• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کتابت ِ مصاحف اور علم الضبط

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
کتابت ِ مصاحف اور علم الضبط

علامات ِ ضبط کی ابتدائ، ارتقاء اور ان کے
زمانی اور مکانی ممیزات کا اجمالی جائزہ​
پروفیسر اَحمد یار​
پروفیسر احمد یاررحمہ اللہ کا یہ مضمون اُن کی کتاب ’قرآن و سنت … چند مباحث ‘سے کچھ حذف و اختصار کے ساتھ لیا گیا ہے، جس میں اُنہوں نے حوالہ جات کی وضاحت کے لیے آخر میں ’’مفتاح المراجع‘‘بھی دیئے ہیں۔ جن میں مقالے میں پیش کردہ حوالوں میں روایتی طریقے پر ہر ایک حوالے کے متعلق ضروری معلومات شامل ہیں، لیکن ہم ’مفتاح المراجع‘ کو اختصار کی غرض سے یہاں ذکر نہیں کررہے۔ جو حضرات حوالوں سے متعلق وضاحت کے طالب ہوں وہ پروفیسر صاحب مرحوم کی اصل کتاب کی طرف مراجعت فرمائیں۔ (اِدارہ)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(١) قرآن کریم کی درست تلاو ت کے لیے اس کی درست کتابت ایک بنیادی ضرورت ہے۔ اسی بناء پر اور صحت قراء ت کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے کتابت مصاحف میں چند ایک اُمور کا التزام کیا جاتاہے، مثلاً قواعد ِ رسم و ضبط کی پابندی، علامات ِوقف ووصل کی درجہ بندی کی توضیح،آیات و فواصل (شمارِ آیات)کی تعیین اور سجدات ِ تلاوت کی نشان دہی کی جاتی ہے۔ مزید برآں قاری کی سہولت کے لیے سورتوں کے نام اور ہر سورت کے نام کے ساتھ کچھ تعارفی معلومات(مثلاً مکی ومدنی کا بیان)،مختلف تقسیمات(مثلاً اجزاء، احزاب اور رکوعات) کی تصریحات اور ہر صفحے پرحوالہ کی آسانی کے لیے بعض علامتی اِشارات بھی درج کئے جاتے ہیں۔
(٢) تاہم مذکورہ بالااُمور میں سے بیشترکی حیثیت محض اِضافی معلومات کی ہے۔ دراصل صحت کتابت کا معیار اور اس کی بنیاد تو علم الرسم ہے اور صحت قراء ت کا دارومدار بڑی حد تک علم ِضبط پر ہے۔
(٣) اگر علم الرسم کا موضوع قرآن کا ہجاء اور املاء ہے تو علم ِضبط کاموضوع وہ علامات و نشانات (مثل حرکات، سکون، مدوشد وغیرہ) ہیں(الطرازورق۲؍ب)جو کلمات ِ قرآن کے درست تلفظ اور ان کی نطقی کیفیات کے تحفظ میں مدد دیتے ہیں۔ یہ ’مدد‘ والی بات ہم نے اس لیے کی ہے کہ قرآن کریم کی صحیح قراء ت اور اس کے کلمات و اَصوات کے درست تلفظ کی تعلیم کا اَصل طریقہ تو تلقّی اور سماع کا ہے، جو آنحضرتﷺسے آج تک معمول بہ چلا آتا ہے۔ تنہاعلاماتِ ضبط یعنی علم الضبط استاد یا ’شیخ‘ کا بدل کبھی نہیں ہوسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ ضبط کی بعض خاص صورتوں میں علامات کی وضاحت کرنے کے ساتھ یہ بھی لکھ دیا جاتا ہے کہ صحیح تلفظ استاذ (شیخ) سے شفوی طور پرسیکھا جائے۔ تاہم قراء تِ قرآن کی تعلیم کے دوران اور تعلیم کے بعد روزانہ تلاوت قرآن کے لیے کسی صحیح کتابت والے مصحف(نسخہ قرآن) کی ضرورت ہر مسلمان کو پڑتی ہے اور اس مقصد کے لیے کتابت کی صحت علم الضبط کے بغیر ممکن نہیں ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٤) علم الضبط کی تاریخ اور اس کے ارتقاء کی بات کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ تین اِصطلاحات کی وضاحت کرلی جائے جوکتابت مصاحف کے ضمن میں اکثر استعمال ہوتی ہیں اور جو عموماً ’ضبط‘ کے ہم معنی یا ’ہم مقصد‘ ہیں اور وہ یہ ہیں: ۱ نقط ۲ شکل اور۳ اعجام
٭ ’نقط‘ کے لغوی معنی تو کسی حرف پرنقطہ لگانا ہے، لیکن اصطلاحا اس سے مراد وہ ’نظام نقاط‘ ہے جو ہمارے موجودہ نظام حرکات کا پیشرو تھا اور جسے مشہور تابعی ابوالاسود دؤلیa نے کلماتِ قرآن کے جزوی ضبط کے طور پر ایجاد کیا تھا اور جس میں حرکات اور دیگر علامات ِ ضبط کا کام نقطوں سے لیا جاتا تھا،( اور جس کا تذکرہ ابھی آگے بیان ہوگا۔)
٭ ’شکل‘ کے لفظی معنی جانور کے پاؤں میں زنجیر ڈالنے کے ہیں، مگر اصطلاحا کلمات کو علامات اور حرکات سے مقید کرنا مراد ہوتا ہے اور اگرچہ ’شکل‘ کا لفظ’ضبط‘کی کسی بھی صورت کے لیے استعمال ہوتاہے، تاہم زیادہ تر شکل سے مراد ضبط ِکلمات کا وہ طریقہ لیا جاتا ہے جو الخلیل بن احمدالفراھیدیa نے ایجاد کیا تھا۔(اس کا بیان بھی آگے آرہا ہے)جس عبارت کے ہر ہر حرف پر حرکات اورعلامات ِ ضبط ڈالی گئی ہوں اسے ’مشکول عبارت‘ کہتے ہیں۔
٭ ’اعجام‘ کااصل مطلب بھی کسی حرف پرنقطہ یا نقطے ڈال کر اسے دوسرے مشابہ حرف سے متمیز کرنا ہے،مثلاً د؍ذ یا ت؍ث وغیرہ، چونکہ یہ بھی ’تلفظ‘ ہی کی ایک صورت بنتی ہے لہٰذا دونوں میں فرق کرنے کے لیے ابوالاسودرحمہ اللہ والے طریق نقط کو ’نقط الشکل‘ یا ’نقط الاعراب‘ کہتے ہیں اور دوسرے کو ’نقط الاعجام‘کہتے ہیں۔ اگرچہ بعض قدیم مؤلفین نے اعجام کے لیے مطلقاً نقطہ کی اصطلاح بھی استعمال کی ہے۔(مثلاً ابن درستویہ: ص۵۳ ببعد)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ضبط کی اصطلاح ان تینوں اِصطلاحات کے بعد وجود میں آئی۔ علم الضبط میں عموماً نقطہ اور شکل کے قواعد سے بحث کی جاتی ہے اور اعجام کا ذکر اس میں کم ہی کیا جاتا ہے۔ تاہم تاریخی عمل کے لحاظ سے اعجام بھی ’تحریک ضبط قرآن‘ کا ہی ایک حصہ تھا۔ (دیکھئے :غانم:ص۹۰-۴۸۸ اور المحکم ’مقدمہ محقق‘ ص۲۷-۲۶)اور اسی تحریک کے اَسباب و دواعی یعنی علم الضبط کی ضرورت اور اس کے ارتقاء کا جائزہ ہی اس وقت ہمارا موضوع بحث ہے۔
٭ قرآن کریم کی یہ (عہد نبوی میں) کتابت عربی خط میں تھی۔ اس وقت تک عربی زبان کی ابجد بنیادی طور پر اور تعلیم کتابت کی حد تک صرف اٹھارہ حروف پر مشتمل تھی، بلکہ متصل لکھنے کی صورت میں حروف کی یہ بنیادی شکلیں صرف پندرہ ہی رہ جاتی تھیں۔ حروف کی یہ اٹھارہ یا پندرہ صورتیں اٹھائیس آوازوں کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ (ابن درستویہ : ص۶۶،، الخلیفہ ص۲ او رالمورد، ص۲۲۳)کیونکہ ان حرفوں میں سے اکثر کی ایک سے زائد آوازیں تھیں، انگریزیH,G,Cیا S کی طرح، مثلاً ’ب‘ ت اور ث کے لیے اور ’ح‘ ج ح اور خ کے لیے، بلکہ بعض حرفی رموز پانچ آوازوں تک کے لیے استعمال ہوتے تھے، مثلاً ایک نبرہ (دندانہ) ’ا‘ ہی ب ت ث ن اور ی کے لیے استعمال ہوتا تھا۔ صرف چھ حروف ’ا ک ل م و اور ہ‘ ایسے تھے جواپنی صرف ایک آواز رکھتے تھے۔ عرب کے لکھے پڑھے لوگ اپنے علم ِزبان کی بناء پر مختلف حروف کی مطلوبہ آواز پہچان کر پڑھ سکتے تھے، مثلاً لفظ ’حرب‘ کو حسب موقع حرب (جنگ)، حرث (کھیتی)، جرب (خارش)، حزب (گروہ)یاخرب (ویرانہ) اسی طرح بہ آسانی پڑھ لیتے تھے، جیسے ایک انگریزی دان حسب موقع GیاSیا H کی درست آواز جان لیتا ہے یا عبارت میں Lead اور Read کی قسم کے الفاظ کا مطلوبہ درست تلفظ سمجھ جاتا ہے۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٥) عہد نبوی کے بعد عہد صدیقی میں سرکاری اہتمام سے ’اُم‘ یا ماسٹر کاپی کے طور پر قرآن کریم کا ایک نسخہ تیار کیا گیا جسے ’مصحف‘ کا نام دیا گیا اور اس کے بعد سے لفظ مصحف بمعنی نسخہ قرآن استعمال ہونے لگا۔
عہد عثمانی میں اسی ماسٹرکاپی (مصحف صدیقی)سے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ایک بورڈ کی زیرنگرانی (کم از کم) چھ مصاحف پر مشتمل ایک نیا قرآنی ایڈیشن تیار کیاگیا۔ ان میں سے ایک مصحف حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے اپنی ذاتی نگرانی میں رکھا اور ایک ایک مصحف مکہ، مدینہ، کوفہ ، بصرہ اور دمشق کی مرکزی مساجد میں پبلک کے استفادہ کے لیے رکھا گیا، تاکہ لوگ ان نسخوں سے اپنے لیے ذاتی مصاحف تیار کرا سکیں، کیونکہ اب یہی مصاحف باجماع صحابہ رضی اللہ عنہم اُمت کے لیے صحت کتابت کا معیار قرار دیئے گئے تھے۔ ان مصاحف کی تیاری کاایک معروف واقعہ ہے اور اس کی تفصیلات اس وقت موضوع بحث بھی نہیں، البتہ ہمارے موضوع کی مناسبت سے ان مصاحف کے ضمن میں دو باتیں قابل ذکر ہیں:
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ اَولاً:یہ کہ ان مصاحف کی کتابت بھی عربی حروف کی ان اٹھارہ صورتوں کے ساتھ ہوئی تھی یعنی ان میں حرکات تو درکنار، مشابہ حروف کو متمیز کرنے کے لیے نقطے بھی نہیں لگائے گئے تھے۔(صفدی:ص۱۳، الجبوری: ص۱۵۵، المنجد:ص۱۲۶ اور غانم: ص۴۶۸)تاہم کاتبین مصاحف عثمانی نے ان نسخوں (مصاحف) میں حرفوں کو نقطوں سے بھی مطلقاً عاری رکھا۔ اکثر اہل علم کے نزدیک یہ تجرید اور تعریہ عمداً اور دانستہ تھا اور اس سے کوئی حکمت اور مصلحت (مثلاً احتمال القراء تین) وابستہ تھی، جبکہ ایک رائے یہ بھی ہے کہ یہ اس زمانے میں شائع عام طریق ِکتابت کا ایک مظہر تھا ۔ بہرحال وجہ جو بھی تھی یہ حقیقت مسلمہ ہے کہ یہ مصاحف نقط اور اعجام سے معریٰ تھے اور اسی لیے ہر ایک نسخہ کے ساتھ پڑھانے والاایک مستند قاری معلّم بھی بھیجا گیا تھا۔ (حق التلاوۃ: ص۱۴۴)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ثانیاً :یہ کہ یہی مصاحف عثمانی اس وقت سے لے کر آج تک دنیا بھر میں موجود مصاحف (قرآنی نسخوں) کی اصل ہیں۔ قرآن کریم کا ہر نسخہ بنیادی رسم الخط (Spelling) کی حد تک ان مصاحف عثمانی میں سے کسی ایک … یا ان سے ہوبہو نقل کردہ کسی ایک نسخے کے عین مطابق ہوتاہے اور ہونا چاہئے۔ اسی کو رسم عثمانی کا التزام کہا جاتا ہے اور جو درحقیقت ’رسم عہد نبوی‘ کاالتزام ہے۔ (غانم:ص۴۶۷)
ان چھ نسخوں(مصاحف)میں سے کوئی اس وقت دنیا میں موجود ہے یا نہیں۔یہ ایک متنازعہ معاملہ ہے، لیکن ان چھ نسخوں کی صوری کیفیات،ان کی املائی خصوصیات اور بعض جزوی اِختلافات کے بارے میں اتنے دقیق تقابلی ملاحظات تک کی اتنی تفصیلات ہم تک پہنچی ہیں کہ اگر آج کہیں ان نسخوں میں سے کسی ایک کی موجودگی کا دعویٰ کیا جائے تو اس کی صحت یا عدم صحت کو ان تفصیلات کی روشنی میں پرکھا جاسکتا ہے۔ کتابت مصاحف میں ان نسخوں کے رسم الخط اور طریق ہجاء سے کوئی ادنیٰ سا اختلاف بھی اہل علم کی نظر سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا۔ (لنگز(۱): ص۱۱)
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٧) حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے ایڈیشن یعنی مصاحف کی تیاری کے قریباً چالیس سال بعد تک دنیائے اسلام میں قرآن کریم کی کتابت اسی طرح بغیر نقاط اور بغیر حرکات کے جاری رہی۔ (الزنجانی: ص۸۹، الجبوری ص۱۵۸۔ الکردیص۹۳ ،غانم ص۵۳۹ ببعد)تاہم قرآن کریم کی تعلیم عہد رسالت سے ہی محض تحریر کی بجائے تلقِّی اور سماع پرمبنی ہونے کے باعث اس کی قراء ت اور تلاوت عموماً درست ہی رہی۔ بالکل ایسے ہی جیسے انگریزی میں Put یا Cut اور Food یا Foot کی قسم کے لفظوں میں تلفظ کافرق معلّم کی شفوی تعلیم پر منحصر ہے، نہ کہ طریق اِملاء اور ہجاء پر۔
(٨) پہلی صدی ہجری کے نصف آخر تک لاکھوں غیر عرب بھی اسلام میں داخل ہوکر قرآن بلکہ عربی زبان بھی سیکھ رہے تھے۔کسی زبان کی صرف قراء ت کی تعلیم بلکہ اس کا عام بول چال میں استعمال تک بھی کسی آدمی کو اہل زبان کی سی مہارت عطا نہیں کرسکتا۔ عراق، شام اورمصر اس وقت تک اگرچہ بڑی حد تک عربی بولنے والے علاقے بن چکے تھے، مگر عوام میں جہاں لحن کے ساتھ عام عربی بولنے کا رواج بڑھا وہاں ساتھ ہی قرآنِ کریم کی تلاوت میں بھی اس ’غلط سلط عربی دانی‘ کا مظاہرہ ہونے لگا۔ آج بھی صرف دارجہ یعنی عوامی زبان بولنے والے ناخواندہ عرب قرآن خوانی میں ایسی غلطیاں عام کرجاتے ہیں۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
(٩) باتفاق روایات ابوالاسود الدؤلی رحمہ اللہ تابعین میں سے پہلے شخص ہیں جنہوں نے علم نحو کی بنیاد ڈالی اور ساتھ ہی قرآن مجید میں نقطوں کے ذریعے شکل(حرفوں کی آواز کو علامات کے ذریعے متعین کرنا)کے ایک نظام کی ابتداء کی۔ (مختلف روایات کے حوالوں کے لیے دیکھئے: غانم ص۴۹۱ اور ابوالاسود رحمہ اللہ کی شخصیت کے تعارف کے مصادر کے لیے اسی (غانم) کا ص ۹۸-۴۹۷ (حواشی نمبر ۳۳ تا ۴۱)، نیز الأعلام جلدسوم ص۳۴۰) ابوالاسودرحمہ اللہ کے اس کام پر آمادہ ہونے کے محرکات کی مختلف روایات ہیں۔ ایک روایت یہ ہے کہ اس کا باعث ان کا عبیداللہ بن زیادرحمہ اللہ کا اَتالیق ہونا بنا۔ دوسری روایت یہ ہے کہ ایک موقع پر انہوں نے خود اپنی بیٹی کو غلط عربی بولتے سنا۔ تیسری وجہ یہ ہوئی کہ کسی عدالت میں مدعی نے اپنا کیس بالکل غلط عربی میں پیش کیا۔ چوتھی اور مشہور روایت، جس کا تعلق بھی براہ راست قرآن سے ہے یہ ہے کہ انہوں نے کسی آدمی کو سورۃ التوبہ کی تیسری آیت میں لفظ’ورسولَہ‘ جر کے ساتھ پڑھتے سنا ۔(الجبوری ص۱۵۱،غانم ص ۴۵۱، الفہرست ص۶۰، الکردی ص۸۵،۸۶)ممکن ہے یہ ساری وجوہ ہی درست ہوں، جن کی بنا پر ابوالاسودرحمہ اللہ نے نحو کے کچھ قواعد بھی مرتب کرنے کی ابتداء کی۔ بیان ہوا ہے کہ انہوں نے تیس آدمیوں کا انٹرویو لینے کے بعد ایک نہایت درست لہجے اور صاف تلفظ والے سمجھدار پڑھے لکھے آدمی کاانتخاب کیا۔(الزنجانی: ص۸۸) ایک مصحف دے کر اسے اپنے سامنے بٹھایا اور خود آہستہ آہستہ قرآن مجید پڑھنا شروع کیا۔شخص مذکورہ کو الفاظ کے تلفظ کے وقت قاری کے منہ، ہونٹوں اور زبان کی حرکات کے لیے حروف پر مختلف جگہ پر سرخ سیاہی سے ایک خاص انداز میں نقطے لگانے کی ہدایت کی۔ ایک دن یا ایک مجلس میں کئے ہوئے کام پر وہ خود نظرثانی کرتے تھے ۔ یہاں تک کہ پورے قرآن مجید پر ’نقاط شکل‘ لگانے کا کام مکمل ہوگیا۔
 

ساجد

رکن ادارہ محدث
شمولیت
مارچ 02، 2011
پیغامات
6,602
ری ایکشن اسکور
9,378
پوائنٹ
635
٭ ابوالاسودرحمہ اللہ کے کام کاخلاصہ یہ ہے کہ
(١) انہوں نے حرفوں کی آواز (حرکت) کونقطوں سے ظاہر کیا۔
(٢) یہ نقطے قرآن کی کتابت میں استعمال شدہ (کاپی) سیاہی سے مختلف رنگ میںلگائے گئے۔بالعموم یا کم از کم ابتداء میں، ان علامتی نقطوں کے لیے سرخ رنگ ہی استعمال کیاگیا۔
(٣) زبر (فتحہ) کے لیے متعلقہ حرف کے اوپر ایک نقطہ ، زیر (کسرہ) کے لیے حرف کے نیچے ایک نقطہ اور پیش (ضمہ) کے لیے حرف کے سامنے یعنی آگے بائیں طرف ایک نقطہ اور تنوین کے لیے دو دو نقطے مقرر کئے گئے۔
 
Top