محترم اس رسالے میں پھر الزامی جواب زیادہ اور اپنا دعوہ ثابت کرنے کے لے دلائل بہت کم ہے ۔۔ اسکے علاوہ بھی بہت جگہ سنابلی صاحب نے دو چہرے دکھائیں ہیں ۔۔
اسی رسالہ ” ایام قربانی و آثار صحابہ ” میں یوں لکھتے ہے ” :
اور امام طحاوی ثقہ محدث ہیں اس لے ظاھر ہے کہ ان سے ایسا تصور نہیں کیا جا سکھتا لہذا ایک ہی بات رہ جاتی ہے کہ یہاں نسخہ میں ابتدائی سے کچھ رواۃ ساقط ہوگئے ہیں اور اس کتاب کا اصل نسخہ ہی اغلاط و تصحیفات سے پر ہے جیسا کہ محقق نے مقدمے میں صراحت کی ہے اور اس کتاب کا کوئی دوسرا نسخہ اس وقت دنیا میں موجود نہیں ہے
حوالہ : ایام قربانی وآثار صحابہ – کفایت اللہ سنابلی // صفحہ ۸
اپنی دوسری کتاب میں امام طحاوی کی ایک حدیث میں متن کا اختلاف تھا تو وہاں اسی اغلاط بھری کتاب سے استدلال کیا اس سے معتبر کتاب کے برعکس جو کافی مہشور و معتوف ہے چناچہ وہ یوں لکھتے ہے :
بعض لوگ ناقص مطالعہ کی بنیاد پر کہتے ہے کہ مؤمل سے اسی روایت کو ابوموسی کے علاوہ ابوبکرہ نے بھی نقل کیا ہے مگر انہوں نے سینے پر ہاتھ باندھنے کا ذکر نہیں کیا ہے جیسا کہ طحاوی کی روایت ہے ۔۔۔۔۔۔۔
عرض ہے کہ اس روایت سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ابوبکرہ نے سینے پر ہاتھ باندھنے کا تذکرہ نہیں کیا کیونکہ ابوبکرہ ہی سے یہی روایت امام طحاوی ہی نے دوسری کتاب [ احکام القرآن ] میں نقل کی اور اس میں ابوبکرہ نے مؤمل سے سینے پر ہاتھ باندھنے کا تذکرہ کیا ہے ۔۔۔۔۔
حوالہ : انوار البدر فی وضع الیدین علٰی الصدر – کفایت اللہ سنابلی // صفحہ ۱۶۶ // طبع ممبئ
Sent from my iPhone using Tapatalk