عذاب دیا جائے گا‘‘۔ (بخاری۔ الایمان والنذور۔ باب من حلف بملۃ سوی ملۃ الاسلام 6652۔ مسلم الایمان۔ غلظ تحریم قتل الانسان نفسہ 110)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنگ میں بہادری سے لڑنے والے کو جہنمی کہا۔ یہ شخص لڑتے لڑتے زخمی ہو گیا۔ زخموں نے اسے بے تاب کر دیا اس نے موت کے لیے جلد بازی کی اور اپنی تلوار سے خود کشی کر لی۔ (بخاری۔ الجھاد والسیر باب لا یقول فلان شھید 2898۔ مسلم: 112)
رحمۃ العالمین صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کشی کرنے والے کی نماز جنازہ پڑھانے سے انکار کیا۔
جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک جنازہ لایا گیا جس نے تیز دھار ہتھیار سے اپنے آپ کو قتل کیا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ نہیں پڑھی‘‘۔ (مسلم۔ الجنائز۔ باب ترک الصلاۃ علیٰ القاتل نفسہ 978)

{33} والدین کی نافرمانی کرنا:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ إِمَّا يَبْلُغَنَّ عِندَكَ الْكِبَرَ أَحَدُهُمَا أَوْ كِلَاهُمَا فَلَا تَقُل لَّهُمَا أُفٍّ وَلَا تَنْهَرْهُمَا وَقُل لَّهُمَا قَوْلًا كَرِيمًا ﴿٢٣﴾ وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ﴿٢٤﴾ (بنی اسرائیل)
’’اور تیرا پروردگار صاف صاف حکم دے چکا ہے کہ تم اس کے سوا کسی اور کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ کے ساتھ احسان کرنا۔ اگر تیری موجودگی میں ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے آگے اف تک نہ کہنا۔ نہ انہیں ڈانٹ ڈپٹ کرنا بلکہ ان کے ساتھ ادب و احترام سے بات چیت کرنا اور عاجزی اور محبت کے ساتھ ان کے سامنے تواضع کا بازو پست رکھے رکھنا اور دعا کرتے رہنا کہ اے میرے پروردگار! ان پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔‘‘
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں سب سے بڑے گناہوں کے متعلق نہ بتاؤں؟‘‘ عرض کیا گیا یا رسول اللہ! ضرور بتائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی بات کہنا یا جھوٹی گواہی دینا‘‘۔ (بخاری۔ الشھادات۔ باب ما قیل فی شھادۃ الزور: 2654۔ مسلم: الایمان۔ باب بیان الکبائر و اکبرھا 87)
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی رضا مندی والد کی رضامندی میں ہے اور اللہ تعالیٰ کی ناراضگی والد کی ناراضگی میں ہے‘‘۔ (ترمذی۔ البر والصلہ۔ باب الفضل فی رضا الوالدین 1899)
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’والد جنت کے دروازوں میں سے بہترین دروازہ ہے پس تو اس کی حفاظت کر‘‘۔ (ترمذی 1900)
مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیشک اللہ نے تم پر ماؤں کی نافرمانی، کنجوسی، بھیک مانگنا، اور بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا حرام قرار دیا ہے۔ اور فضول بحث مباحثہ، سوالات کی کثرت اور مال ضائع کرنے کو ناپسند قرار دیا ہے‘‘ (بخاری: 2408)
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’والدین کا نافرمان، احسان جتلانے والا اور شراب پینے کا عادی جنت میں داخل نہیں ہوں گے‘‘۔ (النسائی۔ الاشریہ۔ باب الروایۃ فی المد منین فی الخمر 5675)
والدین سے محترم رشتہ کوئی نہیں۔ اس لیے والدین کی نافرمانی سخت گناہ ہے۔ وہ بہت بدنصیب ہے جو اپنے والد کی بد دعا لے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بلا شبہ تین قسم کے لوگوں کی دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں۔ مظلوم کی دعا، مسافر کی دعا، اور والد کی اپنی اولاد کے لیے بد دعا‘‘۔ (ابو داود۔ الوتر۔ باب الدعا بظھر الغیب 1536)
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک صحابی نے عرض کیا اے اللہ کے رسول میرے پاس مال بھی ہے اور اولاد بھی ہے۔ میرا والد مجھ سے میرا مال لینا چاہتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تو اور تیرا مال تیرے والد ہی کی ملکیت ہے۔ بے شک تمہاری اولاد تمہاری بہترین کمائی ہے پس اپنی اولاد کی کمائی میں سے کھاؤ۔ (ابو داؤد 3530، ابن ماجہ 2291)۔
یہی وجہ ہے کہ شریعت نے والدین کی نافرمانی کو بڑا جرم قرار دیا ہے۔ والدین کو ملامت کرنے والوں کو سخت تنبیہ کی ہے بلکہ بالواسطہ طور پر بھی اگر کوئی اپنے والدین کے لیے ملامت یا گالی کا سبب بنے تو وہ بھی ملعون ہے۔
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ کی اس پر لعنت جو اپنے والدین پر لعنت کرے‘‘ (مسلم۔ الاضاحی۔ باب تحریم الذبح لغیر اللہ ولعن فاعلہ 1978)
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے ماں باپ کو گالی دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے‘‘۔ عرض کیا گیا: یا رسول اللہ اپنے ماں باپ کو کون گالی دے سکتا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کسی کے ماں یا باپ کو گالی دے اور وہ پلٹ کر اس کے ماں باپ کو گالی دے (تو اس طرح اپنے ماں باپ کو گالی کھلانے کا سبب بننا بھی کبیرہ گناہ ہے)‘‘۔ (بخاری الادب۔ باب لا یسب الرجل والدیہ: 5973۔ مسلم: الایمان، باب: بیان الکبائر واکبرھا 90)
والدین کی ہر بات مانے بشرطیکہ وہ اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کا حکم نہ دیں۔
وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا (لقمان 15)
’’اور اگر وہ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ اس کو شریک بنائے جس کا تجھے کچھ علم بھی نہیں تو ان کا کہا نہ مان اور دنیا میں اچھے انداز سے ان سے نباہ کر‘‘
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں ہے۔ اطاعت تو صرف معروف کاموں میں ہے‘‘۔ (بخاری: اخبار الاحاد ۷۲۵۷۔ مسلم: ۱۸۴۰)

(34) باپ کی بجائے دوسرے کی طرف نسبت کرنا:
سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص جان بوجھ کر (اپنے باپ کو چھوڑ کر) غیر کی طرف نسبت کرے اس پر جنت حرام ہے‘‘۔ (بخاری۔ المغازی، باب غزوۃ الطائف 4326، مسلم۔ الایمان۔ بیان حال ایمان من رغب عن ابیہ 63)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے باپوں سے اعراض نہ کرو جس نے اپنے باپ سے اعراض کیا اس نے کفر کیا‘‘۔ (بخاری: الفرائض۔ من ادعی الی غیر ابیہ 6768، مسلم 62)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے اپنے باپ کے علاوہ دوسرے کی طرف نسبت کی اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہے۔ قیامت کے دن اس کے نہ فرض قبول ہونگے نہ نفل‘‘۔ (بخاری، فضائل المدینہ باب حرم المدینہ 1870، مسلم۔ الحج۔ باب فضل المدینۃ 1370)
ان احادیث کی رو سے کسی مسلمان کے لیے شرعی طور پر قطعاََ جائز نہیں کہ وہ دنیاوی ضروریات کے حصول کے لیے سرکاری کاغذات میں یا بطور انتقام اپنا نسب نامہ کسی دوسرے شخص سے منسوب کر لے۔

(35) جن پر خرچ کرنے کی ذمہ داری ہو ان پر خرچ نہ کرنا:
خیثمہ نے کہا کہ ہم عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ ان کا داروغہ آیا۔ عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا تم نے غلاموں کو خرچ دے دیا؟ اس نے کہا نہیں۔ انہوں نے کہا: جلدی سے جاؤ۔ اور انہیں خرچ دے کر آؤ اس لیے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آدمی کو اتنا ہی گناہ کافی ہے کہ جس کا خرچ اس کے ذمہ ہے اس کا خرچ روک لے‘‘ (مسلم۔ الزکاۃ باب فضل النفقۃ علی العیال 996)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک اشرفی تم نے اللہ کی راہ میں دی اور ایک اشرفی کسی غلام کو آزاد کرنے میں دی اور ایک کسی مسکین کو دی اور ایک تم نے اپنے گھر والوں پر خرچ کی تو ثواب کی رو سے سب سے زیادہ اجر اس اشرفی پر ہے جو تم نے گھر والوں پر خرچ کی‘‘ (مسلم 995)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(36) جائیداد کی غلط تقسیم:
بعض بد نصیب اپنی جائیداد کی تقسیم اس طریقے سے نہیں کرنا چاہتے جس طرح اللہ تعالیٰ نے کرنے کا حکم دیا ہے۔ وہ بیٹی کو حصہ دینا اپنی خاندانی روایات کے خلاف سمجھتے ہیں۔ اس کے لیے وہ اپنی زندگی میں جائیداد بیٹوں اور بعض بدبخت اپنے پوتوں کے نام کروا دیتے ہیں تاکہ بیٹی یا پوتیاں اور نواسیاں جائیداد کا مطالبہ نہ کر سکیں۔ بعض اوقات جھوٹ بول کر اپنے اوپر قرضہ کا اقرار کرتے ہیں اس طرح وارثوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ بعض اوقات خلاف شرع وصیت کر جاتے ہیں۔ یہ کبیرہ گناہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے میراث کے مسائل بیان فرمائے۔ پھر فرمایا:
تِلْكَ حُدُودُ اللَّـهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٣﴾ وَمَن يَعْصِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ ﴿١٤﴾ (النساء)
’’یہ حدیں اللہ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی فرماں برادری کرے گا اسے اللہ تعالیٰ ان جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہوں گی، جن میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ اور یہ بڑی کامیابی ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی مقررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنم میں داخل کرے گا جس میں وہ ہمیشہ رہے گا۔ اور ایسوں کے لیے ذلیل کرنے والا عذاب ہے‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے ان فرائض اور اس مقدار کو جسے اللہ نے مقرر کیا ہے اور میت کے وارثوں کو اس کی قرابت کی نزدیکی اور ان کی حاجت کے مطابق جتنا دلوایا ہے اسے ’’اللہ کی مقرر کردہ حدیں‘‘ قرار دیا اور جو اللہ کے مقرر کردہ حصہ میں کسی حیلہ سے کسی وارث کو کم و بیش دلوانے کی کوشش کرے گا ایسا شخص ہمیشہ کے عذاب میں مبتلا ہو گا۔

(37) قریبی رشتہ داروں سے قطع تعلق کر لینا اور صلہ رحمی نہ کرنا:
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
فَهَلْ عَسَيْتُمْ إِن تَوَلَّيْتُمْ أَن تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ وَتُقَطِّعُوا أَرْحَامَكُمْ ﴿٢٢﴾ أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ فَأَصَمَّهُمْ وَأَعْمَىٰ أَبْصَارَهُمْ ﴿٢٣﴾ (محمد)
’’اور تم سے یہ بھی بعید نہیں کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو تم زمین میں فساد برپا کرو اور رشتے ناتے توڑ ڈالو۔ یہ وہی لوگ ہیں جن پر اللہ کی لعنت ہے اور جن کی سماعت اور آنکھوں کی روشنی چھین لی ہے‘‘۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے رحم (رشتہ داری) سے فرمایا کہ جو تجھے ملائے گا اللہ اسے ملائے گا اور جو تجھے توڑے گا اللہ اسے توڑے گا‘‘۔ (بخاری۔ الادب۔ باب من وصل وصلہ اللہ 5987 مسلم۔ البر والصلہ۔ باب صلۃ الرحم وتحریم قطیعتھا 2554)
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص صلہ رحمی کرنے والا نہیں ہے جو (کسی رشتہ دار کے ساتھ) احسان کے بدلے میں احسان کرتا ہے بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے والا وہ ہے جب اس سے قطع رحمی (بدسلوکی) کی جائے تو وہ صلہ رحمی (اچھا سلوک) کرے۔ (بخاری 5991)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جو شخص اپنی روزی میں فراخی اور عمر میں اضافہ چاہتا ہے تو وہ صلہ رحمی کرے۔ (بخاری: 5986، مسلم :2557)۔
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’رشتہ داروں کے ساتھ بدسلوکی (قطع رحمی) کرنے والا جنت میں داخل نہیں ہو گا‘‘۔ (بخاری: الادب، باب: اثم القاطع 5984۔ مسلم: 2556)
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی گناہ اس لائق نہیں کہ اللہ اس کے مرتکب کو بہت جلد دنیا ہی میں اس کا بدلہ دے اور آخرت میں اس کو عذاب دے، سوائے دو گناہوں کے (۱) امام وقت کے خلاف بغاوت کرنا (۲) رشتہ داروں کے ساتھ قطع رحمی کرنا۔‘‘ (ابن ماجہ: 4211)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’1۔ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ مہمان کی عزت کرے 2۔ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا ہو اسے چاہیے کہ رشتہ داروں کے ساتھ حسن سلوک کرے 3۔ جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ بھلائی کی بات کرے یا پھر خاموش رہے‘‘ (بخاری۔ الادب۔ باب اکرام الضیف 6138، مسلم۔ الایمان۔ الحث علی اکرام الجار والضیف 47)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(38) خاوند کی نافرمانی:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب آدمی اپنی بیوی کو اپنے بستر کی طرف بلائے اور وہ نہ آئے اور اس کا خاوند وہ رات اس سے ناراضگی کی حالت میں گزارے تو صبح تک فرشتے اس عورت پر لعنت کرتے ہیں اور وہ اللہ جو آسمانوں پر ہے اس پر ناراض رہتا ہے یہاں تک کہ خاوند اس سے راضی ہو جائے‘‘۔ (بخاری۔ بدء الخلق باب اذا قال احدکم آمین 3237، مسلم۔ النکاح۔ باب تحریم امتنا عھا من فراش زوجھا 1436)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو میں عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے خاوند کو سجدہ کرے‘‘ (ترمذی۔ الرضاع۔ باب ماجاء فی حق الزوج علی المراۃ 1159)
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو عورت دنیا میں اپنے خاوند کو ایذا پہنچاتی ہے تو اس کی حورعین میں سے ہونے والی بیوی کہتی ہے۔ اللہ تجھے ہلاک کرے۔ اسے ایذا مت پہنچا۔ کیونکہ یہ تو تیرے پاس چند روزہ مہمان ہے۔ عنقریب یہ تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آنے والا ہے‘‘۔ (ترمذی۔ الرضاع 1174، ابن ماجہ۔ النکاح۔ باب فی المراۃ توذی زوجھا 2014)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب عورت پانچ وقت کی نماز پڑھے، رمضان کے روزے رکھے اور اپنے خاوند کی اطاعت کرے وہ جنت میں جس دروازے سے چاہے داخل ہو جائے‘‘۔
(ابن حبان: 4163 صحیح الجامع 661)۔
خاندوں کی ناشکری کرنا اور طلاق طلب کرنا:
جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے فرمایا: ’’صدقہ کرو، اس لیے کہ عورتیں کثرت سے جہنم کا ایندھن ہوں گی‘‘ ایک عورت نے پوچھا ایسا کیوں ہو گا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم کثرت سے شکایت کرتی ہو اور شوہر کی ناشکری کرتی ہو‘‘ (مسلم، صلاۃ العیدین 885)
بہت سی عورتیں معمولی اختلاف کی بنا پر طلاق طلب کرنے میں جلد بازی کرتی ہیں جبکہ اسلام نے بغیر عذر کے طلاق طلب کرنے کو حرام قرار دیا۔
ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس عورت نے بغیر کسی سبب کے اپنے خاوند سے طلاق طلب کی اس پر جنت کی خوشبو بھی حرام ہے‘‘ (ترمذی الطلاق 1187)
اگر شرعی عذر موجود ہے مثلاً خاوند نماز نہیں پڑھتا، نشہ آور چیزوں کا استعمال کرتا ہے، کسی حرام کام کے لیے عورت کو مجبور کرتا ہے یا عورت پر ظلم و ستم کرتا ہے۔ تو اگر عورت اپنے دین اور جان کو بچانے کے لیے طلاق مانگ لے تو اس پر کوئی گناہ اور حرج نہیں۔ ان شاء اللہ

(39) بیویوں کے درمیان نا انصافی:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ (النساء 19)
اور عورتوں سے معروف طریقہ سے نباہ کرو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں بہتر وہ ہے جو اپنی عورتوں کے حق میں سب سے بہتر ہے۔" (ترمذی: 1162)۔
ایک سے زیادہ شادیاں کرنے والوں پر لازم ہے کہ وہ بیویوں کے درمیان انصاف کریں۔ رات گزارنے میں، ہر بیوی کو اس کے حقوق، نان نفقہ اور لباس وغیرہ مہیا کرنے میں عدل سے کام لیں۔ صرف دلی محبت میں عدل اور برابری نہ کر سکے تو اس پر مؤاخذہ نہیں کیونکہ یہ انسان کے اختیار میں نہیں۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص کی دو بیویاں ہوں اور وہ ایک ہی کی طرف جھکا رہا (اور دوسری کو نظر انداز کیے رکھا) وہ قیامت کے دن اس حال میں آئے گا کہ اس کے جسم کا ایک حصہ (فالج کی طرح) گرا ہوا ہو گا‘‘ (ابو داود: 2133، صحیح الجامع الصغیر البانی 6491 قال الشیخ زبیر علی زئی: اسنادہ ضعیف)

{40} بیوی کے پوشیدہ راز لوگوں میں ظاہر کرنا:
بیوی کے راز لوگوں میں ظاہر کرنا بھی کبیرہ گناہ ہے۔
ابو سعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برے لوگوں میں وہ شخص بھی ہے جو اپنی بیوی کی طرف جاتا ہے اور وہ اس کی طرف آتی ہے پھر وہ اس کے راز فاش کرتا ہے‘‘۔
ایک اور روایت میں اس شخص کو اللہ کے نزدیک قیامت کے دن بری امانت والا قرار دیا۔(مسلم النکاح۔ باب تحریم افشاء سر المراۃ 1437)
اسی طرح اگر بیوی شوہر کے پوشیدہ رازوں کا دوسری عورتوں کے سامنے اظہار کرتی ہے تو وہ بھی امانت داری کے خلاف ہے۔

{41} غلام کا بھاگ جانا:
جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب غلام (اپنے آقا سے) بھاگ جائے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوتی‘‘۔ (مسلم۔ الایمان۔ باب تسمیہ العبد الابق کافراً 70)
جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو غلام اپنے آقا سے بھاگ جائے پس اس نے کفر کیا یہاں تک کہ وہ لوٹ آئے‘‘ (مسلم 68)
جریر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو غلام بھاگ جائے تو اس سے (اللہ کے معاف کرنے کا) ذمہ اٹھ گیا‘‘ (مسلم 69)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
{42} اولیاء اللہ خصوصاََ صحابہ کرام کو گالی دینا یا تکلیف پہنچانا:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: جس نے میرے کسی ولی سے دشمنی رکھی اس سے میرا اعلان جنگ ہے‘‘ ۔ (بخاری۔ الرقاق۔ باب التواضع 6502)
اور اولیاء اللہ میں سب سے پہلے نمبر پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جن سے اللہ کے راضی ہونے کا سرٹیفیکٹ قرآن میں موجود ہے۔
عائذ ابن عمرو رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اے ابو بکر! اگر تم نے ان مسکین مسلمانوں (سلمان، صہیب اور بلال رضی اللہ عنہم) کو ناراض کر دیا تو تم نے اپنے رب کو ناراض کر دیا‘‘۔ (مسلم۔ فضائل الصحابہ باب من فضائل سلمان وصہیب وبلال 2504 )
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے صحابہ کو گالی نہ دو۔ قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کر لے تو ان (صحابہ کرام) میں سے (ثواب کے لحاظ سے) کسی کے ایک مد یا نصف مد کو بھی نہیں پہنچ سکتا‘‘۔ (بخاری۔ فضائل الصحابہ باب لو کنت متخذا خلیلا 3673، مسلم۔ فضائل الصحابہ۔ باب تحریم سب الصحابہ 2541)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے میرے صحابہ کو گالی دی اس پر اللہ تعالیٰ کی، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے‘‘۔ (صحیح الجامع 6285)
سیدنا علی رضی اللہ عنہ اللہ کی قسم اٹھا کر بیان فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مجھ سے یہ عہد ہے کہ مجھ سے مومن ہی محبت کرے گا اور صرف منافق ہی مجھ سے بغض رکھے گا۔ (مسلم۔ الایمان۔ الدلیل علی أن حب الانصار وعلی من الایمان 78)
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انصار مدینہ سے محبت ایمان کی علامت ہے اور ان سے بغض رکھنا نفاق کی علامت ہے‘‘ (بخاری۔ الایمان۔ علامۃ الایمان حب الانصار 17، مسلم۔ الا یمان۔ حب الانصار وعلی رضی اللہ عنہ من الایمان 74)
براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’انصار سے صرف مومن ہی محبت کرتا ہے اور ان سے صرف منافق ہی بغض رکھتا ہے۔ جس نے ان سے محبت کی اللہ اس سے محبت کرے گا اور جو ان سے بغض رکھے گا اللہ اس سے بغض رکھے گا‘‘ (بخاری 3783، مسلم 75)

(43) پڑوسی کو تکلیف دینا:
ابو شریح الخزاعی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اپنے ہمسایہ سے بہتر سلوک کرے‘‘ (بخاری۔ کتاب الادب۔ باب من کان یومن باللہ 6019، مسلم۔ الایمان باب الحث علی اکرام الجار والضیف 48)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ امن میں نہ ہو‘‘۔ (مسلم۔ الایمان۔ تحریم ایذاء الجار 46)
ابو شریح رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں۔ اللہ کی قسم وہ شخص مومن نہیں۔ اللہ کی قسم وہ مومن نہیں‘‘۔ عرض کیا گیا کون یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں‘‘ (بخاری: الادب، باب: اثم من لا یا من جارہ بوائقہُ 6016)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑوسی کی شہادت کو کسی کی اچھائی یا برائی جاننے کا پیمانہ قرار دیا۔
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اے اللہ کے رسول مجھے اپنی اچھائی یا برائی کا کیسے پتہ چلے گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر تو اپنے پڑوسی کو یہ کہتے سنے کہ تو نے اچھا کیا تو سمجھ لو کہ تو نے اچھا کیا اور اگر تیرے پڑوسی یہ کہیں کہ تو نے برا کیا تو پھر جان لے کہ تو نے برا کیا‘‘۔ (ابن ماجہ: الزہد، باب: الثناء الحسن 4223)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا کہ ایک عورت رات کو تہجد پڑھتی ہے، دن میں نفلی روزے رکھتی ہے مگر اپنی زبان سے اپنے پڑوسیوں کو تکلیف دیتی ہے، آپ نے فرمایا: اس میں کوئی خیر نہیں اور وہ آگ میں ہے۔ (مسند احمد: 440/2)
لہذا اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانے والوں کو چاہیے کہ پڑوسیوں کو تکلیف نہ دیں۔ ان کی اجازت کے بغیر اپنی عمارت اتنی بلند نہ کریں کہ وہ سورج کی شعاؤں سے محروم ہو جائیں۔ یا گھر کی کھڑکیوں کا رخ پڑوسی کے گھر کی طرف نہ کریں۔ پڑوسیوں کو ریڈیو، ٹی وی اور گانے کی اونچی آوازوں سے تنگ نہ کریں اور نہ ہی ان کے دروازوں پر کوڑا پھینکیں۔

(44) مسلمانوں کو تکلیف پہنچانا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَالَّذِينَ يُؤْذُونَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ بِغَيْرِ مَا اكْتَسَبُوا فَقَدِ احْتَمَلُوا بُهْتَانًا وَإِثْمًا مُّبِينًا ﴿٥٨﴾ (الاحزاب)
’’اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایذا دیں بغیر کسی جرم کے جو ان سے سرزد ہوا ہو وہ (بڑے ہی) بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اٹھاتے ہیں۔‘‘
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِّن قَوْمٍ عَسَىٰ أَن يَكُونُوا خَيْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِّن نِّسَاءٍ عَسَىٰ أَن يَكُنَّ خَيْرًا مِّنْهُنَّ ۖ وَلَا تَلْمِزُوا أَنفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ۖ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ۚ وَمَن لَّمْ يَتُبْ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ﴿١١﴾ (الحجرات)
’’اے ایمان والو کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اڑائے ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہو اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں۔ ممکن ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ کسی کو برے لقب دو، ایمان کے بعد فسق برا نام ہے اور جو توبہ نہ کرے وہی ظالم لوگ ہیں۔‘‘
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک قیامت کے دن درجہ و مرتبہ کے لحاظ سے سب سے برا وہ آدمی ہو گا جس کے شر سے بچنے کے لیے لوگ اس سے کنارہ کشی کر لیں‘‘ (بخاری۔ الادب۔ باب لم یکن النبی فاحشا ولامتفحشا 6032۔ مسلم: البر والاداب، باب: مداراۃ من یتقی فحشہ 2591)

{45} مسلمانوں سے قطع تعلق کرنا:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پیر اور جمعرات کے روز جنت کے دروازے کھولے جاتے ہیں۔ ہر اس بندے کے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں جس نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو سوائے اس آدمی کے کہ اس کے اور اس کے (مسلم) بھائی کے درمیان دشمنی ہو پس کہا جاتا ہے ان دونوں کو مہلت دے دو یہاں تک کہ صلح کر لیں‘‘۔ (مسلم ۔ البر والصلۃ باب النھی عن الشحناء والتھاجر 2565)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کسی مسلمان کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے بھائی سے تعلق منقطع رکھے۔ پس جو شخص تین دن سے زائد تعلق منقطع رکھے گا اور اگر اسی حالت میں اسے موت آگئی تو وہ جہنم میں جائے گا‘‘ (ابو داود۔ الادب۔ باب فیمن یھجر اخاہ المسلم 4914)
ابو خراش السلمی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ’’جو شخص اپنے مسلمان بھائی سے ایک سال تک تعلق منقطع رکھے گا اس کا یہ عمل اس کو قتل کرنے کے برابر ہے‘‘ (ابو داود: 4915)
اتنے واضح احکامات آجانے کے بعد بھی آج بہت سے لوگ شرعی عذر کے بغیر اپنے مسلمان بھائیوں سے تعلقات توڑ لیتے ہیں۔ دنیاوی اختلافات کی بنیاد پر یہ قطع تعلق اسلامی معاشرے کو کمزور کر دیتی ہے۔ اس لیے قطع تعلق کرنے والوں کے لیے سخت سزا سنائی گئی ہے۔ البتہ اگر کوئی نماز نہیں پڑھتا یا بے حیائی پر اڑا ہوا ہے اور قطع تعلق سے اسے اپنی غلطی کا احساس ہو سکتا ہو تو اس سے قطع تعلق کرنی چاہیے۔ اور اگر قطع تعلق کا اس پر الٹا اثر ہو اور وہ سرکشی اور گناہ میں مزید بڑھتا چلا جائے یعنی قطع تعلق میں کوئی شرعی مصلحت نظر نہ آئے تو ایسے منحرف شخص سے حسن سلوک، نصیحت اور خیر خواہی کو جاری رکھا جائے تاکہ وہ گناہ میں مزید نہ بڑھے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(46) سخت گو اور سخت خو:
طبیعت میں سختی رکھنے والا سخت خو اور کلام میں سختی کرنے والا سخت گو ہوتا ہے۔
حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جنت میں سخت خو اور سخت گو یعنی جھگڑالو داخل نہیں ہو گا‘‘ (ابو داود۔ الادب باب فی حسن الخلق 4801)
حارثہ بن وہب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تم کو اہل جنت کے متعلق خبر دوں۔ ہر ضعیف جسے لوگ حقیر سمجھیں لیکن اگر وہ اللہ پر قسم کھائے تو اللہ تعالیٰ اس کو سچا کر دے۔ اور تمہیں جہنمیوں کی خبر دوں: ہر جھگڑالو، مال جمع کرنے والا اور مغرور‘‘ (بخاری۔ التفسیر۔ باب عتل بعد ذلک زنیم 4918۔ مسلم 2853)
ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن مومن کے میزان میں سب سے بھاری چیز حسن خلق ہے اور اللہ تعالیٰ فحش بکنے والے اور بیہودہ کلام کرنے والے کو دشمن رکھتا ہے‘‘ (ترمذی۔ البر والصلۃ۔ باب ما جاء فی حسن الخلق 2002)
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں تم کو نہ بتلاؤں کہ آگ پر کون شخص حرام ہے اور کس پر آگ حرام ہے؟ ہر آہستہ مزاج، نرم طبیعت، لوگوں کے نزدیک رہنے والا اور نرم خو‘‘ (ترمذی۔ صفۃ القیامۃ 2488)

(47) وعدہ خلافی کرنا:
اللہ تعالی فرماتا ہے:
وَأَوْفُوا بِالْعَهْدِ ۖ إِنَّ الْعَهْدَ كَانَ مَسْئُولًا (بنی اسرائیل 34)
’’اور وعدہ پورا کرو، یاد رکھو عہد کی باز پرس ہوگی‘‘۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافق کی ایک خصلت یہ بیان فرمائی کہ جب وہ وعدہ کرتا ہے تو اس کی خلاف ورزی کرتا ہے۔ (بخاری: 34، مسلم: 48)
سیدنا یمان اور حذیفہ رضی اللہ عنہما دونوں جنگِ بدر میں شرکت کے لئے روانہ ہوئے۔ راستہ میں کفارِ مکہ نے انہیں گرفتار کر لیا اور کہنے لگے کہ تم محمد کے پاس جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا ہم ان کے پاس جانا نہیں چاہتے بلکہ ہم تو مدینہ منورہ جانا چاہتے ہیں، کفارِ مکہ نے ان دونوں سے اللہ کی قسم کے ساتھ عہد لیا کہ وہ مدینہ چلے جائیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہو کر نہ لڑیں، وہ دونوں وہاں سے روانہ ہو کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ کو سارا واقعہ سنایا۔ آپ نے فرمایا: ’’تم مدینہ چلے جاؤ، ہم ان کا عہد پورا کریں گے اور ان کے مقابلے میں اللہ سے مدد طلب کریں گے‘‘۔ (مسلم: 1787)

(48) مسلمان کی طرف اسلحہ کے ساتھ اشارہ کرنا:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنے بھائی کی طرف لوہے کے ہتھیار سے اشارہ کرتاہے، فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں چاہے یہ بھائی ماں باپ کی طرف سے سگا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ (مسلم۔ البر والصلہ۔ باب النھی عن الاشارہ بالسلاح الی المسلم 2616)
اس کی وضاحت دوسرے فرمان میں یوں ہے:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کسی کو کیا معلوم کہ شاید شیطان اس کے ہاتھوں سے (اس کے ہتھیار کو) چھین کر چلا دے اور یہ (قتل کے جرم میں) جہنم میں جا گرے‘‘ (مسلم: 2617)

(49) یتیم کا مال کھانا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
إِنَّ الَّذِينَ يَأْكُلُونَ أَمْوَالَ الْيَتَامَىٰ ظُلْمًا إِنَّمَا يَأْكُلُونَ فِي بُطُونِهِمْ نَارًا ۖ وَسَيَصْلَوْنَ سَعِيرًا ﴿١٠﴾ (النساء)
’’جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں وہ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں اور عنقریب وہ دوزخ میں جائیں گے۔‘‘
یتیم کا مال ظلم اور زیادتی کے ساتھ کھانا انتہائی گھٹیا حرکت ہے۔ اس لیے ان لوگوں کیلئے جہنم کی وعید ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سات ہلاک کر دینے والے گناہوں کو بیان فرمایا اور اس میں یتیم کا مال کھانا شامل ہے۔ یتیم وہ ہوتا ہے جس کا والد اس کے بالغ ہونے سے پہلے مر جائے۔ یتیم چونکہ معاشرہ کا بے بس اور ناتواں شخص ہوتا ہے اور وہ سب سے زیادہ شفقت اور ہمدردی کا مستحق ہے لہذا جو لوگ انتظامی معاملات میں تجربہ نہیں رکھتے انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بطور خاص نصیحت فرمائی کہ وہ مال یتیم کی ذمہ داری قبول نہ کریں۔
ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے ابو ذر میرے خیال میں تم (انتظامی تجربے کی کمی کی وجہ سے) کمزور آدمی ہو۔ اور میں جو چیز اپنے لیے پسند کرتا ہوں وہی چیز تمہارے لیے بھی پسند کرتا ہوں۔ دیکھو کبھی دو آدمیوں پر امیر نہ بننا اور نہ کبھی مال یتیم کی ذمہ داری قبول کرنا‘‘ (مسلم۔ الامارہ۔ باب کراھۃ الامارۃ بغیر ضرورۃ 1826)
یتیم کی پرورش کرنا اور اس کے ساتھ حسن سلوک کرنا بہت بڑی نیکی ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’یتیم کی کفالت کرنے والا، یتیم اس کا قریبی ہو یا غیر، جنت میں میرے ساتھ ان دو انگلیوں کی طرح ہو گا آپ نے شہادت اور درمیان کی انگلی کے ساتھ اشارہ کیا‘‘ (مسلم۔ الزھد۔ باب الاحسان الی الارملہ والیتیم 2983)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیوہ عورتوں اور مسکینوں کی خبر گیری کرنے والا اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے کی مانند ہے۔ اس قیام کرنے والے کی طرح ہے جو رات کو سستی نہیں کرتا۔ اور اس روزہ رکھنے والے کی طرح ہے جو افطار نہیں کرتا۔ (بخاری: 6007 مسلم: 2982)
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(50) ذمہ دار کا اپنے ماتحت لوگوں کو دھوکہ دینا اور ان پر ظلم کرنا:
معقل ابن یسار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے جس کو کسی رعیت کی نگرانی عطا کی اور وہ اس حال میں مر گیا کہ وہ رعیت کو دھوکہ دینے والا ہے تو اللہ نے اس پر جنت حرام کر دی۔ اگر اس نے انکی خیر خواہی کی کوشش نہیں کی تو وہ ان کے ساتھ جنت میں داخل نہ ہو گا‘‘۔ (بخاری 7150، مسلم۔ الایمان۔ استحقاق الوالی، الغاش لرعیتہ النار 142)
عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے اللہ جو شخص اس امت کے کسی معاملے کا والی بنایا جائے اگر وہ ان کے ساتھ نرمی کا برتاؤ کرے تو تو بھی اس کے ساتھ نرمی فرما۔ اور اگر وہ ان پر تنگی رکھے تو تو بھی اس پر تنگی رکھ‘‘۔ (مسلم: الامارہ، باب فضیلۃ الامام العادل 1828)
کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد کچھ فاسق اور ظالم امیر ہوں گے جو شخص ان کے جھوٹ کی تصدیق کرے گا اور ان کے ظلم پر تعاون کرے گا وہ مجھ سے نہیں اور میرا اس سے کوئی واسطہ نہیں اور وہ حوض کوثر پر نہ آسکے گا اور جو ان کے جھوٹ کی تصدیق نہ کرے اور ان کے ظلم پر ان کا تعاون نہ کرے وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ حوض کوثر پر میرے پاس آئے گا‘‘۔ (ترمذی۔ الجمعہ۔ باب ماذکر فی فضل الصلاۃ نمبر 614۔ نسائی البیعۃ 4207)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم امارت پر حرص کرو گے لیکن قیامت کے دن وہ ندامت کا باعث ہو گی۔ (بخاری: 7148)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "فیصلہ کرنے والے قاضی تین قسم کے ہیں، ان میں سے ایک جنت میں جائے گا اور دو جہنم میں جائیں گے۔ پس وہ قاضی جس نے حق کو پہچانا اور اس کے مطابق فیصلہ کیا وہ جنتی ہے اور جس قاضی نے حق کو پہچانا اور جان بوجھ کر اس کے خلاف فیصلہ کیا پس وہ جہنم میں ہے۔ اور وہ قاضی جس نے علم حاصل کئے بغیر فیصلہ کیا وہ بھی جہنمی ہے۔ اس کا گناہ یہ ہے کہ جب تک وہ علم حاصل نہ کر لیتا فیصلہ نہ کرتا۔
(ابو داؤد: 3573، ابن ماجہ 2315، قال الشيخ الألباني: صحيح، قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہر دھوکہ باز کے لیے قیامت کے دن ایک جھنڈا ہو گا اور جس قدر اس نے دھوکا کیا ہو گا اسی لحاظ سے اسے اونچا اٹھایا جائے گا۔ خبردار! جو امیر اپنی رعایا کو دھوکہ دے اس سے بڑا دھوکہ باز کوئی نہیں ہو سکتا‘‘۔ (مسلم۔ الجھاد والسیر۔ باب تحریم الغدر 1738)

(51) خلیفۃ المسلمین کی بغاوت کرنا:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس نے امیر کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے امیر کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی۔ اور امام ڈھال ہے اس کے پیچھے قتال کیا جاتا ہے۔ اور اس کے ذریعے بچاؤ کیا جاتا ہے‘‘
(بخاری: الجھاد والسیر۔ باب یقاتل من وراء الامام 2957۔ مسلم 1835)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص امام (مسلمان حاکم) کی اطاعت سے نکل جائے اور جماعت (جو اس حاکم کو اپنا امام اور حکمران تسلیم کر چکے ہیں) کا ساتھ چھوڑ دے اور اس حالت میں مر جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ اور جو شخص اندھے جھنڈے کے نیچے لڑا (جس کی لڑائی کی درستگی شریعت سے صاف صاف ثابت نہ ہو) اور قومیت کے تعصب کی وجہ سے غصے ہوتا ہے اور تعصب (قوم، وطن، خاندان یا رنگ) کی طرف دعوت دیتا ہے اور تعصب کی وجہ سے کسی کی مدد کرتا ہے۔ پھر وہ قتل ہو جائے تو اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔ اور جو میری امت کے خلاف تلوار اٹھاتا ہے۔ اچھے اور بروں کو قتل کرتا ہے۔ نہ مومن کو چھوڑتا ہے اور نہ عہد والے کو تو وہ مجھ سے نہیں اور میں اس سے نہیں‘‘۔ (مسلم۔ الامارۃ۔ باب وجوب ملازمہ جماعۃ المسلمین عند ظہور الفتن 1848)

(52) گداگری کرنا:
بغیر ضرورت لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلا کر گداگری کرنا حرام ہے۔ بعض گداگر جھوٹے کاغذات بنا کر، من گھڑت قصے سنا کر یا جھوٹ بول کر مال وصول کرتے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص مانگتا رہتا ہے یہاں تک کہ مر جاتا ہے تو اس کے چہرے پر قیامت کے دن گوشت کا کوئی ٹکڑا نہ ہو گا‘‘۔ (بخاری 1474، مسلم 1040)
سہل بن حنظلہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس شخص نے بے نیاز ہوتے ہوئے گداگر بن کر کسی کے سامنے دست سوال دراز کیا وہ جہنم کے انگارے جمع کرتا ہے‘‘۔ صحابہ نے عرض کی کہ اس بے نیازی کی حد کیا ہے کہ جس کے ہوتے ہوئے سوال کرنا منع ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جس کے پاس دوپہر اور شام کا کھانا موجود ہو وہ غنی ہے‘‘۔ (ابو داود۔ الزکوٰۃ 1629)

(53) واپس نہ کرنے کی نیت سے قرض لینا:
قرض کی ادائیگی میں سستی برتنا بہت عام ہو چکا ہے۔ اور لوگ اسے معمولی بات سمجھتے ہیں۔ لوگ نئی گاڑی، گھر، گھر کا نیا سامان وغیرہ خریدنے کے لیے قرض لے لیتے ہیں۔ قسطوں کے چکر میں پھنسے رہتے ہیں۔ جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سبحان اللہ قرض کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے کس قدر زیادہ سختی فرمائی ہے۔ مجھے اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر کوئی آدمی اللہ کے راستے میں شہید کر دیا جائے پھر دوبارہ زندہ ہو پھر شہید ہو پھر زندہ ہو پھر شہید ہو اگر وہ مقروض ہے تو جب تک اس کا قرض ادا نہ کیا جائے وہ جنت میں داخل نہ ہو گا‘‘۔ (النسائی۔ البیوع۔ التغلیظ فی الدین 4688)

(54) پاک دامن عورتوں پر تہمت لگانا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
إِنَّ الَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ الْغَافِلَاتِ الْمُؤْمِنَاتِ لُعِنُوا فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٢٣﴾ (النور)
’’جو لوگ پاک دامن بھولی بھالی با ایمان عورتوں پر تہمت لگاتے ہیں دنیا اور آخرت میں ان پر لعنت کی گئی ہے اور ان کے لیے بڑا بھاری عذاب ہے۔‘‘
وَالَّذِينَ يَرْمُونَ الْمُحْصَنَاتِ ثُمَّ لَمْ يَأْتُوا بِأَرْبَعَةِ شُهَدَاءَ فَاجْلِدُوهُمْ ثَمَانِينَ جَلْدَةً وَلَا تَقْبَلُوا لَهُمْ شَهَادَةً أَبَدًا ۚ وَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ ﴿٤﴾ (النور)
’’جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں پھر چار گواہ نہ پیش کر سکیں تو انہیں 80 کوڑے لگاؤ اور کبھی بھی ان کی گواہی قبول نہ کرو۔ یہ فاسق لوگ ہیں۔‘‘
کسی عورت کو زانیہ یا مرد کو زانی، لڑکے کو حرامی اور لڑکی کو حرام زادی کہنے سے 80 کوڑوں کی حد واجب ہو جاتی ہے سوائے اس کے کہ چار گواہ اس کی سچائی کی گواہی دیں۔ 80 کوڑوں کی سزا کے بعد اس کے لیے دوسری سزا یہ ہے کہ اس کی گواہی کبھی قبول نہ کی جائے گی۔ چاہے وہ چاند دیکھنے کی گواہی ہو یا کسی مقدمے میں قاضی کے سامنے گواہی ہو۔ وہ رد کر دی جائے گی اور جب تک یہ توبہ اور اپنی اصلاح نہ کرے یہ فاسق انسان ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی اپنے غلام یا لونڈی کو زنا کی تہمت لگائے گا قیامت کے دن اس پر حد قائم کی جائے گی الا یہ کہ وہ ویسا ہی ہو جس طرح مالک نے کہا تھا‘‘۔ (بخاری۔ الحدود۔ باب قذف العبید 6858۔ مسلم۔ الایمان باب التغلیظ علی من قذف مملوکہ بالزنا 1660)

(55) مزدور کو مزدوری نہ دینا:
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تین طرح کے لوگ ہیں جن سے میں جھگڑوں گا۔ وہ آدمی جس کو میرے نام سے کوئی چیز دی گئی اور وہ اس سے پھر گیا (خیانت کی) وہ آدمی جس نے کسی آزاد آدمی کو بیچ کر اس کی قیمت کھائی۔ وہ آدمی جس نے کسی کو ملازم رکھ کر اس سے پورا کام لیا لیکن اجرت پوری نہ دی‘‘ (بخاری۔ البیوع۔ باب اثم من باع حراً 2227)
مسلمان معاشروں میں یہ ظلم پایا جاتا ہے کہ لوگ مزدوروں اور ملازموں کو ان کے حقوق نہیں دیتے۔ بعض کفیل ویزے بھیج کر ملازم منگواتے ہیں مگر جس تنخواہ پر اتفاق ہوا تھا اس سے کم تنخواہ دیتے ہیں یا مقررہ وقت سے زیادہ کام لیتے ہیں یا کئی کئی ماہ تنخواہیں روک کر رکھتے ہیں۔ یہ ظلم ہے اور مظلوم کا مال کھانے والے قیامت کے دن جواب دہ ہوں گے۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,584
ری ایکشن اسکور
6,762
پوائنٹ
1,207
(56) جھوٹی گواہی دینا:
رحمن کے سچے بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ (الفرقان 72)
’’اور وہ لوگ جھوٹی گواہی نہیں دیتے۔‘‘
قاضی کسی بھی معاملے کا فیصلہ گواہی کی بنیاد پر کرتا ہے۔ اگر گواہ جھوٹا ہو اور قاضی اس کے جھوٹ کو نہ پہچان سکے تو قاضی کے غلط فیصلے کا اصل ذمہ دار جھوٹا گواہ ہے۔ جھوٹی گواہی کی بنا پر قاضی کسی معصوم کو پھانسی چڑھا سکتا ہے اور لوگوں کے مالی حقوق پر ڈاکہ بھی جھوٹی گواہی کی بنیاد پر ڈالا جا سکتا ہے۔ اسی لیے یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
ام سلمہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک میں انسان ہوں۔ تم میرے پاس جھگڑے لے کر آتے ہو۔ تم میں سے بعض اپنی دلیل (جھوٹی گواہی) پیش کرنے میں دوسرے فریق سے زیادہ تیز اور چرب زبان ہوتے ہیں۔ پس میں جو کچھ سنوں گا اس کے مطابق فیصلہ دے دوں گا۔ اگر میں کسی شخص کو اس کے بھائی کا حق یا حصہ دے دو ں تو میں اسے جہنم کی آگ کا ٹکڑا دے رہا ہوں‘‘۔ (بخاری، الاحکام، باب: موعظۃ الامام للخصوم 7169، مسلم۔ الاقضیہ۔ باب الحکم بالظاہر واللحن بالحجہ 1713)
ابو بکرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی گواہی دینا کبیرہ گناہ ہیں سنو جھوٹی بات اور جھوٹی گواہی (کبیرہ گناہ ہیں) آپ بار بار دھراتے رہے یہاں تک کہ ہم نے کہا کاش آپ سکوت فرمائیں‘‘۔ (بخاری۔ الشھادات باب ما قیل فی شھادۃ الزور 2654، مسلم: الایمان، باب: بیان الکبائر واکبرھا 87)
جھوٹی گواہی سے کسی مسلمان کا مال، عزت یا جان کو نقصان پہنچانا کبیرہ گناہ ہے۔ کیونکہ جھوٹی گواہی کی وجہ سے بہت سے لوگوں کے حقوق ضائع ہو جاتے ہیں۔ بہت سے معصوم بے گناہ لوگوں پر ظلم ہوتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو وہ چیز مل جاتی ہے جس کے وہ حقدار نہیں۔ جھوٹی گواہی میں یہ بھی شامل ہے کہ کوئی شخص حکومت یا کسی سخی کے پاس سفارش کرے کہ یہ شخص محتاج ہے اور زکاۃ کا مستحق ہے۔ جبکہ اسے معلوم ہو کہ یہ محتاج اور فقیر نہیں ہے۔ وہ صرف اسے مالی فائدہ پہنچانے کے لئے جھوٹی گواہی دے اور وہ یہ سمجھے کہ میں تو نیکی کر رہا ہوں، حالانکہ وہ جھوٹی گواہی دے کر کبیرہ گناہ کا ارتکاب کر رہا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جھوٹی گواہی کے برے انجام سے ڈراتے ہوئے اس جملہ کو بار بار دہرایا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک مسلمان کا خون، مال اور عزت دوسرے مسلمان پر حرام ہے‘‘۔ (مسلم۔ البر والصلہ والاداب باب تحریم ظلم المسلم 2564)

(57) لوگوں کا مال ہتھیانے کے لیے جھوٹی قسم کھانا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّـهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَـٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ وَلَا يُكَلِّمُهُمُ اللَّـهُ وَلَا يَنظُرُ إِلَيْهِمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلَا يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ ﴿٧٧﴾ (آل عمران)
’’بے شک جو لوگ اللہ تعالیٰ کے عہد اور اپنی قسموں کو تھوڑی قیمت پر بیچ ڈالتے ہیں۔ ان کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں۔ اللہ تعالیٰ نہ تو ان سے بات چیت کرے گا نہ ان کی طرف قیامت کے دن دیکھے گا۔ نہ انہیں پاک کرے گا اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت میرے بارے میں نازل ہوئی۔ میرا اپنے چچا زاد بھائی سے ایک کنویں کا جھگڑا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دلیل تمہارے ذمہ ہے یا تمہارا بھائی قسم اٹھائے گا‘‘۔ میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! وہ تو قسم اٹھا کر (میری جائیداد لے جائے گا)، آپ نے فرمایا: ’’جو شخص کسی کا مال ہتھیانے کے لیے جھوٹی قسم اٹھا ئے وہ اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ اس پر غضب ناک ہو گا‘‘۔ (بخاری۔ التفسیر۔ باب ان الذین یشترون بعھداللہ وایمانھم۔ 4549، مسلم۔ الایمان۔ باب وعید من اقتطع حق مسلم 138)
ابو امامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو شخص اپنی جھوٹی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا حق (مال) لے لے تو اس کے لیے اللہ تعالیٰ جہنم واجب اور جنت حرام فرما دیتا ہے چاہے وہ مال تھوڑا سا بلکہ پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہی کیوں نہ ہو‘‘۔ (مسلم۔ الایمان۔ باب وعید من اقتطع حق مسلم بیمین فاجرہ بالنار 137)

(58) مال فروخت کرنے کے لیے جھوٹی قسم کھانا:
تجارت کے ذریعے رزق حلال کمانا بہت بڑے درجے کی بات ہے۔ مگر بعض نادان لوگ غلط بیانی اور جھوٹی قسموں کے ذریعے اپنا مال بیچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسے تاجروں سے سخت ناراض ہوتا ہے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کے بارے میں فرمایا: ’’جس نے عصر کے بعد سودا بیچا اور اللہ کی قسم اٹھا کر گاہک سے کہا کہ میں نے تو خود اتنے کا خریدا ہے حالانکہ وہ جھوٹ بول رہا تھا لیکن گاہک نے اس کی قسم کا اعتبار کیا اور اس کو سچا جان کر اس سے وہ چیز خرید لی۔ تو ایسے شخص کو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن نہیں دیکھے گا۔ نہ اس سے کلا م کرے گا اور نہ اس کے گناہوں کو پاک کرے گا بلکہ اس کے لیے درد ناک عذاب ہو گا‘‘ (بخاری 2369، مسلم 108)
مذکورہ حدیث سے یہ نہ سمجھا جائے کہ صرف عصر کے بعد ہی جھوٹی قسم کھانا منع ہے بلکہ یہ حکم عام ہے۔ چونکہ عصر کے بعد لوگ عام طور پر خرید و فروخت میں مشغول ہوتے ہیں اس لئے اس کا خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا آگے کی حدیث عمومی حکم کی وضاحت کرتی ہے۔
جھوٹی قسمیں کھا کر سودا فروخت کرنے والے تاجروں کے بارے میں ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’قیامت کے دن تین قسم کے لوگوں سے اللہ تعالیٰ کلام نہیں کرے گا نہ ان کی طرف دیکھے گا اور نہ ان کو گناہوں سے پاک کرے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین دفعہ کہی‘‘۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! وہ لوگ تو بہت گھاٹے اور خسارے میں رہے۔ آپ فرمائیے وہ کون ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ٹخنوں سے نیچے تکبر کے ساتھ کپڑا گھسیٹنے والا، احسان کرنے کے بعد احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر سودا بیچنے والا‘‘ (مسلم 106)

(59) چوری کرنا:
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا جَزَاءً بِمَا كَسَبَا نَكَالًا مِّنَ اللَّـهِ ۗ وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿٣٨﴾ (المائدہ)
’’چوری کرنے والے مرد اور عورت کا ہاتھ کاٹو۔ یہ بدلہ ہے اس کا جو انہوں نے کیا، اللہ کی طرف سے عذاب ہے اور اللہ تعالیٰ قوت و حکمت والا ہے۔‘‘
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ایک چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ مالیت کی چوری پر چور کا ہاتھ کاٹا جاتا ہے‘‘۔ (بخاری۔ الحدود، 6789 مسلم۔ الحدود باب حدالسرقہ ونصابھا 1684)
عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ بھی ضرور کاٹتا‘‘۔ (بخاری۔ فضائل الصحابہ باب ذکر اسامہ بن زید 3733، مسلم۔ الحدود۔ باب قطع السارق الشریف وغیرہ 1688)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’زانی جس وقت زنا کرتا ہے اس وقت مومن نہیں ہوتا اور شراب پینے والا جس وقت شراب پیتا ہے مومن نہیں ہوتا۔ اور چوری کرنے والا جس وقت چوری کرتا ہے مومن نہیں ہوتا۔ لوگوں کی نگاہوں کے سامنے ڈاکہ ڈالنے والا مومن نہیں رہتا‘‘۔
(بخاری۔ المظالم باب النھبی بغیر اذن صاحبہٖ 2475، مسلم۔ الایمان باب بیان نقصان الایمان بالمعاصی 57)
چوری کے جرائم میں سے بہت بڑا جرم بیت اللہ کے حاجیوں کی چوری کرنا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کسوف کے دوران جہنم کا مشاہدہ کیا اور فرمایا کہ میں نے اس میں ٹیڑھے سرے والی لاٹھی والے کو دیکھا جو اپنی آنتوں کو جہنم میں کھینچ رہا تھا۔ اس کا جرم یہ تھا کہ ٹیڑھے سرے والی لاٹھی کے ساتھ حاجیوں کا سامان چراتا تھا۔ اگر حاجی کو پتہ چل جاتا تو اسے کہتا کہ تمہارا سامان بغیر ارادہ میری لاٹھی کے ساتھ اٹک گیا تھا اور اگر حاجی کو خبر نہ ہوتی تو وہ سامان لے کر چلا جاتا ‘‘ (مسلم۔ الکسوف 904)
مال غنیمت میں سے چوری کرنا بھی کبیرہ گناہ ہے۔
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامان پر کرکرہ نامی ایک آدمی مقرر تھا۔ وہ مر گیا تو آپ نے فرمایا وہ جہنم میں ہے۔ صحابہ کرام اسے دیکھنے کے لیے آئے تو انہوں نے اس کے پاس ایک چادر دیکھی جسے اس نے مال غنیمت میں سے چرایا تھا ‘‘۔ (بخاری۔ الجھاد۔ باب القلیل من الغلول 3074)
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جنگ خیبر میں ایک صحابی نے ایک مرنے والے کو شہید کہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہرگز نہیں میں نے ایک چادر کی وجہ سے جو اس نے مال غنیمت میں سے چوری کی تھی اسے جہنم میں دیکھا‘‘۔ (مسلم۔ الایمان۔ باب غلظ تحریم الغلول 114)
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ بغیر طہارت کے نماز قبول نہیں کرتا اور نہ مال غنیمت میں چوری کردہ مال میں سے صدقہ قبول کرتا ہے‘‘ ۔ (مسلم۔ الطہارہ باب وجوب الطھارہ للصلاۃ 224)

(60) ڈاکہ ڈالنا اور لوگوں کا مال ظلم اور باطل طریقوں سے کھانا:
اگر کوئی مسلح گروہ راہ چلتے قافلوں یا لوگوں پر حملہ کرے۔ ڈاکہ ڈالے قتل و غارت گری کرے۔ لوگوں کو اغوا کرے، عورتوں کی عزتوں کو لوٹے یا دہشت گردی پھیلائے تو یہ زمین میں فساد پھیلانا، لوگوں پر ظلم کرنا اور ان کا مال باطل طریقے سے کھانا ہے، اس کی سزا یوں بیان فرمائی:
إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿٣٣﴾ (المائدہ)۔
"ان کی جزا جو اللہ اور اس کے رسول سے جنگ کرتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے پھرتے ہیں، یہی ہے کہ انہیں قتل کیا جائے یا پھانسی دی جائے یا ان کے ہاتھ اور پاؤں مخالف جانب سے کاٹ دیئے جائیں۔ یا وطن سے جلا وطن کر دیئے جائیں۔ یہ ان کی دنیوی رسوائی ہے اور آخرت میں ان کے لئے بڑا بھاری عذاب ہے۔"
جب کسی کے دل میں اللہ کا خوف ختم ہو جائے تو وہ طاقت کے زور پر لوگوں کے مال و دولت اور زمینوں پر قبضہ کرتا ہے۔ حالانکہ کسی کی زمین پر ناحق قبضہ کرنے کی سخت سزا ہے۔
عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو آدمی کسی کی ایک بالشت زمین ظلم سے حاصل کرے گا قیامت کے دن اسے سات زمینوں کا طوق پہنایا جائے گا‘‘۔ (بخاری۔ المظالم باب اثم من ظلم شیئََامن الارض 2453، مسلم۔ المساقاۃ باب تحریم الظلم 1612)
عبدا للہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ بن جبل کو یمن بھیجا تو آپ نے فرمایا: ’’مظلوم کی بد دعا سے بچنا کیونکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی حجاب نہیں ہے‘‘۔ (بخاری۔ المظالم۔ باب الاتقاء والحذرمن دعوۃ المظلوم 2448، مسلم۔ الایمان۔ باب الدعا الی الشھادتین 19)
زمین کے نشانات بدل کر پڑوسی کی زمین کا کچھ حصہ اپنی زمین میں شامل کرنا:
ابو طفیل عامر بن وائلہ بیان کرتے ہیں کہ میں علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پاس تھا۔ ایک شخص آیا اور کہنے لگا آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے راز کی کیا بات بتائی۔ علی رضی اللہ عنہ اس پر غضب ناک ہوئے اور فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے چھپا کر ہمیں کوئی راز کی بات نہیں بتائی۔ آپ نے مجھے چار باتیں بیان کیں۔ اس نے کہا اے امیر المومنین وہ کیا ہیں؟ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو اپنے والدین پر لعنت کرے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ اور جو غیر اللہ کے نام پر جانور ذبح کرے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ اور جو کسی بدعتی کو پناہ دے اس پر اللہ کی لعنت ہے۔ اور جو زمین کے نشانات تبدیل کرے اس پر اللہ کی لعنت ہے‘‘۔ (مسلم۔ الاضاحی باب تحریم الذبح بغیر اللہ و لعن فاعلہٖ 1978)
 
Top