محمد ارسلان
خاص رکن
- شمولیت
- مارچ 09، 2011
- پیغامات
- 17,859
- ری ایکشن اسکور
- 41,096
- پوائنٹ
- 1,155
باب نبی کریمﷺ کی بیویوں کی لونڈی غلاموں کو صدقہ دینا درست ہے
(۱۴۰۰) ہم سے سعید بن عفیر نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا ان سے یونس نے ان سے ابن شہاب نے کہا کہ مجھ سے عبیداللہ بن عبداللہ نے بیان کیا اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ نے میمونہ رضی اللہ عنہ کی باندی کو جو بکری صدقہ میں کسی نے دی تھی وہ مری ہوئی دیکھی اس پر آپﷺ نے فرمایا تم لوگ اس کے چمڑے کو کیوں نہیں کام میں لائے۔ لوگوں نے کہا کہ یہ تو مردہ ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ حرام تو صرف اس کا کھانا ہے۔
(۱۴۰۱) ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے حکم بن عتبہ نے بیان کیا ن سے ابراہیم نخعی نے ان سے اسود نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ ان کا ارادہ ہوا کہ بریرہ ؓ کو (جو باندی تھیں) آزاد کرینے کے لئے خرید لیں۔ لیکن ا س کے اصل مالک یہ چاہتے تھے کہ ولاء انہیں کے لئے رہے ۔ اس کا ذکر عائشہ رضی اللہ عنہا نے نبی کریمﷺ سے کیا تو آپﷺ نے فرمایا کہ تم خرید کر آزاد کردو ولاء تو اسی کی ہوتی ہے جو آزاد کرے انہوں نے کہا کہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا میں نے کہا کہ یہ بریرۃ ؓ کو کسی نے صدقہ کے طور پر دیا ہے تو آپﷺ نے فرمایا کہ یہ ان کے لئے صدقہ تھا لیکن اب ہمارے لئے یہ ہدیہ ہے (غلام کے آزاد کردینے کے بعد مالک اور آزاد شدہ غلام میں بھائی چارہ کے تعلق کو ولاء کہا جاتا ہے گویا غلام آزاد ہونے کے بعد بھی اصل مالک سے کچھ نہ کچھ متعلق رہتا تھا اس پر آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ تو اس شخص کا حق ہے جو اسے خرید کر آزاد کرارہا ہے اب بھائی چارے کا تعلق اصل مالک کی بجائے اس خرید کر آزاد کرنے والٍ س ہوگا ۔ باب اور حدیث میں مطابقت ظاہر ہے)
باب جب صدقہ محتاج کی ملک ہو جائے
(۱۴۰۲) ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا کہا کہ ہم سے خالد خذاء نے بیان کیا ان سے حفصہ بنت سیرین نے اور ان سے ام عطیہ انصاریہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریمﷺ عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں تشریف لائے اور دریافت فرمایا کہ کیا تمہارے پاس کچھ ہے؟ عائشہ ؓ نے جواب دیا کہ نہیں کوئی چیز نہیں ہاں نسیبہؓ کا بھیجا ہوا اس بکری کا گوشت ہے جو انہیں صدقہ کے طور پر ملی ہے تو آپﷺ نے فرمایا لاؤ خیرات تو اپنے ٹھکانے پہنچ گئی (معلوم ہوا کہ صدقہ کا مال بایں طور اغنیاء کی تحویل میں بھی آسکتا ہے۔ کیونکہ وہ محتاج آدمی کی ملکیت میں ہوکر اب کسی کو بھی مسکین کی طرف سے دیا جاسکتاہے)
(۱۴۰۳) ہم سے یحییٰ بن موسیٰ نے بیان کیا۔ کہاکہ ہم سے وکیع نے بیان کیا۔ کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیاقتادہ سے اور وہ انسؓ سے کہ نبی کریمﷺ کی خدمت میں وہ گوشت پیش کیا گیا جو بریراؓ کو صدقہ کے طورپرملا تھا آپ نے فرمایاکہ یہ گوشت ان پر صدقہ تھا لیکن ہمارے لئے یہ ہدیہ ہے۔ ابودائود نے کہا کہ ہمیں شعبہ نے خبردی۔ انہیں قتادہ نے کہ انہوں نے انس رضی اللہ عنہ سے سنا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے تھے ۔
(مقصد یہ ہے کہ صدقہ مسکین کی ملکیت میں آکر اگر کسی کو بطور تحفہ پیش کردیا جائے تو جائز ہے اگرچہ وہ تحفہ پانے والا غنی ہی کیوں نہ ہو)
باب مالداروں سے زکوۃ وصول کی جائے اور فقراء پرخرچ کردیجائے خواہ وہ کہیں بھی ہوں
(۱۴۰۴) ہم سے محمد بن مقاتل نے بیان کیا کہا کہ میں عبداللہ نے خبر دی کہا کہ ہمیں زکریا ابن اسحق نے خبر دی انہیں یحییٰ بن عبداللہ صیفی نے انہیں ابن عباس رضی اللہ عنہ سے غلام ابو معبد نے اور ان سے ابن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن بھیجا تو ان سے فرمایا کہ تم ایک ایسی قوم کے پاس جارہے ہو جو اہل کتاب ہیں اس لئے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں دعوت دو کہ وہ اسبات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ﷺ اللہ کے سچے رسول ہیں وہ اس بات میں جب تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ نے ان پر روزانہ دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں ۔ جب تمہاری یہ بات بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالی نے ان کے لئے زکوۃ دینا ضروری قرار دیا ہے یہ ان کے مالداروں سے لی جائی اور ان کے غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔ پھر جب وہ اسمیں بھی تمہاری بات ماں لیں تو ان کے اچھے مال لینے سے بچو اور مظلوم کی آہ سے ڈرو اور اللہ تعالی کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
تشریح
اس حدیث کے ذیل میں مولانا عبیداللہ صاحب شیخ الحدیث مدفیوضہم فرماتے ہیں۔
قال الحافظ استدل بہ علی ان الامام ہوالذی یتولی قیض الزکوۃ وصفہا اما بنفسہ واما بنائبہ فمن امتنع منہا اخذت منہ قہراً ۔
یعنی حافظ ابن حجر نے کہا کہ اس حدیث کے جملہ توخذ من اغنیائہم سے دلیل لی گئی ہے کہ زکوۃ امام وقت وصول کرے گا اور وہی اس کے مصارف میں خرچ کریگا وہ خود کرے یا اپنے نائب سے کرائے اگر کوئی زکوۃ نہ اسے نہ دے تو وہ زبردستی اس سے وصول کرے گا بعض لوگوں نے یہاں جانوروں کی زکوۃ مراد لی ہے اور سونے چاندی کی زکوۃ میں مختار قرار دیاہے ۔ فان ادی زکوتہما خفیۃ یجز اللہ لیکن حضرت مولانا عبیداللہ مدظلہ فرماتے ہیں
والظاہر عندی ان ولایۃ اخذالامام ظاہرۃ وباطنۃ فان لم یکن امام فرقہا المالک فی مصارفہا وقد حقق ذلک الشوکانی فی السیل الجرار بما لا مزید علیہ فلیرجع الیہ
یعنی میرے نزدیک تو ظاہر وباطن ہر قسم کے اموال کے لئے امام وقت کی تولیت ضروری ہے اور اگر امام نہ ہو (جیسے کہ دور حاضر ہ میں کوئی امام خلیفۃ المسلمین نہیں) تو مالک کو اختیار ہے کہ اس کے مصارف میں خو د اس مال زکوۃ کو خرچ کردے اس مسئلہ کو امام شوکانی نے سیل الجرار میں بڑے ہی تفصیل کے ساتھ لکھا ہے جس سے زیادہ ممکن نہیں جو چاہے ادھر رجوع کر سکتا ہے۔ یہ مسئلہ کہ اموال زکوۃ کو دوسرے شہروں میں نقل کرنا جائزہے یا نہیں اس بارے میں بھی حضرت امام بخاری کا مسلک اس باب سے ظاہر ہے کہ مسلمان فقراء جہاں بھی ہوں ان پر وہ صرف کیا جا سکتا ہے حضرت امام کے نزدیک ترد علی فقرائہم کی ضمیر اہل اسلام کی طرف لوٹتی ہے
قال ابن المنیر اختار البخاری جواز نقل الزکوۃ من بلد المال لعموم قولہ فترد فی فقرائہم لان الضمیر یعود للمسلمین فای فقیر منہم ردت فیہ الصدقۃ فی ای جہۃ کان فقد وافق عموم الحدیث انتہی۔
المحدث الکبیر مولانا عبداللہ مبارک پوری رحمۃ اللہع لیہ فرماتے ہیں :-
والظاہر عندی عدم النقل الا اذا فقد المتستحقون لہا او تکون فی النتقل مسلحۃ انفع واہم من علامہ واللہ تعالی اعلم(مرعاۃ جلد ۳ ص ۴)
یعنی زکوۃ نقل نہ ہونی چاہیئے مگر جب مستحق مفقود ہوں یا نقل کرنے میں زیادہ فائدہ ہو۔
باب امام (حاکم ) کی طرف سے زکوۃ دینے والے کے حق میں دعائے خیرو برکت کرنا
اللہ تعالی کا (سورۃ توبہ میں) ارشاد ہے کہ آپ ان کے مال سے خیرات لیجئے جس کے ذریعہ آپ انہیں پاک کریں۔ اور ان کا تزکیہ کریں اور ان کے حق میں خیر وبرکت کی دعا کریں آخر آیت تک۔
(۱۴۰۵) ہم سے حفص بن عمر نے بیان کیا کہا ہ ہم سے شعبہ نے عمرو بن مرہ سے بیان کیا ان سے عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب کوئی قوم اپنی زکوۃ لے کر رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتی تو آپ ان کے لئے دعا فرماتے اے اللہ! آل فلاں کو خیروبرکت عطافرما میرے والد بھی اپنی زکوۃ لے کر حاضر ہوئے تو آپﷺ نے فرمایا کہ اے اللہ! آل ابی اوفی کو خیر وبرکت عطا فرما۔
تشریح حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ثابت فرمایا کہ رسول کریمﷺ کے بعد بھی خلفائے اسلام کے لئے مناسب سے کہ وہ زکوۃ ادا کرنے والوں کے حق میں خیر برکت کی دعائیں کریں لفظ امام سے ایسے ہی خلیفہ اسلام مراد ہیں جو فی الواقع مسلمانوں کے لئے انما الامام جنۃ یقاتل من ورائہ الخ ( امام لوگوں کیلئے ڈھال ہے جس کے پیچھے ہوکر لڑائی کی جاتی ہے) مصدق ہوں۔
زکوۃ اسلامی اسٹیٹ کے لئے اور اس کے بیت المال کے لئے ایک اہم ذریعہ آمدن ہے جس کے وجود پذیر ہونے سے ملت کے کتنے ہی مسائل حل ہوتے ہیں عہد رسالت اور پھر عہد خلافت راشدہ کے تجربات اس پر شاہد عادل ہیں مگر صدافسوس کہ اب نہ تو کہیں وہ صحیح اسلامی نظام ہے اور نہ وہ حقیقی بیت المال اس لئے خود مالداروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنی دیانت کے پیش نظر زکوۃ نکالیں اور جو مصارف ہیں ان میں دیانت کے ساتھر خرچ کریں دور حاضرہ میں کسی مولوی یا مسجد کے پیش امام یا کسی مدرسہ کے مدرس کو امام وقت خلیفہ اسلام تصور کرکے اور یہ سمجھ کر کہ ان کودیئے بغیر زکوۃ ادا نہ ہوگی زکوۃ ان کے حوالہ کرنا بڑی نادانی بلکہ اپنی زکوۃ کو غیر مصرف میں خرچ کرنا ہے۔
باب جو مال سمندر سے نکالا جائے ۔ اور عبداللہ بن عباسؓ نے کہا کہ عنبر کو رکاز نہیں کہہ سکتے عنبر تو ایک چیز ہے جسے سمندر کنارے پر پھینک دیتا ہے اور امام حسن بصری نے کہا کہ عنبر اورموتی میں پانچواں حصہ لازم ہے حالانہ آنحضرتﷺ نے رکاز میں پانچواں حصہ مقرر فرمایا ہے تو رکاز اس کو نہیں کہتے جو پانی میں ملے اور لیث نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا انہوں نے عبدالرحمن بن ہرمز سے ۔ انہوں نے ابوہریرہ ؓ سے انہوں نے آنحضرت ﷺ سے کہ نبی اسرائیل میں ایک شخص تھا جس نے دوسرے نبی اسرائیل کے شخص سے ہزار اشرفیاں قرض مانگیں اس نے اللہ کے بھروسے پر اس کو دے دیں اب جس نے قرض لیا تھا وہ سمندر پر گیا کہ سوار ہو جائے اورقرض خواہ کاقرض ادا کرے لیکن سواری نہ ملی آخر اس نے قرض خواہ تک پہنچنے سے نا امید ہوکرایک لکڑی لی اس ک کریدا اورہزار اشرفیاں اس میں بھر کر وہ لکڑی سمندر میں پھینک دی اتفاق سے قرض خواہ کام کاج کو باہر نکلا سمندر پر پہنچا تو ایک لکڑی دیکھی اور اس کو گھر میں جلانے سے لے آیا پھر پوری حدیث بیان کی جب لکڑی کو چیرا تو اس میں اشرفیاں پائیں۔
تشریح
حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ یہ ثابت فرمانا چاہتے ہیں کہ دریامیں جو چیزیں ملیں عبنر موتی وغیرہ ان میں زکوۃ نہیں ہے اورج ب حضرات نے ایسی چیزوں کو رکاز میں شامل کیا ان کا قو ل صحیح نہیں حضرت امام اس ذیل میں یہ اسرائیلی واقعہ لائے جس کے بارے میں حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔
قال الاسماعیل لیس فی ہذال الحدیث یناسب الترجمۃ رجل اقترض قرضا فارتجع قرضہ وکذا قال الداؤدی حدیث الخشبۃ لیس من ہذاالباب فی شئ و اجاب عبدالملک بافہ اشاربہ الی ان کل ما القاہ البحر جاز اخذہ ولاخمس فیہ الخ (فتح الباری)
یعنی اسماعیلی نے کہا کہ اس حدیث میں باب سے کوئی وجہ مناسبت نہیں ہے ایسا ہی داؤد ی نے بھی کہا کہ حدیث خشبہ کو (لکڑی جس میں روپیہ ملا) اس سے کوئی مناسبت نہیں عبدالملک نے ان حضرات کو یہ جواب دیا ہے کہ اس کے ذریعہ سے امام بخاری نے یہ اشارہ فرمایا ہے کہ ہر وہ چیز جسے دریا باہر پھینک دے اس کا لینا جائز ہے اور اس میں خمس نہیں ہے اس لحاظ سے حدیث اورباب میں مناسب موجود ہے۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں وذہب الجمہور الی انہ لایجب فیہ شئ یعنی جمہور اس طرف گئے ہیں کہ دریا سے جو چیزیں نکالی جائیں ان میں زکوۃ نہیں ہے۔
اسرائیلی حضرات کایہ واقعہ قابل عبرت ہے کہ دینے والے نے محض اللہ کی ضمانت پر اس کو ایک ہزار اشرفیاں دے ڈالیں اور اس کی امانت و دینت اللہ نے اس طرح ثابت رکھا کہ لکڑی کو معہ اشرفیوں کے قرض دینے والے تک پہنچا دیا اوراس نے باین صورت اپنی اشرفیوں کو وصول کر لیا فی الواقع اگر قرض لینے والا وقت پر ادا کرنے کی صحیح نیت دل میں رکھتا ہو تو اللہ پاک ضرور ضرور کسی نہ کسی ذریعہ سے اسے سامان مہیا کرادیتا ہے کہ وہ اپنے ارادے میں کامیاب ہ جاتا ہے یہ مضمون ایک حدیث میں بھی آیا ہے مگر آجکل ایسے دیانتدار عنقا الاماشاء اللہ باللہ التوفیق۔