باب گائے بیل کی زکوۃ کا بیان
اور ابو حمید ساعد نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہیں(قیامت کی دن اس حال میں) وہ شخص دکھلادوںگا جو اللہ کی بارگاہ میں گائے کے ساتھ اس طرح آئے گا کہ وہ گائے بولتی ہوئی ہوگی (سورہ مومنون میں لفظ) جو ار (خوار کے ہم معنی) یجارون (اس وقت کہتے ہیں جب) اس طرح لوگ اپنی آواز بلند کریں جیسے گائے بولتی ہے۔
(۱۳۷۰) ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے اعمش نے مغرور بن موید سے بیان کیا ۔ ان سے ابوذ ر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریمﷺ کے قریب پہنچ گیا تھا اور آپ فرمارہے تھے ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا (آپﷺ نے قسم اس طرح کھائی) اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں یا جن الفاظ کے ساتھ بھی آپﷺ نے قسم کھائی ہو (اس تاکید کے بعد فرمایا) کوئی بھی ایسا شخص جس کے پاس اونٹ گائے یا بکری ہو اور وہ اس کا حق نہ ادا کرتا ہو تو قیامت کے دن اسے لایا جائے گا دنیا سے زیادہ بڑی اور موٹی تازی کرکے پھروہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندے گی ارو سینگ سے مارے گی جب آخر ی جانور اس پر سے گزر جائے گا تو پہلا جانور پھر لوٹ کر آئے گا (اور اسے اپنے سینگ سے مارے گا اور کھروں سے روندے گا) اس وقت تک (یہ سلسلہ برابر قائم رہے گا ) جب تک لوگوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا ۔ اس حدیث کو بکیر بن عبداللہ نے ابو صالح سے روایت کیا ہے انہوں ے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
(اس حدیث سے باب کا مطلب عین گائے بیل کی زکوۃ کا وجوب ثابت ہوا کیونکہ عذاب اسی امر کے ترک پر ہوگا جو واجب ہے مسلم کی روایت اس حدیث میں یہ لفظ بھی ہیں اور وہ اس کی زکوۃ نہ اداکرتا ہو ۔ حضرت امام بخاری کی شرائط کے مطابق انہیں گائے کی زکوۃ کے بارے میں کوئی حدیث نہیں ملی ۔ اس لئے اس باب کے تحت آپ نے اس حدیث کو ذکر کرکے گائے کی زکوۃ کی فرضیت پر دلیل پکڑی ۔
باب اپنے رشتہ داروں کو زکوۃ دینا
اور نبی کریم ﷺ نے (زینب کے حق میں فرمایا جو عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی تھی) اس کو دوگنا ثواب ملے گا ناطہ جوڑنے کا ار صدقے کا (اہل حدیث کے نزدیک یہ مطلقاً جائز ہے جب اپنے رشتہ دار محتاج ہوں تو باپ بیٹے کو یا بیٹا باپ کو یاخاوند جورو کو یا جورو خاوند کو دے بعضوں نے کہا اپنے چھوٹے بچے کو رض زکوۃ دینا بالاجماع درست نہیں ۔ اور امام ابو حنیفہ ارو امام ماکل نے اپنے خاوند کو بھی دینا درست نہیں رکھا۔ اور امام شافعی اور امام احمد نے حدیث کے موافق اس کو جائز رکھا ہے مترجم (مولانا وحید الزمان مرحوم) کہتا ہے کہ رشتہ داروں کو اگر وہ محتاج ہوں زکوۃ دینے میں دہرا ثواب ملے گا ناجائز ہونا کیسا؟ (وحیدی)
رائح کا معنی بے کھٹکے آمدنی کا مال یا بے محنت اور مشقت کے آمدنی کا ذریعہ روح کی روایت خود امام بخاری نے کتاب البیوع میں اوریحییٰ بن یحییٰ کی کتاب الوصایا میں اور اسماعیل کی کتاب التفسیر میں وصل کی (وحیدی)
(۱۳۷۱) ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہم ہم سے امام ماکلک نے بیان کیا ان سے اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے کہا کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار تھے اپنے کھجور کے باغات کی وجہ سے اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ پسند انہیں بیر حاء کا باغ تھا یہ باغ مسجد نبویﷺ کے بالکی سامنے تھا اور رسول اللہﷺ اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی لن تنالوا البرالخ یعنی ’’ تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو یہ سن کر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے سے پیاری چیز نہ خرچ کرو اور مجھے بیر حاء کا باغ سب سے زیادہ پیارا ہے ۔ اس لئے میں اسے اللہ تعالی کے لئے خیرات کرتا ہوں اس کی نیک اور اس کے ذخیرہ آخرت ہونے ا میدوار ہوں اللہ کے حکم سے جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کیجئے ۔ راوی نے بیان کیا ہ یہ سن کر روسول اللہﷺ نے فرمایا خوب ! یہ تو بڑی ہی آمدین کا ملا ہے یہ تو بہت ہی نفع بخش ہے اور جو بات تم نے کہی میں نے وہ سن لی اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو دے ڈالو ابو طلحہ ؓ نے کہا یارسول اللہﷺ میں ایسا ہی کروں گا چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں کو دے دیا ۔ عبداللہ بن یوسف کے ساتھ اس روایت کی متبعت روح نے کی ہے یحییٰ بن یحییٰ اوراسماعیل نے مالک کے واسطہ سے (رائح کے بجائے) رائح نقل کیا ہے۔
تشریح اس حدیث سے صاف نکلا کہ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا درست ہے یہاں تک کہ بیوی بھی اپنے مفلس خاوند اور مفلس بیٹے پر خیرات کر سکتی ہے اورگو یہ صدقہ فرض زکوۃ نہ تھا مگر فرض زکوۃ کو بھی اس پر قیاس کیا ہے بعضوں نے کہا جس کا نفقہ آدمی پر واجب ہو جیسے بیوی کا یا چھوٹے لڑکے کا تو اس کو زکوۃ دینا درست نہیں اور چونکہ عبداللہ بن مسعود زندہ تھی اس لئے ان کے ہوتے ہوئے بچے کا خرچ ماں پرواجب نہ تھا لہذا ماں کو اس پرخیرات خرچ کرنا جائز ہوا ۔ واللہ اعلم (وحیدی)
(۱۳۷۲) ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی انہیں عیاض بن عبداللہ نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ عیدالضحے یا عیدالفطر میں عید گاہ تشریف لے گئے پھر (نماز کے بعد) لوگوں کو وعظ فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا فرمایا لوگوں! صدقہ دو پھر آپﷺ عورتوں کی طرف گئے اور ان سے بھی یہ فرمایا کہ عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں بکثرت تم ہی کو دیکھا ہے عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! ایسا کیوں ہے؟ آپﷺ نے فرمایا اس لئے کہ تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو میں تم سے زیادہ عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کاآزمودہ مراد کی عقل کو بھی اپنی مٹھی میں لے لیتے ہو ہاں اے عورتو! پھر آپ واپس گھر پہنچے تو ابن مسعودؓ کی بیوی زینب ؓ آئیں اور اجازت چاہی آپﷺ سے کہا گیا کہ یہ زیبت آئی ہیں آپﷺ نے فرمایا اچھا انہیں اجازت دے دو چنانچہ اجازت دے دی گئی انہوں نے آکر عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ ! آج آپ نے صدق کا حکم دیا تھا اور میرے پاس بھی کچھ زیور ہے جسے میں صدقہ کرنا چاہتی تھی لیکن (میرے خاوند) ابن مسعود ؓ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے لڑکے اس کے ان (مسکینوں) سے زیادہ مستحق ہیں جن پر میں صدقہ کروںگا ۔ رسول اللہﷺ نے اس پر فرمایا کہ ابن مسعود نے صحیح کہا تمہارے شوہر اور تمہارے لڑکے اس صدقہ کے ان سے زیادہ مستحق ہیں ۔ جنہیں تم صدقہ کے طور پر یہ دوگی ۔ (معلوم ہوا کہ اقارب اگر محتاج ہوں تو صدقہ کے اولین مستحق وہی ہیں)
باب گائے بیل کی زکوۃ کا بیان
اور ابو حمید ساعد نے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا میں تمہیں(قیامت کی دن اس حال میں) وہ شخص دکھلادوںگا جو اللہ کی بارگاہ میں گائے کے ساتھ اس طرح آئے گا کہ وہ گائے بولتی ہوئی ہوگی (سورہ مومنون میں لفظ) جو ار (خوار کے ہم معنی) یجارون (اس وقت کہتے ہیں جب) اس طرح لوگ اپنی آواز بلند کریں جیسے گائے بولتی ہے۔
(۱۳۷۰) ہم سے عمرو بن حفص بن غیاث نے بیان کیا کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے اعمش نے مغرور بن موید سے بیان کیا ۔ ان سے ابوذ ر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نبی کریمﷺ کے قریب پہنچ گیا تھا اور آپ فرمارہے تھے ۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے یا (آپﷺ نے قسم اس طرح کھائی) اس ذات کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں یا جن الفاظ کے ساتھ بھی آپﷺ نے قسم کھائی ہو (اس تاکید کے بعد فرمایا) کوئی بھی ایسا شخص جس کے پاس اونٹ گائے یا بکری ہو اور وہ اس کا حق نہ ادا کرتا ہو تو قیامت کے دن اسے لایا جائے گا دنیا سے زیادہ بڑی اور موٹی تازی کرکے پھروہ اپنے مالک کو اپنے کھروں سے روندے گی ارو سینگ سے مارے گی جب آخر ی جانور اس پر سے گزر جائے گا تو پہلا جانور پھر لوٹ کر آئے گا (اور اسے اپنے سینگ سے مارے گا اور کھروں سے روندے گا) اس وقت تک (یہ سلسلہ برابر قائم رہے گا ) جب تک لوگوں کا فیصلہ نہیں ہو جاتا ۔ اس حدیث کو بکیر بن عبداللہ نے ابو صالح سے روایت کیا ہے انہوں ے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریمﷺ سے۔
(اس حدیث سے باب کا مطلب عین گائے بیل کی زکوۃ کا وجوب ثابت ہوا کیونکہ عذاب اسی امر کے ترک پر ہوگا جو واجب ہے مسلم کی روایت اس حدیث میں یہ لفظ بھی ہیں اور وہ اس کی زکوۃ نہ اداکرتا ہو ۔ حضرت امام بخاری کی شرائط کے مطابق انہیں گائے کی زکوۃ کے بارے میں کوئی حدیث نہیں ملی ۔ اس لئے اس باب کے تحت آپ نے اس حدیث کو ذکر کرکے گائے کی زکوۃ کی فرضیت پر دلیل پکڑی ۔
باب اپنے رشتہ داروں کو زکوۃ دینا
اور نبی کریم ﷺ نے (زینب کے حق میں فرمایا جو عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی تھی) اس کو دوگنا ثواب ملے گا ناطہ جوڑنے کا ار صدقے کا (اہل حدیث کے نزدیک یہ مطلقاً جائز ہے جب اپنے رشتہ دار محتاج ہوں تو باپ بیٹے کو یا بیٹا باپ کو یاخاوند جورو کو یا جورو خاوند کو دے بعضوں نے کہا اپنے چھوٹے بچے کو رض زکوۃ دینا بالاجماع درست نہیں ۔ اور امام ابو حنیفہ ارو امام ماکل نے اپنے خاوند کو بھی دینا درست نہیں رکھا۔ اور امام شافعی اور امام احمد نے حدیث کے موافق اس کو جائز رکھا ہے مترجم (مولانا وحید الزمان مرحوم) کہتا ہے کہ رشتہ داروں کو اگر وہ محتاج ہوں زکوۃ دینے میں دہرا ثواب ملے گا ناجائز ہونا کیسا؟ (وحیدی)
رائح کا معنی بے کھٹکے آمدنی کا مال یا بے محنت اور مشقت کے آمدنی کا ذریعہ روح کی روایت خود امام بخاری نے کتاب البیوع میں اوریحییٰ بن یحییٰ کی کتاب الوصایا میں اور اسماعیل کی کتاب التفسیر میں وصل کی (وحیدی)
(۱۳۷۱) ہم سے عبداللہ بن یوسف نے بیان کیا کہا کہ ہم ہم سے امام ماکلک نے بیان کیا ان سے اسحق بن عبداللہ بن ابی طلحہ نے کہ انہوں نے انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے سنا انہوں نے کہا کہ ابو طلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ میں انصار میں سب سے زیادہ مالدار تھے اپنے کھجور کے باغات کی وجہ سے اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ پسند انہیں بیر حاء کا باغ تھا یہ باغ مسجد نبویﷺ کے بالکی سامنے تھا اور رسول اللہﷺ اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے ۔ انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب یہ آیت نازل ہوئی لن تنالوا البرالخ یعنی ’’ تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو یہ سن کر ابو طلحہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اورعرض کیا کہ اے اللہ کے رسولﷺ! اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے کہ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے سے پیاری چیز نہ خرچ کرو اور مجھے بیر حاء کا باغ سب سے زیادہ پیارا ہے ۔ اس لئے میں اسے اللہ تعالی کے لئے خیرات کرتا ہوں اس کی نیک اور اس کے ذخیرہ آخرت ہونے ا میدوار ہوں اللہ کے حکم سے جہاں آپ مناسب سمجھیں اسے استعمال کیجئے ۔ راوی نے بیان کیا ہ یہ سن کر روسول اللہﷺ نے فرمایا خوب ! یہ تو بڑی ہی آمدین کا ملا ہے یہ تو بہت ہی نفع بخش ہے اور جو بات تم نے کہی میں نے وہ سن لی اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو دے ڈالو ابو طلحہ ؓ نے کہا یارسول اللہﷺ میں ایسا ہی کروں گا چنانچہ انہوں نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں کو دے دیا ۔ عبداللہ بن یوسف کے ساتھ اس روایت کی متبعت روح نے کی ہے یحییٰ بن یحییٰ اوراسماعیل نے مالک کے واسطہ سے (رائح کے بجائے) رائح نقل کیا ہے۔
تشریح اس حدیث سے صاف نکلا کہ اپنے رشتہ داروں پر خرچ کرنا درست ہے یہاں تک کہ بیوی بھی اپنے مفلس خاوند اور مفلس بیٹے پر خیرات کر سکتی ہے اورگو یہ صدقہ فرض زکوۃ نہ تھا مگر فرض زکوۃ کو بھی اس پر قیاس کیا ہے بعضوں نے کہا جس کا نفقہ آدمی پر واجب ہو جیسے بیوی کا یا چھوٹے لڑکے کا تو اس کو زکوۃ دینا درست نہیں اور چونکہ عبداللہ بن مسعود زندہ تھی اس لئے ان کے ہوتے ہوئے بچے کا خرچ ماں پرواجب نہ تھا لہذا ماں کو اس پرخیرات خرچ کرنا جائز ہوا ۔ واللہ اعلم (وحیدی)
(۱۳۷۲) ہم سے سعید بن ابی مریم نے بیان کیا کہا کہ ہمیں محمد بن جعفر نے خبر دی کہا کہ مجھے زید بن اسلم نے خبر دی انہیں عیاض بن عبداللہ نے اور ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہﷺ عیدالضحے یا عیدالفطر میں عید گاہ تشریف لے گئے پھر (نماز کے بعد) لوگوں کو وعظ فرمایا اور صدقہ کا حکم دیا فرمایا لوگوں! صدقہ دو پھر آپﷺ عورتوں کی طرف گئے اور ان سے بھی یہ فرمایا کہ عورتو! صدقہ دو کہ میں نے جہنم میں بکثرت تم ہی کو دیکھا ہے عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہﷺ! ایسا کیوں ہے؟ آپﷺ نے فرمایا اس لئے کہ تم لعن طعن زیادہ کرتی ہو اور اپنے شوہر کی ناشکری کرتی ہو میں تم سے زیادہ عقل اور دین کے اعتبار سے ناقص ایسی کوئی مخلوق نہیں دیکھی جو کاآزمودہ مراد کی عقل کو بھی اپنی مٹھی میں لے لیتے ہو ہاں اے عورتو! پھر آپ واپس گھر پہنچے تو ابن مسعودؓ کی بیوی زینب ؓ آئیں اور اجازت چاہی آپﷺ سے کہا گیا کہ یہ زیبت آئی ہیں آپﷺ نے فرمایا اچھا انہیں اجازت دے دو چنانچہ اجازت دے دی گئی انہوں نے آکر عرض کیا کہ یارسول اللہﷺ ! آج آپ نے صدق کا حکم دیا تھا اور میرے پاس بھی کچھ زیور ہے جسے میں صدقہ کرنا چاہتی تھی لیکن (میرے خاوند) ابن مسعود ؓ یہ خیال کرتے ہیں کہ وہ اور ان کے لڑکے اس کے ان (مسکینوں) سے زیادہ مستحق ہیں جن پر میں صدقہ کروںگا ۔ رسول اللہﷺ نے اس پر فرمایا کہ ابن مسعود نے صحیح کہا تمہارے شوہر اور تمہارے لڑکے اس صدقہ کے ان سے زیادہ مستحق ہیں ۔ جنہیں تم صدقہ کے طور پر یہ دوگی ۔ (معلوم ہوا کہ اقارب اگر محتاج ہوں تو صدقہ کے اولین مستحق وہی ہیں)
باب یتیموں پر صدقہ کرنا بڑا ثواب ہے
(۱۳۷۵) ہم سے معاذ بن فضالہ نے بیان کیا کہا کہ مجھ سے ہشام ستوائی نے یحییٰ سے بیان کیا ان سے بلال بن ابی میمونہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عکاء بن یسار نے بیان کیا ۔ اور انہو ں نے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ نبی کریمﷺ ایک دن منبر پرتشریف فرماء ہوئے ہم بھی آپ کے اردگرد بیٹھ گئے آپﷺ نے فرمایا کہ میں تمہارے متعلق اس بات سے ڈرتا ہوں کہ تم پر دنیا کی خوشخالی اور اس کی زیبائش و آرائش کے دروازے کھول دئیے جائیں گے ۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا اچھائی برائی پیدا کرے گی اس پر نبی کریمﷺ خاموش ہوگئے اس لئے اس شخص سے کہا جانے لگا کہ کیا بات تھی تم سے نبی کریمﷺ سے ایک بات پوچھی لیکن آنحضورﷺ نے پسینہ صاف کیا (جو وحی نازل ہوتے وقت آپ کو آنے لگتا تھا) پھر پوچھا کہ سوال کرنے والے صاحب کہاں ہیں ہم نے محسوس کیا کہ آپﷺ نے اس کے (سوال کی) تعریف کی پھر آپﷺ نے فرمایا کہ اچھائی برائی نہیں پیدا کرتی (مگر بے موقع استعمال سے برائی پیدا ہوتی ہے) کیونکہ موسم بہار میں بعض ایسی گھاس بھی اگتی ہیں جو جان لیوا یا تکلیف دہ ثابت ہوتی ہیں البتہ ہریالی چئنے والا وہ جانور بچ جاتا ہے کہ خوب چرتا ہے اور جب اس کی دونوں کو کھیں بھر جاتی ہیں تو سورج کی طرف رخ کرکے پاخانہ پیشاب کردیتا ہے اور پھر خوب چرتا ہے اسی طرح یہ مال و دولت بھی ایک خوشگوار سبزہ زار ہے اور مسلان کا وہ مال کتنا عمدہ ہے جو مسکین یتیم اور مسافر کو دیا جائے ۔ یا جس طرح نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا ہاں اگر کوئی شخص زکوۃ حقدار ہونے کے بغیر لیتا ہے تو اس کی مثال ایسے شخص کی سی ہے جو کھاتا ہے لیکن اس کا پیٹ نہیں بھرتا اور قیامت کے دن یہ مال اس کے خلاف گواہ ہوگا۔
تشریح
اس طویل حدیث میں آنحضرت ﷺ نے اپنی امت کے مستقبل کی بابت کئی ایک اشارے فرمائے جن میں سے بیشتر باتیں وجود میں آچکی ہیں ۔ اس سلسلہ میں آپ نے مسلمانوں کے عروج و اقبال کے دور پر بھی اشارہ فرمایا اور یہ بھی بتلایا کہ دنیا کی ترقی مال و دولت کی فراوانی یہاں کا عیش و عشرت یہ چیزیں بطاہر خیر ہیں مگر بعض دفعہ ان کا نتیجہ شر سے بھی تبدیل ہو سکتا ہے اس پر بعض لوگوں نے کہا کہ حضور کیا خیر بھی کبھی شر کا باعث ہو جائے گی اس سوال کے جواب کیلئے آنحضرت ﷺ وحی کا انتظار میں خاموش ہوگئے جس سے کچھ لوگوں کو خیال ہوا کہ آپﷺ اس سوال سے خفا ہوگئے ہیں کافی دیر بعد جب اللہ پاک نے آپ کو بذریعہ وحی جواب سے آگاہ فرما دیا تو آپﷺ نے یہ مثال دے کر جو حدیث میں مذکورہے سمجھایا اوربتلایا کہ گو دولت حق تعالی کی نعمت اور اچھی چیز ہے مگر جب بے موقع اور گناہوں میں صرف کی جائے تو یہی دولت عذاب بن جاتی ہے جیسے فصل کی ہر گھاس وہ جانوروں کے لئے بڑی نعمت ہے مگر جو جانور ایک ہی مرتبہ گر کر اس کو حد سے زیادہ کھا جائے تو اس کے لئے یہ گھاس زہر کا کام دیت ہے ۔ جانور پر کیا منحصر ہے یہی روٹی جو آدمی کی لئے باعث جیات ہے اگر اس میں بے اعتلالی کی جائے تو باعث موت بن جایتی ہے تم نے دیکھا ہوگا قحط سے متاثر بھوکے لوگ جب ایک ہی مرتبہ کھانا پالیتے ہیں اور حد سے زیادہ کھا جاتے ہیں تو بعض وفعہ ایسے لوگ پانی پیتے ہی دم توڑ دیتے ہیں اور ہلاک ہو جاتے ہیں ۔ یہ کھانا ان کیلئے زہر کا کام دیتا ہے۔
پس جو جانور ای ہی مرتبہ ربیع کی پیداوار پر نہیں گرتا بلکہ سوکھی گھاس پر جو بارش سے ذرا ذرا ہری نکلتی ہے اس کے کھانے پرقناعت کرتا ہے اور پھر کھانے کے بعد سورج کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوکر اس کے ہضم ہونے کا انتظار کرتا ہے پاخانہ پیشاب کرتا ہے تو وہ ہلاک نہیں ہوتا۔
اسی طرح دنیا کا مال بھی ہے جو اعتدال سے حرام وحلال کی پابندی کیساتھ اس کو کماتا ہے اس سے فائدہ اٹھاتا ہے آپ کوکھاتا ہے مسکین بیتمی مسافروں کی مدج کرتا ہے تو وہ بچا رہتا ہے مگر جو حریص کتے کی طرح دنیا کے مال واسباب پر گر پڑتا ہے اور حلال و حرام کی قیدا ٹھا دیتا ہے آخر وہ مال اس کو ہضم نہیں ہوتا اوراستفراغ کی ضرورت پڑتی ہے کبھی بدہضمی ہوکر اسی مال کی دھن میں اپنی جان بھی گنوا دیتا ہے پس مال و دنیا کی ظاہری خوبصورتی پر فریب مت کھاؤ ہو شیار رہو حلوہ کے اندر زہر لپٹا ہوا ہے۔
حدیث کے آخری الفاظ کالذی یاکل ولا یشبع میں ایسے لالچی طماع لوگوں پر اشارہ ہے جن کو جوع البقر کی بیماری ہو جاتی ہے اور کسی طرح ان کی حرص نہیں جاتی۔
حدیث اور باب میں مطابقت حدیث کا جملہ فنعم صاحب المسلم ما اعظے منہ المسکین والیتیم وابن السبیل ہے کہ اس سے یتیموں پر صدقہ کرنے کی ترغیب دلائی گئی ہے۔
باب عورت کا خود اپنے شوہر کو یا اپنی زیر تربیت یتیم بچوں کو زکوۃ دینا اس کو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بھی نبی کریمﷺ سے روایت کیا ہے۔
(۱۳۷۶) ہم سے عمر بن حفص بن غیاث نے بیان کیا کہا کہ ہم سے میرے باپ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا ان سے شقیق نے ان سے عمرو بن الحارث نے اور ان سے عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی زینبؓ نے (اعمش نے کہا کہ میں نے اس حدیث کا ذکر ابراہیم نخعی سے کا تو انہوں نے بھی مجھ سے ابو عبیدہ سے بیان کیا ان سے عمرو بن حارت نے اور ان سے عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی زینبؓ نے بالکل اسی طرح حدیث بیان کی (جس طرح شقیق نے کی کہ) زینتؓ نے بیان کیا کہ میں مسجد نبویﷺ میں تھی ۔ رسول اللہﷺ کو میں نے دیکھا آپ یہ فرمارہے تھے صدقہ کرو خواہ اپنے زیور ہی میں سے دو اور زینب اپنا صدقہ اپنے شوہر حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ اورچند یتیموں پر بھی جوان کی پرورش میں تھے خرچ کیا کرتی تھیں اس لئے انہوں نے اپنے خاوند سے کہا کہ آپ رسول اللہﷺ سے پوچھئے کہ کیا وہ صدقہ بھی مجھ سے کفایت کرے گا جو میں آپ پراور ان چند یتیموں پر خرچ کروں جو میری سپردگی میں ہیں لیکن عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ تم خود جاکر رسول اللہ ﷺ سے پوچھ لو۔ آخر میں خود رسول اللہﷺکی خدمت میں حاضر ہوئی اس وقت میں آپﷺ کے دروازے پر ایک انصاری خاتون کو پایا جو میری جیس ضرورت لے کر موجود تھیں (جو زیب ابو مسعود انصاری کی بیوی تھیں) پھر ہمارے سامنے سے بلالؓ گزرے تو ہم نے ان سے کہا کہ آپ رسول اللہﷺ سے یہ مسئلہ دریافت کیجئے کہ کیا وہ صدقہ مجھ سے کفایت کریگا جسے میں اپنے شوہر اور اپنی زیر تحویل چند یتیم بچوں پر خرچ کردوں ہم نے بلال سے یہ بھی کہا کہ ہمارا نام نہ لینا وہ اندر کئے اور آپ سے عرض کیا کہ دو عورتیں مسئلہ دریافت کرتی ہیں تو آں حضرت ﷺ نے فرمایا کہ یہ دونوں کون ہیں؟ بلالؓ نے کہہ دیا کہ زینب نام کیہ ں آپ ﷺ نے فرمایا کہ کون سی زینب؟ بلال ؓ نے کہا کہ عبداللہ بن مسعودؓ کی بیوی ۔ آپ نے فرمایا کہ ہاں بے شک درست ہے اور انہیں دوگنا ثواب ملے گا ایک قرابتدار ی کا اور دوسرا خیرات کرنے لگا۔
تشریح
اس حدیث میں صدقہ یعنی خیرات کا لفظ ہے جو فر ض صدقہ یعنی زکوۃ اور نفل خیرات دونوں کو شامل ہے امام شافعیؓ اور ثوریؓ اور صاحبین اور امام مالک اور امام احمد سے ایک روایت ایسی ہی ہے اپنے خاوند کو اور بیٹوں کو (بشرطیکہ وہ غریب مسکین ہوں دینا درست ہے ۔ بعض کہتے ہیں کہ ماں باپ اور بیٹے کو دینا درست نہیں اورا مام ابو حنیفہ کے نزدیک خاوند کو بھی زکوۃ دینا درست نہیں وہ کہتے ہیں کہ ان حدیثوں میں صدقہ سے نفل صدقہ مراد ہے ۔ (وحیدی)
لیکن خود حضرت امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے یہاں زکوۃ فرض کو مراد لیا ہے جس سے ان کا مسلک ظاہر ہے حدیث کے ظاہر الفاظ سے بھی حضرت امام کے خیال ہی کی تائید ہوتی ہے۔
(۱۳۷۷) ہم سے عثمان بن ابی شیبہ نے بیان کیا کہا کہ ہم سے عبدہ نے ان سے ہشام نے بیان کاا ان سے ان کے باپ نے ان سے زینب بنت ام سلمہ نے ان سے ام سلمہ نے انہوں نے کہا کہ میں نے عرض کیا یارسول اللہ! اگر میں ابو سلمہ (اپنے پہلے خاوند) کے بیٹوں پرخرچ کروں تو درست ہے یا نہیں کیونکہ وہ میری بھی اولاد ہیں آپ نے فرمایا کہ ہاں ان پر خرچ کر تو جو کچھ بھی ان پر خرچ کرے گی اس کا ثواب تجھ کو ملے گا ۔ (محتاج اولاد پر صدقہ خیرات حتی کہ مال زکوۃ دینے کا جواز ثابت ہوا۔)