محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
باب اگر باپ نا وافقی سے اپنے بیٹے کو خیرات دے دے کہ اس کو معلو نہ ہو؟
(۲۶) ہم سے محمد ابن یوسف نیبیان کیا کہا کہ ہم سے اسرائیل بن یونس نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابو جویریہ (حطان بن خفاف ) نے بیان کیا کہ معن بن یزیدؓ نے ان سے بیان کیا انہوں نے کہا کہ میں نے اور میرے والد اور دادا (اخفش بن حبیب) نے رسول اللہﷺ کے ہاتھ پر بیعت کی تھی آپﷺ نے میری منگنی بھی کرائی اور آپﷺ نے نکاح بھی پڑھایا تھا اور میں آپ کی خدمت میں ایک مقدمہ لے کر حاضر ہوا تھا وہ یہ کہ میرے والد یزید نے کچھ دینار خیرات کی نیت سے نکالے اور ان کو انہوں نے مسجد میں اکی شخص کے پاس رکھ دیا میں گیا اور میں ان ان کو اس سے لے لیا پھر جب میں انہیں لے کر والد صاحب کے پاس آیا تو انہوں نے فرمایا کہ قسم اللہ کی میرا ارادہ تجھے دینے کا نہیں تھا یہی مقدمہ میں رسول اللہﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوا اور آپﷺ نے یہ فیصلہ دیا کہ دیکھو یزید جو تم نے نیت کی تھی اس کا ثواب تمہیں مل کیا اور معن جو تو نے لے لے وہ اب تیرا ہوگیا۔
تشریح
امام اعظم اور امام محمد کا یہی قول ہے کہ اگر نا واقفی میں باپ بیٹے کو فرض زکوۃ بھی دے دے تو زکوۃ ادا ہو جاتی ہے بلکہ عزیز اور قرب لوگوں کو جو محتاج ہوں زکوۃ دینا اور زیادہ ثواب ہے سید علامہ (نواب صدیق حسن خان صاحب مرحوم) نے کہا کہ متعدد دلائل اس پر قائم ہیں کہ عزیزوں کو خیرات دینا زیادہ افضل ہے خیرات فرض ہو یا نفل اور عزیزوں میں خاوند اولاد کی صراحت ابو سعید کی حدیث میں موجود ہے (مولانا وحید الزمان(
مضمون حدیث پر غور کرنے سے معلوم ہوگا کہ نبی کریمﷺ کس قدر شفیق اور مہربان تھے اور کس وسعت قلبی کے ساتھ آپ نے دین کا تصور پیش فرمایا تھا باپ اور بیٹے ہر دو کو ایسے طور پر سمجھا دیا کہ ہر دو کا مقصد حاصل ہوگیا اور کوئی جھگڑا باقی نہ رہا آپﷺ کا ارشاد اس بنیادی اصول پر مبنی تھا جو حدیث
انما الاعمال بالنیات
میں بتلایا گیا ہے کہ عملوں کا اعتبار نیتوں پر ہے۔
آج بھی ضرورت ہے کہ علماء و فقہاء ایسی وسیع الظرف سے کام لے کر امت کے لئے بجائے مشکلات پیدا کرنے کے شرعی حدود میں آسانیاں بہم پہنچائیں اور دین فطرت کا زیاد سے زیادہ فرخ قلبی کے ساتھ مطالعہ فرمائیں کہ حالات حاضرہ میں اس کی شدید ضرورت ہے فقہاء کا وہ دور گزر چکا جب وہ ایک ایک جزئی پر میدان مناظرہ قائم کر دیا کرتے تھے جن سے تنگ آکر حضرت شیخ سعدی کو کہنا پڑا ؎
فقیہاں طریق جدل سا ختند
لم لا نسلم در اند اختند