• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کتاب زکوۃ کے مسائل کا بیان

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
باب نبی کریمﷺ کی بیویوں کی لونڈی غلاموں کو صدقہ دینا درست ہے

(۱۴۰۰) ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ان سے یونس نے ان سے ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ نے میمونہ رضی اللہ عنہ کی باندی کو جو بکری صدقہ میں کسی نے دی تھی وہ مری ہوئی دیکھی اس پر آپﷺ نے فرمایا تم لوگ اس کے چمڑے کو کیوں نہیں کام میں لائے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو مردہ ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ حرام تو صرف اس کا کھانا ہے۔
(۱۴۰۱) ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے حکم بن عتبہ نے بیان کیا ن سے ابراہیم نخعی نے ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ان کا ارادہ ہوا کہ بریرہ ؓ کو (جو باندی تھیں) آزاد کرینے کے لئے خرید لیں۔ لیکن ا س کے اصل مالک یہ چاہتے تھے کہ ولاء انہیں کے لئے رہے ۔ اس کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریمﷺ سے کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم خرید کر آزاد کردو ولاء تو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے انہوں نے کہا کہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا میں نے کہا کہ یہ بریرۃ ؓ کو کسی نے صدقہ کے طور پر دیا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ ان کے لئے صدقہ تھا لیکن اب ہمارے لئے یہ ہدیہ ہے (غلام کے آزاد کردینے کے بعد مالک اور آزاد شدہ غلام میں بھائی چارہ کے تعلق کو ولاء کہا جاتا ہے گویا غلام آزاد ہونے کے بعد بھی اصل مالک سے کچھ نہ کچھ متعلق رہتا تھا اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو اس شخص کا حق ہے جو اسے خرید کر آزاد کرارہا ہے اب بھائی چارے کا تعلق اصل مالک کی بجائے اس خرید کر آزاد کرنے والٍ س ہوگا ۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے)

باب جب صدقہ محتاج کی ملک ہو جائے

(۱۴۰۲) ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا کہا کہ ہم سے خالد خذاء نے بیان کیا ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریمﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ نہیں کوئی چیز نہیں ہاں نسیبہؓ کا بھیجا ہوا اس بکری کا گوشت ہے جو انہیں صدقہ کے طور پر ملی ہے تو آپﷺ نے فرمایا لاؤ خیرات تو اپنے ٹھکانے پہنچ گئی (معلوم ہوا کہ صدقہ کا مال بایں طور اغنیاء کی تحویل میں بھی آسکتا ہے۔ کیونکہ وہ محتاج آدمی کی ملکیت میں ہوکر اب کسی کو بھی مسکین کی طرف سے دیا جاسکتاہے)
(۱۴۰۳) ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا۔ کہاکہ ہم سے وکیع نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیاقتادہ سے اور وہ انسؓ سے کہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں وہ گوشت پیش کیا گیا جو بریراؓ کو صدقہ کے طورپرملا تھا آپ نے فرمایاکہ یہ گوشت ان پر صدقہ تھا لیکن ہمارے لئے یہ ہدیہ ہے۔ ابودائود نے کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبردی۔ انہیں قتادہ نے کہ انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے ۔
(مقصد یہ ہے کہ صدقہ مسکین کی ملکیت میں آکر اگر کسی کو بطور تحفہ پیش کردیا جائے تو جائز ہے اگرچہ وہ تحفہ پانے والا غنی ہی کیوں نہ ہو)

باب مالداروں سے زکوۃ وصول کی جائے اور فقراء پرخرچ کردیجائے خواہ وہ کہیں بھی ہوں

(۱۴۰۴) ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا کہا کہ میں عبداللہ نے خبر دی کہا کہ ہمیں زکریا ابن اسحق نے خبر دی انہیں یحییٰ بن عبداللہ صیفی نے انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے غلام ابو معبد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن بھیجا تو ان سے فرمایا کہ تم ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں اس لئے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں دعوت دو کہ وہ اسبات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں وہ اس بات میں جب تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ نے ان پر روزانہ دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں ۔ جب تمہاری یہ بات بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالی نے ان کے لئے زکوۃ دینا ضروری قرار دیا ہے یہ ان کے مالداروں سے لی جائی اور ان کے غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔ پھر جب وہ اسمیں بھی تمہاری بات ماں لیں تو ان کے اچھے مال لینے سے بچو اور مظلوم کی آہ سے ڈرو اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
تشریح
اس حدیث کے ذیل میں مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مدفیوضہم فرماتے ہیں۔
قال الحافظ استدل بہ علی ان الامام ہوالذی یتولی قیض الزکوۃ وصفہا اما بنفسہ واما بنائبہ فمن امتنع منہا اخذت منہ قہراً ۔
یعنی حافظ ابن حجر نے کہا کہ اس حدیث کے جملہ توخذ من اغنیائہم سے دلیل لی گئی ہے کہ زکوۃ امام وقت وصول کرے گا اور وہی اس کے مصارف میں خرچ کریگا وہ خود کرے یا اپنے نائب سے کرائے اگر کوئی زکوۃ نہ اسے نہ دے تو وہ زبردستی اس سے وصول کرے گا بعض لوگوں نے یہاں جانوروں کی زکوۃ مراد لی ہے اور سونے چاندی کی زکوۃ میں مختار قرار دیاہے ۔ فان ادی زکوتہما خفیۃ یجز اللہ لیکن حضرت مولانا عبیداللہ مدظلہ فرماتے ہیں
والظاہر عندی ان ولایۃ اخذالامام ظاہرۃ وباطنۃ فان لم یکن امام فرقہا المالک فی مصارفہا وقد حقق ذلک الشوکانی فی السیل الجرار بما لا مزید علیہ فلیرجع الیہ
یعنی میرے نزدیک تو ظاہر وباطن ہر قسم کے اموال کے لئے امام وقت کی تولیت ضروری ہے اور اگر امام نہ ہو (جیسے کہ دور حاضر ہ میں کوئی امام خلیفۃ المسلمین نہیں) تو مالک کو اختیار ہے کہ اس کے مصارف میں خو د اس مال زکوۃ کو خرچ کردے اس مسئلہ کو امام شوکانی نے سیل الجرار میں بڑے ہی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جس سے زیادہ ممکن نہیں جو چاہے ادھر رجوع کر سکتا ہے۔ یہ مسئلہ کہ اموال زکوۃ کو دوسرے شہروں میں نقل کرنا جائزہے یا نہیں اس بارے میں بھی حضرت امام بخاری کا مسلک اس باب سے ظاہر ہے کہ مسلمان فقراء جہاں بھی ہوں ان پر وہ صرف کیا جا سکتا ہے حضرت امام کے نزدیک ترد علی فقرائہم کی ضمیر اہل اسلام کی طرف لوٹتی ہے
قال ابن المنیر اختار البخاری جواز نقل الزکوۃ من بلد المال لعموم قولہ فترد فی فقرائہم لان الضمیر یعود للمسلمین فای فقیر منہم ردت فیہ الصدقۃ فی ای جہۃ کان فقد وافق عموم الحدیث انتہی۔
المحدث الکبیر مولانا عبداللہ مبارک پوری رحمۃ اللہع لیہ فرماتے ہیں :-
والظاہر عندی عدم النقل الا اذا فقد المتستحقون لہا او تکون فی النتقل مسلحۃ انفع واہم من علامہ واللہ تعالی اعلم(مرعاۃ جلد ۳ ص ۴)
یعنی زکوۃ نقل نہ ہونی چاہیئے مگر جب مستحق مفقود ہوں یا نقل کرنے میں زیادہ فائدہ ہو۔

باب امام (حاکم ) کی طرف سے زکوۃ دینے والے کے حق میں دعائے خیرو برکت کرنا

اللہ تعالی کا (سورۃ توبہ میں) ارشاد ہے کہ آپ ان کے مال سے خیرات لیجئے جس کے ذریعہ آپ انہیں پاک کریں۔ اور ان کا تزکیہ کریں اور ان کے حق میں خیر وبرکت کی دعا کریں آخر آیت تک۔
(۱۴۰۵) ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا کہا ہ ہم سے شعبہ نے عمرو بن مرہ سے بیان کیا ان سے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب کوئی قوم اپنی زکوۃ لے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتی تو آپ ان کے لئے دعا فرماتے اے اللہ! آل فلاں کو خیروبرکت عطافرما میرے والد بھی اپنی زکوۃ لے کر حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! آل ابی اوفی کو خیر وبرکت عطا فرما۔
تشریح حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت فرمایا کہ رسول کریمﷺ کے بعد بھی خلفائے اسلام کے لئے مناسب سے کہ وہ زکوۃ ادا کرنے والوں کے حق میں خیر برکت کی دعائیں کریں لفظ امام سے ایسے ہی خلیفہ اسلام مراد ہیں جو فی الواقع مسلمانوں کے لئے انما الامام جنۃ یقاتل من ورائہ الخ ( امام لوگوں کیلئے ڈھال ہے جس کے پیچھے ہوکر لڑائی کی جاتی ہے) مصدق ہوں۔
زکوۃ اسلامی اسٹیٹ کے لئے اور اس کے بیت المال کے لئے ایک اہم ذریعہ آمدن ہے جس کے وجود پذیر ہونے سے ملت کے کتنے ہی مسائل حل ہوتے ہیں عہد رسالت اور پھر عہد خلافت راشدہ کے تجربات اس پر شاہد عادل ہیں مگر صدافسوس کہ اب نہ تو کہیں وہ صحیح اسلامی نظام ہے اور نہ وہ حقیقی بیت المال اس لئے خود مالداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی دیانت کے پیش نظر زکوۃ نکالیں اور جو مصارف ہیں ان میں دیانت کے ساتھر خرچ کریں دور حاضرہ میں کسی مولوی یا مسجد کے پیش امام یا کسی مدرسہ کے مدرس کو امام وقت خلیفہ اسلام تصور کرکے اور یہ سمجھ کر کہ ان کودیئے بغیر زکوۃ ادا نہ ہوگی زکوۃ ان کے حوالہ کرنا بڑی نادانی بلکہ اپنی زکوۃ کو غیر مصرف میں خرچ کرنا ہے۔
باب جو مال سمندر سے نکالا جائے ۔ اور عبداللہ بن عباسؓ نے کہا کہ عنبر کو رکاز نہیں کہہ سکتے عنبر تو ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے اور امام حسن بصری نے کہا کہ عنبر اورموتی میں پانچواں حصہ لازم ہے حالانہ آنحضرتﷺ نے رکاز میں پانچواں حصہ مقرر فرمایا ہے تو رکاز اس کو نہیں کہتے جو پانی میں ملے اور لیث نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا انہوں نے عبدالرحمن بن ہرمز سے ۔ انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے انہوں نے آنحضرت ﷺ سے کہ نبی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے دوسرے نبی اسرائیل کے شخص سے ہزار اشرفیاں قرض مانگیں اس نے اللہ کے بھروسے پر اس کو دے دیں اب جس نے قرض لیا تھا وہ سمندر پر گیا کہ سوار ہو جائے اورقرض خواہ کاقرض ادا کرے لیکن سواری نہ ملی آخر اس نے قرض خواہ تک پہنچنے سے نا امید ہوکرایک لکڑی لی اس ک کریدا اورہزار اشرفیاں اس میں بھر کر وہ لکڑی سمندر میں پھینک دی اتفاق سے قرض خواہ کام کاج کو باہر نکلا سمندر پر پہنچا تو ایک لکڑی دیکھی اور اس کو گھر میں جلانے سے لے آیا پھر پوری حدیث بیان کی جب لکڑی کو چیرا تو اس میں اشرفیاں پائیں۔
تشریح
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت فرمانا چاہتے ہیں کہ دریامیں جو چیزیں ملیں عبنر موتی وغیرہ ان میں زکوۃ نہیں ہے اورج ب حضرات نے ایسی چیزوں کو رکاز میں شامل کیا ان کا قو ل صحیح نہیں حضرت امام اس ذیل میں یہ اسرائیلی واقعہ لائے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔
قال الاسماعیل لیس فی ہذال الحدیث یناسب الترجمۃ رجل اقترض قرضا فارتجع قرضہ وکذا قال الداؤدی حدیث الخشبۃ لیس من ہذاالباب فی شئ و اجاب عبدالملک بافہ اشاربہ الی ان کل ما القاہ البحر جاز اخذہ ولاخمس فیہ الخ (فتح الباری)
یعنی اسماعیلی نے کہا کہ اس حدیث میں باب سے کوئی وجہ مناسبت نہیں ہے ایسا ہی داؤد ی نے بھی کہا کہ حدیث خشبہ کو (لکڑی جس میں روپیہ ملا) اس سے کوئی مناسبت نہیں عبدالملک نے ان حضرات کو یہ جواب دیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے امام بخاری نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ہر وہ چیز جسے دریا باہر پھینک دے اس کا لینا جائز ہے اور اس میں خمس نہیں ہے اس لحاظ سے حدیث اورباب میں مناسب موجود ہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں وذہب الجمہور الی انہ لایجب فیہ شئ یعنی جمہور اس طرف گئے ہیں کہ دریا سے جو چیزیں نکالی جائیں ان میں زکوۃ نہیں ہے۔
اسرائیلی حضرات کایہ واقعہ قابل عبرت ہے کہ دینے والے نے محض اللہ کی ضمانت پر اس کو ایک ہزار اشرفیاں دے ڈالیں اور اس کی امانت و دینت اللہ نے اس طرح ثابت رکھا کہ لکڑی کو معہ اشرفیوں کے قرض دینے والے تک پہنچا دیا اوراس نے باین صورت اپنی اشرفیوں کو وصول کر لیا فی الواقع اگر قرض لینے والا وقت پر ادا کرنے کی صحیح نیت دل میں رکھتا ہو تو اللہ پاک ضرور ضرور کسی نہ کسی ذریعہ سے اسے سامان مہیا کرادیتا ہے کہ وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہ جاتا ہے یہ مضمون ایک حدیث میں بھی آیا ہے مگر آجکل ایسے دیانتدار عنقا الاماشاء اللہ باللہ التوفیق۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
باب رکاز میں پانچواں حصہ واجب ہے

اور امام مالک اور امام شافعی نے کہا رکاز جاہلیت کے زمانے کا خزانہ ہے۔ اس میں تھوڑا مال نکلے یا بہت پانچواں حصہ لیا جائے گا اور کان رکاز نہیں ہے اورآنحضرتﷺ نے کان کے بارے میں فرمایا ا س میں اگرکوئی کرکر یا کام کرتا ہوامر جائے تو اس کی جان مفت گئی اور رکاز میں پانچواں حصہ ہے ارو عمر بن عبدالعزیز خلیہ کانوں میں سے چالیسواں حصہ لیا کرتے تھے ۔ دو سوروپوں میں سے پانچ روپیہ اور امام حسن بصری نے کہا جورکاز دارالحرب میں پائے تو اسمیں سے پانچواں حصہ لیا جائے اور جو ام اور صلتح کے ملک میں ملے تو اس میں سے زکوۃ چالیسواں حصہ لی اور اگر دشمن کے ملک میں پڑی ہوئی چیز ملے تو اس کو پہنچوا دے (شاید مسلمان کا مال ہو) اگر دشمن کا مال ہو تو اس میں سے پانچواں حصہ ادا کرے اور بعض لوگوں نے کہا معدن بھی زکاز ہے جاہلیت کے دفینہ کی طرح کیونکہ عرب لوگ کہتے ہیں ارکز المعد ن جب اس میں سے کوئی چیز نکلے ان کا جواب یہ ہے کہ اگر کسی شخص کو کوئی چیز ہبہ کی جائے یا وہ نفع کمائے یا اس باغ میں میوہ بہت نکلے تو کہتے ہیں ارکزت (حالانکہ یہ چیزیں بالاتفاق رکاز نہیں ہیں) پھران لوگون نے اپنے قول کے خلاف کیا کہتے ہیں رکاز کا چھپالینا کچھ برا نہیں پانچواں حصہ نہ دے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ امام المہدثین امیر المجتہدین حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے لفظ بعض الناس کا استعمال فرمایا ہے ۔ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
قال ابن التین المراد ببعض الناس ابو حنیفہ قلت و ہذا ول موضع ذکرہ فیہ البخاری بہذہ الصیغۃ ویحتمل ان یرید بہ ابا حنیفۃ وغیرہ من الکوفین ممن قال بذلک قال ابن ذہب ابوحنیفۃ والثوری و غیرہما الی ان لمعدن کالرکاز واحتج لہم بقول العرب رکز الرجل اذا اصاب رکاز اوہی قطع من الذہب تخرج من المعدن وحجۃ للجمہور تقرقۃ النبیﷺ بین المعدن الرکازبوا والعطف فصح انہ غیرہ الخ (فتح الباری)
یعنی ابن تین نے کہا کہ مراد یہاں امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہعلیہ ہیں حافظ ابن حجر کہتے ہیں کہ یہ پہلا موقع ہے کہ ان کو امم بخاری نے اس صیغہ کے ساتھ ذکر کیا ہے اوریہ بھی احتمال ہے کہ اس سے مراد ابو حنیفہ اور دوسرے کوفی بھی ہوں جو ایسا کہتے ہیں ابن بطال نے کہا کہ حضرت امام ابو حنیفہ اور ثوری وغیرہما نے کہا کہ معدن یعنی کان بھی زکاز ہی میں داخل ہے کیونکہ جب کوئی شخص کان سے کوئی سونے کا ڈلا پالے تو عرب لوگ بولتے ہیں رکز الرجل فلاں کو رکاز مل گیا اور کا ر او عطف کے ساتھ الگ الگ ذکر فرمایا ہے پس صحیح یہ ہوا کہ معدن ارو رکز دو الگ الگ ہیں۔
رکاز وہ پرانا دفینہ جو کسی کو کہیں مل جائے اس میں سے بیت المال میں پانچواں حصہ دیا جائے گا اور معدن کان کو کہتے ہیں ہر دو میں فرق ظاہر ہے پس ان کا حکم بھی الگ الگ ہے خود رسول اللہﷺ نے فرمادیا کہ جانور سے جو نقصان پہنچے اس کا کچھ بدلہ نہیں اور کنویں کا بھی معاف ہے اور کان کے حادثہ میں کوئی مرجائے تو اس کا بھی یہی حکم ہے اور رکاز میں پانچواں حصہ ہے اس حدیث سے صاف ظاہر ہے کہ معدن اور رکاز دو الگ الگ ہیں۔
حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث دام فیضہ فرماتے ہیں:-
واختج الجمہور ایضاً بان الرککاز فی لغۃ اہل الحجاز زہو دفین الجاہلیۃ ولاشک فی ان النبی الجازی ﷺ تکلم بلغۃ اہل الحجاز وارادبہ مایریدون منہ قال ابن الاثیر الجز ری فی النہایۃ الرکاز عند اہل الحجاز کنوز الجاہلیۃ المدفونۃ فی الارض و عند اہل العراق المعادن والقولان تحتملہا اللعۃ لان کلا منہما مرکوز فی الارض ای ثابت یقال زرکز یرکزۃ رکزا اذادفنہ وارکزالرجل اذا وجد الرکاز والحدیث انما جاء فی التفسیر الاول وہو الجاہلی وانما کان فیہ الخمس لکثرۃ نفعہ وسہولۃ اخذہ الخ (مرعاۃ ج۳ ص ۶۳)
یعنی جمہور نے اس سے حجت پکڑی ہے کہ حجازیوں کی لغت میں رکاز جاہلیت کے دفینے بڑبولا جاتا ہے ارو کوئی شک نہیں کہ رسول کریمﷺ بھی حجازی ہیں اور آپ ﷺ اہل حجار ہی کی لغت میں کلام فرماتے تھے ۔
ابن اثیر جزری نے کہا اہل حجاز کے نزدیک رکاز جاہلیت کے گڑے ہوئے خزانوں پربولا جاتا ہے اور اہل عراق کے ہاں کانوں پر بھی ارولغوی اعتبار سے ہر دو کا احتمال ہے اس لئے کہ دونوں ہی زمین میں گڑے ہوئے ہوتے ہیں اور حدیث مذکور تفسیر اول (یعنی عہد جاہلیت کے دفینوں) ہی کے متعلق ہے اور وہ کنز جاہلی ہے اور اس میں خمس ہے اس لئے کہ اس کا نفع کثیر ہے ارو وہ آسانی سے حاصل ہو جاتا ہے۔
اس سلسلہ میں احناف کے بھی کچھ دلائل ہیں جن کی بنا پر وہ معدن کو بھی زکاز میں داخ کرتے ہیں کیونکہ لغت میں ارکزالمعدن کا لفظ مستعمل ہے جب کان سے کوئی چیز نکلے تو کہتے ہیں ارکز المعدن حضرت امام بخاری نے اس کا الزامی جواب دیا ہے کہ لفظ ارکز تو مجازا بعض دفعہ نفع کثیر پر بھی بولا جاتا ہے وہ نفع کثیر کسی کو کسی کی بخشش سے حاصل ہو یا تجارتی منافع سے ہ ویا کثرت پیداوار سے ایسے مواقع بر بھی لفظ ارکزت بول دیتی ہیں یعنی تجھے خزانہ مل گیا تو کیا اس طرح بول دینے سے اسے بھی رکاز کے ذیل میں لایا جا سکتا ہے ؟ پس ایسے ہی مجازا یہ لفظ کان پر بھی بول دیا گیا ہے ورنہ حقیقت یہی ہے کہ کان رکاز میں داخل نہیں ہے اس کا مزید ثبوت خو د حنفی حضرات کا یہ فتوی ہے کہ کان کہیں پوشیدہ جگہ مل جائے تو پانے والا اسے چھپا بھی سکتا ہے اور ان کے فتوی کے مطابق جو پانچواں حصہ اسے ادا کرنا ضروری تھا ۔ اسے وہ اپنے ہی اوپر خرچ کر سکتا ہے یہ فتوی بھی دلالت کررہا ہے کہ رکاز اور معدن دونوں الگ الگ ہیں چند روایات بھی ہیں جو مسلک حنفیہ کی تائید میں پیش کی جاتی ہیں لیکن سند کے اعتبار سے وہ بخاری شریف کی روایات مذکور کے برابر نہیں ہیں۔ لہذا ان سے استدلال ضعیف ہے۔
سارے طول طویل مباحث کے بعد حضرت شیخ الحدیث موصوف فرماتے ہیں:-
والقول الرحج عندنا ہو ما ذہپ الیہ الجہور من الن الرکاز انمہا ہو کنز الحاہلیۃ الموضوع فی الارض و انہ لا یعم المعدن بل ہو غیرہ و اللہ تعالی اعلم ۔
ہمارے نزدیک رکاز کے متعلق جمہورہی کا قول راحج ہے کہ وہ دور جاہلیت کے دفینے ہیں جو پہلے لوگوں نے زیمن میں دفن کردئے ہیں اور لفظ کاز میں معدن اخل نہیں ہے بلکہ ہر دو الگ الگ ہیں ارو رکاز میں خمس ہے ۔
رکاز کے متعلق اوربھی بہت سی تفصیلات ہیں کہ اس کا نصاب کیا ہے؟ قلیل یا کثیر میں کچھ فرق ہے یا نہیں؟ اور اس پر سال گزرنے کی قید ہے یا نہیں؟ اور وہ سونے چاندی کے علاوہ لوہا تانبا سیسہ پیتل وغیرہ کو بھی شامل ہے یا نہیں؟ اور رکاز کا مصرف کیا ہے؟ اور کیا ہر پانے والے پر اس میں خمس واجب ہے پانے والا غلام ہو یا آزاد ہو مسلم ہو یا ذمی ہو؟ رکاز کی پہچان کیا ہے؟ کیا یہ ضرروی ہے ہ اس کے سکوں پر پہلے کسی بادشاہ کا نام یا اس کی تصویر یا کوئی اور علامت ہونی ضورری ہے وغیرہ وغیرہ ان جملہ مباحث کے لئے اہل علم حضرات مرعاۃ المفاتیح جلد ۳ ص ۶۴ و ص ۶۵ کا مطالعہ فرمائیں جہاں الاستاذ مولانا عبیداللہ صاحب مدظلہ نے تفصیل سے قاصر ہوں اور عوام کیلئے میں نے جو کچھ لکھ دیا ہے اسے کافی سمجھتا ہوں۔
(۱۴۰۶) ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی انہیں ابن شہاب نے انہیں سعید بن مسیب اورابو مسلمہ بن عبدالرحمن نے اور انہیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ رسو ل اللہﷺ نے فرمایا جانور سے جو نقصان پہنچے اس کا کچھ بدلہ نہیں اور کنویں کا بھی یہی حال ہے اور کان کا بھی یہی حکم ہے ارو کاز میں سے پانچواں حصہ لیا جائے۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
باب اللہ تعالی نے سورئہ توبہ میں فرمایا زکوۃ کے تحصیلداروں کو بھی زکوۃ سے دیا جائے گا۔

اور ان کو حاکم کے حساب سمجھانا ہوگا۔ یہاں کان اور رکاز کو رسول کریمﷺ نے الگ الگ بیان فرمایا اوریہی باب کا مطلب ہے ۔
(۱۴۰۷) ہم سے یوسف بن موسی نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابو اسامہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا ان سے ان کے باپ نے ان سے ابو حمید ساعدی نے بیان کیا کہ رسو اللہﷺ نے نبی اسد کے ایک شخص عبداللہ بن لتبیہ کو نبی سلیم کو زکوۃ وصول کرنے پرمقرر فرمایا ۔ جب وہ آئے تو آپ نے ان سے حساب لیا۔
(زکوۃ وصول کرنے والوں سے حاکم اسلام حساب لے گا تاکہ معاملہ صاف رہے کسی کو بدگمانی کا موقعہ نہ ملے ابن منیر نے کہا کہ احتمال ہے کہ عامل مذکور نے زکوۃ میں سے کچھ اپنے مصارف میں خرچ کردیا ہو لہذا اس سے حساب لیا گیا بعض روایات سے یہ بھی ظاہر ہے کہ بعض مال کے متعلق اس نے کہا تۃآ کہ یہ مجھے بطور تحفہ ملا ہے اس پر حساب لیا گیا اور تحفہ کے بارے میں فرمایا گیا کہ یہ سب بیت المال ہی کا ہے جس کی طرف سے تم کو بھیجا گیا تھا۔ تحفہ میں تمہارا کوئی حق نہیں ہے)
باب زکوۃ کے اونٹوں سے مسافر لوگ کام لے سکتے ہیں اور ان کا دودھ پی سکتے ہیں

(۱۴۰۸) ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحییٰ قطاں نے بیان کیا ان سے شعبہ نے کہا کہ ہم سے قتادہ نے بیان کیا ار ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ عرینہ کے کجھ لوگوں کو مدینہ کی آب وہوا موافق نہیں آئی ۔ رسول اللہﷺ نے انہیں اس کی اجازت دے دی کہ وہ زکوۃ کے اونٹوں میں جاکر ان کا دودھ اور پیشاب استعمال کریں (کیونکہ وہ ایسے مرض میں مبتلا تھے جس کی دو یہی تھی) لیکن انہوں نے (ان اونٹوں کے) چرواہے کو مار ڈالا اور اونٹوں کو لے کر بھاگ نکلے رسول اللہ ﷺ نی ان کے پیچھے آدمی دوڑائے آخر وہ لوگ پکڑ کر لائے گئے آنحضورﷺ نے ان کے ہاتھ اور پاؤں کٹوادئیے اور ان کی آنکھوں میں گرم سلائیاں پھروادیں پھر انہیں دھوپ میں ڈلوادیا (جس کی شدت کی وجہ سے ) وہ پتھر چبانے لگے تھے اس روایت کی متابعت ابو قلابہ ثابت ارو حمید نے انس رضی اللہ عنہ کے واسطہ سے کی ہے۔
تشریح
آنحضرت ﷺ نے ان کو مسافر ارو بیمار جان کر زکوۃ کے اونٹوں کی چراگاہ میں بھیج دیا کیوں کہ وہ مرض استسقاء کے مریض تھے مگر وہاں ان ظالموں نے اونٹوں کے محفظ کو نہ صرف قتل کیا بلکہ اس کا مثل کرڈالا اور اونٹوں کے لے کر بھاگ گئے بعد میں پکڑے گئے اورقصاص میں ان کو ایسی ہی سزا دی گئی ۔
حضرت امام بخاری نے اس سے ثابت فرمایا کہ مسافروں کے لئے زکوۃ کے اونٹوں کا دودھ وغیرہ دیا جا سکتا ہے اور ان کی سواری بھی ان پر ہو سکتی ہے غرض
المصنف فی ہذالباب اثباب وضع الصدقۃ فی صنف واحد خلافالمن قال یجب استیعاب الاصناف الثمانیۃ (فتح الباری)
یعنی مصنف کا مقصد اس باب سییہ ثابت کرنا ہے کہ اموال زکوۃ کو صرف ایک ہی مصرف پر بھی خرچ کیا جا سکتا ہے برخلاف ان کے جو آٹھوں مصارف کا استیعاب ضروری جانتے ہیں۔ ان لوگوں کییہ سنگین سزا قصاص ہی میں تھی اور بس۔

باب زکوۃ کے اونٹوں پر حاکم کا اپنے ہاتھ سے داغ دینا

(۱۴۰۹) ہم سے ابراہیم بن منذر نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ولید نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابو عمرو اور اوزاعی نے بیان کیا کہا مجھ سے اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں عبداللہ بن ابی طلحہ کو لے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ کہ آپ ان کی تتحنیک کردیں ( یعنی اپنے منہ سے کوئی چیز چبا کر ان کے منہ میں ڈال دیں) میں نے اس وقت دیکھا کہ آپﷺ کے ہاتھ میں داغ لگانے والا آلہ تھا اور آپ زکوٰۃ کے اونٹوں پر داغ لگارہے تھے۔
(معلوم ہوا کہ جانور کو ضرورت سے داغ دینا درست ہے ارو رد ہوا حنفیہ کا جنہوں نے داغ دینا مکروہ اور اس کو مثلہ سمجھا ہے (وحیدی)
بچوں کے لئے یہ تحنیک بھی سنت ہے کہ کھجور وغیرہ کوئی چیز کسی نیک آدمی کے منہ سے کچلوا کر بچے کے منہ میں ڈالی جائے تاکہ اس کو بھی نیک فطرت حاصل ہو)

باب صدقہ فطر کا فرض ہونا

ابو العالیہ عطاء اور ابن سیرین نے بھی صدقہ فطر کو فرض سمجھا ہے۔
تشریح حضرت امام بخاری نے کتاب الزکوۃ کوختم فرماتے ہوئے صدقہ فطر کے مسائل بھی پیش فرمادئیے ۔
قال عوف قالا نزلت نی زکوۃ الفظ وروی عن ابی العالیۃ ابن المسیب وابن سیرین و غیرہم قالوا یعطی صدقۃ الفطر ثم یصلی رواہ البیہقی وغیہہ (مرعاۃ)
یعنی قرآنی آیات فلا پائے اس شخص نے جس نے تریکہ حاصل کیا اور اپنے رب کانام یاد کیا اور نماز پڑھی ۔ حضرت عبداللہ بن عمر اور عمرو بن عوف کہتے ہیں کہ یہ آیات صدقہ فطر کے بارے میں نازل ہوئی ہیں یہ حضرات یہ بھی کہتی ہیں کہ پہلے صدقہ فطر ادا کیا جائے پھر نماز پڑھی جائے لفظ تزکی کے تزکیہ سے روزوں کو پاک صاف کرنا مراد ہے جس کے لئے صدقہ فطر ادا کیا جاتا ہے۔
حضرت ابن عباس ؓ روایت کرتے ہیں :-
فرض رسول اللہﷺ زکوۃ الفظر طہرۃ للصائم ثم من اللغو والرفث الحدیث رواہ ابو داؤد وابن ماجۃ
یعنی رسول اللہﷺ نے زکوۃ فطر کو فرض قرار دیا جو روزہ دار کو لغو اور گناہوں سے (جو اس سے حالت روزہ میں صادر ہوتے ہیں) پاک صاف کردیتی ہے پس آپ کا لفظ تزکی سے مراد صدقہ فطر ادا کرنا ہوا ۔ حدیث ہذا کے تحت علامہ شوکانی فرماتے ہیں :-
فیہ دلیل علی ان صدقۃ الفطر من الفرائض وقد نقل ابن المنذر وغیرہ الاجماع ذلک ولکن الحنفیۃ یقولون بالجوب دون الفرضیۃ علی قاعدتہم فی التفرقۃ بین الفرض والوجوب (نیل الاوطار )
یعنی اس حدیث میں دلیل ہے کہ صدقہ فطر فرائض اسلامیہ میں سے ہے ابن منذر وغیرہ نے اس پراجماع نقل کیا ہے مگر حنفیہ اسے واجب قرار دیتے ہیں کیونکہ ان کے ہاں ان کے قاعدہ کے تحت فرض اور واجب میں فرق ہے اس لئے وہ اس کو فرض نہیں بلکہ واجب کے درجہ میں رکھتے ہیں۔ علامہ عینی حنفی فرماتے ہیں کہ یہ صرف لفظی نزاع ہے۔
بعض کتب فقہ حنفیہ میں اسے صدقہ الفطرۃ یعنی تاکی زیادتی کے ساتھ لکھا گیا ہے اور اس سے مراد وہ فطرت لی گئی ہے جو آیت شریہ فطرۃ اللہ التی فطر الناس علیہا میں ہے مگر حضرت مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مدظلہ العالی فرماتے ہیں۔
واما لفظ الفطر بدون تاء فلا کلام فی انہ معنی لغوی مستعمل قبل الشرء لانہ ضد الصوم ویقال لہا ایضا زکوۃ الفطر وزکوۃ رمضان و زکوۃ الصوم وصدقۃ رمضان وصدقۃ الصو م الخ (مرقاۃ)
لیکن لفظ فطر بغیر تاء کے کوئی شک نہیں کہ یہ لغوی معنی میں مستعمل ہے شریعت کے نزول سے پہلے یہ روزہ کی ضد پر بولا جاتا رہا ہے اسے زکوۃ الفظر زکوۃ رمضان زکو ۃ الصوم و صدقہ رمضان و صدقہ صوم کے ناموں سے پکارا گیا ہے۔
(۱۴۱۰) ہم سے یحی بن محمد بن سکن نے بیان کیا کہا کہ ہم سے محمد بن جہضم نے بیان کیا کہا کہ ہم سے اسماعیل بن جعفر نے بیان کیا ان سے عمر بن نافع نے ان سے ان کے باب نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسو اللہﷺ نے فطر کی زکوۃ (صدقہ فطر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قرار دی تھی ۔ غلام ، آزاد ، مرد عورت چھوٹے اوربڑے تمام مسلمانوں پر آپ کا حکمی یہ تھا کہ نماز (عید) مسلمانوں پر کیلئے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کردای جائے۔

باب صدقہ فطر کا مسلمانوں پر یہاں تک کہ غلام کا لونڈی پربھی فرض ہونا

(۱۴۱۱) ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہمیںامام مالک نے خبر دی انہیں نافع نے اور انہیں ابن عمررضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہﷺ نے فطر کی زکوۃ آزاد یا غلام ، مرد یاعورت تما م مسلمانوں پر ایک صاع کھجور یا جو فرض کی گئی تھی۔
تشریح غلام اور لونڈی پر صدقہ فطر فرض ہونے سے یہ مراد ہے کہ ان کا مالک ان کی طرف سے صدقہ دے بعضوں نے کہا یہ صدقہ پہلے غلام لونڈی پر فرض ہوتا ہے پھر مالک ان کی طرف سے اپنے اوپراٹھا لیتا ہے (وحیدی)
صدقہ فطر کی فرضیت یہاں تک کہ یہ اس پر بھی فرض ہے جس کے پاس ایک روز کی خوراک سے زائد غلہ یا کھانے کی چیز موجود ہے کیونکہ رسول کریمﷺ نے فرمایا
صاع من براوقمح عن کل اثنین صغیر او کبیر حراو عبدذکر اوانثی اما غنیکم فیزکیہ اللہ واما فقیرکم فیرد علیہ اکث مما اعطاہ (ابو داؤد)
یعنی ایک صاع گیہوں چھوٹے بڑے دونوں آدمیوں آزاد غلام مرد عورت کی طرف سے نکالا جائے اس صدقہ کی وجہ سے اللہ پاک مال دار کو گناہوں سے پاک کردے گا (ا س کا روزہ پاک ہو جائے گا) اور غریب کو اس سے بھی زیادہ دے گا جتنا کہ اس نے دیا ہے۔
صاع سے مراد حجازی ہے جو رسو ل کریمﷺ کے زمانہ میں مدینۃ المنورومروج تھا نہ صاع عرافی مراد ہے صاع حجازی کا وزن اسی تولے کے سیر کے حساب سے پونے تین سیر کے قریب ہوتا ہے حضرت مولانا عبید اللہ صاحب شیخ الحدیث امت برکاتہم فرماتے ہیں:۔
وہوخمسۃ ارکال و ثلث رطل بعدادی ویقال لہ الصاع الحجازی لانہ کان مستعملا فی بلاد الحجاز و ہو الصاع الذی کن مستعملا فی زمن النبیﷺ ویہ کانوا یخرجون صدقۃ الفظر و زکوۃ المعشرات وغیرہما من الحقوق الواجبۃ المقدرۃ فی عہد النبیﷺ وبہ قال مالک والشافعی واحمد وابو یوسف وعلماء الجاز و قال ابو حنیفۃ ومحمد بالصاع العرافی وہو ثمانیۃ ارطال بالرطل المذکور وانما قیل لہ العراقی لانہ کان مستعملا فی بلاد العراق و ہوالذی یقال لہ الصاع الجاجی لانہ ابروہ الحجاج الوالی وکان ابو یوسف یقول کقول ابی حنیفۃ ثم رجع الی قول الجمہور لما تناظر مع مالک بالمدینۃ فاراہ المیعان التی توارثما اہل المدینۃ عن اسلافہم فی زمن النبیﷺ (مرعاۃ ج۳ ص ۹۳)
صاع کا وزن ۵ رطل بعدادی ہے اسی کو صاع حجازی کہا جاتا ہے جو رسول کریمﷺ کے زمانہ میں حجاز میں مروج تھا اور عہد رسالت میں صدقہ فطر اور عشر کا غلہ اور دیگر حقوق واجبہ بصورت اجناس اسی صاغ سے وزن کرکے ادا کئے جاتے تھے۔ اور امام ابو حنیفہ اور امام محمد صاع عراقی مراد لیتے ہیں جو بلاد عراق میں مروج تھا جسے حجاجی بھی کہا جاتا ہے۔ اس کا وزن آٹھ رطل مذکور کے برابر ہوتا ہے امام ابو یوسف بھی اپنے استاد گرامی حضرت امام ابو حنیفہ ہی کے قول پرفتوی دیتے تھے مگر جب آپ مدینہ تشریف لائے ارو اس بارے میں امام المدینہ امام مالک سے تبادلہ خیال فرمایا تو امام مالک نے مدینہ کے بہت سے پرانی صاع جمع کرائے جو اہل مدینہ کو زمانہ رسالت مآب ﷺ سے بطور وراثت ملے تھے اور جن کا عہد نبوی میں رواج تھا انکا وزن کیا گیا تو ۵ رطل اروثلث رطل بغداد نکلا چنانچہ حضرت امام ابو یوسف نے اس بارے میں قول جمہور کی طرف رجوع فرمالیا صاع حجاجی اس لئے کہا گیا کہ اسے حجاج والی نے جاری کیا تھا۔
حساب بالا کی رو سے صاع حجازی کا وزن ۲۳۴ تولہ ہوتا ہے جس کے ۶ تولہ کم تین سیر بنتے ہیں جو اسی تولہ والے سیر کے مطابق ہیں۔
 

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,859
ری ایکشن اسکور
41,096
پوائنٹ
1,155
باب صدقہ فطر میں اگر جودے تو ایک صاع اداکرے

(۱۴۱۲) ہم سے قبیصہ بن عقبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے سفیان نے زید بن اسلم سے بیان کیا ان سے عیاض بن عبداللہ نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ ہم ایک صاع جو کا صدقہ دیا کرتے تھے (تفصیل سے بتلایا جا چکا ہے کہ صاع سے مراد صاع حجازی ہے جو عہد رسالت میں مروج تھا جس کا وزن تین سیر سے کچھ کم ہوتا ہے)
باب گیہوں یا دوسرا اناج بھی صدقہ فطر میں ایک صاع ہونا چاہیئے

(۱۴۱۳) ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہمیں امام مالک نے خبر دی انہیں زید بن اسلم نے انہیں عیاض بن سعد بن ابی سرح عامری نے کہ انہوں نے ابو سعدی خدری رضی اللہ عنہ سے سنا آپ فرماتے تھے کہ ہم فطرہ کی زکوۃ ایک صاع اناج یا گیہوں یا ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا انجیر) نکالا کرتے تھے۔
تشریح طعام سے اکثر لوگوں کے نزدیک گیہوں ہی مراد ہے بعضوں نے کہا کہ جو کے سوا دوسرے اناج اور اہل حدیث اور شافعیہ اور جمہور علماء کا یہی قول ہے کہ اگر صقہ فطر میں گیہوں دے تو بھی ایک صاع دے ارو حنفیہ نے اس مسئلہ میں معاویہ بن ابی سفیان ؓ کی تقلید کی ہے ارو انہوں نے گیہوں کا آدھا صاع دینا کافی سمجھا ۔ ابن خزیمہ اور حاکم نے ابو سعیدؓ سے نکالا میں تو ہی صدقہ دوں گا جو آنحضرتﷺ کے زمانے میں دیا کرتا تھا یعنی ایک صاع گیہوں یا ایک صاع پنیر یا ایک صاع جو ایک شخص نے کہا یا دو مد نصف صاع گیہوں انہوں نے کہا کنہیں یہ معاویہؓ کی ٹھہرائی ہوئی بات ہے (وحیدی)

باب صدقہ فطر میں کھجور بھی ایک صاع نکالی جائے

(۱۴۱۵) ہم سے عبداللہ بن منیر نے بیان کیا انہوں نے یزید بن ابی حکمی عدنی سے سنا کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا ان سے زید بن اسلم نے کہا کہ ہم سے عیاض بن عبداللہ بن سعد بن ابی سرح نے بیان کیا اور ان سے ابو سعید خدری رض اللہ عنہ نے کہ نبی کریمﷺ کے زمانہ میں صدقہ ایک صاع گیہوں یا ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو یا ایک صاع زبیب (خشک انگور یا خشک انجیر) نکالتے تھے پھر جب معاویہؓ مدینہ آئے اورگیہوں کی آمدنی ہوئی تو کہنے لگے میں سمجھتا ہوں اس کا ایک مددوسرے اناج کے دو مد کے برابر ہے۔
باب صدقہ فطر نماز عید س پہلے ادا کرنا

(۱۴۱۶) ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا کہا کہ ہم سے حفص بن میسرہ نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے موسے بن عقبہ نے بیان کیا ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمرؓ نے کہ نبی کریمﷺ نے صدقہ فطر نماز (عید) کے لئے جانے سے پہلے پہلے نکالنے کا حکم دیا تھا۔
(۱۴۱۷) ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ابو عمر حفص بن میسرہ نے بیان کیا ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا ن سے عیاض بن عبداللہ بن سعد نے ان سے ابو سعدی خدری رضی اللہ عنہ نے کہ ہم نبی کریمﷺ کے زمانہ میں عیدالفطر کے دن (کھانے کے غلہ سے) ایک صاع نکالتے تھے ۔ ابو سعیدؓ نے بیان کیا کہ ہمارا کھا (ان دنوں) جو زبیب پنیر اور کھجور تھا۔
تشریح صدقہ فطر عید سے ایک دو دن پہلے بھی نکالا جا سکتا ہے مگر نماز عید سے پہلے تو اسے ادا کرہی دینا چاہیئے جیسا کہ دوسری روایات میں صاف موجود ہے
فمن اداہا فبل الصلوٰۃ فہی زکوۃ مقبولۃ ومن اداہا بعد الصلوۃ فیہ صدقۃ من الصدقات (ابو داؤد و ابن ماجہ)
یعنی جو اسے نماز عید سے قبل ادا کرے گا اس کی یہ زکۃ الفطر مقبول ہوگی ارو جو نماز کے بعد ادا کرے گا اس صورت میں یہ ایسا ہی معمولی صدقہ ہوگا جیسے عام صدقات ہوتے ہیں۔

باب صدقہ فطر آزاد اور غلام پر واجب ہونا

اور زہری نے کہا جو غلام لونڈی سوداگر ی کا مال ہوں توان کی سالانہ زکوۃ بھی دی جاے گی اور ان کی طرف سے صدقہ فطر بھی ادا کیا جائے۔
تشریح پہلے باب میں مضمون کا گزر چکا ہے کہ غلام وغیرہ پر جو مسلمان ہوں صدقہ فطر واجب ہے پھر اس باب کے دوبارہ لانے سے یکا غرض ہے؟ ابن منیر نے کہا کہ پہلے باب سے امام بخاری کا مطلب یہ تھا ک کافر کی طرف سے صدقہ فطر نہ نکالیں اس لئے اس میں من المسلمین کی قید لگائی اور اس باب کا مطلب یہ ہے ک مسلمان ہونے پرصدقہ فطر کس کس پر اور کسی کس طرف سے واجب ہوے (وحیدی)
(۱۴۱۸) ہم سے ابو النعمان نے بیان کیا کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا کہا کہ ہم سے ایوب نے بیان کیا ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمرؓ نے کہ نبی کریمﷺ نے صدقہ فطر یا یہ کہا کہ صدقہ رمضان مرد عورت آزاد اور غلام (سب پر) ایک صاع کھجور یا ایک صاع جو فرض قراردیا تھا پھر لوگوں نے آدھا صاع گیہوں اس کے برابرقراردے لیا لیکن ابن عمرؓ کھجور دیا کرے تھے ایک مرتبہ مدینہ میں کھجور کا قحط پڑا تو آپ نے ج وصدقہ میں نکالا ابن عمرؓ چھوٹے بڑے سب کی طرف سے یہاں تک میرے بیٹوں کی طرف سے بھی صدقہ فطر نکالتے تھے ابن عمرؓ صدقہ فطر ہر فقیر کو جو اسے قبول کرتا دے دیا کرتے تھے اور لوگ صدقہ فطر ایک یا دو دن پہلے ہی دے دیا کرتے تھے امام بخاری نے کہا میرے بیٹوں سے نافع کے بیٹے مراد ہیں امام بخاری نے کہا وہ عید سے پہلے جو صدقہ دے دیتے تھے تو اکٹھا ہونیکے لئے نہ فقیروں کے لئے (پھر وہ جمع کرکے فقراء میں تقسیم کردیا جاتا)

باب صدق فطر بڑوں ارو چھوٹوں پر واجب ہی ۔ اور ابو عمر بیان کیا کہ عمر علی جابر عائشہ طاؤس عطاء اور ابن سیرین رضی اللہ عنہم کا خیال یہ تھا کہ تییم کے مال سے بھی زکو ۃ دی جائے گی ارو زہری دیوانے کے مال سے زکوۃ نکالنے کے قائل تھے۔

(۱۴۱۹) ہم سے مسدد نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یحییٰ قطاں نے عبیدا للہ عمری بیان کیا کہا کہ مجھ سے نافع نے بیان کیا کہ ابن عمرؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ایک صاع جو یا ایک صاع کھجور کا صدقہ فطر چھوٹے بڑے آزاد ارو غلام سب پر فرض قرار دیا (صاع کی تفصیل بیان کی جاچکی ہے)

ختم شد
 
Top