• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کتاب "عصر حاضر میں تکفیر، خروج اور نفاذ شریعت کامنہج" پر تبصرہ

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,555
پوائنٹ
641
جزاکم اللہ خیرا۔ اللہ آپ کی دعا قبول فرمائے کیونکہ میں اس کا سب سے زیادہ محتاج ہوں۔
 

طاہر اسلام

سینئر رکن
شمولیت
مئی 07، 2011
پیغامات
843
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
256
برادرم حافظ زبیر صاحب نے اپنے فکری و نفسیاتی ارتقا کی جو تفصیل بیان کی ہے اسے پڑھ کر امام غزالی کی المنقذ کی یاد تازہ ہوگئی؛مجھے خود اگرچہ ان کی اس کتاب کے کئی پہلوؤں سے اختلاف ہے تا ہم ان سے متعدد اور متنوع نسبتوں پر مبنی اپنے قریبی تعلق کی بنا پر اتنی بات ریکارڈ پر لانا ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کی علمی دیانت ہر شبہے سے بالاتر ہے اور انھوں نے محض کسی فریق کی بے جا حمایت یا دوسرے پر تنقید براے تنقید کے جذبے سے یہ کتاب نہیں لکھی بل کہ اپنے علم و تحقیق کی روشنی میں جس بات کو درست سمجھا اسے پیش کر دیا ہے؛البتہ جو نتائج اخذ کیے ہیں یا مختلف نقطہ ہاے نظر کو جس طرح بیان کیا ہے اس سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور میں اس پر لکھنے کا ارادہ بھی رکھتا ہوں۔
جہاں تک برادر محترم حافط زبیر صاحب کی اس شرط؟کا تعلق ہے کہ معترض یا ناقد ان سے زبانی گفت گو کرے،میرے خیال میں یہ ہر گز ضروری نہیں،گو اسے اختیار کر لیا جائے تو بعض صورتوں میں مفید بھی ہوتا ہے۔
دنیا میں ہزاروں کتابیں لکھی جا رہی ہیں اور ان پر تنقید بھی ہو رہی ہے لیکن کسی نے بھی یہ شرط نہیں لگائی کہ پہلے مصنف سے بالمشافہ ملاقات کر کے اس کا مفہوم سمجھا جائے اور پھر تنقید لکھی جائے؛خود حافظ صاحب موصوف نے بھی بے شمار لوگوں پر تنقید کی ہے اور میرا نہیں خیال کہ انھوں نے ہر ایک سے باقاعدہ ملاقات کر کے اس کا موقف سمجھا ہے؛اصل میں جب ٹیکسٹ سامنے موجود ہو تو پھر یہ شرط ہی بے معنی ہے کہ باقاعدہ مصنف کی بارگاہ میں حاضری دی جائے کیوں کہ اس طرح تو تحریر کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے؛ہاں البتہ اگر کوئی اپنی تسلی کے لیے چاہے تو ایسا کر بھی سکتا ہے لیکن یہ کوئی لازم اور ضروری شرط نہیں ہے اور نہ عملاً ایساممکن ہی ہے ۔
علاوہ ازیں میری راے میں کسی بھی مصنف کو اپنے اوپر کی جانے والی تنقید کا جواب دینے یا نہ دینے کا پورا حق ہے؛اس پر یہ فرض نہیں کہ وہ ہر ایک تنقید کا جواب دیتا پھرے۔
جناب باربروسا صاحب کو میرا مشورہ یہ ہے کہ وہ اپنے اعترضات مہذب اور شایستہ انداز میں نکتہ وار پیش کر دیں اور جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا کہ طنز و طعن سے کلیتاً گریز کریں اور اس بات کو ذہن میں رکھیں کہ نہ تو وہ اسلام اور مجاہدین کے سب سے بڑے وکیل ہیں اور نہ حافظ زبیر صاحب ہی جہا د اور مجاہدین سے کوئی کد رکھتے ہیں؛دونوں کا مقصد اسلام و اہل اسلام کی خیر خواہی ہے۔
میری گزارش ہے کہ دونوں ہی احباب سلف صالحین کے طرز اختلاف کو سامنے رکھتے ہوئے مکالمے کو آگے بڑھائیں ؛اس سے یقیناً ناظرین کو فائدہ ہو گا۔جزاکم اللہ خیراً
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
جناب عسکری صاحب! یہی تو میں بار بار کہہ چکا ہوں کہ بات خط اور کتاب کے مندرجات پر کی جائے۔ اب آپ نے دوبارہ فرمایا ہے تو میں ترتیب وار کچھ چیزیں پھر سے سامنے رکھ دیتا ہوں۔ نقد اصلا تین پہلوؤں سے کیا گیا ہے:

1) طرز استدلال
2) اصول تحقیق
3)فقہ الواقع

اس میں سب سے پہلے علمی استدلال کے طریقہ کار میں بھی سب سے پہلی چیز "عبارت کو نقل کرنا" ہے۔ امام طبری رحمہ اللہ کی عبارت کو نقل کرنے میں مصنف کے ہاں سیاق و سباق سے کاٹ کر پیش کرنے کا تاثر سامنے آتا ہے، مراسلہ 19 میں اس "اجمال کی تفصیل" موجود ہے، یہیں سے آغاز کرنا چاہ رہا تھا ، حافظ صاحب مدظلہ بات کریں تو کچھ بات چلے۔

منتظر!
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
2)
طرز استدلال کے ضمن ہی میں عرض کیا تھا:
""ڈاکٹر صاحب فہم سلف کے داعی ہیں۔اب خدا جانے یہ تجاہل عارفانہ ہے یا لاعلمی کہ ایک خاص موقف کے خلاف وارد ہونے والا ’فہم سلف‘ کتاب میں جگہ پانے سے یکسر محروم رہا ہے۔ اس کی ایک مثال آیت ولایت اور الولاء والبراء کی تشریح کے ضمن میں ابن تیمیہ و ابن عبدالوہاب اور سلفی علماء کو یکسر نظر انداز کیا جانا ہے۔""

تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ بطور مثال آیت ولایت اور الولاء والبراء کے ضمن میں "یکسر محروم" رہ جانے والے فہم سلف میں :

شیخ ابن تیمیہ و ابن قیم رحمھما اللہ (لنک)
شیخ محمد بن عبدالوھاب اور علمائے نجد
شیخ ابن باز اور موجودہ علمائے عرب۔ (مجموعی طور پر 52 اور خصوصا 30 سے زیادہ علمائے نجد کا کلام تو صرف یہاں موجود ہے)
نیز ان تاریخی مثالؤں سے بالکل قطع نظر کیا گیا ہے جنمیں فتاوی سے آگے بڑھ کر باقاعدہ کفار کے مددگاروں سے جہاد کیا گیا۔ مثلا شیخ امین اللہ کے فتویٰ میں 14 مثالیں موجو دہیں جو اس فورم پر بھی شئیر کیا تھا۔
اسی طرح کچھ مثالیں 100 سے زیادہ علمائے امت کے غزہ کے حوالے سے فتوے میں بھی موجود تھیں۔
البتہ تشریع عام اور قضیہ معینہ کے مسئلے میں انہی ابن باز اور ابن عثیمین رحمھما اللہ کا کلام مصنف کے موقف کی تائید کرتا ہے تو موجود ہے تو لیکن ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی تصریح یہاں بھی نظر نہیں آتی۔

"پک ایند چوز" کے ضمن میں یہ مثال کافی واضح ہے۔
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
3)
طرز استدلال کی اوج ثریا کے طورپر یہ اقتباس پیش کیا تھا:

""سب سے زیادہ حیران کن موقف مرتد کے بارے میں اختیارکرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ”اگر یہ بات مان لی جائے کہ کفار سے محض دوستی رکھنے سے ایک مسلمان کافر ہو جاتا ہے تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کفرمیں داخل ہونے کے بعد وہ کیا چیز ہے جو انہیں اسلام میں داخل کرے گی؟ ظاہری بات ہے وہ کلمہ شہادت ہے اور اس کلمے کا ورد تو وہ بدستور کر رہے ہیں لہٰذا کفر میں داخل ہونے کے بعد اب پھر مسلمان ہو گئے ہیں۔“ (ص128)""

ایک مرتد کے حق میں یہ دلیل لانا کہ وہ کلمہ توبدستور پڑھ رہا ہے ، اور اس طرح وہ دوبارہ دائرہ اسلام میں داخل ہو جاتا ہے! اب شرعی حوالے سے اس طرز استدلال کی کیا حیثیت ہے یہ اہل علم تو ایک طرف عام آدمی بھی سمجھتا ہے کہ کفریہ شرکیہ کام سے توبہ کر کے ہی مرتد کا کلمہ معتبر ہو سکتا ہے، ورنہ تو یہ ایک مذاق ہی بن جائے گا۔ اس کو پڑھنے کے بعد انسان اس کے علاوہ اور کیا کہہ سکتا ہے کہ :

""اس ’مقام‘ پرعقل و خرد کے سارے پرندے کوچ کر جاتے ہیں اور سمجھ نہیں آتی کہ ڈاکٹر صاحب کی ڈاکٹری پہ سوال اٹھایا جائے یا مرتد کی تعریف سمجھائی جائے یا شاتم رسول بارے پوچھا جائے کہ وہ کلمہ کا ورد کرنے سے پھر مسلمان نہیں ہو جاتا!! انا للہ وانا الیہ راجعون۔""

البتہ یہ پیرا گراف صرف طرز استدلال کی حد تک عجوبہ نہیں ہے، بلکہ اس کا محرک ایک مکمل فکر اور سوچ ہے ، ارجاء کی اس فکر کا ذکر آگے چل کر الگ سے آئے گا۔ ان شاء اللہ

جاری ہے
 

باربروسا

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 15، 2011
پیغامات
311
ری ایکشن اسکور
1,078
پوائنٹ
106
4)
طرز استدلال میں اگلی چیز ارجائی فکر ہے۔

فکر ارجاء کا ملخص یہ ہے کہ ایمان و کفر اصل میں دل کے اعمال ہیں ، زیادہ سے زیادہ ان کا علم زبان سے ہو سکتا ہے۔منجملہ دیگر نتائج کے، اس فکر کی رو سے عمل ایمان سے خارج نہیں کر سکتا "لا یضر مع الایمان ذنبہ" یعنی بندے کا گناہ کرنا اس کے ایمان کا کچھ نہیں بگاڑتا، اور کافر ہونا تو ممکن ہی نہیں ہے۔
دور حاضر میں فکر ارجاء کا جدید روپ کفریہ اعمال کے ساتھ زبان سے اقرار اور دل کا حال جاننے کی سی شرائط نتھی کرتا ہے جس کا کوئی ثبوت سلف صالحین اور آج کے راسخ العقیدہ علمائے اہل سنت سے بھی نہیں ملتا۔

چنانچہ اسی فکر کا شاخسانہ ہے کہ کتاب ہذا میں حسب ضرورت تولیٰ کا معنی "قلبی دوستی" اور آیت ولایت کے مخاطب تا قیام قیامت صرف اعتقادی منافق ٹھہرا دیے جاتے ہیں۔ اب دوستی بھی دلی ہے اور نفاق بھی قلبی ہے۔۔۔۔ جس کے جاننے کا دعویٰ کوئی بھی نہیں کر سکتا، اس طرح آیت کا اطلاق عملا ناممکن ہو گیا، الا یہ کہ کوئی بے وقوف خود منہ سے اعلان فرما دے کہ میں منافقِ قلبی ہو گیا ہوں اور میری کفار سے دوستی ،دلی دوستی ہے!

اسی تناظر میں اوپر کے مراسلے میں مرتد کو بھی بطور مثال دیکھ لیا جائے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے عرض کیا گیا تھا کہ :

""دراصل ڈاکٹر صاحب کا یہ قول ان کے پورے فکر کا ملخص ہے جس کے تحت کفر اکبر صرف اعتقادی اور دلی معاملہ ہے جب تک کوئی بے وقوف بزبان خود کافر ہونے کا اعلان نہ کر دے تب تک جو جی میں آئے کرتا رہے کافر نہیں ہو سکتا۔ عمل کوئی کیسا بھی کیوں نہ ہو اسلام سے خارج نہیں کر سکتا۔""

آئندہ ان شاء اللہ اصول تحقیق کی روشنی میں کتاب کی تحقیقی حیثیت پر بات کو کھولا جائے گا۔ ان شاء اللہ
 

abumahammad

رکن
شمولیت
جون 17، 2014
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
43
ابوالحسن علوی صاحب باربروسا ہو یا عبداللہ آدم یا عاطف بیگ ان کی اصلیت بتانے کے لی الحمد للہ سکرین شاٹس موجود ہیں لیکن جب آپ کا حکم ہو ایسے نہیں ان کی مجہولیت کے ساتھ ساتھ دروغ گوئی جھوٹ منافقت واضح ہو جائے گی
 
Top