اسلام علیکم
چلئیے ارسلان بھائی
جب کتابوں میں اغلاط کی بات شروع ہوگئی تو میں بھی ایک نشاندہی کیے دیتا ہو۔
حافظ زبیر زئی کی کتاب ’’نماز میں ہاتھ باندھنے کا حکم اور مقام‘‘ کے صفحہ نمبر ٣٣ پر یہ لکھا ہوا ہے۔
٨ :صحیح لہ فی مستدرک صحيح على شرط الشيخين و وافقہ الذہبی (ا،٤٨٣،ح١٤١٨)
یہ روایت مومل عن سفیان(الثوری)کی سند سے ہےلہذا مومل مذکور حاکم اور ذہبی دونوں کے نزدیک صحیح الحدیث ہے
میں نے جب شاملہ میں یہ حدیث تلاش کی تو مومل ثنا سفیان کی سند سے ہے
1418 - حدثنا أبو العباس محمد بن يعقوب ثنا حميد بن عياش الرملي حدثنامؤمل بن إسماعيل ثنا سفيان عن عبد الرحمن بن الأصبهاني عن أبي حازم عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم : أولاد المؤمنين في جبل في الجنة يكفلهم إبراهيم وسارة حتى يردهم إلى آبائهم يوم القيامة
هذا حديث صحيح على شرط الشيخين ولم يخرجاه
مستدرك الحاكم ]
الكتاب : المستدرك على الصحيحين
المؤلف : محمد بن عبد الله أبو عبد الله الحاكم النيسابوري
الناشر : دار الكتب العلمية - بيروت
الطبعة الأولى ، 1411 - 1990
تحقيق : مصطفى عبد القادر عطا
عدد الأجزاء : 4
مع الكتاب : تعليقات الذهبي في التلخيص
اور پی ڈی ایٍف فائل میں یہ حدیث نمبر ١٤١٩ ہے اس میں بھی مومل ثنا سفیان کی سند سے ہے
اللہ حافظ
میں قطعا نہیں سمجھتا کہ حافظ زیبرعلی زئی حفظہ اللہ کی محولہ عبارت میں کوئی غلطی ہے ۔
آپ غالبا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ مستدرک میں مؤمل کی روایت
’’حدثنا‘‘ کے صیغہ سے ہے ۔
اورحافظ زبیرعلی زئی حفظہ اللہ نے
’’عن‘‘ کے صیغہ سے نقل کیا ہے !!!
عرض ہے کہ حافظ موصوف کے مذکورہ جملہ کے سیاق کو سمجھنے کی کوشش کریں حافظ موصوف کے جملہ کا مقصود یہ ہے کہ سفیان ثوری کی جورایت مؤمل کے طریق سے آتی ہے اس میں بھی مؤمل ثقہ ہیں ۔
حافظ موصوف
’’مؤمل عن ‘‘ کہہ کر صیغہ ادا پر بات نہیں کررہے ہیں بلکہ اس سے مقصود یہ بتلانا ہے کہ اس سندمیں مؤمل نے سفیان ثوری سے روایت کیا ہے اس مٍفہوم کو حافظ موصوف نے
’’مؤمل عن ‘‘ کہہ کربیان کیا ہے ۔دریں صورت اصل سند میں صیغہ ادا
’’عن‘‘ ہو یا
’’حدثنا ‘‘ اس سے مذکورہ جملہ پرکوئی فرق نہیں پڑتا۔
غورکریں کہ اس عبارت سے قبل صفحہ ٣٢ پر حافظ موصوف لکھتے ہیں:
ترمذی: صحح لہ (٤١٥، ٦٧٢ ، ١٩٤٨) وحسن لہ (٢١٤٦، [٣٢٦٦])
تنبیۃ: بریکٹ [ ] کے بغیر والی روایتیں مؤمل عن سفیان (الثوری) کی سند سے ہیں۔
لیکن یہ روایات ترمذی سے ملاحظہ ہوں:
415 -
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ المُسَيَّبِ بْنِ رَافِعٍ، عَنْ عَنْبَسَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ صَلَّى فِي يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً بُنِيَ لَهُ بَيْتٌ فِي الجَنَّةِ: أَرْبَعًا قَبْلَ الظُّهْرِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَهَا، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ المَغْرِبِ، وَرَكْعَتَيْنِ بَعْدَ العِشَاءِ، وَرَكْعَتَيْنِ قَبْلَ صَلَاةِ الْفَجْرِ صَلَاةِ الْغَدَاةِ "،: «وَحَدِيثُ عَنْبَسَةَ عَنْ أُمِّ حَبِيبَةَ فِي هَذَا البَابِ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ عَنْبَسَةَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ»[سنن الترمذي ت شاكر 2/ 274]
یعنی یہاں
’’مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‘‘ ہے ۔۔۔۔۔۔۔
672 -
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا المُؤَمَّلُ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أَعْطَتِ المَرْأَةُ مِنْ بَيْتِ زَوْجِهَا بِطِيبِ [ص:50] نَفْسٍ غَيْرَ مُفْسِدَةٍ، كَانَ لَهَا مِثْلُ أَجْرِهِ، لَهَا مَا نَوَتْ حَسَنًا، وَلِلْخَازِنِ مِثْلُ ذَلِكَ»: «هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَذَا أَصَحُّ، مِنْ حَدِيثِ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، وَعَمْرُو بْنُ مُرَّةَ لَا يَذْكُرُ فِي حَدِيثِهِ عَنْ مَسْرُوقٍ»[سنن الترمذي ت شاكر 3/ 49]
صرف اسی ایک حوالہ میں
’’عن ‘‘ کا صیغہ ہے۔
1948 -
حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: كُنْتُ أَضْرِبُ مَمْلُوكًا لِي، فَسَمِعْتُ قَائِلًا مِنْ خَلْفِي يَقُولُ: اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ، اعْلَمْ أَبَا مَسْعُودٍ، فَالتَفَتُّ، فَإِذَا أَنَا بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: «لَلَّهُ أَقْدَرُ عَلَيْكَ مِنْكَ عَلَيْهِ» قَالَ أَبُو مَسْعُودٍ: «فَمَا ضَرَبْتُ مَمْلُوكًا لِي بَعْدَ ذَلِكَ»: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَإِبْرَاهِيمُ التَّيْمِيُّ هُوَ إِبْرَاهِيمُ بْنُ يَزِيدَ بْنِ شَرِيكٍ[سنن الترمذي ت شاكر 4/ 335]۔
یہاں بھی
’’مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‘‘ ہے ۔۔۔۔۔۔۔
2146 -
حَدَّثَنَا بُنْدَارٌ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ مَطَرِ بْنِ عُكَامِسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا قَضَى اللَّهُ لِعَبْدٍ أَنْ يَمُوتَ بِأَرْضٍ جَعَلَ لَهُ إِلَيْهَا حَاجَةً»: وَفِي البَابِ عَنْ أَبِي عَزَّةَ وَهَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ، وَلَا يُعْرَفُ لِمَطَرِ بْنِ عُكَامِسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرُ هَذَا الحَدِيثِ حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ قَالَ: حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ، وَأَبُو دَاوُدَ الحَفَرِيُّ، عَنْ سُفْيَانَ، نَحْوَهُ [سنن الترمذي ت شاكر 4/ 452]۔
یہاں بھی
’’مُؤَمَّلٌ قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ،‘‘ ہے ۔۔۔۔۔۔۔
اب کیا کہا جائے کہ یہاں بھی غلطی ہے ؟؟؟؟
کلام کے سیاق و سباق کو سمجھنے کی کوشش کریں تو اشکال ختم ہوجائے گا ، ان مقامات پرحافظ موصوف
’’مؤمل عن سفیان ‘‘ کہہ کر فقط طریق کی نوعیت بتلانا چاہتے ہیں قطع نظر اس کے کی مؤمل نے کس سے صیغہ سے روایت بیان کی ہے، دریں صورت مؤمل کا صیغہ ادا
’’حدثنا‘‘ ہو یا
’’عن‘‘ ، بہرصورت حافظ موصوف کی عبارت اپنی جگہ درست ہے۔